خدا کا آج کا کام جاننے والے ہی خدا کی خدمت کر سکتے ہیں

خدا کی گواہی دینے اور عظیم سرخ ڈریگن کو شرمندہ کرنے کے لیے ایک اصول لازمی ہونا چاہیے اور ایک شرط پر لازماً پورا اترنا چاہیے: انسان کو لازماً اپنے دل میں خدا سے محبت کرنی چاہیے اور اس کے کلام میں داخل ہونا چاہیے۔ اگر تُو خدا کے کلام میں داخل نہیں ہوتا تو پھر تیرے پاس شیطان کو شرمندہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ اپنی زندگی میں افزائش کے ذریعے، تم عظیم سرخ ڈریگن کو ٹھکراتے ہو اور اس پر سراسر ذلت مسلط کرتے ہو؛ عظیم سرخ ڈریگن کو شرمندہ کرنے کا واقعی صرف یہی طریقہ ہے. تُو خدا کے کلام پر جتنا زیادہ عمل کرنے پر آمادہ ہو گا، یہ اتنا ہی زیادہ خدا سے تیری محبت اور عظیم سرخ ڈریگن سے نفرت کا ثبوت ہوگا؛ تُو خدا کے کلام کی جتنی زیادہ اطاعت کرے گا، وہ اتنی ہی زیادہ تیری سچائی کی خواہش کی دلیل ہو گی۔ وہ لوگ جو خدا کے کلام کی خواہش نہیں رکھتے وہ زندگی سے محروم لوگ ہیں۔ یہ خدا کے کلام سے باہر وہ لوگ ہیں، جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو لوگ واقعی خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ خدا کا کلام کھانے اور پینے کے ذریعے اس کے کلام کا زیادہ گہرا علم رکھتے ہیں۔ اگر تجھے خدا کے کلام کی شدید خواہش نہیں ہے تو، تُو پھر صحیح معنوں میں اس کا کلام کھا اور پی نہیں سکتا، اور اگر تجھے خدا کے کلام کا علم نہیں ہے تو تیرے پاس خدا کی گواہی دینے یا خدا کو مطمئن کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

خدا پر ایمان رکھتے ہوئے خدا کو کیسے جاننا چاہیے؟ انسان کو آج خدا کے کلام اور کام کی بنیاد پر بغیر کسی انحراف یا مغالطے کے خدا کو جاننا چاہیے اور سب چیزوں سے پہلے خدا کا کام جاننا چاہیے۔ یہ خدا کو جاننے کی بنیاد ہے۔ وہ تمام مختلف مغالطے جن میں خدا کے الفاظ کی خالص تفہیم کا فقدان ہوتا ہے مذہبی تصورات ہیں؛ وہ گمراہ کن اور غلط تفہیمات ہیں۔ مذہبی شخصیات کی سب سے بڑی مہارت ماضی میں سمجھا گیا خدا کے کلام کو لینا اور ان کے پیمانے پر آج کے خدا کے کلام کو ناپنا ہے۔ اگر، آج کے خدا کی خدمت کرتے وقت، تم ماضی میں روح القدس کی آگہی سے ظاہر ہونے والی چیزوں سے چمٹے رہو گے تو تمھاری خدمت رخنہ ڈالنے کا سبب بنے گی اورتمھارا عمل فرسودہ ہو جائے گا، جس کی وقعت مذہبی رسوم سے زیادہ کچھ نہیں ہو گی۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ خدا کی خدمت کرنے والوں کو دیگر خصوصیات کے علاوہ ظاہری طور پر عاجز اور صابر ہونا چاہیے اور اگر تم آج اس طرح کے علم کو عملی جامہ پہناتے ہو تو ایسا علم ایک مذہبی تصور ہے؛ اس طرح کی مشق ایک منافقانہ روش بن گئی ہے۔ "مذہبی تصورات" کی اصطلاح ان چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو دقیانوسی اور متروک ہیں (بشمول خدا کی طرف سے سابقہ بولے گئے الفاظ کی تفہیم اور روح القدس کی طرف سے براہ راست ظاہر کی گئی روشنی) اور اگر انہیں آج عمل میں لایا جائے تو وہ خدا کے کام میں خلل ڈالتے ہیں اور انسان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ اگر لوگ خود کو ان چیزوں سے پاک کرنے سے قاصر ہیں جو مذہبی تصورات سے تعلق رکھتی ہیں تو یہ چیزیں ان کے لیے خدا کی خدمت کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ بن جائیں گی۔ مذہبی تصورات رکھنے والے لوگوں کے پاس روح القدس کے کام کے اقدام کے ساتھ چلنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے – وہ ایک قدم پیچھے رہ جاتے ہیں، پھر دو قدم۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مذہبی تصورات انسان کے غیر معمولی طور پر خود راست باز اور متکبر بننے کا سبب بنتے ہیں۔ خدا نے ماضی میں جو کچھ کہا اور کیا اس کے لیے وہ کوئی حسرت محسوس نہیں کرتا؛ اگر کوئی چیز متروک ہو تو وہ اسے ختم کر دیتا ہے۔ کیا تُو واقعی اپنے تصورات ترک کرنے سے قاصر ہے؟ اگر تُو ان الفاظ سے چمٹا رہے گا جو ماضی میں خدا نے بولے تھے تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تُو خدا کا کام جانتا ہے؟ اگر آج تُو روح القدس کی روشنی قبول کرنے سے قاصر ہے اور اس کی بجائے ماضی کی روشنی سے چمٹا ہوا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ تُو خدا کے نقش قدم پر چل رہا ہے؟ کیا تُو اب بھی مذہبی تصورات چھوڑنے سے قاصر ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر تُو خدا کی مخالفت کرنے والا شخص بن جائے گا۔

اگر لوگ مذہبی تصورات چھوڑ سکتے ہیں تو وہ آج خدا کے کلام اور کام کی قدر پیمائی کے لیے اپنے ذہنوں کا استعمال نہیں کریں گے اور اس کے بجائے براہ راست اطاعت کریں گے۔ اگرچہ آج خدا کا کام واضح طور پر ماضی کے کام کے برعکس ہے، پھر آج بھی تُو ماضی کے خیالات چھوڑنے اور براہ راست خدا کے کام کی تعمیل کرنے کے قابل ہے۔ اگر تُو یہ سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ آج تُو خدا کے کام پر فخر کرے، چاہے ماضی میں خدا نے کسی بھی طرح کام کیا ہو، تو پھر تُو وہ شخص ہو گا جس نے ان کے تصورات چھوڑ دیے ہیں، جو خدا کی اطاعت کرتا ہے اور جو خدا کے کام اور کلام کی اطاعت کرنے کے قابل ہے اور اس کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ اس میں، تم ایسے شخص ہو گے جو واقعی خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ تُو خدا کے کام کا تجزیہ یا جانچ پڑتال نہیں کرتا؛ یہ ایسے ہے کہ جیسے خدا اپنا پچھلا کام بھول گیا ہے اور تُو بھی اسے بھول گیا ہے۔ حال، حال ہے اور ماضی، ماضی ہے، اور چونکہ آج خدا نے اسے ایک طرف رکھ دیا ہے جو اس نے ماضی میں کیا تھا، تو تجھےاس پر غور نہیں کرنا چاہیے۔ صرف وہ ہی ایک ایسا شخص ہی خدا کی مکمل اطاعت کرتا ہے اور اپنے مذہبی تصورات مکمل طور پر چھوڑ دیتا ہے۔

چونکہ خدا کے کام میں ہمیشہ نئی پیش رفت ہوتی ہے، اس لیےکچھ ایسے کام ہیں جو نئے کام کے آنے کے ساتھ متروک اور پرانے ہو جاتے ہیں۔ پرانے اور نئے کام کی یہ مختلف اقسام متضاد نہیں بلکہ تکمیلی ہیں؛ ہر قدم پچھلے قدم سے آگے بڑھتا ہے۔ کیونکہ اب نیا کام ہے، لہٰذا پرانی چیزوں کو یقینا ختم کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر، انسان کے کچھ دیرینہ اعمال اور عادتاً کہے جانے والےاقوال اور انسان کے کئی سالوں کے تجربے اور تعلیمات نے مل کر انسان کے ذہن میں ہر طرح اور ہئیت کے تصورات تشکیل دے دیے ہیں۔ خدا کو ابھی انسان کے سامنے اپنا حقیقی چہرہ اور جبلی مزاج ظاہر کرنا ہے، اس کے ساتھ ساتھ، کئی سالوں پر محیط، قدیم ادوار کے روایتی نظریات کی توسیع انسان کے اس طرح کے تصورات کی تشکیل کے لیے ابھی زیادہ موافق ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ خدا پر انسان کے ایمان کے دوران مختلف تصورات کا اثر لوگوں میں خدا کے بارے میں ہر قسم کی تصوراتی تفہیم کی مسلسل تشکیل اور ارتقا کا موجب ہوا ہے، جس کی وجہ سے خدا کی خدمت کرنے والے بہت سے مذہبی لوگ اس کے دشمن بن گئے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کے مذہبی تصورات جتنے مضبوط ہوں گے، وہ خدا کی اتنی ہی زیادہ مخالفت کریں گے اور وہ خدا کے اتنے ہی زیادہ بڑے دشمن ہوں گے۔ خدا کا کام ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؛ یہ کبھی بھی کوئی عقیدہ تشکیل نہیں دیتا، بجائے اس کے مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے اور زیادہ یا کم حد تک اس کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح کام کرنا خود خدا کے جبلی مزاج کا اظہار ہے۔ یہ خدا کے کام کا فطری اصول بھی ہے اور ان ذرائع میں سے ایک ہے جس کے ذریعے خدا اپنے انتظام کی تکمیل کرتا ہے۔ اگر خدا اس طرح کام نہ کرتا تو انسان نہ بدلتا اور نہ خدا کو جاننے کے قابل ہوتا اور نہ ہی شیطان شکست سے دوچار ہوتا۔ اس طرح اس کے کام میں مسلسل ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو متزلزل نظر آتی ہیں لیکن یہ دراصل وقتی ہوتی ہیں۔ تاہم، جس طرح انسان خدا پر ایمان رکھتا ہے، وہ کافی مختلف ہے۔ وہ پرانے، جانے پہچانےعقائد اور نظاموں سے چمٹا رہتا ہے اور وہ جتنے پرانے ہوں، اس کے لیے اتنے ہی زیادہ قابلِ قبول ہوتے ہیں۔ انسان کا احمقانہ ذہن، ایک ایسا ذہن جو پتھر کی طرح سخت ہے، خدا کے اتنے ناقابل فہم نئے کام اور کلام کو کیسے قبول کر سکتا ہے؟ انسان اس خدا سے نفرت کرتا ہے جو ہمیشہ نیا رہتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؛ وہ صرف پرانے خدا کو پسند کرتا ہے جو لمبے دانتوں، سفید بالوں والا ہے اور کسی ایک جگہ پر پھنسا ہوا ہے۔ اس طرح چونکہ خدا اور انسان دونوں کی اپنی اپنی پسند ہے اس لیے انسان خدا کا دشمن بن گیا ہے۔ ان میں سے بہت سے تضادات آج بھی موجود ہیں، ایک ایسے وقت میں جب خدا تقریباً چھ ہزار سال سے نیا کام کر رہا ہے۔ تو پھر وہ ناقابلِ علاج ہیں۔ شاید اس کی وجہ انسان کی ہٹ دھرمی یا کسی انسان کی طرف سے خدا کے انتظامی احکامات کی خلاف ورزی کا نہ ہونا ہے – لیکن وہ پادری مرد اور خواتین اب بھی بوسیدہ کتابوں اور کاغذات سے چمٹے ہوئے ہیں، جبکہ خدا اپنے انتظام کا نامکمل کام جاری رکھتا ہے، گویا کہ اس کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تضادات خدا اور انسان کے دشمن بناتے ہیں اور ناقابل حل بھی ہیں، خدا ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا، گویا وہ ایک ہی وقت میں وہاں موجود تھے اور نہیں بھی۔ تاہم، انسان اب بھی اپنے عقائد اور تصورات پر قائم رہتا ہے اور انہیں کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس کے باوجود ایک بات بذات خود واضح ہے: اگرچہ انسان اپنے موقف سے انحراف نہیں کرتا، خدا کے پاؤں ہمیشہ حرکت کرتے رہتے ہیں اور وہ ہمیشہ ماحول کے مطابق اپنا موقف تبدیل کرتا رہتا ہے۔ آخر میں، یہ انسان ہی ہے جسے لڑائی کے بغیر شکست دی جائے گی. دریں اثنا خدا اپنے تمام شکست خوردہ دشمنوں کا سب سے بڑا دشمن ہے اور بنی نوع انسان کا علمبردار بھی ہے، خواہ وہ شکست خوردہ ہوں یا غیر شکست خوردہ۔ کون خدا کا مقابلہ کر سکتا اور فاتح ہو سکتا ہے؟ انسان کے تصورات خدا کی طرف سے آتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے خدا کے کام کے تناظر میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم، خدا اس کی وجہ سے انسان کو معاف نہیں کرتا، اور نہ ہی، اس کے علاوہ، وہ انسان کی تعریف کرتا ہے کہ اس نے اس کے کام کے تناظر میں "خدا کے لیے" انبار در انبار مصنوعات تیار کیں، جو اس کے کسی کام کی نہیں ہیں۔ اس کے بجائے وہ انسان کے تصورات اور پرانے، پاک عقائد سے انتہائی بیزار ہے، اور نہ اس کا وہ تاریخ تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ ہے جس پر یہ تصورات پہلی بار سامنے آئے تھے۔ وہ یہ بات بالکل قبول نہیں کرتا کہ یہ تصورات اس کے کام کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ انسان کے تصورات انسان کے ذریعے پھیلائے جاتے ہیں؛ ان کا ماخذ انسان کے خیالات اور ذہن ہیں – خدا نہیں بلکہ شیطان۔ خدا کا ارادہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اس کا کام نیا اور فعال ہو، پرانا اور متروک نہ ہو، اور اس کے پاس کی جس چیز پر انسان قائم رہتا ہے وہ زمانے اور مدت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور یہ لازوال اور ناقابل تغیر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسا خدا ہے جو انسان کو زندہ رہنے اور نیا بنانے کا سبب بنتا ہے، بجائے اس شیطان کے جو انسان کو مر جانے اور پرانا بنانے کا سبب بنتا ہے۔ کیا تم اب بھی یہ نہیں سمجھتے؟ تُو خدا کے بارے میں تصورات رکھتا ہے اور انہیں چھوڑنے سے قاصر ہے کیونکہ تیرا ذہن بند ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا کے کام کی حکمت بہت کم ہے اور نہ ہی اس لیے کہ خدا کا کام انسانی خواہشات سے ہٹ جاتا ہے اور نہ ہی، اس کے علاوہ، یہ اس لیے ہے کہ خدا اپنے فرائض میں ہمیشہ غفلت برتتا ہے۔ تُو اپنے تصورات نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ تجھ میں اطاعت کی بہت کمی ہے اور اس لیے کہ تیرے پاس کسی مخلوق کی ذرا سی بھی مماثلت نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا تیرے لیے حالات مشکل بنا رہا ہے۔ تُو نے یہ سب کچھ خود کیا ہے اور اس کا خدا سے مطلق کوئی تعلق نہیں ہے؛ تمام مصائب اور بدقسمتی انسان کی پیدا کردہ ہے۔ خدا کے خیالات ہمیشہ اچھے ہوتے ہیں: وہ تیرے لیے تصورات پیدا کرنے کا سبب نہیں بننا چاہتا بلکہ وہ تیرے لیے خواہش کرتا ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تُو تبدیل ہو اور تیری تجدید ہو جائے۔ پھر بھی تُو نہیں جانتا کہ تیرے لیے اچھا کیا ہے، اور ہمیشہ تُو یا تو جانچ پڑتال کرنے یا تجزیہ کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا تیرے لیے معاملات مشکل بنا رہا ہے بلکہ اس لیے کہ خدا کے تئیں تیری کوئی عقیدت نہیں ہے اور تیری نافرمانی بہت بڑی ہے۔ ایک چھوٹی سی مخلوق، جو خدا کی طرف سے پہلے دی گئی چیز کا کچھ معمولی حصہ لینے کی جرات کرتی ہے، اور پھر پلٹ کر اسے خدا پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے – کیا یہ انسان کی نافرمانی نہیں ہے؟ یہ کہنا مناسب ہے کہ انسان خدا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے بالکل نااہل ہے، اور اس لائق تو وہ ہے ہی نہیں کہ وہ اپنی فضول، بدبودار، متعفن، خوشامدی زبان کی اطراف و اکناف میں نمائش کرتا پھرے جیسا کہ وہ خواہش رکھتا ہے – ان فرسودہ تصورات کے بارے میں کچھ نہ کہنا۔ کیا وہ اس سے بھی زیادہ بیکار نہیں ہیں؟

جو شخص واقعی خدا کی خدمت کرتا ہے وہ خدا کے دل کا خواہاں ہوتا ہے، وہ خدا کے استعمال کے لائق ہے اور وہ اپنے مذہبی تصورات چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرا خدا کا کلام کھانا اور پینا مؤثر ثابت ہو تو پھر تجھے لازماً اپنے مذہبی تصورات چھوڑ دینے چاہییں۔ اگر تُو خدا کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو پہلے مذہبی تصورات چھوڑ دینا اور ہر معاملے میں خدا کے کلام کی تعمیل کرنا اور بھی ضروری ہے۔ خدا کی خدمت کرنے والے کو ان ہی صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ اگر تیرے پاسں اس علم کی کمی ہے، تو جیسے ہی تُو خدمت کرے گا، تُو رکاوٹ اور خلل کا سبب بنے گا، اور اگر تُو اپنے تصورات سے چمٹا رہا، تو تُو لازمی طور پر خدا کی طرف سے اس طرح گرا دیا جائے گا کہ پھر کبھی اٹھ نہیں پائے گے۔ مثال کے طور پر حال کو ہی لے لے: آج کا بہت سا کلام اور کام انجیل اور خدا کے پہلے کیے گئے کام سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر تجھے اطاعت کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے تو، تُو کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ اگر تُو خدا کی مرضی کے مطابق خدمت کرنا چاہتا ہے تو لازماً پہلے تجھے مذہبی تصورات چھوڑنے ہوں گے اور اپنے خیالات کی اصلاح کرنی ہو گی۔ جو کچھ بھی کہا جائے گا اس میں سے زیادہ تر ماضی میں کہی گئی باتوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہو گا اور اگر اب تجھ میں اطاعت کی خواہش کی کمی ہے تو تُو آگے آنے والے راستے پر چلنے سے قاصر رہے گا۔ اگر خدا کے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک تیرے اندر جڑ پکڑ چکا ہے اور تُو اسے کبھی نہیں چھوڑتا تو پھر یہ طریقہ تیرا مذہبی تصور بن جائے گا۔ اگر جو خدا ہے اس نے تیرے اندر جڑ پکڑ لی ہے تو، تُو نے سچائی حاصل کر لی ہے اور اگر خدا کا کلام اور سچائی تیری زندگی بننے کے قابل ہیں تو اب تیرے پاس خدا کے بارے میں تصورات نہیں رہیں گے۔ جو لوگ خدا کے بارے میں حقیقی علم رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی تصورات نہیں ہوں گے اور وہ عقیدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔

اپنے آپ کو چوکس رکھنے کے لیے یہ سوالات پوچھیں:

1۔ کیا تیرے اندر کا علم خدا کے لیے تیری خدمت میں مداخلت کرتا ہے؟

2۔ تیری روزمرہ زندگی میں کتنے مذہبی اعمال شامل ہیں؟ اگر تُو نیکی کی صرف ظاہری شکل پیش کرتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تیری زندگی بالغ اور پختہ ہو چکی ہے؟

3۔ جب تُو خدا کا کلام کھاتا اور پیتا ہے، تو کیا تُو اپنے مذہبی تصورات چھوڑ نے کے قابل ہے؟

4۔ جب تُو عبادت کرتا ہے تو کیا تُو مذہبی رسوم چھوڑنے کے قابل ہوتا ہے؟

5۔ کیا تُو ایسا شخص ہے جو خدا کے استعمال کے لائق ہے؟

6۔ خدا کے بارے میں تیرے علم میں کتنے مذہبی تصورات ہیں؟

سابقہ: ایمان میں، حقیقت پر توجہ لازماً مرکوز کرنی چاہیے – مذہبی رسومات میں مشغول رہنا ایمان نہیں ہے

اگلا: خدا کے تازہ ترین کام کو جانیں اور اس کے نقشِ قدم کی پیروی کریں

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp