خدا کا کام اور انسان کا کام

انسان کا کتنا کام روح القدس کا کام ہے اور انسان کا تجربہ کتنا ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ اب بھی ان سوالات کو نہیں سمجھتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روح القدس کے کام کے اصولوں کو نہیں سمجھتے۔ جب میں کہتا ہوں کہ "انسان کا کام"، تو میں یقیناً ان لوگوں کے کام کا حوالہ دیتا ہوں جن کے پاس روح القدس کا کام ہے یا جو روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں۔ میں اس کام کا حوالہ نہیں دے رہا ہوں جو انسان کی مرضی سے شروع ہوتا ہے، بلکہ رسولوں، کارکنوں یا عام بھائیوں اور بہنوں کے کام کا حوالہ دے رہا ہوں جو روح القدس کے کام کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ یہاں، "انسان کا کام" مجسم خُدا کے کام کا حوالہ نہیں دیتا، بلکہ اُس کام کے دائرہ کار اور اصولوں کا حوالہ دیتا ہے جو روح القدس لوگوں پر انجام دیتی ہے۔ اگرچہ یہ اصول روح القدس کے کام کے اصول اور دائرہ کار ہیں، لیکن یہ مجسم خدا کے کام کے اصولوں اور دائرہ کار کی طرح نہیں ہیں۔ انسان کے کام میں انسان کا جوہر اور اصول ہیں، اور خدا کے کام میں خدا کا جوہر اور اصول ہیں۔

روح القدس کے دھارے میں کام، چاہے وہ خدا کا اپنا کام ہو یا استعمال کیے گئے لوگوں کا کام ہو، روح القدس کا کام ہے۔ خود خدا کا جوہر روح ہے، جسے روح القدس یا سات گنا طاقتور روح کہا جا سکتا ہے۔ ہر لحاظ سے، وہ خدا کی روح ہیں، اگرچہ خدا کی روح کو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔ لیکن ان کا جوہر اب بھی ایک ہی ہے۔ لہٰذا، خود خدا کا کام روح القدس کا کام ہے، جبکہ مجسم خدا کا کام روح القدس کے کام کرنے سے کم نہیں ہے۔ استعمال ہونے والے لوگوں کا کام بھی روح القدس کا کام ہے۔ پھر بھی خدا کا کام روح القدس کا مکمل اظہار ہے، جو کہ بالکل سچ ہے، جب کہ استعمال کیے جانے والے لوگوں کا کام بہت سی انسانی چیزوں کے ساتھ ملا ہوا ہے، اور یہ روح القدس کا براہ راست اظہار نہیں ہے، اس کے مکمل اظہار کا تو ذکر ہی کیا۔ روح القدس کا کام مختلف ہے اور کسی بھی شرط سے محدود نہیں ہے۔ روح القدس کا کام مختلف لوگوں میں مختلف ہوتا ہے؛ یہ مختلف جوہروں کو ظاہر کرتا ہے، اور یہ دَور کے ساتھ ساتھ ملک کے لحاظ سے بھی مختلف ہوتا ہے۔ بے شک، اگرچہ روح القدس بہت سے مختلف طریقوں سے اور بہت سے اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کام کیسے کیا گیا ہے یا کس قسم کے لوگوں پر کیا گیا ہے، اس کا جوہر ہمیشہ مختلف ہوتا ہے؛ مختلف لوگوں پر کیے گئے تمام کاموں کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اور یہ سب اس کے مقاصد کے جوہر کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روح القدس کا کام دائرہ کار میں کافی مخصوص ہے اور کافی متوازن ہے۔ تجسیم شدہ جسم میں کیا جانے والا کام لوگوں پر کیے جانے والے کام جیسا نہیں ہے، اور کام بھی جس شخص پر کیا جاتا ہے، اس شخص کی صلاحیت کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ تجسیم شدہ جسم میں کیا گیا کام لوگوں پر نہیں کیا جاتا، اور یہ ویسا کام نہیں ہے جو لوگوں پر کیا جاتا ہے۔ مختصراً، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس طرح کیا جاتا ہے، مختلف چیزوں پر انجام دیا جانے والا کام کبھی بھی ایک جیسا نہیں ہوتا ہے اور جن اصولوں سے وہ کام کرتی ہے وہ ان مختلف لوگوں کی حالت اور فطرت کے مطابق مختلف ہوتے ہیں جن پر وہ کام کرتی ہے۔ روح القدس مختلف لوگوں پر ان کے فطری جوہر کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور ان سے وہ مطالبات نہیں کرتی ہے جو ان کے جوہر سے تجاوز کرتے ہوں، اور نہ ہی وہ ان پر ایسا کام کرتی ہے جو ان کی فطری صلاحیت سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ لہذا، انسان پر روح القدس کا کام لوگوں کو اس کام کے مقصد کے جوہر کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ انسان کا فطری جوہر نہیں بدلتا ہے؛ اس کی فطری صلاحیت محدود ہے۔ روح القدس لوگوں کو استعمال کرتی ہے یا ان کی صلاحیت کی حدود کے مطابق ان پر کام کرتی ہے، تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ جب روح القدس استعمال کیے جانے والے لوگوں پر کام کرتی ہے، تو ان لوگوں کی قابلیت اور فطری صلاحیت کو آزاد کر دیا جاتا ہے، روکا نہیں جاتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کام میں نتائج حاصل کرنے کے لیے انسان کے ان حصوں کو استعمال کرتی ہے جو اس کے کام میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، مجسم جسم میں کیا جانے والا کام براہ راست روح کے کام کو ظاہر کرتا ہے اور انسانی ذہن اور خیالات سے آلودہ نہیں ہوتا ہے؛ نہ انسان کی فطری لیاقت، نہ انسان کا تجربہ اور نہ ہی انسان کی فطری حالت اس تک پہنچ سکتی ہے۔ روح القدس کے تمام بے شمار کاموں کا مقصد انسان کو فائدہ پہنچانا اور تعلیم دینا ہے۔ تاہم، کچھ لوگ کامل بنائے جا سکتے ہیں جب کہ دوسروں کے پاس کامل ہونے کی شرائط نہیں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ کامل نہیں بنائے جا سکتے اور مشکل سے ہی بچائے جا سکتے ہیں، اور اگرچہ ان کے پاس روح القدس کا کام ہو سکتا ہے لیکن بالآخر وہ رد کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ روح القدس کا کام لوگوں کو تعلیم دینا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ تمام لوگ جن کے پاس روح القدس کا کام ہے مکمل طور پر کامل بنا دیے جائیں گے، کیونکہ جس راستے پر بہت سے لوگ اپنی کوشش کرتے ہیں وہ کامل بنائے جانے کا راستہ نہیں ہے۔ ان کے پاس روح القدس کا صرف یکطرفہ کام ہے، اور موضوعی انسانی تعاون اور صحیح انسانی کوشش نہیں ہے۔ اس طرح، ان لوگوں پر روح القدس کا کام ان لوگوں کی خاطر ہوتا ہے جو کامل بنائے جا رہے ہیں۔ روح القدس کے کام کو لوگ براہِ راست نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی لوگ خود اسے براہِ راست چھو سکتے ہیں۔ اس کا اظہار صرف وہ لوگ کر سکتے ہیں جو کام کی فطری لیاقت رکھتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ روح القدس کا کام لوگوں کے اظہار کے ذریعے پیروکاروں کو فراہم کیا جاتا ہے۔

روح القدس کا کام بہت سی قسم کے لوگوں اور بہت سے مختلف حالات کے ذریعے پورا اور مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ مجسم خدا کا کام ایک پورے دور کے کام کی نمائندگی کر سکتا ہے، اور ایک پورے دور میں لوگوں کے داخلے کی نمائندگی کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کے داخلے کی تفصیلات پر ابھی بھی ان انسانوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے جو مجسم خدا کے ذریعے نہیں بلکہ روح القدس کے ذریعے استعمال ہوتے ہیں۔ لہذا، خدا کا کام، یا خدا کی اپنی ذمہ داری، خدا کے مجسم جسم کا کام ہے، جو کہ انسان اس کی جگہ نہیں کر سکتا ہے۔ روح القدس کا کام بہت سے مختلف قسم کے لوگوں کے ذریعے مکمل ہوتا ہے؛ کوئی ایک فرد اسے مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکتا، اور کوئی ایک فرد اس کا مکمل اظہار نہیں کر سکتا۔ جو کلیسیاﺆں کی قیادت کرتے ہیں وہ بھی روح القدس کے کام کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتے؛ وہ صرف کچھ اہم کام ہی کر سکتے ہیں۔ اس طرح روح القدس کے کام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: خُدا کا اپنا کام، اُن لوگوں کا کام جو استعمال کیے جاتے ہیں، اور اُن تمام لوگوں پر کام جو روح القدس کے دھارے میں ہیں۔ خدا کا اپنا کام پورے دور کی قیادت کرنا ہے۔ استعمال کیے جانے والوں کا کام، خدا کے اپنے کام کرنے کے بعد بھیجا جانا یا احکامات حاصل کرنا ہے، خدا کے تمام پیروکاروں کی راہنمائی کرنا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے کام میں تعاون کرتے ہیں؛ روح القدس کی طرف سے دھارے میں موجود لوگوں پر جو کام کیا گیا ہے وہ اس کے اپنے تمام کاموں کو برقرار رکھنے کے لیے ہے، یعنی اس کے پورے انتظام اور اس کی گواہی کو برقرار رکھنے کے لیے، جبکہ ان لوگوں کو فوراً کامل بنانا ہے جو کامل ہو سکتے ہیں۔ یہ تینوں حصے مل کر روح القدس کا مکمل کام ہیں، لیکن خود خدا کے کام کے بغیر، انتظامی کام مکمل طور پر جمود کا شکار ہو جائے گا۔ خود خدا کے کام میں تمام بنی نوع انسان کا کام شامل ہے، اور یہ پورے دور کے کام کی بھی نمائندگی کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ خدا کا اپنا کام روح القدس کے کام کے ہر محرک اور رجحان کی نمائندگی کرتا ہے، جب کہ رسولوں کا کام خدا کے اپنے کام کے بعد آتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے، اور یہ دَور کی قیادت نہیں کرتا، اور نہ ہی یہ پورے دَور میں روح القدس کے کام کے رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ صرف وہی کام کرتے ہیں جو انسان کو کرنا چاہیے اور جس کا انتظامی کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو کام خدا خود کرتا ہے وہ انتظامی کام کے اندر ایک منصوبہ ہے۔ انسان کا کام صرف وہ فرض ہے جسے استعمال کیے جانے والے لوگ پورا کرتے ہیں اور اس کا انتظامی کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ دونوں روح القدس کے کام ہیں، شناخت اور کام کی نمائندگی میں فرق کی وجہ سے، خدا کے اپنے کام اور انسان کے کام میں واضح اور بنیادی فرق موجود ہیں۔ مزید یہ کہ روح القدس کے ذریعے کیے گئے کام کی حد مختلف شناختوں والی اشیاء پر مختلف ہوتی ہے۔ یہ روح القدس کے کام کا اصول اور دائرہ کار ہے۔

انسان کا کام اس کے تجربے اور اس کی انسانیت کی علامت ہے۔ انسان کی نمائندگی اس سے ہوتی ہے جو وہ فراہم کرتا ہے اور جو کام وہ کرتا ہے۔ انسان کی بصیرت، انسان کا استدلال، انسان کی منطق اور اس کا بھرپور تخیل یہ سب اس کے کام میں شامل ہیں۔ انسان کا تجربہ خاص طور پر اس کے کام کی نشاندہی کرنے کے قابل ہوتا ہے، اور ایک انسان کے تجربات اس کے کام کے اجزاء بن جاتے ہیں۔ انسان کا کام اپنے تجربے کا اظہار کر سکتا ہے۔ جب کچھ لوگ منفی تجربہ کرتے ہیں، تو ان کی رفاقت کی زیادہ تر زبان منفی عناصر پر مشتمل ہوگی۔ اگر ایک وقت میں ان کا تجربہ مثبت ہے اور وہ خاص طور پر مثبت پہلو میں ایک راستہ رکھتے ہیں، تو ان کی رفاقت بہت حوصلہ افزا ہوتی ہے، اور لوگ ان سے مثبت چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی کارکن ایک مدت کے لیے منفی ہو جاتا ہے تو اس کی رفاقت پر ہمیشہ منفی عناصر رہیں گے۔ اس قسم کی رفاقت افسردہ کرنے والی ہے، اور دوسرے اس کی رفاقت کے بعد لاشعوری طور پر افسردہ ہو جائیں گے۔ پیروکاروں کی حالت میں تبدیلی قائد کی حالت کی وجہ سے آتی ہے۔ ایک کارکن اندر سے جیسا ہوتا ہے، وہ ویسا ہی اظہار کرتا ہے، اور روح القدس کا کام اکثر انسان کی حالت کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ وہ لوگوں کے تجربے کے مطابق کام کرتی ہے اور انھیں مجبور نہیں کرتی بلکہ ان کے معمول کے تجربے کے مطابق لوگوں سے مطالبات کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی رفاقت خدا کے کلام سے مختلف ہے۔ لوگوں کی رفاقت، خدا کے کام کی بنیاد پر، اپنی بصیرت اور تجربے کا اظہار کرتے ہوئے، ان کی انفرادی بصیرت اور تجربے کو بیان کرتی ہے۔ ان کی ذمہ داری یہ معلوم کرنا ہے کہ خدا کے کام کرنے یا بولنے کے بعد، انھیں اس میں کس چیز پر عمل کرنا ہے یا کس میں داخل ہونا ہے، اور پھر اسے پیروکاروں تک پہنچانا ہے۔ اس لیے انسان کا کام اس کے داخلے اور عمل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یقیناً ایسا کام انسانی اسباق اور تجربے یا کچھ انسانی خیالات کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ تاہم روح القدس کام کرتی ہے، چاہے انسان پر ہو یا مجسم خدا میں اور کارکنان ہمیشہ اسی کا اظہار کرتے ہیں جو وہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ روح القدس ہے جو کام کرتی ہے مگر کام کی بنیاد اس پر ہوتی ہے جو انسان کی فطرت میں ہے، کیونکہ روح القدس بنیاد کے بغیر کام نہیں کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، کام خوامخواہ نہیں ہوتا، بلکہ ہمیشہ حقیقی صورتحال اور حقیقی حالات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ صرف اسی طرح انسان کے مزاج کو بدلا جا سکتا ہے اور اس کے پرانے تصورات اور پرانے خیالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انسان جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ وہی ہوتی ہے جسے وہ دیکھتا ہے، جس کا وہ تجربہ کر سکتا ہے، جس کا وہ تصور کر سکتا ہے، اور جو انسان کی سوچ سے حاصل کی جا سکتی ہے، چاہے وہ عقیدہ ہو یا تصور۔ انسان کا کام انسان کے تجربے کے دائرے سے زیادہ نہیں ہو سکتا، نہ کہ جو کچھ انسان دیکھتا ہے، اور نہ کہ انسان جس چیز کا تصور کر سکتا ہے یا جسے سمجھ سکتا ہے، چاہے اس کام کا حجم کچھ بھی ہو۔ خُدا کا تمام اظہار وہی ہے جو وہ خود ہے، اور یہ انسان کے لیے ناقابلِ حصول ہے۔ یعنی انسان کی سوچ سے باہر ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کرنے کے لیے اپنے کام کا اظہار کرتا ہے، اور یہ انسانی تجربے کی تفصیلات سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کے اپنے انتظام سے متعلق ہے۔ انسان جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ اس کا تجربہ ہوتا ہے، جب کہ خدا جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ اس کا وجود ہے، جو اس کا فطری مزاج ہے اور جو انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ انسان کا تجربہ اس کی بصیرت اور علم ہے جو خدا کے اپنے وجود کے اظہار کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے۔ اس طرح کی بصیرت اور علم کو انسان کا وجود کہا جاتا ہے اور ان کے اظہار کی بنیاد انسان کا فطری مزاج اور صلاحیت ہے۔ اسی لیے انھیں انسان کا وجود بھی کہا جاتا ہے۔ انسان جس چیز کا تجربہ کرتا ہے اور جسے دیکھتا ہے، وہ اس کی رفاقت کرنے کے قابل ہے۔ کوئی بھی اس چیز کی رفاقت نہیں کر سکتا جس کا اس نے تجربہ نہ کیا ہو، دیکھا نہ ہو، یا اس کی سوچ اس تک نہ پہنچ سکتی ہو، وہ ایسی چیزیں ہیں جن کی اندرونی حقیقت اس کے علم میں نہیں ہے۔ اگر انسان جو کچھ بیان کرتا ہے وہ اس کے تجربے سے نہیں ہے، تو پھر یہ اس کا تخیل یا عقیدہ ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر تو کبھی بھی معاشرے کی چیزوں کے ساتھ رابطے میں نہیں آتا، تو تو معاشرے کے پیچیدہ رشتوں سے واضح طور پر رفاقت نہیں کر پائے گا۔ اگر تیرا کوئی خاندان نہیں ہوتا، اور اگر دوسرے لوگ خاندان کے مسائل کے بارے میں بات کرتے، تو تو ان کی زیادہ تر باتوں کو نہیں سمجھ پاتا۔ لہذا، انسان جو رفاقت کرتا ہے اور جو کام کرتا ہے وہ اس کے باطن کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص سزا اور فیصلے کے بارے میں تجھے اپنی فہم میں شریک کرتا ہے، لیکن تجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے، تو تو اس کے علم سے انکار کی جرأت نہیں کرے گا، اس پر سو فیصد اعتماد کرنے کی ہمت کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی رفاقت ایک ایسی چیز ہے جس کا تو نے کبھی تجربہ نہیں کیا ہے، جس کا تجھے کبھی علم نہیں تھا، اور تیرا دماغ جس کا تصور نہیں کر سکتا۔ جو کچھ تو اس کے علم سے حاصل کر سکتا ہے، وہ مستقبل میں سزا اور فیصلے سے گزرنے کا راستہ ہے۔ لیکن یہ راستہ صرف نظریاتی علم کا ہو سکتا ہے؛ یہ تیری اپنی سمجھ کی جگہ نہیں لے سکتا، تیرے تجربے کی جگہ لینا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ شاید تجھے لگتا ہے کہ وہ جو کہتا ہے وہ بالکل درست ہے، لیکن تو اپنے تجربے میں اسے بہت سے طریقوں سے ناقابل عمل پاتا ہے۔ شاید تو محسوس کرے کہ تو جو کچھ سنتا ہے اس میں سے کچھ مکمل طور پر ناقابل عمل ہے تو اس وقت تو اس کے بارے میں تصورات پالتا ہے، اور اگرچہ تو اسے قبول کرتا ہے، لیکن تو بہت ہچکچاہٹ کے ساتھ ایسا کرتا ہے۔ لیکن تیرے اپنے تجربے میں، وہ علم جس سے تو نے تصورات اخذ کیے ہیں، وہ تیرا عمل کرنے کا طریقہ کار بن جاتا ہے، اور تو جتنی زیادہ مشق کرتا ہے، اتنا ہی زیادہ تو ان الفاظ کی صحیح قدر اور معنی کو سمجھتا ہے جو تو نے سنے ہوتے ہیں۔ تو خود تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی اس علم کے بارے میں بات کر سکتا ہے جو تجھے اس تجربے کے متعلق ہونا چاہیے جو تو نے خود کیا ہے۔ اس کے علاوہ، تو ان لوگوں کے درمیان بھی فرق کر سکتا ہے جن کا علم حقیقی اور عملی ہے اور ان لوگوں کے درمیان بھی جن کا علم عقیدے پر مبنی ہے اور بے کار ہے۔ لہٰذا، تو جس علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ سچائی سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ کیا تجھے اس کا عملی تجربہ ہے یا نہیں۔ جہاں تیرے تجربے میں سچائی ہوگی وہاں تیرا علم عملی اور قیمتی ہوگا۔ اپنے تجربے کے ذریعے، تو تفہیم اور بصیرت بھی حاصل کر سکتا ہے، اپنے علم کو گہرا کر سکتا ہے، اور اس بارے میں اپنی حکمت اور عام فہم کو بڑھا سکتا ہے کہ تجھے اپنے آپ کو کیسے چلانا چاہیے۔ جن لوگوں کے پاس سچائی نہیں ہے تو ان کا علم جسے وہ ظاہر کرتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو، وہ عقیدہ ہوتا ہے۔ اس قسم کا شخص جسمانی معاملات میں بہت ذہین ہو سکتا ہے لیکن جب روحانی معاملات کی بات آتی ہے تو وہ فرق نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ ایسے لوگوں کو روحانی امور کا بالکل کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روحانی معاملات میں آگہی نہیں رکھتے ہیں اور روحانی معاملات کو نہیں سمجھتے ہیں۔ تو جس قسم کے بھی علم کا اظہار کرتا ہے، جب تک یہ تیرا وجود ہے، تب تک یہ تیرا ذاتی تجربہ ہے اور تیرا حقیقی علم ہے۔ جو لوگ صرف نظریے کی بات کرتے ہیں۔ جو لوگ صرف عقیدے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس نہ تو سچائی ہے اور نہ ہی حقیقت۔ وہ جو بات چیت کرتے ہیں، اسے ان کا وجود بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے نظریے تک گہری سوچ بچار سے ہی پہنچے ہیں اور یہ ان کی گہری غوروفکر کا نتیجہ ہے۔ پھر بھی یہ صرف عقیدہ ہے، تخیل سے زیادہ کچھ بھی نہیں! ہر قسم کے لوگوں کے تجربات ان کے اندر موجود چیزوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کوئی بھی شخص بغیر کسی روحانی تجربے کے سچائی کے علم کی بات نہیں کر سکتا اور نہ ہی مختلف روحانی چیزوں کے بارے میں صحیح علم کی بات کر سکتا ہے۔ انسان جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ وہی ہوتا ہے جو وہ اندرونی طور پر ہوتا ہے – یہ یقینی ہے۔ اگر کوئی روحانی چیزوں کا علم اور سچائی کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے حقیقی تجربہ ہونا چاہیے۔ اگر تو انسانی زندگی میں عام فہم کے بارے میں واضح طور پر نہیں بول سکتا تو روحانی چیزوں کے بارے میں تیرے بات کرنے کا امکان کتنا کم ہو گا؟ وہ لوگ جو کلیسیاﺆں کی قیادت کر سکتے ہیں، لوگوں کو زندگی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں، اور لوگوں کے لیے رسول بن سکتے ہیں، انھیں حقیقی تجربہ ہونا چاہیے؛ انھیں روحانی چیزوں کی صحیح فہم اور سچائی کا صحیح ادراک اور تجربہ ہونا چاہیے۔ صرف ایسے لوگ ہی کارکن یا رسول بننے کے اہل ہیں جو کلیسیاﺆں کی قیادت کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں، وہ کم سے کم صرف پیروی ہی کر سکتے ہیں اور قیادت نہیں کر سکتے، بہت کم رسول ہیں جو لوگوں کو زندگی کا سامان فراہم کرنے کے قابل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسولوں کا کام جلدبازی کرنا یا لڑنا نہیں ہے؛ یہ زندگی کی ذمہ داری ادا کرنے کا کام ہے اور دوسروں کو ان کے مزاج تبدیل کرنے میں راہنمائی کرنے کا کام ہے۔ جو لوگ اس کام کو انجام دیتے ہیں ان کو ایک بھاری ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور یہ ایسی نہیں ہے کہ جسے محض کوئی بھی سنبھال سکے۔ اس قسم کا کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے پاس زندگی ہے، یعنی وہ لوگ جو سچائی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ کام محض کسی ایسے شخص کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا جو تسلیم نہیں کر سکتا، جو جلدبازی کر سکتا ہے، یا جو اپنے آپ کو خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے؛ وہ لوگ جن کے پاس سچائی کا کوئی تجربہ نہیں ہے، جن کی تراش خراش نہیں ہوئی ہے یا جن کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، وہ اس قسم کا کام کرنے سے قاصر ہیں۔ تجربہ نہ رکھنے والے لوگ، جو حقیقت کے بغیر لوگ ہیں، حقیقت کو واضح طور پر دیکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ خود اس قسم کے وجود کے بغیر ہیں۔ لہٰذا، اس قسم کا فرد نہ صرف قائدانہ کام کرنے سے قاصر ہے، بلکہ، اگر وہ زیادہ دیر تک سچائی کے بغیر رہے، تو اسے باہر نکال دیا جائے گا۔ تو جس بصیرت کا اظہار کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہو سکتی ہے کہ تو نے زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کیا ہے، کن چیزوں کے لیے تجھے سزا دی گئی ہے اور کن مسائل کے لیے تجھے پرکھا گیا ہے۔ یہ آزمائشوں کے بارے میں بھی سچ ہے: جہاں کسی کا تزکیہ کیا جاتا ہے، جہاں کوئی کمزور ہوتا ہے – یہ وہ شعبے ہیں جن میں کسی کا عملی تجربہ ہوتا ہے، جس میں کسی کے پاس راستہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو شادی میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ اکثر رفاقت کرے گا، "خدا کا شکر ہے، خدا کی تعریف کرو، مجھے خدا کے دل کی خواہش کو لازمی پورا کرنا چاہیے اور اپنی پوری زندگی کو پیش کرنا چاہیے، اور مجھے لازمی اپنی شادی کو مکمل طور پر خدا کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے۔ میں اپنی پوری زندگی خدا کے سپرد کرنے کو تیار ہوں۔" انسان کے اندر کی تمام چیزیں رفاقت کے ذریعے یہ ظاہر کر سکتی ہیں کہ وہ کیا ہے۔ کسی شخص کی تقریر کی رفتار، چاہے وہ اونچی آواز میں بولے یا آہستہ سے۔ ایسے معاملات تجربے کے معاملات نہیں ہیں اور اس بات کی نمائندگی نہیں کر سکتے ہیں کہ ان کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہیں۔ یہ چیزیں صرف یہ بتا سکتی ہیں کہ انسان کا کردار اچھا ہے یا برا، یا اس کی فطرت اچھی ہے یا بری، لیکن اسے اس کے برابر نہیں قرار دیا جا سکتا کہ آیا کسی کے پاس تجربہ ہے یا نہیں۔ بولتے وقت کسی کے بیان کرنے کی صلاحیت، یا تقریر کی مہارت یا رفتار، صرف مشق کا معاملہ ہے اور کسی کے تجربے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جب تو اپنے انفرادی تجربات کے بارے میں بات کرتا ہے، تو تو ان چیزوں کی رفاقت کرتا ہے جو تجھے اہم لگتی ہیں اور ان تمام چیزوں کی جو تیرے اندر موجود ہیں۔ میری تقریر میرے وجود کی نمائندگی کرتی ہے لیکن میں جو کہتا ہوں وہ انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ میں جو کہتا ہوں یہ وہ نہیں ہے جس کا انسان تجربہ کرتا ہے، اور یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان دیکھ سکے؛ یہ ایسی چیز بھی نہیں ہے جسے انسان چھو سکے، بلکہ یہ وہ ہے جو میں ہوں۔ کچھ لوگ صرف اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میری رفاقت وہی ہے جس کا میں نے تجربہ کیا ہے، لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہ روح کا براہ راست اظہار ہے۔ بلاشبہ، میں جو کہتا ہوں وہی ہے جس کا میں نے تجربہ کیا ہے۔ یہ میں ہوں جس نے چھ ہزار سال تک انتظامی کام کیا ہے۔ میں نے بنی نوع انسان کی تخلیق کے آغاز سے لے کر اب تک ہر چیز کا تجربہ کیا ہے؛ میں اس پر بات کرنے سے کیسے قاصر رہوں گا؟ جب انسان کی فطرت کی بات آتی ہے تو میں نے صاف دیکھا ہے؛ میں نے بہت پہلے اس کا مشاہدہ کیا تھا۔ میں اس کے بارے میں واضح طور پر بات کیسے نہیں کر سکتا؟ چونکہ میں نے انسان کا مادّہ واضح طور پر دیکھا ہے، اس لیے میں انسان کو سزا دینے اور اس کا فیصلہ کرنے کا اہل ہوں، کیونکہ انسان کا سب کچھ میری طرف سے آیا ہے لیکن شیطان نے اسے بدعنوان بنا دیا ہے۔ بلاشبہ میں نے جو کام کیا ہے اس کا اندازہ لگانے کا بھی اہل ہوں۔ اگرچہ یہ کام میرے جسم سے نہیں ہوتا، یہ روح کا براہ راست اظہار ہے، اور یہ وہی ہے جو میرے پاس ہے اور جو میں ہوں۔ اس لیے میں اس کا اظہار کرنے اور وہ کام کرنے کا اہل ہوں جو مجھے کرنا چاہیے۔ لوگ جو کہتے ہیں وہ وہی ہے جس کا انھوں نے تجربہ کیا ہے۔ یہ وہی ہے جو انھوں نے دیکھا ہے، جس تک ان کے دماغ پہنچ سکتے ہیں اور جس چیز کا پتہ ان کے حواس لگا سکتے ہیں۔ یہ ہے جس کی وہ رفاقت کر سکتے ہیں۔ خدا کے مجسم جسم کے ذریعے کہے گئے الفاظ روح کا براہ راست اظہار ہیں اور وہ اس کام کو ظاہر کرتے ہیں جو روح کے ذریعے کیا گیا ہے، جس کا جسم نے تجربہ یا مشاہدہ نہیں کیا ہے، پھر بھی وہ اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ جسم کا جوہر روح ہے۔ اور وہ روح کے کام کا اظہار کرتا ہے۔ یہ روح کے ذریعے پہلے سے ہی کیا گیا کام ہے، حالانکہ یہ جسم کی پہنچ سے باہر ہے۔ تجسیم کے بعد، جسم کے اظہار کے ذریعے، وہ لوگوں کو خدا کے وجود کو جاننے کے قابل بناتا ہے اور لوگوں کو خدا کے مزاج اور اس کے کیے گئے کام کو دیکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ انسان کا کام لوگوں کو اس بارے میں زیادہ واضح انداز میں بتاتا ہے کہ انھیں کس چیز میں داخل ہونا چاہیے اور انھیں کیا سمجھنا چاہیے؛ اس میں لوگوں کی سچائی کو سمجھنے اور تجربہ کرنے کی راہنمائی کرنا شامل ہے۔ انسان کا کام لوگوں کی معاونت کرنا ہے؛ خدا کا کام بنی نوع انسان کے لیے نئی راہیں اور نئے دَور کھولنا ہے، اور لوگوں پر وہ بات ظاہر کرنا ہے جو فانی انسان نہیں جانتے، تاکہ وہ اس کے مزاج کو جاننے کے قابل ہو جائیں۔ خدا کا کام تمام انسانوں کی راہنمائی کرنا ہے۔

روح القدس کا تمام کام لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگوں کی تعلیم کے بارے میں ہے؛ کوئی کام ایسا نہیں جس سے لوگوں کو فائدہ نہ ہو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سچائی گہری ہو یا کم گہری، اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سچائی کو قبول کرنے والوں کی صلاحیت کیا ہے، روح القدس جو بھی کرتی ہے، اس سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن روح القدس کا کام براہ راست نہیں کیا جا سکتا؛ اس کا اظہار لازمی طور پر ان لوگوں کے ذریعے ہونا چاہیے جو اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ صرف اسی طرح روح القدس کے کام کے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ بلاشبہ، جب روح القدس براہ راست کام کرتی ہے تو یہ بالکل بھی آلودہ نہیں ہوتی۔ لیکن جب روح القدس انسان کے ذریعے کام کرتی ہے تو یہ بہت داغدار ہو جاتی ہے اور یہ روح القدس کا اصل کام نہیں ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے سچائی مختلف درجوں میں بدل جاتی ہے۔ پیروکاروں کو روح القدس کا اصل ارادہ نہیں ملتا بلکہ روح القدس کے کام اور انسان کے تجربے اور علم کا مجموعہ ملتا ہے۔ پیروکاروں کو جو ملتا ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے کہ روح القدس کا کام صحیح ہے، جبکہ انسان کا تجربہ اور علم جو انھیں ملتا ہے، اس میں فرق ہوتا ہے کیونکہ کارکن مختلف ہوتے ہیں۔ روح القدس کی روشنی اور راہنمائی کے ساتھ کارکن اس آگہی اور راہنمائی کی بنیاد پر تجربات حاصل کرتے ہیں۔ ان تجربات کے اندر انسان کے ذہن اور تجربے کے ساتھ ساتھ انسانیت کا وجود بھی شامل ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ وہ علم یا بصیرت حاصل کر لیتے ہیں جو انھیں حاصل ہونی چاہیے۔ یہ انسان کا سچائی کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنے کا طریقہ ہے۔ چونکہ لوگوں کا تجربہ مختلف ہوتا ہے اور جن چیزوں کا لوگ تجربہ کرتے ہیں وہ بھی مختلف ہوتی ہیں، اس لیے، عمل کرنے کا یہ طریقہ ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا۔ چونکہ جو لوگ آگہی حاصل کرتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں، اس لیے، روح القدس کی ایک سی آگہی کا نتیجہ مختلف علم اور عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ مشق کے دوران معمولی غلطیاں کرتے ہیں جبکہ کچھ بڑی غلطیاں کرتے ہیں اور کچھ غلطیوں کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ ان کی فطری صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ایک پیغام سننے کے بعد ایک طرح کی سمجھ آتی ہے، اور کچھ لوگوں کو ایک سچ سننے کے بعد ایک اور طرح کی سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ قدرے انحراف کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ حقیقت کا اصل مفہوم بالکل نہیں سمجھتے۔ لہٰذا، کسی کی اپنی سمجھ ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ دوسروں کی راہنمائی کیسے کرے گا؛ یہ بالکل سچ ہے، کیونکہ کسی کا کام محض اس کے اپنے وجود کا اظہار ہے۔ اگر لوگوں کی قیادت کرنے والوں میں سچائی کی صحیح سمجھ بوجھ ہے تو انھیں بھی سچائی کی صحیح سمجھ بوجھ حاصل ہوگی۔ اگر ایسے لوگ بھی ہیں جن کی فہم میں غلطیاں ہیں تو ایسے بہت کم ہیں، اور ہر ایک میں غلطیاں نہیں ہوں گی۔ اگر کسی کے اپنے سمجھنے میں غلطی ہے تو بلاشبہ اس کی پیروی کرنے والے بھی غلط ہوں گے، اور یہ لوگ ہر لحاظ سے غلط ہوں گے۔ پیروکار سچائی کو کس حد تک سمجھتے ہیں اس کا زیادہ انحصار کارکنوں پر ہے۔ بلاشبہ خدا کی طرف سے سچائی صحیح ہے، غلطی کے بغیر ہے اور یہ بالکل یقینی ہے۔ تاہم کارکنان مکمل طور پر درست نہیں ہیں اور انھیں مکمل طور پر قابل اعتماد نہیں کہا جا سکتا۔ اگر کارکنوں کے پاس سچائی پر عمل کرنے کا ایک بہت ہی عملی طریقہ ہے تو پیروکاروں کے پاس بھی عمل کرنے کا ایک طریقہ ہوگا۔ اگر کارکنوں کے پاس سچائی پر عمل کرنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ صرف عقیدہ ہے تو پیروکاروں کے پاس بھی کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔ پیروکاروں کی صلاحیت اور فطرت پیدائشی طور پر متعین ہوتی ہے اور اس کا کارکنوں کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا، لیکن پیروکار کس حد تک سچائی کو سمجھتے ہیں اور خدا کو جانتے ہیں، اس کا انحصار کارکنوں پر ہے (یہ صرف کچھ لوگوں کے لیے ایسا ہے)۔ کارکن جیسا بھی ہو گا، جس کی وہ راہنمائی کرتا ہے، وہ پیروکار بھی ویسا ہی ہوگا۔ ایک کارکن جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ اس کا اپنا وجود ہے، بغیر کسی تحفظات کے۔ وہ اپنے پیروکاروں سے جو مطالبات کرتا ہے وہ وہی ہوتے ہیں جو وہ خود حاصل کرنے کے لیے تیار یا قابل ہوتا ہے۔ زیادہ تر کارکنان اپنے پیروکاروں سے مطالبات کرنے کے لیے بنیاد کے طور پر اسے استعمال کرتے ہیں جو کچھ وہ خود کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ ان کے پیروکار بہت کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ اور وہ چیز جسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا ہے وہ اس کے داخلے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

ان لوگوں کے کام میں بہت کم انحراف ہے جن کی تراش خراش ہوئی ہے، جن کے ساتھ نمٹا گیا ہے، جو سزا اور عذاب سے گزرے ہیں، اور ان کے کام کا اظہار بہت زیادہ درست ہے۔ جو لوگ کام کرنے کے لیے اپنی فطرت پر بھروسہ کرتے ہیں وہ کافی بڑی غلطیاں کرتے ہیں۔ کامل نہ بنائے گئے لوگوں کا کام ان کی اپنی فطرت کا بہت زیادہ اظہار کرتا ہے، جو روح القدس کے کام میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک شخص کی صلاحیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، خدا کے کام کو انجام دینے سے پہلے، اس کی تراش خراش ہونی چاہیے، اس سے نمٹا جانا چاہیے، اور اسے فیصلہ بھی برداشت کرنا چاہیے۔ اگر اس نے ایسا فیصلہ برداشت نہیں کیا ہے، تو اس کا کام، خواہ کتنا ہی اچھا کیا گیا ہو، سچائی کے اصولوں کے مطابق نہیں ہو سکتا اور ہمیشہ اس کی اپنی فطرت اور انسانی بھلائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا کام جن کی تراش خراش کی گئی ہے، جن کے ساتھ نمٹا گیا ہے، اور جو فیصلہ برداشت کر چکے ہیں، ان لوگوں سے بہتر ہے جن کی تراش خراش نہیں کی گئی ہے، جن کے ساتھ نمٹا نہیں گیا ہے، اور جنھوں نے فیصلہ برداشت نہیں کیا ہے۔ جنھوں نے فیصلہ برداشت نہیں کیا ہے وہ انسانی جسم اور بہت زیادہ انسانی ذہانت اور فطری صلاحیتوں کی آمیزش کے ساتھ خیالات کے علاوہ کچھ ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ یہ انسان کا خدا کے کام کا درست اظہار نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی پیروی کرنے والوں کو ان کی فطری صلاحیتوں سے ان کے سامنے لایا جاتا ہے۔ چونکہ وہ انسان کی بہت زیادہ بصیرت اور تجربے کا اظہار کرتے ہیں، جو تقریباً خدا کے اصل ارادے سے منقطع ہیں اور اس سے بہت دور ہٹ جاتے ہیں، اس لیے اس قسم کے انسان کا کام لوگوں کو خدا کے سامنے نہیں لا سکتا، بلکہ انسان کے سامنے لاتا ہے۔ لہٰذا، وہ لوگ جنھوں نے فیصلے اور سزا کو برداشت نہیں کیا وہ خدا کے کام کو انجام دینے کے اہل نہیں ہیں۔ ایک قابل کارکن کا کام لوگوں کو صحیح راستے پر لا سکتا ہے اور انھیں سچائی میں زیادہ سے زیادہ داخلہ فراہم کر سکتا ہے۔ اس کا کام لوگوں کو خدا کے سامنے لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ جو کام کرتا ہے وہ ہر ایک میں مختلف ہو سکتا ہے اور وہ اصولوں کا پابند نہیں ہے، جس سے لوگوں کو حریت اور آزادی ملتی ہے اور زندگی میں بتدریج بڑھنے اور سچائی میں زیادہ گہرائی سے داخل ہونے کی صلاحیت ملتی ہے۔ نااہل کارکن کا کام بہت کم ہوتا ہے۔ اس کا کام احمقانہ ہوتا ہے۔ وہ صرف لوگوں کو اصولوں کے دائرے میں لا سکتا ہے، اور جو وہ لوگوں سے تقاضا کرتا ہے وہ ہر ایک میں مختلف نہیں ہوتا؛ وہ لوگوں کی اصل ضروریات کے مطابق کام نہیں کرتا۔ اس قسم کے کام میں بہت زیادہ اصول اور بہت زیادہ عقائد ہوتے ہیں، اور یہ لوگوں کو حقیقی صورتحال میں نہیں لا سکتا، اور نہ ہی زندگی میں ترقی کے عام عمل میں لا سکتا ہے۔ یہ صرف لوگوں کو چند بیکار اصولوں پر عمل کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ ایسی ہدایت لوگوں کو صرف گمراہ ہی کر سکتی ہے۔ وہ تجھے اپنے جیسا بننے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ تجھے اس میں لے کر آ سکتا ہے جو اس کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے۔ پیروکاروں کے لیے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا راہنما اہل ہیں، کلید یہ ہے کہ وہ اس راستے کو دیکھیں جس کی وہ راہنمائی کرتے ہیں اور ان کے کام کے نتائج کو دیکھیں، اور یہ دیکھیں کہ آیا پیروکار اصولوں کو سچائی کے مطابق حاصل کرتے ہیں، اور کیا انھیں اپنی تبدیلی کے لیے عملی طور پر مناسب طریقے ملتے ہیں۔ تجھے مختلف قسم کے لوگوں کے مختلف کاموں میں فرق کرنا چاہیے؛ تجھے ایک احمق پیروکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ لوگوں کے داخلے کے معاملے سے متعلق ہے۔ اگر تو یہ تمیز کرنے سے قاصر ہے کہ کس شخص کے پاس قیادت کا طریقہ ہے اور کس کے پاس نہیں ہے، تو تو آسانی سے دھوکہ کھا جائے گا۔ ان سب کا براہ راست اثر تیری اپنی زندگی پر پڑتا ہے۔ کامل نہ بنائے گئے لوگوں کے کام میں بہت زیادہ فطری انداز ہوتا ہے؛ اس میں انسانی ارادے کی آمیزش بہت زیادہ ہے۔ ان کا وجود فطری ہے۔ جس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ کرنے کے بعد کی زندگی یا تبدیل ہونے کے بعد کی حقیقت نہیں ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں کا ساتھ کیسے دے سکتا ہے جو زندگی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ انسان کی اصل زندگی اس کی فطری ذہانت یا ہنر ہے۔ اس قسم کی ذہانت یا ہنر انسان کے لیے خدا کے عین مطالبات سے بہت دور ہے۔ اگر انسان کامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے بدعنوان مزاج کی تراش خراش نہ کی گئی ہو، اور اس سے نمٹا نہ گیا ہو تو جو وہ بیان کرتا ہے، اس کے اور سچائی کے درمیان کافی فاصلہ ہو جائے گا؛ وہ جو بیان کرتا ہے اسے مبہم چیزوں کے ساتھ ملایا جائے گا، جیسے کہ اس کا تخیل اور یک طرفہ تجربہ۔ مزید برآں، اس سے قطع نظر کہ وہ کیسے کام کرتا ہے، لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی مجموعی مقصد موجود نہیں ہے اور کوئی سچائی تمام لوگوں کے داخلے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ لوگوں سے جو زیادہ تر مطالبہ کیا جاتا ہے وہ ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے، گویا وہ بطخیں ہیں جو ٹہنیوں پر بیٹھنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ انسانی مرضی کا کام ہے۔ انسان کا بدعنوان مزاج، اس کے خیالات اور اس کے تصورات اس کے جسم کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انسان سچائی پر عمل کرنے کی جبلت کے ساتھ پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے پاس سچائی کو براہ راست سمجھنے کی جبلت ہے۔ اس سے انسان کے بدعنوان مزاج میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب اس قسم کا فطری شخص کام کرتا ہے، تو کیا یہ رکاوٹیں پیدا نہیں کرتا؟ لیکن ایک آدمی جو کامل ہو گیا ہے، اس کے پاس سچائی کا تجربہ ہوتا ہے جسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے اور اس کی بدعنوانی کے بارے میں علم ہونا چاہیے، تاکہ اس کے کام میں مبہم اور غیر حقیقی چیزیں آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں، انسانی آلودگی کم ہو جائے، اور اس کے کام اور خدمت خدا کے مطلوبہ معیارات کے بہت قریب آ جائیں۔ اس طرح اس کا کام سچائی کی حقیقت میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ حقیقت پسندانہ بھی ہو جاتا ہے۔ انسان کے ذہن کے خیالات خاص طور پر روح القدس کے کام کو روکتے ہیں۔ انسان کے پاس ایک بھرپور تخیل اور معقول منطق ہے اور اسے معاملات کو سنبھالنے کا طویل تجربہ ہے۔ اگر انسان کے ان پہلوؤں کی تراش خراش اور اصلاح نہ کی جائے تو یہ سب کام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا، انسان کا کام درستی کی انتہائی حد تک نہیں پہنچ سکتا، خاص طور پر ان لوگوں کا کام جو کامل نہیں ہیں۔

انسان کا کام ایک دائرے میں رہتا ہے اور محدود ہے۔ ایک شخص صرف ایک خاص مرحلے کا کام کر سکتا ہے اور پورے دور کا کام نہیں کر سکتا۔ ورنہ وہ لوگوں کو اصولوں کے درمیان لے جائے گا۔ انسان کا کام صرف ایک خاص وقت یا مرحلے پر لاگو ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے تجربے کا اپنا دائرہ کار ہے۔ انسان کے کام کا خدا کے کام سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کے طرز عمل اور اس کا سچائی کا علم سب ایک خاص دائرہ کار پر لاگو ہوتے ہیں۔ تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ انسان جس راستے پر چلتا ہے وہ مکمل طور پر روح القدس کی مرضی ہے، کیونکہ انسان صرف روح القدس سے آگہی حاصل کر سکتا ہے، اور روح القدس سے مکمل طور پر معمور نہیں ہو سکتا۔ انسان جن چیزوں کا تجربہ کر سکتا ہے وہ سب عام انسانیت کے دائرہ کار میں آتی ہیں اور عام انسانی ذہن میں خیالات کی حد سے تجاوز نہیں کر سکتیں۔ وہ تمام لوگ جو سچائی کی حقیقت کے مطابق زندگی بسر کر سکتے ہیں، جب وہ سچائی کا تجربہ کرتے ہیں تو یہ ہمیشہ ایک عام انسانی زندگی کا تجربہ ہوتا ہے جو روح القدس سے آگہی حاصل کرتی ہے؛ یہ تجربہ کرنے کا ایسا طریقہ نہیں ہے جو عام انسانی زندگی سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ اپنی انسانی زندگی بسر کرنے کی بنیاد کے لیے روح القدس کے ذریعے آگہی سے حاصل کردہ سچائی کا عملی تجربہ کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ سچائی ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اور اس کی گہرائی کا تعلق ہرشخص کی حالت سے ہوتا ہے۔ کوئی صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ جس راستے پر وہ چلتا ہے وہ سچائی کی پیروی کرنے والے کسی کی عام انسانی زندگی ہے، اور اسے روح القدس سے آگہی حاصل کرنے والے ایک عام شخص کے چلنے کا راستہ کہا جا سکتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جس راستے پر چلتا ہے وہی راستہ ہے جو روح القدس اختیار کرتی ہے۔ چونکہ عام انسانی تجربے میں کوشش کرنے والے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، اس لیے روح القدس کا کام بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ، چونکہ لوگ جس ماحول کا تجربہ کرتے ہیں وہ یکساں نہیں ہوتا اور ان کے تجربے کے دائرے یکساں نہیں ہوتے، اس لیے ان کے ذہن اور خیالات کی آمیزش کی وجہ سے، ان کا تجربہ مختلف درجات میں گھل مل جاتا ہے۔ ہر شخص ایک سچائی کو اپنے مختلف، انفرادی حالات کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ سچائی کے صرف ایک یا کئی پہلووں کو ہی سمجھتا ہے اور حقیقی معنی کے بارے میں اس کی سمجھ مکمل نہیں ہوتی ہے۔ انسان کے سچائی کے تجربے کا دائرہ ہر شخص کے حالات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح ایک ہی سچائی کا علم، جس کا اظہار مختلف لوگ کرتے ہیں، ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے تجربے کی ہمیشہ حدود ہوتی ہیں اور اگر جو کچھ انسان کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے وہ خدا کی مرضی سے بہت قریب بھی ہو، اور اگر انسان کا تجربہ اسے کامل بنانے کے کام کے بہت قریب بھی ہو جو روح القدس انجام دیتی ہے، تو پھر بھی وہ روح القدس کی مرضی کی پوری طرح نمائندگی نہیں کر سکتا، اور نہ ہی انسان کے کام کو خدا کے کام کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ انسان صرف خدا کا خادم بن سکتا ہے، وہ کام کرنے کے لیے جو خدا اسے سونپتا ہے۔ انسان صرف روح القدس سے آگہی حاصل کیے ہوئے علم اور اپنے ذاتی تجربات سے حاصل کردہ سچائیوں کا اظہار کر سکتا ہے۔ انسان نااہل ہے اور روح القدس کی فطری صلاحیت کے اظہار کا ذریعہ ہونے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہےکہ اس کا کام خدا کا کام ہے۔ انسان کے پاس انسان کے کام کرنے کے اصول ہیں، اور تمام انسانوں کے پاس مختلف تجربات ہوتے ہیں اور ان کے مختلف حالات ہوتے ہیں۔ انسان کے کام میں روح القدس کی آگہی کے تحت اس کے تمام تجربات شامل ہیں۔ یہ تجربات صرف انسان کے وجود کی نمائندگی کر سکتے ہیں اور خدا کے وجود یا روح القدس کی مرضی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چونکہ انسان کا کام خدا کے کام کی نمائندگی نہیں کر سکتا، اور انسان کا کام اور انسان کا تجربہ روح القدس کی مکمل مرضی نہیں ہے، لہذا، انسان جس راستے پر چلتا ہے اسے روح القدس کے چلنے والا راستہ نہیں کہا جا سکتا۔ انسان کا کام اصولوں سے متاثر ہو سکتا ہے اور اس کے کام کا طریقہ محض ایک محدود دائرہ کار تک محدود ہوتا ہے، اور یہ لوگوں کو آزاد راستے کی طرف لے جانے سے قاصر ہے۔ زیادہ تر پیروکار ایک محدود دائرہ کار میں رہتے ہیں اور ان کا تجربہ کرنے کا طریقہ بھی ان کے دائرہ کار میں محدود ہوتا ہے۔ انسان کا تجربہ ہمیشہ محدود ہوتا ہے؛ اس کے کام کا طریقہ بھی چند اقسام تک ہی محدود ہے اور اس کا موازنہ روح القدس کے کام یا خود خدا کے کام سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا تجربہ، بالآخر، محدود ہے۔ تاہم خدا اپنا کام کرتا ہے، یہ اصولوں کا پابند نہیں ہے؛ یہ جس طرح بھی کیا جاتا ہے، یہ کسی ایک طریقے تک محدود نہیں ہوتا ہے۔ خدا کے کام کے لیے کوئی بھی اصول نہیں ہیں – اس کا تمام کام جاری کیا گیا ہے اور مفت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انسان کتنا وقت اس کی پیروی کرنے میں صرف کرتا ہے، وہ کسی ایسے قانون کی تقطیر نہیں کر سکتا جو خدا کے کام کرنے کے طریقوں کو قابو کرتے ہوں۔ اگرچہ اس کا کام اصولی ہے، لیکن یہ ہمیشہ نئے طریقوں سے ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ نئی ترقی ہوتی ہے، اور یہ انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ ایک ہی دور میں، خدا کے پاس کام کی کئی مختلف قسمیں اور لوگوں کی راہنمائی کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، اس طرح لوگوں کے پاس ہمیشہ نئے داخلے اور تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ تو اس کے کام کے قوانین کو نہیں جان سکتا کیونکہ وہ ہمیشہ نئے طریقوں سے کام کر رہا ہے، اور صرف اسی وجہ سے خدا کے پیروکار قوانین کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔ خود خدا کا کام ہمیشہ لوگوں کے تصورات سے بچتا ہے اور ان کا مقابلہ کرتا ہے۔ صرف وہی لوگ جو سچے دل کے ساتھ اس کی پیروی اور کوشش کرتے ہیں ان کے مزاج میں تبدیلی آسکتی ہے اور وہ آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں، وہ کسی اصول کے تابع یا کسی مذہبی تصورات سے روکے ہوئے نہیں ہیں۔ انسان کا کام اپنے تجربے کی بنیاد پر اور جو وہ خود حاصل کرسکتا ہے اس کی بنیاد پر لوگوں سے مطالبات کرتا ہے۔ ان تقاضوں کا معیار ایک مخصوص دائرہ کار میں محدود ہے اور مشق کے طریقے بھی بہت محدود ہیں۔ اس طرح پیروکار لاشعوری طور پر اس محدود دائرہ کار میں رہتے ہیں؛ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، یہ چیزیں اصول اور رسومات بن جاتی ہیں۔ اگر ایک مدت کے کام کی قیادت کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جو خدا کے ذاتی طور پر کامل بنانے کے عمل سے نہ گزرا ہو اور اسے فیصلہ نہ ملا ہو، تو اس کے پیروکار سبھی مذہب پرست اور خدا کی مخالفت میں ماہر بن جائیں گے۔ لہذا، اگر کوئی اہل راہنما ہے، تو اس شخص نے فیصلہ لازمی برداشت کیا ہوگا اور اس نے کامل بنائے جانے کو قبول کیا ہوگا۔ وہ لوگ جنھوں نے فیصلہ برداشت نہیں کیا ہے، اگرچہ ان کے پاس روح القدس کا کام ہو سکتا ہے، وہ صرف مبہم اور غیر حقیقی باتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، وہ لوگوں کو مبہم اور مافوق الفطرت اصولوں کی طرف لے جائیں گے۔ جو کام خدا انجام دیتا ہے وہ انسان کے جسم کے مطابق نہیں ہے۔ یہ انسان کے خیالات کے مطابق نہیں ہے، بلکہ انسان کے خیالات کے مخالف ہے؛ یہ مبہم مذہبی رنگوں سے داغدار نہیں ہے۔ خدا کے کام کے نتائج کسی ایسے شخص کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتے ہیں جسے اس نے کامل نہیں بنایا ہو؛ وہ نتائج انسان کی سوچ سے باہر ہیں۔

انسان کے دماغ میں جو کام ہوتا ہے انسان کے لیے اسے حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ مثال کے طور پر مذہبی دنیا میں پادری اور راہنما اپنا کام کرنے کے لیے اپنی فطری صلاحیتوں اور عہدوں پر انحصار کرتے ہیں۔ جو لوگ طویل عرصے تک ان کی پیروی کرتے ہیں وہ ان کی فطری صلاحیتوں سے متاثر ہوں گے اور ان میں سے کسی وجود کا ان پر اثر ہو گا۔ وہ لوگوں کی فطری صلاحیت، قابلیت اور علم پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اور وہ مافوق الفطرت چیزوں اور بہت سے گہرے، غیر حقیقی عقائد پر توجہ دیتے ہیں (یقیناً، یہ گہرے عقائد ناقابلِ حصول ہیں)۔ وہ لوگوں کے مزاج میں تبدیلی پر توجہ نہیں دیتے، بلکہ لوگوں کو منادی کرنے اور کام کرنے کی تربیت دینے، لوگوں کے علم کو بہتر بنانے اور ان کے بہت سے مذہبی عقائد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ لوگوں کا مزاج کتنا بدلتا ہے اور نہ ہی اس بات پر کہ لوگ سچائی کو کتنا سمجھتے ہیں۔ وہ خود لوگوں کے جوہر کے متعلق تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے، اور ان کا لوگوں کی عام اور غیر معمولی حالتوں کو جاننے کی کوشش کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ وہ لوگوں کے تصورات کی مخالفت نہیں کرتے، نہ ہی اپنے تصورات کو ظاہر کرتے ہیں، ان کا لوگوں کی خامیوں یا بدعنوانی کے لیے تراش خراش کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ زیادہ تر جو ان کی پیروی کرتے ہیں وہ اپنی فطری صلاحیتوں کے ساتھ خدمت کرتے ہیں، اور وہ صرف مذہبی تصورات اور مذہبی نظریات کا اعلان کرتے ہیں، جو حقیقت سے باہر ہیں اور لوگوں کو زندگی کا سامان فراہم کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہیں۔ درحقیقت، ان کے کام کا جوہر صلاحیت کو پروان چڑھانا ہے، ایک ایسے شخص کی پرورش کرنا ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور اسے ایک باصلاحیت مذہبی تعلیم یافتہ شخص بنانا ہے جس نے بعد میں جا کر قیادت کرنی ہے۔ کیا تو خدا کے چھ ہزار سال کے کام میں کوئی قوانین سمجھ سکتا ہے؟ انسان جو کام کرتا ہے اس میں بہت سے اصول اور پابندیاں ہوتی ہیں اور انسانی دماغ بھی بہت زیادہ ہٹ دھرم ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ علم اور آگاہی ہے جو اس کے تجربے کے دائرہ کار میں ہے۔ انسان اس کے علاوہ کچھ بیان کرنے سے قاصر ہے۔ انسان کے تجربات یا علم اس کے فطری تحفوں یا اس کی جبلت سے پیدا نہیں ہوتے؛ وہ خدا کی رہنمائی اور براہ راست نگرانی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس نگرانی کو قبول کرنے کے لیے انسان کے پاس صرف صلاحیت ہے اور یہ صلاحیت ایسی نہیں ہے جو براہ راست بیان کر سکے کہ الوہیت کیا ہے۔ انسان وسیلہ بننے سے قاصر ہے؛ وہ صرف ایک برتن ہو سکتا ہے جو منبع سے پانی قبول کرتا ہے۔ یہ انسانی جبلت ہے، یہ وہ صلاحیت ہے جو ایک انسان کے طور پر اس کے پاس ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص خدا کے کلام کو قبول کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے اور انسانی جبلت کو کھو دیتا ہے، تو وہ شخص سب سے قیمتی چیز کو بھی کھو دیتا ہے اور تخلیق کردہ انسان کا فرض بھی کھو دیتا ہے۔ اگر کسی شخص کو خدا کے کلام یا اس کے کام کے بارے میں کوئی علم یا تجربہ نہیں ہے، تو وہ شخص اپنے فرض سے محروم ہو جاتا ہے، وہ فرض جسے ایک تخلیق شدہ ہستی کے طور پر اسے ادا کرنا چاہیے، اور وہ تخلیق شدہ وجود کی عظمت کھو دیتا ہے۔ یہ خدا کی جبلت ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ الوہیت کیا ہے، چاہے اس کا اظہار جسم میں ہو یا براہ راست روح کے ذریعے؛ یہ خدا کی ذمہ داری ہے۔ انسان خدا کے کام کے دوران یا بعد میں اپنے تجربات یا علم کا اظہار کرتا ہے (یعنی اس کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خود کیا ہے)؛ یہ انسان کی جبلت اور انسان کا فرض ہے، اور یہی انسان کو حاصل کرنا چاہیے۔ اگرچہ انسان کا اظہار اس سے بہت کم ہے جس کا اظہار خدا کرتا ہے، اور اگرچہ انسان کا اظہار بہت سے اصولوں کا پابند ہے، لیکن انسان کو وہ فرض لازمی ادا کرنا چاہیے جو اسے پورا کرنا چاہیے اور وہ کرنا چاہیے جو اسے لازمی کرنا چاہیے۔ انسان کو اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے انسانی طور پر ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس کے ذرہ برابر تحفظات بھی نہیں ہونے چاہییں۔

برسوں کام کرنے کے بعد، انسان اپنے کئی سالوں کے کام کے تجربے کے ساتھ ساتھ اپنی حاصل کردہ حکمت اور اصولوں کی تخلیص کرے گا۔ وہ جس نے طویل عرصے تک کام کیا ہے وہ جانتا ہے کہ روح القدس کے کام کی حرکت کو کیسے محسوس کرنا ہے؛ وہ جانتا ہے کہ روح القدس کب کام کر رہی ہے اور کب نہیں کر رہی ہے؛ وہ ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے رفاقت کرنا جانتا ہے؛ اور وہ روح القدس کے کام کی عام حالت اور زندگی میں لوگوں کی ترقی کی معمول کی حالت سے واقف ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے برسوں کام کیا ہے اور جو روح القدس کے کام کو جانتا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے طویل عرصے تک کام کیا ہے، اگر ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہ ہو تو بھی وہ پورے یقین سے اور جلدی سے بولتے ہیں؛ وہ پُرسکون ہوتے ہیں۔ اندرونی طور پر، وہ روح القدس کے کام کی تلاش کے لیے دعا جاری رکھ سکتے ہیں۔ وہ کام کرنے میں تجربہ کار ہوتے ہیں۔ ایک شخص جس نے طویل عرصے تک کام کیا ہے، جس کا بہت تجربہ ہے اور جس نے بہت سے سبق سیکھے ہیں، اس کے اندر بہت کچھ ہوتا ہے جو روح القدس کے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے؛ یہ اس کے طویل مدتی کام کی خرابی ہے۔ ایک شخص جس نے ابھی کام کرنا شروع کیا ہے وہ انسانی اسباق یا تجربے سے آلودہ نہیں ہوتا ہے اور خاص طور پر اس بارے میں لاعلم ہوتا ہے کہ روح القدس کیسے کام کرتی ہے۔ تاہم، کام کے دوران، وہ رفتہ رفتہ یہ سمجھ اور سیکھ لیتا ہے کہ روح القدس کیسے کام کرتی ہے اور اس بات سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ روح القدس کے کام کو حاصل کرنے کے لیے اسے کیا کرنا ہے، دوسروں کی عین کمزوریوں پر حملہ کرنے کے لیے اسے کیا کرنا ہے، اور وہ اسی طرح کا دیگر عام علم سیکھ لیتا ہے جو کام کرنے والوں کے پاس ہونا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، وہ کام کرنے کی ایسی حکمت اور عام علم کو بہت اچھی طرح جان لیتا ہے، اور کام کرتے ہوئے اسے آسانی سے استعمال کرتے دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، جب روح القدس اپنے کام کرنے کے طریقے کو تبدیل کرتی ہے، تو وہ پھر بھی کام کے بارے میں اپنے پرانے علم اور کام کے پرانے اصولوں پر قائم رہتی ہے اور کام کے نئے محرک کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔ کام کے سالوں اور روح القدس کی موجودگی اور راہنمائی سے بھرا ہونا اسے کام کے بارے میں مزید سبق اور مزید تجربہ فراہم کرتا ہے۔ ایسی چیزیں اسے خود اعتمادی سے بھر دیتی ہیں جو غرور نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اپنے کام سے کافی خوش ہوتا ہے اور روح القدس کے کام کے بارے میں حاصل کردہ عام علم سے مطمئن ہوتا ہے۔ خاص طور پر، ان چیزوں کو حاصل کر کے یا سمجھ کر جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں، اسے خود پر اور زیادہ اعتماد ہوتا ہے؛ ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر روح القدس کا کام کبھی ختم نہیں ہو سکتا، جبکہ دوسرے اس خصوصی سلوک کے اہل نہیں ہیں۔ صرف اس کی قسم کے لوگ، جنھوں نے برسوں کام کیا ہوتا ہے اور جن کا استعمال بہت قابل قدر ہے، اس سے لطف اندوز ہونے کے اہل ہیں۔ یہ چیزیں اس کے روح القدس کے نئے کام کو قبول کرنے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ اگر وہ نیا کام قبول کر بھی لے تو بھی وہ راتوں رات ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے قبول کرنے سے پہلے کئی پیچ و خم سے گزرنا یقینی ہے۔ اس کے پرانے تصورات سے نمٹنے اور اس کے پرانے مزاج کا فیصلہ ہونے کے بعد اس صورت حال کو بتدریج واپس کیا جا سکتا ہے۔ ان مراحل سے گزرے بغیر، وہ پرانے مزاج کو نہیں چھوڑتا اور آسانی سے ان نئی تعلیمات اور کام کو قبول نہیں کرتا جو اس کے پرانے تصورات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ انسان کی اس بات سے نمٹنا سب سے مشکل چیز ہے، اور اسے تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر، ایک کارکن کے طور پر، وہ روح القدس کے کام کی سمجھ حاصل کرنے اور اس کے محرکات کی فوری طور پر تلخیص کرنے کے قابل ہے، اور اگر وہ اس قابل ہے کہ وہ اپنے کام کے تجربات کو رکاوٹ نہ بننے دے، اور پرانے کام کی روشنی میں نئے کام کو قبول کر لے۔ تو پھر وہ ایک عقلمند آدمی اور ایک قابل کارکن ہے۔ لوگ اکثر اسی طرح کے ہوتے ہیں: وہ اپنے کام کے تجربے کی تلخیص کیے بغیر کئی سالوں تک کام کرتے ہیں، یا کام کے بارے میں اپنے تجربے اور حکمت کی تلخیص کرنے کے بعد، وہ نئے کام کو قبول کرنے میں رکاوٹ کا سامنا کرتے ہیں، اور پرانے اور نئے کام کو مناسب طریقے سے نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی صحیح طریقے سے پیش آ سکتے ہیں۔ لوگوں کو سنبھالنا واقعی مشکل ہوتا ہے! تم میں سے اکثر ایسے ہی ہیں۔ جن لوگوں نے روح القدس کے کام کا سالوں تجربہ کیا ہے وہ نئے کام کو قبول کرنا مشکل محسوس کرتے ہیں، اور وہ ہمیشہ ایسے تصورات سے بھرے رہتے ہیں جنھیں وہ نظرانداز نہیں کر سکتے، جب کہ ایک آدمی جس نے ابھی کام شروع کیا ہے اسے کام کے بارے میں عام معلومات نہیں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتا ہے کہ کچھ آسان ترین معاملات کو بھی کیسے سنبھالے۔ تم لوگ واقعی مشکل ہو! کچھ زیادہ عمر والے اتنے مغرور اور خود پسند ہیں کہ وہ بھول گئے ہیں کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ وہ ہمیشہ کم عمر لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں، وہ نئے کام کو قبول کرنے اور اپنے سالہا سال کے جمع کردہ خیالات کو چھوڑنے سے اب تک قاصر ہیں۔ اگرچہ وہ نوجوان، جاہل لوگ جو روح القدس کے نئے کام میں سے تھوڑا سا قبول کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور کافی پرجوش ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ الجھ جاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ مسائل پیدا ہونے پر کیا کرنا ہے۔ وہ پرجوش ہیں لیکن جاہل ہیں۔ ان کے پاس روح القدس کے کام کا تھوڑا سا علم ہے اور وہ اسے اپنی زندگیوں میں استعمال کرنے سے قاصر ہیں؛ یہ بالکل بے کار نظریہ ہے۔ تم جیسے بہت سے لوگ ہیں; ان میں کتنے استعمال کے لیے موزوں ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جو روح القدس کی آگہی اور روشنی کی تابعداری کر سکتے ہیں اور خدا کی مرضی کے مطابق انتظام کر سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اب تک پیروکار رہے ہیں وہ بہت زیادہ فرمانبردار ہیں، لیکن، حقیقت میں، تم نے اپنے تصورات کو ترک نہیں کیا ہے، تم اب بھی خوشخبری کی تلاش میں ہو، ابہام پر یقین رکھتے ہو، یا تصورات میں گھومتے ہو۔ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو آج کے اصل کام کی بغور تحقیق کرے یا اس کی گہرائی میں جائے۔ تم آج کے طریقے کو اپنے پرانے تصورات کے ساتھ قبول کر رہے ہو۔ تم ایسے عقیدے سے کیا حاصل کر سکتے ہو؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم میں بہت سے تصورات پوشیدہ ہیں جو ظاہر نہیں ہوئے، اور یہ کہ تم آسانی سے ظاہر کیے بغیر، محض انھیں چھپانے کے لیے انتہائی کوشش کر رہے ہو۔ تم نئے کام کو خلوصِ دل سے قبول نہیں کرتے، اور تم اپنے پرانے تصورات کو ترک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے؛ تمہارے پاس زندگی گزارنے کے لیے بہت سے فلسفے ہیں، اور وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ تم اپنے پرانے تصورات کو ترک نہیں کرتے اور تم نئے کام سے ہچکچاہٹ کے ساتھ نمٹتے ہو۔ تمہارے دل بدی کی طرف بہت مائل ہیں، اور تم نئے کام کے لیے دل سے قدم نہیں اٹھاتے۔ کیا تم جیسے ناکارہ لوگ خوشخبری پھیلانے کا کام کر سکتے ہیں؟ کیا تم اسے پوری کائنات میں پھیلانے کا کام کرنے کے قابل ہو؟ تمہارے یہ عمل تمہیں اپنے مزاج کو تبدیل کرنے اور خدا کو جاننے سے روک رہے ہیں۔ اگر تم اسی طرح جاری رکھو گے تو تمہیں باہر نکال دیا جائے گا۔

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خدا کے کام کو انسان کے کام سے کیسے الگ کرنا ہے۔ تم انسان کے کام میں کیا دیکھ سکتے ہو؟ انسان کے کام میں اس کے تجربے کے بہت سے عناصر ہیں؛ انسان جو خود ہوتا ہے اسی کا اظہار کرتا ہے۔ خدا کا اپنا کام بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ کیا ہے، لیکن اس کا وجود انسان کے وجود سے مختلف ہے۔ انسان کا وجود انسان کے تجربے اور زندگی کی نمائندگی کرتا ہے (انسان اپنی زندگی میں جو تجربہ کرتا ہے یا جس کا سامنا کرتا ہے، یا اس کے زندگی گزارنے کے فلسفے) اور مختلف ماحول میں رہنے والے لوگ مختلف وجود ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔ تو جو بیان کرتا ہے اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آیا تیرے پاس معاشرے کے تجربات ہیں اور تو دراصل اپنے خاندان میں کیسے رہتا ہے، جبکہ تومجسم خدا کے کام میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آیا اس کے پاس سماجی تجربات ہیں۔ وہ انسان کے مادّہ سے اچھی طرح واقف ہے اور ہر قسم کے لوگوں سے متعلق ہر طرح کے عمل کو ظاہر کر سکتا ہے۔ وہ بدعنوان مزاج اور انسانوں کے باغیانہ رویے کو ظاہر کرنے میں تو اور بھی بہتر ہے۔ وہ دنیا داروں میں نہیں رہتا، لیکن وہ فانی انسانوں کی فطرت اور دنیا داروں کی تمام بدعنوانیوں سے واقف ہے۔ یہ اس کی ذات ہے۔ اگرچہ وہ دنیا کے ساتھ معاملہ نہیں کرتا لیکن وہ دنیا کے ساتھ نمٹنے کے اصول جانتا ہے، چونکہ وہ انسانی فطرت کو پوری طرح سے سمجھتا ہے، اس لیے وہ روح کے آج اور ماضی دونوں کاموں کے بارے میں جانتا ہے جسے انسان کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور انسان کے کان نہیں سن سکتے۔ اس میں وہ حکمت شامل ہے جو زندگی گزارنے کا فلسفہ نہیں ہے اور ایسے عجائبات ہیں جن کو سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ یہ اس کی ذات ہے جو لوگوں کے لیے کھلی بھی ہے اور لوگوں سے پوشیدہ بھی ہے۔ وہ جس چیز کا اظہار کرتا ہے وہ کسی غیر معمولی شخص کا وجود نہیں ہے، بلکہ اس کی فطری صفات اور روح کا ہونا ہے۔ وہ دنیا کی سیر نہیں کرتا لیکن اس کے متعلق ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ "بندر نما انسانوں" سے رابطہ کرتا ہے جن کے پاس کوئی علم یا بصیرت نہیں ہے، لیکن وہ ایسے الفاظ کا اظہار کرتا ہے جو علم سے بلند اور عظیم انسانوں سے بالاتر ہیں۔ وہ کند ذہن اور بے حس لوگوں کے ایک گروہ کے اندر رہتا ہے جو انسانیت سے عاری ہیں اور جو انسانیت کی روایات اور زندگی کو نہیں سمجھتے، لیکن وہ بنی نوع انسان کو عمومی انسانیت سے زندگی گزارنے کے لیے کہہ سکتا ہے اور ساتھ ہی بنی نوع انسان کی بنیاد اور حقیر انسانیت کو ظاہر کر سکتا ہے۔ یہ سب اُس کی ذات ہے، جو کسی بھی گوشت اور خون کے انسان کی ذات سے بلند ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنا کام کرنے اور بدعنوان بنی نوع انسان کے مادے کو اچھی طرح سے ظاہر کرنے کے لیے ایک پیچیدہ، باعثِ زحمت اور مکروہ سماجی زندگی کا تجربہ کرے۔ ایک مکروہ سماجی زندگی اس کے جسم کو بصیرت عطا نہیں کرتی۔ اس کے کام اور الفاظ صرف انسان کی نافرمانی کو ظاہر کرتے ہیں اور انسان کو دنیا سے نمٹنے کا تجربہ اور سبق نہیں دیتے۔ جب وہ انسان کو زندگی کا سامان فراہم کرتا ہے تو اسے معاشرے یا انسان کے خاندان کی چھان بین کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ انسان کو بے نقاب کرنا اور اس کا فیصلہ کرنا، یہ اس کے جسم کے تجربات کا اظہار نہیں ہے؛ ایک طویل عرصے تک انسان کی نافرمانی کو جاننے اور بنی نوع انسان کی بدعنوانی سے نفرت کرنے کے بعد، یہ اس کی طرف سے انسان کی بےایمانی کا انکشاف ہے۔ وہ جو کام کرتا ہے اس سب کا مقصد انسان پر اپنے مزاج کو ظاہر کرنا اور اپنے وجود کا اظہار کرنا ہے۔ یہ کام صرف وہی کر سکتا ہے؛ یہ ایسی چیز نہیں ہے جو ایک گوشت اور خون سے بنا ہوا انسان حاصل کر سکے۔ اس کے کام سے انسان یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کس قسم کا شخص ہے۔ انسان اس کے کام کی بنیاد پر اس کی تخلیق شدہ فرد کے طور پر درجہ بندی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس کی ہستی بھی اسے تخلیق شدہ انسان کے طور پر ناقابل درجہ بندی بناتی ہے۔ انسان اسے صرف غیر انسان ہی سمجھ سکتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اسے کس زمرے میں رکھنا ہے اس لیے انسان مجبور ہے کہ اسے خدا کے زمرے میں درج کرے۔ انسان کے لیے ایسا کرنا کوئی غیرمعقول بات نہیں ہے کیونکہ خدا نے لوگوں کے درمیان بہت سے ایسے کام کیے ہیں جو انسان کرنے سے قاصر ہے۔

خدا جو کام کرتا ہے وہ اس کے جسم کے تجربے کا نمائندہ نہیں ہے؛ آدمی جو کام کرتا ہے وہ اس کے تجربے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنے ذاتی تجربے کی بات کرتا ہے۔ خدا براہ راست سچائی کا اظہار کر سکتا ہے، جب کہ انسان صرف اپنے اس تجربے کا اظہار کر سکتا ہے جو اس کے سچائی کے تجربے کے مطابق ہو۔ خدا کے کام کے کوئی اصول نہیں ہیں اور یہ وقت یا جغرافیائی پابندیوں کے تابع نہیں ہے۔ وہ کسی بھی وقت، کہیں بھی ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ وہ جیسے چاہتا ہے کام کرتا ہے۔ انسان کے کام کے حالات اور سیاق و سباق ہوتے ہیں؛ ان کے بغیر، وہ کام کرنے سے قاصر ہوگا اور خدا کے بارے میں اپنے علم یا سچائی کے اپنے تجربے کا اظہار کرنے سے قاصر ہوگا۔ یہ بتانے کے لیے کہ آیا کوئی چیز خدا کا اپنا کام ہے یا انسان کا، تجھے بس دونوں کے درمیان فرق کا موازنہ کرنا چاہیے۔ اگر کوئی کام خود خدا نے نہیں کیا ہے اور صرف انسان کا کام ہے، تو تجھے صرف یہ معلوم ہوگا کہ انسان کی تعلیمات اعلیٰ ہیں، کسی اور کی ذہنی قوت سے باہر؛ اس کے بولنے کا انداز، چیزوں کو سنبھالنے کے اصول اور کام کرنے کا تجربہ کار اور متوازن مضبوط انداز دوسروں کی پہنچ سے باہر ہے۔ تم سب ان اچھی صلاحیت اور بلند علم والے لوگوں کی تعریف کرتے ہو، لیکن تو خدا کے کام اور الفاظ سے نہیں جان سکتا کہ اس کی انسانیت کتنی بلند ہے۔ اس کی بجائے، وہ معمولی ہے، اور، کام کرتے وقت، وہ عام اور حقیقی ہے، لیکن فانی انسانوں کے لیے ناقابلِ پیمائش بھی ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس کے لیے ایک قسم کی تعظیم محسوس کرتے ہیں۔ شاید کسی شخص کا اپنے کام میں تجربہ خاصا ترقی یافتہ ہو، یا اس کا تخیل اور استدلال خاصا ترقی یافتہ ہو، اور اس کی انسانیت خاصی اچھی ہو؛ اس طرح کی صفات لوگوں کی صرف تعریف تو حاصل کر سکتی ہیں، لیکن ان کے اندر خوف اور عظمت کے رعب کو بیدار نہیں کر سکتیں۔ سب لوگ ان لوگوں کی تعریف کرتے ہیں جو اچھی طرح سے کام کر سکتے ہیں، جن کے پاس خاص طور پر گہرا تجربہ ہے، اور جو سچائی پر عمل کر سکتے ہیں، لیکن ایسے لوگ کبھی عظمت کا رعب نہیں پیدا کر سکتے بلکہ صرف تعریف اور حسد ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے خدا کے کام کا تجربہ کیا ہے وہ خدا کی تعریف نہیں کرتے ہیں؛ اس کی بجائے، وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا کام انسانی پہنچ سے باہر ہے اور انسان کے لیے ناقابل فہم ہے، کہ یہ تازہ اور حیرت انگیز ہے۔ جب لوگ خُدا کے کام کا تجربہ کرتے ہیں، تو اُس کے بارے میں اُن کا پہلا علم یہ ہوتا ہے کہ وہ ناقابلِ فہم، دانا اور حیرت انگیز ہے، اور وہ لاشعوری طور پر اُس کی تعظیم کرتے ہیں اور اُس کے کام کے راز کو محسوس کرتے ہیں، جو کہ انسان کے ذہنی دائرہ علم سے باہر ہے۔ لوگ صرف اس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہونا چاہتے ہیں؛ وہ اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ وہ جو کام کرتا ہے وہ انسان کی سوچ اور تخیل سے باہر ہے اور اس کی جگہ انسان سے نہیں ہو سکتا۔ حتیٰ کہ انسان کو اپنی کوتاہیوں کا خود بھی علم نہیں ہے، پھر بھی خدا نے ایک نئی راہ بنائی ہے اور انسان کو ایک نئی اور خوبصورت دنیا میں لانے کے لیے آیا ہے، اور یوں بنی نوع انسان نے نئی ترقی کی ہے اور ایک نئی شروعات کی ہے۔ لوگ جو خدا کے لیے محسوس کرتے ہیں وہ تعریف نہیں ہے، یا بلکہ، صرف تعریف ہی نہیں ہے۔ ان کا سب سے گہرا تجربہ عظمت کا رعب اور محبت ہے؛ ان کا احساس یہ ہے کہ خدا واقعی حیرت انگیز ہے۔ وہ ایسا کام کرتا ہے جو انسان کرنے سے قاصر ہے اور ایسی باتیں کہتا ہے جو انسان کہنے سے قاصر ہے۔ جن لوگوں نے خدا کے کام کا تجربہ کیا ہے وہ ہمیشہ ایک ناقابل بیان احساس رکھتے ہیں۔ کافی گہرے تجربے والے لوگ خدا کی محبت کو سمجھ سکتے ہیں؛ وہ اس کی محبت کو محسوس کر سکتے ہیں، کہ اس کا کام بہت دانشمندانہ، اتنا شاندار ہے، اور اس طرح ان میں لامحدود طاقت پیدا ہوتی ہے۔ یہ خوف یا کبھی کبھار کی محبت اور احترام نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے خدا کی ہمدردی اور اس کے لیے رواداری کا گہرا احساس ہے۔ تاہم، جن لوگوں نے اس کی سزا اور فیصلے کا تجربہ کیا ہے وہ اس کے جلال کو محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ وہ کوئی جرم برداشت نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے اس کے کام کا زیادہ تجربہ کیا ہے وہ بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہیں؛ وہ سب لوگ جو حقیقی معنوں میں اس کی تعظیم کرتے ہیں جانتے ہیں کہ اس کا کام لوگوں کے تصورات کے مطابق نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ان کے تصورات کے خلاف ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ لوگ اس کی مکمل تعریف کریں یا اس کے سامنے اطاعت کا اظہار کریں: بلکہ انھیں حقیقی تعظیم اور سچی اطاعت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے بہت سے کاموں میں، سچا تجربہ رکھنے والا کوئی بھی اس کے لیے تعظیم محسوس کرتا ہے، جو تعریف سے زیادہ بلند ہے۔ لوگوں نے اس کے سزا اور فیصلے کے کام کی وجہ سے اس کے مزاج کو دیکھا ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنے دلوں میں اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا اس لیے ہے کہ اس کی تعظیم اور اطاعت کی جائے، کیونکہ اس کی ہستی اور اس کا مزاج ایک مخلوق کی طرح نہیں ہیں اور وہ مخلوق سے بلند ہیں۔ خدا قائم بالذات اور ابدی ہے، وہ ایک غیر تخلیق شدہ ہستی ہے، اور صرف خدا ہی تعظیم اور اطاعت کے لائق ہے؛ انسان اس کا اہل نہیں ہے۔ لہٰذا، وہ تمام لوگ جنھوں نے اُس کے کام کا تجربہ کیا ہے اور اُسے صحیح معنوں میں جانا ہے، اُس کے لیے تعظیم محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، وہ لوگ جو اُس کے بارے میں اپنے تصورات کو نہیں چھوڑتے۔ جو اُسے سرے سے خدا ہی نہیں مانتے۔ جو اُس کی کوئی تعظیم نہیں کرتے ہیں، اور اگرچہ وہ اُس کی پیروی کرتے ہیں لیکن وہ مفتوح نہیں ہوتے ہیں؛ وہ فطرتاً نافرمان لوگ ہیں۔ اس طرح کام کرنے سے اس کا مقصد یہ حاصل کرنا ہے کہ تمام تخلیق شدہ لوگ اپنے دلوں میں خالق کی تعظیم کریں، اس کی عبادت کریں، اور اس کی بادشاہی کے لیے غیر مشروط طور پر سر تسلیم خم کریں۔ اس کے تمام کام اس حتمی نتیجے کے حصول کے لیے ہیں۔ جن لوگوں نے اس طرح کے کام کا تجربہ کیا ہے اگر وہ خدا کی تھوڑی سی بھی تعظیم نہ کریں، اور اگر ان کی ماضی کی نافرمانی بالکل بھی نہ بدلے، تو وہ یقیناً باہر نکال دیے جائیں گے۔ اگر خدا کے بارے میں انسان کا رویہ صرف اس کی تعریف کرنے یا دور سے اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہے اور اس سے ذرہ برابر بھی محبت کرنا نہیں ہے تو پھر جس شخص کے دل میں خدا کی محبت نہیں ہوتی ہے، وہ اس انجام پر پہنچتا ہے۔ اور یہ انسان کامل بنائے جانے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اگر اتنا کام بھی کسی شخص کی سچی محبت حاصل کرنے سے قاصر ہے، تو پھر اس شخص نے خدا کو حاصل ہی نہیں کیا ہے اور وہ حقیقی طور پر سچائی کے حصول کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے۔ جو شخص خدا سے محبت نہیں کرتا ہے وہ سچائی سے محبت نہیں کرتا ہے اور اس طرح خدا کو ہی حاصل نہیں کرسکتا، خدا کی تائید حاصل کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ ایسے لوگ، روح القدس کے کام کا جتنا بھی تجربہ کرتے ہوں، اور وہ فیصلے کا جتنا بھی تجربہ کرتے ہوں، خدا کی تعظیم کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی اور جن کے مزاج انتہائی خبیث ہیں۔ جو لوگ خُدا کی تعظیم نہیں کرتے اُن سب کو باہر نکال دیا جانا ہے، انھیں سزا دی جائے گی، اور اُن لوگوں کی طرح سزا دی جائے گی جو بُرے کام کرتے ہیں، وہ برے کام کرنے والوں سے بھی زیادہ تکلیف اٹھائیں گے۔

سابقہ: کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس راستے پر ہے جس پر انسان چلتا ہے

اگلا: خدا کے کام کے تین مراحل کو جاننا خدا کو جاننے کا راستہ ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp