ضمیمہ 3: انسان صرف خدا کے انتظام ہی سے بچایا جا سکتا ہے

ہر شخص کی نظر میں خدا کا انتظام ایک بہت ہی اجنبی چیز ہے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا انتظام ان سے بالکل دور کر دیا گیا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ خدا کا انتظام صرف اس کا ہی کام ہے اور اس کا تعلق صرف اسی سے ہے – اور اس لیے بنی نوع انسان اس کے انتظام سے لاتعلق ہے۔ اس طرح بنی نوع انسان کی نجات مبہم اور غیر واضح ہو گئی ہے اور اب یہ کھوکھلی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگرچہ انسان نجات حاصل کرنے اور شاندار منزل میں داخل ہونے کی خاطر خُدا کی پیروی کرتا ہے، لیکن اُسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ خُدا اپنے کام کو کس انداز میں انجام دیتا ہے۔ انسان اس بات کی پرواہ نہیں کرتا ہے کہ خدا نے کیا منصوبہ بنایا ہے، اور نہ ہی اس کردار کی پروا کرتا ہے جو اسے بچائے جانے کے لیے لازمی طور پرادا کرنا ہے۔ یہ بہت افسوسناک ہے۔ انسان کی نجات کو خدا کے انتظام سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کے منصوبے سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی انسان خدا کے انتظام کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا، اور اس طرح ہمیشہ اس سے مزید دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جو نجات کے سوال سے متعلق مسائل سے مکمل طور پر بے خبر ہے – جیسے کہ مخلوق کیا ہے، خدا پر ایمان کیا ہے، خدا کی عبادت کیسے کی جائے وغیرہ – اس کے پیروکاروں کی صف میں شامل ہوئی ہے۔ لہٰذا، ہمیں اب لازمی طور پر خدا کے انتظام پر بحث کرنی چاہیے تاکہ اس کے پیروکاروں میں سے ہر ایک یہ واضح طور پر سمجھ لے کہ اس کی پیروی کرنے اور اس پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے۔ ایسا کرنے سے ہر فرد کو خدا کی پیروی کر کے صرف برکتیں حاصل کرنے، یا آفات سے بچنے، یا دوسروں کے درمیان کھڑا ہونے کی بجائے اس راستے کو زیادہ درست طریقے سے منتخب کرنے میں مدد ملے گی جس پر اسے چلنا چاہیے۔

اگرچہ خدا کا انتظام بہت گہرا ہے، لیکن یہ انسان کی سمجھ سے باہر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا تمام کام اس کے انتظام اور بنی نوع انسان کو بچانے کے اس کے کام سے مربوط ہے، اور اس کا تعلق بنی نوع انسان کی زندگی، طرزِ زندگی اور منزل سے ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا جو کام انسانوں کے درمیان اور انسانوں پر کرتا ہے، وہ بہت ہی عملی اور بامعنی ہے۔ انسان اسے دیکھ سکتا ہے اور اس کا عملی تجربہ کر سکتا ہے، اور یہ کوئی تجریدی چیز ہونے سے بہت دور ہے۔ اگر انسان خدا کے کیے گئے تمام کاموں کو قبول کرنے سے ہی قاصر ہو تو پھر اس کے کام کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ اور ایسا انتظام انسان کو نجات کی طرف کیسے لے کر جا سکتا ہے؟ خدا کی پیروی کرنے والے بہت سے لوگوں کی دلچسپی صرف اس چیز سے ہوتی ہے کہ برکتیں کیسے حاصل کی جائیں یا تباہی کو کیسے ٹالا جائے۔ جیسے ہی خدا کے کام اور انتظام کا ذکر ہوتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں اور تمام دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس طرح کے بیزار کن مسائل کی سمجھ بوجھ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد نہیں دے گی اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچائے گی۔ اس کے نتیجے کے طور پر، اگرچہ انہوں نے خدا کے انتظام کے بارے میں سن رکھا ہے، لیکن وہ اس پر کم توجہ دیتے ہیں۔ وہ اسے قبول کرنے کے قابل کوئی قیمتی چیز نہیں سمجھتے، اور ان کا اسے اپنی زندگی کے حصے کے طور پر وصول کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ ایسے لوگوں کا خدا کی پیروی کا صرف ایک ہی آسان مقصد ہوتا ہے اور وہ مقصد برکتیں حاصل کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو کسی اور ایسی چیز پر توجہ دینے کی زحمت نہیں دی جا سکتی جس میں یہ مقصد براہ راست شامل نہ ہو۔ اُن کے نزدیک، خُدا پر ایمان رکھنے کا سب سے زیادہ جائز مقصد یہ ہے کہ برکات حاصل کی جائیں – اُن کے ایمان کی یہی قیمت ہے۔ اگر کوئی چیز اس مقصد میں حصہ نہیں ڈالتی ہے تو وہ اس سے بالکل متاثر نہیں ہوتے ہیں۔ آج خدا پر ایمان رکھنے والوں میں سے اکثر کا یہی معاملہ ہے۔ ان کا مقصد اور ارادہ جائز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے وہ خدا کے لیے خرچ بھی کرتے ہیں، خود کو خدا کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ وہ اپنی جوانی چھوڑ دیتے ہیں، خاندان اور پیشے کو چھوڑ دیتے ہیں، اور یہاں تک کہ گھر سے دور اپنے آپ کو سالوں مصروف رکھتے ہیں۔ اپنے حتمی مقصد کی خاطر، وہ اپنے مفادات، زندگی کے بارے میں اپنے نقطہ نظر، اور یہاں تک کہ وہ سمت بھی بدل لیتے ہیں جس کی وہ تلاش کرتے ہیں؛ اس کے باوجود وہ خدا پر اپنے ایمان کے مقصد کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے بہترین تصورات کے مطابق مثالی انتظام کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں؛ چاہے سڑک کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، اور چاہے راستے میں کتنی ہی مشکلات اور رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، وہ ثابت قدم رہتے ہیں اور موت سے نہیں ڈرتے۔ کون سی طاقت انھیں اس طرح خود کو وقف رہنے پر مجبور کرتی ہے؟ کیا یہ ان کا ضمیر ہے؟ کیا یہ ان کا عظیم اور عالی نسب کردار ہے؟ کیا یہ ان کا بدی کی قوتوں سے آخری دم تک لڑنے کا عزم ہے؟ کیا یہ ان کا ایمان ہے کہ انعام کی طلب کے بغیر خدا کی گواہی دیتے ہیں؟ کیا یہ ان کی وفاداری ہے کہ وہ خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ خوشی سے ترک کر دیتے ہیں؟ یا یہ ان کی عقیدت کا جذبہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے بہت زیادہ ذاتی تقاضوں کو ترک کر دیتے ہیں؟ کسی ایسے شخص کے لیے جس نے خدا کے انتظام کے کام کو کبھی بھی نہیں سمجھا ہے، پھر بھی اتنا کچھ دینا، بالکل آسان الفاظ میں، ایک معجزہ ہے! فی الحال ہم اس بات پر بحث نہیں کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے کتنا کچھ دیا ہے۔ تاہم، ان کا طرزِسلوک ہمارے تجزیے کا بہت زیادہ مستحق ہے۔ ان فوائد کے علاوہ جن کا ان سے بہت قریبی تعلق ہے، کیا کوئی اور وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ جو خدا کو کبھی نہیں سمجھتے ہیں وہ بھی اس کے لیے اتنا کچھ کیوں دے دیتے ہیں؟ اس بارے میں، ہم ایک مسئلہ دریافت کرتے ہیں جس کی پہلے شناخت نہیں ہوئی تھی: انسان کا خدا کے ساتھ تعلق محض ایک کُھلی خود غرضی ہے۔ یہ برکات وصول کرنے والے اور عطا کرنے والے کے درمیان ایک تعلق ہے۔ صاف لفظوں میں، یہ ملازم اور مالک کے درمیان تعلق کے مترادف ہے۔ ملازم صرف مالک کی طرف سے عطا کردہ انعامات حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ ایسے رشتے میں پیار نہیں ہوتا، صرف لین دین ہوتا ہے۔ کوئی حبیب یا محبوب نہیں ہے، صرف خیرات اور رحم ہے۔ کوئی ہم آہنگی نہیں ہے، صرف روکا ہوا غصہ اور دھوکا ہے۔ کوئی گہرا تعلق نہیں ہے، صرف ایک ناقابل عبور کھائی ہے۔ اب جب کہ معاملات اس مقام تک پہنچ چکے ہوں تو کون ایسے راستے کو پلٹ سکتا ہے؟ اور کتنے لوگ ہیں جو صحیح معنوں میں یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ رشتہ کتنا المناک ہو چکا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ جب لوگ برکت یافتہ ہونے کی خوشی میں خود کو سرشار کر لیتے ہیں تو کوئی بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ خدا کے ساتھ ایسا رشتہ کتنا شرمناک اور بدصورت ہے۔

خدا پر انسان کے ایمان کے بارے میں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ انسان خدا کے کام کے درمیان اپنا انتظام خود کرتا ہے اور اس طرح خدا کے انتظام پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ناکامی اس میں ہے کہ کس طرح خدا کی اطاعت کرنے اور اس کی عبادت کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ انسان اپنی مثالی منزل خود بنا رہا ہے اور یہ تدبیر کر رہا ہے کہ کس طرح سب سے عظیم برکت اور بہترین منزل حاصل کی جائے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کتنا حقیر، قابل نفرت اور قابل رحم ہے تو پھر بھی کتنے لوگ اپنے نظریات اور امیدوں کو فوراً چھوڑ سکتے ہیں؟ اور کون اپنے قدموں کو روک سکتا ہے اور صرف اپنے بارے میں سوچنا ختم کر سکتا ہے؟ خدا کو ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اس کے انتظام کو مکمل کرنے کے لیے اس کے ساتھ قریبی تعاون کریں۔ اسے ان لوگوں کی ضرورت ہے جو اپنے پورے تن من کو اس کے انتظام کے کام کے لیے وقف کر کے اس کے تابع ہو جائیں۔ اسے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو ہر روز اس سے بھیک مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں، ان لوگوں کی تو بالکل ضرورت نہیں ہے جو تھوڑا سا دیتے ہیں اور پھر انعام کا انتظار کرتے ہیں۔ خدا ان لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو حقیر سا حصہ ڈالتے ہیں اور پھر اپنے اس کارنامے پر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ان سفاک لوگوں سے نفرت کرتا ہے جو اس کے انتظام کے کام سے ناراض ہیں اور صرف آسمان میں جانے اور برکتیں حاصل کرنے کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں۔ اسے ان لوگوں سے اور بھی زیادہ نفرت ہے جو اس کے بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے کیے گئے کام کے ذریعے ملنے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی ہے کہ خدا اپنے انتظام کے کام سے کیا پانا اور حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انہیں صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ کس طرح خدا کے کام کے ذریعے ملنے والے موقعے کو برکت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ مکمل طور پر اپنے امکانات اور قسمت کے متعلق سوچتے ہوئے خدا کی مرضی کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے انتظام کے کام سے ناراض ہیں اور اس میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں کہ خدا بنی نوع انسان کو کس طرح بچاتا ہے اور اس کی مرضی کیا ہے، وہ صرف وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہتا ہے اور اس انداز میں کرتے ہیں جس کا خدا کے انتظام کے کام سے تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ان کے طرز عمل کو خدا نہ تو یاد رکھتا ہے اور نہ ہی اس کی تائید کرتا ہے – خدا کا اس کی حوصلہ افزائی کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔

کائنات اور آسمان کی وسعت میں، لاتعداد مخلوقات رہتی ہیں اور اپنی نسل جنم دیتی ہیں، زندگی کے گردشی قانون کی پیروی کرتی ہیں، اور ایک مستقل اصول پر عمل کرتی ہیں۔ وہ جو مر جاتے ہیں اپنے ساتھ زندوں کی کہانیاں لے جاتے ہیں اور وہ جو زندہ ہیں وہ مر جانے والوں کی اسی المناک تاریخ کو دہراتے ہیں۔ اور اس طرح، بنی نوع انسان خود سے پوچھے بغیر نہیں رہ سکتا: ہم کیوں جیتے ہیں؟ اور ہمیں کیوں مرنا ہے؟ اس دنیا کو کون حکم دیتا ہے؟ اور کس نے اس نوع انسانی کو تخلیق کیا ہے؟ کیا انسان کو واقعی مادر فطرت نے تخلیق کیا تھا؟ کیا نوع انسانی واقعی اپنی قسمت کے قابو میں ہے؟ ۔۔۔ یہ وہ سوالات ہیں جو بنی نوع انسان نے ہزاروں سالوں سے مسلسل پوچھے ہیں۔ بدقسمتی سے، انسان نے جتنا زیادہ ان سوالات کے متعلق سوچا ہے، سائنس کے لیے اس کی پیاس اتنی ہی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سائنس مختصر تسکین اور جسم کا عارضی لطف پیش کرتی ہے، لیکن انسان کو تنہائی، اکیلے پن، اور اس کی روح کی گہرائی میں بمشکل چھپی ہوئی دہشت اور بے بسی سے آزاد کروانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ بنی نوع انسان سائنسی علم کو جسے وہ اپنی ننگی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور اپنے دماغ سے سمجھ سکتا ہے، محض اپنے دل کو بے حس بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس طرح کا سائنسی علم بنی نوع انسان کو اسرار دریافت کرنے سے روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ بنی نوع انسان سرے سے یہ جانتا ہی نہیں ہے کہ کائنات اور تمام چیزوں کا حاکم کون ہے، نوع انسانی کی ابتدا اور مستقبل کو جاننا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ بنی نوع انسان محض ناگزیر طور پر اس قانون کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے۔ نہ کوئی اس سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے تبدیل سکتا ہے، کیونکہ سب چیزوں میں اور آسمانوں میں ہمیشہ سے ہمیشہ تک ایک ہی ہے جو ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے۔ وہی ایک ہے جسے انسان نے کبھی نہیں دیکھا، وہ ایک جسے انسان نے کبھی نہیں جانا، جس کے وجود پر بنی نوع انسان نے کبھی یقین نہیں کیا – پھر بھی وہی ایک ہے جس نے بنی نوع انسان کے آباؤ اجداد میں سانسیں پھونک کر بنی نوع انسان کو زندگی بخشی۔ وہی ایک ہے جو نوع انسانی کو سامان مہیا کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے، اسے موجود رہنے دیتا ہے۔ اور وہی ایک ہے جس نے آج تک نوع انسانی کی راہنمائی کی ہے۔ مزید برآں، وہ اور اکیلا وہ ہی ہے جس پر نوعِ انسانی بقا کے لیے انحصار کرتی ہے۔ وہ تمام چیزوں پر حاکمیت رکھتا ہے اور کائنات کے تمام جانداروں پر حکمرانی کرتا ہے۔ وہ چاروں موسموں کو حکم دیتا ہے، اور یہ وہی ہے جو ہوا، پالا، برف اور بارش کو لاتا ہے۔ وہ بنی نوع انسان پر سورج کی روشنی لاتا ہے اور رات کا آغاز کرتا ہے۔ یہ وہی تھا جس نے آسمانوں اور زمین کو بچھایا، انسان کو پہاڑ، جھیلیں، ندیاں اور ان کے اندر تمام جاندار چیزیں مہیا کیں۔ اس کے اعمال ہمہ گیر ہیں، اس کی طاقت ہمہ گیر ہے، اس کی حکمت ہمہ گیر ہے، اور اس کا اختیار ہمہ گیر ہے۔ ان قوانین اور اصولوں میں سے ہر ایک اس کے اعمال کا مجسم ہے، اور ہر ایک اس کی حکمت اور اختیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی حاکمیت سے کون خود کو مستثنیٰ کر سکتا ہے؟ اور کون اس کے منصوبوں سے خود کو نکال سکتا ہے؟ تمام چیزیں اس کی نظروں کے نیچے موجود ہوتی ہیں، اور اس کے علاوہ، تمام چیزیں اس کی حاکمیت کے تحت رہتی ہیں۔ اس کے اعمال اور اس کی طاقت بنی نوع انسان کے پاس اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی انتخاب نہیں چھوڑتی کہ وہ واقعی موجود ہے اور ہر چیز پر حاکمیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی چیز کائنات کو حکم نہیں دے سکتی، اس بنی نوع انسان کو سامان کی مستقل فراہمی تو اور بھی دور کی بات ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تو خدا کے اعمال کو پہچاننے کے قابل ہے یا نہیں، اور اس بات سے قطع نظر کہ تو خدا کے وجود پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تیری تقدیر کا فیصلہ خدا ہی کرتا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے خدا سب چیزوں پر اپنی حاکمیت ہمیشہ برقرار رکھے گا۔ اس کے وجود اور اختیار کا دارومدار اس بات پر نہیں ہے کہ آیا انسان ان کو پہچانتا اور سمجھتا ہے یا نہیں۔ صرف وہی انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے، اور صرف وہی بنی نوع انسان کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تو اس حقیقت کو قبول کرنے کے قابل ہے یا نہیں، اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ بنی نوع انسان اس سب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا، اور یہ وہ حقیقت ہے جس پر خدا جلد ہی عمل کرے گا۔ نوعِ انسانی خدا کی نظروں کے نیچے جیتی اور مرتی ہے۔ انسان خدا کے انتظام کی خاطر جیتا ہے اور جب اس کی آنکھیں آخری مرتبہ کے لیے بند ہوتی ہیں تو وہ بھی خدا کے اسی انتظام کی خاطر بند ہوتی ہیں۔ انسان بار بار آگے پیچھے آتا اور جاتا ہے۔ بغیر کسی استثنا کے، یہ سب خدا کی حاکمیت اور اس کے منصوبے کا حصہ ہے۔ خدا کا انتظام کبھی ختم نہیں ہوا ہے؛ یہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ بنی نوع انسان کو اپنے وجود سے باخبر کرے گا، اپنی حاکمیت پر بھروسہ کروائے گا، اس کے اعمال کو دیکھے گا، اور اپنی بادشاہی میں واپس آ جائے گا۔ یہ اس کا منصوبہ ہے اور یہ وہ کام ہے جس کا انتظام وہ ہزاروں سالوں سے کر رہا ہے۔

خدا کے انتظام کا کام دنیا کی تخلیق سے شروع ہوا، اور انسان اس کام کا مرکز ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی تمام چیزوں کی تخلیق انسان کی خاطر ہے۔ چونکہ اس کے انتظام کا کام ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور یہ محض منٹوں یا سیکنڈوں کے دوران یا پلک جھپکنے میں یا ایک یا دو سال میں نہیں کیا جاتا ہے، اس لیے اسے بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ضروری چیزیں بنانا تھیں جیسے کہ سورج، چاند، ہر قسم کے جاندار، خوراک، اور ایک مہمان نواز ماحول۔ یہ خدا کے انتظام کا آغاز تھا۔

اس کے بعد، خدا نے بنی نوع انسان کو شیطان کے حوالے کر دیا، اور انسان شیطان کے زیر تسلط رہنے لگا، جو آہستہ آہستہ خدا کے پہلے دور کے کام کی طرف بڑھا: شریعت کے دور کی کہانی۔۔۔۔ شریعت کے دور کے کئی ہزار سالوں کے دوران، نوعِ انسانی شریعت کے دور کی راہنمائی کی عادی ہو گئی اور اسے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ انسان رفتہ رفتہ خدا کی دیکھ بھال سے نکل گیا۔ اور اس طرح شریعت کی پیروی کرتے ہوئے وہ بتوں کی پوجا بھی کرتا تھا اور برے کام بھی کرتا تھا۔ وہ یہوواہ کی حفاظت کے بغیر تھا، اور صرف ہیکل میں قربان گاہ کے سامنے اپنی زندگی بسر کرتا تھا۔ درحقیقت، خُدا کا کام تو بہت پہلے ہی اُسے چھوڑ چکا تھا، اور اگرچہ بنی اسرائیل اب بھی شریعت پر قائم رہے، اور یہوواہ کا نام لیتے رہے، اور وہ فخر سے یہ تک یقین رکھتے تھے کہ صرف وہی یہوواہ کے لوگ ہیں اور یہوواہ کے منتخب کردہ ہیں۔ خدا کے جاہ و جلال نے خاموشی سے انہیں چھوڑ دیا ۔۔۔

جب خدا اپنا کام کرتا ہے تو وہ ہمیشہ خاموشی سے ایک جگہ چھوڑ دیتا ہے اور نرمی سے اس نئے کام کو انجام دیتا ہے جو وہ دوسری جگہ شروع کرتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو ناقابل یقین لگتا ہے جو بے حس ہیں۔ لوگوں نے ہمیشہ پرانی چیزوں کو بہت قیمتی سمجھا ہے اور نئی، اجنبی چیزوں کو دشمنی کی نظر سے دیکھا ہے یا انہیں پریشانی سمجھا ہے۔ اور اس طرح، خدا جو بھی نیا کام کرتا ہے، شروع سے لے کر بالکل آخر تک، سب چیزوں میں انسان ہی کو اس کے بارے میں سب سے آخر میں علم ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے، شریعت کے دور میں یہوواہ کے کام کے بعد، خُدا نے دوسرے مرحلے کے اپنے نئے کام کا آغاز کیا: جسم کی شکل اختیار کرنا – دس، بیس سال تک انسان کے طور پر مجسم ہونا – اور ایمان رکھنے والوں کے درمیان بولنا اور اپنا کام کرنا۔ پھر بھی بغیر کسی استثنا کے، کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا، اور صرف بہت کم لوگوں نے یہ تسلیم کیا کہ خُداوند یسوع کے صلیب پر میخوں سے جڑے جانے اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد یہ وہ خدا ہے جو جسم بن گیا ہے۔ مشکل یہ ہوئی کہ، پولس نامی ایک شخص نمودار ہوا، جس نے خود کو خُدا کا شدید دشمن بنا لیا۔ یہاں تک کہ جب وہ گرایا گیا اور ایک رسول بن گیا تو پھر بھی پولس نے اپنی پرانی فطرت کو تبدیل نہیں کیا، اور وہ خدا کی مخالفت کی راہ پر ہی چلتا رہا۔ اپنے کام کے دوران، پولس نے بہت سے خطوط لکھے؛ بدقسمتی سے، بعد کی نسلوں نے اس کے خطوط سے خدا کے کلام کا لطف اٹھایا، اور یہاں تک کہ ان کو عہدنامہ جدید میں شامل کر دیا اور وہ خدا کے کہے گئے کلام کے ساتھ الجھا دیے گئے۔ مقدس صحیفے کی آمد کے بعد سے یہ ایک سراسر توہین رہی ہے! اور کیا یہ غلطی انسان کی انتہائی حماقت کی وجہ سے نہیں ہوئی؟ انھیں اس کا علم ہی نہیں تھا کہ فضل کے دور میں خدا کے کام کے اندراج میں، خدا کے کام اور کلام کی طرح نظر آنے والے خطوط یا انسان کی روحانی تحریریں سرے سے ہونی ہی نہیں چاہیے تھیں۔ لیکن یہ غیر متعلقہ ہے، تو آؤ اپنے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ جیسے ہی خُدا کے کام کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا – تصلیب کے بعد – خُدا کا انسان کو گناہ سے چھڑانے کا کام (جس کا مطلب ہے کہ انسان کو شیطان کے ہاتھوں سے چھڑانا) مکمل ہو گیا۔ اور اس طرح، اس لمحے کے بعد سے، بنی نوع انسان کو خُداوند یسوع کو ہی نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنا تھا، اور اُس کے گناہ معاف کر دیے جانے تھے۔ مفروضے کے طور پر بات کرتے ہوئے، انسان کے گناہ اب اس کی نجات کے حصول اور خُدا کے سامنے آنے میں رکاوٹ نہیں رہے تھے، اور اب مزید ان کا فائدہ اٹھا کر شیطان انسان پر الزام نہیں لگا سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خُدا نے خود حقیقی کام کیا تھا، وہ گناہ آلود جسم کی مشابہت اور پیشگی توقع بن گیا تھا، اور خُدا خود گناہ کا کفارہ تھا۔ اس طرح، انسان صلیب سے اُترا، اور خُدا کے جسم کے وسیلے سے – اس گناہ آلود جسم کی مشابہت والے جسم کے وسیلے سے، خلاصی ہوئی اور بچا لیا گیا۔ اور اس طرح، شیطان کا اسیر بن جانے کے بعد، انسان اپنی نجات کو قبول کرنے کے لیے خُدا کے سامنے ایک قدم آگے آیا۔ بلاشبہ، کام کا یہ مرحلہ شریعت کے دور میں خدا کے انتظام سے زیادہ گہرا اور زیادہ ترقی یافتہ تھا۔

خدا کا انتظام ایسا ہے: نوعِ انسانی کو شیطان کے حوالے کرنا – ایک ایسی نوع انسانی جو یہ نہیں جانتی کہ خدا کیا ہے، خالق کیا ہے، خدا کی عبادت کیسے کرنی ہے، یا خدا کے تابع ہونا کیوں ضروری ہے – اور شیطان کو خود نوع انسانی کو بدعنوان بنانے دیتی ہے۔ مرحلہ وار، خدا پھر انسان کو شیطان کے ہاتھوں سے چھڑاتا ہے، یہاں تک کہ انسان مکمل طور پر خدا کی عبادت کرتا ہے اور شیطان کو مسترد کر دیتا ہے۔ یہ خدا کا انتظام ہے۔ یہ ایک افسانوی کہانی لگ سکتی ہے، اور یہ پیچیدہ معلوم ہوسکتی ہے۔ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے کیونکہ انہیں اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے کہ پچھلے کئی ہزار سالوں میں انسان کے ساتھ کتنا کچھ ہو چکا ہے، ان کو یہ علم ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ کائنات اور آسمان میں کتنی کہانیاں رونما ہو چکی ہیں۔ اور اس کے علاوہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ حیران کن، زیادہ خوف پیدا کرنے والی دنیا کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جو کہ مادی دنیا سے باہر موجود ہے لیکن جسے ان کی فانی آنکھیں نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ یہ انسان کو ناقابل فہم محسوس ہوتا ہے کیونکہ انسان کو بنی نوع انسان کے لیے خدا کی نجات کی اہمیت یا اس کے انتظام کے کام کی اہمیت کا کوئی ادراک ہی نہیں ہے، اور وہ یہ نہیں سمجھتا ہے کہ آخر خدا بنی نوع انسان کو کیسا ہونا دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا یہ شیطان کی طرف سے بالکل بدعنوان نہ ہونا ہے، جیسا کہ آدم اور حوا تھے؟ نہیں! خدا کے انتظام کا مقصد لوگوں کے ایک گروہ کو حاصل کرنا ہے جو خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، لیکن وہ اب شیطان کو اپنے باپ کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں؛ وہ شیطان کے مکروہ چہرے کو پہچانتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں، اور وہ خدا کے فیصلے اور سزا کو قبول کرنے کے لیے خدا کے سامنے آتے ہیں۔ وہ یہ جان لیتے ہیں کہ کیا بدصورت ہے اور یہ مقدس سے کیسے متصادم ہے، اور وہ خدا کی عظمت اور شیطان کی برائی کو پہچانتے ہیں۔ اس طرح کی نوعِ انسانی اب شیطان کے لیے مزید کام نہیں کرے گی، یا شیطان کی پرستش نہیں کرے گی، یا شیطان کی تقدیس نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہیں جنھیں خدا نے واقعی حاصل کر لیا ہے۔ یہ خدا کے بنی نوع انسان کے انتظام کے کام کی اہمیت ہے۔ خدا کے اس وقت کے انتظام کے کام کے دوران، بنی نوع انسان شیطان کی بدعنوانی اور خدا کی نجات دونوں کا مقصد ہے، اور انسان وہ پیداوار ہے جس کے لیے خدا اور شیطان لڑ رہے ہیں۔ خدا اپنا کام کرتے ہوئے انسان کو آہستہ آہستہ شیطان کے ہاتھوں سے چھڑا رہا ہے، اور اسی طرح انسان خدا کے زیادہ قریب آتا جاتا ہے ۔۔۔

اور پھر بادشاہی کا دور آ گیا، جو کام کا زیادہ عملی مرحلہ ہے، اور پھر بھی جسے قبول کرنا انسان کے لیے سب سے مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جتنا زیادہ خدا کے قریب آتا ہے، خدا کی لاٹھی بھی انسان کے اتنا ہی قریب آتی ہے، اور خدا کا چہرہ اتنا ہی زیادہ واضح طور پر انسان پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ بنی نوع انسان کی خلاصی کے بعد، انسان باضابطہ طور پر خدا کے خاندان میں واپس آ جاتا ہے۔ انسان نے سوچا کہ اب لطف اندوز ہونے کا وقت ہے، پھر بھی اس پر خدا کی طرف سے سامنے سے ایک ایسا بھرپور حملہ کیا گیا ہے جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا: جیسا کہ معلوم ہوتا ہے، یہ ایک بپتسمہ ہے جس سے خدا کے لوگوں نے "لطف اندوز" ہونا ہے۔ اس طرح کے سلوک کے تحت لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ رکیں اور خود سے سوچیں، "میں کئی سالوں سے کھویا ہوا برّہ ہوں جسے خدا نے واپس خریدنے کے لیے اتنا خرچ کیا ہے، تو پھر خدا میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ خدا کا مجھ پر ہنسنے اور مجھے بے نقاب کرنے کا طریقہ ہے؟ ۔۔۔" برسوں گزر جانے کے بعد، انسان تزکیے اور سزا کی سختیوں کا سامنا کر کے موسم گزیدہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ انسان گزشتہ زمانے کے "جاہ و جلال" اور "رومانویت" کو کھو چکا ہے، لیکن انجانے میں، وہ انسانی طرز عمل کے اصولوں کو سمجھ گیا ہے، اور اس نے بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے خُدا کی برسوں کی لگن اور کوشش کی قدر کرنا شروع کر دی ہے۔ انسان آہستہ آہستہ اپنی بربریت سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس بات سے کہ وہ کتنا وحشی ہے، خُدا کے متعلق اپنی سب غلط فہمیوں سے، اور اُس سے کیے گئے غیر معقول مطالبات سے، وہ نفرت کرنے لگتا ہے۔ گزرا وقت واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ماضی کے واقعات انسان کی افسوسناک یادیں بن جاتے ہیں، اور خدا کا کلام اور محبت انسان کی نئی زندگی کا محرک بن جاتے ہیں۔ انسان کے زخم دن بدن بھرتے جاتے ہیں، اس کی طاقت واپس آتی ہے، اور وہ کھڑا ہوتا ہے اور قادرِ مطلق کے چہرے کو دیکھتا ہے ۔۔۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہا ہے، اور یہ کہ اس کی مسکراہٹ اور اس کا خوبصورت چہرہ اب بھی دل میں بہت ہلچل مچا رہا ہے۔ اس کے دل میں اب بھی اپنی تخلیق کردہ نوعِ انسانی کی فکر ہے، اور اس کے ہاتھ اب بھی اتنے ہی گرم اور طاقتور ہیں جتنے کہ وہ آغاز میں تھے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان باغِ عدن میں واپس آیا ہے، لیکن اس مرتبہ انسان سانپ کی ترغیب پر مزید کان نہیں دھرتا اور یہوواہ کے چہرے سے مزید منہ نہیں موڑتا ہے۔ انسان خدا کے سامنے گھٹنے ٹیکتا ہے، خدا کے مسکراتے ہوئے چہرے کی طرف اوپر دیکھتا ہے، اور اپنی سب سے قیمتی قربانی پیش کرتا ہے – اوہ! میرے خداوند، میرے خدا!

خُدا کی محبت اور شفقت اُس کے انتظام کے کام کی ہر ایک تفصیل پر چھائی ہوئی ہے، اور اس بات سے قطع نظر کہ لوگ خُدا کے نیک ارادوں کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں، وہ اب بھی تھکے بغیر اُس کام کو انجام دے رہا ہے جو اُس نے پورا کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس سے قطع نظر کہ لوگ خدا کے انتظام کے بارے میں کتنا سمجھتے ہیں، انسان کو جو مدد اور فوائد خدا کے کام کی وجہ سے پہنچے ہیں ان کی ہر کوئی تعریف کر سکتا ہے۔ شاید، آج، تو نے خدا کی طرف سے فراہم کردہ محبت یا زندگی میں سے کوئی چیز محسوس نہیں کی ہے، لیکن جب تک تو خدا کو نہیں چھوڑے گا اور سچائی کی جستجو کرنے کے اپنے عزم سے دستبردار نہیں ہو گا، تب تک وہ دن نہیں آئے گا کہ خدا کی مسکراہٹ تجھ پر ظاہر ہو۔ کیونکہ خدا کے انتظام کے کام کا مقصد ان لوگوں کو چھڑانا ہے جو شیطان کے زیر تسلط ہیں، نہ کہ ان لوگوں کو ترک کرنا جنہھں شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے اور جنھوں نے خدا کی مخالفت کی ہے۔

23 ستمبر 2005

سابقہ:  ضمیمہ 2: خدا تمام نوع انسانی کی تقدیر پر اختیار رکھتا ہے

اگلا: ضمیمہ 4: خدا کے ظہور کو اس کی عدالت و سزا میں دیکھنا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp