انسان کا جوہر اور شناخت
درحقیقت، بنی اسرائیل مایوس نہیں ہیں؛ وہ گذشتہ چھہ ہزار برسوں میں خدا کی طرف سے کیا گیا کام دیکھ چکے ہیں، کیوں کہ میں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ بلکہ، چوں کہ ان کے آبا و اجداد نے نیکی اور بدی کے کے علم کے درخت کا پھل کھایا ہے، جو شیطان کی طرف سے انھیں تحفے میں دیا گیا تھا، انھوں نے گناہ کے لیے میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ نیکی کا تعلق ہمیشہ مجھ سے رہا ہے، جب کہ بدی کا تعلق شیطان سے ہے جو گناہ کی خاطر میری چاپلوسی کرتا ہے۔ میں انسانوں کو قصور وار نہیں ٹھہراتا، نہ ہی میں انھیں ظالمانہ انداز میں ہلاک کرتا ہوں اور نہ ہی بے رحمی سے سزا کا نشانہ بناتا ہوں، کیوں کہ بدی کا تعلق اصلاً بنی نوع انسان سے نہیں ہے۔ لہٰذا، اگرچہ بنی اسرائیل نے مجھے سرِ عام صلیب پر میخوں سے جڑا تھا، وہ، جو مسیح اور یہوواہ کا انتظار کرتے ہیں اور نجات دہندہ یسوع کے لیے تڑپتے رہے ہیں، کبھی میرا وعدہ نہیں بھولے ہیں: کیوں کہ میں نے بہر حال ان سے قطع تعلق نہیں کیا ہے۔ بہرحال، میں نے انسانیت کے ساتھ قائم کردہ عہد کے ثبوت کے طور پر خون لیا تھا۔ یہ حقیقت نوجوان اور معصوم دلوں میں لکھا ہوا ”خون کا عہد“ بن گیا ہے، جیسے کسی برانڈ کی طرح اور آسمان اور زمین کی طرح ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر منحصر۔ کیونکہ میں نے ان غمگین روحوں کو کبھی دھوکا نہیں دیا جنھیں میں نے پہلے سے مقدر کیا، منتخب کیا، اور بعد میں چھڑایا اور حاصل کیا، اور جنھوں نے مجھ سے اس سے زیادہ پیار کیا ہے جتنا انھوں نے برّے سے پیار کیا ہے، وہ بے تابی سے میری واپسی کا قیاس لگاتے ہیں اور دل و جان سے میرے ساتھ ملاقات کا انتظار کرتے ہیں۔ چونکہ میں نے یہ عہد کبھی نہیں مٹا یا جو میں نے ان کے ساتھ خون سے قائم کیا تھا، اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ خلوصِ دل سے انتظار کر رہے ہیں۔ میں یہ بھیڑیں دوبارہ حاصل کروں گا جو برسوں سے کھوئی ہوئی ہیں، کیونکہ میں نے ہمیشہ انسانوں سے پیار کیا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ بدی کے عناصر ان کی نیکی میں شامل کیے گئے ہیں۔ میں وہ لاچار روحیں حاصل کروں گا جو مجھ سے پیار کرتی ہیں اور جن سے میں نے اتناعرصہ پیار کیا ہے، لیکن میں ان برے لوگوں کو اپنے گھر میں کیسے لا سکتا ہوں جنھوں نے مجھ سے کبھی پیار نہیں کیا، اور جنھوں نے دشمنوں کی طرح برتاؤ کیا؟ میں اپنی بادشاہی میں شیطان اور ناگ کی ان اولادوں کو نہیں لاؤں گا جو انسانیت کے ساتھ خون کے ذریعے قائم کیے گئے عہد کے باوجود مجھ سے نفرت، مخالفت، سرکشی کرتے ہیں، مجھ پر حملہ کرتے اور لعنت بھیجتے ہیں۔ تجھے یہ جاننا چاہیے کہ میرے کام کا مقصد کیا ہے، اور میں اسے کس کے لیے انجام دیتا ہوں۔ آیا تیری محبت میں نیکی ہے یا بدی؟ کیا تیرا میرے بارے میں علم داؤد اور موسی سے مشابہت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا ابراہام کی طرح تیری خدمت میرے لیے ہے یا نہیں؟ تُو میری طرف سے بے شک کامل کیا جا رہا ہے، لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تُو کس کی نمائندگی کرے گا، اور کس کے انجام میں تُو شریک ہوگا۔ تُونے اپنی تمام عمر، میرے کام کے اپنے تجربے میں، کیا تُو نے ایک مسرت بخش اور وافر فصل کاٹ لی ہے؟ کیا یہ فضل آور اور ثمر آور ہے؟ تجھے اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے: برسوں سے تُونے میری خاطر محنت کی ہے، لیکن کیا تُو نے کبھی کچھ حاصل کیا ہے؟ تیرے مشکل تجربات کے بدلے میں، کیا تُو پطرس کی طرح بن گیا ہے جو مصلوب ہوا تھا، یا پولس کی طرح جو نیچے پٹخ دیا گیا تھا اور جس نے ایک عظیم روشنی حاصل کی تھی؟ تجھے ان چیزوں کے بارے میں کچھ احساس ہونا چاہیے۔ میں مسلسل تیری زندگی کے بارے میں بات یا بحث نہیں کر رہا ہوں، جو کہ رائی کے بیج سے بھی ننھی اور ریت کے ذرّے سے بھی چھوٹی ہے۔ سادہ الفاظ میں، یہ بنی نوع انسان ہے جس کامیں انتظام کرتا ہوں۔ البتہ میں انسان کی زندگی کو، جس سے میں نے ایک دفعہ نفرت کی تھی لیکن بعد میں دوبارہ اٹھا لیا تھا، اپنے انتظام کا اہم حصہ نہیں سمجھتا۔ تجھے اپنی سابقہ شناخت کی حقیقی نوعیت کا واضح اندازہ ہونا چاہیے، نیز تم غلاموں کی حیثیت سے کس کی ملکیت تھے۔ اس لیے میں انسانوں کے چہرے استعمال نہیں کرتا، جو شیطانوں کی طرح ہیں، خام مال کے طور پر، جس سے لوگوں کو منظم کیا جائے، کیونکہ انسان کبھی قیمتی اشیا نہیں تھے۔ تمھیں یاد کرنا چاہیے کہ میں نے شروع میں تم سے کیا سلوک کیا تھا اور یاد رکھنا چاہیے کہ میں نے تمھیں اس وقت کس طرح مخاطب کیا تھا۔ یہ ایک ایسا خطاب تھا جو عملی اہمیت کے بغیرنہیں تھا۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تم جو لیبل پہنتے ہو وہ اپنی وجوہات کے بغیر نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم سب جانتے ہو کہ تم خدا کے نہیں تھے، بلکہ شیطان نے تمھیں بہت پہلے گرفتار کر لیا تھا اور تم اس کے گھر میں اس کے وفادار غلاموں کی طرح خدمت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ تم مجھے بہت پہلے بھول گئے تھے، کیونکہ تم میرے گھر سے باہر اور شیطان کے ہاتھوں میں بہت پہلے سے تھے۔ جن لوگوں کو میں نجات دیتا ہوں وہ انسان ہیں جنھیں میں نے بہت پہلے مقدر کیا تھا اور جنھیں میں نے نجات دی تھی، جبکہ تم لاچار روحیں ہو جنہیں انسانیت کے درمیان قانون سے استثناء کے طور پر رکھا گیا ہے۔ تمھیں یہ جاننا چاہیے کہ تم داؤد یا یعقوب کے گھرانے سے نہیں ہو بلکہ موآب کے گھرانے سے ہو جن کے لوگ غیر قوموں کے قبیلے سے ہیں۔ کیونکہ میں نے تم سے کوئی عہد نہیں باندھا بلکہ صرف کام کیا، تمھارے درمیان کلام کیا اور تمھاری راہنمائی کی۔ میرا خون تمھارے لیے نہیں بہایا گیا تھا، میں صرف اپنا کام تمھارے درمیان انجام دے رہا تھا تاکہ تم میری گواہی دو۔ کیا تم یہ نہیں جانتے؟ کیا میرا کام واقعی اس طرح کا ہے جیسے یسوع نے تمھاری خاطر خون بہایا؟ پہلی بات یہ کہ یہ میرے شایانِ شان نہیں تھا کہ میں نے تمھارے لیے اتنی بڑی رسوائی برداشت کی۔ خدا، جو گناہ سے متعلق پاک ہے، ایک انتہائی قابلِ نفرت اور مکروہ جگہ براہ راست آیا، خنزیر اور کتوں کی ایک ایسی دنیا جو انسانی رہائش کے لیے نا مناسب تھی، پھر بھی میں نے اپنے باپ کے جلال اور ابدی گواہی کے لیے یہ تمام ظالمانہ ذلتیں برداشت کیں۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمھارا رویہ کیا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم امیر اور طاقت ور خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے نہیں بلکہ محض شیطان کے آوارہ بچے ہو۔ تم انسانیت کےمورثِ اعلیٰ بھی نہیں ہو، اور نہ ہی تم انسانی حقوق یا آزادی رکھتے ہو۔ تم لوگوں کے لیے آسمان کی بادشاہی میں کوئی حصہ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تم انسانیت کی سب سے نیچے کی پرت پر ہو، اور میں نے کبھی تمھارے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا۔ پس اگرچہ یہ میرے منصوبے کا حصہ تھا کہ آج مجھ میں تمھیں کامل کرنے کا اعتماد ہو گا لیکن یہ کام بے مثال ہے کیونکہ تمھاری حیثیت بہت پست ہے اور تم نے بنی نوع انسان میں کوئی حصہ نہیں رکھا۔ کیا یہ انسان کے ایک صریح برکت نہیں ہے؟
جنھیں میں بچاتا ہوں وہ روحیں ہیں جنھیں میں نے طویل عرصے پہلے مقامِ کفارہ سے رہا کیا ہے، اس کے علاوہ وہ چنیدہ لوگ جن کے پاس میں طویل عرصے پہلے آیا تھا، کیوں کہ تڑپا کرتے تھے کہ میں ان درمیان دوبارہ نمودار ہوں۔ انھوں نے مجھ سے محبت کی ہے، اور میرا معاہدہ اپنے دلوں میں نقش کرلیا ہے، جو میں نے خون سے قائم کیا ہے، کیوں کہ میں نے ان سے محبت کی ہے۔ وہ ایسے راہ بھٹکے ہوئے برّے جو کئی برسوں سے مجھے تلاش کررہے ہیں، وہ نیک ہیں؛ لہٰذا، میں انھیں نیک بنی اسرائیل اور پیارے ننھے فرشتے کہتا ہوں۔ اگر میں ان میں ہوتا تو میں ایسی ذلت کا شکار نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھے اپنی جان سے زیادہ چاہتے ہیں، اور میں انھیں ہر چیز سے بڑھ کر خوب صورت سمجھتا ہوں۔ یہ اس لیے ہے کہ وہ میری طرف سے پیدا کیے گئے ہیں اور میری ملکیت ہیں۔ وہ مجھے کبھی نہیں بھولے۔ ان کی محبت تم سے زیادہ ہے، اور وہ مجھےاس سے زیادہ پیار کرتے ہیں جتنا تم اپنی زندگیوں سے پیار کرتے ہو۔ وہ میری اطاعت کرتے ہیں، جس طرح ننھی سفید فاختائیں آسمان کی اطاعت کرتی ہیں، اور ان کے دلوں میں تمھاری نسبت میری اطاعت زیادہ ہے۔ اور یہ اس لیے ہے کہ وہ یعقوب کی اولاد ہیں، آدم کی اولاد، اور میرے چنُے ہوئے لوگوں میں سے ہیں، کیونکہ میں ان سے بہت عرصے سے محبت کرتا ہوں – اور انھیں اس سے بھی زیادہ پیار کیا ہے جتنا میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم بہت سرکش ہو، تمھاری مزاحمت انتہائی سنگین ہے، تم مجھے بہت زیادہ حقارت کی نظرسے دیکھتے ہو، تم مجھ سے بہت سرد مہری کا برتاؤ کرتے ہو، تم مجھ سے بہت کم محبت کرتے ہو، اور تم مجھ سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہو۔ تم میرے کام سے نفرت کرتے ہو اور میرے کاموں کو بہت زیادہ حقیر جانتے ہو۔ ان کے برعکس، تم نے کبھی میرے اعمال کی قدر نہیں کی۔ اس کے بجائے، تم انھیں حقیر سمجھتے ہیں، تمھاری آنکھیں شیطان کی طرح فکر سے سرخ ہو جاتی ہیں۔ تمھاری اطاعت کہاں ہے؟ تمھارا کردار کہاں ہے؟ تمھاری محبت کہاں ہے؟ تم نے محبت کے ان اجزاکا مظاہرہ کب کیا ہے جو تمھارے اندر موجود ہیں؟ تم نے میرا کام کب سنجیدگی سے لیا ہے؟ ان خوبصورت فرشتوں پر ترس کھاؤ جو میرے آنے کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور میرے لیے جوش و خروش سے انتظار کرتے ہوئے بہت تکلیف اٹھاتے ہیں، کیونکہ میں ان سے بہت پیار کرتا ہوں۔ تاہم، جو میں آج دیکھ رہا ہوں وہ ایسی غیر انسانی دنیا ہے جس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ تمھارے ضمیر بہت پہلے سُن اور بے حس ہو گئے تھے؟ کیا تم نہیں سوچتے کہ تم وہ گندگی کی پوٹ ہو جو مجھے ان خوبصورت فرشتوں کے ساتھ دوبارہ ملنے سے روک رہے ہو؟ وہ کب میری واپسی کا انتظار نہیں کر رہے ہیں؟ وہ کب میرے ساتھ دوبارہ ملنے کا انتظار نہیں کر رہے ہیں؟ انھوں نے کب میرے ساتھ خوبصورت دن گزارنے اور میرے ساتھ کھانا کھانے کے قابل ہونے کی توقع نہیں کی ہے؟ کیا تمھیں کبھی احساس ہوا کہ تم آج کیا کر رہے ہو: دنیا بھر میں ہنگامہ آرائی؛ ایک دوسرے کے خلاف سازش؛ ایک دوسرے کو دھوکا دینا؛ غداری، خفیہ اور بے شرمی سے برتاؤ کرنا؛ سچائی نہ جاننا؛ اور فریب کاری کے ساتھ کام کرنا؛ چاپلوسی پر عمل پیرا ہونا؛ اپنے آپ کو ہمیشہ دوسروں سے درست اور بہتر سمجھنا؛ مغرور ہونا؛ اور پہاڑوں میں جنگلی جانوروں کی طرح وحشیانہ اور جانوروں کے بادشاہ کی طرح بے رحمی سے عمل کرنا – کیا یہ رویے انسان کے لیے موزوں ہیں؟ تُو بدتمیز اور نا معقول ہے۔ تُو نے کبھی میرے کلام کی قدر نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اختیار کیا ہے۔ ایسے میں کامیابیاں، حقیقی انسانی زندگی اور خوبصورت امیدیں کہاں سے آئیں گی؟ کیا واقعی تیرا حد سے متجاوز تخیل تجھے شیر کے منہ سے نجات دلائے گا؟ کیا یہ واقعی تجھے آگ کے شعلوں سے بچالے گا؟ اگر تُو واقعی میرے کام کو انمول خزانہ سمجھتا تو کیا تُو اس مقام تک گر جاتا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تیری تقدیر حقیقت میں تبدیل نہ ہو سکے؟ کیا تُو اس طرح کے پچھتاووں کے ساتھ مرنے کو تیار ہے؟