خدا کی تجسیم کا راز (1)

فضل کے دور میں، یوحنا نے یسوع کے لیے راہ ہموار کی۔ یوحنا خدا کا کام خود نہیں کر سکتا تھا اور محض ایک انسان کا فرض پورا کرتا تھا۔ اگرچہ یوحنا خُداوند کا پیش رو تھا لیکن وہ خُدا کی نمائندگی کرنے سے قاصر تھا؛ وہ صرف ایک انسان تھا جسے روح القدس نے استعمال کیا تھا۔ یسوع کے بپتسمہ لینے کے بعد، روح القدس ایک فاختہ کی طرح اس پر نازل ہوئی۔ اس کے بعد اس نے اپنا کام شروع کر دیا، یعنی اس نے مسیح کی ذمہ داری انجام دینا شروع کر دی۔ چونکہ وہ خُدا کی طرف سے آیا تھا، اِس لیے اُس نے خُدا کی پہچان اختیار کی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس سے پہلے اس کا ایمان کیسا تھا – یہ کبھی کبھی کمزور، یا کبھی کبھی مضبوط ہوسکتا ہے – یہ سب کچھ اس عام انسانی زندگی سے تعلق رکھتا تھا جو اس نے اپنی ذمہ داری انجام دینے سے پہلے بسر کی تھی۔ اس کے بپتسمہ لینے کے بعد (یعنی مالش کی گئی)، خدا کی طاقت اور عظمت فوراً اس کو حاصل ہو گئی، اور اس طرح اس نے اپنی ذمہ داری انجام دینا شروع کی۔ وہ نشانیاں اور عجائبات دکھا سکتا تھا، معجزے دکھا سکتا تھا، اور اس کے پاس طاقت اور اختیار تھا، کیونکہ وہ براہ راست خدا کی طرف سے کام کر رہا تھا؛ وہ اس کی جگہ روح کا کام سرانجام دے رہا تھا اور روح کی آواز کا اظہار کر رہا تھا۔ لہذا، وہ خود خدا تھا؛ یہ ناقابل تردید ہے۔ یوحنا وہ شخص تھا جسے روح القدس نے استعمال کیا تھا۔ وہ خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا تھا، اور نہ ہی اس کے لیے خدا کی نمائندگی کرنا ممکن تھا۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتا تو روح القدس اس کی اجازت نہ دیتی، کیونکہ وہ اس کام کو کرنے سے قاصر تھا جسے پورا کرنے کا ارادہ خود خدا نے کیا تھا۔ شاید اس میں بہت کچھ ایسا تھا جو انسان کی مرضی سے تھا، یا کوئی چیز منحرف تھی؛ کسی بھی حالت میں وہ براہ راست خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی غلطیاں اور نامعقولیت صرف اسی کی نمائندگی کرتی تھیں، لیکن اس کا کام روح القدس کا نمائندہ تھا۔ پھر بھی، تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مکمل طور پر خدا کی نمائندگی کرتا تھا۔ کیا اس کا انحراف اور غلطی بھی خدا کی نمائندگی کر سکتی ہے؟ انسان کی نمائندگی میں خطا ہونا معمول کی بات ہے، لیکن اگر کوئی خدا کی نمائندگی میں انحراف کرے تو کیا یہ خدا کی بے عزتی نہیں ہو گی؟ کیا یہ روح القدس کے خلاف گستاخی نہیں ہوگی؟ روح القدس کسی انسان کو آسانی سے خدا کی جگہ پر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیتی، چاہے وہ انسان دوسروں سے بلند ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ خدا نہیں ہے تو وہ آخر میں مضبوطی سے کھڑا ہونے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ روح القدس انسان کو خدا کی نمائندگی کرنے کی اجازت اس طرح نہیں دیتی جس طرح انسان چاہتا ہے! مثال کے طور پر، یہ روح القدس تھی جس نے یوحنا کی گواہی دی اور یہ بھی روح القدس ہی تھی جس نے اسے یسوع کے لیے راہ ہموار کرنے والے کے طور پر ظاہر کیا، لیکن روح القدس نے بہت اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر اس پر کام کیا تھا۔ جو کچھ یوحنا کو سونپا گیا تھا وہ یسوع کے لیے راستہ تیار کرنے کے لیے رکاوٹیں ہٹانا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ، روح القدس نے صرف راہ ہموار کرنے میں اس کے کام کو برقرار رکھا تھا اور اسے صرف اسی طرح کے کام کرنے کی اجازت دی تھی – اسے کوئی اور کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یوحنا نے ایلیاہ کی نمائندگی کی، اور اس نے اس نبی کی نمائندگی کی جس نے راہ ہموار کی۔ اس میں روح القدس نے اسے برقرار رکھا؛ جب تک اس کا کام راہ ہموار کرنا تھا، روح القدس نے اسے برقرار رکھا۔ تاہم، اگر وہ خود خدا ہونے کا دعویٰ کرتا اور کہتا کہ وہ نجات کا کام مکمل کرنے کے لیے آیا ہے، تو روح القدس کو اس کی تادیب کرنی پڑتی۔ چاہے یوحنا کا کام کتنا ہی عظیم کیوں نہ تھا، اور اگرچہ روح القدس کی طرف سے اس کی تائید کی گئی تھی، بہرحال اس کا کام حدود کے بغیر نہیں تھا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ روح القدس نے واقعی اس کے کام کو برقرار رکھا، اس وقت اسے دی گئی طاقت اس کی راہ ہموار کرنے تک محدود تھی۔ وہ کوئی اور کام بالکل نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ وہ صرف یوحنا تھا جس نے راہ ہموار کی تھی، نہ کہ یسوع۔ لہذا، روح القدس کی گواہی کلیدی ہے، لیکن وہ کام جو روح القدس انسان کو کرنے کی اجازت دیتی ہے، وہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ کیا یوحنا کو اُس وقت بلند آہنگ گواہی نہیں ملی تھی؟ کیا اس کا کام بھی عظیم نہیں تھا؟ لیکن جو کام اس نے کیا وہ یسوع سے زیادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس کی حیثیت روح القدس کے ذریعے استعمال ہونے والے آدمی سے زیادہ نہیں تھی اور وہ براہ راست خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتا تھا، اور اس لیے اس نے جو کام کیا وہ محدود تھا۔ راہ ہموار کرنے کا کام ختم کرنے کے بعد، روح القدس نے اس کی گواہی کو مزید برقرار نہیں رکھا، کوئی نیا کام اس کے بعد نہیں آیا، اور جیسے ہی خود خدا کا کام شروع ہوا وہ چلا گیا۔

کچھ ایسے ہیں جن پر بد روحیں قابض ہیں اور وہ انتہائی زور سے چیختے ہیں، "میں خدا ہوں!" لیکن، آخر میں، وہ بے نقاب ہوتے ہیں، کیونکہ وہ جس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں اس میں وہ غلط ہیں۔ وہ شیطان کی نمائندگی کرتے ہیں، اور روح القدس ان پر کوئی توجہ نہیں دیتی ہے۔ تو اپنے آپ کو جتنا بھی بلند کرلے یا جتنا بھی زور سے چیخے، تو پھر بھی ایک مخلوق ہے اور ایک ایسی مخلوق ہے جو شیطان سے تعلق رکھتی ہے۔ میں کبھی نہیں چیختا، "میں خدا ہوں، میں خدا کا پیارا بیٹا ہوں!" لیکن جو کام میں کرتا ہوں وہ خدا کا کام ہے۔ کیا مجھے چیخنے کی ضرورت ہے؟ بلند مقام کی ضرورت نہیں۔ خدا اپنا کام خود کرتا ہے اور اسے ضرورت نہیں ہے کہ انسان اسے کوئی درجہ عطا کرے یا اسے کوئی عزت و احترام والا لقب دے: اس کا کام اس کی شناخت اور حیثیت کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا یسوع اپنے بپتسمہ سے پہلے خود خدا نہیں تھا؟ کیا وہ مجسم خدا کا جسم نہیں تھا؟ یقیناً یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ گواہی ملنے کے بعد ہی وہ خدا کا اکلوتا بیٹا بنا تھا؟ اُس کے اپنا کام شروع کرنے سے بہت پہلے، کیا پہلے سے ہی یسوع نام کا ایک آدمی موجود نہیں تھا؟ تو نئی راہیں نکالنے یا روح کی نمائندگی کرنے سے قاصر ہے۔ تو روح کے کام یا اس کلام کا اظہار نہیں کر سکتا جو وہ بولتی ہے۔ تو خدا کا اپنا کام کرنے سے قاصر ہے، اور جو روح کا کام ہے وہ بھی تو نہیں کر سکتا۔ خدا کی حکمت، حیرت، اور اس کا ناقابل فہم ہونا، اور اس کے مزاج کی کاملیت جس کے ذریعے خدا انسان کو عذاب دیتا ہے – یہ سب تیرے بیان کرنے کی صلاحیت سے باہر ہیں۔ لہٰذا خدا ہونے کا دعویٰ کرنے کی کوشش بیکار ہوگی؛ تیرے پاس صرف نام ہوگا اور اصل جوہر میں سے کچھ بھی نہیں۔ خُدا خود آ چکا ہے، لیکن کوئی اُسے نہیں پہچانتا، اس کے باوجود وہ اپنے کام میں لگا رہتا ہے اور وہ روح کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ چاہے تو اسے انسان کہے یا خدا، خداوند یا مسیح، یا اسے بہن کہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جو کام وہ کرتا ہے وہ روح کا ہے اور خود خدا کے کام کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ انسان اسے کس نام سے پکارتا ہے۔ کیا یہ نام اس کے کام کا تعین کر سکتا ہے؟ اس سے قطع نظر کہ تو اسے کیا کہہ کر پکارتا ہے، جہاں تک خدا کا تعلق ہے، وہ خدا کی روح کا انسانی جسم ہے؛ وہ روح کی نمائندگی کرتا ہے اور روح نے اس کی منظوری دی ہے۔ اگر تو جدید دور کے لیے راستہ نہیں بنا سکتا، یا قدیم کو ختم نہیں کر سکتا، یا جدید دور کا آغاز نہیں کر سکتا، یا نیا کام نہیں کر سکتا، تو تجھے خدا نہیں کہا جا سکتا!

یہاں تک کہ ایک آدمی جو روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتا ہے وہ خود خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب نہ صرف یہ ہے کہ ایسا آدمی خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا بلکہ یہ بھی کہ وہ جو کام کرتا ہے وہ بھی براہ راست خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔ دوسرے الفاظ میں، انسانی تجربے کو براہ راست خدا کے نظم و نسق میں نہیں رکھا جا سکتا، اور یہ خدا کے انتظام کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔ جو کام خدا خود کرتا ہے وہ مکمل طور پر وہ کام ہے جو وہ اپنے انتظامی منصوبے میں کرنا چاہتا ہے اور اس کا تعلق عظیم انتظام سے ہے۔ انسان کا کام اس کے انفرادی تجربے کی فراہمی پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ پہلے گزر جانے والے لوگوں کے اپنائے ہوئے راستے سے آگے، عملی تجربے کی ایک نئی راہ تلاش کرنے پر مشتمل ہے، اور روح القدس کی راہنمائی میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی راہنمائی کرنے کے لیے ہے۔ یہ لوگ جو کچھ فراہم کرتے ہیں وہ ان کا انفرادی تجربہ یا روحانی لوگوں کی روحانی تحریریں ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں، لیکن جو کام وہ کرتے ہیں اس کا تعلق چھ ہزار سالہ منصوبے میں انتظام کے عظیم کام سے نہیں ہے۔ وہ محض وہ لوگ ہیں جو مختلف زمانوں میں روح القدس کے ذریعے اٹھائے گئے ہیں تاکہ لوگوں کی روح القدس کے دھارے میں راہنمائی کریں، اس وقت تک کہ جو کام وہ انجام دے سکتے ہیں ختم نہ ہو جائیں یا جب تک کہ ان کی زندگیاں ختم نہ ہو جائیں۔ وہ جو کام کرتے ہیں وہ صرف خود خدا کے لیے ایک مناسب راستہ تیار کرنا ہے یا زمین پر خود خدا کے انتظام کے کسی خاص پہلو کو جاری رکھنا ہے۔ اپنے آپ میں، یہ لوگ اس کے انتظام کا زیادہ بڑا کام کرنے کے اہل نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ نئی راہیں کھول سکتے ہیں، اور ان میں سے کسی کا بھی خدا کے گزشتہ دور کے تمام کاموں کو انجام تک پہنچانے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ لہذا، وہ جو کام کرتے ہیں وہ صرف ایک تخلیق شدہ وجود کی نمائندگی کرتا ہے جو اس کا کام انجام دے رہا ہے اور وہ خدا کی نمائندگی نہیں کرسکتا جو اپنی ذمہ داری خود انجام دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام وہ کرتا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو خود خدا نے کیا ہے۔ نئے دور کا آغاز کرنے کا کام ایسا نہیں ہے جو خدا کی جگہ انسان کر سکتا ہو۔ یہ خود خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ انسان کے ذریعے کیا گیا تمام کام ایک تخلیق شدہ وجود کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ روح القدس سے متاثر ہوتا ہے یا بصیرت حاصل کرتا ہے۔ یہ لوگ جو راہنمائی فراہم کرتے ہیں وہ مکمل طور پر اس بات پر مشتمل ہے کہ انسان کو روزمرہ زندگی میں عمل کا راستہ دکھایا جائے اور یہ کہ اسے خدا کی مرضی کے مطابق کیسے عمل کرنا چاہیے۔ انسان کے کام میں نہ تو خدا کا انتظام شامل ہے اور نہ ہی یہ روح کے کام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر، وٹنس لی اور واچمین نی کا کام راہنمائی کرنا تھا۔ راستہ چاہے نیا ہو یا پرانا، کام انجیل کے اندر رہنے کے اصول پر مبنی تھا۔ چاہے وہ مقامی کلیسیا کو بحال کرنا ہو یا مقامی کلیسا کی تعمیر، ان کے کام کا تعلق کلیسیاﺆں کے قیام سے تھا۔ انھوں نے جو کام کیا اس نے یسوع اور اس کے رسولوں کے ادھورے چھوڑے ہوئے کام کو جاری رکھا یا اس کام کو جو فضل کے دور میں مزید بہتر نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے اپنے کام میں جو کچھ کیا، وہ یسوع کے اپنے وقت میں کیے گئے کام کو بحال کرنا تھا، اس نے اپنے بعد آنے والی نسلوں سے تقاضا کیا، جیسے کہ اپنے سر ڈھانپنا، بپتسمہ لینا، روٹی توڑنا، یا شراب پینا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کام انجیل کو برقرار رکھنا اور انجیل کے اندر راستے تلاش کرنا تھا۔ انھوں نے کسی قسم کی کوئی نئی پیش رفت نہیں کی۔ لہذا، کوئی ان کے کام میں صرف انجیل کے اندر نئے طریقوں کی دریافت کے ساتھ ساتھ بہتر اور زیادہ حقیقت پسندانہ طریقوں کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن کوئی اپنے کام میں خدا کے موجودہ ارادے کو نہیں پا سکتا، اور اس کا امکان تو بہت کم ہے کہ اس نئے کام کو تلاش کرے جسے خدا آخری دنوں میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس راستے پر وہ چلتے تھے وہ اب بھی پرانا تھا – اس میں کوئی تجدید اور کوئی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ وہ یسوع کے مصلوب ہونے کی حقیقت پر قائم رہے، لوگوں سے توبہ کرنے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے لیے کہنے کی روش پر قائم رہے، ان اقوال پر قائم رہے کہ جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا اور یہ کہ مرد عورت کا سربراہ ہے، اور عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت لازماً کرنی چاہیے، اور اس سے بھی زیادہ اس روایتی تصور کے لیے کہ بہنیں تبلیغ نہیں کر سکتیں، بلکہ صرف اطاعت کرسکتی ہیں۔ اگر اس طرح کی قیادت کے انداز پر عمل جاری رہتا تو روح القدس کبھی بھی نئے کام کو انجام دینے، لوگوں کو اصولوں سے آزاد کرنے، یا انھیں آزادی اور خوبصورتی کے عالم میں لے جانے کے قابل نہ ہوتی۔ لہٰذا، کام کا یہ مرحلہ، جو دور کو بدلتا ہے، تقاضا کرتا ہے کہ خدا خود کام کرے اور بولے؛ ورنہ کوئی انسان اس کی جگہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اب تک، اس دھارے سے باہر روح القدس کے تمام کام رک گئے ہیں، اور وہ لوگ جو روح القدس کے ذریعے استعمال کیے گئے تھے، ان کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ لہٰذا، چونکہ روح القدس کے ذریعے استعمال کیے گئے لوگوں کا کام خود خُدا کے کام سے مختلف ہے، اِس لیے اُن کی شناخت اور جن کی طرف سے وہ کام کرتے ہیں، وہ بھی اِسی طرح مختلف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کام روح القدس کرنا چاہتی ہے وہ مختلف ہے، اور اس وجہ سے وہ لوگ جو یکساں طور پر کام کرتے ہیں انھیں مختلف شناخت اور حیثیت دی جاتی ہے۔ جو لوگ روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں وہ کچھ نیا کام بھی کر سکتے ہیں اور گزشتہ دور میں کیے گئے کچھ کام کو ختم بھی کر سکتے ہیں، لیکن وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ جدید دور میں خُدا کے مزاج اور ارادے کا اظہار نہیں کر سکتے۔ وہ خدا کے مزاج کی براہ راست نمائندگی کرنے کی خاطر نئے کام کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف گزشتہ دور کے کام کو ختم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہذا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنے ہی فرسودہ طریقوں کو ختم کرتے ہیں یا کتنے ہی نئے طریقوں کو متعارف کرواتے ہیں، وہ اب بھی انسان اور تخلیق کردہ مخلوقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ تاہم، جب خدا خود کام کرتا ہے تو وہ کھلے عام قدیم دور کے طریقوں کے خاتمے کا اعلان نہیں کرتا ہے یا براہ راست جدید دور کے آغاز کا اعلان نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے کام میں براہ راست اور دیانت دار ہے۔ وہ جس کام کا ارادہ رکھتا ہے اسے انجام دینے میں بالکل غیرمذبذب ہے؛ یعنی وہ براہ راست اس کام کا اظہار کرتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے، اپنے وجود اور مزاج کا اظہار کرتے ہوئے براہ راست اپنے کام کو اپنے اصل ارادے کے مطابق کرتا ہے۔ جیسا کہ انسان اسے دیکھتا ہے، خدا کا مزاج اور اسی طرح اس کا کام بھی ماضی کے ادوار کے لوگوں سے مختلف ہے۔ تاہم، خود خدا کے نقطہ نظر سے، یہ محض اس کے کام کا ایک تسلسل اور مزید پیش رفت ہے۔ جب خُدا خود کام کرتا ہے تو وہ اپنے کلام کا اظہار کرتا ہے اور براہِ راست نیا کام لاتا ہے۔ اس کے برعکس، جب انسان کام کرتا ہے، تو یہ کام کافی غوروفکر اور مطالعہ کے ذریعے ہوتا ہے، یا یہ دوسروں کے کام پر قائم علم اور عمل کو منظم کرنے کی توسیع ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طرف سے کیے گئے کام کا جوہر ایک قائم شدہ حکم کی پیروی کرنا اور "نئے جوتوں میں پرانے راستوں پر چلنا" ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ راستہ بھی جو روح القدس کے ذریعے استعمال ہونے والے لوگوں نے اختیار کیا، اسی پر بنایا گیا ہے جسے خدا نے خود شروع کیا تھا۔ لہذا، ان سب باتوں کے بعد، انسان اب بھی انسان ہی ہے، اور خدا اب بھی خدا ہی ہے۔

یوحنا وعدے سے پیدا ہوا تھا، جیسا کہ ابراہیم کے ہاں اسحاق پیدا ہوا تھا۔ اس نے یسوع کے لیے راہ ہموار کی اور بہت کام کیا، لیکن وہ خدا نہیں تھا۔ بلکہ، وہ نبیوں میں سے ایک تھا، کیونکہ اس نے صرف یسوع کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ اس کا کام بھی عظیم تھا، اور اس کے راستہ ہموار کرنے کے بعد ہی یسوع نے اپنا کام باضابطہ طور پر شروع کیا تھا۔ بنیادی طور پر، اس نے صرف یسوع کے لیے محنت کی، اور جو کام اس نے کیا وہ یسوع کے کام کے لیے خدمت تھی۔ جب اس نے راہ ہموار کر لی تو یسوع نے اپنا کام شروع کیا، وہ کام جو نیا، زیادہ ٹھوس اور زیادہ تفصیلی تھا۔ یوحنا نے صرف ابتدائی حصے کا کام کیا تھا؛ نئے کام کا بڑا حصہ یسوع نے کیا تھا۔ یوحنا نے بھی نیا کام کیا، لیکن وہ جدید دور کا آغاز کرنے والا نہیں تھا۔ یوحنا وعدے سے پیدا ہوا تھا، اور اس کا نام فرشتے نے رکھا تھا۔ اس وقت، کچھ لوگ اس کا نام اس کے والد زکریاہ کے نام پر رکھنا چاہتے تھے، لیکن اس کی ماں نے کہا، "اس بچے کو اس نام سے نہیں پکارا جا سکتا۔ اسے یوحنا کہا جائے۔" یہ سب کچھ روح القدس کے حکم پر ہوا۔ یسوع کا نام بھی روح القدس کے حکم پر رکھا گیا تھا، وہ روح القدس سے پیدا ہوا تھا، اور روح القدس نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ یسوع خدا، مسیح، اور ابن آدم تھا۔ لیکن یوحنا کا کام بھی عظیم ہونے کے باوجود اسے خدا کیوں نہیں کہا گیا؟ یسوع کے کام اور یوحنا کے کیے گئے کام میں عین فرق کیا تھا؟ کیا صرف یہی وجہ تھی کہ یوحنا ہی وہ تھا جس نے یسوع کے لیے راہ ہموار کی تھی؟ یا اس لیے کہ یہ خدا کی طرف سے پہلے سے مقرر کیا گیا تھا؟ اگرچہ یوحنا نے یہ بھی کہا تھا، "تَوبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدِیک آ گئی ہے،" اور اس نے بھی آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کی، لیکن اس کے کام کو مزید ترقی نہیں دی گئی تھی اور یہ محض آغاز کا ایک حصہ تھا۔ اس کے برعکس، یسوع نے قدیم دور کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک جدید دور کا آغاز کیا، لیکن اس نے عہد نامہ قدیم کے قانون کو بھی پورا کیا۔ اس نے جو کام کیا وہ یوحنا کے کام سے زیادہ بڑا تھا، اور اس سے بڑھ کر تھا کیونکہ وہ تمام بنی نوع انسان کو نجات دلانے کے لیے آیا تھا – اس نے کام کے اس مرحلے کو پورا کیا۔ جہاں تک یوحنا کا تعلق ہے، تو اس نے صرف راستہ تیار کیا تھا۔ اگرچہ اس کا کام بھی عظیم تھا، اس کے الفاظ بھی بہت تھے، اور وہ شاگرد جنہوں نے اس کی بے شمار مواقع پر پیروی کی، لیکن اس کے کام نے انسان کے لیے ایک نئی شروعات کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ انسان نے کبھی بھی اس سے زندگی، راستہ یا زیادہ گہری سچائیاں حاصل نہیں کیں اور نہ ہی انسان نے اس کے ذریعے خدا کے ارادے کا شعور حاصل کیا۔ یوحنا ایک عظیم نبی (ایلیاہ) تھا جس نے یسوع کے کام کے لیے ایک بالکل مختلف طریقے سے کام کیا اور منتخب کیے ہوئے لوگوں کو تیار کیا۔ وہ فضل کے دور کا پیش رو تھا۔ اس طرح کے معاملات کو محض ان کی عام انسانی شکل و صورت کو دیکھ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہی سب سے زیادہ مناسب بات ہے کیونکہ یوحنا نے بھی بہت اہم کام کیا تھا اور اس کے علاوہ، روح القدس نے اس کا وعدہ کیا تھا، اور اس کے کام کو روح القدس نے برقرار رکھا تھا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، ان کے کیے جانے والے کام سے ہی کوئی شخص ان کی الگ شناخت میں فرق کر سکتا ہے، کیونکہ انسان کی ظاہری شکل و صورت سے اس کا جوہر بتانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی انسان کے لیے یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ہے کہ روح القدس کی گواہی کیا ہے۔ یوحنا اور یسوع نے جو کام کیا وہ غیر مشابہ اور مختلف نوعیت کے تھے۔ اس سے کوئی یہ طے کر سکتا ہے کہ یوحنا خدا تھا یا نہیں۔ یسوع کا کام شروع کرنا، جاری رکھنا، ختم کرنا اور کامیاب ہونا تھا۔ اس نے ان میں سے ہر ایک مرحلے کو سرانجام دیا، جبکہ یوحنا کا کام آغاز کرنے سے زیادہ نہیں تھا۔ شروع میں، یسوع نے خوشخبری کو پھیلایا اور توبہ کے طریقے کی منادی کی، اور پھر انسان کو بپتسمہ دینے، بیماروں کو شفا دینے اور بدروحوں کو نکالنے کا کام کیا۔ آخر میں، اس نے بنی نوع انسان کو گناہ سے نجات دلائی اور پورے دور کے لیے اپنا کام مکمل کیا۔ وہ انسانوں کو منادی کرنے اور آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری پھیلانے کے لیے ہر جگہ پر گیا۔ اس لحاظ سے وہ اور یوحنا ایک جیسے تھے، فرق یہ ہے کہ یسوع نے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور انسان کے لیے فضل کا دور لے کر آیا۔ اُس کے منہ سے یہ کلام نکلا کہ انسان کو کس چیز پر عمل کرنا چاہیے اور فضل کے دور میں انسان کو کس طریقے کی پیروی کرنی چاہیے، اور آخرکار، اُس نے خلاصی کا کام ختم کیا۔ یوحنا یہ کام کبھی نہیں کر سکتا تھا۔ اور اسی طرح یہ یسوع ہی تھا جس نے خود خدا کا کام کیا، اور یہ وہی ہے جو خود خدا ہے، اور جو براہ راست خدا کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کے تصورات کہتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو وعدے سے پیدا ہوئے ہیں، روح سے پیدا ہوئے ہیں، وہ روح القدس سے قائم ہیں، اور جو باہر نکلنے کے لیے نئی راہیں کھولتے ہیں وہ خدا ہیں۔ اس استدلال کے مطابق، یوحنا بھی خدا ہوگا، اور موسیٰ، ابراہیم اور داؤد۔۔۔، وہ بھی سب خدا ہوں گے۔ کیا یہ ایک مکمل مذاق نہیں ہے؟

اپنی ذمہ داری انجام دینے سے پہلے، یسوع بھی صرف ایک عام آدمی تھا جس نے، روح القدس نے جو کچھ بھی کیا، اسی کے مطابق کام کیا۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اس وقت اپنی شناخت سے واقف تھا یا نہیں، اس نے خدا کی طرف سے آنے والے تمام احکام کی اطاعت کی۔ روح القدس نے اس کی ذمہ داری کے شروع ہونے سے پہلے کبھی بھی اس کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اپنی ذمہ داری سرانجام دینا شروع کرنے کے بعد ہی اس نے ان اصولوں اور ان قوانین کو ختم کر دیا، اور اس نے اس وقت تک ایسا نہیں کیا تھا جب تک کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو باضابطہ طور پر انجام دینا شروع نہیں کر دیا تھا اور جب تک اس کے کلام میں اختیار اور طاقت سرایت نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ذمہ داری شروع کرنے کے بعد ہی ایک نئے دور کے آغاز کے لیے اپنا کام کیا۔ اس سے پہلے، روح القدس 29 سال تک اس کے اندر پوشیدہ رہی، اس دوران وہ صرف ایک انسان کی نمائندگی کرتا تھا اور خدا کی شناخت کے بغیر تھا۔ اُس کے کام کرنے اور اُس کے ذمہ داری انجام دینے کے ساتھ خُدا کا کام شروع ہوا، اُس نے اِس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ انسان اُس کے بارے میں کتنا جانتا ہے، خدا کے باطنی منصوبے کے مطابق اپنا کام کیا اور جو کام اُس نے کیا وہ خود خُدا کی براہِ راست نمائندگی تھا۔ اُس وقت یسوع نے اپنے اردگرد موجود لوگوں سے پوچھا، "تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟" انھوں نے جواب دیا، "تو انبیا میں سب سے عظیم اور ہمارا بہترین طبیب ہے۔" اور بعض نے جواب دیا، "تو ہمارا سردار پادری ہے،" وغیرہ۔ ہر قسم کے جوابات دیے گئے، کچھ نے یہاں تک کہا کہ وہ یوحنا تھا، اور وہ ایلیا تھا۔ یسوع پھر شمعون پطرس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا، "تو کیا کہتا ہے کہ میں کون ہوں؟" پطرس نے جواب دیا، "تُو زِندہ خُدا کا بیٹا مسِیح ہے۔" اس کے بعد سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ خدا تھا۔ جب اس کی شناخت ظاہر ہو گئی تو یہ پطرس ہی تھا جسے سب سے پہلے اس کا علم ہوا اور یہ اس کے منہ سے کہا گیا۔ پھر یسوع نے کہا، "جو کچھ تو نے کہا وہ گوشت اور خون سے نہیں بلکہ میرے باپ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔" اس کے بپتسمہ کے بعد، چاہے دوسروں کو اس کا علم ہو یا نہ ہو، اس نے جو کام کیا وہ خدا کی طرف سے تھا۔ وہ اپنے کام کو انجام دینے کے لیے آیا تھا، اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے نہیں۔ پطرس کی طرف سے اس کے بارے میں بات کرنے کے بعد ہی اس کی شناخت کھل کر معلوم ہوئی۔ تجھے معلوم تھا یا نہیں کہ وہ خود خدا ہے، مگر جب وقت آیا تو اس نے اپنا کام شروع کردیا۔ اور چاہے تجھے اس کا علم ہو یا نہ ہو، مگر وہ پہلے کی طرح اپنا کام کرتا رہا ہے۔ اگر تو نے اس سے انکار کیا تو بھی وہ اپنا کام کرے گا اور جب ایسا کرنے کا وقت آیا تو وہ اسے انجام دے گا۔ وہ اپنا کام کرنے اور اپنی ذمہ داری سرانجام دینے کے لیے آیا ہے، وہ اس لیے نہیں آیا ہے کہ آدمی اس کے جسم کو جان سکے، بلکہ اس لیے آیا ہے کہ آدمی اس کا کام وصول کر سکے۔ اگر تو اس بات کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ آج کے دن کے کام کا مرحلہ خود خدا کا کام ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تجھ میں بصیرت کی کمی ہے۔ پھر بھی، تو کام کے اس مرحلے سے انکار نہیں کر سکتا ہے؛ تیری اسے پہچاننے میں ناکامی یہ ثابت نہیں کرتی کہ روح القدس کام نہیں کر رہی ہے یا اس کا کام غلط ہے۔ ایسے بھی ہیں جو انجیل میں یسوع کے کام کے مقابلے میں موجودہ کام کی بھی جانچ کرتے ہیں اور کام کے اس مرحلے کو جھٹلانے کے لیے کچھ بے ربطیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ ایک اندھے کا عمل نہیں ہے؟ انجیل میں اندراج شدہ چیزیں محدود ہیں؛ وہ خدا کے کام کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتیں۔ چار انجیلوں میں مجموعی طور پر ایک سو سے کم ابواب ہیں، جن میں محدود تعداد میں واقعات درج ہیں، جیسے یسوع کا انجیر کے درخت کو ملامت کرنا، پطرس کے خداوند کے تین انکار، یسوع کا اپنے مصلوب ہونے اور دوبارہ جی اٹھنے کے بعد شاگردوں کے سامنے ظاہر ہونا، روزے کے بارے میں تعلیم دینا دعا کے بارے میں تعلیم، طلاق کے بارے میں تعلیم، یسوع کی پیدائش اور نسب نامہ، یسوع کی طرف سے شاگردوں کی تقرری، وغیرہ۔ تاہم انسان ان کو ایک خزانے کے طور پر قیمتی سمجھ کر اہمیت دیتا ہے، یہاں تک کہ ان کے مقابلے میں آج کے کام کا موازنہ کرتا ہے۔ وہ یہاں تک یقین رکھتا ہے کہ یسوع نے اپنی زندگی میں جتنے بھی کام کیے ان کی تعداد بس اتنی ہی تھی، گویا کہ خدا صرف یہی کچھ کرنے کے قابل ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں۔ کیا یہ بے ہودگی نہیں ہے؟

یسوع کا زمین پر جو وقت تھا وہ ساڑھے تینتیس سال تھا، یعنی وہ زمین پر ساڑھے تینتیس سال تک رہا۔ اس وقت میں سے صرف ساڑھے تین سال اس نے اپنی ذمہ داری سرانجام دیتے ہوئے گزارے؛ باقی وقت اس نے صرف ایک عام انسانی زندگی گزاری۔ شروع میں، اس نے سناگوگ میں خدمات میں شرکت کی اور وہاں اس نے پادریوں کی صحیفوں کی تشریح اور دوسروں کی منادی کو سنا۔ اس نے انجیل کا بہت زیادہ علم حاصل کیا: وہ اس طرح کے علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا، اور صرف پڑھنے اور سننے سے یہ علم حاصل کیا تھا۔ انجیل میں واضح طور پر درج ہے کہ اس نے بارہ سال کی عمر میں سناگوگ میں اساتذہ سے سوالات کیے: قدیم انبیا کی پیشین گوئیاں کیا تھیں؟ موسیٰ کے قوانین کے متعلق کیا ہے؟ عہد نامہ قدیم؟ اور ہیکل میں پادری کے لباس میں خدا کی خدمت کرنے والے آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ۔۔۔ اس نے بہت سے سوالات کیے، کیونکہ اس کے پاس نہ علم تھا اور نہ سمجھ۔ اگرچہ اس کا حمل روح القدس کے ذریعے قرار پایا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ایک عام انسان کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ کچھ خاص خصوصیات کے باوجود جو اس کے پاس تھیں، وہ اب بھی ایک عام انسان ہی تھا۔ اس کی حکمت، اس کی حیثیت اور اس کی عمر کے تناسب سے مسلسل بڑھتی گئی، اور وہ ایک عام انسان کی زندگی کے مراحل سے گزرا۔ لوگوں کے تخیل کے مطابق، یسوع نے نہ بچپن اور نہ ہی جوانی کا عملی تجربہ کیا۔ اس نے پیدا ہوتے ہی تیس سال کی عمر کے انسان کی زندگی گزارنا شروع کر دی تھی اور اپنے کام کی تکمیل پر اسے مصلوب کر دیا گیا تھا۔ وہ شاید ایک عام انسان کی زندگی کے مراحل سے نہیں گزرا تھا؛ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نہ تو کھاتا تھا اور نہ ہی ان سے تعلق رکھتا تھا، اور لوگوں کے لیے اس کی ایک جھلک دیکھنا آسان نہیں تھا۔ اس میں غالباً ایک انوکھا پن تھا، جو اپنے دیکھنے والوں کو خوفزدہ کردیتا تھا، کیونکہ وہ خدا تھا۔ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا جو جسم میں آتا ہے تو یقیناً ایک عام آدمی کی طرح نہیں رہتا ہے؛ وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے دانت صاف کیے بغیر یا اپنا چہرہ دھوئے بغیر بھی پاک ہے، کیونکہ وہ ایک مقدس ہستی ہے۔ کیا یہ خالصتاً انسان کے تصورات نہیں ہیں؟ انجیل یسوع کے صرف کام کا ریکارڈ رکھتی ہے اور بطور انسان اس کی زندگی کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتی، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کے پاس معمول کی انسانیت نہیں تھی یا اس نے تیس سال کی عمر سے پہلے ایک عام انسانی زندگی نہیں گزاری تھی۔ اس نے باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز 29 سال کی عمر میں کیا، لیکن اس عمر سے پہلے ایک انسان کے طور پر اس کی پوری زندگی کو تُو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ انجیل نے محض اس مدت کو اپنے اندراج سے ہٹا دیا ہے؛ چونکہ اس کی یہ زندگی ایک عام آدمی کے طور پر تھی اور اس کے الوہی کام کی مدت نہیں تھی، اس لیے اسے لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ یسوع کے بپتسمہ سے پہلے، روح القدس نے براہ راست کام نہیں کیا، بلکہ یسوع کو اپنی ذمہ داری کو سرانجام دینے کے دن تک، اس کو اپنی زندگی میں محض ایک عام انسان کے طور پر برقرار رکھا۔ اگرچہ وہ مجسم خدا تھا، لیکن وہ ایک عام انسان کی طرح بالغ ہونے کے عمل سے گزرا تھا۔ بلوغت کے اس عمل کو انجیل سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اسے اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ یہ زندگی میں انسان کی ترقی میں کوئی بڑی مدد فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے بپتسمہ سے پہلے کا زمانہ ایک پوشیدہ دور تھا، جس میں اُس نے کوئی نشانیاں اور عجائبات نہیں دکھائے تھے۔ یسوع کے بپتسمہ کے بعد ہی اس نے بنی نوع انسان کی نجات کا تمام کام شروع کیا، وہ کام جو مقدار میں بہت زیادہ اور فضل، سچائی، اور محبت اور رحم سے بھرپور ہے۔ اس کام کا آغاز عین فضل کے دور کا آغاز بھی تھا؛ اسی وجہ سے، یہ لکھا گیا تھا اور موجودہ دور تک منتقل کیا گیا تھا۔ یہ فضل کے دور کے سب لوگوں کے لیے، فضل کے دور کے راستے اور صلیب کے راستے پر چلنے کی خاطر راہ کھولنے اور نتائج حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اگرچہ یہ انسان کے لکھے ہوئے اندراج سے ملتا ہے، لیکن سب کچھ حقیقت ہے، سوائے اس کے کہ کہیں کہیں چھوٹی موٹی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود ان تحریروں کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔ اندراج کیے گئے معاملات مکمل طور پر حقائق پر مبنی ہیں، صرف ان کو لکھنے میں لوگوں نے غلطیاں کی ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو کہیں گے کہ، اگر یسوع عام اور معمولی انسانیت والا ایک فرد تھا، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نشانیاں اور عجائبات دکھانے کے قابل تھا؟ جن چالیس دنوں کی آزمائش سے یسوع گزرا، وہ ایک معجزاتی نشان تھا، جسے ایک عام انسان حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اس کے چالیس دن کی آزمائش روح القدس کے کام کی نوعیت تھی؛ پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس میں ذرا سی بھی مافوق الفطرت خصوصیت نہیں تھی؟ اس کی نشانیاں اور عجائبات دکھانے کی قابلیت یہ ثابت نہیں کرتی کہ وہ ایک ماورائے مادّہ انسان تھا اور کوئی عام انسان نہیں تھا؛ ایسا صرف اس لیے ہے کہ روح القدس نے اس جیسے عام انسان میں کام کیا، اور اس طرح اس کے لیے معجزات دکھانا اور اس سے بھی بڑا کام کرنا ممکن ہوا۔ یسوع کے اپنی ذمہ داری سرانجام دینے سے پہلے، یا جیسا کہ انجیل کہتی ہے، روح القدس کے اس پر نازل ہونے سے پہلے، یسوع ایک عام انسان تھا اور کسی بھی طرح سے مافوق الفطرت نہیں تھا۔ جب روح القدس اس پر نازل ہوئی، یعنی جب اس نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا آغاز کیا، تو اس میں مافوق الفطرت خصوصیات سرایت کر گئی تھیں۔ اس طرح، انسان کو یقین آتا ہے کہ مجسم خدا میں معمول کی انسانیت نہیں ہے؛ مزید یہ کہ، وہ غلطی سے سوچتا ہے کہ مجسم خدا کے پاس صرف الوہیت ہے، انسانیت نہیں۔ یقینی طور پر، جب خدا اپنا کام کرنے کے لیے زمین پر آتا ہے، تو انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ مافوق الفطرت واقعات ہیں۔ جو کچھ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور جو کچھ اپنے کانوں سے سنتا ہے وہ سب مافوق الفطرت ہیں کیونکہ خدا کا کام اور اس کا کلام ان کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل رسائی ہیں۔ اگر آسمان کی کوئی چیز زمین پر لائی جائے تو وہ مافوق الفطرت کے سوا کچھ اور کیسے ہو سکتی ہے؟ جب آسمان کی بادشاہی کے اسرار کو زمین پر لایا جاتا ہے، تو وہ اسرار جو انسان کے لیے ناقابلِ فہم اور ناقابلِ رسائی ہیں، جو کہ بہت ہی حیرت انگیز اور حکمت والے ہیں – کیا وہ سب مافوق الفطرت نہیں ہیں؟ تاہم، تجھے معلوم ہونا چاہیے، چاہے یہ کتنا ہی مافوق الفطرت کیوں نہ ہو، سب کچھ اس کی عام انسانیت کے اندر ہی انجام پاتا ہے۔ مجسم خُدا میں انسانیت سمائی ہوئی ہے؛ اگر یہ نہ ہوتی تو وہ مجسم خدا کا جسم نہ ہوتا۔ یسوع نے اپنے زمانے میں بہت سے معجزے دکھائے۔ اس وقت کے بنی اسرائیل نے جو کچھ دیکھا وہ مافوق الفطرت چیزوں سے بھرپور تھا؛ انھوں نے فرشتوں اور قاصدوں کو دیکھا، اور انھوں نے یہوواہ کی آواز سنی۔ کیا یہ سب مافوق الفطرت نہیں تھا؟ یقیناً، آج کچھ بد روحیں ہیں جو انسان کو مافوق الفطرت چیزوں سے دھوکہ دیتی ہیں؛ یہ ان کی طرف سے نقالی کے سوا کچھ نہیں ہے، تاکہ انسان کو ایسے کام کے ذریعے دھوکہ دیا جائے جو موجودہ وقت میں روح القدس کے ذریعے نہیں کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ معجزے دکھاتے ہیں اور بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور بدروحوں کو نکالتے ہیں؛ یہ بد روحوں کے کام کے سوا کچھ نہیں ہے، کیونکہ روح القدس آج کے دور میں ایسا کام نہیں کرتی، اور وہ سب جنہوں نے اُس وقت کے بعد سے روح القدس کے کام کی نقالی کی ہے، وہ بلا شبہ بدروحیں ہیں۔ اس وقت اسرائیل میں جتنا بھی کام ہوتا تھا وہ مافوق الفطرت نوعیت کا کام تھا، حالانکہ اب روح القدس اس طرح کام نہیں کرتی ہے اور اب ایسا کوئی بھی کام، شیطان کی نقالی اور بھیس بدلنا اور اس کی خلل اندازی ہے۔ لیکن تو یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ بھی مافوق الفطرت ہے وہ بدروحوں کی طرف سے آتا ہے – یہ خدا کے کام کے دور پر منحصر ہوگا۔ موجودہ زمانے میں مجسم خدا کے کام پر غور کر: اس کا کون سا پہلو مافوق الفطرت نہیں ہے؟ اس کا کلام تیرے لیے ناقابل فہم اور ناقابل حصول ہے، اور جو کام وہ کرتا ہے وہ کسی انسان سے نہیں ہو سکتا۔ جو کچھ وہ سمجھتا ہے انسان کے پاس وہ سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اور جہاں تک اس کے علم کا تعلق ہے، انسان نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتا ہے۔ کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ، "میں بھی تیری طرح عام ہوں، لیکن یہ کیسے ہے کہ میں وہ نہیں جانتا جو تو جانتا ہے؟ میں عمر میں بڑا ہوں اور زیادہ تجربے کار بھی ہوں، تو اس لیے تجھے کیسے اس بات کا علم ہو سکتا ہے جس کا علم مجھے نہ ہو؟" جہاں تک انسان کا تعلق ہے، یہ سب وہ چیز ہے جسے حاصل کرنے کا انسان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ پھر وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں، "اسرائیل میں کیے گئے کام کے بارے میں کوئی نہیں جانتا، اور یہاں تک کہ انجیل کی تشریح کرنے والے بھی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے؛ تو تجھے کیسے معلوم ہوا؟" کیا یہ سب مافوق الفطرت معاملات نہیں ہیں؟ اسے عجائبات کا کوئی تجربہ نہیں ہے، پھر بھی وہ سب کچھ جانتا ہے؛ وہ بڑی آسانی کے ساتھ سچ بولتا اور بیان کرتا ہے۔ کیا یہ مافوق الفطرت نہیں ہے؟ اس کا کام اس سے ماورا ہے جو جسم حاصل کر سکتا ہے۔ یہ گوشت پوست کا جسم رکھنے والے کسی بھی انسان کی سوچ کے لیے ناقابل حصول ہے اور انسان کے دماغ کے استدلال کے لیے بالکل ناقابل فہم ہے۔ اگرچہ اس نے کبھی انجیل نہیں پڑھی، لیکن وہ اسرائیل میں خدا کے کام کو سمجھتا ہے۔ اور اگرچہ وہ بولتے وقت زمین پر کھڑا ہے لیکن وہ تیسرے آسمان کے اسرار کے بارے میں بات کرتا ہے۔ جب انسان اس کلام کو پڑھے گا تو یہ احساس اس پر غالب آجائے گا: "کیا یہ تیسرے آسمان کی زبان نہیں ہے؟" کیا یہ تمام معاملات اس حد سے زیادہ نہیں ہیں جو ایک عام انسان حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس وقت، جب یسوع نے چالیس دن کے روزے رکھے، کیا یہ مافوق الفطرت نہیں تھا؟ اگر تو کہتا ہے کہ چالیس دن کے روزے ہر حال میں مافوق الفطرت ہیں، بد روحوں کا عمل ہے، تو ایسا کہنے سے کیا تو نے یسوع کی مذمت نہیں کی ہے؟ اپنی ذمہ داری سرانجام دینے سے پہلے، یسوع ایک عام انسان کی طرح تھا۔ وہ بھی مکتب گیا تھا؛ اس کے علاوہ وہ پڑھنا اور لکھنا کیسے سیکھ سکتا تھا؟ جب خُدا مجسم ہوا تو روح جسم کے اندر چھپ گئی۔ اس کے باوجود، ایک عام انسان ہونے کے ناطے، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ نشوونما اور بلوغت کے عمل سے گزرے، اور اس وقت تک جب تک کہ اس کی علمی صلاحیت پختہ نہ ہو جاتی، اور وہ چیزوں کو سمجھنے کے قابل نہ ہوجاتا، کیا اسے ایک عام انسان سمجھا جا سکتا تھا۔ اس کی انسانیت کے پختہ ہونے کے بعد ہی وہ اپنی ذمہ داری سر انجام دے سکتا تھا۔ اگر اس کی عام انسانیت ابھی ناپختہ ہوتی اور اس کا استدلال ناقص ہوتا تو وہ اپنی ذمہ داری کیسے سرانجام دے سکتا تھا؟ یقیناً اُس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ چھ یا سات سال کی عمر میں اپنی ذمہ داری سرانجام دیتا! خدا جب پہلی بار جسم بنا تو اس نے اپنے آپ کو کھلم کھلا ظاہر کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے جسم کی انسانیت ابھی ناپختہ تھی؛ اس کے جسم کے علمی عمل کے ساتھ ساتھ اس جسم کی عام انسانیت بھی پوری طرح سے اس کے قبضے میں نہیں تھی۔ اسی وجہ سے، اس کے لیے یہ انتہائی ضروری تھا کہ وہ اپنے کام کو شروع کرنے سے پہلے ایک عام انسانیت اور عام انسان کی عام فہم کا حامل ہو—اس مقام تک کہ جہاں وہ جسم میں اپنا کام کرنے کے لیے اچھی طرح لیس ہوجائے۔ اگر وہ کام کرنے کے قابل نہ ہوتا تو پھر اس کے لیے ضروری ہوتا کہ وہ مزید بڑھے اور پختگی حاصل کرے۔ اگر یسوع نے اپنا کام سات یا آٹھ سال کی عمر میں شروع کر دیا ہوتا تو کیا انسان اسے ایک عجوبہ نہ سمجھتا؟ کیا سب لوگ اسے ایک بچہ نہ سمجھتے؟ کون اس سے قائل ہو پاتا؟ سات یا آٹھ سال کا بچہ جس تقریر کرنے والے منبر کے پیچھے کھڑا ہوتا، وہ اس منبر سے لمبا نہ ہوتا۔ کیا وہ منادی کرنے کے قابل تھا؟ اپنی عام انسانیت کے پختہ ہونے سے پہلے، وہ اس کام کے لیے تیار نہیں تھا۔ جہاں تک اس کی اس وقت تک ناپختہ انسانیت کا تعلق ہے، تو اس کی وجہ سے کام کا ایک اچھا خاصا حصہ سرے سے ناقابل حصول تھا۔ جسم میں خدا کی روح کا کام بھی اس کے اپنے اصولوں کے تابع ہوتا ہے۔ صرف اس صورت میں جب وہ عام انسانیت سے لیس ہوتا ہے تو وہ کام شروع کر سکتا ہے اور باپ کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہے۔ صرف تب ہی وہ اپنا کام شروع کر سکتا ہے۔ اپنے بچپن میں، یسوع قدیم زمانے میں پیش آنے والے زیادہ تر واقعات کے بارے میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا تھا، اور صرف سناگوگ میں اساتذہ سے پوچھ کر ہی اسے سمجھ آیا۔ اگر وہ بولنا سیکھتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ غلطیاں نہ کرتا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا غلطی کر جائے؟ اس لیے، کام کرنے کے قابل ہونے کے بعد ہی اس نے اپنا کام شروع کیا؛ اس نے کوئی کام اس وقت تک انجام نہیں دیا جب تک کہ وہ اسے انجام دینے کی پوری صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ 29 سال کی عمر میں، یسوع کافی پختہ ہو چکا تھا اور اس کی انسانیت اس کام کو کرنے کے لیے کافی تھی جو اسے کرنا تھا۔ یہ صرف اس وقت ہی تھا کہ جب خُدا کی روح نے باضابطہ طور پر اُس میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ اُس وقت یوحنا نے اُس کی خاطر راستہ کھولنے کے لیے سات سال تک تیاری کی تھی، اور اپنا کام ختم کرنے پر اُسے جیل میں پھینک دیا گیا۔ پھر بوجھ مکمل طور پر یسوع پر آ گیا۔ اگر اس نے یہ کام 21 یا 22 سال کی عمر میں کیا ہوتا، ایک ایسے وقت میں جب کہ اس کی انسانیت کا فقدان تھا، جب وہ ابھی جوانی میں داخل ہی ہوا تھا، اور بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو وہ ابھی تک نہیں سمجھ سکا تھا، تو وہ ان پر قابو پانے سے قاصر ہوتا۔ اُس وقت، یسوع کے کام شروع کرنے سے کچھ عرصہ پہلے یوحنا اپنا کام انجام دے چکا تھا، اور اس وقت تک وہ ادھیڑ عمر کا ہو چکا تھا۔ اس عمر میں، اس کی عام انسانیت اس کام کو کرنے کے لیے کافی تھی جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ اب، مجسم خدا کے پاس بھی عام انسانیت ہے اور، اگرچہ تم میں سے بوڑھوں کے مقابلے میں پختگی سے کافی دور ہے، لیکن یہ انسانیت پہلے سے ہی اس کے کام کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج کے کام کے ارد گرد کے حالات مکمل طور پر یسوع کے زمانے کی طرح نہیں ہیں۔ یسوع نے بارہ رسولوں کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ سب کچھ اس کے کام کی مدد کے لیے تھا اور اس کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ ایک طرف تو یہ اُس کے کام کی اُس وقت بنیاد رکھنے کے لیے تھا، تو دوسری طرف یہ بعد میں آنے والے دنوں کے لیے بھی اُس کے کام کی بنیاد رکھنے کے لیے تھا۔ اس وقت کے کام کے مطابق، یہ یسوع کی مرضی تھی کہ وہ بارہ رسولوں کا انتخاب کرے، کیونکہ یہ خود خدا کی مرضی بھی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ اسے بارہ رسولوں کو چننا چاہیے اور پھر ہر جگہ منادی کے لیے ان کی راہنمائی کرنی چاہیے۔ لیکن آج تمہارے درمیان اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے! جب مجسم خدا جسم کی حالت میں کام کرتا ہے، تو بہت سے اصول ہوتے ہیں، اور بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کو انسان سرے سے سمجھ ہی نہیں پاتا؛ انسان اس کو جانچنے یا خدا سے ضرورت سے زیادہ مطالبات کرنے کے لیے مسلسل اپنے تصورات کا استعمال کرتا ہے، کرتا ہے۔ اس کے باوجود آج تک بہت سے لوگ اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ ان کا علم صرف اور صرف ان کے اپنے تصورات پر مشتمل ہے۔ خواہ کوئی بھی زمانہ یا جگہ ہو جہاں خدا مجسم ہوتا ہے، جسم میں اس کے کام کرنے کے اصول تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ جسم بنے اور پھر اپنے کام میں جسم سے ماورا بھی ہو جائے؛ اسکا امکان تو اور بھی کم ہے کہ وہ گوشت پوست کا بن سکے اور پھر بھی جسم کی عام انسانیت کے اندر کام نہ کر سکے۔ بصورت دیگر، مجسم خدا کی اہمیت ختم ہو جائے گی، اور کلام کا جسم بننا مکمل طور پر بے معنی ہو جائے گا۔ مزید برآں، صرف آسمانی باپ (روح) ہی مجسم خدا کے بارے میں جانتا ہے، اور کوئی اور نہیں، حتیٰ کہ خود جسم یا آسمانی قاصد بھی نہیں۔ ایسا ہونے کی وجہ سے، جسم میں خُدا کا کام اور بھی زیادہ معمول کی بات ہے اور یہ ظاہر کرنے کے اور بھی زیادہ قابل ہے کہ کلام واقعی جسم بن گیا ہے، اور جسم کا مطلب ایک معمولی اور عام انسان ہے۔

کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں، "دور کو خود خدا کی طرف سے کیوں شروع کیا جانا چاہیے؟ کیا کوئی مخلوق اس کی جگہ کھڑی نہیں ہو سکتی؟" تم سب جانتے ہو کہ خدا ایک نئے دور کے آغاز کے واضح مقصد کے لیے جسم بنتا ہے، اور یقیناً جب وہ نئے زمانے کا آغاز کرے گا، تو اسی وقت اس نے سابقہ دور کو ختم کر دیا ہوگا۔ خدا ابتدا اور انتہا ہے؛ یہ وہ خود ہے جو اپنے کام کو حرکت میں لاتا ہے اور اسی طرح لازماً اسے خود ہی سابقہ دور کو ختم کرنا چاہیے۔ یہ اس کی شیطان کی شکست اور دنیا پر اس کی فتح کا ثبوت ہے۔ ہر بار جب وہ خود انسان کے درمیان کام کرتا ہے تو یہ ایک نئی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ نئے کام کے آغاز کے بغیر، قدرتی طور پر پرانے کام کا اختتام نہیں ہو گا۔ اور جب پرانے کام کا اختتام نہیں ہوتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کے ساتھ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انسان شیطان کے تسلط سے مکمل طور پر آزاد ہو کر ایک نئی زندگی اور ایک نئی شروعات صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتا ہے جب خدا خود آتا ہے، اور انسان کے درمیان نیا کام کرتا ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ کے لیے بڑھاپے میں زندہ رہے گا اور ہمیشہ شیطان کے زیر اثر رہے گا۔ خدا کی زیرقیادت ہر دور کے ساتھ، انسان کا ایک حصہ آزاد ہو جاتا ہے، اور اس طرح انسان خدا کے کام کے ساتھ نئے دور کی طرف بڑھتا ہے۔ خُدا کی فتح کا مطلب اُن تمام لوگوں کی فتح ہے جو اُس کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر تخلیق شدہ انسانوں کی نسل کو دور کے اختتام کی ذمہ داری دے دی جائے تو پھر یہ انسان کے نقطہ نظر سے ہو یا شیطان کے، یہ خدا کی مخالفت یا خیانت کے عمل سے زیادہ نہیں ہوگی، یہ خدا کی اطاعت نہیں ہو گی اور انسان کا کام شیطان کا آلہ کار بن جائے گا۔ جب انسان خدا کی طرف سے شروع کردہ دور میں خدا کی اطاعت اور اس کی پیروی کرتا ہے تو صرف اسی صورت میں شیطان مکمل طور پر قائل ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ ایک مخلوق کا فرض ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ تمہیں صرف پیروی اور اطاعت کرنے کی ضرورت ہے، اور اس سے بڑھ کر تم سے کوئی تقاضا نہیں ہے۔ ہر ایک کی اپنے فرض کی پاسداری اور ہر ایک کا اپنا متعلقہ کام انجام دینے سے یہی مراد ہے۔ خدا اپنا کام خود کرتا ہے اور اسے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اس کی جگہ کام کرے اور نہ ہی خدا مخلوقات کے کام میں حصہ لیتا ہے۔ انسان اپنا فرض خود انجام دیتا ہے اور خدا کے کام میں حصہ نہیں لیتا۔ صرف یہی اطاعت ہے اور شیطان کی شکست کا ثبوت ہے۔ جب خُدا خود نئے دور کا آغاز کر چکا ہے، تو وہ اب مزید خود بنی نوع انسان کے درمیان کام کرنے کے لیے نیچے نہیں آتا ہے۔ صرف اس کے بعد ہی انسان اپنا فرض ادا کرنے اور ایک تخلیق شدہ وجود کے طور پر اپنے مشن کو انجام دینے کے لیے باضابطہ طور پر نئے دور میں قدم رکھتا ہے۔ یہ وہ اصول ہیں جن کے ذریعے خدا کام کرتا ہے، اور جن سے کوئی تجاوز نہیں کر سکتا۔ صرف اسی طرح کام کرنا ہی سمجھداری اور معقولیت ہے۔ خدا کا کام خدا نے خود کرنا ہے۔ وہی ہے جو اپنے کام کو حرکت میں لاتا ہے، اور وہی ہے جو اپنے کام کو ختم کرتا ہے۔ یہ وہی ہے جو کام کی منصوبہ بندی کرتا ہے، اور وہی ہے جو اس کا انتظام سنبھالتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر، یہ وہی ہے جو کام کو کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ انجیل میں بیان کیا گیا ہے، "میں ابتدا اور انتہا ہوں؛ میں بونے والا اور کاٹنے والا ہوں۔" جو کچھ اس کے انتظام کے کام سے متعلق ہے وہ خدا خود کرتا ہے۔ وہ چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کا حکمران ہے؛ اس کی جگہ کوئی اس کا کام نہیں کر سکتا اور کوئی اس کے کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ یہ وہی ہے جو ہر چیز کو اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ دنیا کو تخلیق کرنے کے بعد، وہ پوری دنیا کو اپنے نور میں رہنے کے لیے راہنمائی کرے گا، اور وہ پورے دور کا اختتام بھی کرے گا، اور اس طرح اپنی پوری منصوبہ بندی کو کامیاب کرے گا!

سابقہ: خدا کے کام کی بصیرت (3)

اگلا: خدا کی تجسیم کا راز (2)

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp