نجات دہندہ پہلے ہی "سفید بادل" پر واپس آ چکا ہے
کئی ہزارسال سے، انسان نجات دہندہ کی آمد دیکھنے کا اہل ہونے کے لیے ترس رہا ہے۔ انسان نے خواہش کی ہے کہ وہ سفید بادل پر سوار نجات دہندہ یسوع کو ان لوگوں کے درمیان بذات خود نزول فرماتے دیکھے جو ہزاروں سال سے اس کی آمد کے لیے تڑپ اور ترس رہے ہیں۔ انسان نے یہ بھی خواہش کی ہے کہ نجات دہندہ واپس آئے اور ان سے دوبارہ مل جائے؛ یعنی کہ نجات دہندہ یسوع مسیح کے لیے، جسے ہزاروں سال سے لوگوں سے جدا کر دیا گیا ہے، یہ خواہش رہی ہے کہ وہ واپس آئے اور ایک بار پھر خلاصی کا کام شروع کرے جو اس نے یہودیوں کے درمیان کیا تھا، انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئے، وہ انسان کے گناہ معاف کرے اور انسان کے گناہ اپنے سر لے، یہاں تک کہ انسان کی تمام خطائیں اپنے سر لے اور انسان کو گناہوں سے نجات دے۔ انسان نجات دہندہ یسوع کے حوالے سے یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ پہلے جیسا ہی ہو – ایک نجات دہندہ جو قابلِ محبت، مہربان اور قابل احترام ہے، جو کبھی بھی انسان پر غصہ نہیں کرتا، اور جو کبھی انسان کو ملامت نہیں کرتا، بلکہ وہ معاف کرتا ہے اور انسان کے تمام گناہوں کو اپنے سر لیتا ہے۔ اور جو پہلے کی طرح انسان کے لیے مصلوب بھی ہوسکتا ہے۔ یسوع کے چلے جانے کے بعد سے، وہ حواری جنھوں نے اس کی پیروی کی تھی، اور ساتھ ہی اس کے نام پر بچائے گئے تمام مقدسین، شدت سے اس کے لیے تڑپ رہے ہیں اور اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو فضل کے دور میں یسوع مسیح کے فضل سے بچائے گئے تھے آخری ایام میں اُس پرجوش دن کے لیے ترس رہے ہیں جب سفید بادل پر سوار یسوع نجات دہندہ کا تمام لوگوں کے سامنے ظہور ہوگا۔ یقیناً، یہ ان تمام لوگوں کی اجتماعی خواہش بھی ہے جو آج نجات دہندہ یسوع کا نام قبول کرتے ہیں۔ کائنات میں ہر وہ شخص جو نجات دہندہ یسوع مسیح کی نجات کے بارے میں جانتا ہے وہ یسوع مسیح کی اچانک آمد کے لیے بے تابی سے تڑپ رہا ہے کہ وہ آئے اور زمین پر رہتے ہوئے، جو اس نے کہا تھا اسے پورا کرے: "میں جیسے گیا تھا ویسے ہی میں آؤں گا"۔ انسان یقین رکھتے ہیں کہ مصلوبیت اور دوبارہ زندہ کیے جانے کے بعد، یسوع ایک سفید بادل پر آسمان پر واپس چلا گیا تاکہ وہ 'سب سے عظیم' کے داہنے ہاتھ پر اپنی جگہ لے سکے۔ ٹھیک اسی انداز میں، یسوع دوبارہ ایک سفید بادل پر (اس بادل سے مراد وہی بادل ہے جس پر یسوع سوار ہوا جب وہ آسمان پر واپس گیا)، ان لوگوں کے درمیان اترے گا جو ہزاروں سال سے اس کے لیے شدت سے تڑپ رہے ہیں، اور وہ یہودیوں کی صورت اختیار کرے گا اور ان کے لباس پہنے گا۔ انسان پر ظاہر ہونے کے بعد، وہ ان کو خوراک عطا کرے گا، اور ان کے لیے آب حیات کے چشمے جاری کرے گا اور انسانوں کے درمیان رہے گا، فضل سے بھرپور اور محبت سے سرشار، واضح اور حقیقی۔ یہ وہی تمام تصورات ہیں جن پر لوگ یقین رکھتے ہیں۔ پھر بھی یسوع نجات دہندہ نے ایسا نہیں کیا؛ اس نے انسان کے تصور کے برعکس کیا۔ وہ ان لوگوں میں نہیں آیا جو اس کی واپسی کے لیے تڑپ رہے تھے، اور وہ تمام لوگوں کے لیے سفید بادل پر سوار ظاہر نہیں ہوا۔ وہ پہلے ہی آچکا ہے مگر انسان لا علم ہے اور بدستور غافل ہے۔ انسان محض اس کا بے مقصد انتظار کر رہا ہے، اس بات سے بے خبر کہ وہ پہلے ہی ایک "سفید بادل" (بادل جو اس کی روح، اس کے الفاظ، اس کا پورا مزاج اور وہ سب کچھ ہے، جو وہ ہے) پر اتر چکا ہے، اور اب وہ غالب آنے والوں کے ایک گروہ میں شامل ہے جسے وہ آخری ایام کے دوران بنائے گا۔ انسان یہ نہیں جانتا: انسان کے لیے مقدس نجات دہندہ یسوع کے تمام تر پیار اور محبت کے باوجود، وہ ان "مندروں" میں کیسے کام کر سکتا ہے جہاں نجس اور ناپاک روحیں آباد ہیں؟ حالانکہ انسان اُس کی آمد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن وہ اُن لوگوں پر کیسے ظاہر ہو سکتا ہے جو بدکار کا گوشت کھاتے ہیں، بدکار کا خون پیتے ہیں، اور بدکار کا لباس پہنتے ہیں، جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اُسے جانتے نہیں، اور جو مسلسل اس سے زور زبردستی کرتے ہیں؟ انسان صرف اتنا جانتا ہے کہ یسوع نجات دہندہ محبت سے سرشار ہے اور رحم سے پُر ہے، اور وہ گناہ کا کفارہ کرنے والا، خلاصی سے لبریز ہے۔ تاہم، انسان کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہ خود خدا ہے، جو راست بازی، عظمت، غضب اور انصاف سے معمور ہے، اختیار کا مالک ہےاورسراپا وقار ہے۔ لہٰذا، اگرچہ انسان بے تابی سے خلاصی دہندہ کی واپسی کے لیے تڑپ اور ترس رہا ہے، اور یہاں تک کہ ان کی دعائیں "آسمان" کو ہلا دیتی ہیں، یسوع نجات دہندہ ان لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اسے نہیں جانتے۔
"یہوواہ"وہ نام ہے جو میں نے اسرائیل میں اپنے کام کے دوران اپنایا اور اس کا مطلب ہے بنی اسرائیل (خدا کے چُنے ہوئے لوگ) کا خدا جو انسان پر رحم کر سکتا ہے، انسان پر لعنت بھیج سکتا ہے اور انسان کو زندگی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ وہ خدا جو بڑی طاقت کا مالک ہے اور حکمت سے پُر ہے۔ "یسوع" عمانویل ہے، جس کا مطلب ہے گناہ کا چڑھاوا جو محبت سے سرشار ہے، شفقت سے مملو ہے اور جو انسان کو خلاصی دلاتا ہے۔ اس نے فضل کے دور کا کام کیا اور وہ فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور انتظامی منصوبے کے کام کے صرف ایک حصے کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف یہوواہ ہی اسرائیل کے چنے ہوئے لوگوں کا خدا ہے، وہ ابراہیم کا خدا، اسحاق کا خدا، یعقوب کا خدا، موسیٰ کا خدا اور اسرائیل کے تمام لوگوں کا خدا ہے۔ اور لہٰذا، موجودہ دور میں، یہودی لوگوں کے سوا، تمام اسرائیلی یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ قربان گاہ میں اُس کے لیے قربانیاں پیش کرتے ہیں اور راہبوں کے لباس زیب تن کرکے ہیکل میں اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ جس چیز کی امید کر رہے ہیں وہ یہوواہ کا دوبارہ ظہور ہے۔ صرف یسوع ہی بنی نوع انسان کا خلاصی دہندہ ہے، اور گناہ کی قربانی دینے والا وہی ہے جس نے بنی نوع انسان کو گناہ سے خلاصی دلائی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یسوع کا نام دور فضل سے آیا اور فضل کے دور میں خلاصی کے کام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ یسوع کا نام اس لیے وجود میں آیا تاکہ دور فضل کے لوگ دوبارہ جنم لے سکیں اور انہیں بچایا جا سکے، اور یہ پوری بنی نوع انسان کی خلاصی کے لیے ایک خاص نام ہے۔ اس طرح، یسوع نام خلاصی کے کام کی نمائندگی کرتا ہے، اور دور فضل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہوواہ نام اسرائیل کے لوگوں کے لیے ایک خاص نام ہے جو شریعت کے تحت رہتے تھے۔ کام کے ہر دور اور ہر مرحلے میں، میرا نام بے بنیاد نہیں ہے، لیکن نمائندہ اہمیت رکھتا ہے: ہر نام ایک دور کی نمائندگی کرتا ہے۔ "یہوواہ" شریعت کے دور کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ اعزاز ہے جس کے ذریعہ اسرائیل کے لوگوں نے اپنے خدا وند کو، جس کی وہ عبادت کرتے تھے، پکارا۔ "یسوع" فضل کے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ ان تمام لوگوں کے خدا کا نام ہے جنہیں فضل کے دور میں خلاصی دی گئی۔ اگر انسان اب بھی آخری دور میں نجات دہندہ یسوع کی آمد کی آرزو رکھتا ہے اور اب بھی اُس سے اُس صورت میں آنے کی امید رکھتا ہے جو اس نے یہودیہ میں اپنائی تھی تو چھ ہزار سالہ مکمل انتظامی منصوبہ خلاصی کے دور میں رک گیا ہوتا اور آگے نہ بڑھ سکتا۔ مزید برآں، آخری ایام کبھی نہیں آئیں گے اور دور کبھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یسوع نجات دہندہ صرف انسانوں کی خلاصی اور نجات کے لیے ہے۔ میں نے یسوع کا نام صرف فضل کے دور میں تمام گنہگاروں کی خاطر لیا، لیکن یہ وہ نام نہیں ہے جس سے میں پوری انسانیت کو ختم کروں گا۔ اگرچہ یہوواہ، یسوع، اور مسیحا سبھی میری روح کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ نام صرف میرے انتظامی منصوبے کے مختلف زمانوں کی نشاندہی کرتے ہیں، اور میری ذات کی تمامیت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ نام جن سے روئے زمین پر لوگ مجھے پکارتے ہیں وہ میرے مکمل مزاج اور جو کچھ میں ہوں اس کی تمامیت بیان نہیں کر سکتے۔ وہ محض مختلف نام ہیں جن سے مجھے مختلف زمانوں میں پکارا گیا ہے اور یوں، جب آخری دور – آخری ایام کا دور – آئے گا، میرا نام دوبارہ بدل جائے گا۔ مجھے یہوواہ یا یسوع نہیں کہا جائے گا، کجا یہ کہ مسیحا کے نام سے – میں خود طاقتور قادرِ مطلق خدا کہلاؤں گا اور اس نام کے تحت میں پورا دور ختم کروں گا۔ مجھے کبھی یہوواہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مجھے مسیحا بھی کہا جاتا تھا، اور لوگوں نے ایک وقت میں مجھے پیار اور عزت کے ساتھ یسوع نجات دہندہ بھی کہا۔ تاہم، آج میں وہ یہوواہ یا یسوع نہیں ہوں جسے لوگ ماضی میں جانتے تھے، میں وہ خدا ہوں جو آخری ایام میں واپس آیا ہے، وہ خدا جو دور ختم کرے گا۔ میں خود وہ خدا ہوں جو زمین کے آخری سرے سے اٹھتا ہے، اپنے پورے مزاج سے معمور نیز اختیار، عزت اور شان سے سرشار ہوں۔ لوگ کبھی میرے ساتھ شامل نہیں ہوئے، انھوں نے مجھے کبھی نہیں جانا اور ہمیشہ میرے مزاج سے ناواقف رہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کسی ایک شخص نے بھی مجھے نہیں دیکھا۔ یہ وہ خدا ہے جو آخری ایام میں انسان پر ظاہر ہوتا ہے لیکن انسانوں کے درمیان پوشیدہ ہے۔ وہ انسان کے درمیان رہتا ہے، سچا اور حقیقی، جلتے سورج اور بھڑکتے شعلے کی طرح، طاقت سے پُر اور اختیار سے لبریز۔ کوئی بھی شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جس کی عدالت میرے کلام سے نہیں کی جائے گی، اور کوئی ایک شخص یا چیز ایسی نہیں ہے جو آگ کے جلنے سے پاک نہ ہو۔ آخرکار، تمام قومیں میرے کلام کی وجہ سےنعمتیں پائیں گی اور میرے الفاظ کی وجہ سے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گی۔ یوں آخری ایام میں تمام لوگ دیکھیں گے کہ میں نجات دہندہ ہوں، واپس آیا ہوں، اور یہ کہ میں ہی وہ قادرِ مطلق خدا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کو فتح کرتا ہے۔ اور سب دیکھیں گے کہ میں کبھی انسان کے لیے گناہوں کا کفارہ تھا، لیکن یہ کہ آخری دنوں میں، میں سورج کے شعلے بن جاؤں گا جو تمام چیزوں کو جلا کر خاک کردیتے ہیں اور ساتھ ہی راستبازی کا سورج ہوں جو تمام چیزوں کو منکشف کرتا ہے۔ یہ آخری ایام میں میرا کام ہے۔ میں نے یہ نام لیا ہے اور میں اس مزاج کا حامل ہوں تاکہ سب لوگ دیکھیں کہ میں ایک راست باز خدا ہوں، جلتا ہوا سورج ہوں، بھڑکتا ہوا شعلہ ہوں اور سب میری عبادت کریں جو ایک حقیقی خدا ہے۔ تاکہ وہ میرا حقیقی چہرہ دیکھ سکیں: میں نہ صرف بنی اسرائیل کا خدا ہوں اور میں نہ صرف خلاصی دہندہ ہوں، میں آسمانوں اور زمین اور سمندروں کی تمام مخلوقات کا خدا ہوں۔
اگرنجات دہندہ آخری ایام میں آیا اور اس وقت بھی یسوع کہا گیا، اور ایک بار پھر یہودیہ میں پیدا ہوا اور وہاں اپنا کام کیا، تو اس سے ثابت ہوگا کہ میں نے صرف بنی اسرائیل کو پیدا کیا اور صرف اسرائیل کے لوگوں کو خلاصی دی، اوریہ کہ غیر قوموں کے ساتھ میرا کوئی سروکار نہیں ہے. کیا یہ میرے ان الفاظ کی تردید نہیں ہوگی کہ "میں ہی وہ خداوند ہوں جس نے آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کو پیدا کیا"؟ میں نے یہودیہ کو چھوڑا اور غیر قوموں میں اپنا کام کیا کیونکہ میں صرف بنی اسرائیل کا خدا نہیں ہوں بلکہ تمام مخلوقات کا خدا ہوں۔ میں آخری ایام میں غیرقوموں کے درمیان ظاہر ہوتا ہوں کیونکہ میں صرف یہوواہ -بنی اسرائیل کا خدا - نہیں ہوں، بلکہ، مزید برآں، اس لیے کہ میں غیر قوموں میں اپنے تمام منتخب شدہ لوگوں کا خالق ہوں۔ میں نے نہ صرف اسرائیل، مصر اور لبنان پیدا کیا بلکہ اسرائیل سے پرے تمام غیر قوموں کو پیدا کیا۔ اس کی وجہ سے میں تمام مخلوقات کا خداوند ہوں۔ میں نے اسرائیل کو محض اپنے کام کے نقطہ آغاز کے طور پر استعمال کیا، یہودیہ اور جلیل کو اپنے نجات کے کام کے مضبوط قلعے کے طور پر استعمال کیا، اور اب میں غیر قوموں کو اس بنیاد کے طور پر استعمال کر رہا ہوں جہاں سے میں پورا دور ختم کروں گا۔ میں نے اسرائیل میں کام کے دو مراحل مکمل کیے (کام کے یہ دو مراحل دورِ شریعت اور دورِ فضل ہیں)، اور میں کام کے مزید دو مراحل(دورِ فضل اور دورِ بادشاہی) اسرائیل سے باہر کی تمام سرزمینوں میں انجام دے رہا ہوں۔ غیرقوموں میں، میں فتح کا کام کروں گا اور اس طرح دور ختم کروں گا۔ اگرچہ انسان ہمیشہ سے مجھے یسوع مسیح کہتا آ رہا ہے، مگر یہ نہیں جانتا کہ میں نے آخری ایام میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور نئے کام کی ابتدا کی ہے، اور اگر انسان یسوع نجات دہندہ کی آمد کا شدت سے انتظار جاری رکھتا ہے، تو میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہوں گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے؛ یہ وہ لوگ ہیں جو مجھے نہیں جانتے، اور مجھ پران کا ایمان جھوٹا ہے۔ کیا ایسے لوگ آسمان سے نجات دہندہ یسوع کی آمد کے گواہ ہو سکتے ہیں؟ وہ جس چیز کا انتظار کر رہے ہیں وہ میری آمد کا انتظارنہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہودیوں کے بادشاہ کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مجھ سے اس ناپاک پرانی دنیا کو نیست و نابود کرنے کی تمنا نہیں رکھتے، بلکہ اس کے بجائے یسوع کی آمدِ ثانی کی آرزو رکھتے ہیں، جس کے بعد وہ خلاصی پا جائیں گے۔ وہ ایک بار پھر اس بات کے منتظر ہیں کہ یسوع تمام بنی نوع انسان کو اس ناپاک اور خطا کار سرزمین سے نجات دلائے۔ ایسے لوگ آخری ایام میں میرا کام پورا کرنے والے بندے کیسے بن سکتے ہیں؟ انسان کی خواہشات میری خواہشات پوری کرنے یا میرا کام مکمل کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ انسان صرف اس کام کی تعریف کرتا ہے یا اس کی قدر کرتا ہے جو میں پہلے کر چکا ہوں، اور اسے یہ اندازہ نہیں ہے کہ میں خود خدا ہوں جو ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوگا۔ انسان صرف یہ جانتا ہے کہ میں یہوواہ ہوں، اور یسوع ہوں، اور اسے خفیف سا بھی علم نہیں کہ میں آخری ایام میں سے ایک ہوں جو بنی نوع انسان کا خاتمہ کرے گا۔ وہ سب کچھ جو انسان آرزو رکھتا ہے اور جانتا ہے یہ اس کے اپنے تصورات سے ہے، اور وہ صرف وہی ہے جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ یہ میرے کام کے مطابق نہیں ہے، بلکہ اس کے برخلاف ہے۔ اگر میرا کام انسان کے خیالات کے مطابق انجام پاتا تو وہ کب ختم ہوتا؟ انسان کب آرام کرتا؟ اور میں ساتویں دن یعنی سبت میں کیسے داخل ہو پاتا؟ میں اپنے منصوبے اور اپنے مقصد کے مطابق کام کرتا ہوں – انسان کی نیت کے مطابق نہیں۔