صرف عمل پر توجہ رکھنے والے ہی کامل بنائے جا سکتے ہیں
آخری ایام میں، خدا وہ کام کرنے کے لیے، جو اسے کرنا چاہیے اور اپنے کلام کی ذمہ داری انجام دینے کے لیے جسم بن گیا۔ وہ انسان کے درمیان کام کرنے کے لیے ذاتی طور پر آیا تھا جس کا مقصد ان لوگوں کو کامل کرنا تھا جو اس کے دل کے خواہاں ہیں۔ تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک، صرف آخری ایام کے دوران ہی اس نے اس قسم کا کام انجام دیا ہے۔ صرف آخری ایام میں ہی اس طرح کے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے خدا نے خود کو مجسم کیا ہے۔ اگرچہ وہ ایسی مشقتیں برداشت کرتا ہے کہ جنھیں برداشت کرنا لوگوں کو مشکل لگےگا، اور اگرچہ وہ ایک عظیم خدا ہے جو تاحال ایک عام انسان بننے جیسی عاجزی رکھتا ہے، اس کے کام کاپہلو تاخیرمیں نہیں ڈالا گیا ہے، اور اس کا منصوبہ معمولی سا بھی افراتفری کا شکار نہیں ہوا ہے۔ وہ اپنے اصل منصوبے کے مطابق کام کر رہا ہے۔ اس مجسم ہونے کا ایک مقصد لوگوں کو فتح کرنا ہے، دوسرا ان لوگوں کو کامل بنانا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی آرزو رکھتا ہے جنھیں وہ کامل کرتا ہے، اور وہ بذاتِ خود دیکھنا چاہتا ہے کہ جن لوگوں کو وہ کامل کرتا ہے وہ اس کے لیے کس طرح گواہی دیتے ہیں۔ یہ ایک یا دو افراد نہیں ہیں جو کامل کیے گئے ہیں۔ بلکہ، یہ ایک گروہ ہے، جو صرف چند افراد پرمشتمل ہ۔ اس گروہ کے لوگ دنیا کے مختلف ممالک اور دنیا کی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اتنا زیادہ کام کرنے کا مقصد لوگوں کے اس گروہ کو حاصل کرنا ہے، اس گروہ کی گواہی حاصل کرنا ہے، اور وہ جلال حاصل کرنا ہے جو وہ ان سے حاصل کر سکتا ہے۔ وہ ایسا کام نہیں کرتا جس کی کوئی اہمیت نہ ہو اور نہ ہی وہ ایسا کام کرتا ہے جس کی کوئی قدر نہ ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ، اتنا زیادہ کام کرنے میں، خدا کا مقصد ان تمام لوگوں کو کامل کرنا ہے جنھیں وہ کامل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس جو فارغ وقت ہے، اس میں وہ برے لوگوں کو نکال باہر کرے گا۔ جان لو کہ وہ یہ عظیم کام برے لوگوں کی وجہ سے نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، وہ اپنا سب کچھ ان لوگوں کی اس معمولی سی تعداد کی وجہ سے دیتا ہے جو اس کی طرف سے کامل کیے جانے والے ہیں۔ جو کام وہ کرتا ہے، جو الفاظ وہ بولتا ہے، جو اسرار وہ ظاہر کرتا ہے، اور اس کی عدالت اور سزا سب لوگوں کی اس مختصر سی تعداد کی خاطر ہے۔ وہ ان برےلوگوں کی وجہ سے جسم نہیں بنا، کجا یہ کہ یہ برے لو گ اس میں شدید طیش جگائیں۔ وہ سچ بولتا ہے، اور داخلے کی بات کرتا ہے، ان لوگوں کی وجہ سے، جو کامل کیے جانے والے ہیں؛ وہ ان کی وجہ سے جسم بنا اور ان کی وجہ سے ہی وہ اپنے وعدے اور برکتیں عطا کرتا ہے۔ وہ سچائی، داخلے اور انسانوں میں جس زندگی کی بات کرتا ہے، ان پر برے لوگوں کی خاطر کام نہیں کیا جاتا ہے۔ وہ برے لوگوں سے بات کرنے سے بچنا چاہتا ہے، اس کے بجائے وہ تمام سچائیاں ان لوگوں کو عطا کرنا چاہتا ہے جنھیں کامل کیا جانا ہے۔ پھر بھی اس کے کام کا تقاضا ہے کہ، فی الحال، جو برے ہیں، اس کے کچھ اموال سے لطف اندوز ہونے کی انھیں اجازت دی جائے۔ جو لوگ سچائی پر عمل نہیں کرتے، جو خدا کو راضی نہیں کرتے اور جو اس کے کام میں خلل ڈالتے ہیں وہ سب برے ہیں۔ وہ کامل نہیں کیے جا سکتے، اور خدا کی نفرت پاتے ہیں اور رد کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ لوگ جو سچائی پر عمل کرتے ہیں اور خدا کو راضی کر سکتے ہیں اور جو خدا کے کام میں اپنا سب کچھ خرچ کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی طرف سے کامل کیے جا نے والے ہیں۔ خدا جنھیں مکمل کرنا چاہتا ہے، وہ اس گروہ کے علاوہ کوئی نہیں اور جو کام خدا کرتا ہے وہ ان ہی لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔ وہ جس سچائی کی بات کرتا ہے اس کا مخاطب یہی لوگ ہیں جو اس پر عمل کے لیے آمادہ ہیں۔ وہ ان لوگوں سے بات نہیں کرتا جو سچائی پرعمل نہیں کرتے۔ بصیرت میں اضافہ اور اس فہم میں فروغ، جس کی وہ بات کرتا ہے اس کا مقصد ان لوگوں کوہدف بنانا ہے جو سچائی پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔ جب وہ کامل کیے جانے والوں کے بارے میں بات کرتا ہے، تو یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں وہ بات کر رہا ہے۔ روح القدس کے کام کا رخ ان لوگوں کی جانب ہے جو سچائی پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حکمت اور انسانیت کا حامل ہونے جیسی چیزوں کا رخ ان لوگوں کی طرف ہوتا ہے جو سچائی پر عمل کے لیے تیار ہیں۔ جو لوگ سچائی پر عمل نہیں کرتے وہ سچائی کے بہت سے الفاظ سن سکتے ہیں، لیکن چونکہ وہ فطرتاً بہت برے ہیں اور سچائی میں دلچسپی نہیں رکھتے، لہٰذا وہ جو سمجھتے ہیں وہ زندگی میں اپنے داخلے کی ذرا سی بھی قدر کے بغیر، صرف عقائد اور الفاظ اور کھوکھلے نظریات سمجھتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی خدا کاوفادار نہیں ہے؛ وہ سب ایسے لوگ ہیں جو خدا کو دیکھتے تو ہیں مگر اسے حاصل نہیں کرسکتے؛ وہ سب خدا کی طرف سے لعنت یافتہ ہیں۔
روح القدس ہر شخص کے اندر چلنے کا ایک راستہ رکھتا ہے، اور ہر شخص کو کامل کیے جانے کا ایک موقع دیتا ہے۔ تیری منفیت کے ذریعے تیری اپنی بدعنوانی تجھے جتا دی جاتی ہے، اور تب اپنی منفیت پرے پھینک کر تجھے عمل کا ایک راستہ مل جاتا ہے؛ یہ وہ تمام طریقے ہیں جن سے تجھے کامل کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، تیرے اندر موجود کچھ مثبت چیزوں کی مسلسل رہنمائی اور روشنی کے ذریعے، تُو فعال طور پر اپنا کام انجام دے گا، بصیرت میں بڑھے گا اور فہم حاصل کرے گا۔ جب تیرے حالات اچھے ہوتے ہیں تو، تُو خاص طور پر خدا کا کلام پڑھنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے، اور خاص طور پر خدا سے دعا کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے، اور جو وعظ تُو سنتا ہے، خود اپنی حالت سے ان کی نسبت ڈھونڈ سکتا ہے۔ ایسے وقتوں میں خدا تجھے اندر سے آگہی اور روشنی دیتا ہے، جس سے تجھے مثبت پہلو کی کچھ چیزوں کا ادراک ہوتا ہے۔ تجھے اس طرح مثبت پہلو میں کامل کیا جاتا ہے۔ منفی حالتوں میں، تُو کمزور اور غیر فعال ہوتا ہے۔ تُو محسوس کرتا ہے کہ تیرے دل میں خدا نہیں ہے، پھر بھی خدا تجھے روشن کرتا ہے، اور تجھے عمل کرنے کا راستہ تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس سے باہر نکلنا منفی پہلو میں کمال کا حصول ہے۔ خدا انسان کو مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے کامل کر سکتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آیا تُو تجربہ کرنے کے قابل ہے یا نہیں، اور آیا تُو خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کی جستجو کرتا ہے۔ اگر تُو واقعی خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کی جستجو کرتا ہے تو منفیت تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی، بلکہ تجھے وہ چیزیں مہیا کرسکتی ہے جو زیادہ حقیقی ہیں، اور تجھے وہ چیزیں جاننے کے زیادہ قابل بنا سکتی ہے جن کا تیرے اندر فقدان ہے، تُو اپنی حقیقی حالت سمجھنے کے زیادہ قابل ہوتا ہے، اور یہ دیکھ سکتا ہے کہ انسان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، اور وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تُو آزمائشوں کا تجربہ نہیں کرتا، تو تُو نہیں جانتا، اور ہمیشہ محسوس کرے گا کہ تُو دوسروں سے بالاتر اور سب سے بہتر ہے۔ اس سب کے ذریعے تُو دیکھے گا کہ جو کچھ پہلے آیا تھا وہ خدا کی طرف سے کیا گیا تھا اور خدا کی طرف سے محفوظ کیا گیا تھا۔ آزمائشوں میں داخلے سے تُو محبت یا ایمان کے بغیر رہ جاتا ہے، تُو دعا سے محروم ہوتا ہے اور مناجاتیں گانے سے قاصر رہتا ہے اور اس کا ادراک کیے بغیر، اس کے بیچ میں، تُو خود کو جان لیتا ہے۔ خدا انسان کو کامل بنانے کے بہت سے ذرائع رکھتا ہے۔ وہ انسان کے بد عنوان مزاج سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کے ماحول سے استفادہ کرتا ہے اور انسان کو عیاں کرنے کے لیے مختلف اشیا استعمال میں لاتا ہے؛ ایک حوالے سے، وہ انسان سے نمٹتا ہے، دوسرے سے وہ انسان کو عیاں کرڈالتا ہے اور ایک اور طرح وہ انسان کا پردہ فاش کردیتا ہے، انسان کے دل کی گہرائیوں سے ”بھید“ کھود نکالتا اور بے نقاب کردیتا ہے اور اس کی بہت سی حالتوں کی نقاب کشائی کرکے انسان کو اس کی فطرت دکھا دیتا ہے۔ خدا انسان کو بہت سے طریقوں سے کامل بناتا ہے – مکاشفے کے ذریعے، انسان سے نمٹنے کے ذریعے، انسان کو پاک کرنے اور سزا کے ذریعے – تاکہ انسان جان سکے کہ خدا عملی ہے۔
تم اب کیا جستجو کر رہے ہو؟ خدا کی طرف سے کامل ہونے، خدا کی معرفت، خدا کا حصول – یا شاید تمھیں 90 کی دہائی کے پطرس کا انداز اختیار کرنے، یا ایوب سے زیادہ ایمان رکھنے کی جستجو ہے، یا تم خدا کی طرف سے راستباز کہلانے اور خدا کے تخت کے حضور آنے، یا خدا کو زمین پر ظاہر کرنے کے قابل ہونے اور خدا کے لیے طاقت ور اور گونج دار گواہی دینے کی جستجو میں ہو۔ اس سے قطع نظر کہ تمھاری جستجو کیا ہے، مجموعی طور پر، تم خدا کی طرف سے نجات پانے کی خاطر جستجو کرتے ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تُو ایک راست باز شخص بننے کی کوشش کرتا ہے، اگر تُو پطرس کے انداز، یا ایوب کے ایمان، یا خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کی کی جستجو کرتا ہے، یہ سب کام خدا انسان پر کرتا ہے۔ دیگر الفاظ میں، قطع نظر اس کے کہ تیری کیا جستجو ہے، یہ سب خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کی خاطر ہے، سب خدا کے کلام کا تجربہ کرنے کی خاطر ہے، خدا کا دل راضی کرنے کے لیے ہے؛ تُو جو بھی جستجو کرتا ہے، یہ سب خدا کی دل آویزی دریافت کرنے، حقیقی تجربے میں عمل کا راستہ تلاش کرنے کی خاطر ہے، جس کا مقصد اپنے خود کے باغی مزاج کو پرے پھینکنے کے قابل ہونا، اپنے اندر ایک معمول کی حالت حاصل کرنا، خدا کی رضا سے مکمل طور پر مطابقت رکھنے کے قابل ہونا، ایک درست شخص بننا، اور ہر کام جو تم کرو اس میں ایک صحیح مقصد حاصل کرنا ہے۔ تیرے ان سب چیزوں کا تجربہ کرنے کی وجہ خدا کو جاننا اور زندگی کی نمو حاصل کرنے تک رسائی ہے۔ اگرچہ تُو جو تجربہ کرتا ہے، وہ خدا کا کلام اور حقیقی واقعات کے ساتھ ساتھ تیرے آس پاس کے لوگ، معاملات اور چیزیں ہیں، آخر کار تُو خدا کی معرفت پانے اور خدا کی طرف سے کامل کیے جا نے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کسی راست باز شخص کے راستے پر چلنے کی جستجو کرنا یا خدا کے کلام پر عمل کی کوشش کرنا: چلنے کے لیے راستہ یہی ہے، جبکہ خدا کی معرفت پانا اور خدا کی طرف سے کامل کیا جانا منزل ہے۔ چاہے اب تجھے خدا کی طرف سے کمال کیے جانے کی جستجو ہے، یا خدا کے لیے گواہی دینا چاہتا ہے، یہ سب آخر کار خدا کی معرفت پانے کے لیے ہے؛ تاکہ وہ تجھ میں جو کام کرتا ہے، وہ رائیگاں نہ جائے، تاکہ آخر کار تُو خدا کی حقیقت جان سکے، اس کی عظمت جان سکے، اور اس سے بھی بڑھ کر خدا کی عاجزی اور پوشیدگی جان سکے، اور یہ جان سکے کہ خدا تجھ میں کتنا بڑا کام کرتا ہے۔ خدا نے اپنے آپ کو اس درجے تک عاجز کیا ہے کہ وہ ان گندے اوربدعنوان لوگوں میں اپنا کام کرتا ہے، اور لوگوں کے اس گروہ کو کامل کرتا ہے۔ خدا صرف لوگوں کے درمیان رہنے اور کھانے، لوگوں کی گلہ بازی کرنے، اور لوگوں کو حسبِ ضرورت فراہم کرنے کے لیے جسم نہیں بنا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان ناقابل برداشت بدعنوان لوگوں پر نجات اور فتح کا اپنا عظیم کام کرتا ہے۔ وہ بڑے لال اژدہے کے قلب میں آیا تاکہ یہ سب سے زیادہ بدعنوان لوگ بچائے جا سکیں، تاکہ تمام لوگ تبدیل کیے اور نئے بنائے جا سکیں۔ خدا جو بے پناہ مشکلات برداشت کرتا ہے، وہ نہ صرف وہ مشکلات ہیں جو مجسم خدا برداشت کرتا ہے، بلکہ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ خدا کی روح انتہائی ذلت سہتی ہے – وہ عاجزی کرتا ہے اور اپنے آپ کو اتنا چھپاتا ہے کہ وہ ایک عام انسان بن جاتا ہے۔ خدا مجسم ہوا اور جسم کی شکل اختیار کی تاکہ لوگ دیکھیں کہ وہ عام انسانی زندگی اور عام انسانی ضروریات رکھتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ خدا نے خود کو بہت حد تک عاجز کیا ہے۔ خدا کی روح جسم میں بروئے کار ہوتی ہے۔ اس کی روح بہت بلنداور عظیم ہے، پھر بھی وہ ایک عام انسان کی شکل اختیار کرتا ہے، ایک ناقابلِ توجہ انسان کی، تاکہ اس کی روح کا کام کرے۔ تم میں سے ہر ایک کی لیاقت، بصیرت، شعور، انسانیت اور زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ تم واقعی خدا کا اس قسم کا کام قبول کرنے کے قابل نہیں ہو۔ تم واقعی اتنی وقعت نہیں رکھتے کہ خدا تمھاری خاطر اس طرح کی مشکلات برداشت کرے۔ خدا اتنا عظیم ہے۔ وہ اتنا عالی مرتبہ ہے، اور لوگ اتنے پست ہیں، پھر بھی وہ ان پر کام کرتا ہے۔ وہ صرف لوگوں کو فراہم کرنے، لوگوں سے بات کرنے کے لیے مجسم نہیں ہوا تھا، بلکہ وہ لوگوں کے ساتھ مل کربھی رہتا تھا۔ خدا بہت منکسرالمزاج ہے، بہت قابلِ محبت ہے۔ اگر، جیسے ہی خدا کی محبت کا ذکر کیا جائے، جیسے ہی خدا کے فضل کا ذکر کیا جائے، تُو زبردست تعریف کرتے ہوئے آنسو بہاتا ہے، اگر تُو اس حالت میں پہنچ جاتا ہے، تو تُو خدا کا سچا علم رکھتا ہے۔
آج کل لوگوں کی جستجو میں ایک کج روی ہے؛ وہ صرف خدا سے محبت کرنے اور خدا کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ خدا کا کوئی علم نہیں رکھتے اور انھوں نے اپنے اندر روح القدس کی آگہی اور روشنی نظرانداز کر رکھی ہے۔ ان کے پاس خدا کے حقیقی علم کی بنیاد نہیں ہے۔ اس طرح، ان کا تجربہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، وہ جوش کھوتے جاتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو خدا کے بارے میں حقیقی علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ وہ ماضی میں اچھی حالتوں میں نہیں تھے، منفیت اور کمزوری کی طرف مائل تھے، اور اکثر آنسو بہاتے تھے، ہمت ہار دیتے تھے، اور امید کھو دیتے تھے – اب، جیسے جیسے وہ زیادہ تجربہ حاصل کرتے ہیں، ان کی حالت بہتر ہوتی جاتی ہے۔ نمٹائے اور سدھائے جانے کے تجربے کے بعد، اور آزمائش اور پاک کیے جانے کے ایک دور سے گزرنے کے بعد، انھوں نے بڑی پیش رفت کی ہے۔ منفی حالتیں کم ہو گئی ہیں، اور ان کی زندگی کے مزاج میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ جب وہ مزید آزمائشوں سے گزرتے ہیں تو ان کے دل خدا سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ لوگوں کو خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کا ایک اصول ہے، جو یہ ہے کہ وہ تیرا ایک محبوب حصہ استعمال کرکے تجھے آگہی بخشتا ہے، تاکہ تیرے پاس عمل کرنے کا ایک راستہ ہو اور تُو اپنے آپ کو تمام منفی حالتوں سے الگ کرسکے، تیری روح کو رہائی حاصل کرنے میں مدد کرے، اور تجھے اس سے محبت کے مزید قابل بنائے۔ اس طرح، تُو شیطان کا بدعنوان مزاج دور پھینکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ تُو بھولا بھالا اور کھلے دل کا ہے، اپنے آپ کو جاننے اور سچائی پر عمل کے لیے تیار ہے۔ خدا یقیناً تجھے برکت دے گا، اس لیے جب تُو کمزور اور منفی ہوتا ہے، تو وہ تجھے دگنی آگہی دیتا ہے، تجھے اپنے آپ کو مزید جاننے میں مدد دیتا ہے، تو اپنے لیے توبہ کرنے کے لیے مزید آمادہ ہوتا ہے، اور ان چیزوں پر عمل کرنے کے زیادہ قابل ہوجاتا ہے جن پر تجھے عمل کرنا چاہیے۔ صرف اسی طریقے سے تمھارا دل پرامن اور پرسکون سے رہ سکتا ہے۔ جو شخص عام طور پر خدا کو جاننے پر توجہ دیتا ہے، جو اپنے آپ کو جاننے پر توجہ دیتا ہے، جو اپنے عمل پر توجہ دیتا ہے، وہ کثرت سے خدا کے کام کے ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی اور آگہی حاصل کرنے کے قابل ہو گا۔ اگرچہ ہوسکتا ہے ایسا شخص منفی حالت میں ہو، وہ فوری طور پر چیزیں پوری طرح تبدیل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، خواہ ضمیر کے عمل کی وجہ سے ہو یا خدا کے کلام کی آگہی کی بدولت۔ انسان کے مزاج کی تبدیلی ہمیشہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنی اصل حالت اور خدا کا مزاج اور کام جانتا ہو۔ ایک شخص جو اپنے آپ کو جاننے اور خود کو کھولنے کے لئے تیار ہے، وہ سچائی پر عمل درآمدکے قابل ہوگا۔ اس قسم کا شخص ہی وہ شخص ہے جو خدا کا وفادارہوتا ہے، اور جو شخص خدا کا وفادار ہے وہ خدا کی سمجھ رکھتا ہے، چاہے یہ سمجھ گہری ہو یا ہلکی، معمولی ہو یا بہت زیادہ۔ یہ خدا کی راست بازی ہے، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو لوگ حاصل کرتے ہیں؛ یہ ان کا اپنا منافع ہے۔ ایک ایسا شخص جس کے پاس خدا کا علم ہے، وہ، وہ ہے جس کے پاس ایک بنیاد ہے، جس کے پاس بصیرت ہے۔ اس طرح کا شخص خدا کے جسم، خدا کے کلام اور خدا کے کام کے بارے میں پُریقین ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ خدا کس طرح کام کرتا ہے یا بات کرتا ہے، یا دوسرے لوگ کس طرح خلل پیدا کرتے ہیں، وہ اپنے موقف پر قائم رہ سکتا ہے، اور خدا کے لیے گواہی دے سکتا ہے۔ ایک شخص جتنا زیادہ اس طرح کا ہوتا ہے، اتنا ہی وہ اس سچائی پر عمل درآمد کرسکتا ہے جسے وہ سمجھتا ہے۔ چونکہ وہ ہمیشہ خدا کے کلام پر عمل کرتا ہے، لہٰذا وہ خدا کے بارے میں زیادہ سمجھ حاصل کرتا ہے، اور خدا کے لیے ہمیشہ گواہی دینے کا عزم رکھتا ہے۔
تفہیم کا حامل ہونے، اطاعت گزار ہونے، اور چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت کا حامل ہونے کا، تاکہ تُو روح میں پُر اشتیاق ہو، کا مطلب یہ ہے کہ تجھے جیسے ہی کسی چیز کا سامنا ہو تا ہے، تیرے پاس موجودخدا کا کلام تجھے اندر سے آگہی اور روشنی دیتا ہے۔ یہی روح میں پُر اشتیاق ہونا ہے۔ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ لوگوں کی روحیں دوبارہ زندہ کرنے میں مدد کے لیے ہوتا ہے۔ خدا لوگوں کو ہمیشہ بے حس اور بیوقوف کیوں کہتا ہے؟ اس لیے کہ لوگوں کی روحیں مر چکی ہیں، اور وہ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ روح کی چیزوں کے بارے میں بالکل بے شعور ہیں۔ خدا کا کام لوگوں کی زندگیوں کو ترقی دینے اور لوگوں کی روحیں دوبارہ زندہ کرنے میں مدد کرنا ہے، تاکہ وہ روح کی چیزوں کا مشاہدہ کر سکیں، اور وہ ہمیشہ اپنے دلوں میں خدا سے محبت کرنے اور خدا کو راضی کرنے کے قابل ہوں۔ اس مرحلے پر پہنچنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی انسان کی روح دوبارہ زندہ ہو گئی ہے، اور اگلی بار جب اسے کسی چیز کا سامنا ہوتا ہے تو وہ فوری طور پر رد عمل ظاہر کر سکتا ہے۔ وہ وعظوں کا جواب دیتا ہے، اور حالات پر تیزی سے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ روح کا اشتیاق حاصل کرنا یہی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی بیرونی واقعہ پر فوری رد عمل ظاہر کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی حقیقت میں داخل ہونے یا روح کی تفصیلی باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ بے حس اور بے وقوف ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی چیز کو صرف اسی صورت میں سمجھتے ہیں جب وہ ان کے روبروانھیں گھور رہی ہو۔ یہ سب اس بات کی نشانیاں ہیں کہ وہ روحانی طور پر بے حس اور بے وقوف ہیں، روح کی چیزوں کا بہت کم تجربہ رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ روح کا اشتیاق اور سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ جیسے ہی وہ ایسا کلام سنتے ہیں جو ان کی حالتوں کی نشاندہی کرتا ہو، وہ اسے لکھنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایک بار جب وہ عمل کے اصولوں کے بارے میں کلام سنتے ہیں تو، وہ انہیں قبول کرنے اور انہیں اپنے بعد کے تجربے پر لاگو کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں، اس طرح خود کو تبدیل کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جو روح میں پُر اشتیاق ہے۔ ان میں اتنی جلدی رد عمل دینے کی اہلیت کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روزمرہ زندگی میں ان چیزوں پر توجہ دیتے ہیں۔ جب وہ خدا کا کلام پڑھتے ہیں، تو وہ اس کے مقابل اپنی حالتیں جانچنے اور خود پر غور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جب وہ رفاقت اور وعظ سنتے ہیں اور ایسا کلام سنتے ہیں جو ان کے لیے آگہی اور روشنی لاتا ہے، تو وہ اسے فوراً حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہ بھوکے کو کھانا دینے کے مترادف ہے؛ وہ فوری طور پر کھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگرتُو کسی ایسے شخص کو کھانا دیتا ہے جو بھوکا نہ ہو، تو وہ اتنی جلدی رد عمل ظاہر نہیں کرتا۔ تُو اکثر خدا سے دعا کرتا ہے، اور پھر جب تجھے کسی چیز کا سامنا ہوتا ہے تو تُو فوراً رد عمل ظاہر کرنے کے قابل ہوتا ہے: خدا اس معاملے میں کیا چاہتا ہے، اور تجھے کیسے عمل کرنا چاہیے۔ خدا نے پچھلی بار اس معاملے میں تیری رہنمائی کی تھی؛ آج جب تجھے اسی قسم کی چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو قدرتی طور پر تجھے معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا دل راضی کرنے والے طریقے پر کیسے عمل کرنا ہے۔ اگر تُو ہمیشہ اسی طرح عمل کرتا ہے اور ہمیشہ اس طرح کا تجربہ کرتا ہے، تو کسی موقع پر یہ تیرے پاس آسانی سے آجائے گا۔ خدا کا کلام پڑھتے وقت، تُو جانتا ہے کہ خدا کس قسم کے شخص کا حوالہ دے رہا ہے، تُو جانتا ہے کہ وہ روح کی کس قسم کی حالتوں کے بارے میں بات کر رہا ہے، اور تُو کلیدی نکتہ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے قابل ہوتا ہے؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تُو تجربہ کرنے کا اہل ہے۔ کچھ لوگوں میں اس حوالے سے کمی کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عمل کے پہلو میں زیادہ کاوش نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ سچائی پر عمل کے لیے آمادہ ہوتے ہیں، لیکن ان کے پاس خدمت کی تفصیلات، اپنی زندگی میں سچائی کی تفصیلات کے بارے میں حقیقی بصیرت نہیں ہوتی ہے۔ جب کچھ ہوتا ہے تو وہ الجھن میں پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح جب کوئی جھوٹا نبی یا جھوٹا رسول آیا تو تُو گمراہ ہو جائے گا۔ تجھے خدا کے کلام اور کام کے بارے میں اکثر رفاقت کرنی چاہیے – صرف اسی طرح تُو سچائی سمجھنے اور فہم پیدا کرنے کے قابل ہو گا۔ اگر تُو سچائی نہیں سمجھے گا تو تجھے کچھ سمجھ نہیں آئے گی۔ مثال کے طور پر، خدا کیا بولتا ہے، خدا کیسے کام کرتا ہے، لوگوں سے اس کے مطالبات کیا ہیں، تجھے کس قسم کے لوگوں سے رابطہ کرنا چاہیے، اور تجھے کس قسم کے لوگ مسترد کرنے چاہئیں – تجھے ان چیزوں کے بارے میں اکثر رفاقت کرنی چاہیے۔ اگر تُو ہمیشہ اس طرح خدا کے کلام کا تجربہ کرتا ہے، تو تُو سچائی سمجھے گا اور بہت سی چیزیں اچھی طرح سمجھے گا، اور تجھے فہم بھی حاصل ہو گی۔ روح القدس کی طرف سے تربیت کیا جانا کیا ہے، انسانی مرضی سے وجود میں آنے والا الزام کیا ہے، روح القدس کی طرف سے رہنمائی کیا ہے، کسی ماحول کا بندوبست کیا ہے، خدا کے کلام کی اندر سے آگہی کیا ہے؟ اگر تُو ان چیزوں کے بارے میں واضح نہیں ہیں تجھے کوئی فہم نہیں ملےگی۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ روح القدس کی طرف سے کیا آتا ہے، باغی مزاج کیا ہے، خدا کے کلام کی اطاعت کیسے کی جائے، اور اپنی سرکشی کیسے دور کی جائے۔ اگرتُو ان چیزوں کی تجرباتی فہم رکھتا ہے تو تیرے پاس ایک بنیاد ہو گی؛ جب کچھ رونما ہوتا ہے تو تیرے پاس ایک مناسب سچائی ہو گی جس کے مقابل تو اس کی جانچ کر سکتا ہے اور بنیاد کے طور پر موزوں رویائیں ہوں گی۔ تُو جو کچھ بھی کرے گا اس میں اصول ہوں گے، اور تُو سچائی کے مطابق عمل کر سکے گا۔ پھر تیری زندگی خدا کی آگہی سے بھری ہوگی، خدا کی برکتوں سے بھری ہو گی۔ خدا کسی ایسے شخص کے ساتھ ناانصافی نہیں کرے گا جو سچے دل سے اس کی جستجو کرتا ہے یا جو اس کی زندگی گزارتا ہے اور اس کی گواہی دیتا ہے اور وہ کسی ایسے شخص پر لعنت نہیں کرے گا جو خلوص سے سچائی کی پیاس رکھنے کے قابل ہو۔ اگر تُو خدا کا کلام کھاتےاور پیتے ہوئے اپنی حقیقی حالت جاننے پر توجہ دے سکتا ہے، اپنے عمل پر توجہ دے سکتا ہے، اور اپنی فہم پر توجہ دے سکتا ہے، تو پھر جب تجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے، تو تجھے آگہی ملے گی اور عملی سمجھ حاصل ہو گی۔ تب تیرے پاس ہر چیز میں عمل اور فہم کا راستہ ہو گا۔ ایک شخص جس کے پاس سچائی ہے اس کے دھوکا کھا نے کا امکان نہیں ہوتا ہے، خلل ڈالنے والا رویہ اختیار کرنے یا زیادتی کرنے کا امکان نہیں ہوتا ہے۔ سچائی کی وجہ سے، وہ محفوظ ہوتا ہے، اور سچائی کی وجہ سے، وہ زیادہ سمجھ حاصل کرتا ہے۔ سچائی کی بدولت، اس کے پاس عمل کرنے کے لیے زیادہ راستے ہوتے ہیں، روح القدس کو اس میں کام کرنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں، اور کامل کیے جانے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔