عمل (2)
گزشتہ زمانوں میں، لوگوں نے خود کو خدا کے ساتھ رہنے اور ہر لمحہ روح کے اندر رہنے کی تربیت دی تھی۔ آج کے عمل کے مقابلے میں، یہ روحانی تربیت کی ایک سادہ شکل ہے؛ لوگوں کے زندگی کے صحیح راستے پر آنے سے پہلے یہ عمل کا سب سے کم گہرائی والا اور آسان ترین طریقہ ہے، اور یہ لوگوں کے عقیدے پر عمل کے سب سے پہلے مرحلے کو تشکیل دیتا ہے۔ اگر لوگ ہمیشہ اپنی زندگی میں اس قسم کے عمل پر بھروسہ کرتے ہیں، تو وہ بہت زیادہ احساسات کے حامل ہوں گے اور ممکنہ طور پر غلطیاں کریں گے، اور وہ زندگی کے حقیقی عملی تجربات میں داخل ہونے سے قاصر ہوں گے؛ وہ صرف اپنی روحوں کی تربیت کرنے کے قابل ہوں گے، اپنے دلوں میں معمول کے مطابق خدا کے قریب جا سکیں گے، اور خدا کو اپنے ساتھ رکھنے میں ہمیشہ زبردست خوشی حاصل کریں گے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے ساتھ اپنی قربت کے چھوٹے دائرے تک محدود رکھیں گے، اور کسی بھی زیادہ گہری چیز تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوں گے۔ جو لوگ ان حدود میں رہتے ہیں وہ کوئی بڑی ترقی کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کسی بھی وقت، وہ یہ پکارنے پر مجبور ہو سکتے ہیں، "آہ! خداوند یسوع۔ آمین!" وہ عملی طور پر ہر روز اسی طرح ہوتے ہیں – یہ گزشتہ زمانے کا عمل ہے، ہر لمحے روح میں رہنے کا عمل ہے۔ کیا یہ بیہودہ نہیں ہے؟ آج، جب یہ خدا کے کلام پر غور کرنے کا وقت ہے، تو صرف خدا کے کلام پر ہی غور کرنے پر توجہ مرکوز کرو؛ جب سچائی پر عمل کرنے کا وقت ہو تو پھر صرف سچائی پر عمل کرنے پر توجہ دو؛ جب فرض ادا کرنے کا وقت ہو تو پھر صرف اپنا فرض ادا کرو۔ اس قسم کا عمل دراصل کافی آزاد کرنے والا ہے؛ یہ تمہیں رہا کرتا ہے۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ جیسے پرانے مذہبی لوگ دعا کرتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ پہلے، اہل ایمان کا یہی عمل تھا لیکن اب اس طریقے سے عمل کرنا بہت فرسودہ ہو گیا ہے۔ خدا کا کام اب ایک زیادہ بلند درجے پر ہے؛ جس چیز کے متعلق آج بات کی جاتی ہے، "خدا کو حقیقی زندگی میں لانا"، وہ عمل کا سب سے اہم پہلو ہے۔ یہ وہ معمول کی انسانیت ہے جس کا حامل ہونے کی لوگوں سے ان کی حقیقی زندگی میں توقع کی جاتی ہے، اور لوگوں کو اپنی معمول کی انسانیت میں جس چیز کا حامل ہونا چاہیے وہ تمام کلام ہے جو خدا آج کہتا ہے۔ خدا کے اس کلام کو حقیقی زندگی میں لانا "خدا کو حقیقی زندگی میں لانے" کا عملی مفہوم ہے۔ آج، لوگوں کو بنیادی طور پر خود کو مندرجہ ذیل چیزوں سے آراستہ کرنا چاہیے: ایک لحاظ سے، انہیں لازمی طور پر اپنی صلاحیت کو بہتر بنانا، تعلیم حاصل کرنا، اور اپنی پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہیے؛ ایک دوسرے لحاظ سے، انہیں لازمی طور پر ایک عام آدمی کی زندگی گزارنی چاہیے۔ تُو دنیا سے ابھی ابھی خدا کے سامنے آیا ہے؛ تجھے سب سے پہلے اپنے دل کو خدا کے سامنے خاموش رہنے کی تربیت دینی ہے۔ یہ عمل کا بالکل آغاز ہے، اور یہ تیری زندگی کے مزاج میں تبدیلی کے حصول کا پہلا قدم بھی ہے۔ کچھ لوگ اپنے عمل میں نسبتاً موافق ہوتے ہیں؛ وہ کام کرتے ہوئے سچائی پر غور کرتے ہیں، ان سچائیوں اور عمل کرنے کے اصولوں کو سمجھتے ہیں جن کی انھیں حقیقت میں سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ تیری لازمی طور پر ایک عام انسانی زندگی ہونی چاہیے، اور دوسرا یہ کہ سچائی میں داخلہ ضرور ہونا چاہیے۔ یہ تمام چیزیں حقیقی زندگی کے لیے بہترین عمل میں شامل ہیں۔
خدا کو لوگوں کی حقیقی زندگیوں میں لانے کے لیے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت کریں، خدا کو جاننے کی کوشش کریں، اور عام انسانیت کے اندر خدا کی مخلوق کا فرض ادا کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جب بھی کوئی کام کریں تو انھیں لازمی طور پر خدا سے دعا کرنی ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے اور اگر وہ دعا نہیں کرتے ہیں تو وہ خود کو اس کا مقروض محسوس نہ کریں۔ آج کا عمل ایسا نہیں ہے؛ یہ واقعی آرام دہ اور آسان ہے! یہ لوگوں سے عقائد کی پابندی کا تقاضا نہیں کرتا ہے۔ بلکہ ہر فرد کو اپنی انفرادی حیثیت کے مطابق عمل کرنا چاہیے: اگر تیرے خاندان کے لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کے ساتھ ایمان نہ رکھنے والوں سا سلوک کر اور اگر وہ ایمان لاتے ہیں تو ان کے ساتھ ایمان رکھنے والوں جیسا سلوک کر۔ محبت اور صبر سے کام نہ لے، بلکہ حکمت سے کام لے۔ کچھ لوگ سبزی خریدنے باہر جاتے ہیں اور چلتے چلتے وہ بڑبڑاتے ہیں: "اے خدا! آج تو مجھ سے کون سی سبزیاں خریدوائے گا؟ میں تجھ سے مدد کی درخواست کرتا ہوں۔ خدا چاہتا ہے کہ ہم ہر چیز میں اس کے نام کی عظمت بیان کریں اور یہ کہ ہم سب گواہی دیں، لہذا اگر بیچنے والا مجھے کوئی گلی سڑی چیز بھی دے تو میں پھر بھی خدا کا شکر ادا کروں گا – میں برداشت کروں گا۔ ہم جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں ہم سبزیوں کا انتخاب کر کے نہیں چن سکتے۔" وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا گواہی ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ تھوڑی سی گلی سڑی سبزیاں خریدنے کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں، لیکن وہ اس کے باوجود دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "اے خدا! اگر تو اسے قابل قبول سمجھے تو میں یہ گلی سڑی سبزیاں بھی کھا لوں گا۔" کیا یہ عمل نامعقول نہیں ہے؟ کیا یہ عقیدے کی پیروی نہیں کرنا ہے؟ اس سے پہلے، لوگوں نے ہر لمحہ روح میں رہنے کی تربیت دی – یہ اس گزشتہ کیے گئے کام سے متعلق ہے جو فضل کے دور میں کیا گیا تھا۔ پرہیزگاری، عاجزی، محبت، صبر، ہر چیز کے لیے شکر ادا کرنا – یہ وہ چیزیں تھیں جو فضل کے دور میں ہر ایمان رکھنے والے کے لیے ضروری تھیں۔ اُس وقت، لوگ سب چیزوں میں خدا سے دعا کرتے تھے؛ جب وہ کپڑے خریدتے تھے تو دعا کرتے تھے، اور جب کسی اجتماع کی اطلاع ملتی تھی تو بھی وہ دعا کرتے تھے: "اے خدا! کیا تو مجھے جانے دے گا یا نہیں؟ اگر تو مجھے جانے دینا چاہتا ہے تو میرے لیے ایک ہموار راستہ تیار کر دے۔ اگر تو مجھے جانے نہیں دینا چاہتا ہے، تو مجھے ٹھوکر کھا کر گرنے دے۔" وہ دعا کرتے ہوئے خدا سے التجا کرتے اور دعا کرنے کے بعد وہ بے چینی محسوس کرتے اور نہیں جاتے۔ کچھ بہنیں، اس خوف سے کہ اجتماعات سے گھر واپس آنے پر انہیں اپنے ایمان نہ رکھنے والے شوہروں کی پٹائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جب وہ دعا کرتیں تو بے چین ہو جاتیں اور اس لیے اجتماعات میں نہ جاتیں۔ وہ اس کو خدا کی مرضی مانتی تھیں، جب کہ حقیقت میں، اگر وہ چلی جاتیں تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک اجتماع سے محروم رہ گئیں۔ یہ سب لوگوں کی جہالت کا نتیجہ تھا۔ جو لوگ اس طرح عمل کرتے ہیں وہ سب اپنے اپنے احساسات میں جیتے ہیں۔ عمل کرنے کا یہ طریقہ بہت غلط اور نامعقول ہے اور ابہام سے رنگا ہوا ہے۔ ان کے ذاتی احساسات اور خیالات بہت زیادہ ہیں۔ اگر تجھے کسی اجتماع کے بارے میں بتایا جائے تو تُو اس میں جا؛ خدا سے دعا کرنے کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ کیا یہ آسان نہیں ہے؟ اگر تجھے آج کوئی کپڑا خریدنے کی ضرورت ہے، تو فوراً باہر جا اور خرید لے۔ خدا سے دعا نہ کر اور یہ مت کہہ: "اے خدا! کیا تو مجھے جانے دے گا یا نہیں؟ اگر میرے جانے کے بعد بھائی بہنوں میں سے کوئی آیا تو کیا ہوگا؟" تو اس ڈر سے نہیں جاتا کہ کہیں کوئی بھائی یا بہن نہ آ جائے، پھر بھی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی بھی نہیں آتا اور شام ڈھل جاتی ہے۔ فضل کے دور میں بھی، عمل کا یہ طریقہ منحرف اور غلط تھا۔ لہٰذا اگر لوگ گزشتہ زمانوں کی طرح عمل کرتے ہیں تو ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جو کچھ بھی ہو گا وہ محض نادانی میں اس سے سمجھوتہ کر لیں گے، فہم و فراست پر کوئی توجہ نہیں دیں گے، اور آنکھیں بند کر کے اطاعت اور برداشت کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔ اُس وقت، لوگوں نے خُدا کی عظمت بیان کرنے پر توجہ مرکوز کی – لیکن خُدا نے اُن سے کوئی عظمت حاصل نہیں کی، کیونکہ اُنھوں نے کسی بھی عملی چیز کے مطابق زندگی بسر نہیں کی تھی۔ انہوں نے محض اپنے آپ کو روکا اور اپنے ذاتی تصورات کے مطابق خود کو محدود کیا اور کئی سالوں کا عمل بھی ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لایا۔ وہ صرف برداشت کرنا، عاجز بننا، محبت کرنا اور معاف کرنا جانتے تھے لیکن ان میں روح القدس کی جانب سے عطا کی گئی ذرا سی اگہی بھی نہیں تھی۔ اس طریقے سے لوگ خدا کو کیسے جان سکتے ہیں؟ اور ان کا خدا کی عظمت بیان کرنے کا امکان کیسے ہو سکتا ہے؟
اگر لوگ خدا کو اپنی حقیقی زندگیوں اور اپنی معمول کی انسانی زندگیوں میں لے آئیں تو صرف اسی صورت میں وہ خدا پر ایمان کے صحیح راستے پر داخل ہو سکتے ہیں۔ آج خدا کا کلام تمہاری راہنمائی کرتا ہے؛ گزشتہ زمانے کی طرح تلاش کرنے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب تو خدا کے کلام کے مطابق عمل کر سکتا ہے، اور میری عیاں کی ہوئی انسانی حالتوں کے مطابق اپنی جانچ کر سکتا ہے اور اپنے متعلق اندازہ لگا سکتا ہے، تو تُو تبدیلی حاصل کر سکے گا۔ یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ وہ ہے جو خدا انسان سے چاہتا ہے۔ آج، میں تجھے بتاتا ہوں کہ حالات کیسے ہیں: تُو صرف میرے کلام کے مطابق عمل کرنے کے ساتھ اپنا تعلق رکھ۔ تجھ سے میرے تقاضے ایک عام انسان کی ضروریات پر مبنی ہیں۔ میں پہلے ہی تجھے اپنا کلام بتا چکا ہوں؛ جب تک تو اس پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھے گا، تو خدا کے ارادے سے ہم آہنگ رہے گا۔ اب خدا کے کلام کے اندر رہنے کا وقت ہے۔ خدا کے کلام نے ہر چیز کی وضاحت کردی ہے، سب کچھ واضح کر دیا گیا ہے، اور جب تک تو خدا کےکلام کے مطابق زندگی بسر کرے گا، تو ایک ایسی زندگی گزارے گا جو مکمل طور پر آزاد ہو گی۔ ماضی میں، جب لوگ خدا کو اپنی حقیقی زندگیوں میں لائے تھے، تو انہوں نے عمل کیا تھا اور بہت زیادہ عقیدے اور رسموں سے گزرے تھے؛ معمولی معاملات میں بھی، وہ خدا کے واضح آزمائے ہوئے کلام کو ایک طرف رکھ کر اور اس کو پڑھنے سے گریز کرتے ہوئے دعا مانگتے اور تلاش کرتے تھے۔ اس کی بجائے، وہ اپنی تمام تر کوششیں تلاش کرنے کے لیے وقف کرتے – جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بے اثر رہیں۔ مثال کے طور پر خوراک اور لباس کے مسائل کو لے: تو دعا کرتا ہے اور ان معاملات کو خدا کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، اور مطالبہ کرتا ہے کہ خدا تیرے لیے ہر چیز کو ترتیب دے۔ جب خُدا اِن الفاظ کو سُنے گا تو وہ کہے گا: "کیا مجھے ایسی معمولی تفصیلات کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟ معمول کی وہ انسانیت اور عقل کہاں گئی جو میں نے تیرے لیے تخلیق کی تھی؟" کبھی کبھار، کوئی اپنے اعمال میں غلطی کرتا ہے؛ پھر وہ یہ یقین کر لیتا ہے کہ اس نے خدا کو ناراض کر دیا ہے اور وہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی حالت بہت اچھی ہوتی ہے، لیکن جب وہ کوئی چھوٹی سی چیز غلط کرتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ان کی تادیب کر رہا ہے۔ اصل میں یہ خدا کا کام نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کے اپنے ذہنوں کا اثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی، تو جو عملی تجربہ کر رہا ہوتا ہے اس میں کچھ غلط نہیں ہوتا ہے لیکن دوسرے یہ کہتے ہیں کہ تو درست عملی تجربہ نہیں کر رہا ہے، اور اس طرح تو جال میں پھنس جاتا ہے – تو اندرونی طور پر منفی اور تاریک ہو جاتا ہے۔ اکثر، جب لوگ اس طرح منفی ہو جاتے ہیں، تو وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ان کی تادیب کی جا رہی ہے، لیکن خدا کہتا ہے: "میں نے تجھ میں تادیب کا کوئی کام نہیں کیا ہے؛ تو مجھ پر اس طرح الزام کیسے لگا سکتا ہے؟" لوگ بہت آسانی سے منفی ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر زودرنج بھی ہوتے ہیں اور اکثر خدا کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ خدا تجھ سے اس طرح تکلیف اٹھانے کا تقاضا نہیں کرتا ہے لیکن اس کے باوجود تو خود اپنے آپ کو اس حالت میں مبتلا ہونے دیتا ہے۔ اس قسم کی تکلیف اٹھانے کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ لوگ خدا کے کیے ہوئے کام کو نہیں جانتے، اور وہ بہت سی چیزوں میں لاعلم ہوتے ہیں اور وہ واضح طور پر دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے ہی تصورات اور تخیلات میں پھنس جاتے ہیں، اور مزید گہری الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سب چیزیں اور معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں – تو کیا خدا یہ نہیں جان سکتا کہ لوگ کب منفی ہوتے ہیں؟ بےشک خدا جانتا ہے۔ جب تو انسانی تصورات میں پھنس جاتا ہے تو مقدس روح کے پاس تجھ میں کام کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات، کچھ لوگ منفی حالت میں پھنس جاتے ہیں، لیکن میں پھر بھی اپنے کام کو جاری رکھتا ہوں۔ چاہے تو منفی ہو یا مثبت، میں تیری وجہ سے مجبور نہیں ہوتا ہوں – لیکن تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں جو بہت سا کلام کہتا ہوں، اور لوگوں کی حالتوں کے مطابق جو بہت سا کام میں کرتا ہوں، ان کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ جب تو منفی ہوتا ہے تو یہ روح القدس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ تادیب اور موت کی آزمائش کے دوران، سب لوگ منفی حالت میں پھنسے ہوئے تھے، لیکن اس نے میرے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ جب تو منفی تھا تو روح القدس نے وہ کام جاری رکھا جو دوسروں میں کرنے کی ضرورت تھی۔ ہو سکتا ہے کہ تو ایک مہینے تک جستجو کرنا چھوڑ دے، لیکن میں کام جاری رکھتا ہوں – تو حال یا مستقبل میں جو کچھ بھی کرتا ہے، وہ روح القدس کے کام کو نہیں روک سکتا ہے۔ کچھ منفی حالتیں انسانی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں؛ جب لوگوں کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے تقاضوں کو پورا کرنے یا ان کو سمجھنے سے واقعی قاصر ہیں تو وہ منفی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، تادیب کے وقت کے دوران، خدا کا کلام تادیب کے درمیان ایک خاص مقام تک خدا سے محبت کرنے کی بات کرتا تھا، لیکن لوگ خود کو نااہل سمجھتے تھے۔ انہوں نے خاص طور پر افسوس اور شدید رنج کا اظہار کیا کہ شیطان نے ان کے جسم کو اتنا بدعنوان بنا دیا تھا، اور ان کی صلاحیت بہت ہی کم تھی۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ وہ اس ماحول میں پیدا ہوئے۔ اور کچھ لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے خدا پر ایمان لانے اور خدا کو جاننے میں بہت دیر ہو چکی ہے، اور یہ کہ وہ کامل بنائے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ یہ سب معمول کی انسانی حالتیں ہیں۔
انسان کا جسم شیطان کا ہے، یہ باغیانہ مزاج سے بھرپور ہے، یہ قابلِ نفرت حد تک غلیظ ہے، اور یہ ناپاک چیز ہے۔ لوگ جسمانی لذت کی بہت زیادہ خواہش کرتے ہیں اور جسم کے بہت زیادہ مظاہر ہوتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خدا انسان کے جسم سے ایک حد تک نفرت کرتا ہے۔ جب لوگ شیطان کی غلیظ اور بدعنوان چیزوں کو ترک کر دیتے ہیں، تو تب وہ خدا کی نجات حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اب بھی خود کو غلاظت اور بدعنوانی سے نہیں بچاتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی شیطان کے زیر تسلط زندگی گزار رہے ہیں۔ لوگوں کا سازشیں کرنا، ان کی دھوکے بازی اور عیاری، یہ سب شیطان کے کام ہیں۔ تجھے شیطان کی ان چیزوں سے باہر نکالنا ہی خدا کا تجھے نجات دینا ہے۔ خدا کا کام غلط نہیں ہو سکتا ہے؛ یہ سب کچھ لوگوں کو ظلمت سے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب تو ایک خاص مقام تک ایمان لے آتا ہے اور اپنے آپ کو جسم کی بدعنوانی سے بچا سکتا ہے، اور مزید اس بدعنوانی سے جکڑا نہیں جاتا ہے، تو کیا تجھے بچا نہیں لیا گیا ہو گا؟ جب تو شیطان کے زیر تسلط رہتا ہے تو تُو خدا کا اظہار کرنے سے قاصر ہے، تُو کوئی غلیظ چیز ہے اور تو خدا کی میراث حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ ایک بار جب تو پاک ہو جائے گا اور کامل بنا دیا جائے گا تو تُو مقدس ہو جائے گا، اور تو ایک عام شخص ہو گا، اور تجھے خدا کی برکت ملے گی اور تو خدا سے خوش ہو گا۔ خدا کا آج کیا ہوا کام نجات ہے، اور اس کے علاوہ، یہ عدالت، تادیب اور لعنت ہے۔ اس کے متعدد پہلو ہیں۔ تم سب دیکھتے ہو کہ خدا کے کلام میں عدالت اور تادیب کے ساتھ ساتھ لعنت بھی ہوتی ہے۔ میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے نہیں بلکہ ایک اثر حاصل کرنے کے لیے بولتا ہوں تاکہ لوگ اپنے آپ کو پہچان لیں، میرا دل تمہاری خاطر ہے۔ بولنا میرے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے؛ کلام کے ذریعے میں خدا کے مزاج کا اظہار کرتا ہوں اور تجھے خدا کی مرضی کو سمجھنے دیتا ہوں۔ تیرا جسم مر سکتا ہے، لیکن تیرا ایک غیر مادی وجود اور روح ہے۔ اگر لوگوں کے پاس صرف جسم ہوتا تو پھر ان کے ایمان کا کوئی مقصد نہ ہوتا اور نہ ہی اس سارے کام کا کوئی مقصد ہوتا جو میں نے کیا ہے۔ آج، میں ایک انداز سے بات کرتا ہوں اور پھر دوسرے انداز سے؛ ایک وقت کے لیے میں لوگوں سے انتہائی نفرت کرتا ہوں، اور پھر ایک وقت کے لیے میں انتہائی محبت کرنے والا ہوتا ہوں؛ میں یہ سب کچھ تیرے مزاج میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ خدا کے کام کے بارے میں تیرے تصورات کو تبدیل کرنے کے لیے کرتا ہوں۔
آخری ایام آچکے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک ہنگامہ آرائی کا شکار ہیں۔ سیاسی انتشار ہے، قحط ہیں، وبائی امراض، سیلاب اور ہر طرف خشک سالی نظر آتی ہے۔ انسان کی دنیا میں تباہی ہے؛ آسمان نے بھی آفتیں نازل کی ہیں۔ یہ آخری ایام کی نشانیاں ہیں۔ لیکن لوگوں کے لیے، یہ خوشی اور شان و شوکت کی دنیا کی طرح لگتا ہے؛ یہ زیادہ سے زیادہ ایسا ہوتا جا رہا ہے، لوگوں کے دل اس کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں، اور بہت سے لوگ اس میں پھنس چکے ہیں اور خود کو اس سے نکالنے سے قاصر ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ دھوکا بازی اور جادو کرنے والے لوگوں کے بہکاوے میں آئیں گے۔ اگر تو ترقی کے لیے کوشش نہیں کرتا ہے، نصب العین سے محروم ہے، اور تو نے اپنے آپ کو سچائی کے راستے میں ثابت قدم نہیں رکھا ہے، تو تُو گناہ کی بڑھتی ہوئی لہروں میں بہہ جائے گا۔ چین تمام ممالک میں سب سے پسماندہ ہے؛ یہ وہ سرزمین ہے جہاں عظیم سرخ اژدہا کنڈلی مارے ہوئے ہے، اس میں سب سے زیادہ لوگ ہیں جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور جادو ٹونے میں مشغول ہیں، سب سے زیادہ مندر ہیں، اور یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں غلیظ بدروحیں رہتی ہیں۔ تو اس سے پیدا ہوا ہے، تو نے اس سے تعلیم حاصل کی ہے اور تو اس کے اثر میں ڈوبا ہوا ہے؛ اس نے تجھے بدعنوان بنایا ہے اور اذیت دی ہے، لیکن بیدار ہونے کے بعد تو اسے چھوڑ دیتا ہے اور خدا تجھے مکمل طور پر حاصل کر لیتا ہے۔ یہ خدا کی عظمت ہے، اور اسی وجہ سے کام کے اس مرحلے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ خدا نے اتنے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے، بہت سا کلام کہا ہے، اور وہ بالآخر تمہیں مکمل طور پر حاصل کر لے گا – یہ خُدا کے انتظام کے کام کا ایک حصہ ہے، اور تم خُدا کی شیطان کے ساتھ جنگ کا "مالِ غنیمت" ہو۔ جتنا زیادہ تم سچائی کو سمجھو گے تمہاری کلیسیا کی زندگی اتنی ہی بہتر ہو گی، اور عظیم سرخ اثدہے کو اتنی ہی زیادہ شکست دی جائے گی۔ یہ سب روحانی دنیا کے معاملات ہیں – یہ روحانی دنیا کی لڑائیاں ہیں، اور جب خدا فتح یاب ہو گا تو شیطان شرمندہ ہو کر گر جائے گا۔ خدا کے کام کے اس مرحلے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ خدا واقعی اتنے بڑے پیمانے پر کام کرتا ہے اور لوگوں کے اس گروہ کو مکمل طور پر بچاتا ہے تاکہ تم شیطان کے اثر سے بچ سکو، مقدس سرزمین میں رہ سکو، خدا کے نور میں رہ سکو، اور روشنی کی قیادت اور راہنمائی حاصل کر سکو۔ پھر تیری زندگی کا کوئی مقصد ہو گا۔ تم جو کھاتے اور پہنتے ہو وہ کافروں سے مختلف ہے؛ تم خدا کے کلام سے لطف اندوز ہوتے ہو اور بامعنی زندگی گزارتے ہو – اور وہ کس سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ وہ صرف اپنے "آبائی ورثے" اور اپنے "قومی جذبے" سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان میں انسانیت کا ذرہ برابر نشان بھی نہیں ہے! تمہارےے لباس، الفاظ اور اعمال سب ان سے مختلف ہیں۔ بالآخر، تم غلاظت سے مکمل طور پر بچ جاؤ گے، شیطان کے جال میں مزید نہیں پھنسو گے، اور خدا کا روزانہ رزق حاصل کرو گے۔ تمہیں ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگرچہ تم ایک غلیظ جگہ پر رہتے ہو لیکن تم غلاظت سے ناپاک نہیں ہو اور خدا کے ساتھ رہ سکتے ہو اور اس کی عظیم حفاظت حاصل کر سکتے ہو۔ خدا نے اس زرد سرزمین پر سب میں سے تمہیں چن لیا ہے۔ کیا تم سب سے زیادہ بابرکت لوگ نہیں ہو؟ تو ایک تخلیق شدہ وجود ہے – یقیناً تجھے خدا کی عبادت کرنی چاہیے اور ایک بامقصد زندگی گزارنی چاہیے۔ اگر تو خدا کی عبادت نہیں کرتا ہے بلکہ اپنے غلیظ جسم میں رہتا ہے تو کیا تو انسانی لباس میں صرف ایک حیوان نہیں ہے؟ چونکہ تو ایک انسان ہے، تجھے خود کو خدا کے لیے خرچ کرنا چاہیے اور تمام مصائب کو برداشت کرنا چاہیے! جو چھوٹی مصیبتیں تو آج جھیل رہا ہے، تجھے خوش دلی اور یقین سے انھیں قبول کرنا چاہیے اور ایوب اور پطرس کی طرح ایک بامعنی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس دنیا میں انسان شیطان کا لباس پہنتا ہے، شیطان سے کھانا کھاتا ہے، اور مکمل طور پر شیطان کے زیرِ اثر کام کرتا ہے اور اس کی غلاظت میں پوری طرح روندا جاتا ہے۔ اگر تو زندگی کے مطلب کو نہیں سمجھتا یا سچا راستہ نہیں پاتا تو پھر اس طرح جینے کی کیا اہمیت ہے؟ تم وہ لوگ ہو جو صحیح راستے کی جستجو کرتے ہو، وہ ہو جو بہتری چاہتے ہو۔ تم وہ لوگ ہو جو عظیم سرخ اژدہے کی قوم میں کھڑے ہوتے ہو، جنھیں خدا راستباز کہتا ہے۔ کیا یہ سب سے زیادہ بامعنی زندگی نہیں ہے؟