خدا کے کام کے تین مراحل کو جاننا خدا کو جاننے کا راستہ ہے
بنی نوع انسان کے انتظام کے کام کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو بچانے کا کام تین مراحل میں تقسیم ہے۔ ان تین مراحل میں دنیا کی تخلیق کا کام شامل نہیں ہے، بلکہ یہ قانون کے دور، فضل کے دور، اور بادشاہی کے دور کے کام کے تین مراحل ہیں۔ دنیا کی تخلیق کا کام پوری انسانیت کو پیدا کرنے کا کام تھا۔ یہ بنی نوع انسان کو بچانے کا کام نہیں تھا، اور اس کا بنی نوع انسان کو بچانے کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ جب دنیا بنائی گئی تھی، انسان کو شیطان نے بدعنوان نہیں بنایا تھا، اور اس لیے انسانوں کی نجات کے کام کو انجام دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ بنی نوع انسان کو بچانے کا کام اس وقت شروع ہوا جب شیطان نے انسان کو اخلاقی طور پر بدعنوان بنا دیا تھا اور اسی طرح بنی نوع انسان کے انتظام کا کام بھی اسی وقت شروع ہوا جب نوعِ انسانی اخلاقی طور پر بدعنوان ہو چکی تھی۔ دوسرے لفظوں میں، خدا کی طرف سے انسان کا نظم و نسق بنی نوع انسان کو بچانے کے کام کے نتیجے میں شروع ہوا، اور دنیا کی تخلیق کے کام سے پیدا نہیں ہوا۔ بنی نوع انسان کے بدعنوان مزاج حاصل کرنے کے بعد ہی نظم و نسق کا کام وجود میں آیا، اور اس طرح بنی نوع انسان کے انتظام کے کام میں چار مراحل یا چار ادوار کی بجائے تین حصے شامل ہیں۔ خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کے انتظام کا حوالہ دینے کا یہی صحیح طریقہ ہے۔ جب آخری دور کا اختتام ہو گا، تو بنی نوع انسان کے نظم ونسق کا کام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو گا۔ نظم ونسق کے کام کے اختتام کا مطلب یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو بچانے کا کام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہو گا، اور یہ مرحلہ اب بنی نوع انسان کے لیے اختتام پذیر ہو چکا ہو گا۔ تمام بنی نوع انسان کو بچانے کے کام کے بغیر، بنی نوع انسان کے انتظام کا کام موجود نہیں ہو گا، اور نہ ہی کام کے تین مراحل ہوں گے۔ یہ خاص طور پر بنی نوع انسان کی اخلاقی بے راہ روی کی وجہ سے تھا، اور کیونکہ بنی نوع انسان کو نجات کی اتنی شدید ضرورت تھی، کہ یہوواہ نے دنیا کی تخلیق کا کام ختم کیا اور قانون کے دور کا کام شروع کر دیا۔ تب ہی بنی نوع انسان کے انتظام کا کام شروع ہوا، یعنی تب ہی بنی نوع انسان کو بچانے کا کام شروع ہوا۔ "بنی نوع انسان" کے انتظام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین پر، نوزائیدہ، نوع انسانی کی زندگی کی راہنمائی کرنا (کہنے کا مطلب ہے کہ ایک بنی نوع انسان جو ابھی خراب ہونا باقی تھا)۔ بلکہ یہ ایک ایسی نوع انسانی کی نجات ہے جسے شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس بگڑی ہوئی نوع انسانی کو بدلنا ہے۔ یہ "بنی نوع انسان کے انتظام" کا مطلب ہے۔ بنی نوع انسان کو بچانے کے کام میں دنیا کی تخلیق کا کام شامل نہیں ہے، اور اسی طرح بنی نوع انسان کو سنبھالنے کے کام میں دنیا کی تخلیق کا کام شامل نہیں ہے، بلکہ اس میں کام کے صرف تین مراحل شامل ہیں جو دنیا کی تخلیق سے الگ ہیں۔ بنی نوع انسان کے انتظام کے کام کو سمجھنے کے لیے، کام کے تین مرحلوں کی تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے – یہ وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کو آگاہ ہونا چاہیے تاکہ بچایا جا سکے۔ خدا کی مخلوق ہونے کے ناطے، تمہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ انسان کو خدا نے تخلیق کیا ہے، اور تمہیں بنی نوع انسان کی بدعنوانی کے ماخذ، اور اس کے علاوہ، انسان کی نجات کے عمل کو بھی پہچاننا چاہیے۔ اگر تم صرف یہ جانتے ہو کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں عقیدے کے مطابق کیسے عمل کرنا ہے، لیکن اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ خدا کس طرح بنی نوع انسان کو بچاتا ہے، یا بنی نوع انسان کی بدعنوانی کا منبع کیا ہے، تو خدا کی مخلوق کے طور پر تم میں یہ کمی ہے۔ خدا کے انتظامی کام کے وسیع دائرہ کار سے ناواقف رہتے ہوئے، تجھے صرف ان سچائیوں کو سمجھنے سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے جو کہ عمل میں لائی جا سکتی ہیں – اگر یہ معاملہ ہے، تو تُو بہت ہٹ دھرم ہے۔ کام کے تین مراحل خدا کے انسان کے انتظام کی اندرونی کہانی ہیں، پوری دنیا کی خوشخبری کا ظہور ہیں، تمام بنی نوع انسان کے درمیان سب سے بڑا اسرار ہیں، اور وہ خوشخبری کو پھیلانے کی بنیاد بھی ہیں۔ اگر تو صرف ان سادہ سچائیوں کو سمجھنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو تیری زندگی سے متعلق ہیں، اور اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہے، جو تمام اسرار اور بصائر سے عظیم ہے۔ تو کیا تیری زندگی ایک عیب دار شے کے مشابہ نہیں ہے، جس کا سوائے نظر آنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے؟
اگر انسان صرف عمل پر ہی توجہ دے اور خدا کے کام کو دیکھے اور جس چیز کو انسان ثانوی سمجھے تو کیا وہ اپنے تھوڑے سے نفع کے لیے زیادہ کا نقصان نہیں کرتا ہے؟ جو تجھے معلوم ہونا چاہیے، وہ تجھے لازمی معلوم ہونا چاہیے؛ جس پر تجھے عمل کرنا چاہیے، اس پر تجھے لازمی عمل کرنا چاہیے۔ تبھی تو ایسا شخص بنے گا جو یہ جانتا ہے کہ سچائی کی پیروی کیسے کرنی ہے۔ جب تیرے لیے خوشخبری کو پھیلانے کا دن آئے گا، اگر تو صرف یہ کہنے کے قابل ہے کہ خدا ایک عظیم اور راستباز خدا ہے، کہ وہ اعلیٰ ترین خدا ہے، ایسا خدا ہے جس کے ساتھ کوئی عظیم آدمی موازنہ نہیں کرسکتا، اور یہ کہ وہ ایک خدا ہے جس سے بلند کوئی نہیں ہے۔۔۔، اگر تو صرف یہ غیر متعلقہ اور سطحی الفاظ کہہ سکتا ہے جب کہ تو وہ الفاظ کہنے سے بالکل عاجز ہے جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور جن میں جوہر ہے؛ اگر تیرے پاس خدا کو جاننے یا خدا کے کام کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے، مزید برآں، تو حقیقت کی وضاحت نہیں کرسکتا ہے، یا انسان میں جو کمی ہے اسے فراہم نہیں کرسکتا ہے، پھر تیرے جیسا کوئی شخص اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرنے سے قاصر ہے۔ خدا کی گواہی دینا اور بادشاہی کی خوشخبری کو پھیلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تجھے سب سے پہلے سچائی اور بصیرت سے آراستہ ہونا چاہیے، جو سمجھنا ضروری ہے۔ جب تو خدا کے کام کے مختلف پہلوؤں کی بصیرت اور سچائی کے بارے میں واضح ہوتا ہے اور تجھے اپنے دل میں خدا کے کام کا علم ہوتا ہے، اور اس سے قطع نظر کہ خدا جو بھی کرتا ہے – خواہ وہ درست فیصلہ ہو یا انسان کی اصلاح ہو – تو پھر تو اپنی بنیاد کے طور پر عظیم بصیرت رکھتا ہے، اور تیرے پاس عمل کرنے کے لیے صحیح سچائی موجود ہے، تب تو بالکل اختتام تک خدا کی پیروی کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا چاہے کوئی بھی کام کرے، اس کے کام کا مقصد نہیں بدلتا، اس کے کام کا جذبہ نہیں بدلتا، اور انسان کے لیے اس کی مرضی نہیں بدلتی۔ اس کے الفاظ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، ماحول کتنا ہی غیر موافق کیوں نہ ہو، اس کے کام کے اصول نہیں بدلیں گے، اور اس کا انسان کو بچانے کا ارادہ نہیں بدلے گا۔ بشرطیکہ یہ انسان کے خاتمے یا انسان کی منزل کے انکشاف کا کام نہ ہو اور آخری مرحلے کا کام نہ ہو۔ یا خدا کے انتظام کے پورے منصوبے کو ختم کرنے کا کام نہ ہو، اور بشرطیکہ وہ اس وقت میں ہو جس میں وہ انسان پر کام کرتا ہے تو اس کے کام کا جذبہ نہیں بدلے گا۔ یہ ہمیشہ بنی نوع انسان کی نجات رہے گا۔ یہ خدا پر تمہارے یقین کی بنیاد ہونی چاہیے۔ کام کے تین مراحل کا مقصد تمام بنی نوع انسان کی نجات ہے – اس کا مطلب ہے کہ شیطان کے دائرہ اثر سے انسان کی مکمل نجات۔ اگرچہ کام کے تین مراحل میں سے ہر ایک کا الگ الگ مقصد اور اہمیت ہے، لیکن ہر ایک بنی نوع انسان کو بچانے کے کام کا حصہ ہے، اور ہر ایک انسان کی ضروریات کے مطابق کیا گیا نجات کا مختلف کام ہے۔ ایک بار جب تو کام کے ان تین مراحل کے مقصد سے واقف ہو جائے گا، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ کام کے ہر مرحلے کی اہمیت کو کیسے سمجھنا ہے، اور تو یہ پہچان لے گا کہ خدا کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کس طرح عمل کرنا ہے۔ اگر تو اس مقام تک پہنچ سکتا ہے، تو یہ، بصائر میں سب سے عظیم، خدا پر تیرے یقین کی بنیاد بن جائے گا۔ تجھے نہ صرف عمل کے آسان طریقوں یا گہری سچائیوں کی تلاش کرنی چاہیے، بلکہ بصائر کو عمل کے ساتھ جوڑنا چاہیے، تاکہ دونوں سچائیاں موجود ہوں جن کو عملی جامہ پہنایا جا سکے اور علم جو بصیرت پر مبنی ہو۔ صرف تب ہی تو ایک ایسا شخص ہو گا جو جامع طور پر سچائی کی پیروی کرتا ہے۔
کام کے تین مراحل خدا کے پورے انتظام کی بنیاد ہیں، اور ان میں اس کا اظہار کیا گیا ہے کہ خدا کیا ہے اور اس کا مزاج کیا ہے۔ جو لوگ خدا کے کام کے تین مراحل سے واقف نہیں ہیں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خدا کس طرح اپنے مزاج کا اظہار کرتا ہے، اور نہ ہی وہ خدا کے کام کی حکمت کو جانتے ہیں۔ وہ ان بہت سے طریقوں سے بھی لاعلم رہتے ہیں جن سے وہ بنی نوع انسان کو بچاتا ہے، اور تمام بنی نوع انسان کے لیے اس کی مرضی سے بھی۔ کام کے تین مراحل انسانیت کو بچانے کے کام کا مکمل اظہار ہیں۔ جو لوگ کام کے تین مراحل کو نہیں جانتے وہ روح القدس کے کام کے مختلف طریقوں اور اصولوں سے ناواقف ہوں گے، اور وہ لوگ جو صرف اس عقیدے پر سختی سے قائم رہتے ہیں جو کام کے ایک خاص مرحلے سے رہ جاتا ہے، تو یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کو عقیدے تک محدود رکھتے ہیں، اور جن کا خدا پر ایمان مبہم اور غیر یقینی ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا کی نجات کبھی نہیں ملے گی۔ خُدا کے کام کے صرف تین مراحل ہی خُدا کے مکمل مزاج کا پوری طرح اظہار کر سکتے ہیں اور تمام بنی نوع انسان کو بچانے کے خُدا کے ارادے اور بنی نوع انسان کی نجات کے پورے عمل کو مکمل طور پر ظاہر کر سکتے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے شیطان کو شکست دی ہے اور انسانوں کو حاصل کیا ہے۔ یہ خُدا کی فتح کا ثبوت ہے، اور خُدا کے مکمل مزاج کا اظہار ہے۔ جو لوگ خدا کے کام کے تین مراحل میں سے صرف ایک مرحلے کو سمجھتے ہیں وہ خدا کے مزاج کا صرف ایک حصہ جانتے ہیں۔ انسان کے تصورات میں کام کے اس ایک مرحلے کا عقیدہ بن جانا آسان ہے، اور یہ ممکن ہے کہ انسان خدا کے بارے میں مقررہ اصول قائم کرے گا اور خدا کے مزاج کے اس ایک حصے کو خدا کے مکمل مزاج کی نمائندگی کے طور پر استعمال کرے گا۔ مزید برآں، انسان کا زیادہ تر تخیل اس کے اندر گھل مل جاتا ہے، اس طرح کہ انسان سختی سے خدا کے مزاج، ہستی اور حکمت کے ساتھ ساتھ خدا کے کام کے اصولوں کو بھی محدود خصوصیات میں پابند کر دیتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ اگر خدا ایک بار ایسا تھا، تو وہ ہمیشہ اسی طرح ہی ہو گا اور کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ صرف وہی لوگ جو کام کے تین مراحل کو جانتے ہیں اور ان کی قدر کرتے ہیں وہی خدا کو پوری طرح اور درست طریقے سے جان سکتے ہیں۔ کم از کم، وہ خدا کو بنی اسرائیل یا یہودیوں کے خدا کے طور پر بیان نہیں کریں گے، اور اسے ایک ایسے خدا کے طور پر نہیں دیکھیں گے جو ہمیشہ کے لیے انسان کی خاطر صلیب پر میخوں سے جڑا رہے گا۔ اگر کوئی خدا کو اس کے کام کے ایک مرحلے سے ہی پہچانتا ہے تو اس کا علم بہت کم ہے اور سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہیں ہے۔ اگر نہیں، تو بہت سے قدیم روایت کے پاس دار مذہبی ارکان خدا کو زندہ ہی صلیب پر میخوں سے کیوں کر ٹھونکیں گے؟ کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان خدا کو مخصوص خصوصیات میں قید کرتا ہے؟ کیا بہت سے لوگ اس لیے خدا کی مخالفت نہیں کرتے اور روح القدس کے کام میں اس لیے رکاوٹ نہیں ڈالتے کہ وہ خدا کے متنوع اور مختلف کام کو نہیں جانتے، اور، اس کے علاوہ، کیونکہ ان کے پاس روح القدس کے کام کی جانچ کرنے کے لیے بہت قلیل علم اور عقیدہ ہے؟ اگرچہ ایسے لوگوں کے تجربات سطحی ہوتے ہیں لیکن وہ فطرتاً مغرور اور عیش پرست ہوتے ہیں اور وہ روح القدس کے کام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، روح القدس کے نظم و ضبط کو نظر انداز کرتے ہیں اور مزید یہ کہ روح القدس کے کام کی "تصدیق" کرنے کے لیے اپنے گھسے پٹے پرانے دلائل کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ فریب دینے کے لیے ایسا ظاہر کرتے ہیں، اور وہ اپنے علم و دانش اورعلمی فضیلت کے مکمل طور پر قائل ہوتے ہیں، اور اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ وہ پوری دنیا میں سفر کرنے کے قابل ہیں۔ کیا ایسے لوگ وہ نہیں ہیں جنھیں روح القدس نے حقیر سمجھا ہے اور رد کر دیا ہے، اور کیا وہ نئے دور سے باہر نہیں نکالے جائیں گے؟ کیا وہ لوگ جو خدا کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ جاہل اور کم علم قابلِ نفرت نہیں ہیں جو محض یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کتنے ذہین ہیں؟ انجیل کے معمولی علم کے ساتھ، وہ دنیا کے "تعلیمی ماحول" میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو سکھانے کے لیے ایک سطحی نظریے کے ساتھ، وہ روح القدس کے کام کو پلٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے اپنی سوچ کے عمل کے گرد گھمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اتنے کوتاہ نظر ہیں کہ خدا کے 6،000 سال کے کام کو ایک سرسری نظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس کوئی قابل ذکر عقل نہیں ہے! درحقیقت، خُدا کے بارے میں لوگوں کا علم جتنا زیادہ ہوگا، وہ اُس کے کام کا فیصلہ کرنے میں اُتنے ہی سست ہوں گے – مزید برآں، وہ آج خدا کے کام کے بارے میں اپنے علم کی تھوڑی سی بات کرتے ہیں، لیکن وہ اپنے فیصلوں میں جلدی نہیں کرتے۔ لوگ خدا کے بارے میں جتنا کم جانتے ہیں، اتنے ہی زیادہ مغرور اور حد سے زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں اور اتنے ہی زیادہ بے ہودہ انداز میں وہ خدا کے ہونے کا اعلان کرتے ہیں – پھر بھی وہ صرف نظریہ کی بات کرتے ہیں، اور کوئی حقیقی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی بالکل کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جو لوگ روح القدس کے کام کو کھیل سمجھتے ہیں وہ احمق ہیں۔ جو لوگ روح القدس کے نئے کام کا سامنا کرتے وقت محتاط نہیں ہوتے، جو بہت زیادہ بولتے ہیں، فیصلہ کرنے میں جلدبازی کرتے ہیں، جو روح القدس کے کام کی حقانیت سے انکار کرنے کے لیے اپنے مزاج کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں، اور جو اس کی توہین اور گستاخی بھی کرتے ہیں – کیا ایسے گستاخ لوگ روح القدس کے کام سے ناواقف نہیں ہیں؟ مزید برآں، کیا وہ بہت خودسر لوگ نہیں ہیں، جو فطری طور پر مغرور ہیں اور جو قابو میں نہیں رہتے؟ یہاں تک کہ اگر کوئی ایسا دن آتا ہے کہ جب ایسے لوگ روح القدس کے نئے کام کو قبول کر لیتے ہیں، تب بھی خدا ان کو برداشت نہیں کرے گا۔ وہ نہ صرف ان لوگوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں جو خدا کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ وہ خود خدا کے خلاف بھی گستاخی کرتے ہیں۔ ایسے مایوس لوگوں کو نہ تو اس زمانے میں نہ ہی آنے والے زمانے میں معاف کیا جائے گا، اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ہلاک ہو جائیں گے! ایسے گستاخ، عیاش لوگ خدا پر ایمان رکھنے کا جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں، اور جتنے زیادہ لوگ اس طرح کے ہوں گے، خدا کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرنے کے اتنے ہی زیادہ ذمہ دار ہوں گے۔ کیا وہ تمام متکبر جو پیدائشی طور پر بے لگام ہیں اور جنہوں نے کبھی کسی کی بات نہیں مانی، سب اسی راستے پر نہیں چلتے ہیں؟ کیا وہ روز بروز خدا کی مخالفت نہیں کرتے، اس خدا کی جو ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ آج، تمہیں سمجھنا چاہیے کہ تمہیں خدا کے کام کے تین مراحل کی اہمیت کیوں لازمی جاننی چاہیے۔ جو الفاظ میں کہتا ہوں وہ تمہارے لیے فائدہ مند ہیں، اور صرف خالی باتیں نہیں ہیں۔ اگر تم انہیں صرف اس طرح پڑھتے ہو جیسے سرپٹ بھاگتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر سے پھولوں کی تعریف کر رہے ہو تو کیا میری ساری محنت رائیگاں نہیں جائے گی؟ تم میں سے ہر ایک کو اپنی فطرت کا علم ہونا چاہیے۔ تم میں سے اکثر دلیل میں ماہر ہیں۔ نظریاتی سوالات کے جوابات تم بہت آسانی سے دے دیتے ہو، لیکن تمہارے پاس جوہر سے متعلق سوالات پر کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ آج بھی، تم ابھی تک فضول گفتگو کرتے ہو، اپنے پرانے مزاج کو بدلنے سے قاصر ہو، اور تم میں سے زیادہ تر لوگ اس راستے کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے جس پر تم اعلیٰ سچائی کو حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہو، لیکن اس کی بجائے صرف اپنی زندگی کو نیم دلی سے گزارتے ہو۔ ایسے لوگ آخر تک خدا کی پیروی کرنے کے قابل کیسے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر تم راستے کے آخر تک پہنچ جاؤ تو تمہیں کیا فائدہ ہوگا؟ بہتر ہے کہ اپنے خیالات کو تبدیل کر لو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، یا تو صحیح معنوں میں پیروی کرو، یا پھر جلد ہی پیچھے ہٹ جاؤ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا تم ایک مفت خورے طفیلی بن جاؤ گے۔ کیا تم اتنا پست اور حقیر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو؟
کام کے تین مراحل خدا کے پورے کام کا اندراج ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے بنی نوع انسان کی نجات کا ایک اندراج ہیں، اور وہ خیالی نہیں ہیں۔ اگر تم واقعتاً خدا کے مکمل مزاج کا علم حاصل کرنا چاہتے ہو، تو تمہیں خدا کی طرف سے کیے گئے کام کے تین مراحل کو جاننا چاہیے، اور اس کے علاوہ، تمہیں کسی بھی مرحلے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ وہ کم از کم ہے جو خدا کو جاننے کی کوشش کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ انسان خود خدا کا صحیح علم نہیں گھڑ سکتا۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے جس کا انسان خود تصور کر سکے، اور نہ ہی یہ روح القدس کی طرف سے کسی ایک فرد کو عطا کی گئی خصوصی مہربانی کا نتیجہ ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا علم ہے جو انسان کو خدا کے کام کا تجربہ کرنے کے بعد ملتا ہے، اور یہ خدا کا علم ہے جو خدا کے کام کے حقائق کا عملی تجربہ کرنے کے بعد ملتا ہے۔ ایسا علم آسانی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی یہ ایسی چیز ہے جسے سکھایا جا سکتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ذاتی تجربے سے متعلق ہے۔ کام کے ان تین مراحل میں خدا کی طرف سے انسانوں کی نجات سب سے اہم ہے، پھر بھی نجات کے کام کے اندر کام کرنے کے کئی طریقے اور متعدد ذرائع شامل ہیں جن کے ذریعے خدا کے مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے پہچاننا انسان کے لیے سب سے مشکل ہے اور یہی چیز انسان کے لیے سمجھنا دشوار ہے۔ ادوار کی علیحدگی، خدا کے کام میں تبدیلی، کام کے مقام میں تبدیلی، اس کام کے وصول کنندہ میں تبدیلی وغیرہ، یہ سب کام کے تین مراحل میں شامل ہیں۔ خاص طور پر، روح القدس کے کام کرنے کے طریقے میں فرق، نیز خُدا کے مزاج، شبیہ، نام، شناخت میں ردوبدل، یا دیگر تبدیلیاں، یہ سب کام کے تین مراحل کا حصہ ہیں۔ کام کا ایک مرحلہ صرف ایک حصے کی نمائندگی کر سکتا ہے، اور ایک مخصوص دائرہ کار میں محدود ہے۔ اس میں ادوار کی علیحدگی، یا خدا کے کام میں تبدیلیاں شامل نہیں ہیں، دوسرے پہلو تو بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے۔ کام کے تین مراحل انسانوں کو بچانے کے لیے خدا کے کام کا مکمل حصہ ہیں۔ انسان کو نجات کے کام میں خُدا کے کام اور خُدا کے مزاج کو لازمی جاننا چاہیے۔ اس حقیقت کے بغیر، خدا کے بارے میں تمہارا علم کھوکھلے الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہے، عمل کے بغیر باتوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ ایسا علم نہ تو انسان کو قائل کر سکتا ہے اور نہ ہی فتح کر سکتا ہے۔ یہ حقیقت سے متصادم ہے، اور یہ سچائی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بہت زیادہ ہو اور سننے میں اچھا لگتا ہو، لیکن اگر یہ خدا کے فطری مزاج سے متصادم ہے تو خدا تجھے نہیں بخشے گا۔ وہ نہ صرف تیرے علم کی تعریف نہیں کرے گا، بلکہ وہ تجھ سے گناہ گار ہونے اور اپنی توہین کرنے کا بدلہ بھی لے گا۔ خدا کو جاننے کی باتیں ہلکے انداز میں نہیں کہی جاتیں۔ اگرچہ تو چرب زبان اور خوش گفتار ہو سکتا ہے، اور اگرچہ تیرے الفاظ اتنے ہوشیار ہوتے ہیں کہ تو سیاہ کے سفید اور سفید کے سیاہ ہونے پر بحث کر سکتا ہے، پھر بھی جب خدا کے علم کی بات ہوتی ہے تو یہ تیری عقل سے ماورا ہے۔ خدا کوئی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں تو جلدبازی میں یا لاپروائی سے اندازہ لگا سکے، یا بغیر سوچے سمجھے بدنام کرے۔ تو کسی کی اور ہر کسی کی تعریف کرتا ہے، پھر بھی تو خدا کے عظیم فضل کو بیان کرنے کے لیے صحیح الفاظ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے – ہر ہارنے والے کو یہی محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ زبان کے بہت سے ماہرین ہیں جو خدا کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس کی درستی خدا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کہی گئی سچائی کا سوواں حصہ ہے، ایسے لوگ جن کے پاس اگرچہ صرف محدود الفاظ ہیں، لیکن ان کے پاس استعمال کرنے کے لیے بھرپور تجربہ ہے۔ چنانچہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا کا علم درستی اور حقیقت میں مضمر ہے، نہ کہ الفاظ کے ہوشیار استعمال یا بھرپور ذخیرہ الفاظ میں، اور یہ کہ انسان کے علم اور خدا کے علم میں قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ خدا کو جاننے کا سبق بنی نوع انسان کے کسی بھی فطری علوم سے بلند ہے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو خدا کو جاننے کی کوشش کرنے والوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد کو ہی حاصل ہو سکتا ہے، اور قابلیت رکھنے والے کسی بھی شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذا، تم خدا کو جاننے اور سچائی کی پیروی کو اس طرح نہ دیکھو جیسے یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں محض ایک بچہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ شاید تو اپنی خاندانی زندگی، یا اپنے پیشے، یا اپنی ازدواجی زندگی میں مکمل طور پر کامیاب رہا ہو، لیکن جب حقیقت اور خدا کو جاننے کے سبق کی بات آتی ہے، تو تیرے پاس اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور تو نے کچھ حاصل نہیں کیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سچائی کو عملی جامہ پہنانا تمہارے لیے بہت مشکل ہے، اور خدا کو جاننا اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ یہ تمہاری مشکل ہے، اور یہ پوری انسانیت کو درپیش مشکل بھی ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی معرفت کی وجہ سے کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں تقریباً کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو معیار کے مطابق ہو۔ انسان نہیں جانتا کہ خدا کو جاننے کا کیا مطلب ہے، یا خدا کو جاننا کیوں ضروری ہے، یا خدا کو جاننے کے لیے کس درجہ تک پہنچنا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جو بنی نوع انسان کے لیے بہت پریشان کن ہے، اور بالکل سادہ الفاظ میں یہ سب سے بڑی پہیلی ہے جس کا سامنا بنی نوع انسان کو ہے-کوئی بھی اس سوال کا جواب دینے کے قابل نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی اس سوال کا جواب دینے کو تیار ہے، کیونکہ، آج تک، بنی نوع انسان میں سے کسی کو بھی اس کام کے مطالعہ میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ شاید، جب کام کے تین مراحل کی پہیلی بنی نوع انسان کو بتائی جائے گی، تو پے در پے باصلاحیت لوگوں کا ایک گروہ ظاہر ہو گا جو خدا کو جانتے ہیں۔ بلاشبہ، میں امید کرتا ہوں کہ ایسا ہی ہے، اور اس کے علاوہ، میں اس کام کو انجام دینے کے عمل میں ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں مزید ایسے باصلاحیت لوگ ظاہر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کام کے ان تین مراحل کی حقیقت کی گواہی دیں گے، اور یقیناً، وہ کام کے ان تین مراحل کی سب سے پہلے گواہی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ اور افسوسناک بات کوئی نہیں ہو گی کہ اگر خدا کا کام ختم ہونے کے دن تک بھی ایسے باصلاحیت لوگ سامنے نہ آئیں، یا اگر صرف ایک یا دو ایسے لوگ ہوں جنھوں نے انسانی شکل میں خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کامل بنائے جانے کو قبول کیا ہو۔ تاہم، یہ صرف بدترین صورت حال ہے. معاملہ کچھ بھی ہو، میں اب بھی امید کرتا ہوں کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں پیروی کرتے ہیں وہ یہ برکت حاصل کر سکتے ہیں۔ وقت کے آغاز سے اس طرح کا کام پہلے کبھی نہیں ہوا ہے؛ انسانی ترقی کی تاریخ میں ایسا اہم کام کبھی نہیں ہوا۔ اگر تو واقعی ان پہل کاروں میں سے ایک بن سکتا ہے جو خدا کو جاننے والے ہیں، تو کیا یہ تمام مخلوقات میں سب سے بڑا اعزاز نہیں ہو گا؟ کیا بنی نوع انسان میں سے کسی مخلوق کی خدا کی طرف سے زیادہ تعریف کی جائے گی؟ اس طرح کے کام کو حاصل کرنا آسان نہیں ہے، لیکن آخر کار اس کا اجر بھی ملے گا۔ ان کی جنس یا قومیت سے قطع نظر، وہ تمام لوگ جو خدا کی معرفت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، آخر کار، خدا کا سب سے بڑا اعزاز حاصل کریں گے، اور صرف وہی لوگ ہوں گے جن کے پاس خدا کا اختیار ہے۔ یہ آج کا کام ہے اور یہ مستقبل کا بھی کام ہے۔ یہ 6،000 سال کے کاموں میں مکمل ہونے والا آخری اور سب سے بڑا کام ہے، اور یہ کام کرنے کا ایک طریقہ ہے جو انسان کے ہر درجے کو ظاہر کرتا ہے۔ انسان کے خدا کو پہچاننے کے کام کے ذریعے، انسان کے مختلف درجات ظاہر ہوتے ہیں: جو لوگ خدا کو جانتے ہیں وہ خدا کی نعمتیں حاصل کرنے اور اس کے وعدوں کو قبول کرنے کے اہل ہیں، جبکہ جو لوگ خدا کو نہیں جانتے وہ خدا کی نعمتیں حاصل کرنے اور اس کے وعدوں کو قبول کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ جو خدا کو جانتے ہیں وہ خدا کے مقربین ہیں اور جو خدا کو نہیں جانتے وہ خدا کے مقربین نہیں کہلا سکتے؛ خدا کے مقربین کو خدا کی کوئی بھی نعمت مل سکتی ہے، لیکن جو اس کے مقربین نہیں ہیں وہ اس کے کسی کام کے لائق نہیں ہیں۔ چاہے وہ مصائب ہوں، مزید اصلاح ہو یا فیصلہ، یہ سب چیزیں اس لیے ہیں کہ انسان کو آخرکار خدا کی معرفت حاصل ہو جائے، اور انسان خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر سکے۔ یہ واحد اثر ہے جو بالآخر حاصل کیا جائے گا۔ کام کے تین مراحل میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، اور یہ انسان کے خدا کے بارے میں علم کے لیے فائدہ مند ہے، اور انسان کو خدا کے بارے میں مزید مکمل اور جامع علم حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ سب کام انسان کے فائدے کے لیے ہے۔
خُدا کا کام بذاتِ خود وہ بصیرت ہے جسے انسان کو لازمی جاننا چاہیے، کیونکہ خُدا کا کام انسان نہیں کر سکتا، اور نہ ہی انسان اس کا حامل ہے۔ کام کے تین مراحل خدا کے انتظام کی مکمل حیثیت ہیں، اور اس سے عظیم کوئی بصیرت نہیں ہے جو انسان کو معلوم ہو۔ اگر انسان اس عظیم بصیرت کو نہیں جانتا تو خدا کو جاننا آسان نہیں ہے، خدا کی مرضی کو سمجھنا آسان نہیں ہے، اور اس کے علاوہ، انسان جس راستے پر چلتا ہے وہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا۔ بصیرت نہ ہوتی تو انسان اس حد تک پہنچنے کے قابل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ وہ بصیرت ہے جس نے آج تک انسان ک حفاظت کی ہے اور جس نے انسان کو عظیم تحفظ فراہم کیا ہے۔ مستقبل میں، تمہارا علم گہرا ہونا ضروری ہے، اور تمہیں کام کے تین مراحل کے اندر اس کی پوری مرضی اور اس کے دانشمندانہ کام کے جوہر کا علم ہونا چاہیے۔ صرف یہی تمہاری حقیقی حیثیت ہے۔ کام کا آخری مرحلہ تنہا نہیں ہے بلکہ اس پورے کا حصہ ہے جو پچھلے دو مراحل کے ساتھ مل کر تشکیل پاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کام کے تین مراحل میں سے صرف ایک کو انجام دینے سے نجات کا پورا کام مکمل کرنا ناممکن ہے۔ اگرچہ کام کا آخری مرحلہ انسان کو مکمل طور پر بچانے کے قابل ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اس ایک مرحلے کو اکیلے ہی انجام دینا ضروری ہے، اور یہ کہ کام کے پچھلے دو مراحل انسان کو شیطان کے اثر سے بچانے کے لیے ضروری نہیں ہیں۔ تین مراحل میں سے کسی ایک مرحلے کو صرف ایک بصیرت کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا کہ جس کا علم تمام بنی نوع انسان کو ہونا چاہیے، کیونکہ نجات کے کام کا مکمل پن تین مراحل میں ہے، ان میں سے کسی ایک مرحلے میں نہیں۔ جب تک نجات کا کام مکمل نہیں ہوتا، خدا کا انتظام مکمل طور پر ختم ہونے کے قابل نہیں ہو گا۔ خدا کی ذات، اس کا مزاج، اور اس کی حکمت کا اظہار نجات کے کام کی تکمیل میں ہوتا ہے؛ وہ شروع میں انسان پر ظاہر نہیں ہوئے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ نجات کے کام میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ نجات کے کام کا ہر مرحلہ خُدا کے مزاج اور اُس کی ہستی کا ایک حصہ ظاہر کرتا ہے؛ کام کا کوئی ایک مرحلہ براہ راست اور مکمل طور پر خدا کی ذات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ اس طرح، نجات کا کام صرف اس وقت مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے جب کام کے تین مراحل مکمل ہو چکے ہوں، اور اس لیے انسان کا خدا کی کاملیت کے بارے میں علم خدا کے کام کے تین مراحل سے الگ نہیں ہے۔ کام کے ایک مرحلے سے انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ محض خدا کا مزاج ہے جو اس کے کام کے ایک حصے میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اس مزاج اور وجود کی نمائندگی نہیں کر سکتا جس کا اظہار پہلے یا بعد کے مراحل میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوع انسانی کو بچانے کا کام ایک وقت میں یا ایک مقام پر فوراً ختم نہیں ہو سکتا بلکہ مختلف اوقات اور مقامات پر انسان کی ترقی کی سطح کے مطابق آہستہ آہستہ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو مراحل میں کیا جاتا ہے، اور یہ ایک مرحلے میں مکمل نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا، خدا کی پوری حکمت ایک انفرادی مرحلے کی بجائے تین مراحل میں تشکیل دی گئی ہے۔ اس کا کامل وجود اور اس کی مکمل حکمت ان تین مراحل میں بیان کی گئی ہے اور ہر مرحلہ اس کی ذات پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ اس کے کام کی حکمت کا اندراج ہے۔ انسان کو ان تین مرحلوں میں بیان کیے گئے خدا کے پورے مزاج کو جاننا چاہیے۔ خدا کی یہ تمام ہستی تمام بنی نوع انسان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اور اگر لوگ خدا کی عبادت کرتے وقت یہ علم نہیں رکھتے تو وہ ان لوگوں سے مختلف نہیں ہیں جو مہاتما بدھ کی عبادت کرتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان خدا کا کام انسان سے پوشیدہ نہیں ہے، اور ان سب کو معلوم ہونا چاہیے جو خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ چونکہ خدا نے انسان کے درمیان نجات کے کام کے تین مراحل انجام دیے ہیں، اس لیے انسان کو اس بات کا اظہار معلوم ہونا چاہیے کہ کام کے ان تین مراحل کے دوران اس کے پاس کیا رکھا ہے اور وہ خود کیا ہے۔ یہ وہی ہے جو انسان کو کرنا چاہیے۔ خدا انسان سے وہ چیز چھپاتا ہے جسے انسان حاصل کرنے سے قاصر ہے اور جسے انسان کو معلوم نہیں ہونا چاہیے، جبکہ خدا انسان کو جو دکھاتا ہے، وہی ہے جو انسان کو جاننا چاہیے اور جو انسان کے پاس ہونا چاہیے۔ کام کے تین مراحل میں سے ہر ایک گزشتہ مرحلے کی بنیاد پر سر انجام دیا جاتا ہے؛ یہ نجات کے کام سے الگ آزادانہ طور پر نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ دَور اور انجام پانے والے کام میں بہت بڑا فرق ہے، کیونکہ اس کے مرکز میں اب بھی بنی نوع انسان کی نجات ہے، اور نجات کے کام کا ہر مرحلہ گزشتہ سے زیادہ گہرا ہے۔ کام کا ہر مرحلہ گزشتہ کی بنیاد سے جاری رہتا ہے جو ختم نہیں کیا جاتا۔ اس طرح، اس کا کام ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا، خدا اپنے مزاج کے ان پہلوؤں کو مسلسل بیان کر رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی انسان پر ظاہر نہیں ہوئے ہیں، اور ہمیشہ انسان پر اپنے نئے کام اور اس کے نئے وجود کو ظاہر کر رہے ہیں، اور اگرچہ قدیم روایت کا پاس دار مذہبی رکن اس کی مخالفت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، اور کھل کر اس کی مخالفت کرتا ہے مگر خدا ہمیشہ وہ نیا کام کرتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا کام ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے اسے ہمیشہ انسان کی مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ اسی طرح، اس کے کام کے دور اور وصول کنندگان کی طرح اس کا مزاج بھی ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ مزید برآں، وہ ہمیشہ وہ کام کرتا رہتا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا گیا ہے، حتیٰ کہ وہ کام بھی انجام دیتا ہے جو انسان کو پہلے کیے گئے کام کے خلاف نظر آتا ہے اور اس کے خلاف چلتا ہے۔ انسان صرف ایک قسم کے کام، یا عمل کرنے کے ایک طریقے کو قبول کرنے کے قابل ہے، اور انسان کے لیے کام، یا عمل کے ان طریقوں کو قبول کرنا مشکل ہے، جو اس سے متصادم یا اس کی سطح سے بلند ہیں۔ لیکن روح القدس ہمیشہ نیا کام کر رہی ہے، اور اس لیے مذہبی ماہرین گروہ در گروہ ظاہر ہوتے ہیں جو خدا کے نئے کام کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف اس وجہ سے ماہر بن گئے ہیں کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ خدا ہمیشہ نیا کیسے ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا، اور انہیں خدا کے کام کے اصولوں کا بھی علم نہیں ہے، اور، اس کے علاوہ، وہ ان بہت سے طریقوں سے بھی واقف نہیں ہے جن سے خدا انسان کو بچاتا ہے۔ اس طرح، انسان یہ بتانے سے بالکل قاصر ہے کہ کیا یہ کام روح القدس کی طرف سے آتا ہے، اور کیا یہ خود خدا کا کام ہے۔ بہت سے لوگ ایسے رویے سے چمٹے رہتے ہیں جس میں اگر کوئی چیز پہلے کے الفاظ سے مطابقت رکھتی ہو تو اسے قبول کرتے ہیں اور اگر پہلے کے کام سے مختلف ہو تو اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اسے رد کر دیتے ہیں۔ آج، کیا تم سب ایسے اصولوں کی پابندی نہیں کرتے؟ نجات کے کام کے تین مراحل کا تم پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا، اور ایسے لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ کام کے دو پچھلے مراحل ایک بوجھ ہیں جن کے متعلق انہیں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان مراحل کو عوام کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے اور جلد از جلد واپس لے لینا چاہیے، تاکہ لوگ کام کے تین مراحل میں سے گزشتہ دو مراحل سے مغلوب نہ ہوں۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کام کے دو پچھلے مراحل کو معلوم کرنا حدود سے تجاوز ہے، اور خدا کو جاننے میں مددگار نہیں ہے – یہی تم سوچتے ہو۔ آج تم سب سمجھتے ہو کہ اس طرح کام کرنا درست ہے، لیکن وہ دن آئے گا جب تمہیں میرے کام کی اہمیت کا احساس ہو گا: جان لو کہ میں کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ چونکہ میں تمہارے لیے کام کے تین مراحل کا اعلان کر رہا ہوں، وہ تمہارے لیے لازمی فائدہ مند ہوں گے؛ چونکہ کام کے یہ تین مراحل خدا کے پورے انتظام کا محور ہیں، ان کو پوری کائنات میں سب کی توجہ کا مرکز بننا چاہیے۔ ایک دن تم سب کو اس کام کی اہمیت کا احساس ہو جائے گا۔ جان لو کہ تم خدا کے کام کی مخالفت کرتے ہو، یا آج کے کام کو جانچنے کے لیے اپنے تصورات کا استعمال کرتے ہو، کیونکہ تم خدا کے کام کے اصولوں کو نہیں جانتے، اور تم روح القدس کے کام کو غیر محتاط انداز میں لیتے ہو۔ تمہاری خدا کی مخالفت اور روح القدس کے کام میں رکاوٹ تمہارے تصورات اور فطری تکبر کی وجہ سے ہے۔ یہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کا کام غلط ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ تم قدرتی طور پر بہت زیادہ نافرمان ہو۔ خدا پر اپنے اعتقاد کو تلاش کرنے کے بعد، کچھ لوگ یقین کے ساتھ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انسان کہاں سے آیا ہے، پھر بھی وہ روح القدس کے کام کے درست اور غلط ہونے کا اندازہ لگانے والی عوامی تقریریں کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان حواریوں کو نصیحت کرتے ہیں جن کے پاس روح القدس کا نیا کام ہے، تبصرے کرتے ہیں اور احمقانہ انداز میں بات کرتے ہیں؛ ان کی انسانیت بہت پست ہے، اور ان میں ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہے۔ کیا وہ دن نہیں آئے گا جب ایسے لوگوں کو روح القدس کے کام سے رد کر دیا جائے گا، اور جہنم کی آگ میں جلا دیا جائے گا؟ وہ خدا کے کام کو نہیں جانتے، بلکہ اس کے کام پر تنقید کرتے ہیں، اور خدا کو ہدایت دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ کیسے کام کیا جائے۔ ایسے نامعقول لوگ خدا کو کیسے جان سکتے ہیں؟ انسان تلاش اور تجربہ کے عمل کے دوران خدا کو پہچانتا ہے؛ یہ خواہش پر تنقید کرنے کی وجہ سے نہیں ہے کہ انسان روح القدس کی دی ہوئی بصیرت سے خدا کو پہچانتا ہے۔ خدا کے بارے میں لوگوں کا علم جتنا زیادہ درست ہوتا جاتا ہے، وہ اس کی مخالفت اتنی ہی کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، لوگ خدا کے بارے میں جتنا کم جانتے ہیں، ان کا خدا کی مخالفت کرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہے۔ تمہارے تصورات، تمہارا پرانا مزاج، تمہاری انسانیت، کردار اور اخلاقی نقطہ نظر، وہ سرمایہ ہیں جس کے ساتھ تم خدا کے خلاف مزاحمت کرتے ہو، اور جتنا زیادہ تمہارے اخلاق بگڑتے ہیں، صفات گھٹیا ہوتی ہیں، اور انسانیت پست ہوتی ہے، تم خدا کے اتنے ہی زیادہ دشمن ہوتے ہو۔ وہ لوگ جو مضبوط خیالات کے حامل ہیں اور جو خود صالح مزاج ہیں وہ خدا کے انسانی شکل میں موجود ہونے کے زیادہ دشمن ہیں۔ ایسے لوگ مسیح مخالف ہیں۔ اگر تمہارے خیالات کی اصلاح نہ کی گئی تو وہ ہمیشہ خدا کے خلاف رہیں گے؛ تم کبھی بھی خدا کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو گے، اور ہمیشہ اس سے الگ رہو گے۔
اپنے پرانے تصورات کو ایک طرف رکھ کر ہی تم نیا علم حاصل کر سکتے ہو، لیکن ضروری نہیں ہے کہ پرانا علم پرانے تصورات کے برابر ہو۔ "تصورات" سے مراد حقیقت سے متصادم وہ چیزیں ہیں جن کا تصور انسان نے کیا ہے۔ اگر پرانا علم قدیم دور میں پہلے ہی متروک ہو چکا ہو اور انسان کو نئے کام میں آنے سے روک دے تو ایسا علم بھی ایک گمان ہے۔ اگر انسان اس طرح کے علم تک صحیح نقطہ نظر اختیار کرنے کے قابل ہے اور پرانے اور نئے کو یکجا کر کے مختلف پہلوؤں سے خدا کو پہچان سکتا ہے تو پرانا علم انسان کے لیے معاون بن جاتا ہے اور ایسی بنیاد بن جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان نئے دور میں داخل ہوتا ہے۔ خدا کو جاننے کا سبق تجھ سے بہت سے اصولوں پر عبور حاصل کرنے کا تقاضا کرتا ہے: خدا کو جاننے کے راستے پر کیسے داخل ہونا ہے، خدا کو جاننے کے لیے تجھے کون سی سچائیوں کو لازمی سمجھنا ہے، اور اپنے تصورات اور پرانے مزاج سے کیسے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تاکہ تو خدا کے نئے کام کے تمام انتظامات کے تابع ہو سکے۔ اگر تو ان اصولوں کو خدا کی معرفت کے سبق میں داخل ہونے کی بنیاد کے طور پر استعمال کرے گا تو تیرا علم مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ اگر تجھے کام کے تین مراحل کا واضح علم ہے – جس کا مطلب ہے کہ خدا کے انتظام کے پورے منصوبے کا – اور اگر تو خدا کے کام کے پچھلے دو مراحل کو موجودہ مرحلے کے ساتھ مکمل طور پر مربوط کر سکتا ہے، اور دیکھ سکتا ہے کہ یہ ایک خدا کی طرف سے کام ہے، پھر تجھے ایک بے مثال مضبوط بنیاد ملے گی۔ کام کے تین مراحل ایک خدا نے سر انجام دیے تھے۔ یہ عظیم بصیرت ہے، اور یہ خدا کو جاننے کا واحد راستہ ہے۔ کام کے تین مراحل صرف خدا خود انجام دے سکتا تھا، اور کوئی انسان اس کی طرف سے ایسا کام نہیں کر سکتا تھا – اس کا مطلب یہ ہے کہ شروع سے لے کر آج تک صرف خدا ہی خود اپنا کام کر سکتا تھا۔ اگرچہ خدا کے کام کے تین مراحل مختلف ادوار اور مقامات پر انجام دیے گئے ہیں، اور اگرچہ ہر ایک کا کام مختلف ہے، لیکن یہ سب ایک خدا کا کیا ہوا کام ہے۔ تمام بصائر میں سے یہ سب سے عظیم بصیرت ہے جسے انسان کو جاننا چاہیے اور اگر اسے انسان پوری طرح سمجھ سکتا ہے تو وہ مضبوطی سے کھڑا ہونے کے قابل ہو گا۔ آج مختلف مذاہب اور فرقوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ روح القدس کے کام کو نہیں جانتے، اور روح القدس کے کام اور اس کام میں فرق کرنے سے قاصر ہیں جو روح القدس کا نہیں ہے – اس کی وجہ سے، وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ کیا کام کا یہ مرحلہ بھی کام کے آخری دو مراحل کی طرح، یہوواہ خدا کی طرف سے کیا گیا ہے۔ اگرچہ لوگ خدا کی پیروی کرتے ہیں، لیکن اکثر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آیا یہ صحیح راستہ ہے۔ انسان فکرمند ہے کہ کیا یہ راستہ وہی ہے جس راستے کی خدا خود ذاتی طور پر راہنمائی کرتا ہے، اور کیا انسانی شکل میں خدا ایک حقیقت ہے، اور زیادہ تر لوگوں کو ابھی تک اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ایسی چیزوں کو کیسے پہچانا جائے۔ جو لوگ خدا کی پیروی کرتے ہیں وہ راستے کا تعین کرنے سے قاصر ہیں، اور اس طرح زبانی پیغامات کا ان لوگوں پر صرف جزوی اثر ہوتا ہے، اور وہ مکمل طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتے، اور اس طرح پھر ایسے لوگوں کے زندگی میں داخلے پر اثر پڑتا ہے۔ اگر انسان کام کے تین مراحل میں دیکھ سکتا ہے کہ وہ خود خدا کی طرف سے مختلف اوقات میں، مختلف مقامات پر اور مختلف لوگوں میں انجام پائے ہیں؛ اگر انسان یہ دیکھ سکتا ہے کہ اگرچہ کام مختلف ہے، لیکن یہ سب ایک خدا کی طرف سے کیا جاتا ہے، اور چونکہ یہ ایک خدا کا کام ہے، تو یہ لازمی صحیح اور غلطی کے بغیر ہونا چاہیے، اور یہ کہ اگرچہ یہ انسان کے تصورات سے متصادم ہے، لیکن اس سے انکار نہیں ہے کہ یہ ایک خدا کا کام ہے – اگر انسان یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خدا کا کام ہے، پھر انسان کے تصورات محض چھوٹی چھوٹی باتوں میں رہ جائیں گے، جو کہ قابل ذکر نہیں ہیں۔ کیونکہ انسان کی بصیرت مبہم ہے، اور کیونکہ انسان صرف یہوواہ کو خدا اور یسوع کو خداوند جانتا ہے، اور آج کے خدا کے انسانی شکل میں ہونے کے بارے میں مذبذب ہے، بہت سے لوگ یہوواہ اور یسوع کے کام کے لیے وقف رہتے ہیں، اور آج کے کام کے بارے میں تصورات میں مبتلا ہیں، زیادہ تر لوگ ہمیشہ شک میں رہتے ہیں، اور آج کے کام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ کام کے آخری دو مراحل جو پوشیدہ تھے، ان کے بارے میں انسان کو کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کام کے آخری دو مراحل کی حقیقت کو نہیں سمجھتا، اور اس نے ذاتی طور پر ان کا مشاہدہ نہیں کیا۔ یہ اس لیے ہے کہ کام کے ان مراحل کو ایسے نہیں دیکھا جا سکتا جیسے انسان اپنی پسند کے مطابق تصور کرتا ہے؛ اس سے قطع نظر کہ وہ جو بھی خیال پیش کرے، اس طرح کے تصورات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی حقائق نہیں ہیں، اور نہ ہی ان کو درست کرنے والا کوئی ہے۔ انسان اپنے مزاج کو بے لگام چھوڑ دیتا ہے، غیرمحتاط طریقے سے نظر انداز کرتا ہے اور اپنے تخیل کو آزاد ہونے دیتا ہے؛ اس کے تصورات کی تصدیق کے لیے کوئی حقائق نہیں ہیں، اور اس لیے اس بات سے قطع نظر کہ ان کے لیے کوئی ثبوت موجود ہو، انسان کے تصورات "حقیقت" بن جاتے ہیں۔ اس طرح انسان اپنے ذہن میں اپنے تصور کردہ خدا پر یقین رکھتا ہے، اور حقیقت کے خدا کی تلاش نہیں کرتا ہے۔ اگر ایک آدمی کا ایک قسم کا عقیدہ ہے تو سو آدمیوں میں سو قسم کے عقیدے ہیں۔ انسان ایسے عقائد رکھتا ہے کیونکہ اس نے خدا کے کام کی حقیقت کو نہیں دیکھا ہے، کیونکہ اس نے اسے صرف اپنے کانوں سے سنا ہے اور اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔ انسان نے افسانے اور کہانیاں سنی ہیں لیکن خدا کے کام کے حقائق کا علم شاذ و نادر ہی حاصل کیا ہے۔ لہذا ایسا ہے کہ جن لوگوں کو ایمان لائے تھوڑا عرصہ ہوا ہے وہ اپنے اپنے گمان کے مطابق خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی بات ان لوگوں کے لیے بھی سچ ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر یقین رکھا ہے۔ جو لوگ حقائق کو نہیں دیکھ سکتے وہ کبھی بھی ایسے عقیدے سے نہیں بچ سکیں گے جس میں وہ خدا کے بارے میں تصورات رکھتے ہوں۔ انسان کا خیال ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے پرانے تصورات کے بندھنوں سے آزاد کر لیا ہے، اور نئے علاقے میں داخل ہو گیا ہے۔ کیا انسان یہ نہیں جانتا کہ جو لوگ خدا کے حقیقی چہرے کو نہیں دیکھ سکتے ان کا علم محض تصورات اور افواہوں کے سوا کچھ نہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس کے تصورات درست اور غلطی کے بغیر ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ تصورات خدا کی طرف سے ہیں۔ آج، جب انسان خُدا کے کام کو دیکھتا ہے، تو وہ اُن تصورات کو چھوڑ دیتا ہے جو کئی سالوں سے قائم ہیں۔ ماضی کے تصورات اور خیالات اس مرحلے کے کام میں رکاوٹ بن گئے ہیں اور انسان کے لیے ایسے تصورات کو چھوڑنا اور ایسے خیالات کی تردید کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آج تک خدا کی پیروی کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کے اس مرحلہ وار کام کے بارے میں تصورات پہلے سے زیادہ سنگین ہو گئے ہیں اور ان لوگوں نے رفتہ رفتہ انسانی شکل میں خدا سے سخت دشمنی پیدا کر لی ہے۔ اس نفرت کا سرچشمہ انسان کے گمان اور تصورات میں موجود ہے۔ انسان کے گمان اور تصورات آج کے کام کے دشمن بن چکے ہیں، ایسا کام جو انسان کے تصورات سے متصادم ہے۔ یہ بالکل اس لیے ہوا ہے کہ حقائق انسان کو اپنے تخیل کو بے لگام چھوڑ دینے کی اجازت نہیں دیتے، اور، اس کے علاوہ، انسان انہیں آسانی سے رد نہیں کر سکتا، اور انسان کے گمان اور تصورات حقائق کے وجود کو نہیں روکتے، اور، اس کے علاوہ، کیونکہ انسان حقائق کی درستی اور سچائی پر غور نہیں کرتا، اور محض پختہ ارادے کے ساتھ اپنے تصورات کو کھلا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے تخیل کو بروئے کار لاتا ہے۔ اسے صرف انسان کے تصورات کا قصور کہا جا سکتا ہے، اور اسے خدا کے کام میں نقص نہیں کہا جا سکتا۔ انسان جو چاہے تصور کر سکتا ہے، لیکن وہ خدا کے کام کے کسی بھی مرحلے یا اس کے کسی بھی حصے پر آزادانہ طور پر اختلاف نہیں کر سکتا؛ خدا کے کام کی حقیقت انسان کے لیے قابل احترام ہے۔ تُو اپنے تخیل کو بے لگام چھوڑ سکتا ہے، اور یہوواہ اور یسوع کے کام کے بارے میں عمدہ کہانیاں بھی مرتب کر سکتا ہے، لیکن تو یہوواہ اور یسوع کے کام کے ہر مرحلے کی حقیقت کی تردید نہیں کر سکتا؛ یہ ایک اصول ہے، اور یہ ایک انتظامی فرمان بھی ہے، اور تمہیں ان مسائل کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ انسان کا خیال ہے کہ کام کا یہ مرحلہ انسان کے تصورات سے مطابقت نہیں رکھتا، اور کام کے پچھلے دو مراحل کے لیے ایسا معاملہ نہیں ہے۔ انسان اپنے تصور میں یہ سمجھتا ہے کہ پچھلے دو مراحل کا کام یقیناً آج کے کام جیسا نہیں ہے – لیکن کیا تو نے کبھی غور کیا ہے کہ خدا کے کام کے اصول ایک جیسے ہیں، کہ اس کا کام ہمیشہ عملی ہوتا ہے، اور یہ کہ دَور سے قطع نظر، ایسے لوگ ہمیشہ بہت زیادہ تعداد میں ہوں گے جو اس کے کام کی حقیقت کے خلاف مزاحمت اور مخالفت کرتے ہیں؟ وہ تمام لوگ جو آج کام کے اس مرحلے کی مزاحمت اور مخالفت کرتے ہیں بلاشبہ ماضی میں بھی خدا کی مخالفت کرتے رہے ہوں گے کیونکہ ایسے لوگ ہمیشہ خدا کے دشمن رہیں گے۔ جو لوگ خدا کے کام کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ کام کے تین مراحل کو ایک خدا کے کام کے طور پر دیکھیں گے، اور اپنے تصورات کو ترک کر دیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کو جانتے ہیں اور ایسے لوگ وہ ہیں جو حقیقی معنوں میں خدا کی پیروی کرتے ہیں۔ جب خدا کا پورا انتظام اپنے اختتام کے قریب ہو گا تو خدا ہر چیز کی نوعیت کے مطابق درجہ بندی کرے گا۔ انسان کو خالق کے ہاتھوں سے بنایا گیا تھا، اور آخر کار اسے انسان کو مکمل طور پر اپنی حاکمیت میں واپس لانا ہے؛ یہ کام کے تین مراحل کا اختتام ہے۔ آخری ایام کے کام کا مرحلہ، اور اسرائیل اور یہودیہ میں پچھلے دو مراحل، پوری کائنات میں خدا کا انتظامی منصوبہ ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اور یہ خدا کے کام کی حقیقت ہے۔ اگرچہ لوگوں نے اس کام کا زیادہ تجربہ یا مشاہدہ نہیں کیا ہے، لیکن حقائق اب بھی حقائق ہیں، اور یہ کسی بھی آدمی کے لیے ناقابل تردید ہیں۔ جو لوگ کائنات کی ہر سرزمین میں خدا کو مانتے ہیں وہ سب کام کے تین مراحل کو قبول کریں گے۔ اگر تو کام کے صرف ایک خاص مرحلے کو جانتا ہے، اور کام کے دوسرے دو مراحل کو نہیں سمجھتا، ماضی میں خدا کے کام کو نہیں سمجھتا، تو تُو خدا کے پورے انتظامی منصوبے کی مکمل حقیقت کو بیان کرنے سے قاصر ہے، اور خدا کے بارے میں تیرا علم یکطرفہ ہے، کیونکہ خدا پر اپنے یقین میں تو اسے جانتا یا سمجھتا نہیں ہے، لہذا تو خدا کی گواہی دینے کے لائق نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان چیزوں کے بارے میں تیرا موجودہ علم گہرا ہے یا سطحی، آخر میں، تمہیں لازمی طور پر علم ہونا چاہیے، اور مکمل طور پر قائل ہونا چاہیے، اور تمام لوگ خدا کے کام کی کاملیت کو دیکھیں گے اور خدا کی حاکمیت کے تابع ہو جائیں گے۔ اس کام کے اختتام پر تمام مذاہب ایک ہو جائیں گے، تمام مخلوقات خالق کی حاکمیت میں لوٹ آئیں گی، تمام مخلوقات ایک سچے خدا کی عبادت کریں گی، اور تمام برے مذاہب ختم ہو جائیں گے اور دوبارہ کبھی ظاہر نہیں ہوں گے۔
کام کے تین مراحل کا یہ مسلسل حوالہ کیوں؟ ادوار کا گزرنا، سماجی ترقی، اور فطرت کا بدلتا ہوا چہرہ، یہ سب کام کے تین مراحل میں تبدیلیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ بنی نوع انسان خدا کے کام کے ساتھ ساتھ وقت کے ساتھ بدلتا ہے، اور خود سے ترقی نہیں کرتا ہے۔ خدا کے کام کے تین مراحل کا حوالہ تمام مخلوقات اور ہر مذہب اور فرقہ کے تمام لوگوں کو ایک خدا کی حاکمیت میں لانے کے لیے دیا گیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ تیرا تعلق کس مذہب سے ہے، آخر کار تم سب خدا کی حاکمیت کے تابع ہو جاؤ گے۔ صرف خدا ہی اس کام کو انجام دے سکتا ہے؛ کوئی مذہبی پیشوا یہ نہیں کر سکتا۔ دنیا میں کئی بڑے مذاہب ہیں، اور ہر ایک کا اپنا پیشوا، یا راہنما ہے، اور پیروکار دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں پھیلے ہوئے ہیں؛ تقریباً ہر ملک، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اس کے اندر مختلف مذاہب ہیں۔ تاہم، اس بات سے قطع نظر کہ دنیا بھر میں کتنے مذاہب ہیں، کائنات کے اندر تمام لوگ بالآخر ایک خدا کی راہنمائی میں موجود ہیں، اور ان کے وجود کی راہنمائی مذہبی پیشوا یا رہنما نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خاص مذہبی پیشوا یا راہنما بنی نوع انسان کی راہنمائی نہیں کرتا۔ بلکہ پوری نوع انسانی کی قیادت خالق کے ہاتھ میں ہے، جس نے آسمانوں اور زمینوں اور تمام چیزوں کو پیدا کیا، اور جس نے بنی نوع انسان کو بھی پیدا کیا – یہ ایک حقیقت ہے۔ اگرچہ دنیا میں کئی بڑے مذاہب ہیں، خواہ وہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں، وہ سب خالق کی حاکمیت میں موجود ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی اس حاکمیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ بنی نوع انسان کی ترقی، معاشرے کی بالادستی، فطری علوم کی ترقی – ہر ایک خالق کے انتظامات سے الگ نہیں ہے، اور یہ کام ایسا نہیں ہے جو کسی بھی مذہبی پیشوا کے ذریعے کیا جا سکے۔ ایک مذہبی پیشوا محض ایک مخصوص مذہب کا راہنما ہوتا ہے اور وہ خدا کی نمائندگی نہیں کر سکتا، اور نہ ہی وہ اس واحد کی نمائندگی کر سکتا ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور تمام چیزوں کو تخلیق کیا ہے۔ ایک مذہبی پیشوا پورے مذہب کے اندر تمام لوگوں کی راہنمائی کر سکتا ہے، لیکن وہ آسمانوں کے نیچے تمام مخلوقات کو حکم نہیں دے سکتا – یہ ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ ایک مذہبی پیشوا محض ایک راہنما ہے، اور خدا (خالق) کے برابر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ تمام چیزیں خالق کے ہاتھ میں ہیں اور آخر کار وہ سب خالق کے ہاتھ میں لوٹ جائیں گی۔ بنی نوع انسان کو خدا نے بنایا ہے، اور مذہب سے قطع نظر، ہر شخص خدا کی حاکمیت میں واپس آئے گا – یہ ناگزیر ہے۔ صرف خدا ہی تمام چیزوں میں سب سے اعلیٰ ہے اور تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ حاکم کو بھی لازمی اسی کی حاکمیت میں لوٹنا ہے۔ انسان کا رتبہ خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، وہ انسان کو کسی مناسب منزل تک نہیں پہنچا سکتا، اور کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ سب چیزوں کی درجہ بندی نوعیت کے مطابق کر سکے۔ یہوواہ نے خود بنی نوع انسان کو تخلیق کیا اور ہر ایک کی درجہ بندی نوعیت کے مطابق کی، اور جب آخری وقت آئے گا تو وہ پھر بھی اپنا کام خود کرے گا، ہر چیز کی درجہ بندی نوعیت کے مطابق کرے گا – یہ کام خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ہو سکتا۔ شروع سے لے کر آج تک کام کے جو تین مراحل انجام دیے گئے وہ سب خدا نے خود انجام دیے تھے، اور ایک خدا کی طرف سے کیے گئے تھے۔ کام کے تین مراحل کی حقیقت خدا کی تمام بنی نوع انسان کی قیادت کرنے کی حقیقت ہے، ایک ایسی حقیقت جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کام کے تین مراحل کے اختتام پر، تمام چیزوں کی درجہ بندی نوعیت کے مطابق کی جائے گی اور خدا کی حاکمیت میں واپس آ جائیں گی، کیونکہ پوری کائنات میں صرف یہی ایک خدا موجود ہے، اور کوئی دوسرے مذاہب نہیں ہیں۔ جو دنیا کو پیدا کرنے سے عاجز ہے وہ اسے ختم کرنے کے قابل نہیں ہو گا جبکہ جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے وہ یقیناً اسے ختم کرنے پر قادر ہو گا۔ لہٰذا، اگر کوئی دَور کو ختم کرنے سے قاصر ہے اور محض انسان کو اپنے ذہن کو سنوارنے میں مدد دے سکتا ہے، تو وہ یقیناً خدا نہیں ہوگا، اور یقیناً بنی نوع انسان کا خداوند نہیں ہوگا۔ وہ اتنا عظیم کام کرنے سے قاصر ہو گا؛ اس کام کو انجام دینے والا صرف ایک ہے اور وہ سب جو اس کام کو انجام دینے سے قاصر ہیں وہ یقیناً دشمن ہیں خدا نہیں۔ تمام برے مذاہب خدا کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ خدا سے مطابقت نہیں رکھتے، وہ خدا کے دشمن ہیں۔ تمام کام وہی ایک سچا خدا کرتا ہے، اور ساری کائنات اسی ایک خدا کے حکم کے تحت ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اسرائیل میں اس کا کام ہے یا چین میں، اس بات سے قطع نظر کہ یہ کام روح کے ذریعے کیا جاتا ہے یا گوشت پوست کے جسم سے، سب کچھ خدا خود کرتا ہے، اور یہ کسی اور سے نہیں ہو سکتا۔ یہ قطعی طور پر اس لیے ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کا خدا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کام کرتا ہے، بغیر کسی شرط کی پابندی کے – یہ تمام بصائر سے عظیم ہے۔ خدا کی مخلوق کے طور پر، اگر تم خدا کی مخلوق کا فرض ادا کرنا چاہتے ہو اور خدا کی مرضی کو سمجھنا چاہتے ہو، تمہیں خدا کے کام کو سمجھنا چاہیے، تمہیں مخلوقات کے لیے خدا کی مرضی کو سمجھنا چاہیے، تمہیں اس کے انتظام کے منصوبے کو سمجھنا چاہیے، اور تمہیں اس کے کام کی تمام اہمیت کو لازمی سمجھنا چاہیے۔ جو لوگ یہ نہیں سمجھتے، وہ خدا کی مخلوق ہونے کی شرائط پر پورا نہیں اترتے! خدا کی مخلوق کے طور پر، اگر تم یہ نہیں سمجھتے ہو کہ تم کہاں سے آئے ہو، بنی نوع انسان کی تاریخ اور خدا کے تمام کام کو نہیں سمجھتے ہو، اور مزید برآں یہ نہیں سمجھتے کہ آج تک بنی نوع انسان نے کس طرح ترقی کی ہے، اور یہ نہیں سمجھتے کہ تمام نوع انسانی کو کون حکم دیتا ہے، تو تم اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہو۔ خدا نے آج تک بنی نوع انسان کی راہنمائی کی ہے اور جب سے اس نے انسان کو زمین پر تخلیق کیا ہے اس نے انسان کو کبھی نہیں چھوڑا۔ روح القدس کبھی کام کرنا بند نہیں کرتی، اس نے کبھی بنی نوع انسان کی راہنمائی کرنا بند نہیں کیا، اور بنی نوع انسان کو کبھی نہیں چھوڑا۔ لیکن انسان یہ نہیں جانتا کہ خدا موجود ہے، خدا کے بارے میں اس کا علم بہت محدود ہے۔ کیا خدا کی تمام مخلوقات کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی ذلت ہے؟ خدا ذاتی طور پر انسان کی راہنمائی کرتا ہے، لیکن انسان خدا کے کام کو نہیں سمجھتا ہے۔ تو خدا کی مخلوق ہے، پھر بھی تو اپنی تاریخ کو نہیں سمجھتا، اور اس سے بے خبر ہے کہ کس نے تیرے سفر میں تیری راہنمائی کی ہے، تو خدا کے کیے ہوئے کام سے غافل ہے اور اس لیے تو خدا کو نہیں جان سکتا۔ اگر تجھے ابھی بھی علم نہیں ہے، تو تو کبھی بھی خدا کی گواہی دینے کا اہل نہیں ہو گا۔ آج، خالق ذاتی طور پر ایک بار پھر تمام لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے، اور تمام لوگوں کو اپنی حکمت، مطلق قدرت، نجات، اور حیرتناک کمال دکھانے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے باوجود تجھے ابھی تک احساس یا سمجھ نہیں ہے – اس لیے کیا تو وہ نہیں ہے جو نجات حاصل نہیں کرے گا؟ جو لوگ شیطان سے تعلق رکھتے ہیں وہ خدا کی باتوں کو نہیں سمجھتے، جبکہ وہ جو خدا سے تعلق رکھتے ہیں وہ خدا کی آواز سن سکتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو میری باتوں کا احساس کرتے اور سمجھتے ہیں وہ نجات پانے والے ہوں گے اور جو خدا کی گواہی دیں گے؛ وہ تمام لوگ جو میری باتوں کو نہیں سمجھتے وہ خدا کی گواہی نہیں دے سکتے اور وہی خارج کیے جائیں گے۔ جو لوگ خدا کی مرضی کو نہیں سمجھتے اور خدا کے کام کا احساس نہیں کرتے وہ خدا کی معرفت حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور ایسے لوگ خدا کی گواہی نہیں دے سکتے۔ اگر تم خدا کی گواہی دینا چاہتے ہو تو تمہیں خدا کو جاننا چاہیے؛ خدا کی معرفت خدا کے کام کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر، اگر تم خدا کو جاننا چاہتے ہو، تو تمہیں خدا کے کام کو لازمی جاننا چاہیے: خدا کے کام کو جاننا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جب کام کے تین مراحل ختم ہو جائیں گے، تو خدا کی گواہی دینے والوں کا ایک گروہ، خدا کو جاننے والوں کا ایک گروہ بنایا جائے گا۔ یہ سب لوگ خدا کو جان لیں گے اور سچائی کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ وہ انسانیت اور احساس کے مالک ہوں گے، اور سب کو خدا کے نجات کے کام کے تین مراحل معلوم ہوں گے۔ یہ وہ کام ہے جو آخر میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا، اور یہ لوگ 6،000 سال کے انتظامی کام کے منصوبے کی حتمی شکل ہیں، اور شیطان کی آخری شکست کے سب سے طاقتور گواہ ہیں۔ جو لوگ خدا کی گواہی دے سکتے ہیں وہ خدا کا وعدہ اور برکت حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں گے، اور یہ وہ گروہ ہو گا جو آخر میں باقی رہے گا، وہ گروہ جو خدا کا اختیار رکھتا ہے اور خدا کی گواہی دیتا ہے۔ شاید تم میں سے سب لوگ اس گروہ کے رکن بن سکتے ہیں، یا شاید صرف آدھے، یا صرف چند – یہ تمہاری مرضی اور اس کے حصول کے لیے تمہاری کوشش پر منحصر ہے۔