خدا کا دو مرتبہ مجسم ہونا، تجسیم کی اہمیت کی تکمیل کرتا ہے
خدا کی طرف سے کیے جانے والے کام کے ہر مرحلے کی اپنی عملی اہمیت ہوتی ہے۔ ماضی میں، جب یسوع کی آمد ہوئی، وہ مرد کی شکل میں آیا، اور اس مرتبہ جب خدا کی آمد ہوئی ہے، تو وہ عورت کی شکل میں ہے۔ اس سے، تم دیکھ سکتے ہو کہ خدا کی دونوں تخلیقات مرد اور عورت اس کے کام میں استعمال ہوسکتی ہیں، اور اس کے ہاں صنف کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔ جب اس کی روح کی آمد ہوتی ہے، تو اسے جو پسند آئے، وہ وہی جسم اپنا سکتی ہے، اور وہ جسم خواہ مرد ہو یا عورت، اس کی نمائندگی کر سکتا ہے؛ وہ اس وقت تک خدا کی نمائندگی کر سکتا ہے جب تک کہ وہ خدا کے انسانی شکل کے جسم میں ہو۔ یسوع جب آیا، اگر وہ بطور عورت ظاہر ہوا ہوتا، دیگر الفاظ میں، گویا لڑکے کا نہیں بلکہ ایک شیرخوار لڑکی کا حمل مقدس روح کی طرف سے ٹھہرایا گیا ہوتا، تو کام کا یہ مرحلہ اسی طرح مکمل ہوتا۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا، تو کام کا موجودہ مرحلہ اس کی بجائے کسی مرد کو مکمل کرنا پڑتا، لیکن کام اسی طرح مکمل ہوتا۔ ہر مرحلے میں کیا جانے والا کام اپنی اہمیت رکھتا ہے؛ کام کا مرحلہ نہ تو دہرایا جاتا ہے اور نہ ہی یہ ایک دوسرے سے متصادم ہوتا ہے۔ اس وقت، یسوع، اپنا کام کرتے ہوئے، اکلوتا بیٹا کہلاتا تھا، اور "بیٹا" کا مطلب مرد کی جنس ہے۔ اس موجودہ مرحلے میں اکلوتے بیٹے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ کیونکہ کام کے تقاضوں نے یسوع کی جنس میں تبدیلی کو ضروری کر دیا ہے۔ خدا کے ہاں جنس کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ وہ اپنا کام جیسے چاہتا ہے کرتا ہے، اور اپنا کام کرنے میں وہ کسی پابندی کے تابع نہیں ہے، بلکہ خاص طور پر آزاد ہے۔ پھر بھی کام کے ہر مرحلے کی اپنی عملی اہمیت ہے۔ خدا دو بار جسم بنا، اور یہ خود ظاہر ہے کہ آخری ایام میں اس کا مجسم ہونا آخری مرتبہ ہے۔ وہ اپنے تمام اعمال کو ظاہر کرنے آیا ہے۔ اگر اس مرحلے میں وہ انسان کے لیے گواہی دینے کے لیے ذاتی طور پر کام کرنے کے لیے گوشت پوست کا نہ بنتا تو انسان ہمیشہ کے لیے اس تصور سے چمٹا رہتا کہ خدا صرف مرد ہے، عورت نہیں۔ اس سے پہلے تمام نوعِ انسانی کا عقیدہ تھا کہ خدا صرف مرد ہو سکتا ہے اور ایک عورت کو خدا نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ تمام نوعِ انسانی مردوں کو عورتوں پر با اختیار سمجھتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ کوئی عورت اقتدار نہیں لے سکتی، بلکہ صرف مرد ہی ایسا کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مرد عورت کا سربراہ ہے اور عورت کو مرد کی اطاعت کرنی چاہیے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ماضی میں، جب یہ کہا جاتا تھا کہ مرد عورت کا سربراہ ہے، تو اس کا اشارہ آدم اور حوا کی طرف تھا، جنہیں سانپ نے فریب دیا تھا – مرد اور عورت کی طرف نہیں جیسا کہ انہیں شروع میں یہوواہ نے پیدا کیا تھا۔ بلاشبہ، ایک عورت کو اپنے شوہر کی فرمانبرداری اور اس سے محبت کرنی چاہیے، اور شوہر کو اپنے خاندان کو خوراک مہیا کرنا اور ان کی مدد کرنا سیکھنا چاہیے۔ یہ وہ قوانین اور احکام ہیں جو یہوواہ کی طرف سے مرتب کیے گئے ہیں اور جن کی پابندی انسان کو زمین پر اپنی زندگی میں کرنی چاہیے۔ یہوواہ نے عورت سے کہا، "تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔" اس نے یہ بات صرف اس لیے کہی تاکہ بنی نوع انسان (یعنی مرد اور عورت دونوں) یہوواہ کی حکومت کے تحت معمول کی زندگی گزار سکیں، اور اس لیے کہ بنی نوع انسان کی زندگیوں کا ایک مربوط ڈھانچہ ہو، اور وہ اپنی مناسب ترتیب سے باہر نہ نکل جائیں۔ لہٰذا، یہوواہ نے مناسب قوانین بنائے کہ مرد اور عورت کو کیسے کام کرنا چاہیے، حالانکہ یہ صرف زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کے حوالے سے تھا، اور مجسم خدا اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ خدا اپنی تخلیق کردہ مخلوقات جیسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کے الفاظ اس کی تخلیق میں صرف بنی نوع انسان سے مخاطب تھے؛ یہ انسان کی معمول کی زندگی گزارنے کی خاطر تھا کہ اس نے مرد اور عورت کے لیے قوانین بنائے۔ ابتدا میں، جب یہوواہ نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا، تو اس نے دو قسم کے انسان بنائے، مرد اور عورت دونوں؛ اور اس طرح اس کے مجسم جسموں میں نر اور مادہ کی تقسیم ہے۔ اس نے اپنے کام کا فیصلہ ان الفاظ کی بنیاد پر نہیں کیا جو اس نے آدم اور حوا سے کہے تھے۔ وہ جو دو بار جسم بنا ہے تو اس کا تعین مکمل طور پر اس کی اس سوچ کے مطابق کیا گیا ہے جب اس نے پہلی بار بنی نوع انسان کو تخلیق کیا تھا؛ یعنی اس نے اپنے اوتار کی شکل میں خدا کا کام مرد اور عورت کی بنیاد پر ان کے بدعنوان ہونے سے پہلے مکمل کر لیا ہے۔ اگر نوعِ انسانی یہوواہ کی طرف سے آدم اور حوا کو کہے گئے الفاظ کو لے، جنہیں سانپ نے فریب دیا تھا، اور انہیں مجسم خدا کے کام پر لاگو کرے، تو کیا یسوع کو بھی اپنی بیوی سے پیار نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ اسے کرنا چاہیے؟ اس طرح، کیا خدا اب بھی خدا ہوگا؟ اور ایسا ہونے سے، کیا وہ اب بھی اپنا کام مکمل کر سکے گا؟ اگر خدا کے اوتار کا عورت ہونا غلط ہے تو کیا خدا کی طرف سے عورت کو تخلیق کرنا بھی سب سے بڑی غلطی نہیں ہو گی؟ اگر لوگ اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ مجسم خدا کا عورت کی شکل میں ہونا غلط ہوگا، تو کیا یسوع، جس نے شادی نہیں کی تھی اور اس وجہ سے اپنی بیوی سے محبت کرنے سے قاصر تھا، موجودہ تجسیم کی طرح اتنا ہی غلط نہیں ہوگا؟ چونکہ تو یہوواہ کی طرف سے حوا کو کہے گئے الفاظ کا استعمال موجودہ دور میں خدا کے مجسم ہونے کی سچائی کو جانچنے کے لیے کرتا ہے، تو پھر تجھے فضل کے دور میں جسم بننے والے خُداوند یسوع کو جانچنے کے لیے، یہوواہ کے آدم کو کہے گئے الفاظ کو لازمی استعمال کرنا چاہیے۔ کیا یہ ایک ہی نہیں ہیں؟ چونکہ تو خداوند یسوع کی حیثیت کا اندازہ اس مرد کے مطابق کرتا ہے جسے سانپ نے دھوکے میں نہیں ڈالا تھا، اس لیے تو آج کے مجسم خدا کی سچائی کا فیصلہ اس عورت کے مطابق نہیں کر سکتا جسے سانپ نے دھوکا دیا تھا۔ یہ ناانصافی ہوگی! خدا کی حیثیت کا اس طرح اندازہ لگانا ثابت کرتا ہے کہ تجھ میں عقلیت کی کمی ہے۔ جب یہوواہ دو بار جسم بنا تو اس کے جسم کی جنس کا تعلق نر اور مادہ سے تھا جو سانپ کے فریب میں نہیں آئے تھے؛ یہ اُن نر اور مادہ کے مطابق تھا جو سانپ کے فریب میں نہیں آئے تھے کہ وہ دو بار گوشت پوست کا بنا۔ یہ مت سمجھ کہ یسوع کا مردانہ پن وہی تھا جو آدم کا تھا، جسے سانپ نے فریب دیا تھا۔ دونوں مکمل طور پر غیر متعلق ہیں، وہ دو مختلف نوعیت کے مرد ہیں۔ یقیناً یہ نہیں ہو سکتا کہ یسوع کا مردانہ پن ثابت کرے کہ وہ تمام عورتوں کا سربراہ ہے لیکن تمام مردوں کا نہیں۔ کیا وہ تمام یہودیوں (مردوں اور عورتوں سمیت دونوں) کا بادشاہ نہیں ہے؟ وہ خود خدا ہے، نہ صرف عورت کا سربراہ بلکہ مرد کا بھی سربراہ۔ وہ تمام مخلوقات کا خداوند اور تمام مخلوقات کا سربراہ ہے۔ تو کس طرح یسوع کی مردانہ حیثیت کو عورت کے سربراہ ہونے کی علامت قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ توہین نہیں ہوگی؟ یسوع ایک ایسا مرد ہے جو بدعنوان نہیں ہوا ہے۔ وہ خدا ہے؛ وہ مسیح ہے؛ وہ خداوند ہے۔ وہ آدم جیسا مرد کیسے ہو سکتا ہے جو بدعنوان ہو گیا تھا؟ یسوع وہ جسم ہے جسے خدا کی مقدس ترین روح نے پہنا ہے۔ تو کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسا خدا ہے جو آدم جیسی مردانہ حیثیت کا مالک ہے؟ اس صورت میں، کیا خدا کے تمام کام غلط نہیں ہوتے؟ کیا یہوواہ نے یسوع کے اندر آدم کے مردانہ پن کو شامل کیا ہوگا جسے سانپ نے بہکایا تھا؟ کیا موجودہ زمانے میں خدا کا مجسم ہونا، مجسم خدا کے کام کی ایک اور مثال نہیں ہے، جو جنس کے لحاظ سے تو یسوع سے مختلف ہے لیکن فطرت میں اسی کی طرح ہے؟ کیا تو اب بھی یہ کہنے کی ہمت کرتا ہے کہ مجسم خدا عورت نہیں ہو سکتا، کیونکہ عورت سب سے پہلے سانپ کے فریب میں آئی تھی؟ کیا تو اب بھی یہ کہنے کی جرأت کرتا ہے کہ چونکہ عورت سب سے زیادہ ناپاک ہے اور بنی نوع انسان کی بدعنوانی کا ذریعہ ہے، اس لیے خدا بھی عورت کی شکل میں مجسم نہیں ہو سکتا؟ کیا تو یہ کہنے کی ہمت کرتا ہے کہ "عورت ہمیشہ مرد کی اطاعت کرے گی اور کبھی بھی خدا کے طور پر نمودار نہیں ہو سکتی یا براہ راست اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی؟" تو ماضی میں نہیں سمجھا تھا، لیکن کیا اب بھی تو خدا کے کام، خاص طور پر مجسم خدا کی توہین کرنا جاری رکھ سکتا ہے؟ اگر یہ بات تجھ پر واضح نہیں ہے تو بہتر ہے کہ اپنی زبان کا خیال رکھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری حماقت اور جہالت ظاہر ہو جائے اور تیری بدصورتی بے نقاب ہو جائے۔ یہ مت سوچ کہ تو سب کچھ سمجھتا ہے۔ میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو نے جو کچھ دیکھا اور جس کا عملی تجربہ کیا ہے وہ تیرے لیے میرے انتظامی منصوبے کا ہزارواں حصہ بھی سمجھنے کے لیے ناکافی ہے۔ تو پھر تیرا عمل اس قدر متکبرانہ کیوں ہے؟ وہ بہت تھوڑا سا ہنر اور بہت قلیل علم جو تیرے پاس ہے وہ یسوع کے لیے اپنے کام کے ایک سیکنڈ میں بھی استعمال کرنے کے لیے ناکافی ہے! تیرے پاس اصل میں کتنا تجربہ ہے؟ تو نے جو کچھ دیکھا ہے اور وہ سب جو تو نے اپنی زندگی میں سنا ہے اور جو تو نے تصور کیا ہے وہ اس کام سے کم ہے جو میں ایک لمحے میں کرتا ہوں! تو بہتر ہے کہ تو ناحق عیب جوئی نہ کر اور غلطی تلاش نہ کر۔ تو جتنا چاہے مغرور ہوسکتا ہے، لیکن تو ایک مخلوق سے زیادہ کچھ نہیں ہے حتیٰ کہ چیونٹی کے برابر بھی نہیں! جو کچھ تو اپنے پیٹ میں رکھتا ہے وہ اس سے کم ہے جو کہ ایک چیونٹی اپنے پیٹ میں رکھتی ہے! یہ مت سوچ، کہ چونکہ تو نے کچھ تجربہ اور عمر یا رتبے میں برتری حاصل کر لی ہے، تو صرف اس وجہ سے تجھے وحشیانہ انداز میں اشارے کرنے اور ڈینگیں مارنے کا حق مل گیا ہے۔ کیا تیرا تجربہ اور تیری عمر یا رتبے میں برتری میرے کہے گئے کلام کی پیداوار نہیں ہے؟ کیا تجھے یقین ہے کہ وہ تیری اپنی محنت اور مشقت کے بدلے میں ملی ہے؟ آج تو دیکھتا ہے کہ میں گوشت پوست کا بن گیا ہوں، اور صرف اسی وجہ سے تجھ میں تصورات کی بھرمار ہے، اور اس طرف سے خیالات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اگر یہ میرا مجسم ہونا نہ ہوتا، یہاں تک کہ اگر تو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک بھی ہوتا، تب بھی تیرے پاس اتنے زیادہ تصورات نہ ہوتے؛ اور کیا تیرے خیالات ان سے ہی پیدا نہیں ہوتے ہیں؟ اگر یسوع پہلی بار جسم نہ بنتا تو کیا تجھے مجسم خدا کا علم بھی ہو پاتا؟ کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ پہلے مجسم خدا نے تجھے علم دیا تھا تاکہ تو خدا کی دوسری تجسیم کے بارے میں فیصلہ کرنے کی کوشش کرنے کی جسارت کرے؟ تو ایک فرمانبردار پیروکار بننے کی بجائے اسے مطالعہ کے تابع کیوں کر رہا ہے؟ جب تو اس دھارے میں داخل ہو جائے گا اور مجسم خدا کے سامنے آئے گا تو کیا وہ تجھے اپنے متعلق تحقیق کرنے کی اجازت دے گا؟ تو اپنی خاندانی تاریخ پر تحقیق کر سکتا ہے، لیکن اگر تو خدا کی "خاندانی تاریخ" پر تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو کیا آج کا خدا تجھے ایسا مطالعہ کرنے کی اجازت دے گا؟ کیا تو اندھا نہیں ہے؟ کیا تو اپنے آپ کو ذلت میں نہیں ڈالے گا؟
اگر صرف یسوع کا کام کیا جاتا، اور آخری زمانے کے اس مرحلے میں کام سے تکمیل نہ ہوتی، تو انسان ہمیشہ کے لیے اس تصور پر قائم رہتا کہ صرف یسوع ہی خدا کا اکلوتا بیٹا ہے، یعنی کہ خدا کا ایک ہی بیٹا ہے۔ اور یہ کہ جو کوئی اس کے بعد کسی اور نام سے آئے گا وہ خدا کا اکلوتا بیٹا نہیں ہوگا، اس کا خود خدا ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ انسان کا یہ تصور ہے کہ جو کوئی بھی گناہ کے کفارے کے طور پر کام کرتا ہے یا جو خدا کی طرف سے اقتدار سنبھالتا ہے اور تمام انسانوں کی خلاصی کرواتا ہے، وہ خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب تک آنے والا مرد ہے، وہ خدا کا اکلوتا بیٹا اور خدا کا نمائندہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یسوع یہوواہ کا بیٹا، اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ کیا اس طرح کے تصورات مبالغہ نہیں ہیں؟ اگر آخری دور میں کام کا یہ مرحلہ انجام نہ پایا ہوتا تو پوری انسانیت خدا کی طرف ایک تاریک سائے میں گِھر جاتی۔ اگر ایسا ہوتا تو مرد اپنے آپ کو عورت سے زیادہ بلند سمجھتا اور عورتیں کبھی سر اٹھانے کے قابل نہ ہوتیں اور پھر ایک عورت بھی نہیں بچائی جا سکتی تھی۔ لوگ ہمیشہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا مرد ہے، اور مزید یہ کہ اس نے ہمیشہ عورت سے نفرت کی ہے اور وہ اسے نجات نہیں دے گا۔ اگر ایسا معاملہ ہوتا، تو کیا یہ سچ نہیں ہوگا کہ تمام خواتین، جو یہوواہ کی طرف سے تخلیق گئی ہیں اور جو بدعنوان بھی ہو چکی ہیں، ان کو کبھی بھی نجات پانے کا موقع نہیں ملے گا؟ تو کیا یہوواہ کے لیے عورت کو تخلیق کرنا، یعنی حوا کو تخلیق کرنا بے معنی نہ ہوتا؟ اور کیا عورت ہمیشہ کے لیے ہلاک نہ ہو جاتی؟ اس لیے آخری ایام میں کام کا مرحلہ شروع کیا جاتا ہے تاکہ صرف عورت ہی نہیں پوری نوعِ انسانی کو بچایا جا سکے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ اگر مجسم خدا عورت کے روپ میں آیا ہے، تو یہ صرف عورت کو بچانے کے لیے ہوگا، تو وہ شخص واقعی ایک احمق ہوگا!
آج کے کام نے فضل کے دور کے کام کو آگے بڑھایا ہے؛ یعنی پورے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے تحت کام آگے بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ فضل کا دور ختم ہو گیا ہے مگر خدا کے کام میں ترقی ہوئی ہے۔ میں بار بار کیوں کہتا ہوں کہ کام کا یہ مرحلہ فضل کے دور اور قانون کے دور پر استوار ہوتا ہے؟ کیونکہ آج کے دن کا کام فضل کے دور میں کیے گئے کام کا تسلسل ہے، اور قانون کے دور میں کیے جانے والے کام سے آگے کا ہے۔ تینوں مراحل مضبوطی سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں، زنجیر میں ہر ایک کڑی اگلی سے مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ میں یہ بھی کیوں کہتا ہوں کہ کام کا یہ مرحلہ یسوع کی طرف سے کیے گئے کام پر استوار ہوتا ہے؟ فرض کرو کہ یہ مرحلہ یسوع کے کیے گئے کام پر استوار نہ ہوتا، تو اس مرحلے میں ایک اور تصلیب ہوتی، اور پچھلے مرحلے کا نجات سے متعلق کام دوبارہ کرنا پڑتا۔ یہ بے معنی ہوگا۔ اور ایسا نہیں ہے کہ کام مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ دور آگے بڑھ گیا ہے اور کام کی سطح پہلے سے زیادہ بلند ہو گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کام کا یہ مرحلہ قانون کے دور کی بنیاد اور یسوع کے کام کی چٹان پر بنایا گیا ہے۔ خدا کا کام مرحلہ وار بنایا گیا ہے، اور یہ مرحلہ کوئی نیا آغاز نہیں ہے۔ کام کے صرف تین مراحل کے امتزاج کو چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس مرحلے کا کام فضل کے دور کے کام کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگر کام کے یہ دونوں مراحل غیر متعلق تھے تو پھر اس مرحلے میں تصلیب کا اعادہ کیوں نہیں کیا گیا؟ میں کیوں انسان کے گناہوں کو برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کی بجائے براہ راست انسان کا فیصلہ کرنے اور سزا دینے کے لیے آتا ہوں؟ اگر انسان کا فیصلہ کرنے اور سزا دینے کا میرا کام تصلیب کی پیروی نہیں کرتا، اور میرے اب آنے میں روح القدس کا تصور نہیں کیا گیا، تو میں انسان کا فیصلہ کرنے اور سزا دینے کا اہل نہیں رہوں گا۔ یہ بالکل اس لیے ہے کہ میں یسوع کے ساتھ ایک ہوں کہ میں براہ راست انسان کو سزا دینے اور انسان کا فیصلہ کرنے آتا ہوں۔ اس مرحلے پر کام مکمل طور پر پچھلے مرحلے کے کام پر بنایا گیا ہے۔ اس لیے صرف اس قسم کا کام ہی انسان کو مرحلہ وار نجات تک پہنچا سکتا ہے۔ یسوع اور میں ایک روح سے آئے ہیں۔ اگرچہ ہم اپنے جسموں میں غیر متعلق ہیں، ہماری روحیں ایک ہیں؛ اگرچہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جو کام ہم کرتے ہیں اس کا مواد ایک جیسا نہیں ہے، ہم جوہر میں ایک جیسے ہیں؛ اگرچہ ہم اپنے جسموں میں غیر متعلق ہیں، ہماری روحیں ایک ہیں؛ اگرچہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جس کام میں ہم مشغول ہوتے ہیں اس کا مواد ایک جیسا نہیں ہے، ہم جوہر میں ایک جیسے ہیں؛ ہمارا جسم مختلف شکلیں رکھتا ہے، لیکن یہ زمانے میں تبدیلی اور ہمارے کام کے مختلف تقاضوں کی وجہ سے ہے؛ ہماری ذمہ داریاں یکساں نہیں ہیں، اس لیے جو کام ہم پیش کرتے ہیں اور جو مزاج ہم انسان پر ظاہر کرتے ہیں وہ بھی مختلف ہیں۔ اس لیے آج کے دن انسان جو کچھ دیکھتا اور سمجھتا ہے وہ ماضی کے برعکس ہے جس کی وجہ زمانے کی تبدیلی ہے۔ کیونکہ وہ جنس اور اپنی جسمانی شکل میں مختلف ہیں، اور یہ کہ وہ ایک ہی خاندان میں پیدا نہیں ہوئے، اور ایک ہی وقت میں تو بالکل بھی نہیں ہیں، ان کی روحیں بہر حال ایک ہیں۔ کیونکہ ان کی جسمانی شکل میں نہ تو خونی رشتہ اور نہ ہی کسی قسم کی جسمانی رشتے داری ہے، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دو مختلف ادوار میں مجسم خدا ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ مجسم خدا ہیں۔ تاہم، ان کے آباﺆاجداد ایک نہیں ہیں اور ان کی انسانی زبان مشترک نہیں ہے (ایک مرد تھا جو یہودیوں کی زبان بولتا تھا اور دوسری عورت ہے جو صرف چینی زبان بولتی ہے)۔ انہی وجوہات کی وجہ سے وہ مختلف ممالک میں وقت کے مختلف ادوار میں بھی اس کام کو کرنے کے لیے رہے ہیں جس کو انجام دینا ہر ایک پر فرض ہوتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایک ہی روح ہیں، ایک ہی جوہر کے حامل ہیں، ان کے جسم کے بیرونی خولوں کے درمیان مطلق مماثلت نہیں ہے۔ جو چیز ان میں ایک جیسی ہے وہ صرف انسان ہونا ہے، لیکن جہاں تک ان کے جسموں کی ظاہری شکل اور ان کی پیدائش کے حالات کا تعلق ہے، وہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان چیزوں کا ان کے اپنے کام یا اس علم پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو انسان کے پاس ان کے بارے میں ہے، کیونکہ آخری تجزیے میں وہ ایک ہی روح ہیں اور کوئی انہیں الگ نہیں کر سکتا۔ اگرچہ ان کا خونی رشتہ نہیں ہے، لیکن ان کے مکمل وجود ان کی روحوں کے اختیار میں ہیں، جو ان کے لیے مختلف اوقات میں مختلف کام مختص کرتی ہیں، اور ان کے جسموں کے آباﺆاجداد مختلف ہیں۔ یہوواہ کی روح یسوع کی روح کا باپ نہیں ہے، اور یسوع کی روح یہوواہ کی روح کا بیٹا نہیں ہے: وہ ایک ہی روح ہیں۔ اسی طرح، آج کے مجسم خدا اور یسوع کا خونی رشتہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ہی ہیں، یہ اس لیے ہے کہ ان کی روحیں ایک ہیں۔ خُدا رحم اور شفقت کا کام کر سکتا ہے، نیز وہ راستباز فیصلے اور انسان کی سزا کا کام کر سکتا ہے، اور یہ کہ انسان پر لعنت بھیجنے کا کام کر سکتا ہے؛ اور آخر میں، وہ دنیا کو تباہ کرنے اور بدکاروں کو سزا دینے کا کام کر سکتا ہے۔ کیا وہ یہ سب خود نہیں کرتا؟ کیا یہ خدا کی قدرت کاملہ نہیں ہے؟ وہ انسان کے لیے قوانین وضع کرنے اور اسے احکام جاری کرنے کے دونوں کام کرنے کے قابل تھا، اور وہ ابتدائی اسرائیلیوں کی زمین پر ان کی زندگی گزارنے میں راہنمائی کرنے کے قابل بھی تھا، اور معبد اور قربان گاہوں کی تعمیر میں ان کی راہنمائی کرنے اور تمام اسرائیلیوں کو اپنے تسلط میں رکھنے کے قابل تھا۔ اپنے اختیار کی وجہ سے، وہ دو ہزار سال تک بنی اسرائیل کے ساتھ زمین پر رہا۔ بنی اسرائیل نے اس کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت نہیں کی؛ سب نے یہوواہ کی تعظیم کی اور اس کے احکام کی تعمیل کی۔ یہ وہ کام تھا جو اُس کے اختیار اور اُس کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوا تھا۔ تب، فضل کے دور کے دوران، تنزلی کے شکار تمام بنی نوع انسان (صرف بنی اسرائیل ہی نہیں) کی نجات کے لیے یسوع آیا۔ اس نے انسانوں سے رحم اور محبت وشفقت کا مظاہرہ کیا۔ انسان نے فضل کے دور میں جس یسوع کو دیکھا وہ محبت و شفقت سے معمور تھا اور انسانوں کے ساتھ ہمیشہ محبت کرنے والا تھا، کیونکہ وہ انسان کو گناہ سے بچانے آیا تھا۔ وہ انسانوں کے گناہوں کو معاف کرنے کے قابل تھا حتیٰ کہ اس کے مصلوب ہونے نے انسانوں کو گناہ سے مکمل طور پر نجات دلا دی۔ اس زمانے کے دوران، خدا رحم اور محبت و شفقت کے ساتھ انسان کے سامنے ظاہر ہوا؛ یعنی، وہ انسان کے لیے گناہ کا کفارہ بن گیا اور انسان کے گناہوں کے لیے مصلوب ہوا، تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے معاف کیے جا سکیں۔ وہ مہربان، ہمدرد، صبر کرنے والا اور محبت کرنے والا تھا۔ اور ان تمام لوگوں نے جنہوں نے فضل کے دور میں یسوع کی پیروی کی، انہوں نے ہر چیز میں اسی طرح صبر اور محبت کرنے کی کوشش کی۔ وہ انتہائی صابر تھے، اور مار پیٹ، لعنت یا سنگسار ہونے پر انہوں نے کبھی لڑائی نہیں کی۔ لیکن آخری مرحلے کے دوران اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ یسوع اور یہوواہ کا کام مکمل طور پر ایک جیسا نہیں تھا حالانکہ وہ ایک روح کے تھے۔ یہوواہ کے کام نے دور کو ختم نہیں کیا، بلکہ زمین پر بنی نوع انسان کی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے اس دور کی راہنمائی کی، اور آج کا کام غیر قوموں میں ان لوگوں پر غالب آنا ہے جو بہت زیادہ بدعنوان ہو چکے ہیں، اور صرف چین میں خدا کے منتخب کردہ لوگوں ہی کی نہیں، بلکہ پوری کائنات اور تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کرنا ہے۔ تجھے ایسا لگ سکتا ہے کہ یہ کام صرف چین میں ہو رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ بیرون ملک پھیلنا شروع ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ چین سے باہر لوگ بار بار سچا راستہ تلاش کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ روح نے پہلے سے ہی کام کرنا شروع کر دیا ہے، اور آج بولے جانے والے الفاظ پوری کائنات میں لوگوں کے لیے ہیں۔ اس کے ساتھ آدھا کام پہلے سے ہی جاری ہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک، خدا کی روح نے اس عظیم کام کو شروع کیا ہے، اور اس کے علاوہ مختلف ادوار اور مختلف قوموں کے درمیان مختلف کام کیے ہیں۔ ہر زمانے کے لوگ اس کا ایک الگ مزاج دیکھتے ہیں، جو قدرتی طور پر اس کے کیے گئے مختلف کاموں سے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ خدا ہے، رحم اور شفقت سے معمور ہے؛ وہ انسان اور انسان کے نگران کے لیے گناہ کا کفارہ ہے؛ لیکن وہ انسان کا فیصلہ، عذاب اور لعنت بھی ہے۔ وہ انسان کو زمین پر دو ہزار سال تک زندہ رہنے کے لیے راہنمائی کر سکتا تھا، اور وہ بدعنوان انسانوں کی گناہ سے خلاصی بھی کروا سکتا تھا۔ آج، وہ اس بنی نوع انسان کو فتح کرنے کے قابل بھی ہے، جو اسے نہیں جانتا، اور اس سے اپنے اقتدار میں سجدہ کروانے کے قابل ہے، تاکہ سب اس کی مکمل اطاعت کریں۔ آخر میں، وہ پوری کائنات میں لوگوں کے اندر موجود تمام ناپاکی اور برائی کو جلا دے گا، تاکہ انہیں دکھائے کہ وہ نہ صرف ایک مہربان اور محبت کرنے والا خدا ہے، نہ صرف حکمت اور عجائبات کا خدا ہے، نہ صرف ایک مقدس خدا ہے، بلکہ مزید برآں، ایک خدا جو انسان کا فیصلہ کرتا ہے۔ بنی نوع انسان میں سے برے لوگوں کے لیے، وہ جلانا، فیصلہ، اور سزا ہے؛ اور ان لوگوں کے لیے جو کامل ہونے والے ہیں، وہ مصیبت، تزکیہ، اور آزمائش کے ساتھ ساتھ راحت، رزق، کلام کی فراہمی، نمٹنا، اور تراش خراش ہے۔ اور رد کر دیے جانے والوں کے لیے وہ سزا اور عذاب ہے۔ مجھے بتا کیا خدا قادر مطلق نہیں ہے؟ وہ کسی بھی اور تمام کام کے قابل ہے، صرف مصلوب ہونے کے لیے نہیں، جیسا کہ تو تصور کرتا ہے۔ تو خدا کے بارے میں بہت کم سوچتا ہے! کیا تجھے یقین ہے کہ وہ جو کر سکتا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی تصلیب کے ذریعے پوری انسانیت کو بچا سکتا ہے، اور بس؟ اور اس کے بعد، تو زندگی کے درخت کا پھل کھانے اور زندگی کے دریا سے پینے کے لیے اس کے پیچھے آسمان تک جائے گا؟ ۔۔۔ کیا یہ اتنا آسان ہو سکتا ہے؟ مجھے بتا، تو نے کیا کام کیا ہے؟ کیا تیرے پاس یسوع کی زندگی ہے؟ بے شک اس نے تیری خلاصی کروائی تھی، لیکن مصلوب ہونا خود یسوع کا کام تھا۔ بحیثیت انسان تو نے کون سا فرض ادا کیا ہے؟ تیرے پاس صرف ظاہری تقویٰ ہے، لیکن تو اس کے طریقے کو نہیں سمجھتا۔ کیا تو اُس کو اس طرح ظاہر کرتا ہے؟ اگر تو نے خدا کی زندگی کو حاصل نہیں کیا ہے یا اس کےمکمل راستباز مزاج کو نہیں دیکھا ہے، تو تُو زندگی کا حامل ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا ہے، اور تو آسمان کی بادشاہی کے دروازے سے گزرنے کے لائق نہیں ہے۔
خُدا نہ صرف ایک روح ہے بلکہ وہ جسم بھی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ جاہ وجلال کا جسم ہے۔ یسوع کو اگرچہ تم نے نہیں دیکھا، لیکن اس وقت کے اسرائیلیوں – یہودیوں نے اس کی گواہی دی تھی۔ وہ پہلے تو ایک گوشت پوست کا جسم تھا، لیکن مصلوب ہونے کے بعد، وہ جاہ وجلال کا جسم بن گیا۔ وہ سب پر محیط روح ہے اور ہر جگہ کام کر سکتا ہے۔ وہ یہوواہ، یا یسوع، یا مسیح ہو سکتا ہے؛ آخر میں، وہ قادرِ مطلق خدا بھی بن سکتا ہے۔ وہ راستبازی، فیصلہ اور عذاب ہے۔ وہ لعنت اور غضب ہے؛ لیکن وہ رحم اور شفقت بھی ہے۔ اس نے جو سب کام کیا ہے وہ اس کی نمائندگی کرنے کے قابل ہے۔ تو خدا کے بارے میں کیا کہتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ تو وضاحت نہیں کر سکتا۔ اگر تو واقعی وضاحت نہیں کر سکتا تو تجھے خدا کے بارے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا چاہیے۔ صرف اِس لیے کہ خدا نے ایک مرحلے میں نجات کا کام کیا، تُو اس سے یہ نتیجہ نہ نکال کہ خُدا ہمیشہ کے لیے رحم اور شفقت کا خُدا ہے۔ کیا تو یقین کر سکتا ہے کہ وہ صرف ایک مہربان اور محبت کرنے والا خدا ہے؟ اگر وہ محض مہربان اور محبت کرنے والا خُدا ہے تو وہ آخری ایام میں دَور کو کیوں ختم کرے گا؟ وہ اتنی آفتیں کیوں نازل کرے گا؟ لوگوں کے تصورات اور خیالات کے مطابق، خدا کو آخری حد تک مہربان اور محبت کرنے والا ہونا چاہیے، تاکہ بنی نوع انسان کے ہر آخری فرد کو نجات مل سکے۔ لیکن، آخری ایام میں، وہ خدا کو دشمن سمجھنے والی اس بری نوعِ انسانی کو تباہ کرنے کے لیے زلزلے، خطرناک وبا اور قحط جیسی عظیم آفات کیوں نازل کرتا ہے؟ وہ انسان کو ان آفات کا شکار کیوں ہونے دیتا ہے؟ جہاں تک خدا کی ذات کا تعلق ہے تو تم میں سے کوئی یہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا اور کوئی بیان کرنے پر قادر نہیں ہے۔ کیا تو یہ یقین کرنے کی ہمت کر سکتا ہے کہ وہ روح ہے؟ کیا تو یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ وہ یسوع کے جسم کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے؟ اور کیا تو یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ وہ ایسا خدا ہے جو ہمیشہ کے لیے انسان کی خاطر مصلوب ہو جائے گا؟