بدکاروں کو ضرور سزا ملے گی
یہ دیکھنے کے لیےتم اپنا جائزہ لو کہ آیا تم اپنے تمام کاموں میں راستبازی اختیار کرتے ہو اور آیا خدا تمھارے تمام اعمال دیکھ رہا ہے: یہ وہی اصول ہے جس کے ذریعے خدا کے ماننے والے اپنے اُمور انجام دیتے ہیں۔ تمھیں راست باز کہا جائے گا کیوں کہ تم خدا کو راضی کرنے کے قابل ہو گےاور کیوں کہ تم خدا کی طرف سے نگہداشت اور تحفظ قبول کرتے ہو۔ خدا کی نگاہ میں جو لوگ خدا کی نگہداشت، تحفظ اور کمال کو قبول کرتے ہیں اور جو اس کی طرف سے حاصل کرلیے جاتے ہیں، راست باز ہیں اور وہ ان سب کو قیمتی سمجھتا ہے۔ تم خدا کے موجودہ کلام کو جتنا تسلیم کرو گے، اتنا ہی تم خدا کی مرضی حاصل کرنے اور اسے سمجھنے کے قابل ہوجاؤ گے اور اس کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے قابل ہوگے۔ یہ تمھارے لیے خدا کی طرف سے ہدایت ہے اور یہ وہ ہے جو تم سب کو حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اگر تم خدا کی جانچ اور اسے محدود کرنے کے لیے اپنے تصورات استعمال کرتے ہو، جیسے خدا چکنی مٹی کا نہ تبدیل ہونے والا پتلا ہے اور اگر خدا کو مکمل طور پر انجیل مقدس کے پیمانوں کے اندر پابند کرتے ہو اور اسے دائرہ کار کے اندر محدود کرتے ہو تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تم نے خدا کی مذمت کی ہے۔ کیونکہ یہودیوں نے عہدنامہ قدیم کے زمانے میں خدا کو مستقل صورت کا حامل ایک بت مان لیا تھا جسے وہ اپنے دل میں رکھتے تھے، گویا خدا کو صرف ممسوح کہا جا سکتا ہے اور صرف وہ جو ممسوح کہلاتا تھا، وہی خدا ہو سکتا تھا، چونکہ انسان نے خدا کی ایسی بندگی اور پرستش کی تھی جیسے کہ وہ چکنی مٹی کا (بے جان) پتلا تھا، یہودیوں نے اس وقت یسوع کو صلیب پرمیخوں سےجڑدیا، اسے موت کی سزا سنائی اور بے گناہ یسوع کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ خداسے کوئی جرم سرزد نہ ہوا تھا۔ اس کے باوجود لوگوں نے اسے معاف نہیں کیا اور اسے موت کی سزا دینے پر اصرار کیا اور اس طرح یسوع کو مصلوب کر دیا گیاتھا۔ انسان ہمیشہ یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا ناقابل تغیر ہے اور اس کی تعریف واحد کتاب، یعنی انجیل مقدس، کی بنیاد پر کرتا ہے، گویا انسان کو خدائی نظام کا مکمل ادراک ہے، گویا انسان وہ سب کچھ اپنی ہتھیلی پر رکھتا ہے جو خدا کرتا ہے۔ لوگ انتہائی نامعقول اورانتہائی متکبر ہوتے ہیں اور یہ سب مبالغہ آمیزی کا فطری رجحان رکھتے ہیں۔ خدا کے بارے میں تیرا علم چاہے کتنا ہی زیادہ ہو، میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تُو خدا کو نہیں جانتا، کہ تُو ان میں سے ہے جو خدا کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں اور یہ کہ تُونے خدا کی مذمت کی ہے کیونکہ تُو خدا کے کام کی اطاعت کرنے اور خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کے راستے پر چلنے کا بالکل اہل نہیں ہے۔ خدا انسان کے اعمال سے کبھی بھی مطمئن کیوں نہیں ہوتا؟ کیونکہ انسان خدا کو نہیں جانتا، کیونکہ اس نے بہت سے تصورات گھڑ رکھے ہیں نیز چونکہ خدا کے بارے میں اس کا علم کسی بھی طرح سے حقیقت سے اتفاق نہیں کرتا، بلکہ اس کے بجائے تکرار کے ساتھ وہی تصورات کسی تبدیلی کے بغیر دہراتا ہے اور ہر صورتحال میں وہی پرانا نقطہ نظر استعمال کرتا ہے اور آج خدا ایک بار پھر زمین پر آجائے تو انسان اسے پھر مصلوب کر دے۔ ظالم بنی نوع انسان! ساز باز اور دھوکا دہی، ایک دوسرے کے ساتھ چھینا جھپٹی، شہرت اور دولت کی کھینچا تانی، باہمی قتل وغارت—یہ سب کچھ کب ختم ہو گا؟ خدا کے کہے لاکھوں کلمات کے باوجود کسی بھی شخص نے عقل سے کام نہیں لیا۔ لوگ محض اپنے خاندان، بیٹوں اور بیٹیوں، اپنے روزگار، مستقبل کےامکانات، عہدہ، ڈینگ بازی اور پیسہ، روٹی، لباس اورنفس کی خاطر کام کرتے ہیں لیکن کیا کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو صرف خدا کی خاطر کام کرے؟ حتیٰ کہ وہ لوگ جو خدا کے لیے کام کرتے ہیں ان میں سے بھی صرف چند ایک ہی خدا کو پہچانتے ہیں۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر کام نہیں کرتے؟ کتنے ایسے ہیں جو اپنا عہدہ بچانے کے لیے دوسروں پر جبر نہیں کرتے یا کسی کی حق تلفی نہیں کرتے؟ اور اس طرح خدا لاتعداد بار مصلوب کیا جا چکا ہے اور بے شمار شقی القلب منصفوں نے خدا کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر صلیب پر میخوں سے جڑدیا ہے۔ ایسے کتنے لوگوں کو اس وجہ سے راست باز کہا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقتاً خدا کی خاطرعمل کرتے ہیں؟
کیا کسی مقدس یا راست باز کے طور پر خدا کے روبرو کامل بننا اتنا آسان ہے؟ یہ ایک درست قول ہے کہ "اس دھرتی پر کوئی راست باز نہیں، راست باز اس دنیا میں ہیں ہی نہیں۔" جب تم خدا کے سامنے پیش ہوتے ہو تو غور کرو کہ تم نے کیا پہن رکھا ہے، اپنے ہر لفظ اور عمل، اپنے ہر خیال اور سوچ پر غور کرو اور حتیٰ کہ ان خوابوں پر بھی، جو تم ہر روز دیکھتے ہو — یہ سب کچھ تمھارے اپنے لیے ہے۔ کیا یہی درست طرزعمل نہیں ہے؟ "راست بازی" کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تم دوسروں کو بھیک دو، اس کا صرف یہ مطلب بھی نہیں کہ تم اپنے پڑوسیوں سے ایسی محبت کرو جس طرح تم خود سے کرتے ہو اور اس کا محض یہ مطلب بھی نہیں کہ لڑائی جھگڑے یا ڈاکا زنی اور چوری سے دور رہو۔ راست بازی کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے حکم کو اپنے فرض کے طور پر لو اور خدا کی بنائی ہوئی ترتیب اور انتظامات کو زمان و مکاں سے قطع نظر خدائی کام کے طورپر مانو، جیسا کہ خداوند یسوع نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ یہ وہ راست بازی ہے جس کا خدا نے حکم دیا ہے۔ لوط کو اس لیے راست بازکہا جاسکتاہے کیونکہ اس نے اپنے نفع و نقصان سے قطع نظرخدا کے بھیجے ہوئے دو فرشتوں کو بچایا؛ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت اس نے جو کچھ کیا اسےراست بازی کہا جا سکتاہے لیکن اسے ایک راست باز انسان نہیں کہا جا سکتا۔ یہ محض اس لیے تھا کہ لوط خدا کو دیکھ چکا تھا، اس نے فرشتوں کے بدلے اپنی دو بیٹیاں دے دیں لیکن ماضی میں اس کے تمام اعمال کو راست بازی کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور اسی لیے میں نے کہا "اس دھرتی پر کوئی راست باز نہیں۔" حتیٰ کہ وہ جوصحت یابی کے دھارے میں ہیں، کوئی بھی راست باز نہیں کہلا سکتا ہے۔ تیرے اعمال خواہ کتنے ہی اچھے ہوں، چاہے تُوخدا کی عظمت جس طرح سے بھی بیان کرے، تُو نہ دوسروں پرتنقید اور ملامت کراور نہ ہی دوسروں کو لوٹ اور ان کا مال چھین، اس کے باوجود تُو راست باز نہیں کہلا سکتا، کیوں کہ ایک عام آدمی یہی کچھ کرنے کا اہل ہے۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ تُو خدا کو نہیں جانتا۔ اس وقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ تُو کسی حد تک ایک عام انسان ہے لیکن تجھ میں راست بازی کے وہ عناصر نہیں پائے جاتے جو خدا نے بیان کیے ہیں اور اس طرح تُو ایسا کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ تُو خدا کو جانتا ہے۔
اس سے پہلے جب خدا آسمان میں تھا تو انسان نے ایسی حرکت کی جو خدا سے دھوکا بازی تھی۔ اب جب کہ خدا انسانوں میں رہتا ہے — کوئی نہیں جانتا کہ کتنے سال گزرچکے ہیں — اس کے باوجود انسان اب بھی جان چھڑانے کے انداز میں عمل کررہا ہے اور خدا کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیا انسان بہت ہی فرسودہ سوچ نہیں رکھتا؟یہوداہ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تھا: یسوع کے آنے سے پہلے یہوداہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولتا تھا اور جب یسوع آ گیا تو اس کے بعد بھی وہ تبدیل نہیں ہوا؛ وہ یسوع کو پہچان ہی نہیں سکا اور آخر میں اس نے یسوع کے ساتھ بھی دھوکا کیا۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ خدا کو نہیں جانتا تھا؟ اگر آج تم لوگ اب بھی خدا کو نہیں جانتے تو پھر یہ ممکن ہے تم بھی یہوداہ بن جاؤ اور پھر اس کے بعد دو ہزار سال قبل فضل کے دور میں یسوع کے مصلوب ہونے کا سانحہ پھر دہرایا جائے گا۔ کیا تم اس پر یقین نہیں رکھتے؟ یہ ایک حقیقت ہے! اس وقت لوگوں کی اکثریت اسی حالت میں ہے — ہوسکتا ہے میں نے یہ بات کہنے میں تھوڑی سی جلدی کر دی ہواور ایسے سب لوگ یہودا ہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں کوئی لغو بات نہیں کر رہا، بلکہ یہ حقائق پر مبنی الفاظ ہیں جس کا تجھے قائل ہونا ہی پڑے گا۔ اگرچہ بہت سے لوگ عاجزی کا بہت دکھاوا کرتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں گندے پانی کے جوہڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، بدبودار پانی کا ایک گڑھا۔ اس وقت بھی کلیسیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ میں اس سے بالکل بے خبر ہوں۔ آج، میری روح میرے لیے فیصلے کرتی ہے اور میری گواہی دیتی ہے۔ کیا تُو سمجھتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ میں تمھارے دلوں میں موجود گمراہ کن خیالات نہیں سمجھتا، وہ چیزیں جو تم اپنے دلوں میں رکھتے ہو؟ کیا خدا پر بازی لے جانا اتنا آسان ہے؟ کیا تُو سمجھتا ہے کہ خدا سے جیسا چاہے سلوک کرسکتا ہے؟ ماضی میں مجھے فکر تھی کہ کہیں تم لاچار نہ ہوجاؤ، اس لیے میں تم لوگوں کو ڈھیل دیتا رہا لیکن انسان یہ بتانے میں ناکام رہے کہ میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کر رہا تھا اور جب میں نے ایک انچ جگہ دی تو انھوں نے ایک گز پر قبضہ کر لیا۔ آپس میں سوال کرو: میں لگ بھگ کسی سے نہیں نمٹا اور نہ ہی تقریباً کبھی کسی کو سرزنش کی ہے — میں انسان کے عزائم اور تصورات کے بارے میں بہت واضح ہوں۔ کیا تُو سمجھتا ہے کہ خود خدا، جس کی خدا گواہی دے رہا ہے، کوئی بے سمجھ ہے؟ ایسی صورت میں، میں کہتا ہوں تُو شدید اندھا ہو چکا ہے! میں تجھے بے نقاب نہیں کروں گا لیکن چلو ہم دیکھتے ہیں کہ تُو کتنا بدعنوان ہو سکتا ہے۔ چلو ہم دیکھتے ہیں کہ کیا تیری یہ حقیر مکارانہ چالیں تجھے بچا سکتی ہیں یا خدا کی محبت تجھے بچا سکتی ہے۔ آج میں تجھے ملامت نہیں کروں گا، چلو ہم اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب خدا خود تجھ سے بدلہ لیتا ہے۔ میرے پاس تجھ سے فضول باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے اور میں صرف تیری وجہ سے اپنا عظیم کام نہیں روک سکتا۔ تیرے جیسا کیڑا اس قابل نہیں کہ خدا تجھ سے نمٹنے کے لیے وقت نکالے، لہٰذا آؤ ہم دیکھتے ہیں تُو کتنا بد چلن ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے لوگ خدا کا علم حاصل کرنے کی بالکل جستجو نہیں کرتے، نہ ہی وہ اس سے ذرا سی بھی محبت کرتے ہیں اور اس کے باوجود چاہتے ہیں کہ خدا انہیں راست باز کہہ کر پکارے—کیا یہ ایک لطیفہ نہیں؟ کیونکہ بہتکم لوگ اب بھی حقیقتاً ایماندار ہیں، اس لیے میں بدستور انسانوں کو زندگی فراہم کرنے پر توجہ مرکوز رکھوں گا۔ آج میں صرف وہی کروں گا جو میں کر رہا ہوں لیکن مستقبل میں ہر شخص کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق سلوک کروں گا۔ میں نے جو کہنا تھا وہ میں کہہ چکا ہوں، دراصل یہی وہ کام ہے جو میں کر رہا ہوں۔ میں صرف وہی کام کرتا ہوں جو مجھے کرنا چاہیے، میں وہ نہیں کرتا جو مجھے نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ تم غوروفکر پر زیادہ وقت صرف کرو گے: خدا کے بارے میں تیرا کتنا علم سچ ہے؟ کیا تُو کوئی ایسا شخص ہے جو خدا کو ایک بار پھر صلیب پر میخوں سے جڑ چکا ہے؟ میرے آخری الفاظ یہ ہیں: ان لوگوں پر افتاد پڑے جو خدا کو مصلوب کرتے ہیں۔