خدا پر اپنے ایمان میں تجھے خدا کی اطاعت کرنی چاہیے
تُو خدا پر ایمان کیوں رکھتا ہے؟ بیشتر لوگ اس سوال پر الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ عملی خدا اور آسمانوں میں موجود خدا کے بارے میں دو بالکل مختلف نظریات رکھتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا پر اس لیے ایمان نہیں رکھتے کہ اس کی اطاعت کریں بلکہ اس لیے ایمان رکھتے ہیں تاکہ کچھ مخصوص فوائد حاصل کر سکیں یا آفت سے پہنچنے والی تکالیف سے بچ سکیں؛ اسی لیے وہ کسی حد تک اطاعت گزار ہیں۔ ان کی اطاعت مشروط ہے؛ یہ ان کی اپنی ذاتی توقعات کے لیے ہے، اور ان پر زبردستی مسلط کی گئی ہے۔ توپھر آخر تُو خدا پر کیوں ایمان رکھتا ہے؟ اگر یہ محض تیری توقعات اور قسمت کے لیے ہے تو بہتر ہے کہ تُو سرے سے ایمان ہی نہ رکھ۔ اس طرح کا ایمان خود فریبی، خود کو اطمینان دلانا اور خود ستائی ہے۔ اگر تیرا ایمان خدا کی اطاعت کی بنیاد پر قائم نہیں ہے، تو تجھے آخر کار اس کی مخالفت کی سزا ملے گی۔ جتنے بھی لوگ خدا پر اس کی اطاعت گزاری کے لیے ایمان نہیں لاتے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ حقیقت تلاش کریں، اس کے کلام کے پیاسے ہوں، اس کا کلام کھائیں اور پئیں، اور اس پر عمل کریں، تاکہ وہ خدا کے اطاعت گزار بندے بن سکیں۔ اگر یہی تیرے حقیقی ارادے ہیں، تب ہی خدا تجھے یقیناً بلند مرتبہ عطا کرے گا اور تجھ پر یقیناً مہربان ہو گا۔ اس میں کسی شک یا تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر تیرے ارادے خدا کی اطاعت کے نہیں ہیں، اور تُو دیگر مقاصد رکھتا ہے، تو تب تُو جو کچھ بھی کہتا ہے اور خدا کے سامنے جو بھی دعائیں کرتا ہے، اور یہاں تک کہ تیرا ہر عمل – اس کی مخالفت ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ تُو نرم گفتار اور نرم مزاج ہو، تیرا ہر عمل اور اظہار شاید مناسب نظر آئے، اور تُو اطاعت گزار نظر آئے لیکن جب خدا پر ایمان کے متعلق تیرے ارادے اور تیرے خیالات کی بات آئے گی، تو تیرا انجام دیا گیا ہر فعل خدا کی مخالفت ہوگا؛ جو کچھ تُو کرے گا وہ بدی ہو گی۔ جو لوگ ایک بھیڑ کی طرح اطاعت گزار نظر آتے ہیں، لیکن ان کے دل شیطانی ارادے پالتے ہیں، وہ بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا ہیں۔ وہ براہ راست خدا کو ناراض کرتے ہیں، اور خدا ان میں سے کسی کو بھی نہیں بخشے گا۔ روح القدس ان میں سے ہر ایک کو بے نقاب کرے گی اور ہر ایک کو دکھائے گی کہ ان تمام منافقین سے خدا یقیناً نفرت کرے گا اور انھیں ٹھکرا دے گا۔ فکر نہ کر: خدا باری باری ان میں سے ہر ایک سے حساب لے گا اور انھیں ٹھکانے لگائے گا۔
اگر تُو خدا کی جانب سے نئی روشنی قبول کرنے کا اہل نہیں ہے، اور وہ سب نہیں سمجھ سکتا جو آج خدا کرتا ہے اور نہ ہی تُو اس کی جستجو کرتا ہے، یا تُو اس پر شک کرتا ہے، اس پر فیصلہ صادر کرتا ہے، یا اس کی تفتیش و تجزیہ کرتا ہے، تو پھر سمجھ لے کہ تیرے پاس خدا کی اطاعت کرنے والا دل ہی نہیں ہے۔ اگر، جب یہاں اور ابھی کی روشنی ظاہر ہو جائے، اس کے باوجود تُو گزرے کل کی روشنی کو قیمتی سمجھے اور خدا کے نئے کام کی مخالفت کرے، تو تُو ایک انتہائی نامعقول شخص کے علاوہ کچھ نہیں ہے – تُو ان میں سے ایک ہے جو دانستہ خدا کی مخالفت کرتے ہیں۔ خدا کی اطاعت گزاری کی کلید نئی روشنی کا استقبال کرنا ہے، اور اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے قابل بننا ہے۔ یہی حقیقی اطاعت گزاری ہے۔ جو بھی خدا کی آرزو کی خواہش نہیں رکھتے، وہ دانستہ طور پر اس کی اطاعت کے قابل نہیں ہیں، اور اپنی موجود حالت پر مطمئن ہو کر صرف خدا کی مخالفت ہی کر سکتے ہیں۔ ایسا آدمی خدا کی اطاعت نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ اس کا حامل ہے جو کچھ پہلے آ چکا ہے۔ پہلے جو چیزیں آ چکی ہیں انھوں نے لوگوں کو خدا کے بارے میں تمام تصورات و خیالات دیے ہیں، اور یہ ان کے ذہنوں میں خدا کی شبیہ بن چکے ہیں۔ چنانچہ وہ جس چیز پر ایمان رکھتے ہیں وہ ان کے اپنے خیالات اور ان کے اپنے تصورات کے معیارات ہیں۔ اگر تُو اس خدا کا جو آج حقیقی کام انجام دیتا ہے، اپنے خیالات کے خدا سے موازنہ کرنا چاہتا ہے، تو سمجھ لے کہ تیرا یہ یقین شیطان کی طرف سے آیا ہے، اور تیری اپنی ترجیحات سے داغ دار ہے – خدا کو اس قسم کا ایمان مطلوب نہیں ہے۔ اس کے بلند بانگ کوائف، اور اس کے اخلاص سے قطع نظر – چاہے اس نے اس کے کاموں کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی ہو، اور چاہے اپنی جان اس کی راہ میں دے دی ہو۔ خدا ایسے ایمان والے کسی شخص کو قبول نہیں کرتا۔ وہ اس پر محض تھوڑا سا فضل کرتا ہے اور اسے کچھ وقت کے لیے اس سے لطف اندوز ہونے دیتا ہے۔ اس طرح کے لوگ حقیقت پر عمل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ روح القدس ان کے اندر کام نہیں کرتی، اور خدا ان میں سے ہر ایک کو باری باری نکال باہر کرے گا۔ نوجوان اور بزرگ یکساں طور پر، جو اپنے ایمان میں خدا کی اطاعت نہیں کرتے اور غلط ارادوں کے حامل ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو مخالفت کرتے ہیں اور رکاوٹیں ڈالتے ہیں، اور اس طرح کے لوگ بلاشبہ خدا کی طرف سے نکال باہر کیے جائیں گے۔ وہ لوگ جو خدا کے تھوڑے سے بھی اطاعت گزار نہیں ہیں، جو اس کے نام کو فقط تسلیم کرتے ہیں اور خدا کی رحمدلی اور محبت کا کچھ احساس رکھتے ہیں، پھر بھی روح القدس کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چلتے، اور روح القدس کے موجودہ کام اور کلام کی اطاعت نہیں کرتے – ایسے لوگ خدا کے فضل میں رہتے ہیں اور نہ ہی اس کے ذریعے کامل بنائے جائیں گے۔ خدا لوگوں کو ان کی اطاعت گزاری کے ذریعے، خدا کا کلام کھانے پینے اور اس کا لطف اٹھانے، اور ان کی زندگیوں میں تکالیف اور تزکیے کے ذریعے انھیں کامل بناتا ہے۔ اس طرح کے ایمان کے ذریعے ہی لوگوں کے مزاج میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے، اور اسی صورت میں وہ خدا کے بارے میں حقیقی علم حاصل کر سکتے ہیں۔ خدا کے فضل میں زندگی گزارنے پر مطمئن نہ ہونا، فعال انداز میں حقیقت کی شدید آرزو اور اسے تلاش کرنا، اور خدا کی طرف سے قبول کیے جانے کی کوشش کرنا، اس کا مطلب – خدا کی شعوری طور پر اطاعت گزاری ہے اور یہ عین اسی قسم کا ایمان ہے جو وہ چاہتا ہے۔ جو لوگ خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے وہ کامل نہیں بنائے جا سکتے، نہ ہی ان میں تبدیلی آسکتی ہے؛ اور ان کی اطاعت گزاری، خداترسی، محبت اور صبر سب دکھاوا ہیں۔ جو خدا کے فضل سے محض لطف اٹھاتے ہیں وہ خدا کو حقیقی طور پر نہیں جان سکتے، اور اگر وہ جان بھی جائیں تو ان کا علم سطحی ہوتا ہے، اور وہ اس طرح کے جملے کہتے ہیں جیسے "خدا انسان سے محبت کرتا ہے،" یا "خدا انسان پر مہربان ہے"۔ یہ انسانی زندگی کی نمائندگی نہیں کرتے، اور نہ ہی اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ خدا کو حقیقی طور پر جانتے ہیں۔ اگر، جب خدا کا کلام ان کا تزکیہ کرتا ہے، یا جب ان پر اس کی آزمائشیں نازل ہوتی ہیں، تو لوگ خدا کی اطاعت گزاری کے قابل نہیں ہوتے – اگر، اس کی بجائے، وہ شک میں مبتلا ہوجائیں، اور گر جائیں– تو وہ بالکل بھی اطاعت گزار نہیں ہوتے۔ ان کے اندر، خدا پر ایمان کے بارے میں کئی ضابطے اور پابندیاں ہیں، پرانے تجربات جو کئی سال کے ایمان کا نتیجہ ہیں، یا مختلف اصول جو انجیل پر مبنی ہیں۔ کیا ایسے لوگ خدا کی اطاعت گزاری کر سکتے ہیں؟ ایسے لوگ انسانی اشیا سے بھرے ہوئے ہیں – وہ خدا کی اطاعت گزاری کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کی "اطاعت گزاری" ان کی ذاتی ترجیح کے مطابق ہے – کیا خدا ایسی اطاعت گزاری چاہے گا؟ یہ خدا کی اطاعت گزاری نہیں ہے، بلکہ اصولوں کی پابندی ہے؛ یہ خود کو بہلانا اور خوش کرنا ہے۔ اگر تُو کہتا ہے کہ یہ خدا کی اطاعت گزاری ہے، تو کیا تُو اس کے خلاف گستاخی کا مرتکب نہیں ہوتا؟ تُو ایک مصری فرعون ہے۔ تُو بدی کا ارتکاب کرتا ہے، اور تُو کھلے عام خدا کی مخالفت کے کام میں شامل ہوتا ہے – کیا خدا تجھ سے اسی طرح کی خدمت چاہتا ہے؟ تیرے لیے بہتر ہے کہ تُو جلدی سے توبہ کر لے، اور کچھ خود آگہی حاصل کرنے کی کوشش کر۔ اگر تُو ایسا نہیں کرتا تو بہتر ہے کہ تُو گھر لوٹ جا؛ یہ تیری خدا کی نام نہاد خدمت کے مقابلے میں کہیں بہتر ہو گا۔ تجھے کوئی خلل اندازی یا پریشانی نہیں ہو گی؛ تُو اپنی جگہ جان جائے گا، اور اچھے طریقے سے رہے گا– کیا یہ بہتر بات نہ ہو گی؟ اور تجھے خداوند کی مخالفت کی سزا بھی نہیں اٹھانی پڑے گی!