خدا کی تجسیم کا راز (4)

تمہیں انجیل کے پس منظر کی کہانی اور اس کی تشکیل کے بارے میں جاننا چاہیے۔ اس علم کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہے جنھوں نے خدا کے نئے کام کو قبول نہیں کیا ہے۔ وہ نہیں جانتے ہیں۔ اگر تو ان کے ساتھ ان جوہر کے معاملات کے بارے میں واضح طور پر بات کرے گا، تو وہ تیرے ساتھ انجیل کے بارے میں مزید اصرار نہیں کریں گے۔ وہ مسلسل اس بات کی ٹوہ لے رہے ہیں جس کی پیشین گوئی کی گئی ہے: کیا یہ بیان پورا ہوا ہے؟ کیا وہ بیان پورا ہوا ہے؟ ان کا خوشخبری کو قبول کرنا انجیل کے مطابق ہے، اور وہ خوشخبری کی منادی انجیل کے مطابق کرتے ہیں۔ خدا پر ان کا یقین انجیل کے الفاظ پر منحصر ہے؛ انجیل کے بغیر، وہ خدا پر یقین نہیں کریں گے۔ یہ ان کا زندگی بسر کرنے کا انداز ہے کہ وہ انجیل کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھان بین کے تابع کرتے ہیں۔ جب وہ ایک بار پھر انجیل کی ٹوہ لینے اور تجھ سے وضاحت طلب کرنے آتے ہیں، تو تو کہہ، "پہلے تو، ہمیں ہر ایک بیان کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی بجائے، آ یہ دیکھتے ہیں کہ روح القدس کیسے کام کرتی ہے۔ آ اس راستے کو لیں جس پر ہم چلتے ہیں، اور سچائی کے ساتھ اس کا موازنہ کریں کہ آیا یہ راستہ واقعی روح القدس کا کام ہے یا نہیں، اور ہم روح القدس کے کام کو استعمال کرتے ہوئے یہ تصدیق کریں کہ کیا ایسا راستہ درست ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ بیان یا وہ بیان پیشین گوئی کے مطابق پورا ہوا ہے یا نہیں، تو ہم انسانوں کو اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ روح القدس کے کام اور تازہ ترین کام جو خدا کرتا رہا ہے، کی بجائے، ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ہم بولیں۔" انجیل میں پیشین گوئیاں خدا کے الفاظ ہیں جو اس وقت انبیا کے ذریعہ منتقل کیے گئے تھے اور ان لوگوں کے لکھے ہوئے الفاظ ہیں جنھیں خدا نے استعمال کیا تھا اور جنھیں الہام حاصل ہوا تھا؛ صرف خدا ہی ان الفاظ کی وضاحت کر سکتا ہے، صرف روح القدس ہی ان الفاظ کے معنی بتا سکتی ہے، اور صرف خدا ہی خود سات مہروں کو توڑ سکتا ہے اور طومار کو کھول سکتا ہے۔ تو کہتا ہے: "تو خدا نہیں ہے، اور نہ ہی میں ہوں، تو کون خدا کے الفاظ کو غیر سنجیدہ انداز میں بیان کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ کیا تو ان الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ یہاں تک کہ اگر نبی یرمیاہ، یوحنا اور ایلیاہ بھی آئیں تو وہ ان الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت نہیں کریں گے، کیونکہ وہ برّہ نہیں ہیں۔ صرف برّہ ہی سات مہروں کو توڑ سکتا ہے اور طومار کو کھول سکتا ہے، اور کوئی دوسرا اس کے الفاظ کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ میں خدا کا نام غصب کرنے کی ہمت نہیں کرتا، خدا کے کلام کی وضاحت کرنے کی کوشش کرنے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے۔ میں صرف وہی ہو سکتا ہوں جو خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ کیا تو خدا ہے؟ خدا کی مخلوقات میں سے کوئی بھی طومار کو کھولنے یا ان الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت نہیں کرتا، اور اس لیے میں بھی ان کی وضاحت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ بہتر ہے کہ تو ان کی وضاحت کرنے کی کوشش نہ کر۔ کوئی ان کی وضاحت کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمیں روح القدس کے کام کے بارے میں بات کرنی چاہیے؛ آدمی اتنا تو کر سکتا ہے۔ میں یہوواہ اور یسوع کے کام کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں، لیکن چونکہ مجھے اس طرح کے کام کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہے، اس لیے میں اس کے بارے میں صرف ایک حد تک بات کر سکتا ہوں۔ جہاں تک ان الفاظ کے معنی ہیں جو یسعیاہ یا یسوع نے اپنے زمانے میں کہے تھے، تو میں کوئی وضاحت نہیں کروں گا۔ میں انجیل کا مطالعہ نہیں کرتا، بلکہ میں خدا کے موجودہ کام کی پیروی کرتا ہوں۔ تو اصل میں انجیل کو چھوٹا طومار سمجھتا ہے، لیکن کیا یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے صرف برّہ ہی کھول سکتا ہے؟ برّہ کے علاوہ اسے اور کون کھول سکتا ہے؟ تو برّہ نہیں ہے، اور اس کا امکان تو اس سے بھی کم ہے کہ میں خود خدا ہونے کا دعویٰ کرنے کی جسارت کروں، اس لیے ہمیں انجیل کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی چھان بین کرنی چاہیے۔ روح القدس کے ذریعے کیے گئے کام پر بحث کرنا کہیں بہتر ہے، یعنی موجودہ کام جو خدا نے خود کیا ہے۔ آؤ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے اصول ہیں جن کے ذریعے خدا کام کرتا ہے اور اس کے کام کا جوہر کیا ہے، ان کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کریں کہ آیا آج ہم جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ صحیح ہے یا نہیں، اور اس طرح اس کو یقینی بنائیں۔" اگر تم خوشخبری کی منادی کرنا چاہتے ہو، خاص طور پر ان کو جو مذہبی دنیا میں ہیں تو تمہیں انجیل کو لازمی سمجھنا چاہیے اور اس کی اندرونی کہانی پر عبور حاصل کرنا چاہیے؛ بصورت دیگر، تیرے لیے خوشخبری کی منادی کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ایک بار جب تو نے مکمل صورتحال کو سمجھنے میں عبور حاصل کر لیا اور انجیل کے مردہ الفاظ کو معمولی انداز میں جانچنا چھوڑ دیتا ہے، اور صرف خدا کے کام اور زندگی کی سچائی کے بارے میں بات کرتا ہے، تو تُو ان لوگوں کو حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا جو سچے دل کے ساتھ تلاش کرتے ہیں۔

یہوواہ کا کام، وہ قوانین جو اس نے وضع کیے، اور وہ اصول جن کے ذریعے اس نے انسانوں کی زندگی گزارنے میں راہنمائی کی، اس کام کا مواد جو اس نے قانون کے دور میں کیا، اس کے اپنے قوانین کو نافذ کرنے کی اہمیت، فضل کے دور تک اس کے کام کی اہمیت، اور خدا اس آخری مرحلے میں کیا کام کرتا ہے: یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں تمہیں سمجھنا چاہیے۔ پہلا مرحلہ قانون کے دور کا کام ہے، دوسرا فضل کے دور کا کام، اور تیسرا آخری ایام کا کام ہے۔ تمہیں خدا کے کام کے ان مراحل کے بارے میں لازمی طور پر واضح ہونا چاہیے۔ شروع سے آخر تک کل تین مراحل ہیں۔ کام کے ہر مرحلے کا جوہر کیا ہے؟ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے کام میں کتنے مراحل طے کیے جاتے ہیں؟ یہ مراحل کیسے انجام پاتے ہیں، اور ہر ایک کو اپنے مخصوص طریقے سے کیوں انجام دیا جاتا ہے؟ یہ تمام اہم سوالات ہیں۔ ہر دور کے کام کی ایک نمائندہ اہمیت ہوتی ہے۔ یہوواہ نے کون سا کام انجام دیا؟ اس نے اسے اس خاص طریقے سے کیوں کیا؟ اسے یہوواہ کیوں کہا گیا؟ ایک بار پھر، یسوع نے فضل کے دور میں کون سا کام انجام دیا، اور اس نے اسے کس انداز میں کیا؟ کام کے ہر مرحلے اور ہر دور میں خدا کے مزاج کے کن پہلوؤں کی نمائندگی ہوتی ہے؟ قانون کے دور میں اس کے مزاج کے کن پہلوؤں کا اظہار کیا گیا؟ اور فضل کے دور میں کن پہلوؤں کا؟ اور آخری دور میں کن پہلوؤں کا؟ یہ ضروری سوالات ہیں جن کے بارے میں تمہیں واضح ہونا چاہیے۔ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے دوران خدا کے مکمل مزاج کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ صرف فضل کے دور میں ظاہر نہیں ہوتا ہے، نہ ہی صرف قانون کے دور میں، صرف آخری ایام کے اس زمانے میں تو اس سے بھی کم ظاہر ہوتا ہے۔ آخری ایام میں کیا گیا کام فیصلے، غضب اور سزا کی نمائندگی کرتا ہے۔ آخری ایام میں کیا گیا کام قانون کے دور یا فضل کے دور کے کام کی جگہ نہیں لے سکتا۔ تاہم، تینوں مراحل، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، ایک ادارے کی تشکیل کرتے ہیں، اور سب ایک خدا کا کام ہے۔ قدرتی طور پر، اس کام کے عمل کو الگ الگ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آخری ایام میں کیا گیا کام سب کچھ ختم کر دیتا ہے؛ جو قانون کے دور میں کیا گیا وہ آغاز کا کام تھا؛ اور جو فضل کے دور میں کیا گیا وہ نجات کا کام تھا۔ جہاں تک اس پورے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے میں کام کی بصیرت کا تعلق ہے تو کوئی بھی مکمل فہم یا سمجھ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے، اور یہ بصیرت معمہ ہی رہتی ہے۔ آخری ایام میں، بادشاہی کے دور کو شروع کرنے کے لیے صرف کلام کا کام کیا جاتا ہے، لیکن یہ تمام ادوار کا نمائندہ نہیں ہے۔ آخری ایام، آخری ایام سے زیادہ نہیں ہیں اور بادشاہی کے دور سے زیادہ نہیں ہیں، اور وہ فضل کے دور یا قانون کے دور کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ آخری ایام میں چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کا تمام کام تم پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ اسرار سے پردہ اٹھانا ہے۔ اس قسم کا راز ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی بھی انسان پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان انجیل کو کتنا ہی زیادہ سمجھتا ہے، یہ الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ انسان انجیل کے جوہر کو نہیں سمجھتا۔ انجیل کو پڑھنے سے، انسان کچھ سچائیوں کو سمجھ سکتا ہے، کچھ الفاظ کی وضاحت کر سکتا ہے، یا کچھ مشہور اقتباسات اور ابواب کو چھوٹی چھوٹی باتوں کی چھان بین سے پرکھ سکتا ہے، لیکن وہ ان الفاظ کے اندر موجود مفہوم کو کبھی نہیں نکال سکے گا، کیونکہ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ مردہ الفاظ ہیں، یہوواہ اور یسوع کے کام کے مناظر نہیں، اور انسان کے پاس اس کام کے راز کو کھولنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ لہٰذا، چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کا راز سب سے بڑا راز ہے، سب سے زیادہ پوشیدہ ہے، اور انسان کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ فہم ہے۔ کوئی بھی شخص براہ راست خدا کے ارادے کو نہیں سمجھ سکتا، جب تک کہ خدا خود اس کی وضاحت اور انسان پر اس کا انکشاف نہ کرے؛ بصورت دیگر، یہ چیزیں ہمیشہ کے لیے انسان کے لیے معمہ بنی رہیں گی، ہمیشہ کے لیے مہربند اسرار ہی رہیں گی۔ جو مذہبی دنیا میں ہیں ان کی پروا نہ کرو؛ اگر تمہیں آج یہ نہ بتایا جاتا تو تم یہ بھی کبھی نہ سمجھ پاتے۔ چھ ہزار سال کا یہ کام انبیا کی تمام پیشین گوئیوں سے زیادہ پراسرار ہے۔ یہ تخلیق سے لے کر آج تک کا سب سے بڑا راز ہے اور تمام ادوار میں انبیا میں سے کوئی کبھی بھی اس کا ادراک نہیں کر سکا، کیونکہ اس راز سے صرف آخری دور میں ہی پردہ اٹھایا گیا ہے اور اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوا۔ اگر تم اس اسرار کو سمجھ سکتے ہو، اور اگر تم اسے مکمل طور پر حاصل کرنے کے قابل ہو جاﺆ گے، تو تمام مذہبی لوگ اس اسرار سے مغلوب ہو جائیں گے۔ صرف یہی سب سے بڑی بصیرت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو سمجھنے کے لیے انسان سب سے زیادہ بے تاب ہے لیکن یہ وہ بھی ہے جو اس کے لیے سب سے زیادہ غیر واضح ہے۔ جب تم فضل کے دور میں تھے تو تم نہیں جانتے تھے کہ یسوع کے ذریعے کیا گیا کام یا یہوواہ کے ذریعے کیا گیا کام کیا تھا۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آئی کہ یہوواہ نے قوانین کیوں وضع کیے، کیوں اس نے عوام الناس سے قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے کہا یا معبد کیوں بنانا تھا، اور پھر لوگوں کو اس کی بھی کم سمجھ آئی کہ اسرائیلیوں کو مصر سے بیابان اور پھر کنعان کی طرف کیوں لے جایا گیا تھا۔ آج تک یہ معاملات سامنے نہیں آئے تھے۔

آخری ایام میں کام تینوں مراحل کا آخری مرحلہ ہے۔ یہ ایک اور نئے دور کا کام ہے اور یہ انتظام کے مکمل کام کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کو کام کے تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کوئی ایک مرحلہ تنہا تین ادوار کے کام کی نمائندگی نہیں کر سکتا، بلکہ مکمل کے صرف ایک حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہوواہ نام خدا کے مکمل مزاج کی نمائندگی نہیں کر سکتا ہے۔ یہ حقیقت کہ اس نے قانون کے دور میں اپنا کام انجام دیا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا صرف قانون کے تحت خدا ہوسکتا ہے۔ یہوواہ نے انسان کے لیے قوانین وضع کیے اور اس کے لیے احکام نازل کیے، انسان سے معبد اور قربان گاہیں بنانے کے لیے کہا؛ اس نے جو کام کیا وہ صرف قانون کے دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کام جو اس نے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا صرف ایسا خدا ہے جو انسان سے قانون کی پابندی کرنے کو کہتا ہے، یا وہ معبد میں خدا ہے، یا وہ قربان گاہ کے سامنے خدا ہے۔ یہ کہنا غلط ہوگا۔ قانون کے تحت کیا جانے والا کام صرف ایک دور کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ لہٰذا، اگر خدا نے صرف قانون کے زمانے میں ہی کام کیا ہوتا، تو انسان خدا کو درج ذیل تعریف میں محدود کرتا، یہ کہتے ہوئے، "خدا معبد میں خدا ہے، اور خدا کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں پادری کا لباس پہن کر معبد کے اندر داخل ہونا چاہیے۔" اگر فضل کے دور میں کام نہ کیا جاتا اور قانون کا دور آج تک جاری رہتا تو انسان کو معلوم نہ ہوتا کہ خدا رحیم اور محبت کرنے والا بھی ہے۔ اگر قانون کے دور میں کام نہ کیا گیا ہوتا، اور اس کی بجائے صرف فضل کے دور میں کام ہوتا، تو انسان جو جانتا وہ صرف یہ ہوتا کہ صرف خدا ہی انسان کو بچا سکتا ہے اور انسان کے گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔ انسان صرف اتنا جان سکتا ہے کہ وہ مقدس اور معصوم ہے، اور یہ کہ انسان کی خاطر وہ اپنے آپ کو قربان کرنے اور مصلوب ہونے کے قابل ہے۔ انسان کو صرف یہ باتیں معلوم ہوں گی لیکن کسی اور چیز کی سمجھ نہیں ہو گی۔ لہٰذا ہر دور خدا کے مزاج کے ایک حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ جیسا کہ خدا کے مزاج کے کون سے پہلوؤں کی نمائندگی قانون کے دور میں کی جاتی ہے، کون سے پہلوؤں کی فضل کے دور میں، اور کون سے پہلوؤں کی اس موجودہ مرحلے میں: جب تینوں مراحل کو ایک مکمل میں ضم کر دیا جائے تو صرف اس صورت میں وہ خدا کے مکمل مزاج کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ جب انسان تینوں مراحل کو جان لے گا تب ہی وہ اسے پوری طرح سمجھ سکتا ہے۔ تینوں مراحل میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ تو کام کے ان تین مراحل کو جان لینے کے بعد ہی خدا کے مزاج کو مکمل طور پر سمجھ سکے گا۔ یہ حقیقت کہ خدا نے قانون کے دور میں اپنا کام مکمل کیا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ صرف قانون کے تحت خدا ہے، اور یہ حقیقت کہ اس نے خلاصی کا اپنا کام مکمل کیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا بنی نوع انسان کی ہمیشہ خلاصی کرائے گا۔ یہ سب انسان کے اخذ کردہ نتائج ہیں۔ فضل کا دور ختم ہونے کے بعد، تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا کا تعلق صرف صلیب سے ہے اور یہ کہ صرف صلیب ہی خدا کی نجات کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایسا کرنا خدا کی توضیح کرنا ہوگا۔ موجودہ مرحلے میں، خدا بنیادی طور پر کلام کا کام کر رہا ہے، لیکن تو اس وقت یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا انسان پر کبھی مہربان نہیں ہوا اور وہ جو کچھ لے کر آیا ہے وہ سزا اور فیصلہ ہے۔ آخری ایام میں کام یہوواہ اور یسوع کے کام اور انسان کو سمجھ نہ آنے والے تمام اسرار کو ظاہر کرتا ہے، تاکہ بنی نوع انسان کی منزل اور انجام کو ظاہر کیا جا سکے اور بنی نوع انسان کے درمیان نجات کے تمام کام کو ختم کیا جا سکے۔ آخری ایام میں کام کا یہ مرحلہ ہر چیز کو اختتام تک لاتا ہے۔ انسان کی سمجھ میں نہ آنے والے تمام اسرار کو کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ انسان انھیں ان کی گہرائیوں تک دریافت کر سکے اور اپنے دل میں مکمل طور پر واضح انداز میں سمجھ سکے۔ اس کے بعد ہی نسل انسانی کی نوعیت کے مطابق درجہ بندی کی جا سکتی ہے۔ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبہ مکمل ہونے کے بعد ہی انسان خدا کے مزاج کو مکمل طور پر سمجھ پائے گا، کیونکہ اس کے بعد اس کا نظم و نسق ختم ہو چکا ہوگا۔ اب جب کہ تم آخری دور میں خدا کے کام کا تجربہ کر چکے ہو، تو خدا کا مزاج کیا ہے؟ کیا تو یہ کہنے کی ہمت کرتا ہے کہ خدا وہ خدا ہے جو صرف کلام کہتا ہے اور مزید کچھ نہیں؟ تو ایسا نتیجہ اخذ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ خدا وہ خدا ہے جو اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے، کہ خدا برّہ ہے اور سات مہروں کو توڑنے والا ہے۔ لیکن کوئی بھی ایسا نتیجہ اخذ کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ دوسرے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا مجسم ہوا جسم ہے، لیکن یہ پھر بھی درست نہیں ہوگا۔ پھر بھی دوسرے لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجسم خدا صرف کلام کہتا ہے اور نشانیاں اور عجائبات نہیں دکھاتا، لیکن تو اس انداز میں بات کرنے کی ہمت کم ہی کرے گا، چونکہ یسوع جسم بن گیا اور اس نے نشانیاں اور عجائبات دکھائے، اس لیے تو خدا کی تعریف اتنے غیر سنجیدہ انداز میں کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے دوران کیا گیا تمام کام اب اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ یہ تمام کام انسان پر ظاہر ہونے اور بنی نوع انسان کے درمیان انجام پانے کے بعد ہی بنی نوع انسان کو خدا کے مکمل مزاج کا علم ہو گا اور یہ کہ اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے۔ جب اس مرحلے کا کام مکمل ہو جائے گا، تو انسان کی سمجھ میں نہ آنے والے تمام اسرار فاش ہو چکے ہوں گے، وہ تمام سچائیاں واضح ہو جائیں گی جو پہلے نہیں سمجھی گئی تھیں، اور نسل انسانی کو اس کے مستقبل کے راستے اور منزل کے بارے میں بتا دیا گیا ہو گا۔ یہ سب وہ کام ہے جو موجودہ مرحلے میں کیا جانا ہے۔ حالانکہ آج انسان جس راستے پر چل رہا ہے وہ صلیب کا راستہ بھی ہے اور مصائب کا راستہ بھی، لیکن آج انسان جو کچھ کرتا ہے، جو کچھ کھاتا اور پیتا ہے اور جس سے لطف اندوز ہوتا ہے، وہ اس سے بہت مختلف ہے جو قانون کے تحت اور فضل کے دور میں انسان کو میسر تھا۔ آج کے دن انسان سے جو کچھ مطالبہ کیا جاتا ہے وہ ماضی کے برعکس ہے اور اس مطالبے سے بھی زیادہ مختلف ہے جو قانون کے دور میں انسان سے کیا جاتا تھا۔ اب، جب خدا اسرائیل میں اپنا کام کر رہا تھا تو قانون کے تحت انسان سے کیا مطالبہ کیا گیا؟ یہ اس سے زیادہ نہیں تھا کہ آدمی یومِ سبت اور یہوواہ کے قوانین کو مانے۔ سبت کے دن کسی کو بھی محنت نہیں کرنی تھی اور نہ ہی یہوواہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ سبت کے دن انسان معمول کے مطابق کام کرتا ہے، جمع ہوتا ہے اور عبادت کرتا ہے اور اس پر کوئی پابندیاں نہیں لگائی جاتیں۔ فضل کے دور میں ان لوگوں کو بپتسمہ دینا تھا، اور ان سے مزید کہا گیا کہ وہ روزہ رکھیں، روٹی توڑیں، شراب نوشی کریں، اپنے سر ڈھانپیں اور دوسروں کے پاؤں ان کے لیے دھوئیں۔ اب یہ اصول ختم کر دیے گئے ہیں، لیکن انسان سے زیادہ مطالبات کیے جاتے ہیں، کیونکہ خدا کا کام مزید گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور انسان کا داخلہ زیادہ بلند ہوتا جاتا ہے۔ ماضی میں یسوع نے انسان پر ہاتھ رکھ کر دعا کی لیکن اب جب سب کچھ کہہ دیا گیا ہے تو ہاتھ رکھنے کا کیا فائدہ؟ صرف الفاظ ہی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ جب اس نے ماضی میں انسان پر ہاتھ رکھا تو یہ انسان کو برکت دینے اور اس کو اس کی بیماریوں سے شفا دینے کے لیے تھا۔ اس وقت روح القدس اس طرح کام کرتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اب روح القدس کام کرنے اور نتائج حاصل کرنے کے لیے کلام کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے الفاظ تم پر واضح کر دیے گئے ہیں اور تمہیں ان پر عمل کرنا چاہیے جیسا کہ تمہیں بتایا گیا ہے۔ اس کے الفاظ اس کی مرضی ہیں؛ یہ کلام وہ کام ہے جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ اُس کے الفاظ کے ذریعے، تو اُس کی مرضی اور اُس چیز کو سمجھ پائے گا جو وہ تجھے حاصل کرنے کے لیے کہتی ہے، اور تو کسی ہاتھ رکھنے کی ضرورت کے بغیر اُس کے الفاظ پر براہِ راست عمل کر سکتا ہے۔ کچھ کہہ سکتے ہیں، "اپنا ہاتھ مجھ پر رکھ! مجھ پر اپنا ہاتھ رکھ تاکہ میں تیری برکت حاصل کر سکوں اور میں تیرے ساتھ شامل ہو سکوں۔" یہ سب ماضی کے فرسودہ طریقے ہیں، جو اب متروک ہیں، کیونکہ دور بدل چکا ہے۔ روح القدس نہ تو بے ترتیب کام کرتی ہے اور نہ ہی طے شدہ اصولوں کے مطابق، بلکہ یہ دور کے مطابق کام کرتی ہے۔ دور بدل گیا ہے، اور ایک نیا دور لازمی طور پر اپنے ساتھ نیا کام لے کر آتا ہے۔ یہ کام کے ہر مرحلے پر سچ ہے، اور اس لیے اس کا کام کبھی نہیں دہرایا جاتا۔ فضل کے دور میں، یسوع نے اس قسم کا کام کافی مقدار میں کیا، جیسے کہ بیماری کو ٹھیک کرنا، بدروحوں کو نکالنا، انسان کے لیے دعا کرتے وقت اس پر اپنا ہاتھ رکھنا، اور انسان کو برکت دینا۔ تاہم، دوبارہ ایسا کرنا موجودہ دور میں بے معنی ہوگا۔ روح القدس نے اس وقت اس طریقے سے کام کیا، کیونکہ یہ فضل کا دور تھا، اور انسان کے فائدہ اٹھانے کے لیے کافی فضل تھا۔ اس سے کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں مانگا گیا تھا، اور جب تک اس کا ایمان تھا، وہ فضل حاصل کرتا رہا۔ سب کے ساتھ بہت لطف و عنایت کا سلوک کیا گیا۔ اب دور بدل گیا ہے اور خدا کا کام آگے بڑھ چکا ہے؛ یہ سزا اور فیصلے کے ذریعے ہی ہے کہ انسان کی سرکشی اور انسان کے اندر کی ناپاک چیزیں دور کی جائیں گی۔ اس مرحلے کے نجات کا مرحلہ ہونے کی وجہ سے، یہ خدا کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس طریقے سے کام کرے، انسان کے فائدہ اٹھانے کے لیے کافی فضل کا مظاہرہ کرے، تاکہ انسان گناہ سے چھٹکارا پا سکے اور، فضل کے ذریعے، اس کے گناہوں کو معاف کیا جا سکے۔ یہ موجودہ مرحلہ انسان کے اندر کی بے ایمانی کو سزا، فیصلے، متاثر کن الفاظ کے ساتھ ساتھ الفاظ کے نظم و ضبط اور نزول کے ذریعے ظاہر کرنا ہے تاکہ بعد میں بنی نوع انسان کو نجات مل سکے۔ یہ بچانے سے زیادہ عمیق کام ہے۔ فضل کے دور میں فضل انسان کے فائدہ اٹھانے کے لیے کافی تھا؛ اب جب کہ انسان پہلے ہی اس فضل کا تجربہ کر چکا ہے، اب وہ اس سے مزید فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کام کا وقت اب گزر چکا ہے اور اب مزید نہیں ہونا ہے۔ اب انسان کو کلام کے فیصلے سے بچایا جانا ہے۔ جب انسان کا فیصلہ کیا جاتا ہے، سزا دی جاتی ہے اور اس کا تزکیہ کیا جاتا ہے، تو اس طرح اس کا مزاج بدل جاتا ہے۔ کیا یہ سب میرے کہے ہوئے کلام کی وجہ سے نہیں ہے؟ کام کا ہر مرحلہ پوری نسل انسانی کی ترقی اور دور کے ساتھ مطابقت میں انجام دیا جاتا ہے۔ کام انتہائی اہم ہے، اور یہ سب آخری نجات کی خاطر کیا جاتا ہے، تاکہ مستقبل میں بنی نوع انسان کو اچھی منزل مل سکے، اور یہ کہ بنی نوع انسان کی آخر میں نوعیت کے مطابق درجہ بندی کی جا سکے۔

آخری ایام کا کام کلام کہنا ہے۔ کلام کے ذریعے انسان میں زبردست تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ یہ کلام قبول کرنے پر ان لوگوں پر اثر انداز ہونے والی تبدیلیاں فضل کے دور کی علامات اور عجائبات قبول کرنے پر ان لوگوں پر اثر انداز ہونے والی تبدیلیوں سے بہت زیادہ ہیں۔ کیوں کہ فضل کے دور میں ہاتھ رکھنے اور دعا کی وجہ سے بدروحوں کو انسان سے نکال دیا گیا تھا، لیکن بدعنوان مزاج پھر بھی انسان میں موجود رہا۔ انسان اپنی بیماری سے صحت یاب کر دیا گیا تھا اور اس کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر یہ کام ابھی کیا جانا باقی تھا کہ انسان اپنے اندر کے بدعنوان شیطانی مزاج پر کیسے قابو پائے۔ انسان صرف اپنے ایمان کی بدولت بچایا گیا تھا اور اس کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے، مگر انسان کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور اب بھی اس کے اندر موجود ہے۔ انسان کے گناہوں کو مجسم خُدا کی وساطت سے معاف کر دیا گیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انسان کے اندر اب گناہ باقی نہیں رہا۔ گناہ کے کفارے کے ذریعے انسان کے گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں، لیکن انسان کو مزید گناہ کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے، اور اس کی گناہ گار فطرت کو کس طرح مکمل طور پر ختم کر کے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انسان کے گناہوں کو معاف کر دیا گیا تھا، اور یہ خدا کے مصلوب ہونے کے عمل کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن انسان اپنے سابقہ شیطانی مزاج میں زندگی بسر کرتا رہا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، انسان کو اس کے بدعنوان شیطانی مزاج سے مکمل طور پر بچانا چاہیے، تاکہ اس کی گناہ گار فطرت مکمل طور پر ختم ہو جائے، دوبارہ کبھی پروان نہ چڑھے، اس طرح انسان کے مزاج کو تبدیلی کے قابل بنائے۔ اس کے لیے انسان کو زندگی میں ترقی کا راستہ سمجھنے، زندگی کا طریقہ سمجھنے اور اپنا مزاج بدلنے کا راستہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی۔ علاوہ ازیں، انسان کو اس راستے کے مطابق عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہو گی، تاکہ اس کا مزاج بتدریج بدل جائے اور وہ روشنی کی چمک کے نیچے زندگی گزار سکے، تاکہ اس کا ہر عمل خدا کی مرضی کے مطابق ہو۔ تاکہ وہ اپنے بدعنوان شیطانی مزاج سے جان چھڑا سکے، اور تاکہ وہ شیطان کی ظلمت کے اثر سے آزاد ہو سکے، اور یوں گناہ سے مکمل طور پر دور ہو سکے۔ تب ہی انسان کو مکمل نجات ملے گی۔ اس وقت جب یسوع اپنا کام کر رہا تھا، انسان کا اس کے بارے میں علم اس وقت بھی مبہم اور غیر واضح تھا۔ انسان نے ہمیشہ اسے داؤد کا بیٹا مانا، اور اس کے ایک عظیم نبی ہونے کا اعلان کیا، مہربان خداوند جس نے انسان کے گناہوں کو معاف کیا۔ کچھ، اپنے ایمان کی طاقت پر، صرف اُس کے لباس کے کنارے کو چھونے سے شفا پا گئے تھے؛ اندھے دیکھ سکتے تھے اور یہاں تک کہ مردے کو بھی زندہ کیا جا سکتا تھا۔ تاہم، انسان اپنے اندر گہرائی میں جڑ پکڑے ہوئے بدعنوان شیطانی مزاج کو دریافت کرنے سے قاصر تھا، نہ ہی اسے یہ معلوم تھا کہ اسے کیسے دور کیا جائے۔ انسان نے بہت زیادہ فضل حاصل کیا، جیسے جسمانی سکون اور خوشی، ایک فرد کے ایمان کا پورے خاندان پر برکت لانا، اور بیماری سے شفا وغیرہ۔ باقی انسان کے اچھے اعمال اور اس کی نیک شکل و صورت تھی؛ اگر کوئی ان کی بنیاد پر زندگی گزار سکتا تھا تو وہ قابل قبول ایمان رکھنے والا سمجھا جاتا تھا۔ صرف اس قسم کا ایمان رکھنے والے ہی موت کے بعد جنت میں داخل ہو سکتے تھے، جس کا مطلب تھا کہ وہ بچا لیے گئے تھے۔ لیکن، ان لوگوں نے اپنی زندگی میں، زندگی کے تمام طریقے کو نہیں سمجھا۔ انھوں نے صرف یہ کیا کہ گناہوں کا ارتکاب کیا اور پھر ایک مستقل چکر میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اپنے مزاج کو بدلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا: فضل کے دور میں انسان کی ایسی حالت تھی۔ کیا انسان کو مکمل نجات مل گئی ہے؟ نہیں! اس لیے اس مرحلے کے کام کے ختم ہونے کے بعد بھی سزا اور فیصلے کا کام باقی تھا۔ یہ مرحلہ کلام کے ذریعے انسان کو پاکیزہ بنانے اور اس کے ذریعے اسے پیروی کا راستہ فراہم کرنے کا ہے۔ اگر یہ مرحلہ بدروحوں کو نکالنے کے لیے جاری رہا تو یہ فائدہ مند اور بامعنی نہیں ہو گا کیونکہ یہ انسان کی گناہ گار فطرت کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہے گا۔ اور انسان اپنے گناہوں کی مغفرت پر جامد ہو کر رہ جائے گا۔ گناہ کے کفارے کے ذریعے، انسان کو اس کے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں، کیونکہ تصلیب کا عمل پہلے ہی اختتام کو پہنچ چکا ہے اور خدا شیطان پر غالب آ گیا ہے۔ لیکن اب بھی انسان کے اندر اس کے بدعنوان مزا ج کے موجود ہوتے ہوئے، انسان اب بھی گناہ کر سکتا ہے اور خدا کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے، اور خدا نے بنی نوع انسان کو اپنایا نہیں ہے۔ اس لیے کام کے اس مرحلے میں خدا اپنے کلام کا استعمال انسان کے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کرنے کے لیے کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ درست طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ یہ مرحلہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بامعنی ہے اور ساتھ ہی زیادہ بارآور بھی، کیونکہ اب یہ کلام ہے جو براہ راست انسان کو زندگی فراہم کرتا ہے اور انسان کے مزاج کو مکمل طور پر نئے سرے سے تشکیل دینے کا اہل بناتا ہے؛ یہ کام کا ایک بہت زیادہ جامع مرحلہ ہے۔ لہذا، آخری ایام میں تجسیم نے خدا کی تجسیم کی اہمیت کو مکمل کر دیا ہے اور انسان کی نجات کے لیے خدا کے انتظامی منصوبے کو تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔

انسان کو بچانے کا کام خدا براہ راست روح کے طریقہ کار اور روح کی شناخت استعمال کرتے ہوئے نہیں کرتا، کیونکہ اس کی روح کو انسان نہ توچھو سکتا ہے اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے، نہ انسان قریب جا سکتا ہے۔ اگر اس نے روح کے تناظر کو استعمال کرتے ہوئے براہ راست انسان کو بچانے کی کوشش کی تو انسان اس کی نجات کے حصول کے قابل نہیں ہوگا۔ اگر خُدا نے ایک تخلیق شدہ انسان کی ظاہری شکل نہ اپنائی تو انسان کے لیے یہ نجات حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ انسان کے پاس اس تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، اسی طرح جیسے کہ کوئی بھی یہوواہ کے بادل کے قریب نہیں جا سکتا تھا۔ صرف ایک تخلیق شدہ انسان بننے سے، یعنی صرف اپنا کلام گوشت پوست کے جسم میں ڈالنے سے، جو کہ وہ بننے والا ہے، وہ ذاتی طور پر ان تمام لوگوں پر کلام سے عمل کر سکتا ہے، جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ صرف اس وقت ہی انسان ذاتی طور پر اس کا کلام دیکھ اور سن سکتا ہے، مزید برآں اس کے الفاظ کے تصرف میں داخل ہوسکتا ہے، اور اس طریقے سے وہ مکمل طور پر بچایا جا سکتا ہے۔ اگر خُدا جسم نہ بنتا تو گوشت اور خون سے بنے انسانوں میں سے کوئی بھی ایسی عظیم نجات حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی ایک شخص بھی بچایا جا سکتا۔ اگر خُدا کی روح براہِ راست بنی نوع انسان کے درمیان کام کرتی تو تمام انسانیت ہلاک ہو جاتی، یا پھر خُدا کے ساتھ رابطے کا کا کوئی طریقہ نہ ہونے کے باعث وہ مکمل طور پر شیطان کے اسیر ہو جاتی۔ خدا کی پہلی تجسیم انسان کو گناہ سے خلاصی کروانے کے لیے تھی، اسے یسوع کے گوشت پوست کے جسم کے ذریعے خلاصی کروانے کے لیے تھی، یعنی اس نے صلیب پر سے انسان کو بچایا، لیکن بدعنوان شیطانی مزاج انسان کے اندر پھر بھی باقی رہا۔ خدا کی دوسری تجسیم اب گناہ کے کفارے کے طور پر خدمت کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو مکمل طور پر بچانے کے لیے ہے جن کی گناہ سے خلاصی کروائی گئی تھی۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو معاف کر دیا گیا ہے وہ اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کر کے مکمل طور پر پاک صاف ہو جائیں، اور بدلے ہوئے مزاج کو حاصل کر کے، شیطان کی تاریکی کے اثر سے آزاد ہو کر خدا کے تخت کے سامنے واپس آ جائیں۔ صرف اسی طریقے سے انسان مکمل طور پر مقدس ہو سکتا ہے۔ قانون کا دور ختم ہونے کے بعد، اور فضل کے دور کے شروع ہونے کے بعد، خدا نے نجات کا کام شروع کیا، جو آخری ایام تک جاری ہے جب، نسل انسانی کو اس کی سرکشی کی سزا دینے اور فیصلہ کرنے سے، وہ بنی نوع انسان کو مکمل طور پر پاک کر دے گا۔ تب ہی خُدا نجات کے اپنے کام کو ختم کرے گا اور آرام میں داخل ہوگا۔ لہٰذا، کام کے تین مراحل میں، صرف دو بار ہی خُدا انسان کے درمیان اپنے کام کو انجام دینے کے لیے خود جسم بنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کام کے تین مراحل میں سے صرف ایک مرحلہ ہی انسانوں کی زندگی گزارنے میں راہنمائی کرنے کے لیے ہے، جبکہ باقی دو نجات کے کام پر مشتمل ہیں۔ خدا صرف گوشت پوست کا جسم بن کر ہی انسانوں کے ہمراہ زندگی گزار سکتا ہے، دنیاوی مصائب کا تجربہ کرسکتا ہےاور گوشت پوست کے عام جسم میں زندہ رہ سکتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے وہ انسانوں کو عملی طریقہ فراہم کرسکتا ہے جس کی تخلیق شدہ انسانوں کی حیثیت سے انھیں ضرورت ہے۔ انسان آسمان کی طرف سے براہ راست یا اپنی دعاؤں کے جواب میں نہیں، بلکہ مجسم خدا کے ذریعے ہی خدا کی طرف سے مکمل نجات حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ گوشت اور خون کا ہونے کی وجہ سے انسان کے پاس خدا کی روح کو دیکھنے کا طریقہ نہیں ہوتا، اور اس کی روح تک پہنچنے کا امکان تو اور بھی دور کی بات ہے۔ انسان جس سے رابطہ کر سکتا ہے وہ صرف مجسم خدا کا جسم ہے، اور صرف اسی ذریعے سےانسان تمام طریقے اور تمام حقائق دیکھ سکتا ہے اور مکمل نجات حاصل کر سکتا ہے۔ خدا کی دوسری تجسیم انسان کے گناہوں کو مٹانے اور اسے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ لہٰذا، دوسری تجسیم کے ساتھ، جسم میں خُدا کے تمام کاموں کو اختتام تک لایا جائے گا اور خُدا کی تجسیم کی اہمیت کو مکمل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد، جسم میں خدا کا کام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو گا۔ دوسری تجسیم کے بعد، وہ اپنے کام کے لیے تیسری بار جسم نہیں بنے گا۔ کیونکہ اس کا سارا انتظام ختم ہو چکا ہو گا۔ آخری ایام کے مجسم خدا نے اپنے چنے ہوئے لوگوں کو مکمل طور پر اپنا لیا ہو گا، اور آخری زمانے میں تمام بنی نوع انسان کی نوعیت کے مطابق درجہ بندی ہو چکی ہو گی۔ وہ نجات کا کام مزید نہیں کرے گا، اور نہ ہی وہ کسی کام کو انجام دینے کے لیے جسم میں واپس آئے گا۔ آخری ایام کے کام میں، کلام نشانیوں اور عجائبات کے ظہور سے زیادہ طاقتور ہے، اور کلام کا اختیار نشانیوں اور عجائبات سے زیادہ ہے۔ کلام انسان کے دل کی گہرائیوں میں دفن تمام بدعنوان مزاج کو بے نقاب کردیتا ہے۔ تیرے پاس خود انھیں پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ جب وہ کلام کے ذریعے تیرے سامنے بے نقاب ہو جائیں گے، تو قدرتی طور پر تُو ان کو دریافت کر لے گا؛ تُو ان سے انکار نہیں کر سکے گا، اور تجھے پوری طرح یقین ہو جائے گا۔ کیا یہ کلام کا اختیار نہیں ہے؟ یہ آج کے کلام کے کام کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا، یہ بیماری کی شفا یابی اور بدروحوں کو نکالنے کے ذریعے سے نہیں ہے کہ انسان کو اس کے گناہوں سے مکمل طور پر بچایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی اس کی علامات اور عجائبات کے ظہور سے مکمل طور پر تکمیل کی جا سکتی ہے۔ بیماری کو ٹھیک کرنے اور بدروحوں کو نکالنے کا اختیار صرف انسان کو فضل دیتا ہے، لیکن انسان کا جسم اب بھی شیطان کا ہے اور بدعنوان شیطانی مزاج اب بھی انسان کے اندر موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جو صاف نہیں کیا گیا وہ اب بھی گناہ اور گندگی سے متعلق ہے۔ صرف اس کے بعد جب وہ کلام کی وساطت کے ذریعے پاک ہو جائے تو انسان خدا کی طرف سے اپنایا جا سکتا ہے اور مقدس بن سکتا ہے. جب انسان سے بدروحیں نکالی گئیں اور اس کی خلاصی کروائی گئی تو اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ اسے شیطان کے ہاتھوں سے چھڑا کر خدا کی طرف لوٹا دیا گیا۔ تاہم، خدا کی طرف سے صاف یا تبدیل کیے بغیر، وہ بدعنوان انسان کے طور پر رہتا ہے۔ انسان کے اندر غلاظت، مخالف اور بغاوت اب بھی باقی ہے؛ انسان صرف خدا کی طرف سے خلاصی کروانے کے ذریعے ہی اس کی طرف واپس لوٹا ہے، لیکن وہ خدا کا معمولی سا بھی علم نہیں رکھتا اور اب بھی اس کی مزاحمت کرنے اور اسے دھوکا دینے کے قابل ہے۔ انسان کی خلاصی کروائے جانے سے پہلے، بہت سے شیطانی زہر اس کے اندر اتارے جا چکے تھے اور، شیطان کی طرف سے ہزاروں سال سے بدعنوان کیے جانے کے بعد اس کے اندر ایسی فطرت مستحکم ہو چکی ہے جو خدا کے خلاف مزاحمت کرتی ہے۔ لہٰذا، جب انسان کی خلاصی کرو لی گئی ہے، تو یہ خلاصی کے ایسے معاملے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جس میں ایک انسان مہنگی قیمت پر خریدا گیا ہے لیکن اس کی اندرونی زہریلی فطرت ختم نہیں کی گئی۔ جو انسان اتنا پلید ہو، اسے خدا کی خدمت کے لائق بننے سے پہلے تبدیلی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ فیصلے اور سزا کے اس کام سے انسان اپنی ذات کی اندرونی غلاظت اور بدعنوان اصلیت کو پوری طرح جان لے گا اور وہ پوری طرح تبدیل ہونے اور پاک صاف ہو نے کے قابل ہو جائے گا۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے تخت کے سامنے واپس آنے کے لائق بن سکتا ہے۔ اس دن کے تمام کام اس لیے کیے جاتے ہیں کہ انسان کو صاف ستھرا بنایا جائے اور بدلا جائے؛ کلام کے ذریعے فیصلے اور سزا کے ساتھ ساتھ تزکیے کے ذریعے انسان اپنی بدعنوانی دور کر سکتا ہے اور اسے پاکیزہ بنایا جاسکتا ہے۔ کام کے اس مرحلے کو نجات کا مرحلہ سمجھنے کی بجائے، یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ تزکیے کا کام ہے۔ درحقیقت یہ فتح کا مرحلہ بھی ہے اور نجات کے کام کا دوسرا مرحلہ بھی۔ کلام کی طرف سے فیصلے اور سزا کے ذریعے انسان خدا کی قربت حاصل کرلیتا ہے، اور کلام کے استعمال سے ہی تزکیہ کیا جاتا ہے، جانچا جاتا ہے، اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ انسان کے دل میں موجود تمام نجاستیں، تصورات، مقاصد اور انفرادی خواہشات پوری طرح آشکار ہوتی ہیں۔ کیونکہ انسان کو چاہے اس کے گناہوں سے بچا لیا گیا ہو اور معافی دے دی گئی ہو مگر اس سے صرف یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ خدا انسان کی خطائیں یاد نہیں رکھتا اور انسان کے ساتھ اس کی خطاؤں کے مطابق سلوک نہیں کرتا۔ تاہم، جب تک انسان، جو گوشت پوست کا جسم رکھتا ہے، گناہ سے آزاد نہیں ہوتا ہے، تو وہ لامتناہی طور پر اپنے بدعنوان شیطانی مزاج کو ظاہر کرتے ہوئے صرف گناہ ہی جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو انسان گزارتا ہے، گناہ کرنے اور معاف کیے جانے کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر۔ بنی نوع انسان کی اکثریت دن میں گناہ کرتی ہے، صرف اس لیے کہ شام کو اعتراف کر سکے۔ اس طرح، اگرچہ گناہ کا کفارہ انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے موثر ہے، لیکن وہ انسان کو گناہ سے نہیں بچا سکے گا۔ نجات کا صرف آدھا کام مکمل ہوا ہے، کیونکہ انسان کا مزاج اب بھی بدعنوان ہے۔ مثال کے طور پر، جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ موآب سے ہیں، تو انھوں نے شکایات کیں، زندگی کی کوشش کرنا چھوڑ دی، اور بالکل منفی ہو گئے۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انسانیت ابھی تک مکمل طور پر خدا کے تسلط کے تابع ہونے سے قاصر ہے؟ کیا یہ بالکل ان کا بدعنوان شیطانی مزاج نہیں ہے؟ جب تجھے سزا نہیں دی جا رہی تھی تو تیرے ہاتھ باقی تمام لوگوں سے، حتیٰ کہ یسوع کے ہاتھ سے بھی زیادہ بلند ہوئے۔ اور تو نے اونچی آواز میں پکارا: "خدا کے پیارے بیٹے بنو! خدا کے قریبی دوست بنو! ہم شیطان کے سامنے جھکنے کے مقابلے میں مرنے کو ترجیح دیں گے! پرانے شیطان کے خلاف بغاوت! عظیم سرخ اژدہے کے خلاف بغاوت! عظیم سرخ اژدہا خوار ہو کر طاقت سے محروم ہو! خدا ہمیں کامل بنائے!" تیری چیخیں باقی سب سے زیادہ بلند تھیں۔ لیکن پھر سزا کا وقت آیا اور ایک بار پھر، انسانیت کا بدعنوان مزاج ظاہر ہو گیا۔ پھر ان کا رونا بند ہو گیا، اور ان کی مستقل مزاجی ناکام ہو گئی۔ یہ انسان کی بدعنوانی ہے؛ جو گناہ سے بھی زیادہ گہری ہو چکی ہے، یہ شیطان کی طرف سے لگائی گئی اور انسان کے اندر گہرائی تک جڑ پکڑی ہوئی چیز ہے۔ انسان کے لیے اپنے گناہوں سے آگاہ ہونا آسان نہیں ہے؛ اس کے لیے اپنی مستحکم فطرت پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور یہ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے اسے لازماً کلام کی طرف سے فیصلے پر انحصار کرنا چاہیے۔ صرف اسی طرح انسان اس مقام سے آگے بتدریج تبدیل ہو سکتا ہے۔ انسان ماضی میں اس طرح چیختا تھا کیونکہ اسے اپنے جبلی بدعنوان مزاج کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔ یہ وہ نجاستیں ہیں جو انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ سزا اور فیصلے کے اتنے لمبے عرصے کے دوران انسان نے تناؤ کی فضا میں زندگی بسر کی۔ کیا یہ سب کچھ کلام کی وساطت سے حاصل نہیں ہوا؟ کیا تو نے بھی خدمت گزاروں کی آزمائش سے پہلے بہت بلند آواز میں نہیں پکارا تھا؟ "بادشاہی میں داخل ہو جاؤ! وہ تمام لوگ جو اس نام کو قبول کرتے ہیں بادشاہی میں داخل ہوں گے! سب خدا کے ساتھ شامل ہوں گے!" جب خدمت گزاروں کی آزمائش آئی تو پھر تو نے فریاد نہیں کی۔ بالکل شروع میں، سب نے پکارا، "اے خدا! تو مجھے جہاں کہیں بھی رکھے گا، میں تیری راہنمائی میں سر تسلیم خم کروں گا۔" خدا کے کلام پڑھنے پر، "کون ہو گا میرا پولس؟" لوگوں نے کہا، "میں تیار ہوں!" پھر انھوں نے الفاظ دیکھے، "اور ایوب کے ایمان کے متعلق کیا ہے؟" اور کہا، "میں ایوب کے ایمان کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہوں۔ اے خدا، براہ کرم مجھے امتحان میں ڈال!" جب خدمت گزاروں کی آزمائش آئی تو وہ یک دم گر پڑے اور مشکل سے ہی دوبارہ کھڑے ہو سکے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کے دل کی نجاست کم ہوتی گئی۔ کیا یہ کلام کے ذریعے حاصل نہیں ہوا؟ لہذا، آج تم نے جو کچھ عملی تجربہ کیا ہے وہ کلام کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج ہیں، ان سے بھی زیادہ جو یسوع کی نشانیوں اور عجائبات دکھانے کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے۔ خدا کی وہ عظمت جو تو دیکھتا ہے اور خود خدا کا اختیار جو تو دیکھتا ہے وہ صرف مصلوب کرنے، بیماری کے علاج اور بدروحوں کو نکالنے کے ذریعے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اس کے کلام کے فیصلے سے زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ تجھ پر ظاہر کرتا ہے کہ خدا کا اختیار اور طاقت صرف نشانیوں کا کام کرنے، بیماری کی شفا یابی، اور بدروحوں کو نکالنے پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ خدا کے کلام کا فیصلہ اس کے اختیار کی بہتر طور پر نمائندگی کرنے کے قابل ہے۔ اور یہ خدا اور اس کی قدرتِ کاملہ کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔

اب انسان نے جو کچھ حاصل کیا ہے – اس کی موجودہ حیثیت، علم، محبت، وفاداری، فرمانبرداری، اور بصیرت – یہ کلام کے فیصلے سے حاصل ہونے والے نتائج ہیں۔ کہ تو وفاداری کے قابل ہے اور کلام کی وساطت سے حاصل ہونے والے اس دن تک قائم رہنے کے قابل ہے۔ اب انسان دیکھتا ہے کہ مجسم خدا کا کام واقعی غیر معمولی ہے، اور اس میں بہت کچھ ہے جو انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا، اور وہ اسرار اور عجائبات ہیں۔ اس لیے بہت سے لوگوں نے اطاعت قبول کی ہے۔ بعض نے اپنی پیدائش کے دن سے لے کر اب تک کبھی کسی انسان کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا، پھر بھی جب وہ آج کے دن خدا کے کلام کو دیکھتے ہیں، تو وہ بغیر محسوس کیے، پوری طرح سرتسلیم خم کر دیتے ہیں، اور وہ چھان بین کرنے یا کچھ اور کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔ انسانیت کلام کے تابع ہو گئی ہے اور جھوٹ کلام کے فیصلے کے نیچے سجدہ ریز ہے۔ اگر خُدا کی روح براہِ راست انسان سے بات کرتی، تو تمام نوع انسانی آواز کے تابع ہو جاتی، وحی کے الفاظ کے بغیر ہی گر جاتی، بالکل اسی طرح جیسے پولس دمشق کی سڑک پر روشنی میں زمین پر گرا تھا۔ اگر خدا اسی طرح کام کرتا رہے تو انسان کبھی بھی اس قابل نہ ہو کہ کلام کے فیصلے سے اپنی بدعنوانی کو جان سکے اور اس طرح نجات حاصل کر سکے۔ صرف جسم بننے کے ذریعے ہی خُدا ذاتی طور پر ہر ایک انسان کے کانوں تک اپنی باتیں پہنچا سکتا ہے، تاکہ وہ سب جن کے کان ہیں اُس کے الفاظ سنیں اور کلام کے ذریعے اُس کے فیصلے کے کام کو حاصل کریں۔ صرف یہ اس کے کلام سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے، بجائے اس کے کہ روح انسان کو خوفزدہ کر کے اطاعت کروانے کے لیے ظاہر ہو۔ یہ اس عملی مگر غیر معمولی کام کے ذریعے ہی ہے کہ انسان کا پرانا مزاج، جو کئی سالوں سے اندر چھپا ہوا ہے، پوری طرح سے بے نقاب ہو سکتا ہے، تاکہ انسان اسے پہچان سکے اور اسے بدل سکے۔ یہ تمام چیزیں مجسم خدا کے عملی کام ہیں، جس میں وہ بولتے ہوئے اور عملی طور پر فیصلے پر عمل کرتے ہوئے، کلام کے ذریعے انسان پر فیصلے کے نتائج حاصل کرتا ہے۔ یہ مجسم خدا کا اختیار اور خدا کی تجسیم کی اہمیت ہے۔ یہ مجسم خدا کے اختیار کو ظاہر کرنے کے لیے، کلام کے کام سے حاصل ہونے والے نتائج کو ظاہر کرنے کے لیے، اور یہ بتانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ روح جسم میں آئی ہے اور کلام کے ذریعے انسان کا فیصلہ کرنے کے ذریعے اپنے اختیار کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ اس کا جسم ایک معمولی اور عام انسانیت کی ظاہری شکل ہے، لیکن یہ اس کے الفاظ سے حاصل ہونے والے نتائج ہیں جو انسان پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اختیار سے بھری ہوئی ہے، کہ وہ خود خدا ہے، اور اس کے الفاظ خود خدا کا اظہار ہیں۔ اس کے ذریعے تمام انسانیت پر ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ خود خدا ہے، وہ خود خدا ہے جو جسم بن گیا ہے، کہ وہ کسی سے ناراض نہیں ہوگا، اور یہ کہ کوئی بھی اس کے کلام کے فیصلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا، اور ظلمت کی کوئی طاقت اس کے اختیار پر غالب نہیں آ سکتی ہے۔ انسان مکمل طور پر اُس کے تابع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کلام ہے جو جسم بن گیا ہے، اُس کے اختیار کی وجہ سے، اور کلام کے ذریعے اُس کے فیصلے کی وجہ سے۔ اس کی تجسیم کے ذریعے لایا جانے والا کام وہ اختیار ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس کے جسم بننے کی وجہ یہ ہے کہ جسم بھی اختیار کا مالک ہو سکتا ہے، اور وہ بنی نوع انسان کے درمیان عملی طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس طرح کہ یہ انسان کے لیے ظاہر اور قابلِ ادراک ہو۔ یہ کام اُس کام سے کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے جو براہِ راست خُدا کی رُوح نے کیا ہے، جو تمام اختیارات کا مالک ہے، اور اس کے نتائج بھی ظاہر ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجسم خدا کا جسم عملی طریقے سے بول سکتا ہے اور کام کر سکتا ہے۔ اس کے جسم کی ظاہری شکل کا کوئی اختیار نہیں ہے، اور انسان اس تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ اس کا جوہر اختیار رکھتا ہے، لیکن اس کا اختیار کسی کو نظر نہیں آتا۔ جب وہ بولتا اور کام کرتا ہے تو انسان اس کے اختیار کی موجودگی کا پتہ لگانے سے قاصر ہے؛ یہ اسے عملی نوعیت کے کام کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ تمام عملی کام نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو یہ احساس نہیں ہے کہ خدا اختیار رکھتا ہے، یا وہ یہ سمجھے کہ خدا ناراض نہیں ہوتا ہے، یا خدا کے غضب کو دیکھے، خدا اپنے کلام کے مطلوبہ نتائج کو اپنے ڈھکے چھپے اختیار، اپنے پوشیدہ غضب اور اس کلام کے ذریعے حاصل کرتا ہے جو وہ کھلے عام کہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اس کی آواز کے لہجے، اس کی بول چال کی سختی، اور اس کے کلام کی تمام حکمتوں کے ذریعے، انسان پوری طرح قائل ہو جاتا ہے۔ اس طرح، انسان مجسم خدا کے کلام کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے، جس کے پاس بظاہر کوئی اختیار نہیں ہے، اس طرح انسان کو بچانے کا خدا کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ یہ اس کی تجسیم کی اہمیت کا ایک اور پہلو ہے: زیادہ حقیقت پسندانہ بات کرنا اور اس کے الفاظ کی حقیقت کو انسان پر اثر انداز ہونے دینا، تاکہ انسان خدا کے کلام کی طاقت کو دیکھ سکے۔ لہٰذا، اگر یہ کام تجسیم کے ذریعے نہ کیا جاتا، تو اس کے معمولی سے نتائج بھی حاصل نہ ہوتے اور گناہ گاروں کو پوری طرح سے بچانے کے قابل نہیں ہوتا۔ اگر خُدا جسم نہ بنتا، تو وہ روح ہی رہتا جو انسان کے لیے پوشیدہ اور ناقابلِ ادراک ہے۔ انسان گوشت پوست کی مخلوق ہونے کے ناطے، وہ اور، خدا دو مختلف جہانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف فطرتوں کے مالک ہیں۔ خُدا کی روح انسان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی، جو کہ گوشت پوست سے ہے، اور ان کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے، اس بات کا تذکرہ کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے کہ انسان روح میں تبدیل ہونے کے قابل نہیں ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، خدا کی روح کو اپنا اصل کام کرنے کے لیے ایک تخلیق شدہ وجود بننا چاہیے۔ خدا دونوں کام کر سکتا ہے، اعلیٰ ترین مقام تک بلند ہو سکتا ہے اور نوع انسانی کے درمیان کام کرنے اور ان کے درمیان رہنے کے لیے خود کو عاجز بنا کر انسانی مخلوق بھی بن سکتا ہے، لیکن انسان اعلیٰ ترین مقام تک بلند ہو کر روح نہیں بن سکتا، اور اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ سب سے نچلے مقام پر اترے۔ اس لیے خدا کو اپنے کام کو انجام دینے کے لیے لازمی طور پر جسم بننا چاہیے۔ اسی مثال سے، پہلی تجسیم کے دوران، صرف مجسم خُدا کا جسم ہی انسان کو اُس کی تصلیب کے ذریعے بچا سکتا تھا، جب کہ خُدا کی روح کا انسان کے لیے گناہ کے کفارے کے طور پر مصلوب کیے جانے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔ خدا انسان کے گناہ کا کفارہ بننے کے لیے براہ راست جسم بن سکتا تھا، لیکن انسان گناہ کا کفارہ وصول کرنے کے لیے براہ راست آسمان پر نہیں جا سکتا تھا جو کہ خدا نے اس کے لیے تیار کیا تھا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، جو کچھ بھی ممکن ہے وہ یہ ہے کہ خدا سے آسمان اور زمین کے درمیان چند بار آنے جانے کے لیے کہا جاتا، نہ کہ انسان اس نجات کو لینے کے لیے آسمان پر چلا جاتا، کیونکہ انسان گر چکا تھا اور اس کے علاوہ، انسان سرے سے آسمان پر جا ہی نہیں سکتا تھا، اور اس کا تو امکان ہی بہت کم ہے کہ گناہ کا کفارہ حاصل کرتا۔ لہٰذا، یسوع کے لیے ضروری تھا کہ وہ بنی نوع انسان کے درمیان آئے اور ذاتی طور پر وہ کام کرے جو انسان سے ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ہر بار جب خدا گوشت پوست کا بنتا ہے تو یہ انتہائی ضروری ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر خدا کی روح کے ذریعے سے کسی بھی مرحلے کو براہ راست انجام دیا جا سکتا، تو وہ مجسم ہونے کی بے عزتی کو قبول نہ کرتا۔

کام کے اس آخری مرحلے میں، کلام کی وساطت سے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ کلام کے ذریعے انسان بہت سے اسرار اور اس کام کو سمجھ لیتا ہے جو خدا نے پچھلی نسلوں میں کیا ہے۔ کلام کے ذریعے، انسان روح القدس سے روشن خیالی حاصل کرتا ہے؛ کلام کے ذریعے انسان ان اسرار کو سمجھتا ہے جو ماضی کی نسلوں نے پہلے کبھی نہیں کھولے تھے، نیز ماضی کے انبیا اور رسولوں کے کام اور وہ اصول جن کے ذریعے وہ کام کرتے تھے؛ کلام کے ذریعے انسان کو خود خدا کے مزاج کے ساتھ ساتھ انسان کی سرکشی اور مزاحمت کا بھی علم ہوتا ہے اور وہ اپنے جوہر کو بھی جان لیتا ہے۔ کام کے ان مراحل کے ذریعے اور بولے گئے تمام الفاظ کے ذریعے، انسان کو روح کے کام کا علم ہوتا ہے، وہ کام جو مجسم خُدا کا جسم کرتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر، اُس کا مکمل مزاج۔ تجھے خدا کے چھ ہزار سال کے انتظامی کام کا علم بھی کلام کے ذریعے حاصل ہوا۔ کیا تیرے سابقہ تصورات کا علم اور انھیں نظرانداز کرنے میں تیری کامیابی بھی کلام کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی؟ پچھلے مرحلے میں، یسوع نے نشانیاں اور عجائبات دکھائے، لیکن اس مرحلے میں کوئی نشانیاں اور عجائبات نہیں ہیں۔ کیا تجھے خدا کے نشانیاں اور عجائبات ظاہر نہ کرنے کی وجہ کا علم بھی کلام کے ذریعے نہیں حاصل ہوا؟ لہٰذا، اس مرحلے میں کہا گیا کلام ماضی کی نسلوں کے رسولوں اور انبیا کے کام سے زیادہ ہے۔ حتیٰ کہ انبیا کی بتائی گئی پیشین گوئیاں بھی یہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ انبیا نے صرف پیشین گوئیاں کیں، انھوں نے مستقبل میں ہونے والی چیزوں کے بارے میں بات کی، لیکن اس کام کے بارے میں نہیں جو خدا اس وقت کرنا چاہتا تھا۔ نہ ہی انھوں نے اپنی زندگیوں میں بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے، یا بنی نوع انسان کو سچائیوں سے آگاہ کرنے کے لیے، یا ان پر اسرار و رموز کو ظاہر کرنے کے لیے بات کی، اور زندگی عطا کرنے کے لیے تو بالکل بات نہیں کی۔ اس مرحلے میں کہے گئے کلام میں پیشین گوئی اور سچائی ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ کلام انسان کو زندگی بخشنے کا کام کرتا ہے۔ اس وقت الفاظ انبیا کی پیشین گوئیوں کے برعکس ہیں۔ یہ انسان کی زندگی کے لیے کام کا مرحلہ ہے، یہ پیشین گوئی کرنے کا نہیں بلکہ انسان کی زندگی کے مزاج کو بدلنے کا مرحلہ ہے۔ پہلا مرحلہ یہوواہ کا کام تھا: اس کا کام زمین پر خدا کی عبادت کرنے کے لیے انسان کی خاطر راستہ تیار کرنا تھا۔ یہ زمین پر کام کے لیے نقطہ آغاز کی جگہ کی تلاش شروع کرنے کا کام تھا۔ اُس وقت، یہوواہ نے اسرائیلیوں کو سبت کا دن منانا سکھایا، اپنے والدین کی عزت کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنا سکھایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ انسان کو کس نے تشکیل دیا ہے اور نہ ہی وہ یہ سمجھتے تھے کہ زمین پر کیسے رہنا ہے۔ کام کے پہلے مرحلے میں اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ بنی نوع انسان کی اس کی زندگی گزارنے میں راہنمائی کرے۔ یہ سب کچھ جو یہوواہ نے اُن سے کہا وہ پہلے بنی نوع انسان کو معلوم نہیں تھا اور نہ ہی اُن کے پاس تھا۔ اُس وقت، خدا نے پیشین گوئیاں کرنے کے لیے بہت سے نبیوں کو اٹھایا، اور اُن سب نے یہوواہ کی راہنمائی میں ایسا کیا۔ یہ خدا کے کام میں صرف ایک چیز تھی۔ پہلے مرحلے میں، خدا گوشت پوست کا نہیں بنا، اور اس لیے اس نے تمام قبیلوں اور قوموں کو انبیا کے ذریعے ہدایت کی۔ جب یسوع نے اپنے زمانے میں کام کیا تو وہ اتنا نہیں بولتا تھا جتنا کہ موجودہ وقت میں بولتا ہے۔ آخری ایام میں ہونے والا کلام کے کام کا یہ مرحلہ ماضی کے ادوار اور نسلوں میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ یسعیاہ، دانی ایل اور یوحنا نے بہت سی پیشین گوئیاں کیں، لیکن ان کی پیشین گوئیاں آج کہے گئے کلام سے بالکل مختلف تھیں۔ انھوں نے جو باتیں کیں وہ صرف پیشین گوئیاں تھیں لیکن جو باتیں اب کہی گئی ہیں وہ پیشین گوئیاں نہیں ہیں۔ اگر میں ان تمام باتوں کو پیشین گوئیوں میں بدل دوں جن کے بارے میں میں اب کہہ رہا ہوں، تو کیا تم سمجھ سکو گے؟ فرض کرو کہ میں نے جو بات کی تھی وہ میرے جانے کے بعد کے معاملات کے بارے میں تھی، تو پھر تم کیسے فہم حاصل کر سکتے ہو؟ کلام کا کام یسوع کے زمانے میں یا قانون کے دور میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاید کچھ لوگ کہیں گے، "کیا یہوواہ نے بھی اپنے کام کے وقت کلام نہیں کہا؟ کیا یسوع جب کام کر رہا تھا تو اس نے اس وقت بیماری کو ٹھیک کرنے، بدروحوں کو نکالنے، اور نشانیاں اور عجائبات دکھانے کے علاوہ، کلام بھی نہیں کہا؟" جو باتیں کہی گئی ہیں ان میں اختلاف ہے۔ یہوواہ کی طرف سے کہے گئے کلام کا جوہر کیا تھا؟ وہ صرف اس بنی نوع انسان کی زمین پر اپنی زندگی گزارنے کے لیے راہنمائی کر رہا تھا، جس نے زندگی میں روحانی معاملات کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ، جب یہوواہ بولتا تھا، تو یہ ہر جگہ کے لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے تھا؟ لفظ "ہدایت" کا مطلب ہے واضح طور پر بتانا اور براہ راست حکم دینا۔ اس نے انسان کو زندگی فراہم نہیں کی؛ بلکہ، اس نے محض انسان کا ہاتھ پکڑا اور بہت زیادہ کے بغیر تمثیلی کہانیوں کے ذریعے انسان کو سکھایا کہ اس کی تعظیم کیسے کی جائے۔ یہوواہ نے اسرائیل میں جو کام کیا وہ انسان سے نمٹنے یا نظم و ضبط سکھانے یا فیصلہ سنانے اور سزا دینے کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس کی راہنمائی کرنے کے لیے تھا۔ یہوواہ نے موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لوگوں کو بیابان میں مَن جمع کرنے کو کہے۔ ہر صبح طلوع آفتاب سے پہلے، انھیں مَن جمع کرنا تھا، جو صرف اُس دن اُن کے کھانے کے لیے کافی تھا۔ مَن کو اگلے دن تک نہیں رکھا جا سکتا تھا، کیونکہ اس کے بعد اس میں پھپھوند لگ جاتی تھی۔ اس نے نہ تو لوگوں کو نصیحت کی اور نہ ہی ان کی فطرتوں کو بے نقاب کیا اور نہ ہی اس نے ان کے خیالات اور تصورات کو بے نقاب کیا۔ اس نے لوگوں کو تبدیل نہیں کیا بلکہ ان کی زندگی گزارنے میں راہنمائی کی۔ اُس وقت کے لوگ بچوں کی طرح تھے، کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے اور صرف کچھ بنیادی مشینی حرکات کے قابل تھے، اور اسی لیے یہوواہ نے عوام الناس کی راہنمائی کے لیے صرف قوانین وضع کیے تھے۔

خوشخبری کو پھیلانے کے لیے، تاکہ وہ تمام لوگ جو سچے دل سے تلاش کر رہے ہیں، آج کے دن کیے گئے کام کے بارے میں علم حاصل کر سکیں اور مکمل طور پر قائل ہو سکیں، تجھے اندر کی کہانی، جوہر، اور ہر مرحلے میں کیے گئے کام کی اہمیت کو واضح طور پر سمجھنا چاہیے۔ اس طرح کر کہ، تیری رفاقت کو سن کر، دوسرے یہوواہ کے کام، یسوع کے کام اور اس سے بھی بڑھ کر، آج کے خدا کے تمام کاموں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ کام کے تین مراحل کے تعلق اور ان کے درمیان فرق کو سمجھ سکیں۔ اس طرح کر کہ جب وہ سن لیں تو اس کے بعد، دوسرے دیکھیں کہ تینوں مراحل ایک دوسرے میں خلل نہیں ڈالتے ہیں، بلکہ یہ سب ایک ہی روح کے کام ہیں۔ اگرچہ وہ مختلف ادوار میں کام کرتے ہیں مگر ان کے کام کا مواد مختلف ہوتا ہے، اور جو الفاظ وہ بولتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں، مگر وہ اصول جن سے وہ کام کرتے ہیں وہ ایک ہی ہیں۔ یہ چیزیں سب سے عظیم بصیرت ہے جسے خدا کی پیروی کرنے والے تمام لوگوں کو سمجھنا چاہیے۔

سابقہ: خدا کی تجسیم کا راز (3)

اگلا: خدا کا دو مرتبہ مجسم ہونا، تجسیم کی اہمیت کی تکمیل کرتا ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp