خدا کی تجسیم کا راز (3)
جب خُدا اپنا کام کرتا ہے تو وہ کسی تعمیر یا تحریکوں میں مشغول ہونے کے لیے نہیں آتا، بلکہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے آتا ہے۔ ہر بار جب وہ جسم بنتا ہے تو یہ صرف کام کے ایک مرحلے کو پورا کرنے اور ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ بادشاہی کی تربیت کی طرح، اب بادشاہی کا دور بھی آ چکا ہے۔ کام کا یہ مرحلہ انسان کا کام نہیں ہے، اور یہ انسان پر ایک خاص حد تک کام کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرف خدا کے کام کے ایک حصے کو مکمل کرنے کے لیے ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے وہ انسان کا کام نہیں ہے، یہ زمین چھوڑنے سے پہلے انسان پر کام کرنے سے کوئی خاص نتیجہ حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ خدا کی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے اور اس کام کو مکمل کرنا ہے جو اسے کرنا چاہیے، جو کہ زمین پر اس کے کام کے لیے مناسب انتظامات کرنا ہے، اور اس کے ذریعے شہرت وعظمت حاصل کرنا ہے۔ مجسم خُدا کا کام روح القدس کے ذریعے استعمال کیے گئے لوگوں کے برعکس ہے۔ جب خُدا زمین پر اپنا کام کرنے آتا ہے تو اُسے صرف اپنی ذمہ داری کی تکمیل کی فکر ہوتی ہے۔ جہاں تک اس کی ذمہ داری سے غیر متعلق دیگر تمام معاملات کا تعلق ہے تو وہ ان میں تقریباً کوئی حصہ نہیں لیتا ہے، حتیٰ کہ تجاہلِ عارفانہ کی حد تک نظرانداز کرتا ہے۔ وہ صرف اس کام کو انجام دیتا ہے جو اسے کرنا چاہیے، اور جو کام انسان کو کرنا چاہیے، اس کے بارے میں تو وہ بالکل بھی فکرمند نہیں ہے۔ وہ جو کام کرتا ہے وہ صرف وہ ہے جس کا تعلق اس دور سے ہے جس میں وہ ہے اور یہ کام اس ذمہ داری سے متعلق ہے جو اسے لازمی طور پر پوری کرنی چاہیے، گویا باقی تمام معاملات اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بنی نوع انسان کے درمیان ایک شخص کے طور پر رہنے کے بارے میں زیادہ بنیادی علم فراہم نہیں کرتا، نہ ہی وہ زیادہ سماجی مہارتیں سیکھتا ہے، اور نہ ہی اپنے آپ کو کسی اور ایسی چیز سے آراستہ کرتا ہے جسے انسان سمجھتا ہے۔ انسان کو جو کچھ لازمی حاصل ہونا چاہیے اس کو اس سے قطعاً سروکار نہیں ہے اور وہ صرف وہ کام کرتا ہے جو اس کا فرض ہے۔ اور اس طرح، جیسا کہ انسان اسے دیکھتا ہے، مجسم خدا میں اس قدر کمی ہے کہ وہ ان بہت سی چیزوں پر بھی توجہ نہیں دیتا جو انسان کے پاس لازمی ہونی چاہییں، اور اسے ایسے معاملات کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔ ایسی چیزیں جیسے کہ زندگی کے بارے میں عام علم، نیز ذاتی طرزِعمل اور دوسروں کے ساتھ تعامل کے اصول، ان کا اس سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن تو مجسم خدا میں کسی خامی کے معمولی سے اشارے تک کو بھی بالکل محسوس نہیں کر سکتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی انسانیت صرف اس کی زندگی کو ایک عام انسان کے طور پر برقرار رکھتی ہے اور اس کے دماغ کا عام استدلال اسے صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ تاہم، وہ کسی اور چیز سے آراستہ نہیں ہے، وہ سب کچھ جو صرف انسان (پیدا کردہ مخلوق) کے پاس ہونا چاہیے۔ خدا صرف اپنی ذاتی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جسم بن جاتا ہے۔ اس کا کام پورے دور کے لیے ہوتا ہے، کسی ایک شخص یا جگہ پر نہیں بلکہ پوری کائنات میں ہوتا ہے۔ یہ اس کے کام کی سمت ہے اور وہ اصول ہے جس سے وہ کام کرتا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا، اور انسان کے پاس اس میں شامل ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ہر بار جب خُدا جسم بنتا ہے، وہ اپنے ساتھ اُس دور کا کام لاتا ہے، اور انسان کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کو تفصیلی طور پر جانچنے کے لیے اس کے ساتھ بیس، تیس، چالیس، حتیٰ کہ ستر یا اسی سال تک رہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے! ایسا کرنے سے کسی بھی طرح سے خدا کے جبلی مزاج کے بارے میں انسان کے علم میں اضافہ نہیں ہوگا؛ اس کی بجائے، یہ صرف اس کے تصورات میں اضافہ کرے گا اور اس کے تصورات اور خیالات میں تبدیلی اور بہتری نہ لانے کا سبب بنے گا۔ اس لیے تم سب کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مجسم خدا کا کام کیا ہے۔ یقیناً تم ان الفاظ کو سمجھنے میں ناکام نہیں ہو سکتے جو میں نے تم سے کہے تھے: "میں ایک عام انسان کی زندگی کا تجربہ کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں؟" کیا تم یہ الفاظ بھول گئے ہو: "خدا زمین پر ایک عام انسان کی زندگی گزارنے کے لیے نہیں آتا؟" تم خدا کے جسم بننے کے مقصد کو نہیں سمجھتے، اور نہ ہی تم اس کا مطلب جانتے ہو کہ "خدا کسی مخلوق کی زندگی کا تجربہ کرنے کے ارادے سے کیسے زمین پر آ سکتا ہے؟" خُدا زمین پر صرف اپنے کام کو مکمل کرنے کے لیے آتا ہے، اور اس لیے زمین پر اُس کا کام قلیل المدتی ہے۔ وہ زمین پر اس ارادے سے نہیں آیا کہ خُدا کی روح اپنے گوشت پوست کے جسم کو ایک اعلیٰ انسان کے طور پر کاشت کرے جو کہ کلیسیا کی قیادت کرے گا۔ جب خُدا زمین پر آتا ہے، تو یہ کلام کا جسم بننا ہے؛ تاہم، انسان اس کے کام کو نہیں جانتا اور زبردستی چیزوں کو اس کی طرف منسوب کرتا ہے۔ لیکن تم سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کلام ہے جو جسم بن گیا ہے، اور ایک گوشت پوست کا جسم نہیں ہے جسے خدا کی روح نے عارضی طور پر خدا کا کردار سنبھالنے کے لیے کاشت کیا ہے۔ خدا خود کاشت کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ کلام جسم بن گیا ہے، اور آج وہ تمہارے درمیان اپنا کام باضابطہ طور پر انجام دیتا ہے۔ تم سب جانتے ہو، اور تسلیم کرتے ہو کہ مجسم خدا ایک حقیقت پر مبنی سچائی ہے، پھر بھی تم اس طرح کام کرتے ہو جیسے کہ تم اسے سمجھتے ہو۔ مجسم خدا کے کام سے لے کر اس کے مجسم ہونے کی اہمیت اور جوہر تک، تم ان کو ہرگز سمجھنے کے قابل نہیں ہو اور صرف رٹے رٹائے کلام کو روانی سے پڑھنے میں دوسروں کی پیروی کرتے ہو۔ کیا تم مجسم خدا کو ایسا مانتے ہو جیسا کہ تم تصور کرتے ہو؟
خدا صرف اور صرف دَور کی قیادت کرنے اور نئے کام کو شروع کرنے کے لیے جسم بنتا ہے۔ تمہارے لیے اس نکتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ انسان کے کام سے بہت مختلف ہے، اور دونوں کا ذکر اکٹھے نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کو کام کرنے کے لیے استعمال کرنے سے پہلے ایک طویل عرصے تک کاشت اور کامل ہونے کی ضرورت ہے، اور جس قسم کی انسانیت کی ضرورت ہے وہ خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی ہے۔ انسان کو نہ صرف عام انسانیت کے احساس کو برقرار رکھنے کے لازمی قابل ہونا چاہیے، بلکہ اسے دوسروں کے سلسلے میں اپنے طرز عمل کو قابو میں رکھنے والے بہت سے اصولوں اور قواعد کو مزید سمجھنا چاہیے، اور، مزید برآں، اسے انسان کی حکمت اور اخلاقی علم کے بارے میں مزید مطالعہ کرنے کا لازماً پابند ہونا چاہیے۔ یہ وہی ہے جس سے انسان کو آراستہ ہونا چاہیے. تاہم، جسمانی خدا کے لیے ایسا نہیں ہے، کیونکہ اس کا کام نہ تو انسان کی اور نہ ہی انسان کے کام کی نمائندگی کرتا ہے؛ بلکہ یہ اس کے وجود کا براہ راست اظہار اور اس کام کا براہ راست نفاذ ہے جو اسے لازمی کرنا چاہیے۔ (فطری طور پر، اس کا کام مناسب وقت پر کیا جاتا ہے، اتفاقی یا بے ترتیب طور سے نہیں، اور یہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس کی ذمہ داری کو پورا کرنے کا وقت ہوتا ہے)۔ وہ انسان کی زندگی یا انسان کے کام میں حصہ نہیں لیتا، یعنی اس کی انسانیت ان میں سے کسی چیز سے آراستہ نہیں ہے (حالانکہ اس سے اس کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑتا)۔ وہ اپنی ذمہ داری کو صرف اس وقت پورا کرتا ہے جب اس کے لیے ایسا کرنے کا وقت ہوتا ہے؛ اس کی حیثیت کچھ بھی ہو، وہ صرف اس کام کو تیزی سے آگے بڑھاتا ہے جو اسے بڑھانا چاہیے۔ انسان جو کچھ بھی اُس کے بارے میں جانتا ہے اور اُس کے بارے میں انسان کی جو بھی رائے ہے، اس سے اُس کا کام مکمل طور پر متاثر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، جب یسوع نے اپنا کام انجام دیا، تو کوئی بھی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے، لیکن اس نے بس اپنے کام کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ اس میں سے کسی نے بھی اُس کام کو انجام دینے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جو اُسے انجام دینا چاہیے تھا۔ اس لیے، اس نے پہلے تو اپنی ذاتی شناخت کا اقرار یا اعلان نہیں کیا، اور انسان سے صرف اپنی پیروی کروائی۔ قدرتی طور پر یہ نہ صرف خُدا کی عاجزی تھی بلکہ وہ طریقہ بھی تھا جو خُدا نے جسمانی حالت میں کام کرتے ہوئے اختیار کیا۔ وہ صرف اسی طریقے سے کام کر سکتا تھا، کیونکہ انسان کے پاس اسے عام آنکھ سے پہچاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اور اگر انسان اسے پہچان بھی لیتا تو بھی وہ اس کے کام میں مدد کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ مزید برآں، وہ اس لیے جسم نہیں بنا کہ انسان اس کے جسم کو پہچانے؛ یہ کام کو انجام دینے اور اس کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ اس وجہ سے، اس نے اپنی شناخت کو عام کرنے کو اہمیت نہیں دی۔ جب اس نے وہ تمام کام مکمل کر لیے جو اسے لازمی کرنے چاہیے تھے، تو اس کی مکمل شناخت اور حیثیت انسان پر فطری طور پر واضح ہو گئی۔ گوشت پوست کا خُدا خاموش رہتا ہے اور کبھی کوئی اعلان نہیں کرتا۔ وہ نہ تو انسان کی طرف دھیان دیتا ہے اور نہ ہی اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ انسان اس کی پیروی کرنے میں کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، بلکہ صرف اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے اور اس کام کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے جو اسے لازمی کرنا چاہیے۔ کوئی بھی اس کے کام کی راہ میں حائل ہونے کے قابل نہیں ہے۔ جب اس کے اپنے کام کو ختم کرنے کا وقت آئے گا، تو اس کا یقینی طور پر اختتام ہو گا اور اسے ختم کر دیا جائے گا، اور کوئی بھی اس کے علاوہ کوئی حکم دینے کا اہل نہیں ہے۔ جب وہ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد انسان سے جدا ہو جائے گا تو صرف تب ہی انسان اس کام کو سمجھ پائے گا جو وہ کرتا ہے، حالانکہ پھر بھی پوری طرح سے واضح طور پر نہیں سمجھ پائے گا۔ اور انسان کو اس ارادے کو جس کے ساتھ خدا نے اپنا کام پہلی بار انجام دیا، پوری طرح سمجھنے میں کافی وقت لگے گا۔ دوسرے لفظوں میں، مجسم خدا کے دور کے کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصہ اس کام پر مشتمل ہے جو مجسم خدا کا جسم خود کرتا ہے اور وہ کلام جو مجسم خدا کا جسم خود ادا کرتا ہے۔ ایک بار جب اُس کے جسم کی ذمہ داری مکمل طور پر پوری ہو جاتی ہے تو کام کا دوسرا حصہ اُن لوگوں کے ذریعے انجام دینا باقی رہ جاتا ہے جو روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جس میں انسان کو اپنا کام پورا کرنا چاہیے، کیونکہ خدا نے پہلے ہی راستہ کھول دیا ہے، اور اس پر انسان کو خود چلنے کی ضرورت ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا جسم بن کر کام کا ایک حصہ انجام دیتا ہے، اور پھر روح القدس اور روح القدس کے ذریعے استعمال ہونے والے اس کام میں کامیاب ہوں گے۔ لہٰذا انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس مرحلے پر وہ کیا ناگزیر کام ہے جو بنیادی طور جسم بنے ہوئے خدا کی طرف سے انجام دیا جاتا ہے اور اسے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ خدا کے جسم بننے کی کیا اہمیت ہے اور وہ کام کیا ہے جو اسے کرنا چاہیے، اور انسان سے کیے جانے والے مطالبات کی طرح خدا سے مطالبات نہیں کرنے چاہییں۔ یہاں پر انسان کی غلطی، اس کا تصور، اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی نافرمانی کا معاملہ ہے۔
خدا اس ارادے سے جسم نہیں بنتا کہ وہ انسان کو اپنے جسم کو جاننے کی اجازت دے، یا انسان کو مجسم خدا کے اور انسان کے جسم کے درمیان فرق کو نمایاں کرنے کی اجازت دے؛ اور نہ ہی خُدا انسان کی قوتِ فہم کی تربیت کے لیے جسم بنتا ہے، اور پھر اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرے کہ انسان کو خُدا کے مجسم جسم کی پرستش کرنے کی اجازت دے، اور اس طرح عظیم شہرت و عظمت حاصل کرے۔ ان چیزوں میں سے کوئی بھی خدا کے جسم بننے کی وجہ نہیں ہے۔ نہ ہی خُدا اس لیے جسم بنتا ہے کہ وہ انسان کی ملامت کرے، جان بوجھ کر انسان کو ظاہر کرے، یا اُس کے لیے چیزوں کو مشکل بنائے۔ ان چیزوں میں سے کوئی بھی خدا کی منشا نہیں ہے۔ ہر بار جب خدا جسم بنتا ہے تو یہ کام کی ایک شکل ہوتی ہے جو کہ ناگزیر ہے۔ یہ اس کے عظیم تر کام اور اس کے عظیم تر انتظام کی خاطر ہے کہ وہ اس طرح عمل کرتا ہے، نہ کہ ان وجوہات کے لیے جن کا انسان تصور کرتا ہے۔ خدا زمین پر صرف اپنے کام کے تقاضے کے مطابق اور صرف جب ضروری ہو تب ہی آتا ہے۔ وہ زمین پر محض گھومنے اور دلچسپ مقامات دیکھنے کے ارادے سے نہیں آتا بلکہ اس کام کو انجام دینے کے لیے آتا ہے جو اسے کرنا چاہییں۔ ورنہ وہ اتنا بھاری بوجھ کیوں اٹھائے گا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے اتنا بڑا خطرہ کیوں مول لے گا۔ خدا صرف اس وقت جسم بنتا ہے جب اسے ایسا کرنا پڑتا ہے، اور ہمیشہ منفرد اہمیت کے ساتھ جسم بنتا ہے۔ اگر یہ صرف لوگوں کو اپنی طرف دیکھنے اور ان کے مفادات، مشاغل اور علم کو وسیع کرنے کی اجازت دینے کے لیے ہوتا تو وہ پورے یقین کے ساتھ کبھی بھی لوگوں کے درمیان اتنے غیر سنجیدہ انداز میں نہ آتا۔ وہ اپنے انتظام اور اپنے عظیم تر کام کے لیے زمین پر آتا ہے، اور اس لیے کہ وہ زیادہ انسانیت حاصل کر سکے۔ وہ دور کی نمائندگی کرنے آتا ہے، وہ شیطان کو شکست دینے آتا ہے، اور وہ شیطان کو شکست دینے کے لیے اپنے آپ کو جسم کا لباس پہناتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، وہ پوری نسل انسانی کی اپنی زندگی گزارنے میں راہنمائی کرنے کے لیے آتا ہے۔ یہ سب اس کے انتظام سے متعلق ہے، اور یہ پوری کائنات کے کام سے متعلق ہے۔ اگر خُدا محض انسان کو اپنے جسم کو جاننے اور لوگوں کو احساس دلانے کی خاطر جسم بنا ہے، تو وہ ہر قوم میں کیوں سفر نہیں کرتا؟ کیا یہ انتہائی آسان معاملہ نہیں ہوگا؟ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، اس کی بجائے اس نے بسنے کے لیے اور وہ کام شروع کرنے کے لیے جو اسے کرنا چاہیے، ایک مناسب مقام کا انتخاب کیا۔ صرف یہ جسم اکیلا ہی نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ وہ پورے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور پورے دور کا کام بھی کرتا ہے؛ وہ دونوں کام کرتا ہے، پرانے دور کو ختم کرتا ہے اور نئے دور کا آغاز کرتا ہے۔ یہ سب ایک اہم معاملہ ہے جس کا تعلق خدا کے انتظام سے ہے، اور یہ سب کام کے ایک مرحلے کی اہمیت ہے جسے انجام دینے کے لیے خدا زمین پر آتا ہے۔ جب یسوع زمین پر آیا تو اس نے صرف کچھ کلام کہا اور کچھ کام کیا؛ اسے انسان کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں تھا اور وہ اپنا کام مکمل کرتے ہی چلا گیا۔ آج، جب میں بولنا اور تم تک اپنا کلام پہنچانا ختم کر چکا ہوں گا، اور جب تم سب سمجھ چکے ہو گے، تو میرے کام میں یہ مرحلہ مکمل ہو چکا ہو گا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تمہاری زندگی کیسی ہو گی۔ مستقبل میں لازمی ایسے لوگ ہوں جو میرے کام میں اس مرحلے کو جاری رکھیں اور زمین پر ان الفاظ کے مطابق کام کرتے رہیں؛ اس وقت انسان کا کام اور انسان کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ لیکن، فی الحال، خُدا اپنا کام صرف اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے اور اپنے کام کا ایک مرحلہ مکمل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ خدا انسان کے برعکس انداز میں کام کرتا ہے۔ انسان اجتماعات اور جلسہ گاہوں کو پسند کرتا ہے، اور تقریب کو اہمیت دیتا ہے، جب کہ خدا جن کو سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہے، وہ انسانوں کے اجتماعات اور مجالس ہی ہیں۔ خدا انسان سے غیر رسمی طور پر گفتگو اور بات کرتا ہے؛ یہ خدا کا کام ہے، جو غیر معمولی طور پر آزاد ہے اور تمہیں بھی آزاد کرتا ہے۔ تاہم، میں تمہارے ساتھ اجتماع میں اکٹھا ہونے کو سخت ناپسند کرتا ہوں، اور میں تمہارے جیسی نظام کی پابند زندگی کا عادی بننے سے قاصر ہوں۔ مجھے قوانین سے سب سے زیادہ نفرت ہے؛ وہ انسان پر اس حد تک پابندیاں لگاتے ہیں کہ وہ حرکت کرنے سے ڈرتا ہے، بولنے سے ڈرتا ہے، اور گانے سے ڈرتا ہے، اس کی آنکھیں براہ راست تجھے گھور رہی ہیں۔ میں تمہارے اجتماع کرنے کے انداز کو سخت ناپسند کرتا ہوں اور میں بڑے اجتماعات کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ میں تمہارےے ساتھ اس طرح اجتماع میں اکٹھا ہونے سے سرے سے انکار کرتا ہوں، کیونکہ اس طرز زندگی سے انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور تم بہت زیادہ مجلسی رسوم اور بہت زیادہ قواعد پر عمل کرتے ہو۔ اگر تمہیں راہنمائی کرنے کی اجازت دی گئی تو تم تمام لوگوں کو قواعد کے دائرے میں لے جاﺆ گے، اور تمہاری قیادت میں ان کے پاس قواعد کو رد کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا؛ اس کی بجائے مذہبی فضا مزید شدید ہو جائے گی اور انسان کے معمولات بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ کچھ لوگ جب جمع ہوتے ہیں تو بولتے اور بولتے ہی رہتے ہیں اور وہ کبھی تھکتے نہیں ہیں، اور کچھ بغیر رکے کئی دنوں تک منادی کر سکتے ہیں۔ یہ سب بڑے اجتماعات اور انسانوں کی مجالس سمجھی جاتی ہیں؛ ان کا کھانے پینے، لطف اندوزی، یا روح کے آزاد ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب مجالس ہیں! تمہارے ساتھی کارکنان کی مجالس، نیز بڑے اور چھوٹے اجتماعات، سب مجھے سخت ناپسند ہیں، اور میں نے ان میں کبھی کوئی دلچسپی محسوس نہیں کی۔ یہ وہ اصول ہے جس کے ذریعے میں کام کرتا ہوں: میں اجتماعات کے دوران منادی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں، اور نہ ہی میں کسی بڑی عوامی مجلس میں کچھ اعلان کرنا چاہتا ہوں، اور اس کا امکان تو اور بھی کم ہے کہ ایک خصوصی اجلاس میں چند دنوں کے لیے تم سب کو اکٹھا کرنا چاہوں۔ مجھے یہ بات مناسب نہیں لگتی کہ تم سب ایک اجتماع میں، تکلف آمیز اور جچے تُلے انداز میں بیٹھو؛ میں تمہیں کسی بھی مجلسی رسوم کی حدود میں رہتے ہوئے دیکھنا سخت ناپسند کرتا ہوں، اور اس سے بھی بڑھ کر، میں تمہاری ایسی تقریب میں شرکت کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ جتنا زیادہ تم یہ کرتے ہو، مجھے یہ اتنا ہی زیادہ نفرت انگیز لگتا ہے۔ مجھے تمہاری ان تقاریب اور قواعد میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہے؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم ان کے بارے میں کتنا اچھا کام کرتے ہیں، مجھے وہ سب سخت ناگوار لگتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے انتظامات غیر موزوں ہیں یا تم بہت پست ہو۔ بات یہ ہے کہ میں تمہارے طرز زندگی سے نفرت کرتا ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر میں اس کا عادی ہونے سے قاصر ہوں۔ تم وہ کام بالکل بھی نہیں سمجھتے ہو جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ جب یسوع نے ماضی میں اپنا کام کیا تو، کسی جگہ وعظ کرنے کے بعد، وہ اپنے شاگردوں کو شہر سے باہر لے جاتا تھا اور اُن سے اُن طریقوں کے بارے میں بات کرتا تھا جن کا سمجھنا ان کے لیے نہایت ضروری تھا۔ وہ اکثر اسی انداز میں کام کرتا تھا۔ ہجوم کے درمیان اس کا کام بہت کم تھا۔ جو تم اس سے مانگتے ہو، اس کے مطابق جسم میں خدا کی زندگی ایک عام انسان کی طرح نہیں ہونی چاہیے؛ اسے اپنا کام لازمی کرنا چاہیے، اور چاہے وہ بیٹھا ہو، کھڑا ہو یا چل رہا ہو، اسے لازمی بولنا چاہیے۔ اسے لازمی ہر وقت کام کرنا چاہیے اور وہ کبھی بھی "کاروائیوں" کو ختم نہیں کر سکتا، ورنہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برت رہا ہو گا۔ کیا انسان کے یہ مطالبات انسانی عقل کے مطابق ہیں؟ تمہاری دیانت کہاں ہے؟ کیا تم بہت زیادہ نہیں مانگتے؟ کیا مجھے تمہاری ضرورت ہے کہ جب میں کام کروں تو تم میری جانچ کرو؟ کیا مجھے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے وقت تمہاری نگرانی کی ضرورت ہے؟ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے کون سا کام کرنا چاہیے اور کب کرنا چاہیے؛ دوسروں کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے. شاید تجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نے زیادہ کام نہیں کیا ہے، لیکن میرا کام تو ختم ہونے والا ہے۔ مثال کے طور پر چار انجیلوں میں یسوع کے کلام کو لے: کیا وہ بھی محدود نہیں تھا؟ اُس وقت جب یسوع عبادت گاہ میں داخل ہوا اور ایک وعظ کیا، وہ زیادہ سے زیادہ چند منٹوں میں ہی فارغ ہو گیا، اور جب وہ بول چکا تو اپنے شاگردوں کو کشتی پر لے گیا اور بغیر کسی وضاحت کے روانہ ہو گیا۔ زیادہ تر، سناگوگ کے اندر رہنے والوں نے آپس میں اس پر بحث کی، لیکن یسوع نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ خدا صرف وہی کام کرتا ہے جو اسے کرنا چاہیے، اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اب، بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ میں زیادہ بولوں اور زیادہ بات کروں، کم از کم دن میں کئی گھنٹے۔ جیسا کہ تم سمجھتے ہو، خدا اس وقت تک خدا نہیں رہتا جب تک کہ وہ نہ بولے، اور صرف وہی خدا ہے جو بولتا ہے۔ تم سب اندھے ہو! تمام وحشی! تم سب جاہل چیزیں ہو جن کو کوئی عقل نہیں ہے! تمہارے بہت زیادہ خیالات ہیں! تمہارے مطالبات حد سے بڑھ جاتے ہیں! تم غیر انسانی ہو! تم ہرگز یہ نہیں سمجھتے کہ خدا کیا ہے! تم مانتے ہو کہ تمام بولنے والے اور مقررین خدا ہیں، اور یہ کہ جو بھی تمہیں کلام فراہم کرنے کے لیے تیار ہے وہ تمہارا باپ ہے۔ مجھے بتاﺆ، کیا تم سب، اپنے اچھی طرح سے تشکیل شدہ خدوخال اور غیر معمولی شکل و صورت کے ساتھ، اب تھوڑا سا بھی احساس رکھتے ہو؟ کیا تم ابھی تک آسمان کے سورج کو جانتے ہو! تم میں سے ہر ایک لالچی اور بدعنوان اہلکار کی طرح ہے، تو تم عقل کی بات کیسے سمجھ سکتے ہو؟ تم صحیح اور غلط میں تفریق کیسے کر سکتے ہو؟ میں نے تمہیں بہت کچھ عطا کیا ہے لیکن تم میں سے کتنے لوگوں نے اس کی قدر کی ہے؟ اس پر مکمل طور پر کس کا قبضہ ہے؟ تم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے جس نے اس راستے کو کھولا جس پر تم آج چل رہے ہو، اس لیے تم مجھ سے یہ مضحکہ خیز اور نامعقول مطالبات کرتے رہتے ہو۔ کیا تم شرمندگی سے سرخ نہیں ہو؟ کیا میں بہت نہیں بول چکا ہوں؟ کیا میں نے کافی کچھ نہیں کیا ہے؟ تم میں سے کون ہے جو واقعی میرے کلام کو صحیح معنوں میں ایک خزانے کی طرح عزیز رکھ سکتا ہے؟ تم میری موجودگی میں میری چاپلوسی کرتے ہو، لیکن جب تم میرے سامنے نہ ہو تو جھوٹ بولتے ہو اور دھوکہ دیتے ہو! تمہارے اعمال انتہائی قابل نفرت ہیں، اور وہ مجھ سے بغاوت کرتے ہیں! میں جانتا ہوں کہ تم اپنی زندگیوں کو بدلنے کے لیے نہیں بلکہ لطف اندوز ہونے اور اپنے علم کو وسیع کرنے کے لیے مجھ سے بات کرنے اور کام کرنے کو کہتے ہو۔ میں تم سے بہت بات کر چکا ہوں۔ تمہاری زندگیوں کو بہت پہلے بدل جانا چاہیے تھا، تو پھر تم اب بھی اپنی پرانی بری حالتوں میں کیوں رہتے ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میرا کلام تم سے چھین لیا گیا ہو اور تم نے تک نہ پہنچا ہو؟ سچ کہوں تو میں تم جیسے زوال میں مبتلا لوگوں کے لیے مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ یہ بیکار ہو گا! میں اتنا فضول کام نہیں کرنا چاہتا! تم زندگی نہیں حاصل کرنا چاہتے بلکہ صرف اپنے علم کو وسیع کرنا چاہتے ہو یا لطف اندوز ہونا چاہتے ہو! تم سب اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ میں نے تم سے جو کچھ تمہارے سامنے کہا ہے تم نے اس پر کتنا عمل کیا ہے؟ تم صرف یہ کرتے ہو کہ دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے چالیں چلتے ہو! میں تم میں سے ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں جو تماشائی بن کر دیکھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں، اور مجھے تمہارا تجسس شدید نفرت انگیز لگتا ہے۔ اگر تم یہاں سچے راستے پر چلنے کی کوشش کرنے کے لیے نہیں ہو یا سچائی کے پیاسے نہیں ہو، تو تم میری نفرت کا شکار ہو! میں جانتا ہوں کہ تم میری بات صرف اپنے تجسس کو پورا کرنے کے لیے یا اپنی لالچی خواہشات میں سے ایک یا دوسری کو پورا کرنے کے لیے سنتے ہو۔ تمہارے ذہن میں سچائی کے وجود کی تلاش یا زندگی میں داخل ہونے کے لیے صحیح راستے کی تلاش کا کوئی خیال نہیں ہے؛ یہ مطالبات تمہارے درمیان سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ تم صرف یہ کرتے ہو کہ خدا کے ساتھ ایک کھلونے کی طرح سلوک کرتے ہو جس کا تم مطالعہ اور تعریف کرتے ہو۔ تم میں زندگی کی کوشش کرنے کا جذبہ بہت کم ہے، لیکن متجسس ہونے کی کافی خواہش ہے! ایسے لوگوں کو زندگی کا طریقہ سمجھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے؛ ہو سکتا ہے کہ میں بھی بالکل نہ بولوں! میں تمہیں بتاتا ہوں: اگر تم محض اپنے دل میں موجود خلاء کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہو، تو بہتر ہوتا کہ تم میرے پاس نہ آتے! تمہیں زندگی حاصل کرنے پر اہمیت دینی چاہیے! اپنے آپ کو بیوقوف نہ بناﺆ! تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم اپنے تجسس کو اپنی زندگی کے حصول کی بنیاد کے طور پر نہ لو یا مجھے تم سے بات کرنے کے مطالبے کے بہانے کے طور پر استعمال نہ کرو۔ یہ تمام چالیں ہیں جن میں تم انتہائی ماہر ہو! میں تجھ سے دوبارہ پوچھتا ہوں: میں تجھ سے جس چیز میں شریک ہونے کے لیے کہتا ہوں، تو اس میں سے کتنی میں واقعی شریک ہوا ہے؟ کیا تو نے وہ سب سمجھ لیا ہے جو میں نے تجھ سے کہا ہے؟ کیا تو ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جو میں نے تجھ سے کہی ہیں؟
ہر دور کا کام خدا خود شروع کرتا ہے، لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا جس طریقے سے بھی کام کرتا ہے، وہ کسی تحریک کو شروع کرنے، کوئی خاص اجلاس منعقد کرنے یا تمہاری طرف سے کسی قسم کی تنظیم کو قائم کرنے کے لیے نہیں آتا ہے۔ وہ صرف اس کام کو انجام دینے کے لیے آتا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ اس کا کام کسی آدمی کی رکاوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنا کام جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے یا کیا جانتا ہے، وہ صرف اپنے کام کو انجام دینے کے متعلق فکرمند ہے۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کام کے تین مراحل پہلے ہی ہو چکے ہیں؛ یہوواہ سے یسوع تک، اور قانون کے دور سے فضل کے دور تک، خدا نے انسان کے لیے کبھی کوئی خاص اجلاس نہیں بلائی، اور نہ ہی اس نے کبھی تمام بنی نوع انسان کو اکٹھا کیا ہے تاکہ ایک خصوصی عالمی مصروفِ کار اجلاس بلائی جائے اور اس طرح اپنے کام کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ وہ صرف یہ کرتا ہے کہ وہ پورے دور کے ابتدائی کام کو مناسب وقت اور مناسب جگہ پر انجام دیتا ہے، اس طرح دور کا آغاز کرتا ہے اور نسل انسانی کی راہنمائی کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارے۔ خصوصی اجلاس انسان کے اجتماعات ہیں؛ چھٹیاں منانے کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنا انسان کا کام ہے۔ خدا تعطیلات نہیں مناتا اور اس کے علاوہ، ان کو نفرت انگیز سمجھتا ہے؛ وہ خصوصی اجلاس منعقد نہیں کرتا اور مزید برآں، وہ انہیں نفرت انگیز سمجھتا ہے۔ اب تجھے ٹھیک سے سمجھنا چاہیے کہ وہ کام کیا ہے جو مجسم خدا کرتا ہے!