تیرہ خطوط کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟
انجیل کا نیا عہد نامہ پولس کے تیرہ خطوط پر مشتمل ہے۔ پولس نے اپنے کام کے وقت کے دوران یہ تیرہ خطوط ان کلیسیاؤں کو لکھے جو یسوع مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ یعنی یسوع کے آسمان پر جانے کے بعد پولس کو اٹھایا گیا اور اس نے یہ خطوط لکھے۔ اُس کے خطوط خُداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے اور اُس کی موت کے بعد آسمان پر جانے کی گواہی دیتے ہیں، اور وہ توبہ اور مسیحیت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے طریقے کو بھی پھیلاتے ہیں۔ یقیناً، ان تمام پیغامات اور گواہیوں کا مقصد اُس وقت یہودیہ کے مختلف مقامات پر بھائیوں اور بہنوں کو تعلیم دینا تھا، کیونکہ اُس وقت پولس خُداوند یسوع کا خادم تھا، اور وہ خُداوند یسوع کی گواہی دینے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ روح القدس کے کام کے ہر دور میں، مختلف لوگوں کو اس کے مختلف کاموں کو انجام دینے کے لیے اٹھایا جاتا ہے، یعنی رسولوں کا کام کرنے کے لیے تاکہ اس کام کو جاری رکھا جائے جسے خدا خود مکمل کرتا ہے۔ اگر روح القدس یہ براہ راست کرتی، اور کوئی لوگ نہیں اٹھائے جاتے، تو اس کام کو انجام دینا بہت مشکل ہوتا۔ اس طرح، پولس وہ بن گیا جسے دمشق کے راستے میں گرایا گیا تھا، اور جسے پھر خداوند یسوع کا گواہ بننے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ وہ یسوع کے بارہ شاگردوں کے علاوہ ایک رسول بھی تھا۔ انجیل کی خوشخبری کو پھیلانے کے علاوہ، اس نے مختلف مقامات پر کلیسیاؤں کے لیے گلہ بانی کا کام بھی انجام دیا، جس میں کلیسیاؤں کے بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال کرنا شامل تھا – دوسرے لفظوں میں، اس نے خُداوند پر ایمان رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی کی۔ پولس کی گواہی خداوند یسوع کے دوبارہ زندہ ہونے اور آسمان پر جانے کی حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو توبہ کرنے، اقرار کرنے اور مذہب کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کی تعلیم دینا تھی۔ وہ اُس وقت کے یسوع مسیح کے چشم دید گواہوں میں سے ایک تھا۔
پولس کے تیرہ خطوط کو انجیل میں استعمال کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اس نے یہ تمام تیرہ خطوط مختلف جگہوں پر لوگوں کی مختلف حالتوں کے متعلق لکھے۔ اسے روح القدس نے ان خطوط کو لکھنے کی تحریک دی، اور اس نے ہر جگہ بھائیوں اور بہنوں کو ایک رسول کی حیثیت سے (خداوند یسوع کے خادم کے نقطہ نظر سے) تعلیم دی۔ اس طرح، پولس کے خطوط کا منبع پیشین گوئیاں یا براہ راست رویا نہیں تھے، بلکہ اس کام کی وجہ سے آئے تھے جس کا ذمہ اس نے لیا تھا۔ یہ خطوط عجیب نہیں ہیں، اور نہ ہی ان کا سمجھنا پیشین گوئیوں کو سمجھنے جتنا مشکل ہے۔ وہ محض خطوط کے طور پر لکھے گئے ہیں، اور ان میں نہ تو پیشین گوئیاں ہیں اور نہ ہی اسرار؛ ان میں صرف عام ہدایات دینے والے الفاظ ہیں۔ اگرچہ ان کے بہت سے الفاظ کی فہم حاصل کرنا یا سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے، مگر وہ محض پولس کی اپنی تشریحات اور روح القدس کی دی گئی بصیرت سے پیدا ہوئے۔ پولس صرف ایک رسول تھا؛ وہ ایک خادم تھا جسے خداوند یسوع نے استعمال کیا تھا، نبی نہیں تھا۔ مختلف ممالک سے گزرتے ہوئے، اس نے کلیسیاؤں کے بھائیوں اور بہنوں کو خطوط لکھے، یا جب وہ بیمار تھا تو اس نے ان کلیسیاؤں کو خطوط لکھے جو خاص طور پر اس کے ذہن میں تھے لیکن جہاں وہ نہیں جا سکا تھا۔ حالات کے مطابق، لوگوں نے اس کے خطوط سنبھال کر رکھے اور بعد میں آنے والی نسلوں نے جمع کیے، منظم کیے، ترتیب دیے اور انجیل میں چار خوشخبریوں کے بعد شامل کر دیے۔ بلاشبہ، انھوں نے اس کے لکھے ہوئے تمام بہترین خطوط کو منتخب کیا اور ان کا مجموعہ بنا لیا۔ یہ خطوط کلیسیاؤں کے بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کے لیے فائدہ مند تھے، اور اس کے زمانے میں خاص طور پر مشہور تھے۔ جس وقت پولس نے انھیں لکھا تھا، تو اس کا مقصد کوئی ایسا روحانی کام لکھنا نہیں تھا جو اس کے بھائیوں اور بہنوں کو ایک عملی راستہ تلاش کرنے کے قابل بناتا یا اپنے تجربات کا اظہار کرنے کے لیے روحانی سوانح حیات لکھنا نہیں تھا؛ اس کا مصنف بننے کے لیے کتاب لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ صرف خُداوند یسوع مسیح کی کلیسیا کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو خطوط لکھ رہا تھا۔ پولس نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو، ایک خادم کی حیثیت سے، اپنی ذمہ داری کے بوجھ، خداوند یسوع کی مرضی کے مطابق، اور مستقبل کے لیے یسوع نے لوگوں کو کون سے کام سونپے تھے، کے بارے میں تعلیم دی۔ یہ وہ کام تھا جو پولس نے انجام دیا تھا۔ اس کے الفاظ نے مستقبل کے تمام بھائیوں اور بہنوں کو عملی تجربات کے لیے کافی حد تک بصیرت دی۔ ان بہت سے خطوط میں اس نے فضل کے دور کے لوگوں کو عمل کرنے کے لیے سچائیاں بتائی تھیں، یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والی نسلوں نے ان خطوط کو نئے عہد نامے میں ترتیب دیا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پولس کا آخر کیا انجام ہوا، وہ ایک ایسا شخص تھا جو اپنے وقت میں استعمال ہوا تھا، اور جس نے کلیسیاؤں میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی تھی۔ اس کا انجام اس کے مادّے نیز اس کے شروع میں گرائے جانے سے سے طے کیا گیا تھا۔ وہ اُس وقت اُن الفاظ کو بولنے کے قابل تھا کیونکہ اُس کے پاس روح القدس کا کام تھا، اور پولس نے کلیسیاؤں کی ذمہ داری کا بوجھ اِس کام کی وجہ سے ہی اُٹھایا تھا۔ اس طرح، وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو مدد فراہم کرنے کے قابل تھا۔ تاہم، بعض مخصوص حالات کی وجہ سے، پولس ذاتی طور پر کام کرنے کے لیے کلیسیاؤں میں جانے کے قابل نہیں تھا، اس لیے اس نے خُداوند پر ایمان رکھنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو نصیحت کرنے کے لیے انھیں خطوط لکھے۔ پہلے، پولس نے خُداوند یسوع کے شاگردوں کو ستایا، لیکن یسوع کے آسمان پر جانے کے بعد – یعنی پولس کے ”روشنی کو دیکھنے“ کے بعد – اس نے خُداوند یسوع کے شاگردوں کو ستانا بند کر دیا، اور اُن مقدس شخصیات کو مزید نہیں ستایا جنہوں نے خداوند کے طریقے کی خاطر خوشخبری کی منادی کی تھی۔ جب پولس نے یسوع کو ایک منور روشنی کے طور پر اپنے سامنے ظاہر ہوتے ہوئے دیکھا، تو اس نے خُداوند کی دی ہوئی ذمہ داری کو قبول کر لیا، اور اس طرح ایک ایسا شخص بن گیا جسے روح القدس نے خوشخبری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔
اس وقت پولس کا کام صرف اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرنا اور انھیں فراہم کرنا تھا۔ وہ ان لوگوں کی طرح نہیں تھا، جو اپنا پیشہ ورانہ مستقبل بنانا یا ادبی کام تخلیق کرنا چاہتے تھے، دوسرے راستوں کو دریافت کرنا چاہتے تھے، یا انجیل کے علاوہ ایسے راستے تلاش کرنا چاہتے تھے جن کے ذریعے ان لوگوں کو کلیسیاؤں میں لے جایا جائے تاکہ وہ سب نیا داخلہ حاصل کر سکیں۔ پولس ایک شخص تھا جسے استعمال کیا گیا تھا؛ اس نے جو کام کیا اس میں وہ محض اپنا فرض ادا کر رہا تھا۔ اگر وہ کلیسیاؤں کی ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھاتا تو یہ سمجھا جاتا کہ اس نے اپنے فرض میں غفلت برتی ہے۔ اگر کوئی خلل ڈالنے والا واقعہ ہوا ہوتا، یا کلیسیا میں دھوکا دہی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہوتا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی حالت غیر معمولی ہو گئی ہوتی، تو پھر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام نہیں دیا۔ اگر کوئی کارکن کلیسیا کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتا ہے، اور اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کام بھی کرتا ہے، تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص ایک اہل کارکن ہے – استعمال کیے جانے کے لیے اہل ہے۔ اگر کوئی شخص کلیسیا کے لیے ذمہ داری کا کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا، اور اپنے کام میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرتا، اور جن لوگوں کی وہ راہنمائی کرتا ہے ان میں سے اکثر کمزور ہیں یا وہ گر جاتے ہیں، تو پھر ایسے کارکن نے اپنا فرض ادا نہیں کیا ہے۔ اسی طرح، پولس بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اسے کلیسیاؤں کی دیکھ بھال کرنی ہوتی تھی اور اکثر اپنے بھائیوں اور بہنوں کو خطوط لکھنے ہوتے تھے۔ یہی طریقہ تھا کہ وہ کلیسیاؤں کو مدد فراہم کرنے اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کی دیکھ بھال کرنے کے قابل تھا؛ یہ صرف اسی طریقے سے تھا کہ کلیسیا اس سے سامان اور نگرانی اور راہنمائی حاصل کر سکتے تھے۔ اس نے جو خطوط لکھے تھے ان کے الفاظ بہت گہرے تھے، لیکن وہ اس کے بھائیوں اور بہنوں کو اس حالت میں لکھے گئے تھے کہ وہ روح القدس کی بصیرت حاصل کر چکا تھا، اور اس نے اپنے ذاتی تجربات اور محسوس کردہ ذمہ داری کے بوجھ کو ایک مربوط انداز میں اپنی تحریر میں ڈھالا۔ پولس محض ایک شخص تھا جسے روح القدس نے استعمال کیا تھا، اور اس کے خطوط کے مندرجات میں اس کے ذاتی تجربات کی آمیزش تھی۔ اس نے جو کام کیا وہ صرف ایک رسول کے کام کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ روح القدس کے ذریعے براہ راست انجام دیا گیا کام نہیں ہے، اور یہ مسیح کے کام سے بھی مختلف ہے۔ پولس محض اپنا فرض ادا کر رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس نے خداوند پر ایمان رکھنے والے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اپنی ذمہ داری کے بوجھ کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی عملی تجربات اور بصیرت بھی فراہم کی۔ پولس صرف اپنی ذاتی بصیرت اور سمجھ بوجھ فراہم کر کے خدا کی طرف سے سونپا گیا کام انجام دے رہا تھا؛ اور یہ یقیناً خدا کی طرف سے براہ راست انجام دیے جانے والے کام کی مثال نہیں تھی۔ اس طرح، پولس کے کام میں انسان کے عملی تجربے اور کلیسیا کے کام کے بارے میں انسانی خیالات اور سمجھ بوجھ کی آمیزش تھی۔ تاہم، ان انسانی خیالات اور سمجھ بوجھ کو بد روحوں کا کام یا جسم کا کام نہیں کہا جا سکتا؛ انھیں صرف ایک ایسے شخص کا علم اور عملی تجربات کہا جا سکتا ہے جسے روح القدس نے بصیرت عطا کی تھی۔ اس سے میرا مطلب ہے کہ پولس کے خطوط آسمانی کتابیں نہیں ہیں۔ وہ مقدس نہیں ہیں، اور انھیں روح القدس نے ہرگز بیان نہیں کیا یا اس کی طرف سے ان کا اظہار نہیں کیا گیا تھا؛ وہ پولس کی کلیسیا کی ذمہ داری کے بوجھ کا محض ایک اظہار ہیں۔ یہ سب کہنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ تم خدا کے کام اور انسان کے کام کے درمیان فرق کو سمجھو: خدا کا کام خود خدا کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ انسان کا کام انسان کے فرض اور عملی تجربات کی نمائندگی کرتا ہے۔ خدا کے عام کام کو انسان کی مرضی اور خدا کے مافوق الفطرت کام کو خدا کی مرضی نہیں سمجھنا چاہیے؛ مزید یہ کہ انسان کی بلندوبالا منادی کو خدا کا کلام یا آسمانی کتابیں نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسے تمام خیالات غیر اخلاقی ہوں گے۔ بہت سے لوگ، جب مجھے پولس کے تیرہ خطوط پر تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے سنتے ہیں تو یہ یقین کرتے ہیں کہ پولس کے خطوط کو نہیں پڑھنا چاہیے، اور یہ کہ پولس ایک نہایت ہی گنہگار آدمی تھا۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ میرے الفاظ غیر ہمدردانہ ہیں، اور یہ کہ پولس کے خطوط کے بارے میں میرا اندازہ غلط ہے، اور یہ کہ ان خطوط کو انسان کے عملی تجربات اور ذمہ داری کے بوجھ کا اظہار نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کی بجائے انھیں خدا کے کلام کے طور پر سمجھا جانا چاہیے، اور یہ کہ وہ یوحنا کی مکاشفے کی کتاب کی طرح اہم ہیں، اور ان میں اختصار یا اضافہ نہیں کیا جا سکتا، اور مزید یہ کہ ان کی سرسری انداز میں وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ کیا یہ تمام انسانی دعوے غلط نہیں ہیں؟ کیا یہ مکمل طور پر اس حقیقت کی وجہ سے نہیں ہے کہ لوگوں میں شعور نہیں ہے؟ پولس کے خطوط سے لوگوں کو کافی فائدہ ہوتا ہے، اور ان کی پہلے ہی 2,000 سال سے زیادہ کی تاریخ ہے۔ تاہم، آج تک، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس نے اس وقت ماضی میں کیا کہا تھا۔ لوگ پولس کے خطوط کو پوری مسیحیت میں سب سے بڑا شاہکار سمجھتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کی تشریح نہیں کر سکتا، اور کوئی بھی انھیں پوری طرح نہیں سمجھ سکتا۔ درحقیقت، یہ خطوط بالکل ایک روحانی شخص کی سوانح حیات کی طرح ہیں، اور ان کا موازنہ یسوع کے الفاظ یا یوحنا کے دیکھے گئے عظیم رویا سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برعکس، یوحنا نے جو کچھ دیکھا وہ آسمان سے عظیم رویا تھے – خُدا کے اپنے کام کی پیشین گوئیاں – جو انسان کے لیے ناقابلِ حصول تھیں، جب کہ پولس کے خطوط صرف اُن چیزوں کی تفصیل ہیں جو ایک انسان نے دیکھیں اور جن کا عملی تجربہ کیا۔ یہ وہ ہیں جس کا انسان اہل ہے، لیکن نہ تو یہ پیشین گوئیاں ہیں اور نہ ہی رویا۔ یہ صرف وہ خطوط ہیں جو مختلف جگہوں پر بھیجے گئے تھے۔ تاہم، اُس وقت کے لوگوں کے لیے، پولس ایک کارکن تھا، اور اس لیے اُس کے الفاظ کی اہمیت تھی، کیونکہ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے اُس کو قبول کیا تھا جو اُس کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس لیے، اُس کے خطوط اُن سب لوگوں کے لیے فائدہ مند تھے جنھوں نے مسیح کی جستجو تھی۔ اگرچہ یہ الفاظ یسوع نے ذاتی طور پر نہیں کہے تھے، وہ بالآخر، ان کے وقت کے لیے ضروری تھے۔ اس طرح، پولس کے بعد آنے والے لوگوں نے اس کے خطوط کو انجیل میں ترتیب دیا، اس طرح انھیں آج تک منتقل ہونے کے قابل بنایا گیا۔ کیا تم میرا مطلب سمجھ رہے ہو؟ میں صرف تمہیں ان خطوط کی ایک درست وضاحت دے رہا ہوں، اور لوگوں کے لیے ان کے فائدے اور اہمیت سے انکار کیے بغیر ان کا تفصیلی جائزہ لے رہا ہوں۔ اگر، میرے الفاظ کو پڑھنے کے بعد، تم نہ صرف پولس کے خطوط کی تردید کرتے ہو، بلکہ ان کو مسلمہ کلیسائی عقائد کے خلاف یا بے وقعت قرار دیتے ہو، تو پھر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ تمہاری بصیرت اور تمہاری چیزوں کو جانچنے کی صلاحیت کی طرح تمہاری سمجھنے کی صلاحیت بھی بہت کمزور ہے؛ یقیناً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرے الفاظ حد سے زیادہ یک طرفہ ہیں۔ کیا تم اب سمجھتے ہو؟ تمہارے سمجھنے کے لیے جو اہم چیزیں ہیں وہ اس وقت پولس کے کام کی اصل صورتحال ہے اور وہ پس منظر ہے جس میں اس کے خط لکھے گئے تھے۔ اگر تم ان حالات کے بارے میں صحیح نظریہ رکھتے ہو، تو تمہارا پولس کے خطوط کے بارے میں نظریہ بھی صحیح ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی، ایک بار جب تو ان خطوط کی اصلیت کو سمجھ لے گا، تو انجیل کے بارے میں تیرا اندازہ درست ہو جائے گا، اور پھر تو سمجھ جائے گا کہ لوگوں کی بعد میں آنے والی نسلوں نے پولس کے خطوط کی اتنے زیادہ برسوں تک اتنی پرستش کیوں کی ہے، نیز بہت سے ایسے لوگ بھی کیوں ہیں جو اسے خدا مانتے ہیں۔ اگر تمہیں سمجھ نہیں آئی تو کیا تم بھی ایسا ہی نہیں سوچو گے؟
وہ جو خود خدا ہی نہیں ہے وہ خود خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ پولس کے کام کو صرف انسانی نقطہ نظر کا ایک حصہ اور روح القدس کی بصیرت کا ایک حصہ کہا جا سکتا ہے۔ پولس نے یہ الفاظ انسانی نقطہ نظر سے، روح القدس کی عطا کی ہوئی بصیرت کے ساتھ لکھے تھے۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ اس لیے اس کے الفاظ میں کچھ انسانی تجربات کی آمیزش ناگزیر تھی، اور بعد میں اس نے اپنے ذاتی عملی تجربات کو اس وقت اپنے بھائیوں اور بہنوں کو فراہمی اور مدد کے لیے استعمال کیا۔ اس کے لکھے ہوئے خطوط کی درجہ بندی زندگی کے مطالعہ کے طور پر نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان کی درجہ بندی سوانح حیات یا پیغام کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ نہ تو کلیسیا کے عمل کرنے والی سچائیاں تھیں اور نہ ہی کلیسا کے انتظامی احکام تھے۔ ذمہ داری کے بوجھ کے ساتھ ایک شخص کے طور پر – ایک شخص جسے روح القدس نے کام کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا – یہ وہ کام ہے جو انھیں کرنا ہی ہوتا ہے۔ اگر روح القدس لوگوں کو اٹھاتی ہے اور ان پر ذمہ داری کا بوجھ ڈالتی ہے، لیکن وہ کلیسیا کے کام کا ذمہ نہیں لیتے، اور اس کے معاملات کو اچھی طرح سے نہیں چلا سکتے، یا اس کے تمام مسائل کو تسلی بخش طریقے سے حل نہیں کر پاتے، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ مناسب طریقے سے اپنے فرائض ادا نہیں کرتے۔ اس لیے کسی رسول کے لیے اپنے کام کے دوران خطوط لکھنے کا اہل ہونا کوئی پراسرار بات نہیں تھی۔ یہ ان کے کام کا ایک حصہ تھا؛ وہ ایسا کرنے کے پابند تھے۔ خطوط لکھنے سے ان کا مقصد زندگی کا مطالعہ یا روحانی سوانح حیات لکھنا نہیں تھا، اور یہ یقینی طور پر برگزیدہ لوگوں کے لیے کوئی اور راستہ کھولنا بھی نہیں تھا۔ بلکہ انھوں نے اپنے کام کو پورا کرنے اور خدا کے وفادار خادم بننے کے لیے یہ کیا تاکہ خدا نے جو کام انھیں سونپے تھے وہ مکمل کر کے خدا کو حساب دے سکیں۔ انھیں اپنے کام میں اپنے لیے اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے ذمہ داری لینا تھی، اور انھیں اپنا کام بخوبی انجام دینا تھا اور کلیسیا کے معاملات پر دل سے توجہ دینی تھی: یہ سب ان کے کام کا صرف ایک حصہ تھا۔
اگر تم نے پولس کے خطوط کی سمجھ بوجھ حاصل کر لی ہے، تو تمہیں پطرس اور یوحنا، دونوں کے خطوط کے بارے میں بھی صحیح خیال اور اندازہ ہوگا۔ تم ان خطوط کو پھر کبھی بھی ایسی آسمانی کتابوں کے طور پر نہیں دیکھو گے جو مقدس اور ناقابلِ خلاف ورزی ہوتی ہیں اور اس بات کا امکان تو اور بھی کم ہے تم پولس کو خدا مانو گے۔ آخر کار، خدا کا کام انسان کے کام سے مختلف ہے اور اس کے علاوہ، اس کے تاثرات ان کے جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟ خدا کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے، جب کہ انسان کے فرائض ہیں جو اسے پورے کرنے چاہییں۔ خدا کے کام میں اس کے مزاج کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ انسان کا فرض انسان کے عملی تجربات میں مجسم ہوتا ہے اور انسان کی جستجو میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے جو کام کیا جاتا ہے اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز خدا کا اظہار ہے یا انسان کا اظہار۔ خود خدا کی طرف سے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اور نہ ہی انسان کو اس کے لیے گواہی دینے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؛ اس کے علاوہ، اس کے لیے خود خدا کو کسی بھی شخص کو جبراً روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب ایک فطری انکشاف کے طور پر آتا ہے؛ یہ نہ تو زبردستی کیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی چیز ہے جس میں انسان مداخلت کر سکے۔ انسان کا فرض اس کے عملی تجربات سے معلوم کیا جا سکتا ہے، اور اس کے لیے لوگوں کو کوئی اضافی تجرباتی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ انسان کا تمام جوہر اس وقت ظاہر ہوسکتا ہے جب وہ اپنا فرض ادا کرتا ہے، جب کہ خدا اپنے کام کو انجام دیتے ہوئے اپنے فطری مزاج کا اظہار کرسکتا ہے۔ اگر یہ انسان کا کام ہے تو پھر اسے چھپایا نہیں جا سکتا ہے۔ اگر یہ خدا کا کام ہے، تو کسی کے لیے خدا کے مزاج کو چھپانا اس سے بھی زیادہ ناممکن ہے، اور انسان کا اسے قابو کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ کسی انسان کو خدا نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی اس کے کام اور الفاظ کو مقدس یا ناقابل تغیر سمجھا جا سکتا ہے۔ خدا کو انسان کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو جسم کا لباس پہنا لیا ہے، لیکن اس کے کام کو انسان کا کام یا انسان کا فرض نہیں سمجھا جا سکتا۔ مزید برآں، خدا کے اقوال اور پولس کے خطوط کو برابر نہیں سمجھا جا سکتا، اور نہ ہی خدا کے فیصلے اور سزا اور انسان کی ہدایات کے الفاظ کو مساوی شرائط پر رکھا جا سکتا ہے۔ لہذا، ایسے اصول ہیں جو خدا کے کام کو انسان کے کام سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان میں ان کے جوہر کے اعتبار سے امتیاز کیا جاتا ہے، کام کے دائرہ کار یا اس کی عارضی کارکردگی کے لحاظ سے نہیں۔ اس موضوع پر، اکثر لوگ اصول کی غلطیاں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ظاہر کو دیکھتا ہے، جسے وہ حاصل کر سکتا ہے، جب کہ خدا اس جوہر کو دیکھتا ہے، جسے انسان کی جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اگر تو خدا کے کلام اور کام کو ایک عام آدمی کے فرائض سمجھتا ہے اور انسان کے بڑے پیمانے پر کام کو انسان کے فرض کی ادائیگی کی بجائے جسم میں ملبوس خدا کے کام کے طور پر دیکھتا ہے تو کیا تو اس میں اصولی طور پرغلط نہیں ہے؟ انسان کے خطوط اور سوانح حیات آسانی سے لکھی جا سکتی ہیں، لیکن صرف روح القدس کے کام کی بنیاد پر۔ تاہم، خدا کے کلام اور کام کو انسان آسانی سے پورا نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ انسانی حکمت اور سوچ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی لوگ ان کو دریافت کرنے کے بعد ان کی اچھی طرح سے تشریح کر سکتے ہیں۔ اگر یہ اصولی معاملات تمہارے اندر کوئی رد عمل پیدا نہیں کرتے ہیں، تو پھر ظاہر ہے کہ تمہارا عقیدہ بہت زیادہ مخلص یا پاکیزہ نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ تمہارا ایمان ابہام سے بھرپور ہے، اور الجھا ہوا اور غیر اصولی بھی ہے۔ خدا اور انسان کے سب سے بنیادی ضروری مسائل کو بالکل سمجھے بغیر، کیا اس قسم کا ایمان ایسا نہیں ہے جس میں ادراک کی مکمل کمی ہے؟ پولس ممکنہ طور پر پوری تاریخ میں استعمال ہونے والا واحد شخص کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہی واحد شخص ہو جس نے کبھی کلیسیا کے لیے کام کیا ہو؟ وہ واحد شخص کیسے ہو سکتا ہے جس نے کلیسیاؤں کی مدد کرنے کے لیے انھیں لکھا ہو؟ ان لوگوں کے کام کے پیمانے یا اثر، یا ان کے کام کے نتائج سے بھی قطع نظر، کیا اس طرح کے کام کے اصول اور جوہر سب یکساں نہیں ہیں؟ کیا اس میں ایسی چیزیں نہیں ہیں جو خدا کے کام سے بالکل ہی مختلف ہیں؟ اگرچہ خدا کے کام کے ہر مرحلے کے درمیان واضح فرق موجود ہیں، اور اگرچہ اس کے کام کے بہت سے طریقے مکمل طور پر ایک جیسے نہیں ہیں، لیکن کیا ان سب کا جوہر اور منبع ایک ہی نہیں ہے؟ اس کے مطابق، اگر ابھی تک کوئی شخص ان چیزوں کے بارے میں واضح نہیں ہے، تو پھر اس میں بھی عقل کی کمی ہے۔ اگر ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ پولس کے خطوط مقدس اور ناقابلِ خلاف ورزی ہیں اور کسی بھی روحانی شخصیت کی سوانح حیات سے مختلف ہیں تو پھر اس شخص کا استدلال بہت ہی غیر معمولی ہے اور ایسا شخص بلاشبہ ایک نظریاتی ماہر ہے جو شعور سے مکمل طور پر محروم ہے۔ اگر تو پولس کی پرستش بھی کرتا ہے، تو تو اس کے لیے اپنے گرمجوشی کے جذبات کو، حقائق کی سچائی کو موڑنے یا سچائی کے وجود کی تردید کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ مزید برآں، میں نے جو کچھ کہا ہے وہ کسی بھی طرح سے پولس کے تمام کام اور خطوط کو جلانا نہیں ہے یا حوالوں کے طور پر ان کی اہمیت سے مکمل طور پر انکار کرنا نہیں ہے۔ اس سے قطع نظر، ان الفاظ کو کہنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ تم تمام چیزوں اور لوگوں کے بارے میں ایک مناسب سمجھ بوجھ حاصل کرو اور ایک معقول اندازہ لگاؤ: صرف یہی عام وجہ ہے؛ صرف یہی وہ ہے جس سے سچائی کے حامل راستباز لوگوں کو اپنے آپ کو لیس کرنا چاہیے۔