فطری حالت میں داخلے کا طریقہ
لوگ خدا کا کلام جتنا زیادہ قبول کرتے ہیں، ان کے دل اتنے ہی روشن ہو جاتے ہیں اور خدا کو جاننے سے متعلق ان کی جستجو کی بھوک اور پیاس اتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ صرف خدا کا کلام قبول کرنے والے لوگ ہی زیادہ بھرپور اور گہرے تجربات کے قابل ہوتے ہیں، اور صرف یہی لوگ ہیں جن کی زندگی تلوں کے پھول کی طرح بہتری کا سفر جاری رکھ سکتی ہے۔ زندگی کی جستجو رکھنے والے سبھی لوگوں کو اسے اپنا کل وقتی کام سمجھنا چاہیے؛ انہیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ "خدا کے بغیر میں جی نہیں سکتا؛ خدا کے بغیر مجھے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا؛ اور خدا کے بغیر سب بے معنی ہے۔" اسی طرح ان کا یہ عزم بھی ہونا چاہیے کہ "روحِ مقدس کی موجودگی کے بغیر میں کچھ نہیں کروں گا، اور اگر خدا کا کلام پڑھنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو میں کچھ بھی کرنے سے لاتعلق ہوں۔" خود کو مرعوب نہ کریں۔ زندگی کے تجربات خدا کی آگہی اور رہنمائی سے حاصل ہوتے ہیں، اور وہ تمہاری حقیقی کوششوں کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ تمہیں خود سے یہ تقاضا کرنا چاہیے کہ: "جہاں تک زندگی کے تجربات کا تعلق ہے، میں اپنے آپ کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتا۔"
خلاف معمول حالات میں کبھی کبھار تم خدا کی موجودگی سے محروم ہو جاتے ہو، اور عبادت میں بھی اسے محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہو۔ ان حالات میں خوف محسوس کرنا عام بات ہے۔ تمہیں فوراً جستجو شروع کر دینی چاہیے۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو خدا تم سے جدا ہو جائے گا، اور تم روحِ مقدس کی موجودگی سے محروم ہو جاؤ گے—مزید یہ کہ، روحِ مقدس کی رہنمائی—ایک یا دو دن، یہاں تک کہ ایک، دو مہینے کے لیے دستیاب نہ ہو گی۔ ان حالات میں، تم ناقابل یقین حد تک بے حس ہو جاتے ہو اور شیطان اس حد تک تم پر دوبارہ غالب آ جاتا ہے کہ تم ہر قسم کا کام کرنے پر مائل ہو جاتے ہو۔ تم دولت کی حرص کرتے ہو، اپنے بہن بھائیوں کو دھوکہ دیتے ہو، فلمیں اور ویڈیوز دیکھتے ہو، ماہجونگ کھیلتے ہو، اور حتیٰ کہ بغیر کسی ضبط کے تمباکو نوشی اور شراب نوشی کرتے ہو۔ تمہارا دل خدا سے دور ہو چکا ہوتا ہے، تم انجانے طور پر اپنے راستے پر چلنا شروع کر دیتے ہو اور محض اپنے اندازوں سے خدا کے کاموں پر اپنا فیصلہ صادر کرتے ہو۔ بعض معاملات میں، لوگ گناہوں میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں جنسی نوعیت کے گناہوں میں ملوث ہونے پر بھی کوئی شرمندگی یا خجالت محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے انسان کو روحِ مقدس چھوڑ دیتی ہے؛ دراصل روحِ مقدس عرصہ دراز سے ایسے فرد کی رہنمائی کرنا چھوڑ چکی ہوتی ہے۔ جب برائی کے ہاتھ ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں تو وہ لوگ اپنے آپ کو برائیوں میں صرف مزید ڈوبتا دیکھ سکتے ہیں۔ آخر میں، وہ اس راستے کی موجودگی سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور جب گناہ کرتے ہیں تو شیطان کے اسیر بن جاتے ہیں۔ اگر تمہیں علم ہو جاتا ہے کہ تمہیں روحِ مقدس کی موجودگی حاصل ہے لیکن اس کے باوجود تمہارے پاس روح القدس کی رہنمائی کی کمی ہے، تو یہ پہلے سے ہی ایک خطرناک صورت حال ہے۔ جب تم روحِ مقدس کی موجودگی کے احساس سے ہی محروم ہو جاتے ہو، تب تک تم موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہوتے ہو۔ اگر تم توبہ نہیں کرتے تو تم مکمل طور پر شیطان کی طرف پلٹ چکے ہو اور تم ان لوگوں میں شامل ہو گے جنہیں فنا کر دیا جائے گا۔ اس لیے، جب تمہیں پتہ چلتا ہے کہ تم ایسی حالت سے دوچار ہو جس میں صرف روحِ مقدس کی موجودگی ہے (تم گناہ نہیں کرتے، اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہو، اور خدا کے خلاف کھلی مزاحمت نہیں کرتے)، لیکن تم روح مقدس کے کام سے محروم ہوتے ہو (عبادت کرتے وقت تمہارے جذبات نہیں مچلتے، خدا کے کلام کو پڑھتے اور اس پر غور کرتے وقت تمہیں کوئی واضح آگہی یا واضح رہنمائی نہہں ملتی، خدا کے کلام کو پڑھتے اور اس پر غور کرتے (کھاتے اور پیتے) وقت اس سے لاتعلق رہتے ہو، تمہاری زندگی میں کوئی بہتری نہیں آتی اور عرصہ دراز سے اس عظیم رہنمائی سے محروم رہتے ہو)—تو ایسی صورتحال میں تمہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ تمہیں خود کو مغلوب نہیں کرنا چاہیے، نہ اپنے کردار کو مزید کسی قسم کی گنجائش دینی چاہیے۔ تم روحِ مقدس کی موجودگی سے کسی بھی وقت محروم ہو سکتے ہو۔ اسی لیے ایسی صورتحال نہایت خطرناک ہوتی ہے۔ اگر تم اپنے آپ کو ایسی صورتحال سے دوچار پاتے ہو تو معاملات میں حتی الامکان جلد از جلد بدلاؤ لانے کی کوشش کرو۔ سب سے پہلے تمہیں توبہ کی دعا کرنی چاہیے، اور خدا سے التجا کرنی چاہیے کہ وہ تم پر دوبارہ رحم فرمائے۔ زیادہ خلوص سے دعا کرو اور خدا کے کلام کو زیادہ لگن سے پڑھنے اور سمجھنے پر دل کو آمادہ کرو۔ اس بنیاد کے ساتھ، تمہیں دعا میں زیادہ وقت گزارنا چاہیے؛ مناجات پڑھنے، عبادت، خدا کے کلام کو سمجھنے اور اس پر غوروفکر اور اپنے فرائض انجام دینے کی کوششوں کو دگنا کر دو۔ جب تم نہایت کمزور ہوتے ہو، تو شیطان تمہارے دل پر زیادہ آسانی سے قابو پا لیتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو تمہارا دل خدا سے پلٹ کر شیطان کے قبضے میں چلا جاتا ہے، اور اس صورتحال میں تم روحِ مقدس کی موجودگی کے بغیر ہوتے ہو۔ ان حالات میں، روحِ مقدس کا کام دوبارہ حاصل کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بہتر ہے کہ روحِ مقدس کے کام کی جستجو تب کرو جب اس کا ساتھ بھی دستیاب ہو، جس سے خدا کو تمہارا دل مزید منور کرنے کا موقع ملے گا اور وہ تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ دعا کرنا، مناجات پڑھنا، اپنے فرائض انجام دینا، اور خدا کے کلام کو سمجھنا اور اس پر غوروفکر کرنا—یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ شیطان کو اپنی چالیں چلنے کا موقع نہ ملے، اور اس لیے کہ روحِ مقدس تمہارے اندر کام کر سکے۔ اگر تم اس طرح روحِ مقدس کا کام دوبارہ حاصل نہیں کر پاتے اور صرف انتظار کرتے رہتے ہو، تو روحِ مقدس کی رہنمائی دوبارہ حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا، جب تم روحِ مقدس کی موجودگی کھو چکے ہو، ماسوائے اس کے کہ روحِ مقدس خاص طور پر تمہیں حقیقی معنوں میں متاثر کرے، یا خاص طور پر تمہارے دل و دماغ کو منوروجاوداں کرے۔ اس کے باوجود، تمہاری حالت ٹھیک ہونے میں صرف ایک یا دو دن نہیں لگتے؛ بلکہ چھ ماہ تک کا عرصہ بھی بغیر بہتری کے گزر سکتا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ لوگ بہت تن آسان ہیں، عام طریقے سے چیزوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اس طرح روحِ مقدس انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر تم روحِ مقدس کا کام دوبارہ حاصل کر بھی لیتے ہو، تب بھی ہو سکتا ہے کہ خدا کا موجودہ کام آپ کو ٹھیک سے سمجھ نہ آئے، کیونکہ تم اپنی زندگی کے تجربے میں بہت پیچھے رہ گئے ہو، گویا تم اپنے راستے پر منزل سے دسیوں ہزار میل پیچھے رہ گئے ہو۔ کیا یہ وحشت ناک چیز نہیں ہے؟ میں ایسے لوگوں کو بتاتا ہوں کہ ابھی توبہ کرنے میں دیر نہیں ہوئی، لیکن اس کی ایک شرط ہے: تمہیں سخت مشقت کرنی ہو گی اور سستی سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہو گا۔ اگر دیگر لوگ دن میں پانچ وقت دعا کرتے ہیں تو تمہیں دس مرتبہ دعا کرنی چاہیے؛ اگر لوگ خدا کے کلام پر دو گھنٹے غوروفکر کرتے ہیں تو تمہیں چار سے چھ گھنٹے تک ایسا کرنا چاہیے؛ اور اگر لوگ دو گھنٹے تک خداوند کی مناجات سنتے ہیں تو تمہیں کم از کم آدھا دن ضرور سننی چاہیے۔ خدا کے سامنے کثرت سے پرسکون رہو اور اس کی محبت کے بارے میں سوچو، جب تک تم ٹھیک سے متاثر نہ ہو اور تمہارا دل خدا کی طرف نہ پلٹ جائے، اور تمہاری خدا سے دور بھٹکنے کی ہمت ختم ہو جائے—صرف تب ہی تمہاری محنت کارگر ہو گی؛ تب ہی تم اپنی گزشتہ فطری حالت کو بحال کر سکو گے۔
بعض لوگ اپنی جستجو میں بہت زیادہ جوش وجذبے سے کام لیتے ہیں اور پھر بھی درست راستے پر واپس آنے میں ناکام رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت لاپروا ہوتے ہیں اور روحانی باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ خدا کے کلام کا تجربہ کیسے حاصل کریں، اور یہ نہیں جانتے کہ روحِ مقدس کا کام اور موجودگی کا مطلب کیا ہے۔ ایسے لوگ پرجوش لیکن احمق ہوتے ہیں؛ وہ زندگی کی جستجو نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم روح کے بارے میں معمولی سا علم بھی نہیں رکھتے، تم روح مقدس کے جاری کام میں پیش رفت کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، اور تم اپنی روح کے اندر کی حالت سے کلی طور پر ناواقف ہو۔ کیا ایسے لوگوں کا عقیدہ احمقانہ عقیدہ نہیں ہے؟ ایسے لوگوں کی جستجو کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ خدا پر اپنے اعتقاد کے حوالے سے کسی شخص کی زندگی میں آگے بڑھنے کی کلید اپنے تجربے پر خدا کے کام کو جاننا، خدا کی محبت کا مشاہدہ اور خدا کی مرضی کو سمجھنا ہے، اور یہ سب اس طرح کرنا کہ آپ خدا کے تمام انتظامات کو ٹال دیں، خدا کے کلام کو اپنے اندر اس طرح نقش کر لینا کہ وہ آپ کی زندگی کا حصہ بن جائیں، اور اس طرح خدا کو راضی کرلیں۔ اگر تمہارا عقیدہ احمقانہ ہے، اگر تم روحانی معاملات اور اپنی زندگی کی فطرت میں تبدیلیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے، اگر تم سچائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے، تو کیا تم خدا کی مرضی کو سمجھنے کے قابل ہو گے؟ اگر تم وہ نہیں سمجھ سکتے جو خدا کا مطالبہ ہے، تو تم تجربہ کرنے سے قاصر ہو گے اور اس طرح تمہارے پاس عمل کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ خدا کے کلام کا تجربہ کرتے وقت تمہیں خدا کے کلام کے اس اثر پر توجہ دینی چاہیے جو وہ تمہارے اندر پیدا کرتا ہے، تا کہ تم خدا کو اس کے کلام کے مطابق جان سکو۔ اگر تم خدا کا کلام صرف پڑھتے ہو لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کا تجربہ کیسے حاصل کرنا ہے، تو کیا اس سے تمہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ تم روحانی معاملات سے بے بہرہ ہو۔ فی الحال، زیادہ تر لوگ خدا کے کلام کا تجربہ کرنے سے قاصر ہیں، اور اسی وجہ سے انہیں خدا کے کاموں کا علم نہیں ہے۔ تو کیا یہ ان کے عمل میں ناکامی نہیں ہے؟ اگر وہ اس طرح جاری رکھتے ہیں، تو وہ کس مقام پر چیزوں کا اپنے بھرپور جوبن پر تجربہ کرنے اور اپنی زندگیوں میں بہتری حاصل کرنے کے قابل ہوں گے؟ کیا یہ محض کھوکھلی باتیں کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ تمہارے بیچ ایسے کئی لوگ ہیں جو نظریے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، جنہیں روحانی معاملات کا کچھ علم نہیں، اور پھر بھی چاہتے ہیں کہ خدا انہیں بڑے مقاصد کے لیے استعمال کرے اور ان پر خدا کی رحمت نازل ہو۔ یہ بالکل غیر حقیقی ہے! اس طرح، تمہیں اس ناکامی کو ختم کرنا چاہیے، تا کہ تم سب اپنی روحانی زندگیوں میں صحیح راستے پر چل سکو، حقیقی تجربات حاصل کر سکو، اور حقیقی معنوں میں خدا کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکو۔