تبدیل نہ ہونے والا مزاج رکھنا خدا کے ساتھ دشمنی کرنا ہے

کئی ہزار سال کی بدعنوانی کے بعد انسان بے حس اور کند ذہن ہے؛ وہ خدا کی مخالفت کرنے والا ایک بدروح بن چکا ہے، اور اس حد تک کہ خدا کے خلاف انسان کی سرکشی کو تاریخ کی کتابوں میں درج کیا گیا ہے، اور حتیٰ کہ انسان خود بھی اپنے سرکش رویے کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے – چونکہ انسان کو شیطان نے بہت زیادہ بدعنوان بنا دیا ہے۔ اور شیطان نے اسے اس طرح گمراہ کر دیا ہے کہ اسے علم ہی نہیں ہے کہ کدھر جائے۔ حتیٰ کہ آج بھی، انسان خدا سے بے وفائی کرتا ہے: جب انسان خدا کو دیکھتا ہے تو اس سے بے وفائی کرتا ہے، اور جب وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا ہے تو بھی وہ اس سے بے وفائی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کی لعنتوں اور خدا کے غضب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اس سے بے وفائی کرتے ہیں۔ اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ انسان کے حواس اپنا اصل کام کھو چکے ہیں اور انسان کا ضمیر بھی اپنا اصل کام کھو چکا ہے۔ جس انسان کو میں دیکھتا ہوں وہ انسانی لباس میں ایک حیوان ہے، وہ ایک زہریلا سانپ ہے، اور اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ میری نظروں کے سامنے کتنا ہی قابلِ رحم بننے کی کوشش کرے، میں اس پر کبھی بھی رحم نہیں کروں گا، کیونکہ انسان کو سیاہ اور سفید کے فرق کی اور سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ انسان کی عقل اتنی مفلوج ہے اور اس کے باوجود وہ اب بھی برکتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی انسانیت اتنی شرمناک ہے اور اس کے باوجود وہ اب بھی ایک بادشاہ کی سی خود مختاری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی عقل کے ساتھ وہ کن لوگوں کا بادشاہ ہو سکتا ہے؟ اس طرح کی انسانیت کے ساتھ وہ کیسے تخت پر بیٹھ سکتا ہے؟ واقعی انسان کو شرم نہیں آتی ہے! وہ ایک مغرور کمینہ ہے! تم میں سے جو لوگ برکتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، میرا مشورہ ہے کہ تم پہلے ایک آئینہ تلاش کرو اور اس میں اپنے بدصورت عکس کو دیکھو- کیا تیرے پاس وہ ہے جو بادشاہ بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے؟ کیا تیرا چہرہ کسی ایسے شخص کا ہے جو برکتیں حاصل کر سکے؟ تیرے مزاج میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی ہے اور تو نے کسی بھی سچائی پر عمل نہیں کیا ہے، لیکن تو اب بھی ایک شاندار کل کی خواہش کرتا ہے۔ تو خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے! ایسی غلیظ سرزمین میں پیدا ہونے والا انسان معاشرے کی وجہ سے بری طرح خراب ہوا ہے، وہ دقیانوسی اخلاقیات سے متاثر ہوا ہے، اور اسے "اعلیٰ تعلیمی اداروں" میں پڑھایا گیا ہے۔ پسماندہ سوچ، بدعنوان اخلاقیات، زندگی کے بارے میں گھٹیا نظریہ، زندگی گزارنے کے لیے قابلِ نفرت فلسفہ، بالکل بے اہمیت وجود، اور اخلاقی طور پر بگڑا ہوا طرز زندگی اور رسم و رواج، یہ سب چیزیں انسان کے دل میں بری طرح زبردستی داخل ہو چکی ہیں، اور اس کے ضمیر پر حملہ آور ہو کر بری طرح نقصان پہنچا چکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں، انسان خدا سے پہلے سے بھی زیادہ دور اور خدا کا پہلے سے بھی زیادہ مخالف ہو گیا ہے۔ انسان کا مزاج دن بہ دن زیادہ برا ہوتا جاتا ہے اور کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی رضامندی سے خدا کے لیے کچھ ترک کر دے، کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو رضا مندی سے خدا کی اطاعت کرے، اور مزید یہ کہ، نہ ہی کوئی ایسا شخص ہے جو رضامندی سے خدا کے ظہور کا طالب ہے۔ اس کی بجائے، شیطان کے زیر تسلط، انسان لذت کی جستجو کے علاوہ کچھ نہیں کرتا اور کیچڑ کی سرزمین میں اپنے آپ کو جسم کی بدعنوانی کے حوالے کر دیتا ہے۔ جو لوگ تاریکی میں رہتے ہیں وہ سچ سننے کے بعد بھی اس پر عمل کرنے کا نہیں سوچتے ہیں اور نہ ہی وہ خدا کو تلاش کرنے پر مائل ہوتے ہیں چاہے وہ اس کی شکل وصورت دیکھ بھی چکے ہوں۔ اخلاقی طور پر اس قدر بگڑے ہوئے انسان کو نجات کا کوئی موقع کیسے مل سکتا ہے؟ تہذیبی اور اخلاقی طور پر اتنی زوال پذیر نوع انسانی روشنی میں کیسے رہ سکتی ہے؟

انسان کے مزاج کو تبدیل کرنا اس کے جوہر کے علم اور اس کی سوچ، فطرت اور ذہنی نقطہ نظر میں تبدیلیوں کے ذریعے شروع ہوتا ہے – بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے۔ صرف اسی طریقے سے انسان کا مزاج حقیقی طور پر تبدیل ہو گا۔ انسان میں پیدا ہونے والے بدعنوان مزاج کی بنیادی وجہ شیطان کا فریب، بدعنوانی اور زہر ہے۔ انسان کو شیطان نے جکڑا ہوا ہے اور اسے قابو میں رکھا ہوا ہے اور وہ شیطان کی طرف سے اپنی سوچ، اخلاق، بصیرت اور عقل کو پہنچائے گئے شدید نقصان کو برداشت کرتا ہے۔ یہ قطعی طور پر اس لیے ہے کہ انسان کی بنیادی چیزیں شیطان نے بدعنوان بنا دی ہیں، اور خدا نے اسے جس طرح اصل میں تخلیق کیا تھا وہ اس کے بالکل برعکس ہے، کہ انسان خدا کی مخالفت کرتا ہے اور سچائی کو قبول نہیں کر سکتا۔ اس لیے، انسان کے مزاج میں تبدیلیاں اس کی سوچ، بصیرت اور عقل میں تبدیلیوں سے شروع ہونی چاہییں جو خدا کے بارے میں اس کے علم اور سچائی کے بارے میں اس کے علم کو تبدیل کر دیں گی۔ وہ لوگ جو تمام زمینوں میں سب سے زیادہ گہری بدعنوان سرزمین میں پیدا ہوئے تھے وہ اس بارے میں اور بھی زیادہ جاہل ہیں کہ خدا کیا ہے، یا خدا پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے۔ لوگ جتنے زیادہ بدعنوان ہوتے ہیں، وہ خدا کے موجود ہونے کے متعلق اتنا ہی کم جانتے ہیں، اور ان کی عقل اور بصیرت اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ خدا کے خلاف انسان کی مخالفت اور سرکشی کا سرچشمہ شیطان کی وجہ سے اس کی بدعنوانی ہے۔ شیطان کی بدعنوانی کی وجہ سے، انسان کا ضمیر بے حس ہو چکا ہے؛ وہ غیر اخلاقی ہے، اس کے خیالات انحطاط پذیر ہیں، اور اس کا ذہنی نقطہ نظر پسماندہ ہے۔ شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے جانےسے قبل، انسان فطری طور پر خدا کی پیروی اور اس کا کلام سننے کے بعد اس کی اطاعت کرتا تھا۔ وہ فطری طور پر صائب عقل اور ضمیر، اور معمول کی انسانیت کا حامل تھا۔ شیطان کی طرف سے بدعنوان بنائے جانے کے بعد انسان کی حقیقی عقل، ضمیر اور انسانیت ماند پڑ گئی اور شیطان نے ان میں نقص پیدا کردیا۔ لہٰذا، وہ خدا کی طرف اپنی اطاعت اور محبت سے محروم ہو گیا۔ اس کی عقل ناقص، اور اس کا مزاج کسی جانور جیسا ہو چکا ہے، اور خدا سے اس کی سرکشی کا تسلسل ہمیشہ سے زیادہ اور شدید ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود انسان یہ جانتا ہے اور نہ پہچانتا ہے، اور محض اندھی مخالفت اور سرکشی کیے جاتا ہے۔ انسان کے مزاج کا انکشاف اس کی عقل، بصیرت اور ضمیر کے اظہار سے ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کی عقل اور بصیرت ناقص ہے، اور اس کا ضمیر انتہائی بےحس ہو چکا ہے، اس لیے اس کا مزاج خدا کے خلاف سرکشی والا ہے۔ اگر انسان کی عقل اور بصیرت تبدیل نہیں ہو سکتی تو پھر اس کے مزاج میں تبدیلیوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جو کہ خدا کی مرضی کے مطابق ہے۔ اگر انسان کی عقل ناقص ہے تو وہ خدا کی خدمت نہیں کرسکتا اور خدا کے استعمال کے لیے موزوں نہیں ہے۔ "معمول کی عقل" سے مراد خدا کی فرمانبرداری اور اس کا وفادار رہنا، خدا کے لئے شدید آرزو رکھنا، خدا کی طرف مطلق متوجہ ہونا، اور خدا کی طرف ضمیر کا احساس رکھنا ہے۔ اس سے مراد خدا کی طرف ایک دل اور ایک جان کا ہونا ہے، اور جان بوجھ کر خدا کی مخالفت نہ کرنا ہے۔ ناقص عقل کا ہونا ایسا نہیں ہے۔ جب سے انسان شیطان کی وجہ سے بدعنوان ہوا ہے، اس نے خدا کے بارے میں تصورات پیدا کر لیے ہیں، اور اس کے پاس خدا کے ساتھ کوئی وفاداری یا اس کے لیے شدید آرزو نہیں ہے، خدا کے بارے میں ضمیر کے احساس کے بارے میں تو کچھ کہنا ہی نہیں ہے۔ انسان جان بوجھ کر خُدا کی مخالفت کرتا ہے اور اُس کے بارے میں فیصلے کرتا ہے، اور مزید یہ کہ اُس کی پیٹھ پیچھے اُس پر لعن طعن کرتا ہے۔ انسان خدا کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے، اس واضح علم کے ساتھ کہ وہ خدا ہے؛ انسان خدا کی فرمانبرداری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے اور محض اس سے اندھے مطالبات اور درخواستیں کرتا ہے۔ ایسے لوگ – جو لوگ ناقص عقل رکھتے ہیں – اپنے قابلِ نفرت سلوک کو جاننے یا اپنی سرکشی پر افسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر لوگ اپنے آپ کو جاننے کے قابل ہیں، تو وہ اپنی تھوڑی سی عقل دوبارہ حاصل کر چکے ہیں؛ لوگ خدا کے خلاف جتنے زیادہ سرکش ہیں جو ابھی تک خود کو بھی نہیں جان سکتے، وہ اتنے ہی زیادہ ناقص العقل ہیں۔

انسان کے بدعنوان مزاج کے انکشاف کا منبع انسان کے بےحس ضمیر، اس کی پُرعناد فطرت اور اس کی ناقص عقل سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اگر انسان کا ضمیر اور عقل دوبارہ معمول کی ہو سکے تو وہ خدا کے سامنے استعمال کے لیے کوئی موزوں شخص بن جائے گا۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ انسان کا ضمیر ہمیشہ بے حس رہا ہے، اور اس لیے کہ انسان کی عقل، جو کبھی صائب نہیں تھی، اب مزید کند ہوتی جا رہی ہے کہ انسان خدا سے مزید سرکش ہو رہا ہے، یہاں تک کہ اس نے یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑ دیا اور آخری ایام میں مجسم خدا کے اپنے گھر میں داخلے سے انکار کرتا ہے، اور خدا کے جسم کی مذمت کرتا ہے اور خدا کے جسم کو حقیر سمجھتا ہے۔ اگر انسان میں تھوڑی سی بھی انسانیت ہوتی تو وہ خدا کے مجسم جسم کے ساتھ اپنے سلوک میں اتنا ظالم نہ ہوتا؛ اگر اس کے پاس تھوڑی سی بھی عقل ہوتی تو وہ خدا کے جسم کے ساتھ اپنے سلوک میں اتنا برا نہ ہوتا؛ اگر اس کے پاس تھوڑا سا بھی ضمیر ہوتا تو وہ مجسم خدا کا اس انداز میں "شکریہ ادا" نہ کرتا۔ انسان خدا کے جسم بننے کے زمانے میں رہتا ہے، پھر بھی وہ خدا کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے کہ اس نے اسے اتنا اچھا موقع دیا، اور اس کی بجائے خدا کی آمد پر لعنت بھیجتا ہے، یا خدا کی تجسیم کی حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے، اور بظاہر اس کے خلاف اور اس سے تنگ نظر آتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ انسان خدا کی آمد کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے، مختصراً، خدا نے ہمیشہ تحمل کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا ہے – حتیٰ کہ اس کی طرف انسان کا رویہ ذرا بھی خیرمقدمی نہیں تھا، اور وہ آنکھیں بند کر کے اس سے درخواستیں کرتا ہے۔ انسان کا مزاج انتہائی برا ہو گیا ہے، اس کی عقل انتہائی ناقص ہو گئی ہے، اور شیطان نے اس کا ضمیر مکمل طور پر پامال کر دیا ہے اور انسان کا اصل ضمیر بہت پہلے ختم ہو چکا ہے۔ انسان نہ صرف انسانیت کو اتنی زندگی اور فضل عطا کرنے والے مجسم خدا کا ناشکرا ہے، بلکہ خدا کی طرف سے سچائی ملنے پر اس سے ناراض بھی ہو گیا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو سچائی میں ذرا سی دلچسپی بھی نہیں ہے کہ وہ خدا سے ناراض ہو گیا ہے۔ انسان نہ صرف مجسم خدا کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے قاصر ہے، بلکہ وہ اس سے احسانات حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، اور اس سود کا دعویٰ کرتا ہے جو انسان کی خدا کو دی ہوئی چیزوں سے درجنوں گنا زیادہ ہے۔ ایسے ضمیر اور عقل والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور ابھی تک یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے خدا کے لیے اپنے آپ کو بہت زیادہ خرچ کیا ہے اور یہ کہ خدا نے انہیں بہت ہی کم دیا ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو مجھے پانی کا ایک پیالہ دینے کے بعد ہاتھ بڑھاتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ میں انھیں دو پیالے دودھ کی ادائیگی کروں یا مجھے ایک رات کے لیے کمرہ دے کر مجھ سے کئی راتوں کا کرایہ مانگتے ہیں۔ اس طرح کی انسانیت اور اس طرح کے ضمیر کے ساتھ تم پھر بھی زندگی پانے کی خواہش کیسے کر سکتے ہو؟ تم کتنے کمینے قابلِ نفرت ہو! انسان میں اس قسم کی انسانیت اور انسان میں اس قسم کا ضمیر ہی وہ چیز ہے جو مجسم خدا کے پوری زمین پر بھٹکنے کا سبب بنتا ہے، اور اسے پناہ کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ جو لوگ واقعی ضمیر اور انسانیت کے حامل ہیں انھیں چاہیے کہ وہ، اس لیے نہیں کہ خدا نے کتنا کام کیا ہے، بلکہ چاہے اگر اس نے کوئی کام نہ بھی کیا ہو تو بھی، خدا کی عبادت کریں اور خلوصِ دل سے مجسم خدا کی خدمت کریں۔ صائب عقل والوں کو یہی کرنا چاہیے اور یہ انسان کا فرض ہے۔ اکثر لوگ خدا کے لیے اپنی کی گئی خدمت کے بارے میں شرائط تک کی بات کرتے ہیں: انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ خدا ہے یا انسان، اور وہ صرف اپنی شرائط کی بات کرتے ہیں، اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین چاہتے ہیں۔ جب تم میرے لیے کھانا پکاتے ہو تو تم خدمت کا معاوضہ مانگتے ہو، جب تم میرے لیے بھاگتے ہو، تم بھاگنے کا معاوضہ مانگتے ہو، جب تم میرے لیے کام کرتے ہو تو تم کام کرنے کا معاوضہ مانگتے ہو، جب تم میرے کپڑے دھوتے ہو تو تم دھلائی کا معاوضہ مانگتے ہو، جب تم کلیسیا کے لیے سامان فراہم کرتے ہو تو تم تھکن کی بحالی کے اخراجات کا مطالبہ کرتے ہو، جب تم بولتے ہو تو تم بولنے کا معاوضہ مانگتے ہو، جب تم کتابیں دیتے ہو تو تم تقسیم کرنے کا معاوضہ مانگتے ہو، اور جب تم لکھتے ہو تو تم لکھنے کا معاوضہ مانگتے ہو۔ جن کے ساتھ میں نے نمٹا ہے وہ مجھ سے نقصان کی تلافی کا مطالبہ تک کرتے ہیں، جب کہ وہ لوگ جنھیں گھر بھیجا گیا ہے وہ اپنے نام کو پہنچنے والے نقصان کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں؛ جو غیر شادی شدہ ہیں وہ جہیز، یا اپنی کھوئی ہوئی جوانی کا معاوضہ مانگتے ہیں؛ جو ایک مرغی کو کاٹتے ہیں وہ قصاب کا معاوضہ مانگتے ہیں، جو کھانا فرائی کرتے ہیں وہ فرائی کرنے کا معاوضہ مانگتے ہیں، اور جو شوربہ بناتے ہیں وہ اس کی بھی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔۔ یہ ہے تمہاری بلند اور عظیم انسانیت، اور یہ وہ اعمال ہیں جن کا حکم تمہارا گرم ضمیر دیتا ہے۔ تمہاری عقل کہاں ہے؟ تمہاری انسانیت کہاں ہے؟ میں تمہیں بتاتا ہوں! اگر تم اسی طرح جاری رکھو گے تو میں تمہارے درمیان کام کرنا بند کر دوں گا۔ میں انسانی لباس میں درندوں کے ایک غول کے درمیان کام نہیں کروں گا، میں ایسے لوگوں کے گروہ کی خاطر اس طرح تکلیف نہیں جھیلوں گا جن کے اجلے چہرے وحشی دلوں کو چھپاتے ہیں، میں ایسے حیوانوں کے غول کی خاطر تکلیف برداشت نہیں کروں گا جن کی نجات کا ذرہ برابر امکان بھی نہیں ہے۔ جس دن میں تمہاری طرف پیٹھ پھیروں گا وہ دن ہو گا جس دن تم مر جاؤ گے، یہ وہ دن ہے جب تم پر تاریکی چھا جائے گی، اور جس دن روشنی تمہیں چھوڑ دے گی۔ میں تمہیں بتاتا ہوں! میں تمہارے جیسے گروہ کے لیے کبھی بھی مہربان نہیں ہوں گا، ایسا گروہ جو جانوروں سے بھی بدتر ہے! میرے قول و فعل کی حدود ہیں، اور وہ تمہاری انسانیت اور ضمیر کے ساتھ ہیں، اب میں مزید کوئی کام نہیں کروں گا، کیونکہ تم میں ضمیر کی بہت کمی ہے، تم نے مجھے بہت زیادہ تکلیف دی ہے، اور تمہارے قابلِ نفرت رویے سے میں بہت نفرت کرتا ہوں۔ جن لوگوں میں انسانیت اور ضمیر کی اتنی زیادہ کمی ہے انہیں نجات کا موقع کبھی نہیں ملے گا؛ میں ایسے بےحس اور ناشکرے لوگوں کو کبھی نہیں بچاؤں گا۔ جب میرا دن آئے گا، میں نافرمانی کے ان فرزندوں پر ہمیشہ کے لیے اپنے بھڑکتے شعلوں کی بارش کروں گا جنھوں نے کبھی میرے شدید غضب کو بھڑکایا تھا، میں ان جانوروں پر اپنی دائمی سزا مسلط کروں گا جنہوں نے کبھی مجھ پرلعن طعن کی تھی اور مجھے چھوڑ دیا تھا، میں اپنے غصے کی آگ سے ان نافرمانی کے فرزندوں کو ہمیشہ کے لیے جلا دوں گا جو کبھی میرے ساتھ اکٹھے رہتے اور کھاتے تھے لیکن مجھ پر ایمان نہیں لاتے تھے، جنہوں نے میری توہین کی اور مجھے دھوکا دیا۔ میں اپنے غصے کو بھڑکانے والے تمام لوگوں کو اپنی سزا دوں گا، میں اپنا سارا غصہ ان درندوں پر برساؤں گا جنھوں نے کبھی میرے ساتھ میرے برابر بن کر کھڑے ہونے کی خواہش کی تھی لیکن میری عبادت یا اطاعت نہیں کی تھی؛ جس چھڑی سے میں انسان کو مارتا ہوں وہ ان جانوروں پر گرے گی جو کبھی میری دیکھ بھال سے لطف اندوز ہوتے تھے اور کبھی میرے بیان کردہ اسرارورموز سے لطف اندوز ہوتے تھے، اور جنہوں نے کبھی مجھ سے مادی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ میں کسی ایسے شخص کو معاف نہیں کروں گا جو میری جگہ لینے کی کوشش کرے گا؛ میں ان لوگوں میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا جو مجھ سے کھانا اور لباس چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت تو تم نقصان سے آزاد ہو اور تم مجھ سے جو مطالبات کرتے ہو ان میں چالاکی کرتے رہتے ہو۔ جب غضب کا دن آئے گا تو تم مجھ سے مزید کوئی مطالبات نہیں کرو گے؛ اس وقت، میں تمہیں تمہارے دل کی تسلی کے مطابق "لطف اندوز" ہونے دوں گا، میں تمہارے چہرے زبردستی زمین میں گاڑ دوں گا، اور تم دوبارہ کبھی نہیں اٹھ سکو گے! جلد یا بدیر، میں تمہیں یہ قرض واپس "ادا" کرنے والا ہوں – اور مجھے امید ہے کہ تم صبر کے ساتھ اس دن کی آمد کا انتظار کرو گے۔

اگر یہ قابلِ نفرت لوگ واقعی اپنی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر خدا کی طرف واپس لوٹ سکتے ہیں تو پھر بھی ان کے پاس نجات کا موقع ہے؛ اگر انسان کا دل حقیقی معنوں میں خدا کے لیے شدید آرزو رکھتا ہے تو خدا اسے ترک نہیں کرے گا۔ انسان خدا کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، اس لیے نہیں کہ خدا جذبات رکھتا ہے، یا اس لیے کہ خدا کی مرضی نہیں ہے کہ انسان اسے حاصل کرے، بلکہ اس لیے کہ انسان خدا کو حاصل نہیں کرنا چاہتا، اور اس لیے کہ انسان کو خدا کی فوری تلاش نہیں ہے۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں خدا کی تلاش کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک پر خدا کی لعنت کیسے ہو سکتی ہے؟ ایک صائب عقل اور حساس ضمیر رکھنے والے پر خدا کی لعنت کیسے ہو سکتی ہے؟ جو شخص صحیح معنوں میں خدا کی عبادت اور خدمت کرتا ہے وہ اس کے غضب کی آگ میں کیسے بھسم ہو سکتا ہے؟ جو شخص خدا کی اطاعت کرنے میں خوش ہے اسے خدا کے گھر سے کیسے دھکے دے کر نکالا جا سکتا ہے؟ جو خدا سے اتنی محبت کرتا ہے کہ کبھی اسے کافی نہیں سمجھتا تو وہ خدا کے عذاب میں کیسے رہ سکتا ہے؟ جو خدا کے لیے سب کچھ چھوڑ کر خوش ہو جائے وہ کیسے کسی چیز کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے؟ انسان خدا کی جستجو کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، خدا کی خاطر اپنا مال خرچ کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے، اور خدا کے لیے زندگی بھر کی کوشش کو وقف کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے؛ اس کی بجائے، وہ کہتا ہے کہ خدا حد سے بڑھ گیا ہے، خدا کے بارے میں بہت کچھ انسان کے تصورات سے متصادم ہے۔ اس جیسی انسانیت کے ساتھ، یہاں تک کہ اگر تم اپنی بہت زیادہ کوششیں بھی کرو تو تم پھر بھی خدا کی تائید حاصل کرنے سے قاصر ہو گے، اس حقیقت کے بارے میں تو کچھ کہنا ہی نہیں ہے کہ تم خدا کی تلاش نہیں کرتے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تم بنی نوع انسان کا خراب سامان ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ کوئی انسانیت بھی تمہاری انسانیت سے زیادہ حقیر نہیں ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ دوسرے تمہاری تعظیم کرنے کے لیے تمہیں کیا کہتے ہیں؟ جو لوگ خدا سے سچی محبت کرتے ہیں وہ تمہیں بھیڑیے کا باپ، بھیڑیے کی ماں، بھیڑیے کا بیٹا اور بھیڑیے کا پوتا کہتے ہیں؛ تم بھیڑیے کی اولاد ہو، بھیڑیے کے لوگ ہو، اور تمہیں اپنی شناخت جاننی چاہیے اور اسے کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یہ مت سوچو کہ تم کوئی اعلیٰ شخصیت ہو: تم بنی نوع انسان کے درمیان سب سے برا غیر انسانی گروہ ہو۔ کیا تم اس میں سے کچھ نہیں جانتے؟ کیا تمہیں علم ہے کہ میں نے تمہارے درمیان کام کرکے کتنا خطرہ مول لیا ہے؟ اگر تمہاری عقل دوبارہ معمول کی نہیں ہوسکتی ہے، اور تمہارا ضمیر معمول کے مطابق کام نہیں کرسکتا ہے، تو تم "بھیڑیا" نام سے کبھی چھٹکارا نہیں پا سکو گے، تم لعنت کے دن سے کبھی نہیں بچو گے اور اپنی سزا کے دن سے کبھی نہیں بچو گے۔ تم کمتر پیدا ہوئے تھے، ایک بے وقعت چیز کے طور پر۔ تم فطرتاً بھوکے بھیڑیوں کا ایک غول ہو، ملبے اور کچرے کا ایک ڈھیر، اور تمہارے برعکس میں تم پر احسانات حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ کام کی ضرورت کی وجہ سے کام کرتا ہوں۔ اگر تم اسی طرح سرکشی کرنا جاری رکھو گے تو میں اپنا کام روک دوں گا؛ اور پھر کبھی تم پر کام نہیں کروں گا؛ اس کے برعکس، میں اپنے کام کو کسی دوسرے ایسے گروہ کی طرف منتقل کر دوں گا جو مجھے خوش کرے گا، اور اس طریقے سے تمہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا، کیونکہ میں ان لوگوں کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں ہوں جو میرے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں۔ تو پھر کیا تم میرے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہتے ہو یا میرے خلاف دشمنی کرنا چاہتے ہو؟

سابقہ: کیا تُو ایسا شخص ہے جو زندگی کی طرف لوٹا ہے؟

اگلا: وہ سب لوگ، جو خدا کو نہیں جانتے، وہ لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp