خدا کے کام کی بصیرت (3)

پہلی بار جب خُدا جسم بنا تو وہ روح القدس کے ذریعے حمل ٹہرانے کی وجہ سے تھا، اور یہ اُس کام سے متعلق تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ فضل کے دور کا آغاز یسوع کے نام سے ہوا۔ جب یسوع نے اپنی خدمت انجام دینا شروع کر دی تو روح القدس نے یسوع کے نام کی گواہی دینا شروع کی، اور یہوواہ کا نام اب مزید نہیں بولا جاتا تھا؛ اس کی بجائے، روح القدس نے بنیادی طور پر یسوع کے نام کے تحت نیا کام شروع کیا۔ جو لوگ خدا پر ایمان لائے تھے ان کی گواہی یسوع مسیح کے لیے تھی، اور جو کام اُنہوں نے کیا تھا، وہ بھی یسوع مسیح کے لیے تھا۔ عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور کے اختتام کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی طور پر یہوواہ کے نام کے تحت کام ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد سے، خدا کا نام یہوواہ نہیں رہا تھا؛ بلکہ وہ یسوع کہلاتا تھا، اور یہیں سے روح القدس نے بنیادی طور پر یسوع کے نام سے کام کرنا شروع کیا۔ تو، وہ لوگ جو آج بھی یہوواہ کے الفاظ کو کھاتے اور پیتے ہیں، اور ابھی تک ہر کام قانون کے دور کے مطابق ہی کرتے ہیں – کیا تو آنکھیں بند کر کے ان اصولوں کی پیروی نہیں کر رہا ہے؟ کیا تو ماضی میں نہیں پھنس چکا ہے؟ تم اب جانتے ہو کہ آخری ایام آچکے ہیں۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جب یسوع آئے گا تو تب بھی وہ یسوع ہی کہلائے گا؟ یہوواہ نے اسرائیل کے لوگوں کو بتایا تھا کہ ایک مسیح آنے والا ہے، اور پھر بھی جب وہ آیا تو اسے مسیح نہیں بلکہ یسوع کہا گیا۔ یسوع نے کہا کہ وہ دوبارہ آئے گا، اور وہ اسی طریقے سے ہی واپس آئے گا جیسے کہ وہ چلا گیا تھا۔ یہ یسوع کے الفاظ تھے، لیکن کیا تو نے یسوع کے جانے کا طریقہ دیکھا؟ یسوع سفید بادل پر سوار ہو کر چلا گیا تھا، لیکن کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اب ذاتی طور پر سفید بادل پر انسانوں کے درمیان واپس آئے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا اسے اب بھی یسوع ہی نہیں کہا جائے گا؟ جب یسوع دوبارہ آئے گا، تو دَور پہلے ہی بدل چکا ہو گا، تو کیا وہ اب بھی یسوع کہلا سکتا ہے؟ کیا ایسا ہے کہ خدا کو صرف یسوع کے نام سے ہی جانا جا سکتا ہے؟ کیا اسے نئے دور میں نئے نام سے نہیں پکارا جا سکتا؟ کیا ایک شخص کی شبیہ اور ایک خاص نام خدا کی مکمل نمائندگی کر سکتا ہے؟ خدا ہر دور میں نیا کام انجام دیتا ہے اور اسے نئے نام سے پکارا جاتا ہے وہ مختلف ادوار میں ایک ہی کام کیسے کر سکتا ہے؟ وہ ماضی میں کیسے اٹکا رہ سکتا ہے؟ "یسوع" کا نام لوگوں کی خلاصی کروانے کے کام کی خاطر لیا گیا تھا۔ کیا آخری ایام میں واپس آنے پر بھی اُسے اسی نام سے پکارا جا سکتا ہے؟ کیا وہ تب بھی لوگوں کی خلاصی کروانے کا کام سرانجام دے رہا ہوگا؟ ایسا کیوں ہے کہ یہوواہ اور یسوع ایک ہیں، جب کہ مختلف ادوار میں انہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے کام کے ادوار مختلف ہیں؟ کیا صرف ایک نام خدا کی مکمل طور پر نمائندگی کر سکتا ہے؟ اسی وجہ سے، خدا کومختلف ادوار میں لازماً مختلف ناموں سے پکارا جانا چاہیے، اسے دَور بدلنے اور دَور کی ترجمانی کے لیے لازماً نام کا استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی نام خود خدا کی نمائندگی مکمل طور پر نہیں کرسکتا ہے، اور ہر نام کسی مخصوص دور میں خدا کے مزاج کے عارضی پہلو کی نمائندگی کی اہلیت رکھتا ہے؛ اسے صرف اس کے کام کی نمائندگی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، خدا کسی بھی ایسے نام کا انتخاب کر سکتا ہے جو اُس مزاج کے مطابق پورے دور کی نمائندگی کرنے کے لیے مناسب ہو۔ اس سے قطع نظر کہ یہ یہوواہ کا دَور ہو، یا یسوع کا دَور، ہر دور کو ایک نام سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ فضل کے دور کے اختتام پر، آخری دور آ گیا ہے، اور یسوع پہلے ہی آ چکا ہے۔ وہ اب بھی یسوع کیسے کہلا سکتا ہے؟ وہ اب بھی انسانوں کے درمیان یسوع کی شکل کیسے اختیار کر سکتا ہے؟ کیا تو بھول گیا ہے کہ یسوع ناصری کی شبیہ سے زیادہ نہیں تھا؟ کیا تو بھول گیا ہے کہ یسوع بنی نوع انسان کا صرف نجات دہندہ تھا؟ وہ آخری ایام میں انسان کو فتح کرنے اور کامل کرنے کا کام کیسے کر سکتا ہے؟ یسوع ایک سفید بادل پر سوار ہو کر چلا گیا تھا۔ یہ حقیقت ہے۔ لیکن وہ اب کیسے لوگوں کے درمیان سفید بادل پر واپس آ سکتا ہے اور پھر بھی یسوع ہی کہلا سکتا ہے؟ اگر وہ واقعی بادل پر واپس آ گیا تو انسان اسے پہچاننے میں کیسے ناکام رہے گا؟ کیا ساری دنیا کے لوگ اسے نہیں پہچان لیں گے؟ اس صورت میں، کیا صرف یسوع ہی خدا نہیں ہوگا؟ اس صورت میں، خدا کی شبیہ ایک یہودی کی صورت ہوگی اور اس کے علاوہ ہمیشہ کے لیے ایک جیسی ہی ہو گی۔ یسوع نے کہا کہ وہ اسی طرح واپس آئے گا جیسے وہ گیا تھا، لیکن کیا تجھے اس کے الفاظ کا صحیح مطلب معلوم ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے تمہارے اس گروہ کو بتایا ہو؟ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ وہ بادل پر سوار ہو کر ویسے ہی واپس آئے گا جیسے کہ وہ گیا تھا، لیکن کیا تو صحیح طریقے سے جانتا ہے کہ خدا خود اپنا کام کیسے کرتا ہے؟ اگر تو واقعی سمجھنے کے قابل ہے تو پھر یسوع کے کہے گئے الفاظ کی وضاحت کیسے کی جائے گی؟ اس نے کہا تھا: ابنِ آدم آخری ایام میں آئے گا تو اسے خود بھی علم نہیں ہو گا، فرشتوں کو علم نہیں ہو گا، آسمان میں رسولوں کو علم نہیں ہو گا، اور ساری انسانیت کو علم نہیں ہو گا۔ صرف باپ کو ہی علم ہو گا، یعنی صرف روح ہی کو علم ہو گا۔ ابنِ آدم کو خود بھی علم نہیں ہے، اس کے باوجود بھی تو یہ سمجھنے اور جاننے کے قابل ہے؟ اگر تو اپنی آنکھوں سے جاننے اور دیکھنے پر قادر ہوتا تو کیا ان الفاظ کا بولا جانا بے فائدہ نہ ہوتا؟ اور یسوع نے اس وقت کیا کہا تھا؟ "لیکن اُس دِن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرِشتے نہ بیٹا مگر صِرف باپ۔ جَیسا نُوح کے دِنوں میں ہُؤا وَیسا ہی اِبنِ آدمؔ کے آنے کے وقت ہو گا۔ ۔۔۔ اِس لِئے تُم بھی تیّار رہو کیونکہ جِس گھڑی تُم کو گُمان بھی نہ ہو گا اِبنِ آدمؔ آ جائے گا۔" جب وہ دن آئے گا تو ابنِ آدم خود بھی نہیں جان سکے گا۔ ابنِ آدم سے مراد مجسم خُدا کا جسم ہے، ایک عام اور معمولی انسان۔ خود ابنِ آدم بھی نہیں جانتا، تو تُو کیسے جان سکتا ہے؟ یسوع نے کہا تھا کہ وہ ویسے ہی آئے گا جیسے کہ وہ چلا گیا تھا۔ اور یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس نے کب آنا ہے، تو کیا وہ تجھے پہلے سے اطلاع دے سکتا ہے؟ کیا تو اس کی آمد کو دیکھنے کے قابل ہے؟ کیا یہ ایک مذاق نہیں ہے؟ ہر بار جب خدا زمین پر آتا ہے، وہ اپنا نام، اپنی جنس، اپنی شبیہ، اور اپنا کام بدلتا ہے؛ وہ اپنے کام کو دہراتا نہیں ہے۔ وہ ایک خدا ہے جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ جب وہ پہلے آیا تو اسے یسوع کہا گیا تھا؛ جب وہ دوبارہ آئے گا توکیا وہ اب بھی یسوع ہی کہلا سکتا ہے؟ جب وہ پہلے آیا تو وہ مرد تھا؛ کیا وہ دوبارہ اس مرتبہ بھی مرد ہی ہو سکتا ہے؟ جب وہ فضل کے دور میں آیا تو اس کا کام صلیب پر میخوں سے جڑنا تھا۔ جب وہ دوبارہ آئے گا، تو کیا وہ اب بھی بنی نوع انسان کی گناہ سے خلاصی کروا سکتا ہے؟ کیا اسے دوبارہ صلیب پر میخوں سے جڑا جا سکتا ہے؟ کیا یہ اس کے کام کو دہرانا نہیں ہوگا؟ کیا تو نہیں جانتا تھا کہ خدا ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا تبدیل نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ درست ہے، لیکن اس سے مراد خدا کے مزاج اور اس کے جوہر کی تبدیلی ہے۔ اس کے نام اور کام میں تبدیلیاں اس بات کو ثابت نہیں کرتی ہیں کہ اس کے جوہر میں تبدیلی آئی ہے؛ دوسرے الفاظ میں، خدا ہمیشہ خدا رہے گا، اور یہ کبھی نہیں بدلے گا۔ اگر تو کہتا ہے کہ خدا کا کام تبدیل نہیں ہو سکتا ہے، تو پھر کیا وہ اپنے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کو مکمل کرنے کے قابل ہو سکے گا؟ تو صرف یہ جانتا ہے کہ خدا ہمیشہ کے لیے ناقابلِ تغیر ہے، لیکن کیا تو جانتا ہے کہ خدا ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ اگر خدا کا کام ناقابلِ تغیر ہوتا، تو کیا وہ بنی نوع انسان کی آج کے دور تک راہنمائی سکتا تھا؟ اگر خدا ناقابلِ تغیر ہے تو ایسا کیوں ہے کہ اس نے پہلے سے ہی دو ادوار کا کام کر رکھا ہے؟ اس کا کام کبھی بھی آگے بڑھنے سے نہیں رکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مزاج آہستہ آہستہ انسان پر ظاہر ہوتا ہے، اور جو ظاہر ہوتا ہے وہ اس کا فطری مزاج ہوتا ہے۔ ابتدا میں، خدا کا مزاج انسان سے پوشیدہ تھا، اس نے کبھی بھی کھل کر انسان پر اپنا مزاج ظاہر نہیں کیا تھا، اور انسان کو بلا شبہ اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسی وجہ سے، وہ اپنے کام کو استعمال کرتے ہوئے آہستہ آہستہ انسان پر اپنا مزاج ظاہر کرتا ہے، لیکن اس طرح کام کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر دور میں خدا کا مزاج بدلتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس کی مرضی ہمیشہ بدلتی رہتی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ خدا کا مزاج مسلسل بدلتا رہتا ہے۔ بلکہ ایسا ہے کہ چونکہ اس کے کام کے ادوار مختلف ہیں، اس لیے خدا اپنے فطری مزاج کو مکمل طور پر لے لیتا ہے اور اسے مرحلہ وار انسان پر ظاہر کرتا ہے، تاکہ انسان اسے جاننے کے قابل ہو سکے۔ لیکن یہ کسی بھی طرح سے اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا کا اصل میں کوئی خاص مزاج نہیں ہے یا یہ کہ اس کا مزاج ادوار کے گزرنے کے ساتھ دھیرے دھیرے بدل گیا ہے – ایسے سمجھنا غلط ہوگا۔ خُدا انسان پر اپنے فطری اور مخصوص مزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ جو وہ خود ہے۔ ادوار کے گزرنے کے مطابق؛ ایک دور کا کام خدا کے پورے مزاج کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اور اس طرح، یہ الفاظ کہ "خدا ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا" اس کے کام کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور یہ الفاظ کہ "خدا ناقابل تغیر ہے" اس بات کا حوالہ دیتے ہیں جو خدا فطری طور پر رکھتا ہے اور جو وہ خود ہے۔ اس بات سے قطع نظر، تو چھ ہزار سال کے کام کا تعلق کسی ایک نکتے سے نہیں جوڑ سکتا اور نہ ہی مردہ الفاظ سے اس کو محدود کر سکتا ہے۔ یہ انسان کی حماقت ہے۔ خدا اتنا سادہ نہیں ہے جتنا انسان تصور کرتا ہے، اور اس کا کام کسی ایک دور میں ٹہرا نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر، خدا کا نام ہمیشہ یہوواہ نہیں ہو سکتا؛ خُدا اپنا کام یسوع کے نام سے بھی کر سکتا ہے؛ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ خدا کا کام ہمیشہ آگے کی سمت بڑھ رہا ہے۔

خدا ہمیشہ خدا ہے، اور وہ کبھی شیطان نہیں بنے گا؛ شیطان ہمیشہ شیطان ہے، اور یہ کبھی خدا نہیں بنے گا۔ خدا کی حکمت، خدا کی حیرت انگیزی، خدا کی راستبازی، اور خدا کی عظمت کبھی نہیں بدلے گی۔ اس کا جوہر اور جو وہ رکھتا ہے اور جو وہ خود ہے، کبھی نہیں بدلے گا۔ جہاں تک اس کے کام کا تعلق ہے، چونکہ وہ ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ہمیشہ گہرائی میں جاتے ہوئے آگے کی سمت ترقی کرتا ہے، ہر دور میں خدا ایک نیا نام رکھتا ہے، ہر دور میں وہ نیا کام کرتا ہے، اور ہر دور میں وہ اپنی مخلوق کو اپنی نئی مرضی اور نئے مزاج کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر، نئے دور میں، لوگ خُدا کے نئے مزاج کے اظہار کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں، تو کیا وہ اُسے ہمیشہ کے لیے صلیب پر میخوں سے نہیں جڑیں گے؟ اور ایسا کرنے سے کیا وہ خدا کی تشریح نہیں کریں گے؟ اگر خدا صرف بطور ایک مرد جسمانی روپ میں آیا ہوتا، تو لوگ بطور ایک مرد اس کی تشریح مَردوں کے خدا کے طور پر کرتے، اور کبھی یہ ایمان نہ رکھتے کہ وہ عورتوں کا بھی خدا ہے۔ تب مرد یہ سمجھتے کہ چونکہ خدا مردوں کا سردار ہے اس لیے خدا مردوں ہی کی صنف سے ہے، مگر پھر عورتوں کا کیا ہوگا؟ یہ ناانصافی ہے، کیا یہ ترجیحی سلوک نہیں ہے؟ اگر یہ معاملہ ہوتا، تو خدا جنہیں نجات دلاتا، وہ سب اس کی طرح مرد ہوتے، اور ایک بھی عورت نہ بچائی جاتی۔ جب خدا نے بنی نوع انسان کی تخلیق کی، تو اس نے آدم کی تخلیق کی اور اس نے حوا کو تخلیق کیا۔ اس نے صرف آدم کی تخلیق نہیں کی، بلکہ اپنی شبیہ میں نر اور مادہ دونوں کو تخلیق کیا۔ خدا صرف مردوں کا خدا نہیں ہے، وہ عورتوں کا بھی خدا ہے۔ خدا آخری ایام میں کام کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ اپنے مزاج کو اور بھی زیادہ ظاہر کرے گا، اور یہ یسوع کے زمانے کی شفقت اور محبت نہیں ہوگی۔ چونکہ اس کے پاس نیا کام ہے، اس لیے یہ نیا کام ایک نئے مزاج کے ساتھ ہوگا۔ لہٰذا، اگر یہ کام روح کے ذریعے کیا جاتا–اگر خُدا جسم نہیں بنتا، اور اس کی بجائے رُوح براہِ راست گرجتی ہوئی آواز کے ذریعے اس طرح بولتی کہ انسان کا اُس کے ساتھ رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رہتا، تو کیا انسان اُس کے مزاج کو جان سکتا؟ اگر یہ کام صرف روح نے ہی کیا ہوتا، تو انسان کے پاس خدا کے مزاج کو جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ لوگ صرف اس وقت اپنی آنکھوں سے خدا کے مزاج کو دیکھ سکتے ہیں جب جسم بن جاتا ہے، جب کلام جسم میں ظاہر ہوتا ہے، اور وہ جسم کے ذریعے اپنے پورے مزاج کا اظہار کرتا ہے۔ خدا واقعی اور صحیح معنوں میں انسانوں کے درمیان رہتا ہے۔ وہ چھونے سے محسوس کیا جاتا ہے؛ انسان درحقیقت اس کے مزاج کے ساتھ تعلق رکھ سکتا ہے، جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے اس کے ساتھ تعلق رکھ سکتا ہے؛ صرف اسی طریقے سے انسان اسے صحیح معنوں میں جان سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں، خدا نے اس کام کو بھی مکمل کیا ہے جس میں "خدا مردوں کا خدا اور عورتوں کا خدا ہے،" اور جسم کی حالت میں اپنے تمام کام کو پورا کیا ہے۔ وہ کسی بھی دور میں کام کو دہراتا نہیں ہے۔ چونکہ آخری ایام آچکے ہیں، اس لیے وہ وہی کام کرے گا جو وہ آخری ایام میں کرتا ہے اور وہ آخری ایام میں اپنے پورے مزاج کو ظاہر کرے گا۔ آخری ایام کے بارے میں بات کرتے ہوئے، یہ ایک الگ دور کا حوالہ دیتا ہے، جس میں یسوع نے کہا تھا کہ تم یقیناً آفت کا سامنا کرو گے، اور زلزلوں، قحط اور طاعون کا سامنا کرو گے، جن سے ظاہر ہو گا کہ یہ ایک نیا دور ہے، اور یہ فضل کا دور نہیں رہا۔ فرض کرو کہ جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا ہمیشہ کے لیے ناقابلِ تغیر ہے، اس کا مزاج ہمیشہ ہمدردی اور محبت کرنے والا ہے، کہ وہ انسان سے اس طرح محبت کرتا ہے جیسے وہ اپنے آپ سے کرتا ہے، اور وہ ہر انسان کو نجات کی دعوت دیتا ہے اور انسان سے کبھی نفرت نہیں کرتا، تو کیا اس کا کام کبھی ختم ہو سکتا ہے؟ جب یسوع آیا اور تمام گناہ گاروں کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے اور قربان گاہ پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے صلیب پر میخوں سے جڑا گیا، تو وہ پہلے ہی خلاصی کا کام مکمل کر چکا تھا اور فضل کے دور کو ختم کر چکا تھا۔ تو اس دور کے کام کو آخری ایام کے دور میں دہرانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ کیا ایسا کرنا یسوع کے کام کا انکار نہیں ہوگا؟ اگر خدا نے اس مرحلے میں آتے وقت مصلوب ہونے کا کام نہیں کیا، اور محبت اور شفقت سے کام لیا، تو کیا وہ اس دور کو ختم کرنے کے قابل ہو گا؟ دور کے اختتام کے اس کے آخری کام میں، خُدا کا مزاج ایک سزا اور فیصلے کا مزاج ہے، جس میں وہ سب برائیوں کو ظاہر کرے گا تاکہ لوگوں کا سرِعام فیصلہ کرے، اور جو سچے دل سے اُس سے محبت کرتے ہیں ان سب کو کامل بنائے۔ صرف اس طرح کا مزاج ہی دور کو ختم کر سکتا ہے۔ آخری ایام آ چکے ہیں۔ تخلیق کی تمام چیزوں کو ان کی نوعیت کے مطابق الگ الگ کیا جائے گا، اور ان کی نوعیت کی بنیاد پر مختلف زمروں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب خدا انسانیت کے انجام اور ان کی منزل کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر لوگ سزا اور فیصلے سے نہیں گزریں گے تو ان کی نافرمانی اور برائی کو ظاہر کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ صرف سزا اور فیصلے کے ذریعے ہی تمام مخلوقات کا نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔ انسان اپنی اصل حقیقت تب دکھاتا ہے جب اسے سزا دی جائے اور انصاف کیا جائے۔ برائی کو برائی کے ساتھ، اچھائی کو اچھائی کے ساتھ ڈال دیا جائے گا، اور تمام انسانیت کو اس کی نوعیت کے مطابق الگ کر دیا جائے گا۔ سزا اور فیصلے کے ذریعے تمام مخلوقات کا انجام ظاہر ہو جائے گا، تاکہ برائی کی سزا اور اچھائی کی جزا مل سکے اور تمام لوگ خدا کی حاکمیت کے تابع ہو جائیں۔ یہ تمام کام لازمی طور پر جائز سزا اور فیصلے کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ انسان کی بدعنوانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اس کی نافرمانی انتہائی شدید ہو گئی ہے، صرف خُدا کا راستباز مزاج، جو بنیادی طور پر سزا اور فیصلے سے جڑا ہوا ہے اور آخری ایام میں ظاہر ہوتا ہے، انسان کو مکمل طور پر تبدیل اور مکمل کر سکتا ہے۔ صرف یہی مزاج بدی کو بے نقاب کر سکتا ہے اور اس طرح تمام غیر راستبازوں کو سخت سزا دے سکتا ہے۔ لہٰذا، اس طرح کے مزاج کا تعلق دَور کی اہمیت کے ساتھ ہوتا ہے، اور ہر نئے دور کے کام کے لیے اس کے مزاج کا ظہور ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا اپنے مزاج کو زبردستی اور بغیر کسی مقصد کے ظاہر کرتا ہے۔ فرض کرو کہ آخری ایام میں انسان کے انجام کو ظاہر کرنے میں، خدا نے ابھی بھی کسی منصفانہ فیصلے کے بغیر اگر انسان کو لامحدود شفقت اور محبت عطا کرنی تھی اور اس کے ساتھ محبت کرتے رہنا تھا، اور انسان کو منصفانہ فیصلے کے تابع نہیں کرنا تھا، بلکہ اس کے لیے برداشت، صبر اور معافی کا مظاہرہ کرنا تھا۔ اور انسان کو معاف کرنا تھا چاہے اس کے گناہ کتنے ہی سنگین ہوں: تو پھر اس صورت میں آخر خدا کا سارا انتظام کب ختم ہو گا؟ اس طرح کا مزاج لوگوں کو بنی نوع انسان کی مناسب منزل تک کب لے جا سکے گا؟ مثال کے طور پر، ایک منصف جو ہمیشہ پیار کرنے والا ہے، ایک مہربان چہرے اور نرم دل والا منصف۔ وہ لوگوں سے محبت کرتا ہے قطع نظر اس کے کہ انہوں نے جو بھی جرائم کیے ہوں، اور وہ ان کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ جو کوئی بھی ہوں انہیں معاف کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ کب کسی منصفانہ فیصلے تک پہنچ پائے گا؟ آخری ایام کے دوران، صرف راستباز فیصلہ ہی انسان کو اس کی نوعیت کے مطابق الگ کر سکتا ہے اور انسان کو ایک نئے دائرہ اثر میں لا سکتا ہے۔ اس طرح، خدا کے منصفانہ طور پر فیصلہ کرنے اور سزا دینے سے پورے دور کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔

خدا کے تمام نظم و نسق میں اس کا کام بالکل واضح ہے: فضل کا دور فضل کا دور ہے، اور آخری ایام آخری ایام ہیں۔ ہر دَور میں الگ الگ فرق ہوتے ہیں، کیونکہ ہر دور میں خدا وہ کام کرتا ہے جو اس دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ آخری ایام کے کام کو انجام دینے کے لیے جلانا، فیصلہ، سزا، غضب اور تباہی لازمی ہونی چاہیے تاکہ دَور کو ختم کیا جائے۔ آخری ایام کا مطلب آخری دور ہے۔ آخری دور کے دوران، کیا خدا اس دور کو ختم نہیں کرے گا؟ دور کو ختم کرنے کے لیے، خدا کو اپنے ساتھ سزا اور فیصلہ لازمی لانا چاہیے۔ صرف اسی طرح وہ دور کو ختم کر سکتا ہے۔ یسوع کا مقصد یہ تھا کہ انسان بدستور بچا رہے، زندہ رہے، اور وہ بہتر طریقے سے موجود رہ سکے۔ اس نے انسان کو گناہ سے بچایا تاکہ وہ اخلاقی بے راہ روی میں گرنے سے رک سکے اور پاتال اور جہنم میں مزید نہ رہے، اور انسان کو پاتال اور جہنم سے بچا کر، یسوع نے اسے زندہ رہنے کی اجازت دی۔ اب آخری ایام آچکے ہیں۔ خدا انسان کو فنا کر دے گا اور نسل انسانی کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا، یعنی وہ بنی نوع انسان کی بغاوت کو بدل دے گا۔ اس وجہ سے، ماضی کے شفقت اور محبت والے مزاج کے ساتھ، خدا کے لیے دور کو ختم کرنا یا اپنے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ناممکن ہوگا۔ ہر دور میں خُدا کے مزاج کی ایک خاص نمائندگی ہوتی ہے، اور ہر دور میں وہ کام موجود ہوتا ہے جو خُدا کو کرنا چاہیے۔ لہٰذا، ہر دور میں خُدا نے جو کام خود کیا ہے اُس میں اُس کے حقیقی مزاج کا اظہار شامل ہے، اور اُس کا نام اور وہ کام جو وہ کرتا ہے، دور کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ یہ سب نئے ہوتے ہیں۔ قانون کے دور کے دوران، بنی نوع انسان کی راہنمائی کا کام یہوواہ کے نام سے کیا گیا تھا، اور زمین پر کام کا پہلا مرحلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس مرحلے پر، کام ہیکل اور قربان گاہ کی تعمیر، اور اسرائیل کے لوگوں کی راہنمائی اور ان کے درمیان کام کرنے کے لیے قانون کو استعمال کرنے پر مشتمل تھا۔ اسرائیل کے لوگوں کی راہنمائی کر کے، اس نے زمین پر اپنے کام کے لیے ایک بنیاد قائم کی۔ اس بنیاد سے، اس نے اپنے کام کو اسرائیل سے آگے پھیلایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ، اسرائیل سے شروع ہو کر، اس نے اپنے کام کو باہر کی طرف بڑھایا، تاکہ بعد کی نسلوں کو آہستہ آہستہ معلوم ہو کہ یہوواہ خدا تھا، اور یہ کہ یہ یہوواہ ہی تھا جس نے آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کو پیدا کیا، اور یہ کہ یہ یہوواہ ہی تھا جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس نے اپنے کام کو بنی اسرائیل کے ذریعے ان سے باہر تک پھیلا دیا۔ اسرائیل کی سرزمین کرہ ارض پر یہوواہ کے کام کا پہلا مقدس مقام تھا، اور یہ اسرائیل کی سرزمین میں ہی تھا کہ خدا کرہ ارض پر پہلی بار کام کرنے کے لیے گیا۔ یہ قانون کے دور کا کام تھا۔ فضل کے دور میں، یسوع وہ خدا تھا جس نے انسان کو بچایا۔ اس کے پاس جو کچھ تھا اور جو وہ خود تھا، وہ فضل، محبت، شفقت، عفو، تحمل، عاجزی، دیکھ بھال اور رواداری تھی اور اس نے جو کچھ کام بھی کیا وہ انسان کی خلاصی کے لیے تھا۔ اس کا مزاج شفقت اور محبت کا تھا، اور چونکہ وہ ہمدرد اور محبت کرنے والا تھا، اس لیے اسے انسان کے لیے صلیب پر میخوں سے جڑا جانا پڑا، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ خدا انسان کو اپنے جتنا پیار کرتا ہے، یہاں تک کہ خدا نے اپنے آپ کو مکمل طور پر پیش کر دیا۔ فضل کے دور میں، خدا کا نام یسوع تھا، یعنی خدا ایک ایسا خدا تھا جس نے انسان کو بچایا تھا، اور وہ ایک ہمدرد اور محبت کرنے والا خدا تھا۔ خدا انسان کے ساتھ تھا۔ اس کی محبت، اس کی شفقت، اور اس کی نجات ہر ایک شخص کے ساتھ تھی۔ صرف یسوع کے نام اور اس کی موجودگی کو قبول کرنے سے ہی انسان امن اور خوشی حاصل کرنے، اس کی برکت، اس کے وسیع اور بے شمار فضل، اور اس کی نجات حاصل کرنے کے قابل تھا۔ یسوع کے مصلوب ہونے کے ذریعے، ان تمام لوگوں نے جو اس کی پیروی کرتے تھے نجات حاصل کی اور ان کے گناہ معاف کر دیے گئے۔ فضل کے دور میں خدا کا نام یسوع تھا۔ دوسرے لفظوں میں، فضل کے دور کا کام بنیادی طور پر یسوع کے نام کے تحت کیا گیا تھا۔ فضل کے دور میں، خدا کو یسوع کہا جاتا تھا۔ اس نے عہد نامہ قدیم سے آگے نئے کام کا مرحلہ شروع کیا، اور اس کا کام مصلوب ہونے کے ساتھ ختم ہوا۔ یہ اُس کے کام کا مکمل پن تھا۔ لہذا، قانون کے دور میں خدا کا نام یہوواہ تھا، اور فضل کے دور میں یسوع کا نام خدا کی نمائندگی کرتا تھا۔ آخری ایام کے دوران، اس کا نام قادرِ مطلق خدا ہے–وہ قادرِ مطلق، جو انسان کی راہنمائی کرنے، انسان کو فتح کرنے، اور انسان کو حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کرتا ہے، اور آخر میں، دَور کو اس کے اختتام تک لاتا ہے۔ ہر دَور میں، اس کے کام کے ہر مرحلے پر، خدا کا مزاج ظاہر ہے۔

ابتدا میں، عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور میں انسان کی راہنمائی کرنا ایک بچے کی زندگی کی راہنمائی کرنے کے مترادف تھا۔ قدیم ترین بنی نوع انسان یہوواہ کا نومولودہ تھا؛ وہ بنی اسرائیل تھے۔ انہیں اس بات کی کوئی سمجھ نہیں تھی کہ خدا کی تعظیم کیسے کی جائے یا زمین پر کیسے رہنا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ، یہوواہ نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا، یعنی اس نے آدم اور حوا کو تخلیق کیا، لیکن اس نے انہیں یہ سمجھنے کی صلاحیتیں نہیں دیں کہ یہوواہ کی تعظیم کیسے کی جائے یا زمین پر یہوواہ کے قوانین کی پیروی کیسے کی جائے۔ یہوواہ کی براہ راست راہنمائی کے بغیر، کوئی بھی براہِ راست یہ نہیں جان سکتا تھا، کیونکہ شروع میں انسان میں ایسی صلاحیتیں نہیں تھیں۔ انسان صرف یہ جانتا تھا کہ یہوواہ خدا ہے، لیکن انسان کو اس بات کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں تھا کہ خدا کی تعظیم کیسے کرنی ہے، کس طرز عمل کو اس کی تعظیم کہا جا سکتا ہے، کس قسم کے ذہن کے ساتھ اس کی تعظیم کرنی ہے، یا اس کی تعظیم میں کیا پیش کرنا ہے۔ انسان صرف یہ جانتا تھا کہ یہوواہ کی تخلیق کردہ تمام چیزوں میں سے کس چیز سے لطف اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن انسان کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ زمین پر کس قسم کی زندگی خدا کی مخلوق کے لائق ہے۔ کسی ہدایت دینے والے کی غیرموجودگی میں، ذاتی طور پر کسی راہنمائی کرنے والے کے بغیر، یہ نوع انسانی کبھی بھی صحیح طریقے سے انسانیت کے مطابق زندگی نہ گزارتی، بلکہ چوری چھپے صرف شیطان کی اسیر ہو کر رہ جاتی۔ یہوواہ نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا، یعنی اس نے بنی نوع انسان کے آباؤ اجداد، حوا اور آدم کو پیدا کیا، لیکن اس نے انہیں مزید کوئی عقل یا حکمت عطا نہیں کی۔ اگرچہ وہ پہلے ہی زمین پر رہ رہے تھے لیکن وہ تقریباً کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اور یوں، بنی نوع انسان کی تخلیق میں یہوواہ کا کام صرف آدھا ختم ہوا تھا، اور مکمل ہونے سے بہت دور تھا۔ اس نے صرف مٹی سے انسان کا ایک نمونہ بنایا تھا اور اسے اپنی سانس دی تھی لیکن انسان کو خدا کی تعظیم کے لیے کافی آمادگی عطا کیے بغیر۔ شروع میں، انسان اس کی تعظیم کرنے یا اس سے ڈرنے کی سوچ نہیں رکھتا تھا۔ انسان صرف اس کے کلام کو سننا جانتا تھا لیکن زمین پر زندگی کے بنیادی علم اور انسانی زندگی کے معمول کے اصولوں سے ناواقف تھا۔ اور اس طرح، اگرچہ یہوواہ نے مرد اور عورت کو تخلیق کیا اور سات دن کے منصوبے کو مکمل کیا، لیکن اس نے کسی بھی طرح سے انسان کی تخلیق مکمل نہیں کی، کیونکہ انسان صرف ایک بھوسی تھا، اور انسان ہونے کی حقیقت سے محروم تھا۔ انسان صرف یہ جانتا تھا کہ یہ یہوواہ ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا تھا، لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہوواہ کے الفاظ یا قوانین کی پابندی کیسے کی جائے۔ اور یوں، بنی نوع انسان کے وجود میں آنے کے بعد بھی، یہوواہ کا کام ختم ہونے سے بہت دور تھا۔ اسے ابھی بھی انسانوں کی مکمل راہنمائی کرنی تھی کہ وہ اس کے سامنے پیش ہوں، تاکہ وہ زمین پر اکٹھے رہ سکیں اور اس کی تعظیم کرسکیں، اور تاکہ وہ اس کی راہنمائی کے ساتھ، زمین پرایک معمول کی انسانی زندگی کی صحیح راہ پر داخل ہو سکیں۔ صرف اسی طریقے سے وہ کام جو بنیادی طور پر یہوواہ کے نام کے تحت انجام دیا گیا تھا، پوری طرح مکمل ہوا؛ یعنی، صرف اسی طریقے سے دنیا کو تخلیق کرنے کا یہوواہ کا کام مکمل طور پر ختم ہوا۔ اور اس طرح، بنی نوع انسان کو پیدا کرنے کے بعد، اسے کئی ہزار سال تک زمین پر بنی نوع انسان کی زندگی کی راہنمائی کرنی تھی، تاکہ بنی نوع انسان اس کے احکام اور قوانین کی پابندی کر سکے، اور زمین پر ایک معمول کی انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے سکے۔ صرف تب ہی یہوواہ کا کام مکمل ہونا تھا۔ اس نے یہ کام بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد کیا اور اسے یعقوب کے دور تک جاری رکھا، اس وقت اس نے یعقوب کے بارہ بیٹوں کو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے بنا دیا تھا۔ اس وقت سے، اسرائیل کے تمام لوگ ایسی انسانی نسل بن گئے جن کی زمین پر راہنمائی باضابطہ طور پر خدا نے کی تھی، اور اسرائیل زمین پر ایک خاص مقام بن گیا جہاں اس نے اپنا کام کیا۔ یہوواہ نے ان لوگوں کو ایسے لوگوں کا پہلا گروہ بنایا جس پر اس نے باضابطہ طور پر زمین پر اپنا کام کیا، اور ان کو اور بھی بڑے کام کے آغاز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اس نے اسرائیل کی پوری سرزمین کو اپنے کام کے آغاز کا مقام بنایا، تاکہ زمین پر اس سے پیدا کیے ہوئے تمام لوگوں کو معلوم ہو کہ اُس کی تعظیم کیسے کرنی ہے اور اس زمین پر کیسے رہنا ہے۔ اور یوں بنی اسرائیل کے اعمال غیر یہودی قوموں کے لوگوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال بن گئے اور جو کچھ بنی اسرائیل کے درمیان کہا گیا تھا، وہ ایسا کلام بن گیا جسے غیر یہودی قوموں کے لوگوں نے بھی سنا۔ کیونکہ انھوں نے سب سے پہلے یہوواہ کے قوانین اور احکام کو حاصل کیا تھا اور اسی طرح وہ یہوواہ کے طریقوں کی تعظیم کرنے والے بھی پہلے لوگ تھے۔ وہ نسلِ انسانی کے آباؤ اجداد تھے جو یہوواہ کے طریقوں کو جانتے تھے اور ساتھ ہی وہ یہوواہ کی منتخب کردہ نسلِ انسانی کے نمائندے تھے۔ جب فضل کا دور آیا تو یہوواہ نے انسان کی اس طرح مزید راہنمائی نہیں کی۔ انسان نے گناہ کیا تھا اور اپنے آپ کو گناہ کے لیے آزاد چھوڑ دیا تھا، اور اس لیے اس نے انسان کو گناہ سے بچانا شروع کیا۔ اس طرح، اس نے انسان کو اس وقت تک ملامت کی جب تک کہ انسان مکمل طور پر گناہ سے آزاد نہیں ہو گیا۔ آخری ایام میں انسان اخلاقی بے راہ روی میں اس قدر دھنس چکا ہے کہ اس مرحلے کا کام صرف فیصلے اور سزا سے ہی ہو سکتا ہے۔ صرف اسی طریقے سے کام پورا ہو سکتا ہے۔ یہ کئی ادوار کا کام ہے۔ دوسرے لفظوں میں، خُدا اپنے نام، اپنے کام، اور خُدا کی مختلف شبیہوں کو مختلف ادوار کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان تبدیلی کے لیے استعمال کرتا ہے؛ خدا کا نام اور اس کا کام اس کے دور کی نمائندگی کرتا ہے اور ہر دور میں اس کے کام کی نمائندگی کرتا ہے۔ فرض کرو کہ ہر زمانے میں خدا کا کام ہمیشہ ایک جیسا ہے اور وہ ہمیشہ ایک ہی نام سے پکارا جاتا ہے تو انسان اسے کیسے پہچانے گا؟ خدا کو لازمی یہوواہ کہا جانا چاہیے، اور یہوواہ نامی خدا کے علاوہ، جو بھی کسی دوسرے نام سے پکارا جاتا ہے وہ خدا نہیں ہے۔ ورنہ خدا صرف یسوع ہی ہو سکتا ہے، اور اسے یسوع کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے نہیں پکارا جا سکتا؛ یسوع کے علاوہ، یہوواہ خدا نہیں ہے، اور قادر مطلق خدا بھی خدا نہیں ہے۔ انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ خدا قادر مطلق ہے، لیکن خدا ایک ایسا خدا ہے جو انسان کے ساتھ ہے، اور چونکہ خدا انسان کے ساتھ ہے، اس لیے اسے لازمی یسوع کہا جانا چاہیے۔ ایسا کرنا ہی عقیدے کے مطابق ہے، اور خدا کو ایک خاص دائرے میں محدود کرتا ہے۔ لہٰذا، ہر زمانے میں، وہ کام جو خدا کرتا ہے، اور جس نام سے اسے پکارا جاتا ہے، اور وہ شبیہ جسے وہ اختیار کرتا ہے–اور وہ کام جو وہ آج تک ہر مرحلے میں کرتا ہے–یہ کسی ایک ضابطے کی پیروی نہیں کرتے، اور کسی قسم کی بھی حد کے تابع نہیں ہیں۔ وہ یہوواہ ہے، لیکن وہ یسوع بھی ہے، اور مسیحا اور قادرِ مطلق خُدا بھی ہے۔ اس کا کام بتدریج تبدیلی سے گزر سکتا ہے، اس کے نام میں اسی طرح کی تبدیلیوں کے ساتھ۔ ہم آہنگ کوئی ایک نام پوری طرح سے اس کی نمائندگی نہیں کر سکتا، لیکن وہ تمام نام جن سے وہ پکارا جاتا ہے، اس کی نمائندگی کرنے کے قابل ہیں، اور جو کام وہ ہر دور میں کرتا ہے وہ اس کے مزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ فرض کرو کہ جب آخری ایام آتے ہیں تو وہ خدا جسے تو دیکھتا ہے وہ ابھی تک یسوع ہی ہے اور مزید یہ کہ وہ ایک سفید بادل پر سوار ہے اور وہ ابھی بھی یسوع کی شکل میں ہی ہے، اور جو الفاظ وہ بولتا ہے وہ ابھی تک یسوع ہی کے الفاظ ہیں: "تمہیں اپنے پڑوسی سے اپنے جیسا پیار کرنا چاہیے، تمہیں روزہ رکھنا چاہیے اور عبادت کرنی چاہیے، اپنے دشمنوں سے اسی طرح محبت کرنی چاہیے جس طرح تم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہو، دوسروں کے ساتھ تحمل کا سلوک کرو، اور صبر سے کام لو اور عاجز بنو۔ اس سے پہلے کہ تم میرے شاگرد بن سکو تمہیں یہ تمام چیزیں کرنی چاہییں۔ اور یہ سب کچھ کر کے تم میری بادشاہی میں داخل ہو سکتے ہو۔" کیا یہ فضل کے دور کے کام سے تعلق نہیں رکھتا؟ کیا وہ جو کہتا ہے وہ فضل کے دور کا طریقہ نہیں ہوگا؟ اگر تم یہ الفاظ سنو تو تم کیسا محسوس کرو گے؟ کیا تم محسوس نہیں کرو گے کہ یہ اب بھی یسوع کا ہی کام ہے؟ کیا یہ اسے دہرانا نہیں ہو گا؟ کیا انسان اس میں لذت پا سکتا ہے؟ تم محسوس کرو گے کہ خدا کا کام صرف وہی رہ سکتا ہے جیسا کہ یہ اب ہے اور آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس کے پاس صرف اتنی ہی طاقت ہے، اور کرنے کو کوئی نیا کام نہیں ہے، اور اس نے اپنی طاقت کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے۔ آج سے دو ہزار سال پہلے فضل کا دور تھا، اور دو ہزار سال بعد بھی وہ ابھی تک فضل کے دور کی منادی کر رہا ہے، اور وہ اب بھی لوگوں کو توبہ کروا رہا ہے۔ لوگ کہیں گے، "خدایا، تیرے پاس بس اتنی سی طاقت ہے۔ میں تو تجھے بہت حکمت والا سمجھتا تھا، اور پھر بھی تو صرف تحمل کو جانتا ہے اور صرف صبر کے متعلق فکرمند ہے۔ تو صرف اپنے دشمن سے محبت کرنا جانتا ہے، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔" انسان کے ذہن میں، خدا ہمیشہ کے لیے ویسا ہی رہے گا جیسا کہ وہ فضل کے دور میں تھا، اور انسان ہمیشہ اس بات پر یقین رکھے گا کہ خدا محبت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ کیا تجھے لگتا ہے کہ خدا کا کام ہمیشہ اسی پرانے طریقے پر چلتا رہے گا؟ اور اس طرح، اس کے کام کے اس مرحلے میں اسے مصلوب نہیں کیا جائے گا، اور ہر وہ چیز جسے تم دیکھتے ہو اور چھوتے ہو اس کے برعکس ہو گی جس کے بارے میں تم نے تصور کیا ہو گا یا کوئی بات سنی ہو گی۔ آج، خدا فریسیوں کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ہے، اور نہ ہی وہ دنیا کو جاننے کی اجازت دیتا ہے، اور جو اسے جانتے ہیں وہ صرف تم ہو جو اس کی پیروی کرتے ہو، کیونکہ وہ دوبارہ مصلوب نہیں کیا جائے گا۔ فضل کے دور میں، یسوع نے اپنی خوشخبری کے کام کی خاطر پورے ملک میں سرِ عام منادی کی۔ اس نے صلیب پر چڑھانے کے کام کی خاطر فریسیوں کے ساتھ تعلق قائم کیا؛ اگر وہ فریسیوں کے ساتھ تعلق نہ رکھتا اور اقتدار میں رہنے والوں نے اس کے بارے میں کبھی نہ جانا ہوتا، تو وہ کیسے مجرم قرار پاتا، اور پھر کیسے اسے دھوکا دے کر صلیب پر چڑھایا جاتا؟ اسی لیے، اس نے مصلوب ہونے کی خاطر فریسیوں کے ساتھ تعلق قائم کیا۔ آج، وہ ترغیب و تحریص سے بچنے کے لیے اپنا کام خفیہ طور پر کرتا ہے۔ خدا کے دو مرتبہ مجسم ہونے میں، کام اور اہمیت مختلف ہیں اور ترتیب بھی مختلف ہے تو پھر جو کام وہ کرتا ہے وہ مکمل طور پر ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟

کیا یسوع کا نام – "خُدا ہمارے ساتھ" – مکمل طور پر خُدا کے مزاج کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ کیا یہ خدا کی مکمل طور پر تشریح کر سکتا ہے؟ اگر انسان یہ کہتا ہے کہ چونکہ خدا اپنے مزاج کو نہیں بدل سکتا، اس لیے خدا کو صرف یسوع ہی کہا جا سکتا ہے اور اس کا کوئی دوسرا نام نہیں ہو سکتا، تو یہ الفاظ درحقیقت گستاخی ہیں! کیا تو یقین رکھتا ہے کہ اکیلا نام یسوع، خدا ہمارے ساتھ، خدا کی مکمل طور پر نمائندگی کرسکتا ہے؟ خدا کو بہت سے ناموں سے پکارا جا سکتا ہے، لیکن ان بہت سے ناموں میں، ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خدا کی تمام صفات کا خلاصہ کرنے کے قابل ہو، ایک بھی ایسا نہیں جو خدا کی مکمل طو پر نمائندگی کر سکے۔ اور اسی طرح، خدا کے بہت سے نام ہیں، لیکن یہ بہت سے نام خدا کے مزاج کی مکمل تشریح نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ خدا کا مزاج اتنا بھرپور ہے کہ اسے جاننا بلا شبہ انسان کی صلاحیت سے بڑھ کر ہے۔ انسان کے لیے، بنی نوع انسان کی زبان استعمال کرتے ہوئے، خدا کے مزاج کا مکمل خلاصہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ بنی نوع انسان کے پاس صرف ایک محدود ذخیرہ الفاظ ہے جس کے ساتھ وہ ان تمام چیزوں کا خلاصہ کرتا ہے جو وہ خدا کے مزاج کے بارے میں جانتا ہے: عظیم، معزز، حیرت انگیز، ناقابل فہم، اعلیٰ ترین، مقدس، راستباز، حکمت والا، وغیرہ۔ اتنے سارے الفاظ! یہ محدود ذخیرہ الفاظ اس بات کو تھوڑا سا بیان کرنے سے بھی قاصر ہے جتنا کہ انسان نے خدا کے مزاج کا مشاہدہ کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، بہت سے دوسرے لوگوں نے ایسے الفاظ شامل کر دیے جنہیں وہ اپنے دلوں میں موجود ذوق و شوق کو بہتر طور پر بیان کرنے کے قابل سمجھتے تھے: خدا بہت عظیم ہے! خدا بہت مقدس ہے! خدا بہت پیارا ہے! آج ان جیسے انسانی اقوال اپنے عروج پر پہنچ چکے ہیں، پھر بھی انسان اپنے آپ کو واضح طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اور اسی طرح، انسان کے لیے، خدا کے بہت سے نام ہیں، لیکن پھر بھی اس کا کوئی ایک نام نہیں ہے، اور یہ اس لیے ہے کہ خدا کی ذات بہت وسیع ہے، اور انسان کی زبان بہت مفلس ہے۔ ایک خاص لفظ یا نام خدا کی مکمل نمائندگی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، تو کیا تیرے خیال میں اس کا کوئی ایک نام مقرر کیا جا سکتا ہے؟ خدا اتنا عظیم اور مقدس ہے، پھر بھی تو اسے ہر نئے دور میں اپنا نام بدلنے کی اجازت نہیں دے گا؟ لہٰذا، ہر وہ دور، جس میں خدا ذاتی طور پر اپنا کام خود کرتا ہے، وہ اس کام کا خلاصہ کرنے کے لیے ہوتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے، وہ ایک نام استعمال کرتا ہے جو اس دور کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ وہ اس دور میں اپنے مزاج کی نمائندگی کرنے کے لیے اس خاص نام کا استعمال کرتا ہے، جو کہ دنیاوی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ خدا ہے جو اپنے مزاج کے اظہار کے لیے انسانوں کی زبان استعمال کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بہت سے لوگ جنہیں روحانی تجربات ہوئے ہیں اور جنہوں نے ذاتی طور پر خدا کو دیکھا ہے، وہ پھر بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک خاص نام خدا کی مکمل طور پر نمائندگی کرنے کے قابل نہیں ہے – افسوس، اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا جا سکتا – لہذا انسان اب خدا کو کسی نام سے مخاطب نہیں کرتا ہے، بلکہ اسے صرف "خدا" کہتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے انسان کا دل محبت سے بھرا ہوا ہو اور پھر بھی تضادات میں گھرا ہوا ہو، کیونکہ انسان نہیں جانتا کہ خدا کی تشریح کیسے کرے۔ خدا جو کچھ ہے وہ اتنا وسیع ہے کہ اسے بیان کرنے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ کوئی ایک نام ایسا نہیں ہے جو خدا کے مزاج کا خلاصہ کر سکے، اور کوئی ایک نام ایسا نہیں ہے جو اس سب کو بیان کر سکے جو خدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے، "تُو درستی کے ساتھ کون سا نام استعمال کرتا ہے؟" تو میں اسے کہوں گا، "خدا، خدا ہے!" کیا یہ خدا کا بہترین نام نہیں ہے؟ کیا یہ خُدا کے مزاج کا بہترین خلاصہ نہیں کرتا ہے؟ ایسا ہوتے ہوئے تم خدا کے نام کی جستجو میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو؟ تم صرف ایک نام کی خاطر اپنے دماغوں کو اتنا کیوں کھپاتے ہو، کہ کھائے پیے بغیر ہی سو جاتے ہو؟ وہ دن آئے گا جب خدا کو یہوواہ، یسوع، یا مسیح نہیں کہا جائے گا، وہ محض "خالق" ہو گا۔ اُس وقت، اُس نے زمین پر جتنے بھی نام اپنائے ہیں، وہ ختم ہو جائیں گے، کیونکہ زمین پر اُس کا کام ختم ہو جائے گا، اس کے بعد یہ نام بھی باقی نہیں رہیں گے۔ جب تمام چیزیں خالق کی عملداری میں آتی ہیں، تو پھر اسے ایک بہت موزوں لیکن نامکمل نام استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تو اب بھی خدا کے نام کی جستجو کررہا ہے؟ کیا تو اب بھی یہ کہنے کی جرات رکھتا ہے کہ خدا کو صرف یہوواہ کہا جاتا ہے؟ کیا تو اب بھی یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ خدا کو صرف یسوع کہا جا سکتا ہے؟ کیا تو خدا کے خلاف توہین کا گناہ برداشت کر سکتا ہے؟ تجھے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کا اصل میں کوئی نام نہیں تھا۔ اس نے صرف ایک یا دو یا کئی نام لیے کیونکہ اسے کام کرنا تھا اور بنی نوع انسان کا انتظام کرنا تھا۔ اسے جس نام سے بھی پکارا جاتا ہے – کیا یہ اس کا اپنا آزادانہ انتخاب نہیں تھا؟ کیا اسے تجھ سے، اپنی مخلوقات میں سے ایک سے، یہ فیصلہ کروانے کی ضرورت ہے؟ جس نام سے خدا کو پکارا جاتا ہے، وہ ایسا نہیں ہے جسے انسانی بولی کے ذریعے سمجھا جا سکے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا انسان خلاصہ کر سکے۔ تو بس اتنا کہہ سکتا ہے کہ آسمان پر ایک خدا ہے، یہ کہ وہ خدا کہلاتا ہے، وہ خود خدا ہے جو بڑی طاقت والا ہے، جو اتنی حکمت والا، اتنا عالی مقام، اتنا حیرت انگیز، اتنا پراسرار اور اتنا قادر مطلق ہے، کہ تو مزید کچھ کہہ ہی نہیں سکتا؛ تو بس اتنا معمولی سا ہی جان سکتا ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، کیا محض یسوع کا نام خدا کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ آخری ایام آنے پر، اگرچہ وہ اب بھی خدا ہی ہے جو اپنا کام کرتا ہے، لیکن اس کا نام بدلنا پڑے گا، کیونکہ یہ ایک مختلف دور ہے۔

خدا پوری کائنات میں اور اس سے بھی اوپر کے عالم میں سب سے عظیم ہونے کے ناطے، کیا وہ ایک جسم کی شبیہ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی پوری طرح وضاحت کر سکتا ہے؟ خُدا اپنے کام کے ایک مرحلے کو کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس جسم کا لباس پہناتا ہے۔ اور جسم کی اس شبیہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، اس کا ادوار کے گزرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کا خدا کے مزاج سے کوئی تعلق ہے۔ یسوع نے اپنی شبیہ کو باقی رہنے کی اجازت کیوں نہیں دی؟ اس نے بعد کی نسلوں تک پہنچانے کے لیے انسان کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت کیوں نہیں دی؟ اُس نے لوگوں کو یہ تسلیم کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی کہ اُس کی صورت خُدا کی صورت تھی؟ اگرچہ انسان کی شبیہ خدا کی صورت پر بنائی گئی تھی، لیکن کیا یہ ممکن تھا کہ انسان کی ظاہری شکل خدا کی اعلیٰ و ارفع شبیہ کی نمائندگی کرتی؟ جب خدا جسم بن جاتا ہے، تو وہ محض ایک خاص جسم میں آسمان سے اترتا ہے۔ یہ اس کی روح ہے جو ایک جسم میں اترتی ہے، جس کے ذریعے وہ روح کا کام کرتا ہے۔ یہ روح ہی ہے جس کا اظہار جسم میں ہوتا ہے، اور یہ روح ہی ہے جو جسم میں اپنا کام کرتی ہے۔ جسم میں کیا گیا کام مکمل طور پر روح کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ جسم کام کی خاطر ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جسم کی شبیہ خود خدا کی حقیقی شبیہ کی متبادل ہے؛ خدا کے جسم بن جانے کا یہ مقصد یا اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف اس لیے جسم بنتا ہے کہ روح کو رہنے کے لیے ایسی جگہ مل جائے جو اس کے کام کے مطابق ہو، اور جسم میں اس کے کام کو بہتر انداز میں حاصل کرنے کے لیے، تاکہ لوگ اس کے کاموں کو دیکھ سکیں، اس کے مزاج کو سمجھ سکیں، اس کے کلام کو سن سکیں، اور اس کے کام کی کرامات کو جان سکیں۔ اس کا نام اس کے مزاج کی نمائندگی کرتا ہے، اور اس کا کام اس کی شناخت کی نمائندگی کرتا ہے، لیکن اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جسم میں اس کی ظاہری شکل اس کی شبیہ کی نمائندگی کرتی ہے؛ یہ محض انسان کا تصور ہے۔ اور اس طرح، مجسم خدا کے اہم پہلو اس کا نام، اس کا کام، اس کا مزاج اور اس کی جنس ہیں۔ یہ اس دور میں اس کے انتظام کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جسم میں اس کی ظاہری شکل کا اس کے انتظام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ صرف اس کے اس وقت کے کام کی خاطر ہے۔ پھر بھی کوئی خاص ظاہری صورت نہ رکھنا مجسم خدا کے لیے ناممکن ہے، اور اس لیے وہ اپنی ظاہری شکل کا تعین کرنے کے لیے ایک موزوں خاندان کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر خدا کے ظہور کی کوئی نمائندہ اہمیت ہوتی تو وہ تمام لوگ جو اس کے چہرے سے ملتے جلتے خدوخال رکھتے ہیں وہ بھی خدا کی نمائندگی کرتے۔ کیا یہ ایک سنگین غلطی نہیں ہوگی؟ یسوع کی تصویر انسان نے اس لیے بنائی تھی تاکہ انسان اس کی عبادت کرسکے۔ اس وقت، روح القدس نے کوئی خاص ہدایات نہیں دی تھیں، اور اس طرح انسان نے اس تصوراتی تصویر کو آج تک آگے بڑھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا کی اصل منشا کے مطابق انسان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ صرف انسان کا جذبہ ہے جس کی وجہ سے یسوع کی تصویر آج تک باقی ہے۔ خُدا رُوح ہے، اور انسان کبھی بھی اس قابل نہیں ہو گا کہ اس بات کا خلاصہ کر سکے کہ آخری تجزیے میں خدا کی تصویر کیا ہے۔ اُس کی تصویر صرف اُس کے مزاج سے ہی ظاہر ہو سکتی ہے۔ جہاں تک اس کی ناک، اس کے منہ، اس کی آنکھوں اور اس کے بالوں کی صورت کا تعلق ہے، تو یہ تمہاری خلاصہ کرنے کی طاقت سے باہر ہیں۔ جب یوحنا پر وحی نازل ہوئی تو اس نے ابنِ آدم کی شبیہ دیکھی: اس کے منہ سے نکلتی ہوئی ایک تیز دو دھاری تلوار تھی، اس کی آنکھیں آگ کے شعلوں کی مانند تھیں، اس کا سر اور بال اون کی طرح سفید تھے، اس کے پاؤں چمکتی ہوئی کانسی کی طرح تھے، اور اس کے سینے کے گرد ایک سنہری پٹی تھی۔ اگرچہ اس کے الفاظ بھرپور منظر کشی کرنے والے تھے، لیکن خدا کی جو تصویر اس نے بیان کی ہے وہ کسی مخلوق کی تصویر نہیں تھی۔ اس نے جو دیکھا وہ صرف کشف کی حالت میں ایک منظر تھا، اور وہ مادی دنیا کے کسی شخص کی تصویر نہیں تھی۔ یوحنا نے کشف کی حالت میں ایک منظر دیکھا تھا، لیکن اس نے خدا کی حقیقی صورت نہیں دیکھی تھی۔ خدا کے مجسم جسم کی شبیہ، ایک تخلیق شدہ وجود کی صورت ہونے کی وجہ سے، مکمل طور پر خدا کے مزاج کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے۔ جب یہوواہ نے بنی نوع انسان کو تخلیق کیا تھا تو اُس نے کہا تھا کہ اُس نے اپنی صورت پر ایسا کیا ہے اور مرد اور عورت کو پیدا کیا ہے۔ اس وقت، اس نے کہا تھا کہ اس نے مرد اور عورت کو خدا کی صورت میں بنایا ہے۔ اگرچہ انسان کی شبیہ خدا کی شبیہ سے مشابہت رکھتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ انسان کی صورت خدا کی شبیہ ہے۔ اور نہ ہی تو خدا کی شبیہ کا مکمل طور پر خلاصہ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کی زبان استعمال کر سکتا ہے، کیونکہ خدا بہت بلند، بہت عظیم، بہت حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے!

جب یسوع اپنا کام کرنے کے لیے آیا، تو یہ روح القدس کی ہدایت کے تحت تھا؛ اس نے عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور کے مطابق یا یہوواہ کے کام کے مطابق کام نہیں کیا بلکہ ویسا ہی کیا جیسا کہ روح القدس چاہتی تھی۔ اگرچہ یسوع جو کام کرنے آیا تھا وہ یہوواہ کے قوانین یا یہوواہ کے احکام کی پابندی نہیں تھا، لیکن ان کا منبع ایک ہی تھا۔ یسوع نے جو کام کیا اس نے یسوع کے نام کی نمائندگی کی، اور اس نے فضل کے دور کی نمائندگی کی؛ جیسا کہ یہوواہ کے کیے گئے کام نے، یہوواہ کی نمائندگی کی تھی اور اس نے قانون کے دور کی نمائندگی کی تھی۔ ان کا کا دو مختلف ادوار میں ایک روح کا کام تھا۔ جو کام یسوع نے کیا وہ صرف فضل کے دور کی نمائندگی کر سکتا ہے، اور جو کام یہوواہ نے کیا وہ صرف عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ یہوواہ نے صرف اسرائیل اور مصر کے لوگوں اور اسرائیل سے باہر کی تمام قوموں کی راہنمائی کی۔ عہد نامہ جدید کے فضل کے دور میں جب خدا نے دور کی راہنمائی کی تو یسوع کا کام یسوع کے نام کے تحت خدا کا کام تھا۔ اگر تو کہتا ہے کہ یسوع کا کام یہوواہ کے کام پر مبنی تھا، کیونکہ اس نے کوئی نیا کام شروع نہیں کیا، اور کیونکہ اس نے جو کچھ کیا وہ یہوواہ کے الفاظ کے مطابق، یہوواہ کے کام اور یسعیاہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق تھا، تو پھر یسوع مجسم خدا نہیں بنتا۔ اگر وہ اپنے کام کو اس طرح انجام دیتا تو وہ قانون کے دور کا حواری یا کارکن ہوتا۔ اگر ایسا ہے جیسا کہ تو کہتا ہے تو یسوع نہ تو دور کا آغاز کر سکتا تھا اور نہ ہی کوئی اور کام کر سکتا تھا۔ اسی طریقے سے، روح القدس کو بنیادی طور پر لازمی یہوواہ کے ذریعے اپنا کام کرنا چاہیے، اور یہوواہ کے بغیر روح القدس کوئی نیا کام نہیں کر سکتی تھی۔ یسوع کے کام کو اس طریقے سے سمجھنا انسان کے لیے غلط ہے۔ اگر انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ یسوع نے جو کام کیا وہ یہوواہ کے الفاظ اور یسعیاہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق کیا گیا تھا، تو پھر کیا یسوع مجسم خدا تھا، یا وہ نبیوں میں سے ایک تھا؟ تو پھر اس نظریے کے مطابق، فضل کا دَور نہ ہوتا، اور یسوع مجسم خدا نہ ہوتا، کیونکہ اس نے جو کام کیا وہ فضل کے دور کی نمائندگی نہیں کرسکتا اور وہ صرف عہد نامہ قدیم کے قانون کے دور کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ صرف اس صورت میں ایک نیا دور ہو سکتا ہے جب یسوع نیا کام کرنے، ایک نئے دور کا آغاز کرنے، اسرائیل میں پہلے کیے گئے کام کو کامیاب کرنے کے لیے آیا ہو، اور اپنے کام کو اسرائیل میں یہوواہ کی طرف سے کیے گئے کام کے مطابق کرنے کے لیے، یا اس کے پرانے اصول، یا کسی بھی ضابطے کے مطابق کرنے کے لیے نہیں آیا ہو، بلکہ وہ نیا کام کرنے کے لیے آیا ہو جو کہ اسے کرنا چاہیے۔ خدا خود دور کا آغاز کرنے کے لیے آتا ہے، اور خدا خود ہی دور کو ختم کرنے کے لیے آتا ہے۔ انسان دور کے آغاز اور دور کے اختتام کا کام کرنے سے قاصر ہے۔ اگر یسوع اپنے آنے کے بعد یہوواہ کے کام کو ختم نہیں کرتا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ وہ محض ایک انسان تھا اور خدا کی نمائندگی کرنے کے قابل نہیں تھا۔ بالکل اس لیے کہ یسوع آیا اور یہوواہ کے کام کو ختم کیا، یہوواہ کے کام کو جاری رکھا اور اس کے علاوہ، اپنا کام انجام دیا، ایک نیا کام، یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک نیا دور تھا، اور یہ کہ یسوع خود خدا تھا۔ اس نے کام کے دو نمایاں طور پر مختلف مراحل سرانجام دیے۔ ایک مرحلہ ہیکل میں کیا گیا تھا، اور دوسرا ہیکل کے باہر کیا گیا تھا۔ ایک مرحلہ قانون کے مطابق انسان کی زندگی کی راہنمائی کرنا تھا، اور دوسرا گناہ کا کفارہ پیش کرنا تھا۔ کام کے یہ دو مراحل واضح طور پر مختلف تھے؛ یہ نئے دور کو پرانے دور سے الگ کرتا ہے، اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ دو مختلف ادوار ہیں۔ ان کے کام کا مقام مختلف تھا، اور ان کے کام کا مواد مختلف تھا، اور ان کے کام کا مقصد مختلف تھا۔ اس طرح، انہیں دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جدید اور قدیم عہد نامے، جس کا مطلب ہے کہ نئے اور پرانے ادوار۔ جب یسوع آیا تو وہ ہیکل میں نہیں گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ کا دور ختم ہو گیا تھا۔ وہ ہیکل میں اس لیے داخل نہیں ہوا کیونکہ ہیکل میں یہوواہ کا کام ختم ہو گیا تھا، اور اسے دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اور اسے دوبارہ کرنے کا مطلب اسے دہرانا ہوتا۔ صرف ہیکل کو چھوڑ کر، ایک نیا کام شروع کرنے اور ہیکل سے باہر ایک نیا راستہ قائم کرنے سے، وہ خدا کے کام کو اس کے عروج پر پہنچانے کے قابل ہوا تھا۔ اگر وہ اپنا کام کرنے کے لیے ہیکل سے باہر نہ جاتا، تو خُدا کا کام ہیکل کی بنیادوں پر ہی رک جاتا، اور کبھی کوئی نئی تبدیلیاں نہ آتیں۔ اور اسی لیے، جب یسوع آیا تو وہ ہیکل میں داخل نہیں ہوا، اور اپنا کام ہیکل میں نہیں کیا۔ اس نے اپنا کام ہیکل کے باہر کیا، اور، شاگردوں کی راہنمائی کرتے ہوئے، آزادانہ طور پر اپنا کام کیا۔ خدا کا اپنا کام کرنے کے لئے ہیکل سے نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ خدا کے پاس ایک نیا منصوبہ تھا۔ اس کا کام ہیکل کے باہر کیا جانا تھا، اور یہ نیا کام ہونا تھا جو اپنے نفاذ کے انداز میں پابندیوں سے آزاد تھا۔ جیسے ہی یسوع آیا، اس نے عہد نامہ قدیم کے دور میں یہوواہ کے کام کو ختم کر دیا۔ اگرچہ انھیں دو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، لیکن یہ ایک ہی روح ہے جس نے کام کے دو مراحل انجام دیے، اور جو کام ہوا وہ مسلسل تھا۔ چونکہ نام مختلف تھا، اور کام کا مواد مختلف تھا، اس لیے دور مختلف تھا۔ جب یہوواہ آیا، تو وہ یہوواہ کا دور تھا، اور جب یسوع آیا، تو وہ یسوع کا دور تھا۔ اور اس طرح، ہر ایک کی آمد کے ساتھ، خدا کو کسی ایک نام سے پکارا جاتا ہے، اور وہ ایک دور کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ ایک نئی راہ متعارف کراتا ہے؛ اور ہر نئی راہ پر، وہ ایک نیا نام اپنا لیتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ہمیشہ سے نیا ہے اور وہ کبھی پرانا نہیں ہوتا، اور یہ کہ اس کا آگے کی طرف بڑھتا کام کبھی بھی نہیں رکتا۔ تاریخ کی پیش رفت ہمیشہ سے جاری ہے، اور خدا کا کام ہمیشہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے، اسے آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہر روز نیا کام کرے، اسے ہر سال لازماً نیا کام کرنا چاہیے۔ اسے نئی راہیں متعارف کرانا چاہییں، نئے ادوار متعارف کرانے چاہییں، نیا اور عظیم تر کام متعارف کرانا چاہیے، اور ان کے ہمراہ نئے نام اور نئے کام لانے چاہییں۔ لمحہ بہ لمحہ، خُدا کی روح نیا کام کر رہی ہے، کبھی پرانے طریقوں یا اصولوں سے چمٹی ہوئی نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کا کام کبھی رکا ہے، بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر تو کہتا ہے کہ روح القدس کا کام ناقابل تغیر ہے، تو پھر یہوواہ نے پادریوں کو ہیکل میں اس کی خدمت کرنے کو کیوں کہا، اس کے باوجود یسوع ہیکل میں داخل نہیں ہوا، اس حقیقت کے باوجود بھی کہ جب وہ آیا تو لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بڑا پادری ہے اور وہ داؤد کے گھرانے سے ہے اور بڑا پادری ہے اور عظیم بادشاہ بھی ہے؟ اور اس نے قربانیاں کیوں پیش نہیں کیں؟ ہیکل میں داخل ہونا یا ہیکل میں داخل نہ ہونا۔ کیا یہ سب خدا کا اپنا کام نہیں ہے؟ اگر، جیسا کہ انسان تصور کرتا ہے، یسوع دوبارہ آئے گا اور، آخری ایام میں، اب بھی یسوع ہی کہلائے گا، اور اب بھی ایک سفید بادل پر ہی آئے گا، جو یسوع کی صورت میں لوگوں کے درمیان اترے گا، تو کیا یہ اس کے کام کی تکرار نہیں ہوگی؟ کیا روح القدس قدیم انداز سے چمٹے رہنے کے قابل ہے؟ وہ سب جس پر انسان یقین رکھتا ہے وہ تصورات ہیں، اور جو کچھ انسان سمجھتا ہے وہ لفظی معنی کے مطابق ہے اور اس کے تصور کے مطابق بھی؛ لیکن وہ روح القدس کے کام کے اصولوں سے متصادم ہیں، اور خدا کے ارادوں کے مطابق نہیں ہیں۔ خدا اس طریقے سے کام نہیں کرے گا؛ خدا اتنا بے وقوف اور احمق نہیں ہے، اور اس کا کام اتنا آسان نہیں ہے جتنا تو تصور کرتا ہے۔ ہر اس چیز کی بنیاد پر جو انسان تصور کرتا ہے، یسوع بادل پر سوار ہو کر آئے گا اور تمہارے درمیان اترے گا۔ تم اسے دیکھو گے، بادل پر سوار، وہ تمہیں بتائے گا کہ وہ یسوع ہے۔ تم اس کے ہاتھوں میں میخوں کے نشانات کو بھی دیکھو گے، اور جان لو گے کہ وہ یسوع ہے۔ اور وہ تمہیں دوبارہ بچائے گا، اور تمہارا طاقتور خدا ہو گا۔ وہ تمہیں بچائے گا، تمہیں ایک نیا نام عطا کرے گا، اور تم میں سے ہر ایک کو ایک سفید پتھر دے گا، جس کے بعد تمہیں آسمان کی بادشاہی میں داخل ہونے اور جنت میں استقبال کروانے کی اجازت دی جائے گی۔ کیا ایسے عقائد انسان کے تصورات نہیں ہیں؟ کیا خدا انسان کے تصورات کے مطابق کام کرتا ہے، یا وہ انسان کے تصورات کے خلاف کام کرتا ہے؟ کیا انسان کے تمام تصورات شیطان سے حاصل نہیں ہوتے ہیں؟ کیا تمام انسانوں کو شیطان نے بدعنوان نہیں بنایا ہے؟ اگر خدا اپنا کام انسان کے تصورات کے مطابق کرے تو کیا پھر وہ شیطان نہیں بن جائے گا؟ کیا وہ اپنی ہی مخلوق کی طرح کا نہیں ہوجائے گا؟ چونکہ اب اس کی مخلوق کو شیطان نے اس قدر بدعنوان بنا دیا ہے کہ انسان شیطان کی شکل اختیار کرچکا ہے، اگر خدا شیطان کی باتوں کے مطابق کام کرتا تو کیا وہ شیطان کے ساتھ مل کر منصوبے نہ بناتا؟ انسان خدا کے کام کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ لہٰذا، خدا کبھی بھی انسان کے تصورات کے مطابق کام نہیں کرے گا، اور کبھی بھی تیرے تصور کے مطابق کام نہیں کرے گا۔ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا نے خود کہا ہے کہ وہ ایک بادل پر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ خدا نے خود ایسا کہا ہے، لیکن کیا تو نہیں جانتا کہ کوئی بھی شخص خدا کے اسرار کو نہیں سمجھ سکتا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ کوئی انسان خدا کے الفاظ کی وضاحت نہیں کرسکتا؟ کیا تجھے یقین ہے، کسی شک و شبہ سے بالاتر، کہ تجھے روح القدس نے بصیرت اور روشنی عطا کی ہے؟ یقیناً ایسا نہیں تھا کہ روح القدس نے تجھے اس طرح براہ راست طریقے سے دکھایا ہو؟ کیا یہ روح القدس تھی جس نے تجھے ہدایت دی، یا تیرے اپنے خیالات نے تجھے ایسا سوچنے پر مجبور کیا؟ تو نے کہا، "یہ خدا نے خود کہا ہے۔" لیکن ہم خُدا کے کلام کی پیمائش کے لیے اپنے خیالات اور دماغ کا استعمال نہیں کر سکتے۔ جہاں تک یسعیاہ کے کہے گئے الفاظ کا تعلق ہے، کیا تو پورے یقین کے ساتھ اس کے الفاظ کی وضاحت کر سکتا ہے؟ کیا تو اس کے الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ چونکہ تو یسعیاہ کے الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، تو تُو یسوع کے الفاظ کی وضاحت کرنے کی ہمت کیوں کرتا ہے؟ کون زیادہ بلند ہے، یسوع یا یسعیاہ؟ چونکہ جواب یسوع ہے، تو تو یسوع کے کہے گئے الفاظ کی وضاحت کیوں کرتا ہے؟ کیا خدا تجھے اپنے کام کے بارے میں پہلے سے بتائے گا؟ کوئی ایک مخلوق نہیں جان سکتی، یہاں تک کہ آسمانی رسول بھی نہیں، نہ ہی یسوع، تو پھر تُو کیسے جان سکتا ہے؟ انسان میں بہت کمی ہے۔ اب تمہارے لیے جو چیز اہم ہے وہ کام کے تین مراحل کو جاننا ہے۔ یہوواہ کے کام سے لے کر یسوع کے کام تک، اور یسوع کے کام سے لے کر اس موجودہ مرحلے تک، یہ تینوں مراحل ایک مسلسل لڑی میں خدا کے انتظام کے تمام سلسلوں کا احاطہ کرتے ہیں، اور یہ سب ایک ہی روح کے کام ہیں۔ دنیا کی تخلیق کے بعد سے، خُدا ہمیشہ سے بنی نوع انسان کے نظم و نسق کام کر رہا ہے۔ وہی ابتدا اور انتہا ہے، وہی اوّل اور آخر ہے اور وہی ایک ایسا ہے جو دور شروع کرتا ہے اور ایک وہی دور کو ختم کرتا ہے۔ کام کے تین مراحل، مختلف ادوار اور مختلف مقامات پر، بلا شبہ ایک ہی روح کا کام ہیں۔ ان تینوں مراحل کو الگ کرنے والے تمام لوگ خدا کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ اب، تجھے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آج تک تمام کام ایک خدا کا کام ہے، ایک ہی روح کا کام ہے۔ اس معاملے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔

سابقہ: خدا کے کام کی بصیرت (2)

اگلا: خدا کی تجسیم کا راز (1)

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp