وہ سب لوگ، جو خدا کو نہیں جانتے، وہ لوگ ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں
خدا کے کام کے مقصد کو سمجھنے کے لیے، اس کا کام انسان میں کیا اثر حاصل کرتا ہے، اور انسان کے لیے اس کی مرضی آخر کیا ہے: یہ وہ چیز ہے جو خدا کی پیروی کرنے والے ہر شخص کو حاصل کرنی چاہیے۔ آج کل خدا کے کام کا علم ہی وہ چیز ہے جس کی سب لوگوں میں کمی ہے۔ وہ کام جو خدا نے لوگوں پر کیے ہیں، خدا کے تمام اعمال، اور دنیا کی تخلیق سے لے کر موجودہ وقت تک انسان کے لیے خدا کی عین مرضی کیا ہے- یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نہ جانتا ہے اور نہ ہی سمجھتا ہے۔ یہ کوتاہی نہ صرف پوری مذہبی دنیا میں نظر آتی ہے بلکہ ان سب لوگوں میں بھی نظر آتی ہے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب وہ دن آئے گا جب تم واقعی خدا کو دیکھو گے، جب تم واقعی اس کی حکمت کی قدر کرو گے، جب تم ان تمام کاموں کو دیکھو گے جو خدا نے کیے ہیں، جب تم پہچان لو گے کہ خدا کیا ہے اور اس کے پاس کیا ہے- جب تم اس کے فضل، حکمت، حیرت انگیزی؛ اور اس سب کام کو دیکھ لو گے جو اس نے لوگوں پر کیا ہے – تو تب ہی تم خدا پر اپنے ایمان میں کامیابی حاصل کر چکے ہو گے۔ جب خدا کو ہر چیز کا احاطہ کرنے والا اور سب سے زیادہ فیاض کہا جاتا ہے، تو وہ کس انداز میں ہر چیز پر محیط ہے، اور وہ کس طرح سب سے زیادہ فیاض ہے؟ اگر تو یہ نہیں سمجھتا ہے تو پھر تجھے خدا پر ایمان رکھنے والا نہیں سمجھا جا سکتا۔ میں کیوں یہ کہتا ہوں کہ مذہبی دنیا کے لوگ خدا پر ایمان رکھنے والے نہیں ہیں بلکہ بدکار ہیں، شیطان کی مانند ہیں؟ جب میں کہتا ہوں کہ وہ بدکار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کی مرضی کو نہیں سمجھتے اور اس کی حکمت کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ خُدا کبھی بھی اُن پر اپنا کام ظاہر نہیں کرتا ہے۔ وہ اندھے ہیں؛ وہ خُدا کے کام نہیں دیکھ سکتے، اُنہیں خُدا نے چھوڑ دیا ہے، اور وہ خُدا کی دیکھ بھال اور تحفظ سے مکمل طور پر محروم ہیں، روح القدس کے کام کا تو ذکر ہی نہیں کرنا۔ جو لوگ خدا کے کام کے بغیر ہیں وہ سب بدکار اور خدا کے مخالف ہیں۔ خدا کے جن مخالفین کے بارے میں میں بات کرتا ہوں، ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں جانتے، وہ لوگ جو اپنی زبان سے تو خدا کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کو جانتے نہیں ہیں، وہ لوگ جو خدا کی پیروی تو کرتے ہیں مگر اس کی اطاعت نہیں کرتے ہیں، اور وہ لوگ جو خدا کے فضل سے لطف اندوز تو ہوتے ہیں مگر پھر بھی اس کی گواہی دینے سے قاصر ہیں۔ خدا کے کام کے مقصد کی سمجھ بوجھ کے بغیر یا خدا کے انسان میں کیے گئے کام کی سمجھ بوجھ کے بغیر، وہ خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ خدا کی گواہی دے سکتے ہیں۔ انسان کی خدا کی مخالفت کرنے کی وجہ ایک طرف تو اس کا بدعنوان مزاج ہے اور دوسری طرف خدا سے ناواقفیت اور خدا کے کام کرنے کے اصول اور انسان کے لیے اس کی مرضی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ یہ دونوں پہلو، اکٹھے مل کر، انسان کی خدا کے خلاف مزاحمت کی ایک تاریخ تشکیل دیتے ہیں۔ ایمان میں نئے داخل ہونے والے لوگ خدا کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس طرح کی مخالفت ان کی فطرت میں شامل ہوتی ہے، جب کہ بہت سالوں سے ایمان رکھنے والوں کی خدا کی مخالفت ان کے بدعنوان مزاج کے علاوہ ان کی خدا سے لاعلمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ خدا کے جسم بننے سے پہلے کے زمانے میں، کسی انسان نے خدا کی مخالفت کی یا نہیں، اس کا پیمانہ اس بات پر مبنی تھا کہ آیا اس نے آسمانی خدا کے مقرر کردہ احکام کو برقرار رکھا یا نہیں۔ مثال کے طور پر، شریعت کے دور میں، جو بھی یہوواہ کے قوانین پر عمل نہیں کرتا تھا اسے خدا کی مخالفت کرنے والا سمجھا جاتا تھا؛ جو کوئی بھی یہوواہ کو دیے گئے نذرانوں کو چراتا تھا، یا جو بھی یہوواہ کے حمایت یافتہ لوگوں کے خلاف کھڑا ہوتا تھا، وہ خدا کی مخالفت کرنے والا سمجھا جاتا تھا اور سنگسار کر دیا جاتا تھا؛ جو کوئی بھی اپنے والد اور والدہ کا احترام نہیں کرتا تھا، اور جو کوئی کسی کو مارتا یا لعنت بھیجتا تھا، وہ شریعت پر عمل نہ کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ سب جو یہوواہ کی شریعت پر عمل نہیں کرتے تھے، انھیں اُس کے خلاف کھڑا ہونے والا سمجھا جاتا تھا۔ فضل کے دور میں اب ایسا نہیں تھا، جب کوئی بھی یسوع کے خلاف کھڑا ہوتا تھا اسے خدا کے خلاف کھڑا ہونے والا سمجھا جاتا تھا، اور جو کوئی یسوع کے کہے ہوئے الفاظ کو نہیں مانتا تھا اسے خدا کے خلاف کھڑا ہونے والا سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت، جس انداز میں خدا کی مخالفت کی تعریف کی گئی تھی، وہ زیادہ درست اور زیادہ عملی ہو گئی تھی۔ اس زمانے میں جب خدا ابھی جسم نہیں بنا تھا، تو اس بات کا پیمانہ کہ آیا انسان خدا کی مخالفت کرتا ہے یا نہیں، اس بات پر مبنی تھا کہ کیا انسان آسمان میں غیرمرئی خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس کی طرف دیکھتا ہے یا نہیں۔ اس زمانے میں جس انداز میں خدا کی مخالفت کی تعریف کی گئی تھی وہ اتنا عملی نہیں تھا، کیونکہ انسان خدا کو نہیں دیکھ سکتا تھا، نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ خدا کی شکل کیسی ہے، یا وہ کس طرح کام کرتا اور بولتا ہے۔ انسان کے خدا کے بارے میں کوئی تصورات نہیں تھے، اور وہ خدا پر مبہم ایمان رکھتا تھا، کیونکہ خدا ابھی تک انسان پر ظاہر نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان اپنے تخیل میں خدا پر کس انداز میں ایمان رکھتا تھا، خدا نے انسان کی مذمت نہیں کی یا اس سے بہت زیادہ مطالبات نہیں کیے، کیونکہ انسان خدا کو دیکھنے سے مکمل طور پر قاصر تھا۔ جب خُدا جِسم بن جاتا ہے اور انسانوں کے درمیان کام کرنے کے لیے آتا ہے تو سب اُسے دیکھتے اور اُس کی باتیں سنتے ہیں، اور سب اُن کاموں کو دیکھتے ہیں جو خُدا اپنے گوشت پوست کے جسم میں رہتے ہوئے کرتا ہے۔ اس وقت انسان کے تمام تصورات جھاگ بن جاتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو خدا کو جسمانی طور پر ظاہر ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، اگر وہ خوشی سے اس کی اطاعت کرتے ہیں تو ان کی مذمت نہیں کی جائے گی، جب کہ وہ لوگ جو جان بوجھ کر اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں وہ خدا کے مخالف سمجھے جائیں گے۔ ایسے لوگ مسیح مخالف اور دشمن ہیں جو جان بوجھ کر خدا کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو خُدا کے بارے میں تصورات رکھتے ہیں لیکن پھر بھی اُس کی فرمانبرداری کے لیے تیار اور آمادہ ہیں، اُن کی مذمت نہیں کی جائے گی۔ خدا انسان کی ملامت انسان کے ارادوں اور اعمال کی بنیاد پر کرتا ہے اور کبھی بھی اس کی سوچوں اور خیالات کے لیے نہیں کرتا ہے۔ اگر وہ انسان کی سوچوں اور خیالات کی بنیاد پر اس کی مذمت کرے تو پھر کوئی ایک بھی شخص خدا کے غضبناک ہاتھوں سے نہیں بچ سکے گا۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر مجسم خدا کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، انھیں ان کی نافرمانی کی سزا دی جائے گی۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو جان بوجھ کر خدا کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، تو ان کی مخالفت اس حقیقت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ خدا کے بارے میں تصورات رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ایسے کام کرتے ہیں جو خدا کے کام میں خلل ڈالتے ہیں۔ یہ لوگ جان بوجھ کر خدا کے کام کی مزاحمت کرتے ہیں اور اسے تباہ کرتے ہیں۔ وہ خدا کے بارے میں محض تصورات ہی نہیں رکھتے بلکہ وہ ایسے کاموں میں بھی مشغول ہوتے ہیں جو اس کے کام میں خلل ڈالتے ہیں اور اس وجہ سے اس قسم کے لوگوں کی مذمت کی جائے گی۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر خدا کے کام میں خلل نہیں ڈالتے ہیں ان کی مذمت گناہ گاروں کی طرح نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ خوشی سے اطاعت کرنے کے قابل ہیں اور خلل ڈالنے والی اور پریشانی کا باعث بننے والی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مذمت نہیں کی جائے گی۔ تاہم، جب لوگ کئی سالوں تک خدا کے کام کا تجربہ کر چکے ہوں گے، اور اگر وہ پھر بھی خدا کے بارے میں تصورات کو برقرار رکھتے ہیں اور مجسم خدا کے کام کو جاننے سے قاصر رہتے ہیں، اور، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انھوں نے کتنے سال تک اس کے کام کا عملی تجربہ کیا ہے، اگر وہ خدا کے بارے میں تصورات سے بھرے رہتے ہیں اور ابھی تک اسے جاننے سے قاصر رہتے ہیں، تو پھر اگر وہ خلل ڈالنے والے کاموں میں مشغول نہ بھی ہوں، تب بھی ان کے دل خدا کے بارے میں بہت سے تصورات سے بھرے ہوتے ہیں، اور اگر یہ تصورات ظاہر نہ بھی ہوں، تب بھی ایسے لوگ خدا کے کام میں کسی بھی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ خُدا کے لیے خوشخبری کو پھیلانے یا اُس کی گواہی دینے سے قاصر ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ کند ذہن ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ خدا کو نہیں جانتے اور مزید یہ کہ اس کے بارے میں اپنے تصورات کو ختم کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں، اس لیے ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ اس طرح سے کہا جا سکتا ہے: ایمان میں نئے داخل ہونے والوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ وہ خدا کے بارے میں تصورات رکھیں یا اس کے بارے میں کچھ نہ جانیں، لیکن وہ شخص جو کئی سالوں سے خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے کام کا کافی عملی تجربہ کر چکا ہے، ایسے شخص کے لیے یہ بات معمول کی نہیں ہو گی کہ وہ تصورات کو برقرار رکھے، اور اس طرح کے کسی شخص کو خدا کے بارے میں کوئی علم نہ ہونا تو اس سے بھی زیادہ غیر معمولی بات ہو گی۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ کوئی معمول کی صورتحال نہیں ہے کہ ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ یہ خلافِ معمول لوگ سب کوڑا کرکٹ ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں اور جو خدا کے فضل سے بلاوجہ لطف اندوز ہوئے ہیں۔ آخرکار ایسے تمام لوگ باہر نکال دیے جائیں گے!
جو شخص خدا کے کام کے مقصد کو نہیں سمجھتا وہ اس کی مخالفت کرتا ہے اور وہ جس نے خدا کے کام کے مقصد کو سمجھ لیا ہے لیکن پھر بھی خدا کو راضی کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ خدا کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو پُر شکوہ کلیساؤں میں کتابِ مقدس پڑھتے ہیں اور سارا دن اسے دہراتے ہیں، اس کے باوجود ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کے کام کا مقصد نہیں سمجھتا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی خدا کو جاننے کے قابل نہیں ہے، ان میں سے کسی کا خدا کی منشا کے مطابق ہونے کا امکان تو اس سے بھی کم ہے۔ وہ سب کے سب بے وقعت حقیر لوگ ہیں، ہر ایک خدا کو وعظ کرنے کے لیے بلند مرتبے پر ہوتا ہے۔ وہ دانستہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں، حالاں کہ وہ اس کا پرچم اٹھا ئے ہوتے ہیں۔ وہ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ انسان کا گوشت کھاتے اور خون پیتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ ایسے شیطان ہیں جو انسان کی روح ہڑپ کرتے ہیں، سرغنہ بدروحیں جو صحیح راہ پر چلنے کی کوشش کرنے والوں کی راہ میں جان بوجھ کر رکاوٹ بنتی ہیں اور خدا کی جستجو کرنے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں۔ وہ "معتبر دستور" کی حامل نظر ا ٓسکتی ہیں، مگر ان کے پیروکاروں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ مسیح مخالف ہیں جو لوگوں کو خدا کے خلاف کھڑا کر دیتی ہیں؟ ان کے پیروکاروں کو کیسے معلوم ہو کہ وہ زندہ شیطان ہیں جنہوں نے انسانی روحوں کو ہڑپ کرنے کا عہد کر رکھا ہے؟ جو لوگ خدا کی موجودگی میں اپنے آپ کو زیادہ محترم سمجھتے ہیں وہ انسانوں میں سب سے زیادہ قابلِ نفرت ہیں جبکہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں وہ سب سے زیادہ عزت دار ہیں۔ اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کے کام کو جانتے ہیں اور جو مزید اس قابل ہیں کہ وہ خدا کے کام کا دوسروں کے سامنے بڑی دھوم دھام سے اعلان کر سکتے ہیں اس طرح کہ جیسے وہ براہ راست اس کی طرف دیکھتے ہیں- یہ انسانوں میں سب سے زیادہ جاہل ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی گواہی کے بغیر، مغرور اور تکبر سے بھرے ہوتے ہیں۔ جو لوگ خدا کے بارے میں حقیقی عملی تجربہ اور عملی علم رکھنے کے باوجود اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں، وہ خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ صرف ایسے لوگ ہی صحیح معنوں میں گواہی رکھتے ہیں اور خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کے حقیقی اہل ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کی مرضی کو نہیں سمجھتے خدا کے مخالف ہیں؛ وہ لوگ جو خدا کی مرضی کو سمجھتے ہیں لیکن سچائی پر عمل نہیں کرتے، وہ خدا کے مخالف ہیں؛ وہ لوگ جو خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے ہیں اور پھر بھی خدا کے کلام کے جوہر کے خلاف جاتے ہیں، وہ خدا کے مخالف ہیں؛ وہ لوگ جو مجسم خدا کے بارے میں تصورات رکھتے ہیں، اور اس کے علاوہ سرکشی میں مشغول ہونے کی سوچ رکھتے ہیں، وہ خدا کے مخالف ہیں؛ وہ لوگ جو خدا کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں، وہ خدا کے مخالف ہیں؛ اور جو کوئی بھی خدا کو پہچاننے یا اس کی گواہی دینے سے قاصر ہے، وہ خدا کا مخالف ہے۔ اسی لیے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: اگر تمہیں واقعی یہ یقین ہے کہ تم اس راستے پر چل سکتے ہو، تو پھر اس پر چلتے رہو۔ لیکن اگر تم خدا کی مخالفت کرنے سے باز آنے سے قاصر ہو، تو پھر بہتر ہے کہ تم دور چلے جاؤ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ ورنہ تمہارے لیے معاملات کے خراب ہونے کے امکانات انتہائی زیادہ ہیں، کیوں کہ تمہاری فطرت بہت ہی زیادہ بدعنوان ہے۔ وفاداری یا فرمانبرداری ہو، یا ایک ایسا دل جو راستبازی اور سچائی کا پیاسا ہے، یا خدا سے محبت، تمہارے پاس ان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کے سامنے تمہاری صورتحال مکمل طور پر خراب ہے۔ تم اس کی پابندی نہیں کر سکتے جس کی پابندی تمہیں کرنی چاہیے، اور تم یہ کہنے سے قاصر ہو کہ کیا کہنا چاہیے۔ جس چیز پر تمہیں عمل کرنا چاہیے، تم اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہو؛ اور وہ کام جو تمہیں پورا کرنا چاہیے، تم اسے پورا کرنے سے قاصر رہے ہو۔ تمہارے پاس وہ وفاداری، ضمیر، اطاعت، یا عزم نہیں ہے جو تمہارے پاس ہونا چاہیے۔ تم نے اس تکلیف کو برداشت نہیں کیا ہے جسے برداشت کرنا تم پر فرض ہے، اور تمہارے پاس وہ ایمان نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔ بالکل سادہ الفاظ میں، تم کسی بھی قابلیت سے بالکل محروم ہو: کیا تمہیں زندہ رہنے پر شرم نہیں آتی ہے؟ میں تمہیں قائل کرتا ہوں کہ تمہارے لیے بہتر ہو گا کہ ابدی آرام کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لو، اس طرح خدا تمہارے معاملے میں فکر کرنے اور تمہاری خاطر تکلیف اٹھانے سے بچ جائے گا۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو اور پھر بھی اس کی مرضی کو نہیں جانتے ہو؛ تم خدا کا کلام کھاتے اور پیتے ہو اور پھر بھی اس مطالبے کو پورا کرنے سے قاصر ہو جو خدا انسان سے کرتا ہے۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو اور پھر بھی اسے نہیں جانتے، اور تم کسی مقصد کے لیے کوشش کرنے کے بغیر زندہ رہتے ہو، بغیر کسی اقدار کے، بغیر کسی معنی کے۔ تم ایک انسان کے طور پر زندگی بسر کرتے ہو اور اس کے باوجود تمہارے پاس ذرا سا بھی ضمیر، دیانت یا اعتبار نہیں ہے - کیا تم اب بھی اپنے آپ کو انسان کہہ سکتے ہو؟ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو پھر بھی اسے دھوکا دیتے ہو؛ اس سے بڑھ کر یہ کہ تم خدا کا پیسہ لے لیتے ہو اور اس کے لیے پیش کیے جانے والے نذرانوں کو کھا جاتے ہو۔ اور پھر بھی، آخر میں تم اس کے باوجود خُدا کے جذبات کی ذرا سی بھی پروا نہیں کرتے یا اُس کے لیے ہلکا سا بھی ضمیر کا احساس ظاہر کرنے میں ناکام رہتے ہو۔ تم خدا کے سب سے معمولی مطالبات بھی پورے نہیں کر سکتے ہو۔ کیا تم اب بھی اپنے آپ کو انسان کہہ سکتے ہو؟ وہ خوراک کھاتے ہوئے جو خدا تمہیں فراہم کرتا ہے اور اس آکسیجن میں سانس لیتے ہوئے جو وہ تمہیں دیتا ہے، اس کے فضل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، پھر بھی آخرکار، تمہیں خدا کا ذرہ برابر علم بھی نہیں ہے۔ اِس کے برعکس، تم ایسے بے فائدہ ہو گئے ہو کہ خدا کی مخالفت کرتے ہو۔ کیا یہ تمہیں کتے سے بھی کمتر درجے کا حیوان نہیں بناتا؟ جانوروں میں، کیا کوئی ایسا بھی ہے جو تم سے بھی زیادہ پُرعناد ہو؟
وہ پادری اور بزرگ جو بلند منبر پر کھڑے ہو کر دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں، وہ خدا کے مخالف اور شیطان کے اتحادی ہیں؛ کیا تم میں سے وہ لوگ جو اونچے منبر پر کھڑے ہو کر دوسروں کو تعلیم نہیں دیتے، وہ خدا کے اس سے بھی بڑے مخالف نہیں ہوں گے؟ کیا تم شیطان کے ساتھ مل کر سازش کرتے ہوئے ان سے بھی زیادہ مخالف نہیں ہو؟ وہ لوگ جو خدا کے کام کے مقصد کو نہیں سمجھتے، وہ یہ نہیں جانتے کہ خدا کی مرضی کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہونا ہے۔ یقیناً یہ نہیں ہو سکتا کہ جو لوگ اُس کے کام کے مقصد کو سمجھتے ہوں اور وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ خدا کی مرضی کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہونا ہے۔ خدا کا کام کبھی غلط نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ انسان کی جستجو ہے جس میں خامی ہوتی ہے۔ کیا وہ زوال پذیر لوگ جو جان بوجھ کر خدا کی مخالفت کرتے ہیں ان پادریوں اور بزرگوں سے بھی زیادہ قبیح اور بدخواہ نہیں ہیں؟ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن ان میں بہت سے مختلف طریقے بھی ہیں جن سے وہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہر انداز کے ایمان رکھنے والے ہوتے ہیں، اسی طرح خدا کی مخالفت کرنے والے بھی ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ہر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ خدا کے کام کے مقصد کو صاف طور پر پہچاننے میں ناکام رہنے والوں میں سے ایک بھی نہیں بچایا جا سکتا۔ اس سے قطع نظر کہ ماضی میں انسان نے خدا کی کیسے مخالفت کی ہو، جب انسان خدا کے کام کے مقصد کو سمجھ لیتا ہے اور خدا کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی کوششیں وقف کر دیتا ہے، تو خدا اس کے تمام سابقہ گناہوں کو مٹا دے گا۔ جب تک انسان سچائی کی تلاش کرے گا اور سچائی پر عمل کرے گا، خدا یہ یاد نہیں رکھے گا کہ اس نے کیا کیا ہے۔ مزید برآں، یہ انسان کے سچائی پر عمل کرنے کی بنیاد پر ہے کہ خدا اسے بے قصور ٹھہراتا ہے۔ یہ خدا کی راستبازی ہے۔ انسان کے خدا کو دیکھنے یا اس کا عملی تجربہ کرنے سے پہلے، انسان نے کیسے ہی کام کیوں نہ کیے ہوں، خدا انھیں یاد نہیں رکھتا ہے۔ تاہم، ایک مرتبہ جب انسان خُدا کو دیکھ لیتا ہے اور اُس کے کام کا عملی تجربہ کر لیتا ہے، تو خدا انسان کے تمام اعمال اور کاموں کو "روزنامچے" میں لکھ لے گا، کیونکہ انسان نے خُدا کو دیکھ لیا ہے اور اُس کے کام کے درمیان زندگی گزاری ہے۔
جب انسان صحیح معنوں میں دیکھ چکا ہو گا کہ خدا کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، جب وہ اس کی بالادستی دیکھ چکا ہو گا، اور جب اسے خدا کے کام کا صحیح معنوں میں علم ہو چکا ہو گا، اور اس کے علاوہ، جب انسان کا پرانا مزاج تبدیل ہو جائے گا، تب انسان خدا کی مخالفت کرنے والے اپنے سرکش مزاج کو بالکل ترک کر چکا ہو گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر کسی نے کسی نہ کسی وقت خدا کی مخالفت کی ہے اور ہر کسی نے کسی نہ کسی وقت خدا سے سرکشی کی ہے۔ تاہم، اگر تو خوشی سے مجسم خدا کی اطاعت کرتا ہے، اور اس مقام سے خدا کے دل کو اپنی وفاداری سے مطمئن کرتا ہے، سچائی پر عمل کرتا ہے جو تجھے کرنا چاہیے، اپنا فرض ادا کرتا ہے جو تجھے کرنا چاہیے، اور ضابطوں پر عمل کرتا ہے جو تجھے کرنا چاہیے، تو پھر تو وہ ہے جو خدا کو راضی کرنے کے لیے اپنی سرکشی کو ترک کرنے کے لیے تیار ہے اور تو وہ ہے جو خدا کی طرف سے کامل بنایا جا سکتا ہے۔ اگر تو ضدی انداز میں اپنی غلطیوں کا احساس کرنے سے انکار کرتا ہے اور خود توبہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے، اگر تو خدا کے ساتھ تعاون کرنے اور اسے راضی کرنے کی ذرا سی بھی نیت کے بغیر اپنے سرکش طرز عمل پر قائم رہتا ہے تو پھر تجھ جیسے ضدی اور ناقابل اصلاح شخص کو یقینی طور پر سزا دی جائے گی اور یقیناً تو کبھی بھی خدا کی طرف سے کامل بنایا جانے والا نہیں ہوگا۔ اس وجہ سے تو آج بھی خدا کا دشمن ہے اور کل بھی خدا کا دشمن ہو گا اور اسی طرح اس کے بعد بھی تو خدا کا دشمن ہی رہے گا؛ تو ہمیشہ خدا کا مخالف اور خدا کا دشمن رہے گا۔ اس صورت میں، خدا تجھے کیسے معاف کر سکتا ہے؟ خدا کی مخالفت کرنا انسان کی فطرت میں ہے لیکن انسان کو خدا کی مخالفت کے "راز" کی جان بوجھ کر جستجو نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس کی فطرت کو تبدیل کرنا ایک ناقابل تسخیر کام ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر بہتر ہے کہ تو اس سے دور ہو جا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں تیری سزا مزید سخت ہو جائے، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری وحشیانہ فطرت پھوٹ پڑے اور بے قابو ہو جائے، یہاں تک کہ آخرکار خدا تیرے گوشت پوست کے جسم کو ختم کر دے۔ تو برکتیں حاصل کرنے کے لیے خدا پر ایمان رکھتا ہے؛ لیکن اگر آخر میں تجھ پر صرف مصیبت ہی آئے تو کیا یہ شرم کی بات نہیں ہو گی؟ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں، بہتر ہے کہ تم ایک اور منصوبہ بنا لو۔ تم جو کچھ بھی کر سکتے ہو وہ خدا پر ایمان لانے سے بہتر ہو گا: یقیناً یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف ایک یہی راستہ ہو۔ اگر تم سچائی کی تلاش نہیں کرو گے تو کیا تم زندہ نہیں رہو گے؟ آخر تمہیں خدا سے ضرور اس طرح متصادم کیوں ہونا چاہیے؟