ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ جو سچ پر عمل نہیں کرتے

بھائیوں اور بہنوں میں سے وہ لوگ جو ہمیشہ اپنی منفی سوچ کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں وہ شیطان کے چیلے ہیں، اور وہ کلیسیا کو پریشان کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک نہ ایک دن لازمی باہر نکالنا اور رد کرنا ہو گا۔ خدا پر اپنے ایمان میں، اگر لوگ دل سے خدا کی تعظیم نہیں کرتے ہیں، اگر وہ دل سے خدا کی اطاعت نہیں کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف اس کے لیے کوئی کام کرنے سے قاصر ہوں گے، بلکہ اس کے برعکس وہ ایسے بن جائیں گے جو اس کے کام میں خلل ڈالتے ہیں اور جو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا پر یقین رکھنا لیکن اس کی اطاعت یا تعظیم نہ کرنا اور اس کی بجائے خدا کی مخالفت کرنا ایمان رکھنے والے کے لیے سب سے بڑی ذلت ہے۔ اگر ایمان رکھنے والے اپنی گفتگو اور طرز عمل میں اتنے ہی بے پروا اور بے لگام ہیں جتنے ایمان نہ رکھنے والے ہیں تو وہ ایمان نہ رکھنے والوں سے بھی زیادہ برے ہیں؛ وہ قدیم زمانے کے شیطان ہیں۔ وہ لوگ جو کلیسیا کے اندر اپنی زہریلی، بغض بھری باتوں کی بھڑاس نکالتے ہیں، جو افواہیں پھیلاتے ہیں، عدم اتفاق کے لیے اکساتے ہیں، اور بھائیوں اور بہنوں کے درمیان گروہ بناتے ہیں – انھیں کلیسیا سے نکال دیا جانا چاہیے تھا۔ پھر بھی چونکہ اب خُدا کے کام کا ایک مختلف دور ہے، اِن لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے، کیونکہ انھیں یقیناً رد کر دیا جانا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے ان کا مزاج بدعنوان ہے۔ بعض کے پاس بدعنوان مزاج کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، جب کہ دوسرے مختلف ہوتے ہیں: ان میں نہ صرف بدعنوان شیطانی مزاج ہوتا ہے، بلکہ ان کی فطرت بھی انتہائی بغض بھری ہوتی ہے۔ نہ صرف ان کے قول و فعل سے ان کے بدعنوان، شیطانی مزاج کا پتہ چلتا ہے؛ بلکہ یہ لوگ، حقیقی مجسم شر اور شیطان ہیں۔ ان کا طور طریق خدا کے کام میں خلل ڈالتا ہے اور پریشان کرتا ہے، یہ بھائیوں اور بہنوں کے زندگی میں داخل ہونے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، اور یہ کلیسیا کی معمول کی زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جلد یا بدیر، بھیڑوں کے روپ میں ان بھیڑیوں کو نکال دیا جانا چاہیے؛ شیطان کے ان چیلوں کے بارے میں بے رحم رویہ، رد کرنے کا رویہ اپنانا چاہیے۔ بس یہی خدا کے مقصد کو اپنے مفاد سے بالاتر رکھنا ہے، اور جو ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں وہ شیطان کے ساتھ دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ جو لوگ حقیقی طور پر خدا پر یقین رکھتے ہیں ان کے دلوں میں خدا ہمیشہ رہتا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے اندر خدا کی تعظیم کرنے والا دل، خدا سے محبت کرنے والا دل رکھتے ہیں۔ جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں انھیں احتیاط اور دانشمندانہ انداز سے کام کرنا چاہیے اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خدا کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کے دل کو مطمئن کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ وہ جو چاہیں کریں لیکن انھیں سرکش نہیں ہونا چاہیے؛ سرکشی مقدس اخلاقی اصول و ضوابط کے خلاف ہے۔ لوگوں کو متکبرانہ انداز میں دھوکہ دہی کرتے ہوئے ہر جگہ خدا کا جھنڈا لہراتے ہوئے وحشت زدہ ہو کر دوڑنا نہیں چاہیے؛ یہ سب سے زیادہ باغیانہ طرز عمل ہے۔ خاندانوں کے اپنے قوانین ہیں، اور قوموں کے اپنے قوانین ہیں – اور کیا خدا کے گھر میں اس سے بڑھ کر ایسا نہیں ہے؟ کیا اس کے معیار سب سے زیادہ سخت نہیں ہیں؟ کیا اس میں سب سے زیادہ انتظامی احکام نہیں ہیں؟ لوگ جو چاہیں کرنے میں آزاد ہیں، لیکن خدا کے انتظامی احکام کو اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ خدا ایک ایسا خدا ہے جو انسانوں کی طرف سے جرم برداشت نہیں کرتا؛ وہ ایک خدا ہے جو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔ کیا لوگ واقعی یہ پہلے سے نہیں جانتے؟

ہر کلیسیا میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کلیسیا کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں یا خدا کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ یہ سب شیطان ہیں جو خدا کے گھر میں بھیس بدل کر گھس آئے ہیں۔ ایسے لوگ اداکاری میں اچھے ہوتے ہیں: وہ بڑے احترام کے ساتھ میرے سامنے آتے ہیں، بھدے انداز میں تعظیم کے لیے جھکتے ہیں، خارش زدہ کتوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں، اور اپنا "سب کچھ" اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وقف کر دیتے ہیں – لیکن بھائیوں اور بہنوں کے سامنے، وہ اپنا بدصورت رخ ظاہر کرتے ہیں۔ جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو سچ پر عمل کرتے ہیں، تو وہ ان پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں ایک طرف دھکیل دیتے ہیں؛ جب وہ لوگوں کو اپنے سے زیادہ طاقتور دیکھتے ہیں تو ان کی چاپلوسی کرتے ہیں اور ان کے قدموں میں لَوٹتے ہیں وہ کلیسیا میں تمام پابندیوں کو توڑتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے "مقامی غنڈے"، ایسے "گود میں بیٹھنے والے پالتو کتے" زیادہ تر کلیسیاﺆں میں موجود ہیں۔ وہ مل کر شیطانی کام کرتے ہیں، ایک دوسرے کو آنکھ مارتے ہیں اور خفیہ اشارے بھیجتے ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بھی سچائی پر عمل نہیں کرتا ہے۔ جس کے پاس سب سے زیادہ زہر ہوتا ہے وہ "بڑا شیطان" ہوتا ہے اور جس کے پاس سب سے زیادہ عزت ہوتی ہے وہ ان کی راہنمائی کرتا ہے، ان کا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ یہ لوگ کلیسیا میں ہنگامہ آرائی کرتے ہیں، اپنی منفی سوچ پھیلاتے ہیں، موت کا راستہ نکالتے ہیں، جو چاہیں کرتے ہیں، جو چاہیں کہتے ہیں، اور کوئی ان کو روکنے کی ہمت نہیں کرتا۔ وہ شیطان کے مزاج سے لبالب بھرے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی وہ گڑبڑ کا باعث بنتے ہیں، موت کی ہوا کلیسیا میں داخل ہو جاتی ہے۔ کلیسیا کے اندر وہ لوگ جو سچائی پر عمل کرتے ہیں ٹھکرا دیے جاتے ہیں، وہ اپنا سب کچھ دینے سے قاصر ہیں، جب کہ جو کلیسیا کو پریشان کرتے ہیں اور موت کو پھیلاتے ہیں وہ اندر ہی اندر دندناتے پھرتے ہیں – اور مزید یہ کہ زیادہ تر لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ایسی کلیسیاﺆں پر شیطان حکمرانی کرتا ہے، صاف اور واضح انداز میں؛ شیطان ان کا بادشاہ ہے۔ اگر ارکان نہ اٹھیں اور بڑے شیطانوں کو رد نہ کریں تو وہ بھی جلد یا بدیر تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔ اب سے ایسی کلیسیاﺆں کے خلاف اقدامات کرنے چاہییں۔ اگر وہ لوگ جو تھوڑی بہت سچائی پر عمل کرنے کے قابل ہیں، وہ کوشش نہیں کرتے ہیں، تو وہ کلیسیا ختم ہو جائے گی۔ اگر کسی کلیسیا میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو سچائی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو اور کوئی بھی ایسا نہ ہو جو خدا کے لیے گواہی دے سکے، تو وہ کلیسیا بالکل الگ تھلگ کر دی جانی چاہیے، اور دوسری کلیسیاﺆں سے اس کا تعلق لازمی منقطع ہونا چاہیے۔ اسے "موت کو دفن کرنا" کہا جاتا ہے؛ شیطان کو ٹھکرانے کا یہی مطلب ہے۔ اگر ایک کلیسیا کئی مقامی غنڈوں پر مشتمل ہوتی ہے، اور ان کے پیچھے "چھوٹی مکھیاں" ہوتی ہیں جن میں مکمل طور پر فہم کا فقدان ہوتا ہے، اور اگر ارکان، سچائی کو دیکھنے کے بعد بھی، ان غنڈوں کے بندھنوں اور چالاکی سے کیے گئے کاموں کو مسترد کرنے سے قاصر ہیں، تو ان تمام احمقوں کو آخر کار باہر نکال دیا جائے گا۔ ان چھوٹی مکھیوں نے شاید کچھ بھیانک نہیں کیا ہو گا، لیکن یہ اس سے بھی زیادہ دھوکے باز، اس سے بھی زیادہ مکار اور بہانے باز ہیں، اور اس طرح کے ہر ایک کو باہر نکال دیا جائے گا۔ ایک بھی نہیں رہے گا! جو لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہیں وہ شیطان کی طرف لوٹائے جائیں گے، جب کہ جو خدا سے تعلق رکھتے ہیں وہ ضرور حق کی تلاش میں نکلیں گے؛ اس کا فیصلہ ان کی فطرت سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیروی کرنے والوں کو ہلاک ہونے دے! ایسے لوگوں پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا۔ جو سچائی کی تلاش کرتے ہیں انھیں سامان مہیا کیا جانے دو، اور وہ خُدا کے کلام سے اپنے دل کی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ خدا راستباز ہے؛ وہ کسی کی طرفداری نہیں کرتا۔ اگر تو شیطان ہے، تو تُو سچ پر عمل کرنے سے قاصر ہے؛ اگر تو سچ کی تلاش کرنے والا ہے تو پھر یہ یقینی ہے کہ تو شیطان کا اسیر نہیں ہو گا۔ یہ تمام شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

جو لوگ ترقی کے لیے کوشش نہیں کرتے وہ ہمیشہ دوسروں کے متعلق خواہش کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کی طرح منفی اور بے عمل ہوں۔ جو لوگ سچائی پر عمل نہیں کرتے وہ سچائی پر عمل کرنے والوں سے حسد کرتے ہیں، اور ہمیشہ ان لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جو دماغی طور پر الجھے ہوئے اور فہم سے عاری ہیں۔ جن چیزوں کی یہ لوگ بھڑاس نکالتے ہیں وہ تیرے زوال، نیچے کی طرف پھسلنے، ایک غیر معمولی حالت پیدا کرنے اور تاریکی سے بھر جانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ وہ تجھے خدا سے دور کرنے اور جسم کو عزیز رکھنے اور اپنے آپ کو خوش کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ جو لوگ سچائی سے محبت نہیں کرتے اور جو ہمیشہ خدا کے متعلق سرسری انداز میں رہتے ہیں ان میں خود آگاہی نہیں ہوتی اور ایسے لوگوں کا مزاج دوسروں کو گناہوں اور خدا کی نافرمانی پر مائل کرتا ہے۔ وہ سچائی پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی دوسروں کو اس پر عمل کرنے دیتے ہیں۔ وہ گناہ کو پسند کرتے ہیں اور اپنے آپ سے بالکل نفرت نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو نہیں جانتے، اور وہ دوسروں کو اپنے آپ کو جاننے سے روکتے ہیں؛ وہ دوسروں کو بھی سچائی کی خواہش کرنے سے روکتے ہیں۔ جن کو وہ دھوکہ دیتے ہیں، وہ روشنی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ تاریکی میں گر جاتے ہیں، خود کو نہیں جانتے، سچائی کے بارے میں غیر واضح ہیں، اور خدا سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے جاتے ہیں۔ وہ سچ پر عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو سچ پر عمل کرنے سے روکتے ہیں، ان تمام احمقوں کو اپنے سامنے لاتے ہیں۔ یہ کہنے کی بجائے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، یہ کہنا بہتر ہو گا کہ وہ اپنے باپ دادا پر ایمان رکھتے ہیں، یا یہ کہ وہ اپنے دلوں میں رکھے ہوئے بتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو لوگ خدا کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اچھی طرح سے دیکھیں کہ وہ کس پر ایمان رکھتے ہیں: کیا یہ واقعی خدا ہے جس پر تو یقین رکھتا ہے یا یہ شیطان ہے؟ اگر تو جانتا ہے کہ تو جس چیز پر ایمان رکھتا ہے وہ خدا نہیں ہے، بلکہ تیرے اپنے بت ہیں، تو یہ بہتر ہوگا کہ تو ایمان رکھنے کا دعویٰ نہ کر۔ اگر تو واقعی نہیں جانتا کہ تو کس پر ایمان رکھتا ہے، تو پھر، یہ بہتر ہوگا کہ تو ایمان رکھنے کا دعویٰ نہ کر۔ ایسا کہنا توہین ہو گا! کوئی بھی تجھے خدا پر ایمان رکھنے کے لیے مجبور نہیں کر رہا ہے۔ یہ مت کہو کہ تم مجھ پر ایمان رکھتے ہو۔ میں نے اس طرح کی باتیں بہت سن لی ہیں، اور انھیں دوبارہ سننا نہیں چاہتا، کیونکہ تم جس چیز پر ایمان رکھتے ہو وہ تمہارے دلوں میں رکھے بت ہیں اور تمہارے درمیان مقامی غنڈے ہیں۔ وہ لوگ جو سچ سن کر نفی میں سر ہلاتے ہیں، جو موت کی بات سن کر احمقانہ انداز میں ہنستے ہیں، یہ سب شیطان کی نسل ہیں، اور انھیں رد کر دیا جائے گا۔ کلیسیا میں بہت سے لوگوں کو کوئی فہم نہیں ہے۔ جب کوئی فریب ہوتا ہے تو وہ غیر متوقع طور پر شیطان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں؛ یہاں تک کہ وہ شیطان کے چیلے کہلانے پر بھی ناراض ہوتے ہیں۔ اگرچہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس فہم نہیں ہے، وہ ہمیشہ سچائی کے بغیر ایک طرف کھڑے رہتے ہیں، وہ کبھی بھی نازک وقت میں سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، وہ کبھی کھڑے ہو کر سچ کے لیے بحث نہیں کرتے۔ کیا ان میں واقعی فہم کی کمی ہے؟ وہ غیر متوقع طور پر شیطان کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ وہ حق کی حمایت میں کبھی ایک ایسا لفظ بھی کیوں نہیں کہتے جو منصفانہ اور معقول ہو؟ کیا واقعی یہ صورت حال ان کی لمحاتی الجھنوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے؟ لوگوں میں فہم جتنی کم ہوتی ہے، وہ سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے کی اتنی ہی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ بے عقل لوگ بدی سے محبت کرتے ہیں؟ کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ شیطان کی وفادار نسل ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ ہمیشہ شیطان کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی زبان بولتے ہیں؟ ان کا ہر قول و فعل، ان کے چہروں کے تاثرات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ سچائی کے کسی قسم کے عاشق نہیں ہیں؛ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو سچائی سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کا شیطان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شیطان واقعی ان چھوٹے شیطانوں سے محبت کرتا ہے جو اپنی زندگیاں شیطان کی حمایت میں لڑتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ کیا یہ تمام حقائق بالکل واضح نہیں ہیں؟ اگر تو واقعی سچائی سے محبت کرنے والا شخص ہے تو تجھے حق پر عمل کرنے والوں کی کوئی پروا کیوں نہیں ہے اور تو ان لوگوں کی نظر کے ہلکے سے اشارے پر فوراً ان کی پیروی کیوں کرتا ہے جو سچائی پر عمل نہیں کرتے؟ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ تجھ میں فہم ہے یا نہیں۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ تو نے کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے۔ مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ تیری قوتیں کتنی عظیم ہیں، اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے کہ تو ایک مقامی غنڈہ ہے یا علمبردار راہنما۔ اگر تیری قوتیں عظیم ہیں تو ایسا صرف شیطان کی طاقت سے ہے۔ اگر تیرا وقار بلند ہے تو یہ محض اس لیے ہے کہ تیرے اردگرد بہت سے ایسے ہیں جو سچائی پر عمل نہیں کرتے۔ اگر تجھے باہر نہیں نکالا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی نکالنے کے کام کا وقت نہیں ہے؛ بلکہ، یہ رد کرنے کے کام کا وقت ہے۔ ابھی تجھے باہر نکالنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ میں تو بس اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب میں تجھے رد کرنے کے بعد سزا دوں گا۔ جو بھی سچ پر عمل نہیں کرتا وہ باہر نکال دیا جائے گا!

وہ لوگ جو حقیقی طور پر خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ ہیں جو خدا کے کلام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں اور سچائی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ لوگ جو واقعی خدا کی گواہی میں ثابت قدم رہنے کے قابل ہیں وہ بھی وہ ہیں جو اس کے کلام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں اور حقیقی طور پر سچائی کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ دھوکہ دہی اور ناانصافی سے کام لیتے ہیں ان سب میں سچائی کی کمی ہوتی ہے اور وہ سب خدا کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ جو لوگ کلیسیا میں جھگڑے پیدا کرتے ہیں وہ شیطان کے چیلے ہیں، وہ مجسم شیطان ہیں۔ ایسے لوگ بہت بغض رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جو لوگ فہم نہیں رکھتے اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے سے عاجز ہیں وہ سب برے ارادے رکھتے ہیں اور سچ کو داغدار کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ شیطان کے قدیم نمائندے ہیں۔ وہ نجات سے باہر ہیں، اور قدرتی طور پر رد کر دیے جائیں گے۔ خدا کا خاندان ان لوگوں کو رہنے کی اجازت نہیں دیتا جو سچائی پر عمل نہیں کرتے ہیں، اور نہ ہی یہ ان لوگوں کو رہنے کی اجازت دیتا ہے جو جان بوجھ کر کلیسیا کو توڑتے ہیں۔ تاہم، ابھی باہر نکالنے کا وقت نہیں ہے؛ ایسے لوگوں کو صرف بے نقاب کیا جائے گا اور آخر میں رد کر دیا جائے گا۔ ان لوگوں پر مزید کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس کا فائدہ نہ ہو؛ جو لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہیں وہ سچ کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے، جب کہ وہ لوگ جو سچائی کی تلاش کرنے والے ہیں سچ کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ سچائی پر عمل نہیں کرتے وہ سچ کے راستے کو تسلیم کرنے کے لائق نہیں اور سچ کی گواہی دینے کے لائق نہیں ہیں۔ سچ ان کی سماعت کے لیے ہے ہی نہیں؛ بلکہ، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اس پر عمل کرتے ہیں۔ ہر شخص کا انجام ظاہر ہونے سے پہلے، جو لوگ کلیسیا کو پریشان کرتے ہیں اور خُدا کے کام میں خلل ڈالتے ہیں، انھیں فی الحال چھوڑ دیا جائے گا، تاکہ بعد میں اُن سے نمٹا جائے۔ ایک بار جب کام مکمل ہو جائے گا تو ان لوگوں میں سے ہر ایک کو بے نقاب کیا جائے گا، اور پھر انھیں رد کر دیا جائے گا۔ وقتی طور پر، جبکہ سچائی فراہم کی جا رہی ہے، انھیں نظر انداز کر دیا جائے گا۔ جب پوری حقیقت انسانیت پر آشکار ہو جائے تو ان لوگوں کو رد کر دینا چاہیے؛ یہ وہ وقت ہوگا جب تمام لوگوں کی درجہ بندی ان کی قسم کے مطابق کی جائے گی۔ بے عقلوں کی چھوٹی چالیں خبیث لوگوں کے ہاتھوں ان کی تباہی کا باعث بنیں گی، وہ ان کے بہکاوے میں آ کر بھٹکیں گے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ اور یہ وہ سلوک ہے جس کے وہ مستحق ہیں، کیونکہ وہ سچائی سے محبت نہیں کرتے، کیونکہ وہ سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں، کیونکہ وہ برے لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور برے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اور اس لیے کہ وہ برے لوگوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہیں اور خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ برے لوگ جو کچھ پھیلاتے ہیں وہ برائی ہے، پھر بھی وہ اپنے دلوں کو سخت کر لیتے ہیں اور ان کی پیروی کے لیے سچ سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ جو سچ پر عمل نہیں کرتے لیکن تباہ کن اور قابلِ نفرت کام کرتے ہیں سب برائی کے مرتکب نہیں ہو رہے ہیں؟ اگرچہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو بادشاہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دوسرے ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں، کیا ان کی خدا کی مخالفت کرنے کی فطرت ایک جیسی نہیں ہے؟ ان کے پاس یہ دعویٰ کرنے کا کیا عذر ہو سکتا ہے کہ خدا انھیں نہیں بچاتا؟ ان کے پاس یہ دعویٰ کرنے کا کیا عذر ہو سکتا ہے کہ خدا راستباز نہیں ہے؟ کیا یہ ان کی اپنی برائی نہیں جو انھیں تباہ کر رہی ہے؟ کیا یہ ان کی اپنی بغاوت نہیں ہے جو انھیں جہنم میں گھسیٹ رہی ہے؟ جو لوگ سچ پر عمل کرتے ہیں، آخرکار، بچائے جائیں گے اور سچ کی وجہ سے کامل بنائے جائیں گے۔ جو لوگ سچ پر عمل نہیں کرتے وہ آخرکار سچ کی وجہ سے اپنے اوپر تباہی لائیں گے۔ یہ وہ انجام ہے جو سچ پر عمل کرنے والوں کا اور سچ پر عمل نہ کرنے والوں کا منتظر ہے۔ میں ان لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں جو سچائی پر عمل کرنے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد کلیسیاﺆں کو چھوڑ دیں تاکہ مزید گناہ کرنے سے بچ سکیں۔ جب وقت آئے گا تو افسوس کرنے کے لیے بہت دیر ہو جائے گی۔ خاص طور پر، وہ لوگ جو گروہ بناتے ہیں اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں، اور کلیسیا کے اندر ان مقامی غنڈوں کو تو اور بھی جلد چھوڑ دینا چاہیے۔ ایسے لوگ، جن کی فطرت شیطانی بھیڑیوں کی سی ہوتی ہے، تبدیلی کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ بہتر ہو گا کہ وہ جلد از جلد کلیسیا کو چھوڑ دیں، پھر کبھی بھائیوں اور بہنوں کی معمول کی زندگی میں خلل نہ ڈالیں، اور اس طرح خدا کے عذاب سے بچیں۔ تم میں سے جو لوگ ان کے ساتھ گئے ہیں ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے آپ پر غور کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ کیا تم برے لوگوں کے ساتھ کلیسیا کو چھوڑ دو گے، یا رہو گے اور فرمانبرداری کے ساتھ پیروی کرو گے؟ تمہیں اس معاملے پر احتیاط سے غور کرنا چاہیے۔ میں تمہیں انتخاب کرنے کا ایک اور موقع دیتا ہوں، اور میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔

سابقہ: روح القدس کا کام اور شیطان کا کام

اگلا: کیا تُو ایسا شخص ہے جو زندگی کی طرف لوٹا ہے؟

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp