کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس راستے پر ہے جس پر انسان چلتا ہے
اکثر لوگ اپنے مستقبل کی منزل کی خاطر یا عارضی عیش کے لیے خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کے ساتھ نمٹا نہیں گیا ہے، وہ جنت میں داخل ہونے کے لیے، انعامات حاصل کرنے کے لیے خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ کامل بنائے جانے کے لیے یا خدا کی ایک مخلوق ہونے کا فرض ادا کرنے کے لیے خدا پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے یا اپنے فرض کو مکمل کرنے کے لیے خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ شاذ و نادر ہی لوگ بامعنی زندگی گزارنے کے لیے خدا پر یقین رکھتے ہیں، اور نہ ہی ایسے لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ انسان زندہ ہے، اس لیے اسے خدا سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ اس کا حکم آسمان کی طرف سے صادر کیا گیا ہے اور زمین کی طرف سے ایسا کرنے کا اعتراف کیا گیا ہے، اور یہ انسان کا فطری پیشہ ہے۔ اس طرح، اگرچہ مختلف لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے جستجو کرتے ہیں، لیکن ان کی جستجو کے مقاصد اور اس کے پیچھے ترغیبات سب ایک جیسی ہی ہیں، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں سے اکثر کے لیے ان کی عبادت کے اہداف بھی ایک جیسے ہیں۔ پچھلے کئی ہزار برسوں میں، بہت سے ایمان رکھنے والے مر چکے ہیں، اور بہت سے مر چکے ہیں اور دوبارہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ صرف ایک یا دو لوگ نہیں ہیں جو خدا کی جستجو کرتے ہیں، اور نہ ہی ایک یا دو ہزار ہیں، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ اپنے امکانات یا مستقبل کے لیے اپنی شاندار امیدوں کی خاطر جستجو کرتے ہیں۔ جو لوگ مسیح کے لیے وقف ہیں وہ بہت ہی کم ہیں۔ پھر بھی بہت سے متقی ایمان رکھنے والے لوگ اپنے ہی جال میں پھنس کر مر چکے ہیں، اور اس کے علاوہ ان لوگوں کی تعداد جو فتح یاب ہوئے ہیں، انتہائی کم ہے۔ آج تک، لوگ ناکامی کی وجوہات، یا اپنی جیت کے اسرار، جاننے سے ابھی تک بے خبر ہیں۔ وہ لوگ جو مسیح کی جستجو کے جنون میں مبتلا ہیں، انھیں ابھی تک اپنی غیر متوقع بصیرت کا لمحہ نہیں ملا ہے اور وہ ان اسرار کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے ہیں، کیونکہ انھیں سرے سے علم ہی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اپنی جستجو میں انتہائی احتیاط کے ساتھ محنت کرتے ہیں، لیکن جس راستے پر وہ چلتے ہیں وہ ناکامی کا راستہ ہے جس پر کبھی ان کے پیش رو چلے تھے اور یہ کامیابی کا راستہ نہیں ہے۔ اس طریقے سے خواہ وہ کسی بھی طرح جستجو کریں، کیا وہ اس راستے پر نہیں چلتے ہیں جو تاریکی کی طرف جاتا ہے؟ کیا وہ جو حاصل کرتے ہیں وہ کڑوا پھل نہیں ہے؟ یہ پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ جو لوگ گزشتہ زمانوں میں کامیاب ہونے والوں کی تقلید کرتے ہیں وہ آخر میں خوش قسمت ہوں گے یا تباہی کا شکار ہوں گے۔ تو پھر، ان لوگوں کے لیے امکانات کتنے زیادہ برے ہیں جو ناکام ہونے والوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوشش کرتے ہیں؟ کیا ان کے ناکام ہونے کا امکان اور بھی زیادہ نہیں ہیں؟ وہ جس راستے پر چلتے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے؟ کیا وہ اپنا وقت ضائع نہیں کر رہے ہیں؟ اس بات سے قطع نظر کہ لوگ اپنی جستجو میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام، مختصر طور پر، ان کے ایسا کرنے کی ایک وجہ ہوتی ہے، اور یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ان کی کامیابی یا ناکامی کا تعین اس بات سے ہوتا ہو کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہیں کوشش کرتے ہیں۔
انسان کے خدا پر ایمان کا سب سے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس کا دل مخلص ہو، اور یہ کہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کر دے، اور صحیح معنوں میں اطاعت کرے۔ انسان کے لیے سب سے مشکل یہ ہے کہ وہ سچے عقیدے کے بدلے اپنی پوری زندگی کو پیش کر دے، جس کے ذریعے وہ مکمل سچائی کو حاصل کر سکے، اور خدا کی مخلوق ہونے کے حیثیت سے اپنے فرض کو پورا کر سکے۔ یہ وہ ہے جو ناکام ہونے والوں کے لیے ناقابلِ حصول ہے، اور یہ ان لوگوں کے لیے تو اور بھی زیادہ ناقابلِ حصول ہے جو مسیح کو تلاش نہیں کر سکتے ہیں۔ چونکہ انسان اپنے آپ کو مکمل طور پر خدا کے لیے وقف کرنے میں بہتر نہیں ہے، چونکہ انسان خالق کے لیے اپنا فرض ادا کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، چونکہ انسان حقیقت کو دیکھ چکا ہے لیکن اس سے بچ کر اپنے راستے پر چلتا ہے، چونکہ انسان ہمیشہ انہی کے راستے پر چل کر جستجو کرتا ہے جو ناکام ہوئے ہیں اور چونکہ انسان ہمیشہ آسمان کی مخالفت کرتا ہے، تو اسی لیے انسان ہمیشہ ناکام رہتا ہے اور ہمیشہ شیطان کی فریب کاریوں سے دھوکہ کھا جاتا ہے، اور اپنے ہی جال میں پھنس جاتا ہے۔ چونکہ انسان مسیح کو نہیں جانتا ہے، چونکہ انسان سچائی کو سمجھنے اور اس کا عملی تجربہ کرنے میں ماہر نہیں ہے، چونکہ انسان پولس کا انتہائی احترام کرتا ہے اور آسمان کا شدید خواہش مند ہے، چونکہ انسان ہر وقت یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسیح اس کی اطاعت کرے اور وہ خدا پر حکم چلائے، تو اسی وجہ سے وہ عظیم شخصیات اور وہ لوگ جنھوں نے دنیا کے نشیب و فراز کا تجربہ کیا ہے وہ اب بھی فانی ہیں، اور اب بھی خدا کی سزا کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک المناک موت مرتے ہیں، اور یہ کہ ان کا انجام – ان کی موت – بلا جواز نہیں ہوتی ہے۔ آسمان کے قانون کے لیے ان کی ناکامی کیا اور بھی زیادہ ناقابل برداشت نہیں ہے؟ سچائی انسان کی دنیا سے آتی ہے، پھر بھی انسان کے درمیان سچائی مسیح کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ اس کی ابتدا مسیح سے ہوتی ہے، یعنی خود خُدا کی طرف سے، اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کی انسان صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر بھی مسیح صرف سچائی فراہم کرتا ہے؛ وہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے نہیں آتا ہے کہ کیا انسان سچائی کے لیے اپنی جستجو میں کامیاب ہوگا یا نہیں۔ اس طرح یہ واقعی درست ہے کہ سچائی میں کامیابی یا ناکامی انسان کی جستجو پر منحصر ہوتی ہے۔ انسان کی سچائی میں کامیابی یا ناکامی کا مسیح کے ساتھ کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے، بلکہ اس کا تعین انسان کی جستجو کے ساتھ ہوتا ہے۔ انسان کی منزل اور اس کی کامیابی یا ناکامی کو خدا کے سر نہیں لادا جا سکتا ہے کہ خدا خود اس کا بوجھ اٹھائے، کیونکہ یہ معاملہ خود خدا کا نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق اس فرض سے ہے جو خدا کی مخلوق کو انجام دینا چاہیے۔ اکثر لوگوں کو پولس اور پطرس کی جستجو اور منزل کے بارے میں تھوڑا سا علم ہے، لیکن پھر بھی لوگ پطرس اور پولس کے نتائج سے زیادہ کچھ نہیں جانتے ہیں، اور پطرس کی کامیابی کے پیچھے چھپے راز، یا پولس کی ناکامی کا سبب بننے والی خامیوں سے ناواقف ہیں۔ اور اس طرح، اگر تم ان کی جستجو کے جوہر کو دیکھنے سے مکمل طور پر قاصر ہو تو تم میں سے اکثر کی جستجو ابھی بھی ناکام رہے گی، اور اگر تم میں سے بہت کم تعداد میں لوگ کامیاب ہو بھی گئے، تب بھی وہ پطرس کے برابر نہیں ہوں گے۔ اگر تیری جستجو کا راستہ درست ہے، تو پھر تیری کامیابی کی امید ہے؛ اگر سچائی کی جستجو میں تو جس راستے پر چلتا ہے وہ غلط ہے، تو پھر تو کبھی بھی کامیابی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو گا، اور تیرا انجام بھی پولس کی طرح ہو گا۔
پطرس ایک انسان تھا جسے کامل بنایا گیا تھا۔ صرف سزا اور فیصلے کا عملی تجربہ کرنے کے بعد، اور اس طرح خدا کے لیے خالص محبت حاصل کرنے کے بعد، وہ مکمل طور پر کامل بنا تھا؛ جس راستے پر وہ چلا تھا وہ کامل بنائے جانے کا راستہ تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ، بالکل ابتدا سے ہی، پطرس جس راستے پر چلا تھا وہ صحیح تھا، اور خدا پر ایمان لانے کے لیے اس کی ترغیب درست تھی، اور اس لیے وہ ایک ایسا شخص بن گیا جسے کامل بنایا گیا تھا اور وہ ایک ایسے نئے راستے پر چلا جس پر انسان اس سے پہلے کبھی بھی نہیں چلا تھا۔ تاہم، پولس آغاز میں جس راستے پر چلا تھا وہ مسیح کی مخالفت کا راستہ تھا، اور یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ روح القدس اسے استعمال کرنا چاہتی تھی، اور اس کی صلاحیتوں اور اس کی تمام خوبیوں سے اپنے کام کے لیے فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ اور یہ کہ اس نے کئی دہائیوں تک مسیح کے لیے کام کیا۔ وہ محض ایک ایسا شخص تھا جسے روح القدس نے استعمال کیا تھا، اور اسے اس وجہ سے استعمال نہیں کیا گیا تھا کہ اس کی انسانیت یسوع کو پسند تھی، بلکہ اسے اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے استعمال کیا گیا تھا۔ وہ یسوع کی خاطر کام کرنے کا اہل اس لیے تھا کہ اسے زیر کر لیا گیا تھا، اور اس لیے نہیں کہ اسے ایسا کرنے سے خوشی ہوتی تھی۔ وہ روح القدس کی دی ہوئی آگہی اور راہنمائی کی وجہ سے ایسا کام کرنے کا اہل تھا، اور جو کام اس نے کیا وہ کسی طرح بھی اس کی جستجو، یا اس کی انسانیت کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔ پولس کا کام ایک خادم کے کام کی نمائندگی کرتا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک رسول کا کام کیا تھا۔ پطرس، اگرچہ مختلف تھا: اس نے بھی کچھ کام کیا تھا؛ لیکن یہ پولس کے کام جتنا عظیم نہیں تھا، مگر اس نے اپنے داخلے کے لیے کوشش کرنے کے دوران کام کیا، اور اس کا کام پولس کے کام سے مختلف تھا۔ پطرس کا کام خدا کی ایک مخلوق کے فرض کو انجام دینا تھا۔ اس نے ایک رسول کے کردار میں کام نہیں کیا، بلکہ خدا کی محبت کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے کام کیا۔ پولس کے کام کے دوران اس میں اس کی ذاتی جستجو بھی شامل تھی: اس کی جستجو مستقبل کے لیے اس کی امیدوں اور اس کی ایک اچھی منزل کی خواہش سے زیادہ کسی اور چیز کے لیے نہیں تھی۔ اس نے اپنے کام کے دوران تزکیے کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی اس نے تراش خراش اور معاملہ کیے جانے کو قبول کیا۔ اسے یہ یقین تھا کہ جب تک اس کا کیا ہوا کام خدا کی مرضی کو پورا کرتا ہے، اور اس نے جو کچھ بھی کیا ہے اگر خدا اس سے خوش ہوتا ہے، تو پھر آخر میں ایک انعام اس کا منتظر ہو گا۔ اس کے کام میں کوئی ذاتی عملی تجربات نہیں تھے – یہ سب اس کی اپنی خاطر تھا، اور تبدیلی کے حصول کی خاطر نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے کام کی ہر چیز ایک لین دین تھی اور اس میں خدا کی مخلوق کا کوئی فرض یا تابعداری شامل نہیں تھی۔ اپنے کام کے دوران، پولس کے پرانے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کا کام محض دوسروں کی خدمت کا کام تھا، اور اس کے مزاج میں تبدیلیاں لانے سے قاصر تھا۔ پولس نے کامل بنائے گئے بغیر یا معاملہ کیے گئے بغیر اپنے کام کو براہ راست انجام دیا، اور وہ انعام کی ترغیب سے متاثر ہوا تھا۔ پطرس مختلف تھا: وہ ایسا شخص تھا جس کی تراش خراش کی گئی تھی اور جس سے معاملہ کیا گیا تھا اور جو تزکیے کے عمل سے گزرا تھا۔ پطرس کے کام کا ہدف اور محرک بنیادی طور پر پولس کے کام سے مختلف تھا۔ اگرچہ پطرس نے بہت زیادہ مقدار میں کام نہیں کیا، لیکن اس کے مزاج میں بہت سی تبدیلیاں آئیں، اور اس نے جس چیز کی تلاش کی وہ سچائی اور حقیقی تبدیلی تھی۔ اس کا کام محض کام برائے کام کی خاطر نہیں کیا جاتا تھا۔ اگرچہ پولس نے بہت زیادہ کام کیا تھا، لیکن یہ سب روح القدس کا کام تھا، اور اگرچہ پولس نے اس کام میں تعاون کیا تھا، لیکن اس نے اس کا عملی تجربہ نہیں کیا تھا۔ پطرس نے جو بہت کم کام کیا تھا تو اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ روح القدس نے اس کے ذریعے اتنا زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ ان کے کامل بنائے جانے کا تعین ان کے کام کی مقدار کی وجہ سے نہیں ہوا تھا؛ ایک کی جستجو کا مقصد انعامات حاصل کرنا تھا، اور دوسرے کا مقصد یہ تھا کہ وہ خدا کے لیے انتہائی محبت کو حاصل کر سکے، اور خدا کی مخلوق ہونے کے ناطے اپنے فرض کو اس حد تک پورا کر سکے کہ وہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے ایک خوبصورت شبیہ کے طور پر زندگی بسر کر سکے۔ خارجی طور پر وہ مختلف تھے اور اسی طرح ان کے جوہر بھی مختلف تھے۔ تُو اس بات کا تعین نہیں کر سکتا ہے کہ ان کے کیے گئے کام کی بنیاد پر ان میں سے کس کو کامل بنایا گیا تھا۔ پطرس نے ایک ایسے شخص کی شبیہ بن کر زندگی بسر کرنے کی کوشش کی جو خدا سے محبت کرتا تھا، ایک ایسے شخص کی جو خدا کی فرمانبرداری کرتا تھا، ایک ایسے شخص کی جس نے معاملہ کیے جانے اور تراش خراش کو قبول کیا تھا، اور ایک ایسے شخص کی جس نے خدا کی مخلوق کے طور پر اپنے فرض کو انجام دیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے لیے وقف کرنے، اپنی مکمل حیثیت کو خدا کے ہاتھوں میں دینے، اور موت تک اس کی اطاعت کرنے کا اہل تھا۔ یہ وہی تھا جسے کرنے کا اس نے پختہ ارادہ کیا تھا اور مزید یہ کہ یہی تھا جو اس نے حاصل کیا۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ آخرکار اس کا انجام پولس سے مختلف تھا۔ روح القدس نے پطرس میں جو کام کیا وہ اسے کامل بنانے کے لیے تھا اور روح القدس نے پولس میں جو کام کیا وہ اسے استعمال کرنے کے لیے تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فطرت اور مقصد کے حصول کے کوشش میں ان کے خیالات ایک جیسے نہیں تھے۔ دونوں کے پاس روح القدس کا کام تھا۔ پطرس نے اس کام کو خود پر لاگو کر لیا، اور اس کام کو دوسروں کو بھی فراہم کیا؛ اس دوران، پولس نے صرف روح القدس کے کام کی کاملیت کو دوسروں کو فراہم کیا، اور خود اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ اس طرح، اتنے سالوں تک روح القدس کے کام کا عملی تجربہ کرنے کے بعد، پولس میں تبدیلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ وہ پھر بھی تقریباً اپنی فطری حالت میں ہی رہا، اور وہ اب بھی پہلے والا پولس ہی تھا۔ یہ محض ایسے تھا کہ کئی سالوں کی تکلیف برداشت کرنے کے بعد، اس نے "کام" کرنا سیکھ لیا تھا، اور برداشت کرنا سیکھ لیا تھا، لیکن اس کی پرانی فطرت – اس کی انتہائی مسابقتی اور تاجرانہ فطرت – پھر بھی باقی تھی۔ اتنے سال تک کام کرنے کے بعد بھی اسے اپنے بدعنوان مزاج کا علم نہیں تھا اور نہ ہی اس نے اپنے پرانے مزاج سے جان چھڑائی اور یہ اس وقت بھی اس کے کام میں صاف نظر آرہی تھی۔ اس میں محض کام کا عملی تجربہ زیادہ تھا، لیکن صرف اتنا کم تجربہ اسے تبدیل کرنے سے قاصر تھا اور اس کی جستجو کے ہونے یا اس کی اہمیت کے بارے میں اس کے خیالات کو تبدیل نہیں کر سکا تھا۔ اگرچہ اُس نے مسیح کے لیے کئی سال کام کیا، اور پھر کبھی خُداوند یسوع کو نہیں ستایا، لیکن اُس کے دل میں خُدا کے بارے میں جو علم تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے خود کو خدا کی خاطر وقف کرنے کے لیے کام نہیں کیا، بلکہ وہ اپنے مستقبل کی منزل کی خاطر کام کرنے کے لیے مجبور تھا۔ کیونکہ، شروع میں، اس نے مسیح کو ستایا تھا، اور مسیح کی اطاعت نہیں کی تھی؛ وہ فطری طور پر ایک باغی تھا جس نے جان بوجھ کر مسیح کی مخالفت کی، اور وہ ایک ایسا شخص تھا جسے روح القدس کے کام کا کوئی علم نہیں تھا۔ جب اس کا کام تقریباً ختم ہو چکا تھا، تب بھی اسے روح القدس کے کام کا علم نہیں تھا، اور اس نے روح القدس کی مرضی پر ذرا سا بھی دھیان دیے بغیر، محض اپنے کردار کے مطابق اپنی مرضی سے کام کیا۔ اور اس طرح اس کی فطرت میں مسیح کی دشمنی تھی اور اس نے سچائی کی اطاعت نہیں کی۔ اس جیسا کوئی، جسے روح القدس کے کام نے چھوڑ دیا تھا، جسے روح القدس کے کام کا علم نہیں تھا، اور جس نے مسیح کی مخالفت بھی کی تھی، اس جیسے شخص کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ انسان کو بچایا جا سکتا ہے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ وہ کتنا کام کرتا ہے، یا وہ کتنا وقف کرتا ہے، بلکہ اس کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا اسے روح القدس کے کام کا علم ہے یا نہیں، کیا وہ سچائی پر عمل کر سکتا ہے یا نہیں، اور کیا اس کے جستجو کرنے کے بارے میں خیالات سچائی کے مطابق ہیں یا نہیں۔
اگرچہ پطرس کے یسوع کی پیروی شروع کرنے کے بعد قدرتی الہامات ہوئے تھے، لیکن وہ شروع سے ہی اپنی فطرت میں ایک ایسا شخص تھا جو روح القدس کا فرمانبردار بننے اور مسیح کو تلاش کرنے کے لیے آمادہ تھا۔ اس کی روح القدس کی اطاعت خالص تھی: اس نے شہرت اور دولت کے لیے کوشش نہیں کی تھی، بلکہ اس کا مقصد سچائی کی اطاعت کرنا تھا۔ اگرچہ تین مرتبہ ایسا ہوا جب پطرس نے مسیح کو جاننے سے انکار کیا تھا، اور اگرچہ اس نے خُداوند یسوع کو ترغیب دی، لیکن ایسی معمولی انسانی کمزوری کا اُس کی فطرت سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ اُس کی مستقبل کی کوشش پر اثرانداز نہیں ہوا، اور یہ معقول حد تک ثابت نہیں کر سکا کہ اُس کی یہ ترغیب ایک مسیح مخالف کا کام تھا۔ عمومی انسانی کمزوری ایک ایسی چیز ہے جو دنیا کے تمام لوگوں میں مشترک ہے – کیا تو پطرس سے کوئی مختلف ہونے کی توقع رکھتا ہے؟ کیا لوگ پطرس کے بارے میں اس لیے کچھ مخصوص خیالات نہیں رکھتے ہیں کہ اس نے کئی احمقانہ غلطیاں کی تھیں؟ اور کیا لوگ پولس سے اس کے کیے گئے سب کام اور اس کے لکھے ہوئے تمام خطوط کی وجہ سے اتنی محبت نہیں کرتے ہیں؟ انسان کسی انسان کے مادے کو دیکھنے کے قابل کیسے ہو سکتا ہے؟ یقیناً وہ لوگ جو واقعی عقل رکھتے ہیں اتنی کم اہمیت کی کوئی چیز دیکھ سکتے ہیں؟ اگرچہ پطرس کے کئی سالوں کے تکلیف دہ تجربات انجیل میں درج نہیں ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پطرس کے حقیقی عملی تجربات نہیں تھے، یا یہ کہ پطرس کو کامل نہیں بنایا گیا تھا۔ خدا کا کام مکمل طور پر انسان کی سمجھ میں کیسے آ سکتا ہے؟ انجیل میں موجود مندرجات کو یسوع نے ذاتی طور پر منتخب نہیں کیا تھا بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں نے اسے مرتب کیا تھا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، کیا انجیل میں درج سب کچھ انسان کے خیالات کے مطابق منتخب نہیں کیا گیا؟ مزید برآں، خطوط میں پطرس اور پولس کے انجام واضح طور پر بیان نہیں کیے گئے ہیں، اس لیے انسان اپنے تصورات اور اپنی ترجیحات کے مطابق پطرس اور پولس کے متعلق فیصلہ کرتا ہے۔ اور چونکہ پولس نے بہت زیادہ کام کیا تھا، کیونکہ اس کی "معاونت" بہت زیادہ تھی، اس لیے اس نے عوام کا اعتماد جیت لیا۔ کیا انسان صرف سطحی باتوں پر توجہ مرکوز نہیں کرتا ہے؟ انسان اس قابل کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کی اصل حقیقت کو دیکھ سکے؟ اس بات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ، یہ دیکھتے ہوئے کہ پولس ہزاروں سالوں سے عبادت کا ایک مقصد رہا ہے، کون جلدبازی میں اس کے کام سے انکار کی جرات کرے گا؟ پطرس صرف ایک مچھیرا تھا، تو اس کی معاونت پولس کی معاونت کی طرح عظیم کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کی طرف سے کی گئی معاونت کے لحاظ سے، پولس کو پطرس سے پہلے انعام ملنا چاہیے تھا، اور اسے ایک ایسا شخص ہونا چاہیے تھا جو خدا کی تائید حاصل کرنے کے زیادہ قابل تھا۔ کون یہ سوچ سکتا تھا کہ، پولس کے ساتھ اپنے سلوک میں، خدا نے اس سے محض اس کی صلاحیتوں کے ذریعے کام کروایا، جبکہ خدا نے پطرس کو کامل بنا دیا۔ معاملہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ خُداوند یسوع نے بہت آغاز میں ہی پطرس اور پولس کے لیے منصوبے بنا لیے تھے: بلکہ انھیں ان کی اپنی اپنی جبلی فطرتوں کے مطابق کامل بنایا گیا تھا یا کام پر لگایا گیا تھا۔ اور اس طرح، لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ صرف انسان کی خارجی معاونت ہے، جب کہ خدا جو کچھ دیکھتا ہے وہ انسان کی اصل حقیقت ہے، اور وہ راستہ بھی جس کی انسان آغاز سے ہی جستجو کرتا آیا ہے، اور وہ جو انسان کی جستجو کے پیچھے ترغیب ہے۔ لوگ انسان کو اس کے تصورات اور اس کی قوتِ فہم کے مطابق ناپتے ہیں، پھر بھی انسان کے آخری انجام کا تعین اس کی ظاہری کیفیات کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔ اور اسی لیے میں یہ کہتا ہوں کہ اگر جو راستہ تو آغاز سے ہی اختیار کرتا ہے وہی کامیابی کا راستہ ہو، اور جستجو کے بارے میں تیرا نقطہ نظر آغاز سے ہی درست ہو، تو پھر تو پطرس کی طرح ہے؛ اور اگر تو جس راستے پر چل رہا ہے وہ ناکامی کا راستہ ہے، تو پھر اس کی تو جتنی بھی قیمت ادا کرے، تیرا انجام پھر بھی وہی ہوگا جو پولس کا ہوا تھا۔ معاملہ کچھ بھی ہو، تیری منزل، اور چاہے تو کامیاب ہوتا ہے یا ناکام، دونوں کا تعین تیری عقیدت، یا اس قیمت سے نہیں ہوتا ہے جو تو ادا کرتا ہے، بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ تو جس راستے کی تلاش کرتا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ پطرس اور پولس کے جوہر، اور وہ اہداف جن کی انھوں نے جستجو کی، مختلف تھے؛ انسان ان چیزوں کو دریافت کرنے کے قابل نہیں ہے، اور صرف خدا ہی ان کو مکمل طور پر جان سکتا ہے۔ کیونکہ جو کچھ خدا دیکھتا ہے وہ انسان کی اصل حقیقت ہے، جبکہ انسان کو خود اپنے جوہر کے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔ انسان، انسان کے اندرونی جوہر یا اس کی اصل حیثیت کو دیکھنے سے قاصر ہے، اور اس وجہ سے پولس اور پطرس کی ناکامی اور کامیابی کی وجوہات کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ اکثر لوگ پطرس کی نہیں بلکہ پولس کی پرستش کرتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ پولس کو عوامی کام کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اور انسان اس کام کو سمجھنے کے قابل ہے، اور اسی لیے لوگ پولس کی "کامیابیوں" کو تسلیم کرتے ہیں۔ دریں اثنا، پطرس کے تجربات انسان کے لیے غیر مرئی ہیں، اور جس چیز کی اس نے جستجو کی وہ انسان کے لیے ناقابلِ حصول ہے، اور اسی لیے انسان کو پطرس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پطرس سے نمٹے جانے اور اس کا تزکیہ کرنے کے بعد اسے کامل بنایا گیا تھا۔ اُس نے کہا تھا، "مجھے ہر وقت خُدا کی خواہشات کو ضرور پورا کرنا چاہیے۔ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں، میں صرف خدا کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں، اور چاہے مجھے سزا دی جائے، یا میرا فیصلہ کیا جائے، پھر بھی میں ایسا کرنے میں خوش ہوں۔" پطرس نے اپنا سب کچھ خُدا کے حوالے کر دیا، اور اُس کا کام، الفاظ اور پوری زندگی خُدا سے محبت کرنے کے لیے تھی۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو تقدس کی تلاش میں تھا، اور جتنا زیادہ اس نے عملی تجربہ کیا، اس کے دل میں خدا کے لیے اس کی محبت اتنی ہی زیادہ گہری تھی۔ اس دوران، پولس نے صرف بیرونی کام کیا، اور اگرچہ اس نے سخت محنت بھی کی، لیکن اس کی محنت اپنے کام کو درست طریقے سے کرنے کے لیے اس وجہ سے تھی کہ وہ انعام حاصل کر سکے۔ اگر اسے یہ علم ہوتا کہ اسے کوئی انعام نہیں ملے گا تو وہ اپنا کام چھوڑ چکا ہوتا۔ پطرس کو جس چیز کی پرواہ تھی وہ اس کے دل میں سچی محبت تھی، جو کہ عملی تھی اور جسے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ آیا اسے انعام ملے گا یا نہیں، بلکہ اس بات کی فکر تھی کہ آیا اس کا مزاج بدلا جا سکتا ہے یا نہیں۔ پولس کو اور بھی زیادہ محنت کرنے کی فکر تھی، اسے بیرونی کام اور مخلص وفاداری کی فکر تھی، اور ان عقائد کی جن کا عام لوگوں کو عملی تجربہ نہیں تھا۔ اسے اپنے اندر گہرائی میں ہونے والی تبدیلیوں کی کوئی فکر نہیں تھی اور نہ ہی خدا کے لیے سچی محبت کی پرواہ تھی۔ پطرس کے عملی تجربات سچی محبت اور خُدا کا حقیقی علم حاصل کرنے کے لیے تھے۔ اس کے تجربات خدا سے زیادہ قریبی تعلق حاصل کرنے اور عملی طور پر زندگی بسر کرنے کے لیے تھے۔ پولس کا کام اس وجہ سے ہوا تھا کہ یہ یسوع کی طرف سے اس کے سپرد کیا گیا تھا، اور یہ ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے تھا جن کی وہ خواہش رکھتا تھا، لیکن پھر بھی ان کا تعلق خود اس کے اپنے اور خدا کے علم سے نہیں تھا۔ اس کا کام صرف اور صرف سزا اور فیصلے سے بچنے کے لیے تھا۔ پطرس نے جس چیز کی جستجو کی وہ خالص محبت تھی، اور پولس نے جس چیز کی جستجو کی وہ راستبازی کا تاج تھا۔ پطرس نے روح القدس کے کام کے کئی سالوں کا عملی تجربہ کیا، اور اسے مسیح کے بارے میں عملی علم کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں بھی بہت گہرا علم تھا۔ اور اس طرح، اس کی خدا سے محبت خالص تھی۔ کئی برسوں کے تزکیے نے یسوع اور زندگی کے بارے میں اس کے علم کو بلند کر دیا تھا، اور اس کی محبت ایک غیر مشروط محبت تھی، یہ ایک بے ساختہ محبت تھی، اور اس نے بدلے میں کچھ نہیں مانگا تھا، نہ ہی اس نے کچھ فوائد کی امید رکھی۔ پولس نے کئی سالوں تک کام کیا، اس کے باوجود اس کے پاس مسیح کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، اور اس کا اپنے بارے میں علم بھی قابل رحم حد تک کم تھا۔ اسے مسیح سے بالکل کوئی محبت نہیں تھی، اور اس کا کام اور وہ راستہ جس پر وہ بھاگا وہ صرف حتمی اعزاز حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اس نے جس چیز کی جستجو کی وہ بہترین تاج تھا، خالص ترین محبت نہیں تھی۔ اس نے فعال طور پر نہیں بلکہ غیر فعال طور پر جستجو کی تھی۔ وہ اپنا فرض ادا نہیں کر رہا تھا بلکہ روح القدس کے کام کے ذریعے پکڑے جانے کے بعد یہ جستجو کرنے کے لیے مجبور تھا۔ اور اس طرح، اس کی جستجو یہ ثابت نہیں کرتی ہے کہ وہ خدا کی ایک قابل مخلوق تھا؛ یہ پطرس تھا جو کہ خدا کی ایک قابل مخلوق تھا اور جس نے اپنا فرض ادا کیا تھا۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب لوگ جو خدا کے لیے معاونت کرتے ہیں انھیں انعام ملنا چاہیے اور یہ کہ معاونت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ یہ سچ سمجھا جاتا ہے کہ انھیں خدا کی عنایت حاصل ہو گی۔ انسان کے نقطہ نظر کا جوہر تاجرانہ ہوتا ہے، اور وہ خدا کی مخلوق کے طور پر اپنا فرض فعال طور پر ادا کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔ خدا کی خاطر، لوگ جتنا زیادہ خدا کے لیے سچی محبت اور خدا کی مکمل فرمانبرداری کی کوشش کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا کی مخلوق کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ خدا کی اتنی ہی زیادہ تائید حاصل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ خدا کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنے اصل فرض اور حیثیت کو بحال کرے۔ انسان خدا کی ایک مخلوق ہے اس لیے انسان کو خدا سے کوئی مطالبات کر کے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور خدا کی مخلوق کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ پولس اور پطرس کی منزلوں کا اندازہ ان کی معاونت کی مقدار کے مطابق نہیں لگایا گیا تھا بلکہ اس امر کے مطابق لگایا گیا تھا کہ کیا وہ خدا کی مخلوق کے طور پر اپنا فرض انجام دے سکتے تھے یا نہیں؛ ان کی منزلوں کا تعین اس کے مطابق کیا گیا تھا جس کی وہ آغاز سے ہی جستجو کر رہے تھے، نہ کہ اس کے مطابق کہ انھوں نے کتنا کام کیا تھا، یا ان کے متعلق دوسرے لوگوں کے اندازوں کے مطابق نہیں کیا گیا تھا۔ اور اس طرح، خدا کی مخلوق کے طور پر اپنے فرض کو فعال طور پر انجام دینے کی کوشش کرنا کامیابی کا راستہ ہے؛ خدا سے سچی محبت کا راستہ تلاش کرنا سب سے درست راستہ ہے؛ اپنے پرانے مزاج میں تبدیلی کی کوشش کرنا، اور خدا کے لیے خالص محبت کی جستجو کرنا، کامیابی کا راستہ ہے۔ کامیابی کا ایسا راستہ اصل فرض کی بحالی کے ساتھ ساتھ خدا کی مخلوق کے اصل ظہور کا راستہ بھی ہے۔ یہ بحالی کا راستہ ہے، اور یہ آغاز سے اختتام تک خدا کے تمام کام کا ہدف بھی ہے۔ اگر انسان کی جستجو ذاتی حد سے زیادہ بڑھے ہوئے مطالبات اور خلافِ عقل خواہشات سے داغدار ہو تو جو اثر حاصل ہو گا وہ انسان کے مزاج میں تبدیلی نہیں ہو گا۔ یہ بحالی کے کام کے مخالف ہے۔ یہ بلاشبہ روح القدس کے ذریعے کیا گیا کام نہیں ہے، اور اس طرح یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا اس قسم کی کوشش کی تائید نہیں کرتا ہے۔ ایسی کوشش کی کیا اہمیت ہے جو خدا ہی کو منظور نہ ہو؟
پولس کے ذریعے کیے گئے کام کو انسان کے سامنے ظاہر کیا گیا تھا، لیکن جہاں تک یہ بات ہے کہ خدا کے لیے اس کی محبت کتنی خالص تھی اور اس نے اپنے دل کی گہرائی میں خدا سے کتنی محبت کی تھی – یہ چیزیں انسان نہیں دیکھ سکتا ہے۔ انسان صرف اُس کام کو ہی دیکھ سکتا ہے جو اُس نے کیا تھا، جس سے انسان کو یہ علم ہوتا ہے کہ اُسے یقیناً روح القدس نے استعمال کیا تھا، اور اِس لیے انسان سوچتا ہے کہ پولس پطرس سے بہتر تھا، اور یہ کہ اُس کا کام زیادہ عظیم تھا، کیونکہ وہ کلیسیاؤں کو فراہم کرنے کے قابل تھا۔ پطرس نے صرف اپنے ذاتی عملی تجربات کو ہی دیکھا اور اپنے کبھی کبھار کام کے دوران چند لوگوں کو ہی حاصل کیا تھا۔ اُس کی طرف سے صرف چند غیر معروف خطوط ہیں، لیکن کون جانتا ہے کہ اُس کے دل کی گہرائی میں خُدا کے لیے اُس کی محبت کتنی زیادہ تھی۔ پولس نے خدا کے لیے مسلسل کام کیا: جب تک کیا جانے والا کام باقی تھا، اس نے کام کیا۔ اس کا یہ خیال تھا کہ اس طریقے سے وہ تاج حاصل کرنے کا اہل ہو جائے گا، اور خدا کو مطمئن کر سکے گا، پھر بھی اس نے اپنے کام کے ذریعے خود اپنے آپ کو بدلنے کے طریقے تلاش نہیں کیے۔ پطرس کی زندگی میں کوئی بھی ایسی چیز ہوتی تھی جو خدا کی خواہش کو پورا نہیں کرتی تھی تو وہ بے چینی محسوس کرتا تھا۔ اگر یہ خدا کی خواہش کو پورا نہیں کرتی تھی، تو اسے ندامت محسوس ہوتی تھی، اور خدا کے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے کے لیے وہ ایک مناسب راستہ تلاش کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اپنی زندگی کے سب سے چھوٹے اور غیراہم پہلوؤں میں بھی، وہ خود اپنے آپ سے خدا کی خواہش کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا تھا۔ جب اس کے پرانے مزاج کی بات ہوئی تو وہ کم پرجوش نہیں تھا، اور وہ سچائی کی زیادہ گہرائی میں آگے بڑھنے کے لیے اپنے آپ سے تقاضوں میں ہمیشہ سخت گیر تھا۔ اس نے انسان کے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش کی، اور زندگی کے داخلے میں کوئی گہری ترقی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ جس چیز کی پرواہ کرتا تھا وہ نظریہ تھا، حقیقت نہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، "پولس نے خدا کے لیے اتنا کام کیا، خدا نے اسے کیوں یاد نہیں رکھا؟ لیکن پطرس نے خدا کے لیے تھوڑا سا کام کیا، اور کلیسیاؤں میں کوئی بڑی معاونت نہیں کی، تو پھر اسے کامل کیوں بنایا گیا؟" پطرس نے خُدا سے ایک خاص مقام تک محبت کی، جو خُدا کی طرف سے مطلوب تھی؛ صرف ایسے لوگوں کے پاس گواہی ہے۔ اور پولس کے بارے میں کیا ہے؟ پولس نے کس حد تک خدا سے محبت کی؟ کیا تجھے علم ہے؟ پولس کا کام کس لیے کیا گیا تھا؟ اور پطرس کا کام کس لیے کیا گیا تھا؟ پطرس نے زیادہ کام نہیں کیا، لیکن کیا تجھے علم ہے کہ اس کے دل کی گہرائیوں میں کیا تھا؟ پولس کا کام کلیسیاؤں کو فراہم کرنے اور کلیسیاؤں کی مدد کرنے سے متعلق تھا۔ پطرس نے جو عملی تجربہ کیا وہ اس کی زندگی کے مزاج میں تبدیلیاں تھیں؛ اس نے خدا کے لیے محبت کا عملی تجربہ کیا تھا۔ اب جب کہ تجھے ان کے جوہر میں فرق کا علم ہو گیا ہے، تو تُو یہ دیکھ سکتا ہے کہ کون، آخر کار، حقیقی معنوں میں خدا پر ایمان رکھتا تھا، اور کون خدا پر سچا ایمان نہیں رکھتا تھا۔ ان میں سے ایک نے خدا سے سچی محبت کی، اور دوسرے نے خدا سے سچی محبت نہیں کی؛ ایک اپنے مزاج میں تبدیلیوں کے عمل سے گزرا، اور دوسرا اس عمل سے نہیں گزرا؛ ایک نے عاجزی کے ساتھ خدمت کی اور لوگوں نے اس پر آسانی سے توجہ نہیں دی، اور دوسرے کی لوگوں نے پرستش کی، اور اس کی ایک عظیم شبیہ تھی؛ ایک نے تقدس کی جستجو کی، اور دوسرے نے نہیں کی، اور اگرچہ وہ ناپاک نہیں تھا، لیکن وہ ایک خالص محبت کا حامل نہیں تھا؛ ایک حقیقی انسانیت کا حامل تھا، اور دوسرا نہیں تھا؛ ایک خدا کی مخلوق کا احساس رکھتا تھا، اور دوسرا نہیں رکھتا تھا۔ پولس اور پطرس کے جوہر میں یہی فرق ہے۔ پطرس جس راستے پر چلا وہ کامیابی کا راستہ تھا، اور جو عام انسانیت کی بحالی اور خدا کی مخلوق کے فرض کو حاصل کرنے کا راستہ بھی تھا۔ پطرس ان تمام لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو کامیاب ہیں۔ پولس جس راستے پر چلا وہ ناکامی کا راستہ تھا، اور وہ ان سب لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے آپ کو صرف پیش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو سطحی طور پر صَرف کرتے ہیں، اور خدا سے حقیقی محبت نہیں کرتے ہیں۔ پولس ان سب لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو سچائی کے حامل نہیں ہیں۔ خدا پر اپنے ایمان میں، پطرس نے ہر چیز میں خدا کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، اور خدا کی طرف سے آنے والی ہر چیز کی فرمانبرداری کی کوشش کی۔ معمولی سی شکایت کیے بغیر، وہ سزا اور فیصلے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں تزکیے، مصیبت اور محرومیوں کو قبول کرنے کے قابل تھا، جن میں سے کوئی بھی چیز اس کی خدا کے لیے محبت کو تبدیل نہیں کر سکی۔ کیا یہ خدا کے لیے انتہا کی محبت نہیں تھی؟ کیا یہ خدا کی مخلوق کے فرض کی تکمیل نہیں تھی؟ آیا سزا میں، فیصلے میں یا مصیبت میں، تُو ہمیشہ موت تک اطاعت حاصل کرنے کے قابل ہے، اور یہ وہی ہے جو خدا کی مخلوق کو حاصل کرنا چاہیے، یہی خدا سے محبت کی پاکیزگی ہے۔ اگر انسان اتنا کچھ حاصل کر سکتا ہے تو وہ خدا کی قابل مخلوق ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے جو خالق کی خواہش کو بہتر طور پر پورا کر سکتی ہو۔ تصور کر کہ تو خدا کے لیے کام کرنے کا اہل ہے، لیکن پھر بھی تو خدا کی اطاعت نہیں کرتا ہے، اور خدا سے حقیقی محبت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف یہ کہ تو نے خدا کی مخلوق کا فرض ادا نہیں کیا ہے بلکہ تجھے خدا کی طرف سے ملامت بھی کی جائے گی، کیونکہ تو وہ ہے جو سچائی کا حامل نہیں ہے، جو خدا کی اطاعت کرنے کے قابل نہیں ہے، اور جو خدا کا نافرمان ہے۔ تُو صرف خدا کے لیے کام کرنے کی فکر کرتا ہے، اور سچائی پر عمل کرنے یا اپنے آپ کو جاننے کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ تُو خالق کو نہیں سمجھتا ہے یا تجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے، اور تُو خالق کی اطاعت یا اس سے محبت نہیں کرتا ہے۔ تُو ایسا شخص ہے جو جبلی طور پر خدا کا نافرمان ہے، اور اس لیے ایسے لوگ خالق کے محبوب نہیں ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں، "پولس نے بہت زیادہ مقدار میں کام کیا، اور اس نے کلیسیاؤں کا بہت زیادہ بوجھ اٹھایا اور ان کی بہت زیادہ معاونت کی۔ پولس کے تیرہ خطوط نے فضل کے دور کے 2،000 سال کو برقرار رکھا، اور چار انجیلوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ اس کے ساتھ کون موازنہ کر سکتا ہے؟ کوئی بھی یوحنا کے مکاشفے کی تشریح نہیں کر سکتا، جب کہ پولس کے خطوط زندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں، اور جو کام اس نے کیا وہ کلیسیاؤں کے لیے فائدہ مند تھا۔ ایسی چیزیں اور کون حاصل کر سکتا تھا؟ اور پطرس نے کیا کام کیا؟" جب انسان دوسروں کو جانچتا ہے تو وہ ان کی معاونت کے مطابق ایسا کرتا ہے۔ جب خدا انسان کو جانچتا ہے تو وہ انسان کی فطرت کے مطابق ایسا کرتا ہے۔ زندگی کی جستجو کرنے والوں میں، پولس ایک ایسا شخص تھا جسے خود اپنی اصل حقیقت کا علم نہیں تھا۔ وہ کسی بھی لحاظ سے عاجز یا فرمانبردار نہیں تھا، اور نہ ہی اسے اپنے اس جوہر کا علم تھا جو خدا کے خلاف تھا۔ اور اس طرح، وہ ایسا شخص تھا جس نے تفصیلی عملی تجربات نہیں کیے تھے، اور وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے سچ پر عمل نہیں کیا تھا۔ پطرس مختلف تھا۔ اسے خدا کی مخلوق کے طور پر اپنی خامیوں، کمزوریوں، اور اپنے بدعنوان مزاج کا علم تھا، اور اسی لیے اس کے پاس عمل کرنے کا ایک راستہ تھا جس کے ذریعے اسے اپنے مزاج کو تبدیل کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جن کے پاس صرف عقیدہ ہوتا ہے مگر ان کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جو لوگ تبدیل ہوتے ہیں وہ نئے لوگ ہیں جو بچا لیے گئے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو سچائی کی جستجو کرنے کے اہل ہیں۔ جو لوگ تبدیل نہیں ہوتے ہیں وہ ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جو فطری طور پر پسماندہ ہوتے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں جو بچائے نہیں گئے ہیں، یعنی وہ ایسے لوگ ہیں جن سے خدا نفرت کرتا ہے اور جنھیں مسترد کر دیتا ہے۔ ان کو خدا یاد نہیں رکھے گا چاہے ان کا کام کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو۔ جب تو اس کا موازنہ اپنی جستجو کے ساتھ کرتا ہے، تو یہ بات خود بخود واضح ہو جانی چاہیے کہ تو بالآخر پولس کی قسم کا شخص ہے یا پطرس کی قسم کا۔ تو جس کی کوشش کرتا ہے اگر اس میں اب بھی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور اگر تو آج بھی پولس کی طرح مغرور اور گستاخ ہے، اور ابھی بھی اس کی طرح چرب زبان اور شیخیاں بگھارنے والا ہے، تو پھر تو بلا شبہ ایک زوال پذیر شخص ہے جو کہ ناکام رہ جاتا ہے۔ اگر تو پطرس کی طرح کوشش کرتا ہے، اگر تو عمل کرنے کے طریقوں اور حقیقی تبدیلیوں کے لیے کوشش کرتا ہے، اور تو مغرور یا ضدی نہیں ہے بلکہ اپنا فرض انجام دینے کی کوشش کرتا ہے، تو تب تو خدا کی ایسی مخلوق ہو گا جو فتح حاصل کر سکتا ہے۔ پولس کو اپنے جوہر یا بدعنوانی کا علم نہیں تھا، اور اپنی نافرمانی کا علم ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ اُس نے کبھی بھی مسیح کے بارے میں اپنی قابلِ نفرت سرکشی کا ذکر نہیں کیا، اور نہ ہی وہ ضرورت سے زیادہ پشیمان تھا۔ اس نے صرف ایک مختصر سی وضاحت پیش کی اور اپنے دل کی گہرائیوں میں، اس نے مکمل طور پر خدا کی اطاعت نہیں کی۔ اگرچہ وہ دمشق کی سڑک پر گرا، مگر اس نے اپنے اندر گہرائی تک نہیں دیکھا۔ وہ محض کام کرتے رہنے پر مطمئن تھا، اور اس نے اپنے آپ کو جاننے اور اپنے پرانے مزاج کو تبدیل کرنے کو انتہائی اہم مسائل نہیں سمجھا۔ وہ محض سچ بولنے سے مطمئن تھا، وہ خود اپنے ضمیر کو روحانی تسکین پہنچانے کے لیے دوسروں کو سامان فراہم کرتا تھا، اور یسوع کے شاگردوں کو اس بات کے لیے مزید نہیں ستاتا تھا کہ وہ اس کو دلاسا دیں اور اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیں۔ اس نے جس مقصد کی جستجو کی وہ مستقبل کے تاج اور عارضی کام سے زیادہ کچھ نہیں تھا، جس مقصد کی اس نے جستجو کی وہ بہت زیادہ فضل تھا۔ اس نے زیادہ سچائی کے لیے کوشش نہیں کی، اور نہ ہی اس نے اس سچائی کی زیادہ گہرائی میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جسے وہ پہلے نہیں سمجھ سکا تھا۔ اس لیے اس کے اپنے بارے میں علم کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے، اور اس نے سزا یا فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ اور یہ کہ وہ کام کرنے کے قابل تھا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے خود اپنی فطرت یا جوہر کا علم تھا۔ اس کی توجہ صرف خارجی طور پر عمل کرنے کے طریقوں پر تھی۔اس کے علاوہ اس نے جس چیز کے لیے کوشش کی وہ تبدیلی نہیں بلکہ علم تھا۔ اس کا کام مکمل طور پر دمشق کے راستے پر یسوع کے ظہور کے نتیجے میں تھا۔ یہ وہ کام نہیں تھا جو اس نے اصل میں کرنے کا عزم کیا تھا، اور نہ ہی یہ وہ کام تھا جو اس نے اپنے پرانے مزاج کی تراش خراش کو قبول کرنے کے بعد کیا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس نے کیسے کام کیا، اس کا پرانا مزاج تبدیل نہیں ہوا تھا، اور اسی وجہ سے اس کے کام نے اس کے گزشتہ گناہوں کی تلافی نہیں کی بلکہ اس وقت کی کلیسیاﺆں میں محض ایک مخصوص کردار ادا کیا۔ اس طرح کے کسی شخص کے لیے، جس کا پرانا مزاج تبدیل نہیں ہوا – یعنی جس نے نجات حاصل نہیں کی، اور مزید سچائی کے بغیر تھا – وہ خُداوند یسوع کی طرف سے قبول کیے جانے والوں میں سے ایک بننے کے لیے قطعی طور پر نااہل تھا۔ وہ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو یسوع مسیح کے لیے محبت اور احترام سے معمور تھا، اور نہ ہی وہ کوئی ایسا شخص تھا جو سچائی کی جستجو میں ماہر تھا، اس کے ایسا شخص ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ جو تجسیم کے اسرار کی جستجو کرتا تھا۔ وہ محض ایک ایسا شخص تھا جو سوفسطائیت میں ماہر تھا، اور جو کسی ایسے شخص کے سامنے نہیں جھکتا تھا جو اس سے اعلیٰ تھا یا جو سچائی کے حامل تھا۔ وہ ان لوگوں یا سچائیوں سے حسد کرتا تھا جو اس کے خلاف تھیں، یا اس کی دشمن تھیں، اور وہ ان باصلاحیت لوگوں کو ترجیح دیتا تھا جو ایک عظیم شبیہ پیش کرتے تھے اور گہرے علم کے حامل تھے۔ وہ ایسے غریب لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھنا پسند نہیں کرتا تھا جو سچے راستے کی جستجو کرتے تھے اور جو سچائی کے سوا کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور اس کی بجائے اس نے مذہبی تنظیموں کی بڑی شخصیات کے ساتھ تعلق رکھا جو صرف عقائد کی بات کرتے تھے، اور جو بہت زیادہ علم کے حامل تھے۔ اسے روح القدس کے نئے کام سے کوئی محبت نہیں تھی اور اسے روح القدس کے نئے کام کے آگے بڑھنے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس کی بجائے، اس نے ان اصولوں اور عقائد کی حمایت کی جو کہ عام سچائیوں سے بلند تھے۔ اپنی جبلی حقیقت اور اپنی تمام تر جستجو میں، وہ ایک ایسا مسیحی کہلانے کا حقدار نہیں ہے جس نے سچائی کی پیروی کی ہو، اور خدا کے گھر میں ایک وفادار خادم کہلانے کے قابل ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے، کیونکہ اس کی منافقت بہت زیادہ تھی، اور اس کی نافرمانی بہت زیادہ تھی۔ اگرچہ وہ خُداوند یسوع کے خادم کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن وہ آسمان کی بادشاہی کے دروازے میں داخل ہونے کے بالکل بھی لائق نہیں تھا، کیونکہ آغاز سے لے کر اختتام تک اس کے اعمال کو راستباز نہیں کہا جا سکتا۔ اسے محض ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو منافق تھا، اور برائی کرتا تھا، لیکن پھر بھی اس نے مسیح کے لیے کام کیا۔ اگرچہ اُسے بُرا نہیں کہا جا سکتا، لیکن اُسے مناسب طور پر ایک ایسا انسان کہا جا سکتا ہے جس نے برائی کی۔ اس نے بہت سا کام کیا، مگر پھر بھی اسے کام کی مقدار پر نہیں بلکہ صرف اس کے معیار اور جوہر کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ صرف اسی طریقے سے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ممکن ہے۔ اسے ہمیشہ یقین تھا: "میں کام کرنے کے قابل ہوں، میں اکثر لوگوں سے بہتر ہوں؛ خداوند کی ذمہ داری کے بوجھ کا جتنا مجھے خیال ہے کسی اور کو نہیں ہے، اور کوئی بھی میری طرح گہرائی سے توبہ نہیں کرتا ہے، کیونکہ عظیم روشنی مجھ پر چمکی تھی، اور میں نے عظیم روشنی کو دیکھا تھا، اور اس لیے میری توبہ کسی دوسرے سے زیادہ گہری ہے۔" اس وقت اس نے اپنے دل میں یہی سوچا تھا۔ اپنا کام ختم ہونے پر، پولس نے کہا: "میں نے لڑائی لڑی ہے، میں نے آگے بڑھنے کا اپنا عمل مکمل کر لیا ہے، اور میرے لیے راستبازی کا تاج رکھا گیا ہے۔" اس کی لڑائی، کام، اور آگے بڑھنے کا عمل مکمل طور پر راستبازی کے تاج کی خاطر تھا، اور وہ فعال طور پر آگے نہیں بڑھا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے کام کو سرسری طور پر نہیں کرتا تھا، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کام محض اس کی غلطیوں کی تلافی اور اس کے ضمیر کے الزامات کی تلافی کے لیے کیا گیا تھا۔ وہ صرف اپنے کام کو جلد از جلد مکمل کرنے، اپنے آگے بڑھنے کے عمل کو ختم کرنے، اور اپنی لڑائی لڑنے کی امید رکھتا تھا، تاکہ وہ جلد از جلد راستبازی کا وہ تاج حاصل کر سکے جس کی اسے شدید خواہش تھی۔ وہ جس چیز کی شدید آرزو رکھتا تھا وہ اپنے تجربات اور حقیقی علم کے ساتھ خداوند یسوع سے ملاقات کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے کام کو جلد از جلد مکمل کرنا تھا، تاکہ اسے وہ انعامات حاصل ہوں جن کا وہ اپنے کام کی وجہ سے اس وقت حقدار ہوا تھا جب اس نے خداوند یسوع سے ملاقات کی تھی۔ اس نے اپنے کام کو خود کو تسلی دینے کے لیے استعمال کیا، اور مستقبل کے تاج کے بدلے ایک سودا کیا۔ اس نے جس چیز کی جستجو کی وہ سچائی یا خدا نہیں بلکہ صرف تاج تھا۔ ایسی جستجو معیاری کیسے ہو سکتی ہے؟ اس کی حوصلہ افزائی، اس کا کام، اس نے جو قیمت ادا کی، اور اس کی تمام کوششیں – ان سب پر اس کے حیرت انگیز تصورات چھائے ہوئے تھے، اور اس نے مکمل طور پر اپنی خواہشات کے مطابق کام کیا۔ اپنے پورے کام میں، اس نے جو قیمت ادا کی تھی اس میں اس کی ذرا سی بھی رضامندی شامل نہیں تھی؛ وہ صرف ایک سودے بازی کرنے میں مصروف تھا۔ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اس کی کوششیں اس کی اپنی رضامندی سے نہیں کی گئی تھیں بلکہ اس سودے بازی کے ہدف کے حصول کے لیے خوشی سے کی گئی تھیں۔ کیا ایسی کوششوں کا کوئی فائدہ ہے؟ اس کی ناپاک کوششوں کی کون تعریف کرے گا؟ ایسی کوششوں میں کس کو کوئی دلچسپی ہے؟ اس کا کام مستقبل کے خوابوں سے بھرا ہوا تھا، شاندار منصوبوں سے بھرا ہوا تھا، اور اس میں انسانی مزاج کو تبدیل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کی بہت سی فیاضیاں ایک دکھاوا تھا۔ اس کا کام زندگی کا سامان فراہم نہیں کرتا تھا، بلکہ خوش اخلاقی کا فریب تھا۔ یہ ایک سودے بازی کی تیاری تھی۔ اس طرح کا کام انسان کو اپنے اصل فرض کی بحالی کی راہ پر کیسے لے جا سکتا ہے؟
جو کچھ پطرس نے چاہا وہ خدا کی رضا کے لیے تھا۔ اس نے خدا کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی، اور مصیبت اور ابتلا سے قطع نظر، وہ پھر بھی خدا کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے تیار تھا۔ خدا پر ایمان رکھنے والے کی طرف سے اس سے بڑی کوئی کوشش نہیں ہے۔ پولس نے جس چیز کی جستجو کی وہ اس کے اپنے جسم، اس کے اپنے تصورات، اور اس کے اپنے منصوبوں اور سازشوں سے داغدار تھی۔ وہ کسی بھی طرح خدا کی ایک اہل مخلوق نہیں تھا، وہ ایسا نہیں تھا جس نے خدا کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی ہو۔ پطرس نے خُدا کی ترتیب اور منصوبوں کی اطاعت کرنے کی کوشش کی، اور اگرچہ اُس نے جو کام کیا وہ عظیم نہیں تھا، لیکن اُس کی جستجو کے پیچھے ترغیبات اور وہ راستہ جس پر وہ چل رہا تھا، درست تھا؛ اگرچہ وہ بہت سے لوگوں کو حاصل کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن وہ سچائی کی راہ کی جستجو کرنے کے قابل تھا۔ اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدا کی ایک اہل مخلوق تھا۔ آج، اگر تو ایک کارکن نہیں ہے تو پھر بھی تجھے خدا کی مخلوق کا فرض انجام دینے کے قابل ہونا چاہیے اور تجھے خدا کی تمام ترتیب اور منصوبوں کے تابع ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تجھے خدا کی ہر بات کی فرمانبرداری کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور ہر انداز کی مصیبتوں اور تزکیے کا عملی تجربہ کرنا چاہیے، اور اگرچہ تو کمزور ہے لیکن پھر بھی تجھے اپنے دل میں خدا سے محبت کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ جو لوگ اپنی زندگی کی ذمہ داری لیتے ہیں وہ خدا کی مخلوق کا فرض انجام دینے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کا جستجو کے بارے میں نقطہ نظر درست ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا کو ضرورت ہے۔ اگر تو نے بہت زیادہ کام کیا ہے، اور دوسروں نے تیری تعلیمات حاصل کی ہیں، لیکن تو خود تبدیل نہیں ہوا ہے، اور نہ ہی کوئی گواہی دی ہے، یا تیرے پاس کوئی سچا عملی تجربہ نہیں ہے، جیسا کہ اپنی زندگی کے اختتام پر ابھی تک تو نے جو کچھ بھی کیا ہے اس میں سے کسی میں بھی کوئی گواہی نہیں ہے، تو پھر کیا تو ایسا شخص ہے جو تبدیل ہو چکا ہے؟ کیا تو ایسا شخص ہے جو سچ کی جستجو کرتا ہے؟ اس وقت، روح القدس نے تجھے استعمال کیا تھا، لیکن جب اس نے تجھے استعمال کیا، تو اس نے تیرے اس حصے کو استعمال کیا جو کام کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا تھا، اور اس نے تیرے اس حصے کو استعمال نہیں کیا جو استعمال نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر تو تبدیل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو تجھے استعمال کیے جانے کے عمل کے دوران آہستہ آہستہ کامل بنا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود روح القدس اس بات کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتی ہے کہ آیا بالآخر تجھے حاصل کیا جائے گا یا نہیں، اور اس کا انحصار تیری جستجو کے انداز پر ہے۔ اگر تیرے ذاتی مزاج میں کوئی تبدیلیاں نہیں آئی ہیں، تو پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ تیرا جستجو کرنے کا نقطہ نظر درست نہیں ہے۔ اگر تجھے کوئی انعام عطا نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ تیرا اپنا مسئلہ ہے، اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تو نے خود سچ پر عمل نہیں کیا ہے اور خدا کی خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ اور اس طرح، تیرے ذاتی تجربات سے بڑھ کر کوئی بھی چیز اہم نہیں ہے، اور کوئی بھی چیز تیرے ذاتی داخلے سے بڑھ کر اہم نہیں ہے! کچھ لوگ آخرکار یہ کہیں گے، "میں نے تیرے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے، اور اگرچہ میں نے کوئی مشہور کامیابی حاصل نہیں کی ہے، مگر پھر بھی میں اپنی کوششوں میں مستعد رہا ہوں۔ کیا تو مجھے زندگی کا پھل کھانے کے لیے جنت میں بالکل جانے نہیں دے سکتا؟" تجھے لازمی طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے کس قسم کے لوگوں کی خواہش ہے؛ وہ جو ناپاک ہیں انھیں بادشاہی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، وہ جو ناپاک ہیں انھیں مقدس زمین کو آلودہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تو نے بہت زیادہ کام کیا ہو، اور کئی برسوں تک کام کیا ہو، لیکن آخر میں اگر تو پھر بھی قابلِ مذمت حد تک غلیظ ہے تو یہ آسمانی قانون کے لیے ناقابل برداشت ہوگا کہ تو میری بادشاہی میں داخل ہونے کی خواہش کرے! دنیا کے قیام سے لے کر آج تک میں نے کبھی بھی ان لوگوں کو اپنی بادشاہی میں آسان رسائی نہیں دی ہے جو میری خوشامد کرتے ہیں۔ یہ ایک آسمانی اصول ہے، اور اسے کوئی نہیں توڑ سکتا! تجھے لازمی طور پر زندگی کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج، جنھیں کامل بنایا جائے گا وہ پطرس کی طرح ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مزاج میں تبدیلیاں چاہتے ہیں اور جو خدا کی گواہی دینے اور خدا کی مخلوق کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ صرف ایسے لوگوں کو کامل بنایا جائے گا۔ اگر تیری نظر صرف انعامات پر ہے اور تو اپنی زندگی کے مزاج کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تو پھر تیری تمام کوششیں بے کار ہوں گی – یہ ایک اٹل حقیقت ہے!
پطرس اور پولس کے جوہر میں فرق سے تجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تمام لوگ جو زندگی کی جستجو نہیں کرتے ہیں ان کی محنت بے کار ہوتی ہے! تو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے، اور اسی طرح تجھے اپنے دل میں لازمی طور پر خدا سے محبت کرنی چاہیے۔ تجھے اپنے بدعنوان مزاج کو لازمی طور پر ترک کر دینا چاہیے، تجھے خدا کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش لازمی طور پر کرنی چاہیے، اور تجھے خدا کی مخلوق کا فرض لازمی طور پر ادا کرنا چاہیے۔ چونکہ تو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے، اس لیے تجھے سب کچھ اس کے سامنے پیش کر دینا چاہیے، اور ذاتی انتخاب یا مطالبات نہیں کرنے چاہییں، اور تجھے خدا کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ تجھے تخلیق کیا گیا ہے، اور چونکہ تو جبلی طور پر اپنے آپ پر اختیار نہیں رکھتا ہے، اور تو اپنی قسمت پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے، اس لیے تجھے اس خداوند کی اطاعت کرنی چاہیے جس نے تجھے تخلیق کیا ہے۔ چونکہ تو ایک ایسا شخص ہے جو خدا پر ایمان رکھتا ہے، اس لیے تجھے تقدس اور تبدیلی کی کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ تو خدا کی مخلوق ہے اس لیے تجھے اپنے فرض کی تعمیل کرنی چاہیے اور اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہیے اور اپنے فرض سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تجھے محدود کرنے یا تجھے عقیدے کے ذریعے دبانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعے تو اپنا فرض ادا کر سکتا ہے، اور اسے حاصل کیا جا سکتا ہے – ان سب لوگوں کو جو نیکی کرتے ہیں – اسے حاصل کرنا چاہیے۔ اگر تو پطرس اور پولس کے جوہر کا موازنہ کرے تو تجھے معلوم ہو گا کہ کوشش کس طرح کرنی چاہیے۔ جن راستوں پر پطرس اور پولس چلے تھے، ان میں سے ایک کامل بنائے جانے کا راستہ ہے، اور ایک باہر نکال دیے جانے کا راستہ ہے؛ پطرس اور پولس دو مختلف راستوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ ہر ایک کو روح القدس کا کام ملا تھا، اور ہر ایک نے روح القدس کی آگہی اور روشنی حاصل کی تھی، اور ہر ایک نے اسے قبول کیا تھا جو خداوند یسوع کی طرف سے ان کے سپرد کیا گیا تھا، لیکن ہر ایک کی بارآوری ایک جیسی نہیں تھی: ایک حقیقی طور پر بارآور ہوا، اور دوسرا نہیں ہوا۔ ان کے جوہر، انھوں نے جو کام کیا، ان کی طرف سے جو بیرونی طور پر ظاہر کیا گیا، اور ان کے آخری انجام سے، تجھے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ تجھے کون سے راستے کو اختیار کرنا چاہیے، تجھے چلنے کے لیے کس راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ وہ دو واضح طور پر مختلف راستوں پر چلے تھے۔ پولس اور پطرس، وہ ہر ایک راستے کا نمونہ تھے، اور اسی لیے شروع ہی سے ان دونوں راستوں کی مثال دینے کے لیے ان کو بلند کیا گیا تھا۔ پولس کے عملی تجربات کے اہم نکات کیا ہیں، اور اس نے یہ کیوں نہیں کیا؟ پطرس کے تجربات کے اہم نکات کیا ہیں، اور اس نے کامل بنائے جانے کا تجربہ کیسے کیا؟ اگر تو یہ موازنہ کرے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کس چیز کی پرواہ کرتا تھا، تو تجھے یہ علم ہو گا کہ خدا بالکل کس قسم کا شخص چاہتا ہے، خدا کی مرضی کیا ہے، خدا کا مزاج کیا ہے، آخرکار کس قسم کا شخص کامل بنایا جائے گا، اور یہ بھی کہ کس قسم کا شخص کامل نہیں بنایا جائے گا؛ تجھے معلوم ہو گا کہ ان لوگوں کا مزاج کیا ہے جو کامل بنائے جائیں گے، اور ان لوگوں کا مزاج کیا ہے جو کامل نہیں بنائے جائیں گے – پطرس اور پولس کے عملی تجربات میں جوہر کے یہ مسائل دیکھے جا سکتے ہیں۔ تمام چیزوں کو خدا نے تخلیق کیا ہے، اور اسی لیے وہ تمام مخلوق کو اپنی حاکمیت میں لاتا ہے اور اپنی حاکمیت کے تابع کرتا ہے؛ وہ سب چیزوں کو حکم دے گا تاکہ سب چیزیں اس کے اختیار میں ہوں۔ خدا کی تمام مخلوق، بشمول جانور، پودے، بنی نوع انسان، پہاڑ اور دریا، اور جھیلیں – سب کو لازمی طور پر اس کی حاکمیت میں آنا چاہیے۔ آسمانوں میں اور زمین کی تمام چیزوں کو لازمی طور پر اس کی حاکمیت میں آنا چاہیے۔ ان کے پاس کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا اور سب کو اس کی ترتیب اور منصوبوں کے تابع ہونا چاہیے۔ اس کا حکم خدا کی طرف سے دیا گیا تھا، اور یہ خدا کا اختیار ہے۔ خدا ہر چیز کا حاکم ہے، اور وہ اپنی مرضی کے مطابق سب چیزوں کو حکم دیتا ہے اور ہر چیز کی اس کی قسم اور اس کے اپنے مقام کے مطابق درجہ بندی کرتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی چیز کتنی عظیم ہے، کوئی بھی چیز خدا سے آگے نہیں بڑھ سکتی، تمام چیزیں خدا کی بنائی ہوئی نوع انسانی کی خدمت کرتی ہیں، اور کوئی چیز خدا کی نافرمانی یا خدا سے کوئی مطالبات کرنے کی جرات نہیں کرتی۔ اس لیے انسان کو خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے انسان کا فرض بھی لازمی طور پر طور پر ادا کرنا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ ہر چیز کا مالک ہو یا نگران، اس بات سے قطع نظر کہ سب چیزوں میں انسان کا درجہ کتنا بلند ہے، پھر بھی وہ خدا کی حاکمیت میں ایک چھوٹا سا انسان ہے، اور ایک معمولی انسان سے زیادہ کچھ بھی نہیں، وہ خدا کی ایک مخلوق ہے اور وہ کبھی بھی خدا سے بلند نہیں ہوگا۔ خدا کی ایک مخلوق کے طور پر، انسان کو خدا کی مخلوق کا فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور کسی دوسرے انتخاب کے بغیر خدا سے محبت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ خدا انسان کی محبت کے لائق ہے۔ جو لوگ خدا سے محبت کرنے کی جستجو کرنا چاہتے ہیں انھیں کسی ذاتی فوائد کی جستجو نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اس چیز کی جس کی وہ ذاتی خواہش رکھتے ہیں؛ یہ جستجو کرنے کے سب سے زیادہ درست ذرائع ہیں۔ اگر تو جس چیز کی جستجو کرتا ہے وہ سچائی ہے، اگر تو جس چیز پر عمل کرتا ہے وہ سچائی ہے، اور اگر تو جو حاصل کرتا ہے وہ تیرے مزاج کی تبدیلی ہے، تو پھر تُو جس راستے پر چلتا ہے وہ درست ہے۔ اگر تو جس چیز کی جستجو کرتا ہے وہ جسمانی برکتیں ہیں، اور تو جس چیز پر عمل کرتا ہے وہ تیرے اپنے تصورات کی سچائی ہے، اور اگر تیرے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، اور تو جسم میں خدا کا بالکل بھی فرمانبردار نہیں ہے۔ اور تو اب بھی ابہام کی کیفیت میں رہتا ہے، تو پھر جس چیز کی تو جستجو کر رہا ہے وہ یقیناً تجھے جہنم میں لے کر جائے گی، کیونکہ تو جس راستے پر چلتا ہے وہ ناکامی کا راستہ ہے۔ آیا تجھے کامل بنایا جائے گا یا باہر نکال دیا جائے گا، اس کا انحصار تیری اپنی جستجو پر ہے، جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس راستے پر ہوتا ہے جس پر انسان چلتا ہے۔