خدا کو جاننے والے ہی خدا کی گواہی دے سکتے ہیں

خدا پر ایمان رکھنے اور خدا کو جاننے کا فرمان آسمان کی طرف سے جاری کیا گیا ہے اور زمین نے اسے تسلیم کیا ہے، اور آج – ایک ایسے دور میں جب مجسم خدا اپنا کام خود ذاتی طور پر کر رہا ہے – تو یہ خدا کو جاننے کا خاص طور پر اچھا وقت ہے۔ خدا کو مطمئن کرنا ایک ایسی چیز ہے جو خدا کی مرضی کو سمجھنے کی بنیاد پر تعمیر کر کے حاصل کی جاتی ہے، اور خدا کی مرضی سمجھنے کے لیے خدا کے بارے میں کچھ علم ہونا ضروری ہے۔ خدا کا یہ علم وہ بصیرت ہے جو خدا پر ایمان رکھنے والے کے پاس لازمی ہونی چاہیے؛ یہ خدا پر انسان کے عقیدے کی بنیاد ہے۔ اس علم کی عدم موجودگی میں انسان کا خدا پر ایمان ایک مبہم حالت میں، کھوکھلے نظریے کے بیچوں بیچ ہو گا۔ اگر خدا کی پیروی کرنا اس طرح کے لوگوں کا عزم ہے تو بھی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وہ تمام لوگ جو اس دھارے میں کچھ حاصل نہیں کرتے وہ ایسے ہیں جنھیں نکال باہر کیا جائے گا – وہ سب مفت خورے ہیں۔ خدا کے کام کے جس مرحلے کا بھی تُو تجربہ کرتا ہے، تو اس کے لیے تیرے پاس ایک زبردست بصیرت بھی ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر، تیرے لیے نئے کام کا ہر مرحلہ قبول کرنا مشکل ہو گا، کیونکہ خدا کا نیا کام انسان کی تصور کرنے کی صلاحیت سے ماورا، اور اس کے ذہنی تخیل کی حدود سے باہر ہے۔ چنانچہ انسان کی دیکھ بھال کرنے والے نگہبان کے بغیر، بصیرت کے بارے میں رفاقت میں مشغول ہونے والے نگہبان کے بغیر، انسان نیا کام قبول کرنے سے قاصر ہے۔ اگر انسان بصیرت حاصل نہیں کر سکتا تو پھر وہ خدا کے اس نئے کام کو قبول کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ اگر انسان تصورات حاصل نہیں کر سکتا تو پھر وہ خدا کے نئے کام کو حاصل نہیں کر سکتا اور اگر انسان خدا کے نئے کام کی اطاعت نہیں کر سکتا تو انسان خدا کی مرضی سمجھنے سے قاصر رہے گا اور اس طرح خدا کے بارے میں اس کا علم کچھ بھی نہیں ہو گا۔ اس سے پہلے کہ انسان خدا کا کلام لے کر چلے، اسے لازماً خدا کے کلام کا علم ہونا چاہیے؛ یعنی اسے خدا کی منشا ضرور سمجھنا چاہیے۔ صرف اسی طرح سے ہی خدا کے کلام پر صحیح طریقے سے اور خدا کی مرضی کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو حق کی تلاش کرنے والے ہر شخص کے پاس ہونی چاہیے اور یہ وہ عمل بھی ہے جس سے خدا کو جاننے کی کوشش کرنے والے ہر شخص کو لازماً گزرنا چاہیے۔ خدا کا کلام جاننے کا عمل خدا اور خدا کے کام کو جاننے کا عمل ہے۔ چنانچہ بصیرت کا علم رکھنے سے نہ صرف مجسم خدا کی انسانیت جاننا مراد ہے بلکہ اس میں خدا کے کلام اور کام کو جاننا بھی شامل ہے۔ خدا کے کلام سے لوگ خدا کی منشا کو سمجھتے ہیں اور خدا کے کام سے اس بارے میں جانتے ہیں کہ خدا کا مزاج کیا ہے اور خود خدا کیا ہے ۔ خدا پر ایمان خدا کو جاننے کی طرف پہلا قدم ہے۔ خدا پر اس ابتدائی عقیدے سے اس کے انتہائی گہرے عقیدے کی طرف بڑھنے کا عمل خدا کو جاننے کا عمل ہے، خدا کے کام کا عملی تجربہ کرنے کا عمل ہے۔ اگر تو صرف خدا پر ایمان لانے کی غرض سے ہی خدا پر ایمان لاتا ہے اور اسے جاننے کی خاطر نہیں، تو تیرے ایمان میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور تیرا ایمان خالص نہیں ہو سکتا – اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ انسان جس عمل کے ذریعے خدا کے کام کا عملی تجربہ کرتا ہے، اگر اس کے دوران وہ آہستہ آہستہ خدا کو جانتا ہے تو اس کا مزاج آہستہ آہستہ بدل جائے گا اور اس کا ایمان آہستہ آہستہ زیادہ حقیقی ہو جائے گا۔ اس طرح جب انسان خدا پر اپنے ایمان میں کامیابی حاصل کر لے گا تو وہ مکمل طور پر خدا کو حاصل کر چکا ہو گا۔ خدا کے دوسری بار اس حد تک جا کر مجسم بن کر اپنا ذاتی کام کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انسان اسے جان سکے اور اسے دیکھ سکے۔ خدا[ا] کو جاننا، خدا کے کام کے اختتام پر حاصل ہونے والا آخری اثر ہے؛ یہ خدا کا بنی نوع انسان سے آخری تقاضا ہے۔ اس کے ایسا کرنے کی وجہ اس کی آخری گواہی کی خاطر ہے؛ وہ یہ کام اس لیے کرتا ہے تاکہ انسان آخر کار اور مکمل طور پر اس کی طرف رجوع کرے۔ انسان خدا کو جان کر ہی خدا سے محبت کر سکتا ہے اور خدا سے محبت کرنے کے لیے اسے لازماً خدا کو جاننا چاہیے۔ چاہے وہ کیسے بھی تلاش کرے، یا جو کچھ بھی وہ اس تلاش سے حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے لازماً خدا کا علم حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ صرف اسی طرح انسان خدا کے دل کو مطمئن کر سکتا ہے۔ خدا کو جان کر ہی انسان خدا پر سچا ایمان لا سکتا ہے اور خدا کو جان کر ہی وہ صحیح معنوں میں خدا کی تعظیم اور اطاعت کر سکتا ہے۔ جو لوگ خدا کو نہیں جانتے وہ کبھی بھی خدا کی سچی اطاعت اور تعظیم کے مقام تک نہیں پہنچیں گے۔ خدا کو جاننے میں اس کا مزاج جاننا، اس کی مرضی سمجھنا اور یہ جاننا بھی شامل ہے کہ وہ کیا ہے۔ پھر بھی کسی کو جو بھی پہلو معلوم ہو، ہر ایک پہلو انسان سے اس کی قیمت ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے اطاعت کرنے کے عزم کا تقاضا کرتا ہے، جس کے بغیر کوئی بھی آخر تک پیروی جاری نہیں رکھ سکے گا۔ خدا کا کام انسان کے تصورات سے بہت زیادہ عدم مطابقت رکھتا ہے۔ خدا کا مزاج اور خدا جو کچھ ہے وہ انسان کے لیے جاننا بہت مشکل ہے اور جو کچھ خدا کہتا اور کرتا ہے وہ انسان کے لیے نہایت ناقابل فہم ہے: اگر انسان خدا کی پیروی کرنا چاہے اور اس کے باوجود اس کی اطاعت کرنے کو تیار نہ ہو، تو انسان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک خدا نے بہت سا کام کیا ہے جو انسان کے لیے ناقابل فہم ہے اور انسان کو اسے قبول کرنا مشکل ہو گیا ہے اور خدا نے بہت کچھ کہا ہے جس سے انسان کے تصورات کو درست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن انسان کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہونے کی وجہ سے اس نے اپنا کام کبھی بند نہیں کیا؛ بلکہ اس نے کام اور کلام جاری رکھا ہے اور اگرچہ "جنگجوؤں" کی بڑی تعداد راستے کے کنارے پر گر چکی ہے، لیکن وہ اب بھی اپنا کام کر رہا ہے، اور بغیر کسی وقفے کے لوگوں کے ایسے ایک کے بعد ایک گروہ کا انتخاب کرنا جاری رکھے ہوئے ہے جو اس کے نئے کام کے تابع ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اسے ان گر جانے والے "سورماؤں" پر کوئی ترس نہیں آتا ہے اور اس کی بجائے وہ ان لوگوں کی قدر کرتا ہے جو اس کا نیا کام اور کلام قبول کرتے ہیں۔ لیکن وہ کس مقصد کے لیے اس طرح مرحلہ وار کام کرتا ہے؟ وہ ہمیشہ کچھ لوگوں کو کیوں نکال باہر کر رہا ہے اور دوسروں کا انتخاب کر رہا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی طریقہ استعمال کرتا ہے؟ اس کے کام کا مقصد انسان کو موقع دینا ہے کہ اسے جان لے اور اس طرح وہ اسے حاصل ہو جائے۔ اس کے کام کا اصول ان لوگوں پر کام کرنا ہے جو اس کے آج کے کام کے تابع ہونے کے قابل ہیں، اور ان لوگوں پر کام کرنا نہیں ہے جو اس کے ماضی میں کیے گئے کام کے تو تابع ہیں مگر اس کی مخالفت کرتے ہیں جو کام وہ آج کر رہا ہے۔ اور اس کی بہت سے لوگوں کو نکال باہر کرنے کی یہی وجہ ہے۔

خدا کو جاننے کے سبق کے اثرات ایک یا دو دن میں حاصل نہیں کیے جا سکتے: انسان کو لازماً عملی تجربات جمع کرنے چاہییں، مصائب جھیلنے چاہییں اور سچی اطاعت حاصل کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے، خدا کے کام اور کلام سے شروع کر۔ یہ بہت ضروری ہے کہ تو یہ سمجھے کہ خدا کے علم میں کیا کیا شامل ہے، یہ علم کیسے حاصل کیا جائے اور خدا کو اپنے عملی تجربات میں کیسے دیکھا جائے۔ یہ وہ کام ہے جو ہر اس شخص کو کرنا چاہیے جس نے ابھی خدا کو جاننا ہے۔ کوئی بھی خدا کا کام اور کلام ایک دم نہیں سمجھ سکتا، اور کوئی بھی تھوڑے ہی عرصے میں خدا کے علم کا مکمل پن حاصل نہیں کر سکتا۔ عملی تجربہ ایک ضروری عمل ہے جس کے بغیر کوئی بھی خدا کو جان نہیں سکے گا اور نہ ہی اس کی خلوص نیت سے پیروی کر سکے گا۔ خدا جتنا زیادہ کام کرے گا، انسان اسے اتنا ہی زیادہ جانے گا۔ خدا کا کام انسان کے تصورات سے جتنا زیادہ متصادم ہوتا ہے، انسان کا اس کے بارے میں علم اتنا ہی زیادہ تازہ اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ اگر خدا کا کام ہمیشہ کے لیے طے شدہ اور غیر متغیر ہی رہتا تو پھر اس سے انسان کو اس کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں ہوتا۔ تخلیق کے اور حالیہ وقت کے درمیان، خدا نے شریعت کے دور میں کیا کیا، فضل کے دور میں کیا کیا، اور بادشاہی کے دور میں وہ کیا کرتا ہے – تمہیں ان تصورات کے بارے میں لازمی طور پر شیشے کی طرح واضح ہونا چاہیے۔ تمہیں خدا کا کام لازماً علم ہونا چاہیے۔ یسوع کی پیروی کرنے کے بعد ہی پطرس کو آہستہ آہستہ یسوع میں روح کے زیادہ تر کیے جانے والے کام کے بارے میں پتہ چلا۔ اس نے کہا "انسان کے تجربات پر بھروسا کرنا مکمل علم حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؛ خدا کے کام سے بہت سی نئی چیزیں ہونی چاہییں تاکہ وہ اسے جاننے میں ہماری مدد کر سکیں۔" شروع میں پطرس یہ یقین رکھتا تھا کہ یسوع خدا کی طرف سے بھیجے گئے رسول کی طرح ہے اور وہ یسوع کو مسیح کے طور پر نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت جب وہ یسوع کی پیروی کرنے لگا تو یسوع نے اس سے پوچھا کہ "شمعون برجونہ کیا تو میری پیروی کرے گا؟" پطرس نے کہا "مجھے اس کی پیروی کرنی چاہیے جسے آسمانی باپ نے بھیجا ہے۔ مجھے اس کو تسلیم کرنا چاہیے جسے روح القدس نے منتخب کیا ہے۔ میں تیری پیروی کروں گا۔" اس کے الفاظ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ پطرس کو یسوع کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اس نے خدا کے کلام کا تجربہ کیا تھا، وہ اپنے آپ سے نمٹا تھا اور اس نے خدا کے لیے سختی برداشت کی تھی لیکن اسے خدا کے کام کا کوئی علم نہیں تھا۔ ایک مدت کے تجربے کے بعد پطرس نے یسوع میں خدا کے بہت سے اعمال دیکھے، اس نے خدا کا جمال دیکھا اور اس نے یسوع میں خدا کی ہستی کا زیادہ تر حصہ دیکھا۔ اسی طرح اس نے یہ بھی دیکھا کہ یسوع نے جو الفاظ کہے وہ انسان نہیں بول سکتا تھا اور یسوع نے جو کام کیا تھا وہ انسان نہیں کر سکتا تھا۔ یسوع کے الفاظ اور اعمال میں، اس کےعلاوہ، پطرس نے خدا کی بہت سی حکمتیں اور الوہی نوعیت کا بہت سا کام دیکھا۔ اپنے تجربات کے دوران اس نے محض اپنے آپ کو ہی نہیں جانا، بلکہ اس نے یسوع کے ہر عمل پر بھی پوری توجہ دی، جس سے اس نے بہت سی نئی چیزیں دریافت کیں یعنی کہ خدا نے یسوع کے ذریعے جو کام کیا اس میں عملی خدا کے بہت سے تاثرات تھے اور یسوع نے جو کلام کہا جو کام کیے اور اس کے ساتھ اس نے جس طرح کلیسیاؤں کی نگہبانی کی اور جو کام اس نے سر انجام دیا وہ ایک عام انسان سے مختلف تھا۔ اس طرح، پطرس نے یسوع سے بہت سے سبق سیکھے جو اسے سیکھنے چاہیے تھے، اور یسوع کے صلیب پر میخوں سے جڑے جانے تک، اس نے یسوع کے علم کی ایک خاص مقدار حاصل کر لی تھی – وہ علم جو کہ اس کی یسوع سے عمر بھر کی وفاداری اور اس کی سر کے بل تصلیب کا سبب بنا جس میں وہ اپنے خداوند کے لیے مبتلا ہوا تھا۔ اگرچہ وہ کچھ تصورات رکھتا تھا اور شروع میں یسوع کے بارے میں واضح علم نہیں رکھتا تھا، لیکن اس طرح کی چیزیں ناگزیر طور پر بدعنوان انسان کا حصہ ہوتی ہیں۔ جب یسوع رخصت ہونے والا تھا تو اس نے پطرس سے کہا کہ اس کا مصلوب ہونا وہ کام ہے جو وہ کرنے آیا تھا: یہ ضروری تھا کہ اسے دور کے لحاظ سے ترک کر دیا جائے اور یہ ناپاک اور پرانا دور اسے صلیب پر میخوں سے جڑوا دے؛ وہ خلاصی کا عمل مکمل کرنے کے لیے آیا تھا اور یہ کام مکمل کرنے کے بعد اس کی کلیسائی ذمہ داری کا اختتام ہو گا۔ یہ سن کر پطرس غمگین ہو گیا اور یسوع سے اور بھی زیادہ وابستہ ہو گیا تھا۔ جب یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑ دیا گیا تو پطرس تنہائی میں بری طرح رویا۔ اس سے پہلے اس نے یسوع سے پوچھا تھا، "میرے خداوند! تو کہتا ہے کہ تجھے صلیب پر چڑھا دیا جائے گا۔ تیرے جانے کے بعد، ہم تجھے دوبارہ کب دیکھیں گے؟" کیا اس نے جو الفاظ بولے ان میں ملاوٹ کا کوئی عنصر نہیں تھا؟ کیا ان میں کوئی تصورات ملے ہوئے نہیں تھے؟ اپنے دل میں وہ جانتا تھا کہ یسوع خدا کے کام کا ایک حصہ مکمل کرنے آیا ہے اور یسوع کے جانے کے بعد روح اس کے ساتھ ہو گی؛ اگرچہ اسے صلیب پر میخوں سے جڑ دیا جائے گا اور وہ آسمان پر اٹھا لیا جائے گا پھر بھی خدا کی روح اس کے ساتھ ہو گی۔ اس وقت پطرس کو یسوع کے بارے میں کچھ علم تھا: وہ جانتا تھا کہ یسوع کو خدا کی روح نے بھیجا ہے، خدا کی روح اس کے اندر ہے اور یسوع خود خدا تھا اور یہ کہ وہ مسیح تھا۔ پھر بھی یسوع سے محبت اور انسانی کمزوری کی وجہ سے پطرس نے ایسے الفاظ کہے۔ اگر خدا کے کام کے ہر قدم پر کوئی مشاہدہ کر سکتا ہے اور انتہائی احتیاط سے تجربہ کر سکتا ہے تو انسان آہستہ آہستہ خدا کا جمال دریافت کر سکے گا۔ اور پولس نے اپنے رویا کے لیے کیا سمجھا؟ جب یسوع اس کے پاس آیا تو پولس نے کہا "خداوند تُو کَون ہے؟" یسوع نے کہا "مَیں یِسُوعؔ ہُوں جِسے تُو ستاتا ہے۔" یہ پولس کا رویا تھا۔ پطرس نے یسوع کے دوبارہ جی اٹھنے، 40 دن تک اس کے ظہور اور یسوع کی زندگی بھر کی تعلیمات کو اپنے سفر کے اختتام تک اپنے رویا کے طور پر لیا۔

انسان خدا کے کام کا عملی تجربہ کرتا ہے، خود کو جانتا ہے، اپنے بدعنوان مزاج کی تطہیر کرتا ہے، اور زندگی میں ترقی چاہتا ہے، یہ سب خدا کو جاننے کی خاطر کرتا ہے۔ اگر تو صرف اپنے آپ کو جاننے اور اپنے بدعنوان مزاج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن تجھے اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ خدا انسان پر کیا کام کرتا ہے، اس کی نجات کتنی بڑی ہے، یا تو کیسے خدا کے کام کا تجربہ کرتا ہے اور اس کے اعمال کا مشاہدہ کرتا ہے، تو تیرا یہ تجربہ احمقانہ ہے۔ اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی زندگی صرف اس لیے باشعور ہو چکی ہے کہ وہ سچائی پر عمل اور برداشت کرنے کے قابل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تو نے ابھی تک زندگی کا حقیقی مطلب یا خدا کی طرف سے انسان کو کامل بنانے کا مقصد نہیں سمجھا ہے۔ ایک دن جب تو مذہبی کلیسیاؤں میں ہو گا ریپینٹینس چرچ یا لائف چرچ کے ارکان کے درمیان، تو تیرے سامنے بہت سے پکے دین دار لوگ آئیں گے، جن کی دعاؤں میں "رویا" شامل ہوں گے اور جو زندگی کی اپنی جستجو میں میں کلام سے متاثر ہوں گے اور راہنمائی لیں گے۔ مزید برآں، وہ بہت سے معاملات میں برداشت کرنے اور خود کو ترک کرنے، اور جسمانی تقاضوں کے پیچھے نہ چلنے کے قابل ہوں گے۔ اس وقت تو فرق نہیں بتا سکے گا: تو یقین کرے گا کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ صحیح ہے، یہ زندگی کا فطری تاثر ہے، اور یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ وہ جس نام پر یقین رکھتے ہیں وہ غلط ہے۔ کیا ایسے خیالات احمقانہ نہیں ہیں؟ ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ بیشتر لوگوں کی کوئی زندگی نہیں ہے؟ کیونکہ وہ خدا کو نہیں جانتے اور یہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے دلوں میں کوئی خدا نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی زندگی ہے۔ اگر تیرا خدا پر ایمان اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں تو خدا کے اعمال، خدا کی حقیقت اور خدا کے کام کے ہر مرحلے کو اچھی طرح جاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو تُو سچائی کا حامل ہے۔ اگر تجھے خدا کا کام اور مزاج معلوم نہیں ہے تو پھر بھی تیرے تجربے میں کچھ کمی ہے۔ یسوع نے اپنے کام کا وہ مرحلہ کس طرح انجام دیا، یہ مرحلہ کس طرح انجام دیا جا رہا ہے، خدا نے فضل کے دور میں اپنا کام کیسے کیا اور کیا کام کیا گیا، اس مرحلے میں کیا کام ہو رہا ہے – اگر تجھے ان چیزوں کا مکمل علم نہیں ہے تو تُو کبھی پُریقین محسوس نہیں کرے گا اور تو ہمیشہ غیر محفوظ رہے گا۔ اگر ایک مدت کے تجربے کے بعد تو خدا کے کیے ہوئے کام اور اس کے کام کا ہر مرحلہ جان سکے اور اگر تو نے خدا کے مقاصد کے بارے میں اس کے کلام کے بولنے کا مکمل علم حاصل کر لیا ہے اور یہ جان لیا ہے کہ اس نے جو کلام کہا ہے وہ کیوں پورا نہیں ہوا، تو تُو جرات کے ساتھ اور بلا کسی ہچکچاہٹ کے آگے کی راہ پر چل سکتا ہے، فکر اور تطہیر سے آزاد ہو کر۔ تمہیں دیکھنا چاہیے کہ خدا اپنے کام کا اتنا کچھ کن ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔ وہ اس کلام کا استعمال کرتا ہے جو وہ بولتا ہے، انسان کی تطہیر کرتا ہے اور کئی مختلف قسم کے الفاظ کے ذریعے اس کے تصورات تبدیل کرتا ہے۔ وہ سب مصائب جو تم نے برداشت کیے ہیں، وہ سب تطہیر جس سے تم گزرے ہو، وہ نمٹا جانا جو تم نے اپنے اندر قبول کیا ہے، وہ آگہی جو تم نے محسوس کی ہے – یہ سب خدا کے کہے ہوئے کلام کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔ انسان کس وجہ سے خدا کی پیروی کرتا ہے؟ وہ خدا کے کلام کی وجہ سے اس کی پیروی کرتا ہے! خدا کا کلام بہت پراسرار ہے اور وہ انسان کے دل کو متاثر کر سکتا ہے، اس کے اندر گہری مدفون چیزوں کو ظاہر کر سکتا ہے، اسے ماضی میں ہونے والی چیزوں سے واقف کروا سکتا ہے اور اسے مستقبل میں دخول کی اجازت دے سکتا ہے۔ پس انسان خدا کے کلام کی وجہ سے دکھ برداشت کرتا ہے اور خدا کے کلام کی وجہ سے ہی کامل بھی بنا دیا جاتا ہے: صرف اس وقت ہی انسان خدا کی پیروی کرتا ہے۔ انسان کو اس مرحلے میں جو کرنا چاہیے وہ خدا کا کلام قبول کرنا ہے اور اس سے قطع نظر کہ آیا اسے کامل بنایا گیا ہے یا تطہیر کا ہدف بنایا گیا ہے، خدا کا کلام ہی کلید ہے۔ یہ خدا کا کام ہے اور یہی وہ تصور بھی ہے جو آج انسان کو معلوم ہونا چاہیے۔

خدا انسان کو کامل کیسے بناتا ہے؟ خدا کا مزاج کیا ہے؟ اس کے مزاج میں کیا شامل ہے؟ ان سب باتوں کو واضح کرنے کے لیے: کوئی اسے خدا کے نام کی منادی کہتا ہے، کوئی اسے خدا کی گواہی دینا کہتا ہے اور کوئی اسے خدا کی بلند شان بیان کرنا کہتا ہے۔ انسان کی زندگی کا مزاج خدا کو جاننے کی بنیاد پر بالآخر تبدیل ہو جائے گا۔ انسان سے جتنا زیادہ نمٹا جاتا ہے اور جتی زیادہ اس کی اصلاح ہوتی ہے، وہ اتنی ہی زیادہ توانائی حاصل کرتا ہے؛ خدا کے کام کے جتنا زیادہ مراحل ہوں گے، انسان کو اتنا ہی کامل بنایا جائے گا۔ آج انسان کے تجربے کے مطابق خدا کے کام کا ہر ایک قدم اس کے تصورات پر حملہ کرتا ہے اور یہ سب کچھ انسان کی عقل اور اس کی توقعات سے باہر ہے۔ خدا وہ سب کچھ فراہم کرتا ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے اور ہر لحاظ سے یہ اس کے تصورات سے متصادم ہوتا ہے۔ خدا تیری کمزوری کے وقت میں اپنا کلام بیان کرتا ہے؛ اور صرف اسی طرح وہ تجھے زندگی فراہم کر سکتا ہے۔ تیرے تصورات پر جوابی حملہ کر کے وہ تجھے خدا کے معاملے کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے؛ صرف اسی طرح تو اپنے آپ کو اپنی بدعنوانی سے نجات دلا سکتا ہے۔ آج مجسم خدا ایک لحاظ سے الوہیت کی حالت میں کام کرتا ہے لیکن دوسرے لحاظ سے وہ عام انسانی حالت میں کام کرتا ہے۔ جب تو خدا کا کوئی کام جھٹلانے سے باز آنے کے قابل ہو جائے گا، خدا جو کچھ بھی کہتا ہے یا عام انسانی حالت میں کرتا ہے جب تو اس کی اطاعت کرنے کے قابل ہو جائے گا، وہ جس قسم کی انسانیت کو بھی ظاہر کرے جب تو اس کی اطاعت کرنے اور اسے سمجھنے کے قابل ہو جائے گا، اور جب تو اصل عملی تجربہ حاصل کر لے گا تو تب ہی تجھے یہ یقین ہوسکتا ہے کہ وہ خدا ہے، تب ہی تو تصورات پیدا کرنا چھوڑے گا اور تب ہی تو آخر تک اس کی پیروی کر سکے گا۔ خدا کے کام میں حکمت ہے اور وہ جانتا ہے کہ انسان اس کی گواہی میں کس طرح ثابت قدمی سے کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان کی اہم کمزوری کہاں ہے اور وہ جو کلام کہتا ہے وہ تیری اہم کمزوری پر ضرب لگا سکتا ہے، لیکن وہ اپنے عظیم اور دانش مندانہ کلام کا بھی استعمال کرتا ہے تاکہ تجھے اپنی گواہی دینے میں ثابت قدم بنا سکے۔ خدا کے معجزاتی اعمال ایسے ہی ہیں۔ خدا جو کام کرتا ہے وہ انسانی عقل کے لیے ناقابل تصور ہے۔ انسان جسم کا ہونے کی وجہ سے کس قسم کی بدعنوانی کا حامل ہے اور انسان کا مادہ کس چیز سے بنا ہے – یہ سب خدا کی عدالت کے ذریعے ظاہر کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے انسان کے پاس اپنی ندامت سے چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی ہے۔

خدا عدالت اور سزا کا کام کرتا ہے، تاکہ انسان اس کے بارے میں علم حاصل کرے اور یہ سب اس کی گواہی کی خاطر کیا جاتا ہے۔ انسان کے بدعنوان مزاج کے بارے میں اس کی عدالت کے بغیر، انسان ممکنہ طور پر اس کا راست باز مزاج نہیں جان سکتا تھا، جو کوئی جرم برداشت نہیں کرتا، اور نہ ہی انسان خدا کے بارے میں اپنے پرانے علم کو ایک نئے علم میں تبدیل کر سکے گا۔ اپنی گواہی کی خاطر اور اپنے انتظام کی خاطر وہ اپنا مکمل پن عوام میں ظاہر کرتا ہے اور اس طرح اپنے عام ظہور کے ذریعے انسان کو خدا کے علم تک پہنچنے، اس کے مزاج میں تبدیلی لانے اور خدا کی زبردست گواہی دینے کے قابل بناتا ہے۔ انسان کے مزاج کی تبدیلی خدا کے کام کی کئی مختلف اقسام کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے؛ اس کے مزاج میں ایسی تبدیلیوں کے بغیر انسان خدا کی گواہی دینے اور خدا کے دل کی پیروی کرنے سے قاصر ہو گا۔ انسان کے مزاج کی تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ انسان نے اپنے آپ کو شیطان کی غلامی اور تاریکی کے اثر سے آزاد کر لیا ہے اور وہ واقعی خدا کے کام کی مثال اور نمونہ، اور خدا کا ایک ایسا گواہ بن گیا ہے جو خدا کی مرضی کے مطابق ہے۔ آج مجسم خدا زمین پر اپنا کام کرنے آ چکا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ انسان اس کے بارے میں علم حاصل کرے، اس کی اطاعت کرے، اس کی گواہی دے، اس کے عملی اور معمول کے کام کو جانے، اس کے تمام کلام اور کام کی تعمیل کرے جو انسان کے تصورات سے مطابقت نہیں رکھتے، اور وہ انسان کو بچانے کے لیے جو کام کرتا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام اعمال جو وہ انسان کو فتح کرنے کے لیے کرتا ہے، ان کی گواہی دے۔ جو لوگ خدا کی گواہی دیتے ہیں انہیں لازماً خدا کا علم ہونا چاہیے؛ صرف اس قسم کی گواہی ہی درست اور حقیقی ہے اور صرف اس طرح کی گواہی ہی شیطان کو شرمندہ کر سکتی ہے۔ خدا ان لوگوں کو استعمال کرتا ہے جو اس کی عدالت اور سزا سے گزر کر، اور اپنی تراش خراش کے بعد اس کی گواہی دینے کے لیے اسے جان چکے ہیں۔ وہ شیطان کے ہاتھوں بدعنوان بننے والوں کو اپنی گواہی دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اور اسی طرح وہ ان لوگوں کو بھی استعمال کرتا ہے، جن کا مزاج بدل گیا ہے اور جنہوں نے اس کی نعمتیں حاصل کی ہیں۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنے منہ سے اس کی تعریف کرے اور نہ ہی اسے ان شیطان صفت انسانوں کی تعریف اور گواہی کی ضرورت ہے جنھیں اس نے نہیں بچایا۔ صرف خدا کو جاننے والے ہی اس کی گواہی دینے کے اہل ہیں اور وہی لوگ اس کی گواہی دینے کے اہل ہیں جو اپنے مزاج میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ خدا انسان کو جان بوجھ کر اپنے نام کو شرمندہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

حاشیہ:

ا۔ اصل متن میں لکھا ہے "خدا کو جاننے کا کام"۔

سابقہ: "ہزار سالہ بادشاہی کا آغاز ہو چکا ہے" کی بابت مختصر گفتگو

اگلا: پطرس نے یسوع کو کیسے جانا

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp