تُوایمان کے بارے میں کیا جانتا ہے؟

انسان کے اندر ایمان کا صرف مبہم لفظ موجود ہوتا ہے، پھر بھی انسان نہیں جانتا کہ ایمان کیا ہے، کجا یہ کہ وہ ایمان کیوں رکھتا ہے۔ انسان بہت کم سمجھتا ہے، اور انسان میں خود بہت کمی ہے۔ مگر مجھ پر اس کا ایمان احمقانہ اورجاہلانہ ہے۔ حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ ایمان کیا ہے، اور نہ ہی یہ کہ وہ مجھ پر ایمان کیوں رکھتا ہے، لیکن مجھ پر اس کا ایمان جنونی طور پر برقرار رہتا ہے۔ میں انسان سے جو کچھ مانگتا ہوں وہ صرف اس طرح سے جنونی انداز میں مجھے پکارنا یا مہمل انداز میں ایمان رکھنا نہیں ہے، کیونکہ میں جو کام کرتا ہوں وہ اس لیے کرتا ہوں کہ انسان مجھے دیکھے، اور مجھے پہچانے، اس لیے نہیں کہ انسان متاثر ہوتا ہے اور مجھے ایک نئی روشنی میں دیکھتا ہے۔ میں نے ایک بار بہت سی نشانیاں اور عجائبات ظاہر کیے اور بہت سے معجزے دکھائے، اور اس وقت کے بنی اسرائیل نے میری بہت تعریف کی اور بیماروں کو شفا دینے اور شیطانی ارواح نکالنے کی میری غیر معمولی صلاحیت کا بہت احترام کیا۔ اس وقت، یہودیوں نے میری قوتِ شفا بخشی کو ماہرانہ، غیر معمولی سمجھا – اور میرے بہت سے کاموں کی وجہ سے، وہ سب میری تعظیم کرتے تھے، اور میری تمام طاقتوں کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اس طرح، جن لوگوں نے مجھے معجزات دکھاتے ہوئے دیکھا، انھوں نے قریب سے میرا پیچھا کیا، اس طرح کہ ہزاروں لوگوں نے مجھے بیمار کو شفا بخشتے ہوئے دیکھنے کے لیے گھیر لیا۔ میں نے بہت ساری نشانیاں اور عجائبات ظاہر کیں، پھر بھی لوگوں مجھے صرف ایک ماہر طبیب کے طور پر دیکھتے تھے؛ پس، اس طرح، اس وقت میں نے لوگوں میں بہت سے تدریسی کلمات ادا کئے تھے، پھر بھی وہ مجھے اپنے شاگردوں کے مقابلے میں محض ایک برتر استاد سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ آج بھی، میرے کام کے تاریخی نوشتے دیکھنے کے باوجود، ہنوز ان کی یہ تفسیر جاری ہے کہ میں ایک عظیم طبیب ہوں جو بیماروں کو شفا دیتا ہے اور جاہلوں کا استاد ہوں اور انھوں نے مجھے بطور مہربان خداوند یسوع مسیح بیان کیا ہے۔ جو لوگ صحیفوں کی تشریح کرتے ہیں وہ شفایابی میں میری صلاحیتوں سے آگے نکل گئے ہوں گے، یا ایسے شاگرد بھی ہوں گے جو اب اپنے استاد سے آگے نکل گئے ہوں گے، پھر بھی ایسے عظیم نامور لوگ، جن کے نام دنیا بھر میں مشہور ہیں، مجھے اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ میں فقط ایک طبیب ہوں۔ میرے کام ساحلوں پر ریت کے ذروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں اور میری حکمت تمام بنی سلیمان پر سبقت رکھتی ہے، پھر بھی لوگ مجھے محض ایک معمولی درجے کا طبیب اور انسان کا گم نام استاد سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ شاید میں انھیں شفا دے سکوں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں کہ شاید میں اپنی طاقتیں استعمال کرتے ہوئے ان کے جسموں سے ناپاک روحیں نکال سکوں، اور بہت سے لوگ محض اس لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں کہ شاید وہ مجھ سے سکون اور خوشی حاصل کرسکیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر صرف اس لیے ایمان رکھتے ہیں تاکہ وہ مجھ سے عظیم تر مادی دولت کا مطالبہ کرسکیں۔ بہت سے لوگ مجھ پر اس لیے ایمان رکھتے ہیں تاکہ وہ یہ زندگی سکون سے گزار سکیں اور آنے والی دنیا میں محفوظ اور صحت مند رہ سکیں۔ بہت سے لوگ جہنم کی تکلیف سے بچنے اور جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ صرف عارضی سکون کے لیے مجھ پر ایمان رکھتے ہیں، پھر بھی آنے والی دنیا میں کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جب میں نے انسان پر اپنا غضب نازل کیا اور وہ تمام خوشی اور سکون چھین لیا جو کبھی اس کے پاس تھا تو انسان شک میں پڑ گیا۔ جب میں نے انسان کو جہنم کی تکلیف دی اور جنت کی نعمتیں واپس لے لیں تو انسان کی شرمندگی غصے میں بدل گئی۔ جب انسان نے مجھ سے شفا دینے کے لیے کہا تو میں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس سے نفرت محسوس کی؛ انسان مجھ سے دور ہو گیا، بجائے اس کے کہ وہ میرے قریب آنے کی کوشش کرتا اس نے شیطانی طریقہ علاج اور جادو ٹونےکا راستہ اختیار کیا۔ جب میں نے وہ سب کچھ چھین لیا جو آدمی نے مجھ سے مانگا تھا، تو سب کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوگئے۔ اس طرح، میں کہتا ہوں کہ آدمی مجھ پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ میں بہت زیادہ فضل کرنے والا ہوں، اور حاصل کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ یہودی میرے فضل کی وجہ سے مجھ پر ایمان لائے اور میں جہاں بھی گیا انھوں نے میرا پیچھا کیا۔ محدود علم اور تجربے کے حامل یہ جاہل لوگ صرف وہی نشانیاں اور عجائبات دیکھنے کی کوشش کرتے تھے جنھیں میں نے ظاہر کیا تھا۔ وہ مجھے یہودیوں کے گھر کا سربراہ سمجھتے تھے جو سب سے بڑے معجزے کرسکتا تھا۔ اور اس طرح جب میں نے انسانوں کے اندر سے شیطانی ارواح نکالیں، تو یہ فعل ان کے درمیان سخت بحث کا سبب بن گیا: انھوں نے کہا کہ میں ایلیا تھا، میں موسیٰ تھا، کہ میں تمام انبیا میں سب سے قدیم تھا، یہ کہ میں تمام اطبا میں سب سے بڑا تھا۔ بذات خود یہ کہنے کے باوجود کہ میں زندگی، راستہ اور سچائی ہوں، کوئی بھی میرا وجود یا میری شناخت نہیں جان سکا۔ بذات خود یہ کہنے کے باوجود کہ جنت وہ جگہ ہے جہاں میرا باپ رہتا ہے، کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور خود خدا بھی ہوں۔ بذات خود یہ کہنے کے باوجود کہ میں تمام بنی نوع انسان کو خلاصی دوں گا اور انسانوں کا فدیہ دوں گا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں ہی بنی نوع انسان کا خلاصی دہندہ ہوں، اور لوگ مجھے صرف ایک مہربان اور ہمدرد آدمی کے طور پر جانتے تھے۔ اور سوائےاس کے کہ میں اپنے بارے میں جو کچھ بھی ہے اس کی وضاحت کرنے کے قابل ہوں، کوئی مجھے نہیں جانتا تھا، اور کسی نے یقین نہیں کیا تھا کہ میں زندہ خدا کا بیٹا ہوں۔ مجھ پر لوگوں کا ایمان ایسا ہی ہے، اور جس طرح وہ مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ میرے بارے میں ایسے خیالات رکھتے ہیں تو وہ میری گواہی کیسے دے سکتے ہیں؟

لوگ مجھ پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن وہ میری گواہی دینے سے قاصر ہیں، اور نہ ہی میرے ظاہر ہونے سے قبل وہ میری گواہی دے سکتے ہیں۔ لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ میں مخلوقات اور تمام مقدس مردوں سے برتر ہوں، اور یہ دیکھتے ہیں کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ آدمی نہیں کر سکتے۔ اس طرح یہودیوں سے لے کر آج کے زمانے کے لوگوں تک، جو بھی میرے پُرشکوہ کام دیکھ رہے ہیں، ان کے دل میں میرے تئیں تجسس کے سوا کچھ نہیں، اور کسی ایک مخلوق کا منہ بھی میری گواہی دینے کے قابل نہیں رہا۔ صرف میرے باپ نے میرے لیے گواہی دی، اور تمام مخلوقات میں میرے لیے راستہ بنایا۔ اگر وہ نہ کرتا، اس سے قطع نظر کہ میں نے کیسے کام کیا، انسان کو کبھی معلوم نہ ہوتا کہ میں مخلوق کا خداوند ہوں، کیونکہ انسان صرف مجھ سے لینا جانتا ہے اور میرے کام کے نتیجے میں مجھ پر ایمان نہیں رکھتا۔ انسان مجھے صرف اس لیے جانتا ہے کہ میں معصوم ہوں اور کسی بھی طرح سے گنہگار نہیں ہوں، کیونکہ میں بہت سے اسرار بیان کرسکتا ہوں، اس لیے کہ میں ہجوم سے بالاتر ہوں، یا اس لیے کہ انسان نے مجھ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے، پھر بھی بہت کم لوگ مانتے ہیں کہ میں مخلوق کا خداوند ہوں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ آدمی نہیں جانتا کہ وہ مجھ پر کیوں ایمان رکھتا ہے؛ وہ مجھ پر ایمان رکھنے کا مقصد یا اہمیت نہیں جانتا۔ انسان کےپاس حقیقت کی کمی ہے یوں کہ وہ بمشکل میری گواہی دینے کا اہل ہے۔ تمھارے پاس بہت کم سچا ایمان ہے، اور تم نے بہت کم حاصل کیا ہے، لہٰذا تمھارے پاس بہت کم گواہی ہے۔ مزید برآں، تم بہت کم سمجھتے ہو اور تمھارے اندر بہت زیادہ کمی ہے، اس طرح کہ تم میرے اعمال کی گواہی دینے کے لیے تقریباً نا اہل ہو۔ تمھارا عزم واقعی قابلِ غور ہے، لیکن کیا تمھیں یقین ہے کہ تم کامیابی کے ساتھ خدا کی ذات کی گواہی دینے کے قابل ہو جاؤ گے؟ تم نے جو تجربہ کیا ہے اور جو دیکھا ہے وہ تمام زمانوں کے مقدسین اور انبیا سے بڑھ کر ہے، لیکن کیا تم ماضی کے ان مقدسین اور انبیاکے کلام سے زیادہ بڑی گواہی دینے پر قادر ہو؟ اب میں تمھیں جو کچھ عطا کر رہا ہوں وہ موسیٰ پر سبقت لے جا رہا ہے اور داؤد کو ماند کر رہا ہے، ٹھیک اسی طرح میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ تمھاری گواہی موسیٰ پر سبقت لے جائے اور تمھارے الفاظ داؤد سے بڑھ کر ہوں۔ میں تم کو سو گنا دیتا ہوں – لہٰذا اسی طرح میرا تم سے مطالبہ ہے کہ مجھے اس کا صلہ برابری سے دو۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بنی نوع انسان کو زندگی بخشنے والا میں ہوں، اور تم ہی ہو جو مجھ سے زندگی پاتے ہو اور تمھیں لازمی طور پر میری گواہی دینا چاہیے۔ یہ تمھارا فرض ہے جو میں تم پر عاید کرتا ہوں اور جو تمھیں میرے لیے ادا کرنا چاہیے۔ میں نے اپنا سارا جاہ و جلال تمھیں عطا کر دیا ہے، میں نے تمھیں وہ زندگی عطا کی ہے جو منتخب شدہ لوگوں یعنی کہ بنی اسرائیل کو کبھی نہیں ملی۔ حقوق کے لحاظ سے، تمھیں میری گواہی دینا چاہیے اور اپنی جوانی میرے لیے وقف کرنا چاہیے اور اپنی جان میرے لیے قربان کرنی چاہیے۔ جنھیں بھی میں اپنا جاہ و جلال عطا کروں گا وہ میری گواہی دیں گے اور میری خاطر اپنی جان دیں گے۔ یہ میری طرف سے بہت پہلے سے مقدر کردیا گیا ہے۔ یہ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ میں تمھیں اپنا جلال عطا کرتا ہوں اور تمھارا فرض ہے کہ تم میرے جاہ و جلال کی گواہی دو۔ اگر تم مجھ پر صرف فضل حاصل کرنے کے لیے ایمان لاؤ گے تو میرے کام کی معمولی اہمیت ہو گی اور تم اپنا فرض ادا نہیں کرو گے۔ بنی اسرائیل نے صرف میری مہربانی، محبت اور عظمت دیکھی، اور یہودیوں نے صرف میرا صبر اور خلاصی دیکھی۔ انھوں نے میری روح کا کام انتہائِی کم دیکھا، اس حد تک کہ جو کچھ تم نے سنا اور دیکھا ہے اس کا دس ہزارواں حصہ سمجھ گئے۔ جو کچھ تم نے دیکھا ہے وہ ان کے درمیان موجود سردار کاہنوں سے بھی زیادہ ہے۔ جو سچائیاں تم آج سمجھ رہے ہو وہ ان کی سچائیوں پر فائق ہیں۔ جو کچھ تم نے آج دیکھا ہے وہ شریعت کے دور نیز فضل کے دور میں دیکھے گئے سے زیادہ ہے، اور جو کچھ تم نے تجربہ کیا ہے وہ موسیٰ اور ایلیا سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ بنی اسرائیل جو کچھ سمجھتے تھے وہ صرف یہوواہ کی شریعت تھی، اور جو کچھ انھوں نے دیکھا وہ صرف یہوواہ کی پیٹھ کا نظارہ تھا؛ یہودیوں نے جو سمجھا وہ صرف یسوع کی خلاصی تھی، جو کچھ انھیں ملا وہ صرف یسوع کا عطا کردہ فضل تھا، اور جو کچھ انھوں نے دیکھا وہ یہودیوں کے گھر میں صرف یسوع کی شبیہ تھی۔ تم اِس دن جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ یہوواہ کا جلال، یسوع کی خلاصی، اور اس دن کے میرے تمام اعمال ہیں۔ تو کیا تم نے بھی میری روح کا کلام سنا ہے، میری حکمت کی تعریف کی ہے، میرے اسرار کو جانا ہے، اور میرے مزاج کو جانا ہے۔ میں تم کو اپنا تمام انتظامی منصوبہ بھی بتا چکا ہوں۔ تم نے جو دیکھا ہے وہ صرف ایک پیار کرنے والا اور رحم کرنے والا خدا ہی نہیں بلکہ راستبازی سے سرشار خدا ہے۔ تم میرا حیرت انگیز کام دیکھ چکے ہو اور جانتے ہو کہ میں جاہ و جلال اور غضب سے بھرا ہوا ہوں۔ مزید برآں، تم جانتے ہو کہ میں نےاپناغضب ایک بار بنی اسرائیل پر نازل کیا تھا، اور یہ کہ آج، وہ تم پر نازل ہوا ہے۔ تم آسمان میں میرے اسرار یسعیاہ اور یوحنا سے زیادہ سمجھتے ہو۔ تم میری محبت اور تعظیم ماضی کے مقدسین سے زیادہ جانتے ہو۔ تم نے جو حاصل کیا ہے وہ محض میری سچائی، میرا راستہ اور میری زندگی نہیں ہے، بلکہ یوحنا سے بھی بڑی رُویااور مکاشفہ ہے۔ تم بہت سے اسرار سمجھتے ہو، اور تم میرا حقیقی چہرہ بھی دیکھ چکے ہو۔ تم میرا فیصلہ زیادہ قبول کر چکے ہو اور میرا راست باز مزا زیادہ جانتے ہو۔ اور لہٰذا، اگرچہ تم آخری ایام میں پیدا ہوئے تھے، تمھاری سمجھ سابق اور ماضی کی ہے، اور تم نے آج کی چیزوں کا تجربہ بھی کیا ہے، اور یہ سب ذاتی طور پر میری طرف سے کیا گیا تھا. میں تم سےجو مانگتا ہوں وہ بہت زیادہ نہیں ہے، کیونکہ میں نے تمھیں بہت کچھ دیا ہے، اور تم نے مجھ میں بہت کچھ دیکھا ہے۔ اس لیے میں تمھیں کہتا ہوں کہ تم میرے لیے ماضی کے مقدسین کی گواہی دو، اور صرف یہی میری دلی خواہش ہے۔

یہ میرا باپ تھا جس نے سب سے پہلے میرے لیے گواہی دی، لیکن میں عظیم تر شان و شوکت، اور مخلوقات کے منہ سے نکلنے والے گواہی کے کلمات حاصل کرنا چاہتا ہوں – لہٰذا میں اپنا سب کچھ تمھیں دیتا ہوں، تاکہ تم اپنا فرض پورا کر سکو، اور انسانوں کے درمیان میرا کام ختم کر دو۔ تمھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تم مجھ پر کیوں ایمان رکھتے ہو؛ اگر تم صرف میرا شاگرد یا میرا مریض بننا چاہتے ہو، یا جنت میں میرے مقدسیں میں سے ایک بننا چاہتے ہو، تو تمھارا میری اتباع کرنا بےمعنی ہوگی۔ اس انداز میں میری اتباع کرنا محض توانائی کا ضیاع ہو گا؛ مجھ پر اس طرح کا ایمان رکھنا تمھارا محض اپنے دن ضائع کرنا ہے، اپنی جوانی ضائع کرنا ہے۔ اور آخر میں، تمھیں کچھ نہیں ملے گا۔ کیا یہ بیکار کی محنت نہیں ہوگی؟ میں یہودیوں میں سے جا چکا ہوں اور اب نہ تو میں انسان کا طبیب ہوں اور نہ ہی انسان کی دوا۔ میں اب انسان کے لیے بوجھ ڈھونے والا جانور نہیں ہوں جسے حسب خواہش ہانکا یا ذبح کیا جائے؛ بلکہ، میں انسان کے درمیان عدالت کرنے اور سزا دینےکے لیے آیا ہوں تاکہ انسان مجھے جان لے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے ایک بار خلاصی کا کام کیا تھا؛ ایک بار میں یسوع تھا، لیکن میں ہمیشہ کے لیے یسوع نہیں رہ سکتا تھا، جیسا کہ میں ایک بار یہوواہ تھا لیکن بعد میں یسوع بن گیا۔ میں بنی نوع انسان کا خدا ہوں، مخلوق کا خداوند ہوں، لیکن میں ہمیشہ کے لیے یسوع یا یہوواہ نہیں رہ سکتا۔ میں وہ رہا ہوں جسے انسان طبیب سمجھتا ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا انسانوں کے لیے محض ایک طبیب ہے۔ لہٰذا، اگر تو میرے اوپر ایمان رکھتے ہوئے اپنے پرانے خیالات پر قائم رہے گا، تو تجھے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آج تُو میری تعریف کیسے کرتا ہے: "خدا انسانوں سے کتنا پیار کرتا ہے؛ وہ مجھے شفا دیتا ہے اور مجھے برکات، امن اور مسرت سے نوازتا ہے۔ خدا انسان کے لیے کتنا اچھا ہے؛ اگر ہم صرف اس پر ایمان رکھیں، تو ہمیں پیسے اور دولت کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔۔۔" میں اب بھی اپنے اصل کام میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ اگر آج تُو مجھ پر ایمان لائے گا، تو تجھے صرف میرا جلال حاصل ہوگا اور تُو میری گواہی دینے کے لائق ہو جائے گا، اور باقی سب کچھ ثانوی ہوگا۔ یہ تجھے واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے۔

اب کیا تُو واقعتاً جانتا ہے کہ تُو مجھ پر کیوں ایمان رکھتا ہے؟ کیا تُو واقعی میرے کام کا مقصد اور اہمیت جانتا ہے؟ کیا تُو واقعی اپنا فرض جانتا ہے؟ کیا تُو واقعی میری گواہی جانتا ہے؟ اگر تُو مجھ پر محض ایمان رکھتا ہے، پھر بھی تیرے اندر میرے جلال یا گواہی کا کوئی نشان نہیں ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ میں تجھے بہت پہلے ہی نکال باہر کرچکا ہوں۔ جب کہ وہ لوگ جو یہ سب جانتے ہیں، وہ میری آنکھوں میں اور میرے گھر میں میرے لیے اور بھی زیادہ کانٹوں جیسے ہیں، وہ میرے راستے میں رکاوٹوں کے سوا کچھ نہیں، یہ وہ کڑوے دانے ہیں جنھیں پھٹک کر میرے کام سے پوری طرح نکال پھینکنا ہے، ان کا کوئی فائدہ نہیں، بے وقعت لوگ ہیں، اور میں نے طویل عرصے سے ان سے نفرت کی ہے۔ میرا غضب اکثر ان سب پر نازل ہوتا ہے جو گواہی سے محروم ہیں، اور میری لاٹھی ان پر سے کبھی نہیں ہٹتی۔ مَیں بہت پہلے ان لوگوں کو بدی کے حوالے کر چکا ہوں؛ وہ میری نعمتوں سے محروم ہیں۔ جب یوم جزا آئے گا تو ان کی سزا بے وقوف عورتوں سے بھی زیادہ سخت ہو گی۔ آج میں صرف وہی کام کر تا ہوں جو کرنا میرا فرض ہے؛ میں تمام گندم کو ان کڑوے دانوں والی گھاس کے ساتھ گٹھوں میں باندھ دوں گا۔ آج یہ میرا کام ہے۔ جب میرا پھٹکنے کا وقت شروع ہوگا تو میں ان تمام کڑوے دانوں کو پھٹک کر الگ کر دوں گا، پھر گندم کے دانے گودام میں جمع کیے جائیں گے، اور پھٹک کر الگ کیے گئے کڑوے دانوں میں آگ لگائی جائے گی اور وہ جل کر خاک ہو جائیں گے۔ اب میرا کام محض تمام انسانوں کو گٹھوں میں باندھنا ہے؛ یعنی انھیں مکمل طور پر فتح کرنا۔ تب میں تمام آدمیوں کا انجام ظاہر کرنے کے لیے پھٹکنا شروع کروں گا۔ اور لہٰذا تجھے یہ جاننا چاہیے کہ تُو اب مجھے کیسے مطمئن کر سکتا ہے، اور تجھے مجھ پر اپنے ایمان میں سیدھے راستے پر کیسے چلنا چاہیے۔ میں جو چاہتا ہوں وہ اب تیری وفاداری اور اطاعت ہے، اب تیری محبت اور گواہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس وقت تُو نہیں جانتا کہ گواہی کیا ہے یا محبت کیا ہے، توتجھے چاہیے کہ اپنا سب کچھ میرے پاس لے آئے، اور اپنے تمام خزانے مجھے سونپ دے: تیری وفاداری اور اطاعت۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میری شیطان کو شکست کی گواہی انسان کی وفاداری اور اطاعت میں مضمر ہے، جیسا کہ انسان پر میری مکمل فتح کی گواہی ہے۔ مجھ پر تیرے ایمان کا فریضہ یہ ہے کہ تُو میری گواہی دے، میرا وفادار رہ، دوسروں کا نہیں، اور آخر تک فرمانبردار رہ۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے کام کا اگلا مرحلہ شروع کروں، تُو میری گواہی کیسے دے گا؟ تُو میرا وفادار اور فرمانبردار کیسے رہے گا؟ کیا تُو اپنی تمام وفاداریاں اپنے فعل کے لیے وقف کر دے گا، یا بس ترک کر دے گا؟ کیا تُو میرے ہر انتظام کے تابع ہو جائے گا (چاہے وہ موت ہو یا تباہی) یا میری سزا سے بچنے کے لیے درمیان میں ہی بھاگ جائے گا؟ میں تجھے سزا دیتا ہوں تاکہ تو میری گواہی دے اور میرا وفادار اور فرمانبردار رہے۔ مزید یہ کہ، اس وقت سزا میرے کام کا اگلا مرحلہ کھولنا اور کام بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھنے دینا ہے۔ اس لیے میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ تُو عقل مند بن اور نہ اپنی زندگی اور نہ ہی اپنے وجود کی اہمیت کو بیکار جان۔ کیا تُو جان سکتا ہے کہ میرا آنے والا کام بعینہ کیا ہوگا؟ کیا تُو جانتا ہے کہ میں آنے والے دنوں میں کیسے کام کروں گا، اور میرا کام کیسے سامنے آئے گا؟ تجھے میرے کام کی بابت اپنے تجربے کی اہمیت جاننی چاہیے، علاوہ ازیں مجھ پر جو تیرا ایمان ہے اس کی اہمیت بھی معلوم ہونی چاہیے۔ میں نے بہت کچھ کیا ہے؛ میں کیسے نصف راستے میں چھوڑ سکتا ہوں، جیسا کہ تُو تصور کرتا ہے؟ میں نے بہت وسیع کام کیا ہے؛ میں اسے کیسے اجاڑ سکتا ہوں؟ بے شک میں یہ دور ختم کرنے آیا ہوں۔ یہ سچ ہے، لیکن مزید برآں تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہوں، نئے کام کا آغاز کرنے والا ہوں، اور سب سے بڑھ کر، بادشاہی کی خوشخبری پھیلانے والا ہوں۔ اس لیے تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ کام صرف ایک دور کا آغاز کرنا ہے اور آنے والے وقت میں خوشخبری پھیلانے اور مستقبل میں اس دور کے خاتمے کی بنیاد رکھنا ہے۔ میرا کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا تُو سمجھتا ہے، اور نہ ہی یہ اتنا فضول یا بے معنی ہے جتنا تیرا خیال ہے۔ لہٰذا، مِیں تجھے پھر بھی یہ کہوں گا ے: تجھے اپنی زندگی میرے کام کے حوالے کر دینی چاہیے، اور مزید یہ کہ، تجھے خود کو میرے جلال کے لیے وقف کردینا چاہیے۔ طویل عرصے سے میری تجھ سے یہ تمنا رہی ہے کہ تُو میری گواہی دے، اور اس سے بھی زیادہ میری تجھ سے یہ آرزو رہی ہے کہ تُو میری خوشخبری کو پھیلائے۔ تجھے سمجھنا چاہیے کہ میرے دل میں کیا ہے۔

سابقہ: حقیقی شخص بننے کا کیا مطلب ہے

اگلا: جب گرتے پتے اپنی جڑوں میں لوٹ آئیں گے تو تجھے اپنی کی ہوئی تمام برائیوں پر افسوس ہوگا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp