صرف خدا سے محبت کرنا ہی خدا پر سچا ایمان رکھنا ہے

آج، جبکہ تم خدا سے محبت کرنے اور اُسے جاننے کی کوشش کرتے ہو، تو ایک لحاظ سے تمھیں لازماً مشقت اور تزکیہ برداشت کرنا ہو گا اور دوسرے لحاظ سے، تمھیں لازماً قیمت چُکانی ہو گی۔ کوئی سبق خدا سے محبت کرنے کے سبق سے زیادہ گہرا نہیں ہے، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی بھر کے ایمان سے لوگ جو سبق سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ خدا سے محبت کیسے کی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تُوخدا پر ایمان رکھتا ہے تو تجھے لازماً خدا سے محبت کرنی چاہیے۔ اگر تُو صرف خدا پر ایمان رکھتا ہے لیکن اس سے محبت نہیں کرتا اور تو نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی ہے، اور کبھی خدا سے ایسی حقیقی محبت نہیں کی جو تیرے دل کے اندر سے نکلتی ہے تو خدا پر تیرا ایمان ناکارہ ہے، اگر تُو خدا پر اپنے ایمان میں، خدا سے محبت نہیں کرتا تو تیرا جینا بےکار ہے اور تیری پوری زندگی تمام زندگیوں میں سب سے پست ہے۔ اگر تو نے اپنی پوری زندگی میں کبھی خدا سے محبت نہیں کی یا اسے راضی نہیں کیا تو پھر تیرے جینے کا کیا مقصد ہے؟ اور خدا پر تیرے ایمان لانے کا کیا مقصد ہے؟ کیا یہ کوشش کا ضیاع نہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ خدا پر ایمان لائیں اور اُس سے محبت کریں تو پھر اُنہیں ایک قیمت چکانی پڑے گی۔ بیرونی طور پر کسی خاص طریقے سے کام کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے، انہیں اپنے دل کی گہرائیوں میں سچی بصیرت کی جستجو کرنی چاہیے۔ اگر تُو گانے اور ناچنے کا شوقین ہے، لیکن سچائی پر عمل کرنے سے قاصر ہے، تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے تجھے خدا سے محبت ہے؟ خدا سے محبت کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز میں خدا کی مرضی تلاش کی جائے، اور یہ کہ جب تیرے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو تُو اپنے اندر گہرائی سے اس کی تحقیق کرتا ہے، خدا کی مرضی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس معاملے میں خدا کی مرضی کیا ہے، وہ تجھ سے کیا حاصل کرنے کے لیے کہتا ہے، اور تجھے کس طرح اس کی مرضی کا خیال رکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر: اگر کچھ ایسا ہوتا ہے جس کے لیے تجھے مشکلات برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس وقت تجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ خدا کی مرضی کیا ہے اور تجھے اس کی مرضی کا خیال کیسے رکھنا چاہیے۔ تجھے بالکل اپنے آپ کو مطمئن نہیں کرنا ہے: پہلے اپنے آپ کو ایک طرف رکھ دے۔ جسم سے زیادہ حقیر کوئی چیز نہیں ہے۔ تجھے لازماً خدا کو راضی کرنے کی جستجو کرنی چاہیے، اور تجھے اپنا فرض پورا کرنا چاہیے۔ اس طرح کے خیالات سے خدا اس معاملے میں تجھے خاص آگہی دے گا اور تیرے دل کو بھی سکون ملے گا۔ خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، جب تیرے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو تجھے لازماً پہلے اپنے آپ کو ایک طرف رکھنا چاہیے اور جسم کو تمام چیزوں سے زیادہ حقیر سمجھنا چاہیے۔ تُو جسم کو جتنا زیادہ آسودہ کرتا ہے، وہ اتنی زیادہ چھُوٹ لیتا ہے؛ اگرتُو اس بار اسے آسودہ کرتا ہے، تو اگلی بار یہ مزید مانگے گا۔ جیسے جیسے یہ جاری رہتا ہے، لوگ جسم سے اور بھی زیادہ پیار کرنے لگتے ہیں۔ جسم ہمیشہ غیر معقول خواہشات رکھتا ہے۔ یہ ہمیشہ کہتا ہے کہ تُو اسے آسودہ کرے اور یہ کہ تُو اسے اندر سے مطمئن کرے، چاہے وہ ان چیزوں میں ہو جو تُو کھاتا ہے، جو تُو پہنتا ہے، یا تیرے غصے میں آنے میں، یا اپنی کمزوریوں اور سستی کی طرف توجہ دینے کی وجہ سے۔۔۔ تُو جسم کو جتنا زیادہ آسودہ کرتا ہے، اس کی خواہشات اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہیں اور جسم اتنا ہی زیادہ عیاش ہوتا ہے، یہاں تک کہ یہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جب لوگوں کا جسم اس سے بھی زیادہ گہرے تصورات کی آماجگاہ بن جاتا ہے، اور خدا کی نافرمانی کرتا ہے، اور اپنے گُن گانے لگتا ہے، اور خدا کے کام کے بارے میں شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تُو جسم کو جتنا زیادہ آسودہ کرے گا، جسم کی کمزوریاں اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ تُو ہمیشہ یہ محسوس کرے گا کہ تیری کمزوریوں پر کوئی اظہارِ ہمدردی نہیں کرتا، تجھے ہمیشہ یقین ہو گا کہ خدا بہت آگے نکل گیا ہے، اور تُو کہے گا: "خدا اتنا کٹھور کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ لوگوں پر دباؤ ڈالنا کیوں نہیں کرے گا؟" جب لوگ جسم آسودہ کرتے ہیں اور اسے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو برباد کر لیتے ہیں۔ اگر تُو واقعی خدا سے محبت کرتا ہے اور جسم کو آسودہ نہیں کرتا، تو تُو دیکھے گا کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ بہت درست اور اچھا ہے، اور یہ کہ تیری سرکشی پر اس کی لعنت اور تیری نا راستی پر اس کا انصاف برحق ہے۔ ایسے وقت آتے ہیں جب خدا تیری تادیب اور تربیت کرتا ہے اور تجھے غصہ دلانے کے لیے ماحول پیدا کرتا ہے، تجھے اپنے سامنے آنے پر مجبور کرتا ہے - اور تُو ہمیشہ محسوس کرے گا کہ خدا جو کچھ کر رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ اس طرح تُو محسوس کرے گا کہ گویا زیادہ تکلیف نہیں ہے، اور یہ کہ خدا بہت پیارا ہے۔ اگر تُو جسم کی کمزوریوں کی طرف توجہ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا بہت زیادتی کرتا ہے، تو تُو ہمیشہ تکلیف میں رہے گا، اور ہمیشہ افسردہ رہے گا، اور تُو خدا کے تمام کاموں کے بارے میں غیرواضح رہے گا، اور یوں لگے گا کہ خدا انسان کی کمزوری پر بالکل بھی ہمدرد نہیں اور انسان کی مشکلات سے بے خبر ہے۔ اور اس طرح تُو خود کوہمیشہ دکھی اور تنہا محسوس کرے گا، گویا تجھ پر بہت ظلم ہوا ہے، اور اس وقت تُو شکایت کرنے لگے گا۔ اس طرح تو جتنا زیادہ جسم کی کمزوریوں کی طرف توجہ دے گا، اتنا ہی زیادہ تُو محسوس کرے گا کہ خدا بہت زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ معاملہ اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ تُو خدا کے کام کا انکار کرنے لگتا ہے، اور خدا کی نافرمانی سے بھر جاتا ہے۔ اور تُو مکمل نافرمانی پر اتر آئے گا۔ لہٰذا، تجھے لازماً جسم کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے، اور اس کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے: "میرا شوہر (بیوی)، بچے، امکانات، شادی، خاندان، ان میں سے کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتا! میرے دل میں صرف خدا ہے، اور مجھےلازماً اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کو راضی کروں نہ کہ جسم کو آسودہ کروں۔" تیرے پاس یہ عزم ہونا ضروری ہے۔ اگر تُو ہمیشہ اس طرح کے عزم کاحامل رہتا ہے، تو جب تُو سچائی پر عمل کرتا ہے اور اپنے آپ کو ایک طرف رکھتا ہے، تو تُو تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ایسا کر پائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک کسان تھا جس نے ایک سانپ کو دیکھا جو سڑک پر منجمد اور اکڑا پڑا تھا۔ کسان نے اسے اٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا لیا اور سانپ نے حالت سنبھلنے کے بعد کسان کو ڈس کر ہلاک کر دیا۔ انسان کا جسم سانپ کی طرح ہے: ان کی جانوں کو نقصان پہنچانا اس کا جوہر ہے اور جب یہ مکمل طور پر اپنا راستہ اختیار کر لیتا ہے تو تیری زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ یہ جسم شیطان کی ملکیت ہے۔ اس کے اندر متجاوز خواہشات ہیں، یہ صرف اپنی ہی ذات کے لیے سوچتا ہے، یہ آرام سے لطف اندوز ہونا اور آسائش میں رنگ رلیاں منانا چاہتا ہے، کاہلی اور سُستی میں لتھڑا ہوا، ایک خاص مقام تک اسے آسودہ کرنے کے بعد تو آخرکار اس کے ہاتھوں نگلا جائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تُو اس بار اسے آسودہ کرتا ہے تو اگلی بار وہ مزید مانگنے آئے گا۔ اس کی ہمیشہ غیر معقول خواہشات اور نئے مطالبات ہوتے ہیں، اور وہ جسم کی طرف تیری توجہ کا فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ تُو اس سے اور بھی زیادہ پیار کرے اور اس کی آسائشوں کے درمیان زندگی گزارے۔ اور اگر تُو اسے قابو میں نہیں رکھتا تو تُو بالآخر خود کو برباد کر لے گا۔ آیا تُو خدا کے سامنے زندگی حاصل کر سکتا ہے اور تیرا حتمی انجام کیا ہوگا، اس کا انحصار اس پر ہے کہ تُو جسم کے خلاف کیسے بغاوت کرتا ہے۔ خدا نے تجھے بچایا ہے اور تجھے منتخب کیا اور تیرا مقدر پہلے سے طے کیا ہے، لیکن اگر آج تُو اسے راضی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تُو سچائی پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تُو ایسے دل کے ساتھ اپنے جسم سے بغاوت کے لیے تیار نہیں ہے جو کہ واقعی خدا سے محبت کرتا ہے، تو پھر تُو بالآخر اپنے آپ کو تباہ کر لے گا، اور اس طرح شدید تکلیف برداشت کرے گا۔ اگر تُو ہمیشہ جسم کو توجہ دیتا رہے گا تو شیطان آہستہ آہستہ تجھے نگل جائے گا اور تجھے زندگی اور روح کے لمس کے بغیر چھوڑ دے گا، حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب تُو بالکل اندھیرے میں گھِر جائے گا۔ جب تُو اندھیرے میں جیے گا تو تجھے شیطان نے اسیر کر لیا ہو گا، تیرے دل میں خدا مزید نہیں رہے گا، اور اس وقت تُو خدا کے وجود سے انکار کر دے گا اور اسے چھوڑ دے گا۔ لہٰذا، اگر لوگ خدا سے محبت کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں تکلیف کی قیمت چکانی پڑے گی اور سختی برداشت کرنا ہوگی۔ بیرونی جوش اور مشقت، زیادہ پڑھنا اور مزید کے بارے میں بھاگ دوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اس کی بجائے، انہیں اپنے اندر کی چیزیں ایک طرف رکھ دینا چاہییں: فضول خیالات، ذاتی مفادات، اور ان کے اپنے خیالات، تصورات اور ارادے۔ یہی خدا کی مرضی ہے۔

خدا کا لوگوں کے خارجی مزاج سے نمٹنا بھی اس کے کام کا ایک حصہ ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کی بیرونی، غیر معمولی انسانیت سے نمٹنا، یا ان کا طرز ِزندگی اور عادات، ان کے طور طریقے اور رسم و رواج کے ساتھ ساتھ ان کے بیرونی طرزعمل اور ان کے جوش و جذبے سے بھی۔ مگر جب وہ لوگوں کو سچائی پر عمل کرنے اور ان کے مزاجوں کو تبدیل کرنے کو کہتا ہے، تو بنیادی طور پر جن چیزوں سے نمٹا جارہا ہے وہ ان کے اندر کے ارادے اور تصورات ہیں۔ صرف تیرے خارجی مزاج سے نمٹنا مشکل نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تجھے یہ کہا جائے کہ وہ چیزیں نہ کھا جو تجھے پسند ہیں، جو کہ آسان ہے۔ تاہم، جو تیرے اندر کے تصورات کو چھُوتا ہے، اسے چھوڑنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو جسم کے خلاف بغاوت کرنا پڑتی ہے، اور اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے، اور خدا کے سامنے مصیبت سہنا پڑتی ہے۔ یہ خاص طور پر لوگوں کے ارادوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب سے لوگوں نے خدا پر ایمان رکھنا شروع کیا ہے، انھوں نے بہت سے غلط ارادے پال لیے ہیں۔ جب تُو سچائی پر عمل نہ کر رہا ہو، تو تجھے لگتا ہے کہ تیرے تمام ارادے درست ہیں لیکن جب تیرے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو تجھے معلوم ہوتا ہے کہ تیرے اندر بہت سے غلط ارادے ہیں۔ لہٰذا خدا جب لوگوں کو کامل بناتا ہے، تو وہ انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے اندر بہت سے تصورات ہیں جو خدا کے بارے میں ان کے علم میں رکاوٹ ہیں۔ جب تُو پہچان لے کہ تیرے ارادے غلط ہیں، اگر تُو اپنے تصورات اور ارادوں کے مطابق عمل کرنا چھوڑ سکتا ہے، اور خدا کی گواہی دینے کے قابل ہے، اور اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات میں اپنے موقف پر ثابت قدم رہے تو یہ ثابت کرتا ہے کہ تُو نے جسم کے خلاف بغاوت کی ہے۔ جب تُو جسم کے خلاف بغاوت کرے گا تو تیرے اندر لامحالہ جنگ ہو گی۔ شیطان کوشش کرے گا اور لوگوں کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کرے گا، کوشش کرے گا کہ وہ جسم کے تصورات کی پیروی کریں اور جسم کے مفادات کو برقرار رکھیں۔ لیکن خدا کا کلام لوگوں کے اندر آگہی اور روشنی لائے گا، اور اس وقت یہ تجھ پر ہے، چاہے تُو خدا کی پیروی کرے یا شیطان کی پیروی کرے۔ خدا لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر اپنے اندر کی چیزوں سے نمٹنے کے لیے سچائی پر عمل کریں۔ اپنے خیالات اور تصورات سے نمٹنے کے لیے جو خدا کی پسند کے مطابق نہیں ہیں۔ روح القدس لوگوں کے دلوں کو چھوتی ہے اور انہیں آگہی اور روشنی دیتی ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے پیچھے ایک جنگ ہوتی ہے: جب بھی لوگ سچائی پر عمل کرتے ہیں، یا خدا کی محبت پر عمل کرتے ہیں، تو ایک بڑی جنگ ہوتی ہے، اور اگرچہ ان کے جسم کے متعلق سب کچھ اچھا لگے، لیکن ان کے دلوں کی گہرائیوں میں زندگی اور موت کی جنگ ہوگی، درحقیقت، یہ اب بھی چل رہی ہو گی – اور اس شدید جنگ کے بعد ہی، بہت زیادہ غور و فکر کے بعد، فتح یا شکست کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہنسنا ہے یا رونا ہے۔ کیونکہ لوگوں کے اندر بہت سے ارادے غلط ہیں، یا اس لیے کہ خدا کا زیادہ تر کام ان کے تصورات سے متصادم ہے، جب لوگ سچائی پر عمل کرتے ہیں تو پردے کے پیچھے ایک بڑی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ اس سچائی پر عمل کے بعد، پردے کے پیچھے، لوگ آخرکار خدا کو راضی کرنے کے لیے اپنا ذہن بنانے سے پہلے غم کے ان گنت آنسو بہا چکے ہوں گے۔ اس جنگ ہی کی وجہ سے لوگ مصائب اور تزکیہ برداشت کرتے ہیں؛ یہ حقیقی تکلیف ہے۔ جب تجھے جنگ درپیش ہوتی ہے، اگر تُو واقعی خدا کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل ہے، تو تُو خدا کو راضی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ سچائی پر عمل کرتے ہوئے، یہ ناگزیر ہے کہ انسان کو اندرونی تکلیف پہنچے گی۔ اگر، وہ سچائی پر عمل کرتے، اور لوگوں کے اندر سب کچھ ٹھیک ہوتا، تو پھر انہیں خدا کی طرف سے کامل بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ ہی کوئی جنگ ہوتی، اور نہ ہی وہ تکلیف اٹھاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے اندر بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو خدا کے استعمال کے قابل نہیں ہیں، اور چونکہ جسم کا باغیانہ مزاج بہت زیادہ ہے، اس لیے لوگوں کو جسم کے خلاف بغاوت کا سبق زیادہ گہرائی سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی کو خدا نے مصائب کا نام دیا ہے جو اُس نے انسان کو اپنے ساتھ جھیلنے کو کہا ہے۔ جب تجھے مشکلات کا سامنا ہو تو جلدی کر اور خدا سے دعا کر: "اے خدا! میں تجھے راضی کرنا چاہتا ہوں، میں تیرا دل راضی کرنے کے لیے آخری مشقت برداشت کرنا چاہتا ہوں، اور اس بات سے قطع نظر کہ مجھے کتنی ہی بڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر بھی مجھے تجھے راضی کرنا ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی ساری زندگی ہی کیوں نہ چھوڑ دینی پڑے، تب بھی مجھے تجھے راضی کرنا ہے!" اس عزم کے ساتھ جب تُو اس طرح دعا کرے گا تو تُو اپنی گواہی پر ثابت قدم رہ سکے گا۔ ہر بار جب وہ سچائی پر عمل کرتے ہیں، ہر بار جب وہ تزکیے کے عمل سے گزرتے ہیں، تو ہر بار ان کی آزمائش ہوتی ہے، اور جب بھی خدا کا کام ان پر آتا ہے، لوگوں کو شدید تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ یہ سب لوگوں کے لیے ایک امتحان ہے اور اسی لیے ان سب کے اندر ایک جنگ ہے۔ یہ وہ اصل قیمت ہے جو وہ چکاتے ہیں۔ خدا کا کلام زیادہ سے زیادہ پڑھنا اور مزید کے لیے بھاگ دوڑ کرنا اس قیمت کا ایک حصہ ہے۔ یہ وہی ہے جو لوگوں کو کرنا چاہیے، یہ ان کا فرض ہے، اور وہ ذمہ داری ہے جسے انہیں پورا کرنا چاہیے، لیکن لوگوں کو لازماً اپنے اندر وہ چیز ایک طرف رکھ دینی چاہیے، جسے ایک طرف رکھ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیری ظاہری تکلیف کتنی ہی زیادہ ہو، چاہے تُو کتنی ہی بھاگ دوڑ کرے، سب بیکار ہو جائے گا! جس کا مطلب یہ ہے کہ، صرف تیرے اندر کی تبدیلیاں اس بات کا تعین کر سکتی ہیں کہ آیا تیری ظاہری مشقت کی کوئی وقعت ہے۔ جب تیرا اندرونی مزاج بدل چکا ہے اور تُو نے سچائی پر عمل کرلیا ہے، تو تیرے تمام ظاہری مصائب خدا کی منظوری حاصل کر لیں گے۔ اگرتیرے داخلی مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو خواہ تُو کتنی ہی تکلیفیں برداشت کرے یا ظاہر میں کتنی ہی بھاگ دوڑ کیوں نہ کرے، خدا کی طرف سے کوئی منظوری نہیں ہوگی - اور وہ مشقت جس کی تصدیق خدا نے نہیں کی ہے، بےکار ہے۔ لہٰذا، جو قیمت تُو نے ادا کی ہے وہ خدا کو منظور ہے یا نہیں، اس کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ آیا تجھ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں، اور اس بات سے کہ آیا تُو نے سچائی پر عمل کیا ہے یا نہیں اور خدا کی مرضی، خدا کی معرفت، اور خدا سے وفاداری کی تسلی حاصل کرنے کے لیے اپنے ارادوں اور تصورات سے بغاوت کی ہے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تُو کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے، اگر تجھے کبھی اپنے ارادوں کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے نہیں، بلکہ صرف ظاہری اعمال اور جوش کی جستجو کے لیے جانا گیا ہے، اور نہ ہی کبھی اپنی زندگی پر توجہ دی ہے، تب تیری مشقت بےکار رہی ہو گی۔ اگر، کسی خاص ماحول میں، تیرے پاس کوئی ایسی بات ہے جو تُو کہنا چاہتا ہے، لیکن تجھے اپنے اندر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہنا درست نہیں ہے، اسے کہنے سے تیرے بھائیوں اور بہنوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور انھیں دکھ پہنچ سکتا ہے، تو تُو یہ نہیں کہے گا، اپنا درد اندر ہی اندر برداشت کرنے کو ترجیح دے گا، کیونکہ یہ الفاظ خدا کی مرضی پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس وقت تیرے اندر ایک جنگ ہو گی، لیکن تُو درد برداشت کرنے اور اپنی پسند ترک کرنے کو تیار ہوگا۔ تُو خدا کو راضی کرنے کے لیے یہ مشقت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا، اور اگرچہ تجھے اندر ہی اندر تکلیف ہو گی، لیکن تُو جسم کی طرف توجہ نہیں دے گا، اور خدا کا دل مطمئن ہو گیا ہو گا، اور تجھے بھی اندر سے راحت ملے گی۔ یہ واقعی ایک قیمت چکانا ہے اور یہ خدا کی طرف سے مطلوبہ قیمت ہے۔ اگر تُو اس طرح عمل کرے گا تو خدا تجھ پر ضرور فضل کرے گا؛ اگر تُو اسے حاصل نہیں کر سکتا ہے، تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تُو کتنی سمجھ رکھتا ہے، یا تُو کتنی اچھی بات کر سکتا ہے، یہ سب بے کار ہو جائے گا! اگر، خدا سے محبت کرنے کے راستے پر، تُو شیطان کے ساتھ جنگ کے وقت خدا کے ساتھ کھڑا ہونے کے قابل ہے، اور تُو شیطان کی طرف واپس نہیں جاتا، تو تجھے خدا کی محبت حاصل ہو جائے گی، اور تُو اپنی گواہی پر ثابت قدم رہے گا۔

کام کے ہر مرحلے پر، جو خدا لوگوں کے اندر کرتا ہے، ظاہری طور پر یہ لوگوں کے درمیان تعامل معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ انسانی اقدامات یا انسانی مڈ بھیڑ سے پیدا ہوتا ہو لیکن پس پردہ، کام کے ہر مرحلہ پر، ہر وہ شے جو رونما ہوتی ہے، ایسی بازی ہے جو شیطان نے خدا کے سامنے لگائی ہے اور لوگوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ خدا کی گواہی میں ثابت قدم رہیں۔ مثال کے طور پر جب ایوب کو آزمایا گیا: پس پردہ شیطان خدا کے ساتھ شرط لگا رہا تھا اور ایوب کے ساتھ جو ہوا انسانوں کے اعمال اور انسانوں کی دخل اندازی تھی۔ کام کے ہر مرحلہ پر جو بھی خدا تمھارے اندر انجام دیتا ہے خدا کے ساتھ شیطان کی لگائی ہوئی بازی ہے – اس کے پیچھے ایک جنگ ہے۔ مثال کے طور پر، اگر تُو اپنے بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں تعصب رکھتا ہے، تو تیرے پاس ایسے الفاظ ہوں گے جو تُو کہنا چاہے گا – ایسے الفاظ جو خدا کے لیے نا پسندیدہ ہو سکتے ہیں لیکن اگر تُو انھیں نہیں کہتا تو تُو اپنے اندر بے چینی محسوس کرتا ہے اور اس وقت، تیرے اندر ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے: "کیا مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں؟" یہ ایک جنگ ہے۔ اس طرح ہر شے جس کا تُو سامنا کرتا ہے، ایک جنگ ہوتی ہے اور جب تیرے اندر جنگ ہوتی ہے، تیرے حقیقی تعاون اور حقیقی مصائب کی بدولت، خدا تیرے اندر کام کرتا ہے۔ بالآخر، تُو اپنے اندر اس معاملے کو ایک طرف رکھ سکتا ہے اور فطری بات ہے کہ غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ ایسا خدا کے ساتھ تیرے تعاون کا اثر ہے۔ لوگ جو چیز بھی کرتے ہیں، وہ ان سے ایک خاص قیمت کی ادائیگی کا تقاضا کرتی ہے۔ حقیقی سختیوں کے بغیر، وہ خدا کو مطمئن نہیں کر سکتے؛ حتیٰ کہ وہ خدا کو مطمئن کرنے کے نزدیک بھی نہیں ہو سکتے اور وہ صرف کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں! کیا یہ کھوکھلے نعرے خدا کو مطمئن کر سکتے ہیں؟ جب خدا اور شیطان روحانی دنیا میں جنگ کرتے ہیں، تو تجھے کیسے خدا کو مطمئن کرنا چاہیے اور تجھے اس کی گواہی دیتے ہوئے کیسے ثابت قدم رہنا چاہیے؟ تجھے جاننا چاہیے کہ تیرے اندر ہونے والی ہر چیز عظیم آزمائش ہے اور یہ وہ وقت ہے جب خدا تجھ سے گواہی چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ باہر سے غیر اہم لگ سکتی ہیں، لیکن جب یہ چیزیں ہوتی ہیں تو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آیا تُو خدا سے محبت کرتا ہے یا نہیں۔ اگر تُو کرتا ہے، تو تُو اس کے لیے اپنی گواہی میں ثابت قدم رہ سکے گا، اور اگر تُو نے اس کی محبت پر عمل نہیں کیا، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تُو سچائی پر عمل کرنے والا نہیں ہے، یہ کہ تُو سچائی سے عاری، اور زندگی سے محروم ہے، کہ تُو بے کار چیز ہے! لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ اس وقت ہوتا ہے جب خدا چاہتا ہے کہ وہ اس کی گواہی پر ثابت قدم رہیں۔ اگرچہ اس وقت تیرے ساتھ کچھ بڑا نہیں ہو رہا ہے اور تُو بڑی گواہی نہیں دے رہا ہے، لیکن تیری روزمرہ زندگی کی ہر تفصیل خدا کی گواہی کا معاملہ ہے۔ اگر تُو اپنے بھائیوں اور بہنوں، اپنے خاندان کے افراد، اور اپنے آس پاس کے تمام افراد کی ستائش جیت سکتا ہے؛ اگر، ایک دن، ایمان سے محروم افراد آئیں، اور تیرے تمام کاموں کی تعریف کریں، اور دیکھیں کہ خدا جو کچھ بھی کرتا ہے وہ حیرت انگیز ہے، تو تب تُو نے گواہی دے دی ہے، اگرچہ تیرے پاس کوئی بصیرت نہیں ہے اور تُو کمزور صلاحیت رکھتا ہے، خدا کی طرف سے تیرے کمال کی وجہ سے، تُو اسے راضی کرنے اور اس کی مرضی کا خیال رکھنے، دوسروں کو یہ دکھانے کے قابل ہے کہ اس نے کم ترین صلاحیت رکھنے والے لوگوں میں کتنا عظیم کام کیا ہے۔ جب لوگ خدا کو پہچان لیتے ہیں اور شیطان کے مقابل غالب آ جاتے ہیں، خدا کے بہت زیادہ وفادار ہوتے ہیں، تو اس گروہ سے زیادہ کوئی مضبوط کردار کا مالک نہیں ہے، اور یہ سب سے بڑی گواہی ہے، حالانکہ تُو عظیم کام کرنے کا اہل نہیں ہے، تُو خدا کو راضی کرنے کا اہل ہے، دوسرے اپنے تصورات ایک طرف نہیں رکھ سکتے، لیکن تُو رکھ سکتا ہے؛ دوسرے اپنے حقیقی تجربات کے دوران خدا کی گواہی نہیں دے سکتے، لیکن تُو اپنی حقیقی حیثیت اور اعمال خدا کا بدلہ چکانے اور اس کی گھن گرج والی گواہی دینے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ صرف یہی حقیقت میں خدا سے محبت کرنے میں شمار ہوتا ہے، اگر تُو ایسا کرنے سے قاصر ہے تو تُو اپنے خاندان کے افراد، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان یا دنیا کے لوگوں کے سامنے گواہی نہیں دیتا۔ اگر تُو شیطان کے مقابل گواہی نہیں دے سکتا تو شیطان تجھ پر ہنسے گا، وہ تجھے ایک مذاق سمجھے گا، ایک کھلونا سمجھے گا، اکثر تجھے بے وقوف بنائے گا اور تجھے پاگل کر دے گا۔ مستقبل میں تجھ پر بڑی آزمائشیں آ سکتی ہیں۔ لیکن آج، اگر تُو سچے دل سے خدا سے محبت کرتا ہے، اور اگر، اس سے قطع نظر کہ آگے کتنی ہی بڑی آزمائشیں ہوں، قطع نظر اس کے کہ تجھ پر کیا گزرے، تُو اپنی گواہی پر ثابت قدم رہنے کا اہل ہے اور خدا کو راضی کرنے کا اہل ہے، تب تیرا دل سکون پائے گا، اور تجھے کوئی خوف نہیں ہوگا۔ مستقبل میں تجھے کتنی بڑی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تم نہیں دیکھ سکتے کہ مستقبل میں کیا ہوگا؛ تم صرف آج کے حالات میں خدا کو راضی کر سکتے ہو۔ تم کوئی بھی بڑا کام کرنے کے قابل نہیں ہو اور تمھیں حقیقی زندگی میں خدا کے کلام کا عملی تجربہ کر کے اسے مطمئن کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، اور ایسی مضبوط اور بھرپور گواہی دینی چاہیے جو شیطان کو شرمندہ کر دے۔ اگرچہ تیرا جسم غیر آسودہ رہا ہوگا اور تجھے تکلیف سہنا پڑی ہو گی، تُو نے خدا کو راضی اور شیطان کو شرمندہ کیا ہو گا۔ اگر تُو ہمیشہ اسی طرح عمل کرتا رہے گا تو خدا تیرے سامنے ایک راستہ کھول دے گا۔ جب، ایک دن، بڑی آزمائش آئے گی تو دوسرے زمین پر ڈھیر ہو جائیں گے، لیکن تُو پھر بھی ثابت قدمی سے قائم رہنے کے قابل ہو گا: کیوں کہ جو قیمت تُو نے ادا کی ہے، اس کی وجہ سے خدا تیری حفاظت کرے گا تاکہ تُو ثابت قدمی سے کھڑا رہے اور گر نہ سکے۔ اگر، عام طور پر، تُو سچائی پر عمل کرنے اور خدا کو ایسے دل سے راضی کرنے کے قابل ہے، جو اس سے سچی محبت کرتا ہے، تو خدا یقیناً مستقبل کی آزمائشوں میں تیری حفاظت کرے گا۔ اگرچہ تُو احمق اور پست حیثیت اور کمزور صلاحیت کا حامل ہے، لیکن خدا تیرے خلاف امتیاز نہیں برتے گا۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آیا تیرے ارادے درست ہیں یا نہیں۔ آج، اگر تُو ہر چیز میں خدا کو راضی کرنے کا اہل ہے، جس میں تُو چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پر توجہ مرکوز کرتا ہے، تُو تمام چیزوں میں خدا کو مطمئن کرتا ہے، تیرے پاس ایک ایسا دل ہے جو حقیقی معنوں میں خدا سے محبت کرتا ہے، تُو اپنا سچا دل خدا کو پیش کرتا ہے، اور اگرچہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو تُو سمجھ نہیں سکتا، تُو اپنے ارادوں کی درستی اور خدا کی مرضی تلاش کرنے کے لیے خدا کے روبرو پیش ہو سکتا ہے، اور تُو خدا کو راضی کرنے کے لیے ہر ضروری کام کرتا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ تیرے بھائی اور بہنیں تجھے چھوڑ دیں، لیکن تیرا دل خدا کو راضی کر لے گا، اور تُو جسمانی لطف کی خواہش نہیں کرے گا۔ اگر تُو ہمیشہ اسی طرح عمل کرتا ہے، تو جب تجھ پر بڑی آزمائشیں آئیں گی، تو تُو محفوظ رہے گا۔

لوگوں کی کون سی اندرونی حالت آزمائشوں کا ہدف ہے؟ لوگوں کا سرکش مزاج ان کا ہدف ہے جو خدا کو راضی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ لوگوں کے اندر بہت کچھ ناپاک ہے اور بہت کچھ منافقانہ ہے، اور اسی لیے خدا لوگوں کو پاک کرنے کے لیے انھیں آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ لیکن اگر تُو خدا کو راضی کرنے کے قابل ہے تو مستقبل کی آزمائشیں تجھے کامل بنائیں گی، اگر، آج، تُو خدا کو راضی نہیں کر سکتا تو پھر مستقبل کی آزمائشیں تجھے آزمائیں گی، اور تُو نادانستہ طور پر گر جائے گا، اور اس وقت تُو اپنی مدد نہیں کر سکے گا، کیونکہ تُو خدا کے کام کے ساتھ نہیں چل سکتا اور حقیقی حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ اور اس طرح، اگر تُو مستقبل میں ثابت قدم رہنا چاہتا ہے، خدا کو بہتر طور پر راضی کرنا چاہتا ہے، اور آخر تک اس کی پیروی کرنا چاہتا ہے، تو آج تجھے لازماً ایک مضبوط بنیاد بنانا ہو گی۔ تجھے لازماً ہر چیز میں سچائی پر عمل کرنا ہو گا اور اس کی مرضی کا خیال رکھ کر خدا کو راضی کرنا ہو گا۔ اگر تُو ہمیشہ اسی طرح عمل کرتا رہے تو تیرے اندر ایک بنیاد پیدا ہو جائے گی۔ خدا تیرے اندر ایک ایسا دل بیدار کرے گا جو اس سے محبت کرتا ہو گا اور وہ تجھے ایمان عطا کرے گا۔ ایک دن، جب تجھ پر واقعی کوئی آزمائش پڑے گی تو ہوسکتا ہے تجھے کچھ تکلیف ہو اور تُو ایک حد تک رنجیدگی محسوس کرے اور کچل ڈالنے والے غم میں مبتلا ہو، جیسے کہ تُو مر چکا ہے – لیکن خدا سے تیری محبت نہیں بدلے گی اور مزید گہری ہو جائے گی۔ خدا کی برکتیں ایسی ہی ہیں۔ اگر تُو خدا کے تمام فرمودات قبول کرنے کا اہل ہے اور آج اطاعت گزار دل کے ساتھ ایسا کرتا ہے تو خدا تجھے یقیناً برکتوں سے نوازے گا اور پھر یقیناً تجھے خدا کی طرف سے برکت ملے گی اور اس طرح تُو ایسا شخص ہو گا جسے خدا کی طرف سے برکت دی گئی ہے اور جو اس کا وعدہ حاصل کرتا ہے۔ اگر، آج، تُو نے عمل نہ کیا، تو ایک دن جب تجھ پر آزمائشیں پڑیں گی تو تُو ایمان اور محبت کرنے والے دل سے محروم ہو گا، اور اس وقت آزمائش فتنہ بن جائے گی؛ اور تُو شیطان کے بہکاوے میں ڈوب جائے گا اور تیرے پاس فرار کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔ آج، چھوٹی سی آزمائش پڑنے پر تُو ثابت قدم رہنے کے قابل ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ایک دن ایک بڑی آزمائش تجھ پر آئے تو پھر بھی تُو ثابت قدم رہنے کے قابل ہو۔ کچھ لوگ مغرور ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ پہلے ہی کامل ہونے کے قریب ہیں۔ اگر تُو اس طرح کے مواقع پر مزید گہرائی میں نہیں جاتا، اور مطمئن رہے گا، تو تُو خطرے میں ہو گا۔ آج، خدا بڑی آزمائشوں کا کام نہیں کرتا اور سب کچھ ٹھیک لگتا ہے، لیکن جب خدا تجھے آزماتا ہے، تو تجھے ادراک ہوگا کہ تجھ میں بہت کمی ہے، کیونکہ تیری حیثیت بہت پست ہے اور تُو بڑی آزمائشیں برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اگر تُو ایسا ہی رہے گا، جیسا تُو ہے اور غیرفعال حالت میں رہے گا، تو، جب آزمائش پڑے گی، تو تُو گر پڑے گا۔ تجھے اکثر یہ دیکھنا چاہیے کہ تیری حیثیت کتنی چھوٹی ہے؛ صرف اسی طرح تُو ترقی کرے گا۔ اگر تُو صرف آزمائشوں کے دوران ہی دیکھتا ہے کہ تیری حیثیت بہت کم ہے، کہ تیری قوت ارادی بہت کمزور ہے، کہ تیرے اندر بہت کم حقیقی ہے، اور تُو خدا کی مرضی کے لیے نا موزوں ہے – اگر تجھے صرف تب ہی ان چیزوں کا ادراک ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

اگر تُو خدا کا مزاج نہیں جانتا، تو آزمائشوں کے دوران لامحالہ گر پڑے گا، کیونکہ تُو نہیں جانتا کہ خدا لوگوں کو کس طرح کامل کرتا ہے، اور کن ذرائع سے انھیں کامل کرتا ہے اور جب خدا کی آزمائشیں تجھ پر آتی ہیں اور وہ تیرے تصورات سے میل نہیں کھاتیں تو تُو ثابت قدم نہیں رہ سکے گا۔ خدا کی سچی محبت اس کا پورا مزاج ہے، اور جب خدا کا پورا مزاج لوگوں کو دکھایا جاتا ہے، تو اس سے تیرے جسم پر کیا اثر پڑتا ہے؟ جب خدا کا راستباز مزاج لوگوں کو دکھایا جاتا ہے، تو ان کا جسم لامحالہ بہت تکلیف میں مبتلا ہو گا۔ اگر تُو یہ درد نہیں سہتا تو خدا تجھے کامل نہیں بنا سکتا اور نہ ہی تُو اپنی سچی محبت خدا کے لیے مختص کر سکے گا۔ اگر خدا تجھے کامل بناتا ہے، تو وہ یقیناً اپنا پورا مزاج تجھ پر ظاہر کر دے گا۔ تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک، خدا نے کبھی بھی انسان پر اپنا پورا مزاج نہیں ظاہر کیا – لیکن آخری ایام کے دوران وہ لوگوں کے اس گروہ پر جسے اس نے پہلے سے مقرر کیا ہے اور منتخب کیا ہے، اور لوگوں کو کامل بنا کر، وہ اپنا مزاج بے نقاب کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ایک گروہ کو مکمل کرتا ہے۔ لوگوں سے خدا کی سچی محبت یہی ہے۔ خدا کی سچی محبت کا تجربہ لوگوں سے سخت تکلیف برداشت کرنے اور ایک قیمت چکانے کا تقاضا کرتا ہے۔ صرف اس کے بعد ہی انھیں خدا کی طرف سے اپنایا جائے گا اور وہ خدا کو اپنی سچی محبت واپس دینے کے قابل ہو جائیں گے، اور صرف تبھی خدا کا دل راضی ہو گا۔ اگر لوگ خدا کی طرف سے کامل بننا چاہتے ہیں، اور اگر وہ اس کی مرضی پوری کرنا چاہتے ہیں اور خدا کو اپنی حقیقی محبت پوری طرح سے دینا چاہتے ہیں، تو پھر انھیں لازماً اپنے حالات کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف اور بہت سی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، موت سے بھی بدتر درد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالآخر وہ اپنے سچے دل خدا کو واپس دینے پر مجبور کر دیے جائیں گے۔ آیا کوئی سچ مچ خدا سے محبت کرتا ہے یا نہیں، اس کا انکشاف سختیوں اور تزکیے کے دوران ہوتا ہے۔ خدا لوگوں کی محبت پاک کرتا ہے، اور یہ بھی سختی اور تزکیے کے دوران ہی حاصل ہوتا ہے۔

سابقہ: صرف تکلیف دہ آزمائشوں کا سامنا کرنے سے ہی تم خدا کی دلکشی کو جان سکتے ہو

اگلا: "ہزار سالہ بادشاہی کا آغاز ہو چکا ہے" کی بابت مختصر گفتگو

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp