بدعنوان بنی نوع انسان کو مجسم خدا کی نجات کی زیادہ ضرورت ہے

خُدا جِسم بنا ہے کیونکہ اُس کے کام کا ہدف شیطان کی روح یا کوئی غیر جسمانی چیز نہیں بلکہ انسان ہے، جو جسم کا ہے اور جسے شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے۔ یہ بالکل اس وجہ ہے کہ انسان کا جسم بدعنوان ہو گیا ہے اور اسی لیے خدا نے جسمانی انسان کو اپنے کام کا ہدف بنایا ہے؛ مزید برآں، کیونکہ انسان بدعنوانی کا ہدف ہے، اس لیے خدا نے اپنی نجات کے کام کے تمام مراحل میں انسان کو اپنے کام کا واحد ہدف بنایا ہے۔ انسان ایک فانی ہستی ہے، گوشت اور خون سے ہے، اور صرف تنہا خدا ہی انسان کو بچا سکتا ہے۔ اس طرح، خدا کو اپنا کام کرنے کے لیے لازماً ایک ایسا جسم بننا چاہیے جو انسان جیسی صفات کا حامل ہو، تاکہ اس کا کام بہتر اثرات حاصل کر سکے۔ خُدا کو اپنے کام کو درست طریقے سے کرنے کے لیے لازمی طور پر جسم ہی بننا چاہیے کیونکہ انسان جسم کا ہے، اور گناہ پر قابو پانے یا خود کو جسم سے الگ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ گو کہ مجسم خدا کا جوہر اور شناخت، انسان کے جوہر اور شناخت سے بہت مختلف ہے، پھر بھی اس کی ظاہری شکل و صورت انسان کی طرح ہے؛ وہ ایک عام انسان کی شکل و صورت میں ہے، اور ایک عام انسان کی زندگی گزارتا ہے، اور جو لوگ اسے دیکھتے ہیں وہ اس میں اور ایک عام انسان میں کوئی فرق نہیں کر سکتے۔ یہ عام حالت اور معمول کی انسانیت اس کے لیے عمومی انسانیت میں اپنا الوہی کام کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کا جسم اسے عام انسانیت میں اپنا کام کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور انسانوں کے درمیان اپنا کام کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے، اور اس کی عام انسانیت، اس کے علاوہ، انسانوں کے درمیان نجات کے کام کو انجام دینے میں اس کی مدد کرتی ہے۔ اگرچہ اس کی عام انسانیت نے انسانوں میں بہت ہنگامہ برپا کیا ہے، لیکن اس ہنگامے نے اس کے کام کے عام اثرات کو متاثر نہیں کیا۔ مختصر یہ کہ اس کے عام جسم کا کام انسان کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ اس کی عام انسانیت کو قبول نہیں کرتے ہیں، لیکن اس کا کام اب بھی نتائج حاصل کرسکتا ہے، اور یہ نتائج اس کی عام انسانیت کی بدولت حاصل ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جسم میں اس کے کام کی وجہ سے، انسان ان تصورات سے دس گنا یا درجنوں گنا زیادہ چیزیں حاصل کرتا ہے جو اس کی عام انسانیت کے بارے میں انسان کے درمیان موجود ہیں، اور بالآخر اس کا کام اس طرح کے تمام تصورات کو نگل لے گا۔ اور اس کے کام نے جو اثر حاصل کیا ہے، یعنی یہ کہ انسان کا اس کے بارے میں علم، انسان کے اس کے متعلق تصورات سے کہیں زیادہ ہے۔ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے وہ جو کام کرتا ہے اس کا تصور یا اس کی پیمائش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، کیونکہ اس کا جسم کسی بھی گوشت پوست کے انسان کے برعکس ہے؛ اگرچہ بیرونی خول ایک جیسا ہے مگر جوہر ایک جیسا نہیں ہے۔ اس کا جسم خدا کے بارے میں انسان میں بہت سے تصورات کو جنم دیتا ہے، پھر بھی اس کا جسم انسان کو زیادہ علم حاصل کرنے کی اجازت بھی دے سکتا ہے، اور یہاں تک کہ کسی بھی ایسے شخص کو فتح کر سکتا ہے جس کا بیرونی خول یکساں ہو۔ کیونکہ وہ محض انسان ہی نہیں ہے بلکہ انسان کے بیرونی خول کے ساتھ خدا ہے اور کوئی بھی اسے پوری طرح جان یا سمجھ نہیں سکتا۔ ایک غیر مرئی اور ناقابلِ لمس خُدا سے سب محبت کرتے ہیں اور اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اگر خدا صرف ایک روح ہو جو انسان کو نظر نہ آئے تو انسان کے لیے خدا پر یقین کرنا بہت آسان ہے۔ لوگ اپنے تخیلات کو آزاد چھوڑ سکتے ہیں اور اپنے آپ کو راضی رکھنے اور اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے اپنی پسند کی کسی بھی شبیہ کو خدا کی تصویر کے طور پر منتخب کر سکتے ہیں۔ اس طرح، جو کچھ بھی ان لوگوں کا اپنا خدا سب سے زیادہ پسند کرتا ہے اور ان سے کروانا چاہتا ہے، وہ کسی نیک و بد کی تمیز کے بغیر کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کا ان سے زیادہ وفادار اور عقیدت مند اور کوئی نہیں ہے، اور یہ کہ باقی سب غیر یہودی قوموں کے کتے ہیں، اور خدا سے بے وفائی کرتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں کا خدا پر ایمان مبہم اور عقیدے پر مبنی ہے، وہ اسی کی جستجو کرتے ہیں؛ وہ جس چیز کی تلاش کرتے ہیں وہ سب کچھ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک جیسا ہے۔ صرف یہ ہے کہ ان کے تصورات میں خدا کی شبیہیں مختلف ہیں، لیکن ان کا جوہر دراصل ایک ہی ہے۔

انسان خدا پر اپنے لاابالی عقیدے سے پریشان نہیں ہے اور خدا پر اپنی مرضی کے مطابق ایمان رکھتا ہے۔ یہ "انسان کے حقوق اور آزادیوں" میں سے ایک ہے، جس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا، کیونکہ لوگ صرف اپنے خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی دوسرے کے خدا پر نہیں؛ یہ ان کی اپنی نجی ملکیت ہے، اور تقریباً ہر ایک کے پاس اس قسم کی نجی ملکیت موجود ہے۔ لوگ اس ملکیت کو ایک قیمتی خزانہ سمجھتے ہیں، لیکن خدا کے نزدیک اس سے زیادہ گھٹیا اور بے وقعت چیز کوئی نہیں ہے، کیونکہ انسان کی اس نجی ملکیت سے بڑھ کر خدا کی مخالفت کا کوئی زیادہ واضح اشارہ نہیں ہے۔ یہ مجسم خدا کے کام کی وجہ سے ہے کہ خدا ایک قابلِ ادراک حالت کے ساتھ ایک جسم بن جاتا ہے، اور جسے انسان دیکھ اور چھو سکتا ہے۔ وہ بے شکل روح نہیں ہے، بلکہ ایک جسم ہے جسے انسان دیکھ سکتا ہے اور جس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ تاہم، لوگ جن زیادہ تر خداؤں پر یقین رکھتے ہیں وہ بےجسم دیوتا ہیں جو بےشکل ہیں، جو ایک غیر معین شکل کے بھی ہیں۔ اس طرح مجسم خدا ان لوگوں میں سے اکثر کا دشمن بن گیا ہے جو خدا کو تو مانتے ہیں لیکن خدا کی تجسیم کی حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور اس طرح وہ خدا کے مخالف ہو گئے ہیں۔ انسان تصورات کا حامل ہوتا ہے اپنے سوچنے کے طریقے کی وجہ سے یا اپنی سرکشی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کی اس ذاتی ملکیت کی وجہ سے۔ اسی ملکیت کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مر جاتے ہیں، اور یہی مبہم خدا ہے جسے چھوا نہیں جا سکتا، دیکھا نہیں جا سکتا، اور جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے، یہ انسان کی زندگی کو برباد کر دیتا ہے۔ مجسم خدا انسان کی زندگی کو ضبط نہیں کرتا ہے، اور آسمانی خدا کا ایسا کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے، بلکہ ایسا انسان کے اپنے تصوراتی خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ مجسم خدا کے جسم میں آنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ بدعنوان انسان کی ضروریات ہیں۔ یہ انسان کی ضروریات کی وجہ سے ہے، خدا کی ضروریات کی وجہ سے نہیں ہے، اور اس کی تمام قربانیاں اور مصائب انسانوں کی خاطر ہیں، خدا کے اپنے فائدے کے لیے نہیں ہیں۔ خدا کے لیے کوئی نفع و نقصان یا انعامات نہیں ہیں؛ وہ مستقبل کی فصل نہیں کاٹے گا، بلکہ صرف وہی جو اصل میں اس کا بنتا تھا۔ وہ انسانوں کے لیے جو کچھ بھی کرتا ہے اور جو قربانیاں بھی دیتا ہے، وہ اس لیے نہیں ہیں کہ وہ اجر عظیم حاصل کر سکے، بلکہ یہ خالصتاً بنی نوع انسان کی خاطر ہیں۔ اگرچہ جسم کی حالت میں خُدا کے کام میں بہت سی ناقابلِ تصور مشکلات شامل ہیں، لیکن اُس کے اثرات جو بالآخر حاصل ہوتے ہیں وہ اُس کام سے کہیں زیادہ ہیں جو براہِ راست روح کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ جسم کے کام میں بہت زیادہ مشقت ہوتی ہے، اور جسم روح جیسی عظیم شناخت کا مالک نہیں ہو سکتا، وہ روح کی طرح مافوق الفطرت کاموں کو انجام نہیں دے سکتا، اس کا روح جیسے اختیار کا مالک ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ پھر بھی اس نہایت معمولی جسم کے ذریعے کیے گئے کام کا جوہر اس کام سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہے جو براہ راست روح کے ذریعہ کیا جاتا ہے، اور یہ جسم خود تمام بنی نوع انسان کی ضروریات کا جواب ہے۔ نجات پانے والوں کے لیے، روح کے استعمال کی قدر جسم کے مقابلے میں بہت کمتر ہے: روح کا کام پوری کائنات میں تمام پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کا احاطہ کرنے کے قابل ہے، پھر بھی جسم کا کام ہر اس شخص سے زیادہ موثر طریقے سے تعلق رکھتا ہے جو اس کے ساتھ رابطے میں آتا ہے۔ مزید یہ کہ خُدا کے جسم کے قابلِ لمس حالت میں ہونے کی وجہ سے انسان اسے بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے اور اُس پر بھروسا کر سکتا ہے، اور یہ خُدا کے بارے میں انسان کے علم کو مزید گہرا کر سکتا ہے، اور انسان پر خُدا کے حقیقی اعمال کا زیادہ گہرا تاثر چھوڑ سکتا ہے۔ روح کا کام اسرار میں پوشیدہ ہے؛ فانی مخلوق کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے، اور ان کے لیے دیکھنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، اور اس لیے وہ صرف کھوکھلے تصورات پر ہی بھروسا کر سکتے ہیں۔ جسم کا کام، تاہم، عمومی ہے، اور حقیقت پر مبنی ہے، اور بھرپور حکمت سے مالا مال ہے، اور ایک ایسی حقیقت ہے جسے انسان کی جسمانی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے؛ انسان ذاتی طور پر خدا کے کام کی حکمت کا تجربہ کر سکتا ہے، اور اسے اپنے بے پناہ تخیل کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جسم میں خدا کے کام کی درستی ہے اور حقیقی قدر ہے۔ روح صرف وہ چیزیں کر سکتی ہے جو انسان کو نظر نہیں آتی ہیں اور اس کے لیے تصور کرنا مشکل ہوتا ہے، مثلاً روح کی بصیرت، روح کا متاثر کرنا، اور روح کی راہنمائی، لیکن انسان کے لیے، جو کہ دماغ بھی رکھتا ہے، یہ کوئی واضح معنی فراہم نہیں کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک محرک، یا وسیع معنی فراہم کرتے ہیں، اور الفاظ میں کوئی ہدایت نہیں دے سکتے۔ جسم میں خدا کا کام، تاہم، بہت مختلف ہے: اس میں کلام کی درست راہنمائی شامل ہے، اس میں واضح ارادہ ہے، اور واضح مطلوبہ اہداف ہیں۔ اور اس لیے انسان کو ٹامک ٹوئیاں مارنے یا اپنے تخیل کو بروئے کار لانے کی ضرورت نہیں ہے، اندازے لگانے کی ضرورت تو بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ جسم میں کام اور روح کے کام کے بہت زیادہ مختلف ہونے کی وضاحت ہے۔ روح کا کام صرف ایک محدود دائرہ کار کے لیے موزوں ہے اور یہ جسم کے کام کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔ جسم کا کام انسان کو روح کے کام سے کہیں زیادہ درست اور ضروری مقاصد اور کہیں زیادہ حقیقی، قیمتی علم دیتا ہے۔ بدعنوان انسان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل وہ کام ہے جو درست الفاظ اور حصول کے لیے واضح اہداف فراہم کرے اور جسے دیکھا اور چھوا جا سکے۔ صرف حقیقت پسندانہ کام اور بروقت راہنمائی ہی انسان کے ذوق کے مطابق ہوتی ہے اور صرف حقیقی کام ہی انسان کو اس کے بدعنوان اور بدچلن مزاج سے بچا سکتا ہے۔ یہ صرف مجسم خدا کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتا ہے؛ صرف مجسم خدا ہی انسان کو اس کے سابقہ بدعنوان اور برے مزاج سے بچا سکتا ہے۔ اگرچہ روح خُدا کا جبلی جوہر ہے، لیکن ایسا کام صرف اُس کا جسم ہی کر سکتا ہے۔ اگر روح کسی کی مدد کے بغیر کام کرتی، تو اس کے کام کا موثر ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ایک کھلی سچائی ہے۔ اگرچہ اس جسم کی وجہ سے اکثر لوگ خدا کے دشمن بن گئے ہیں، لیکن جب وہ اپنے کام کو ختم کر دے گا، تو وہ لوگ جو اس کے خلاف ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ اس کے دشمن نہیں رہیں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے گواہ بن جائیں گے۔ وہ ایسے گواہ بنیں گے جنھیں اس نے فتح کیا ہو گا، ایسے گواہ جو اس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اس سے الگ نہیں ہوسکتے۔ وہ انسان کو جسم میں اپنے کام کی اہمیت سے آگاہ کرے گا، اور انسان یہ جان لے گا کہ انسان کے وجود کے معنی کے لیے اس جسم کی کیا اہمیت ہے، انسان کی زندگی کی نشوونما کے لیے اس کی اصل قدر کو جان لے گا، اور اس کے علاوہ، جان لے گا کہ یہ جسم زندگی کا ایک ایسا زندہ سرچشمہ بن جائے گا جس سے الگ ہونا انسان برداشت نہیں کر سکتا۔ اگرچہ خدا کا مجسم جسم خدا کی شناخت اور مقام کے برابر ہونے سے بہت دور ہے، اور انسان کو لگتا ہے کہ یہ اس کی اصل حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، لیکن یہ جسم، جو خدا کی حقیقی شبیہ یا خدا کی حقیقی شناخت کا حامل نہیں ہے، وہ کام کر سکتا ہے جو خدا کی روح براہ راست کرنے سے قاصر ہے۔ یہی خدا کی تجسیم کی حقیقی اہمیت اور قدر ہے اور یہی وہ اہمیت اور قدر ہے جس کی تعریف کرنے اور تسلیم کرنے سے انسان قاصر ہے۔ اگرچہ تمام بنی نوع انسان خُدا کی روح کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور خُدا کے جسم کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ کس طرح دیکھتے یا سوچتے ہیں، جسم کی اصل اہمیت اور قدر روح سے کہیں زیادہ ہے۔ بے شک، یہ صرف بدعنوان بنی نوع انسان کے حوالے سے ہے۔ کیونکہ ہر وہ شخص جو سچائی کی تلاش کرتا ہے اور خدا کے ظہور کی آرزو رکھتا ہے، روح کا کام اسے صرف تحریک یا الہام فراہم کر سکتا ہے، اور حیرت کا احساس کہ یہ ناقابل وضاحت اور ناقابل تصور ہے، اور یہ احساس کہ یہ عظیم، ماورائی اور قابل تعریف ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی۔ سب کے لیے ناقابل رسائی اور ناقابلِ حصول بھی ہے۔ انسان اور خدا کی روح ایک دوسرے کو صرف دور سے دیکھ سکتے ہیں، گویا ان کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے، اور وہ کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتے، جیسے کہ انسان اور خدا ایک غیر مرئی تقسیم سے جدا ہوئے ہیں۔ درحقیقت یہ روح کی طرف سے انسان کو دیا گیا ایک وہم ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ روح اور انسان ایک ہی قسم کے نہیں ہیں اور ایک ہی دنیا میں کبھی بھی ایک ساتھ نہیں رہیں گے، اور اس لیے کہ روح کوئی انسانی چیز نہیں رکھتی ہے۔ لہذا انسان کو روح کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ روح براہ راست وہ کام نہیں کر سکتی جس کی انسان کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جسم کا کام انسان کو کوشش کرنے کے لیے حقیقی مقاصد، واضح الفاظ، اور یہ احساس پیش کرتا ہے کہ وہ حقیقی اور عام ہے، کہ وہ عاجز اور معمولی ہے۔ اگرچہ انسان اس سے ڈر سکتا ہے، لیکن اکثر لوگوں کے لیے اس سے تعلق رکھنا آسان ہے: انسان اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، اس کی آواز سن سکتا ہے، اور انسان کو دور سے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جسم انسان کو قابلِ رسائی محسوس ہوتا ہے، دور یا ناقابل ادراک نہیں، بلکہ نظر آتا ہے اور اسے چھوا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ جسم اسی دنیا میں ہے جس میں انسان ہے۔

جسم میں رہنے والے تمام لوگوں کو اپنے مزاج کو بدلنے کے لیے اہداف کو حاصل کرنے کی جستجو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور خدا کو جاننے کے لیے حقیقی اعمال اور خدا کے حقیقی چہرے کو دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں کو صرف خدا کے مجسم جسم سے حاصل کیا جا سکتا ہے، اور دونوں کو صرف عام اور حقیقی جسم سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تجسیم ضروری ہے، اور اسی وجہ سے تمام بدعنوان بنی نوع انسان کو اس کی ضرورت ہے۔ چونکہ لوگوں کے لیے خدا کو جاننا ضروری ہے، اس لیے مبہم اور مافوق الفطرت خداؤں کی شبیہوں کو ان کے دلوں سے نکال دینا ضروری ہے، اور چونکہ ان کو اپنے بدعنوان مزاج کو ترک کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے انھیں پہلے لازمی طور پر اپنے بدعنوان مزاج کو جاننا چاہیے۔ اگر انسان صرف مبہم خداؤں کی شبیہوں کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کا کام کرے تو وہ صحیح اثر حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ لوگوں کے دلوں میں موجود مبہم خداؤں کی شبیہوں کو صرف الفاظ کے ذریعے بے نقاب نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ترک کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر نکالا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے، بالآخر ان گہری جڑ پکڑی ہوئی چیزوں کو لوگوں سے دور کرنا پھر بھی ممکن نہیں ہوگا۔ ان مبہم اور مافوق الفطرت چیزوں کو عملی خدا اور خدا کی حقیقی شبیہ سے بدل کر اور لوگوں کو آہستہ آہستہ ان سے آشنا کرنے سے ہی صحیح اثر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان تسلیم کرتا ہے کہ وہ خدا جس کی اس نے ماضی میں تلاش کی تھی وہ مبہم اور مافوق الفطرت ہے۔ جو اس اثر کو حاصل کر سکتا ہے وہ روح کی براہ راست راہنمائی نہیں ہے، کسی خاص فرد کی تعلیمات سے ایسا ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے، بلکہ یہ مجسم خدا کی راہنمائی سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ انسان کے تصورات اس وقت کھل کر سامنے آتے ہیں جب مجسم خدا باضابطہ طور پر اپنا کام کرتا ہے، کیونکہ مجسم خدا کا معمول کے مطابق اور حقیقت ہونا انسان کے تخیل میں مبہم اور مافوق الفطرت خدا کے برعکس ہے۔ انسان کے اصل تصورات تب ہی سامنے آسکتے ہیں جب ان کا موازنہ مجسم خدا کے ساتھ ہو۔ مجسم خدا سے موازنے کے بغیر انسان کے تصورات ظاہر نہیں ہوسکتے؛ دوسرے الفاظ میں، تضاد کو نمایاں کرنے والی حقیقت کے بغیر، مبہم چیزوں کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی اس کام کے لیے الفاظ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ اس کام کو الفاظ کے ذریعے واضح طور پر بیان کر سکے۔ صرف خدا ہی اپنا کام خود کر سکتا ہے اور اس کی طرف سے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کر سکتا۔ انسان کی زبان خواہ کتنی ہی فصیح کیوں نہ ہو، وہ خدا کے حقیقی اور معمول کے مطابق ہونے کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اگر خدا ذاتی طور پر انسانوں کے درمیان کام کرتا ہے اور اپنی شبیہ اور اپنے وجود کو پوری طرح سے ظاہر کرتا ہے تو ہی انسان خدا کو زیادہ عملی طور پر جان سکتا ہے، اور تب ہی اس کو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتا ہے۔ یہ اثر گوشت پوست کا کوئی انسان حاصل نہیں کر سکتا۔ یقیناً، خدا کی روح بھی اس اثر کو حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ خُدا بدعنوان انسان کو شیطان کے اثر سے بچا سکتا ہے، لیکن یہ کام براہِ راست خُدا کی روح سے نہیں ہو سکتا؛ بلکہ یہ صرف اس جسم کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جسے خدا کی روح خدا کے مجسم جسم کی صورت میں اوڑھتی ہے۔ یہ جسم انسان ہے اور خدا بھی ہے، عام انسانیت کا حامل ایک انسان ہے اور مکمل الوہیت کا حامل خدا بھی ہے۔ اور اس طرح، اگرچہ یہ جسم خدا کی روح نہیں ہے، اور روح سے بہت مختلف ہے، پھر بھی یہ مجسم خدا ہی ہے جو انسان کو بچاتا ہے اور جو روح بھی ہے اور جسم بھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اسے کس نام سے پکارا جاتا ہے، بالآخر یہ خدا ہی ہے جو بنی نوع انسان کو بچاتا ہے۔ کیونکہ خُدا کی رُوح جِسم سے الگ نہیں اور جِسم کا کام بھی خُدا کی رُوح کا کام ہے؛ صرف ایسا ہے کہ یہ کام روح کی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ جسم کی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ وہ کام جو براہ راست روح کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے تجسیم کی ضرورت نہیں ہے، اور وہ کام جس کے لیے جسم کی ضرورت ہوتی ہے وہ براہ راست روح کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا، اور صرف مجسم خدا کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کام کا یہی تقاضا ہے، اور بدعنوان بنی نوع انسان کو بھی یہی مطلوب ہے۔ خُدا کے کام کے تین مراحل میں، صرف ایک مرحلہ براہِ راست روح کے ذریعے انجام دیا گیا تھا، اور بقیہ دو مراحل مجسم خُدا کے ذریعے انجام پاتے ہیں، اور براہِ راست روح کے ذریعے نہیں۔ قانون کے دور میں روح کے کیے گئے کام میں انسان کے بدعنوان مزاج کو تبدیل کرنا شامل نہیں تھا، اور نہ ہی اس کا خدا کے بارے میں انسان کے علم سے کوئی تعلق تھا۔ فضل کے دور اور بادشاہی کے دور میں خُدا کے جسم کے کام میں، تاہم، انسان کے بدعنوان مزاج اور خُدا کے بارے میں اُس کا علم شامل ہے، اور یہ نجات کے کام کا ایک اہم اور فیصلہ کن حصہ ہے۔ لہٰذا، بدعنوان بنی نوع انسان کو مجسم خدا کی نجات کی زیادہ ضرورت ہے، اور مجسم خدا کے براہ راست کام کی زیادہ ضرورت ہے۔ بنی نوع انسان کو مجسم خدا کی ضرورت ہے کہ وہ اس کی نگرانی کرے، اس کی مدد کرے، اسے پانی پلائے، اسے کھلائے، فیصلہ کرے اور اس کو سزا دے، اور اسے مجسم خدا کی طرف سے مزید فضل اور زیادہ نجات کی ضرورت ہے۔ جسمانی طور پر صرف خدا ہی انسان کا معتمد، انسان کا نگران، انسان کی اس وقت موجود مدد ہوسکتا ہے، اور ان سب کے لیے آج اور ماضی، دونوں میں مجسم ہونے کی ضرورت ہے۔

انسان کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے اور وہ خدا کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ ہے، اس لیے انسان خدا کی نجات کا محتاج ہے۔ خدا کی نجات کا ہدف انسان ہے، شیطان نہیں، اور جو بچایا جائے گا وہ انسان کا جسم ہے، اور انسان کی روح ہے، شیطان نہیں۔ خدا کا مقصد شیطان کو فنا کرنا ہے، خدا کی نجات کا ہدف انسان ہے، اور انسان کے جسم کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، اس لیے سب سے پہلے نجات پانے والا لازماً انسان کا جسم ہونا چاہیے۔ انسان کا جسم سب سے زیادہ بدعنوان ہو گیا ہے، اور یہ ایک ایسی چیز بن گیا ہے جو خدا کی مخالفت کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ کھلے عام خدا کے وجود کی مخالفت اور انکار کرتا ہے۔ یہ بدعنوان جسم بہت ہی پیچیدہ ہے، اور کوئی چیز جسم کی بدعنوانی سے نمٹنے یا تبدیل کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ شیطان انسان کے جسم میں خلل ڈالنے کے لیے آتا ہے، اور وہ انسان کے جسم کو خدا کے کام میں خلل ڈالنے اور خدا کے منصوبے کو خراب کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور اس طرح انسان شیطان بن چکا ہے، اور خدا کا دشمن بن گیا ہے۔ انسان کو بچائے جانے کے لیے، اسے لازمی پہلے مفتوح ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا چیلنج کو قبول کرتا ہے اور جسم میں آتا ہے تاکہ وہ کام کرے جو وہ کرنا چاہتا ہے، اور شیطان کے ساتھ جنگ کرے۔ اس کا مقصد انسان کی نجات ہے، جو بدعنوان ہو چکا ہے، اور شیطان کی شکست اور فنا ہے، جو اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ وہ انسان کو فتح کرنے کے اپنے کام کے ذریعے شیطان کو شکست دیتا ہے، جبکہ اس دوران وہ بدعنوان بنی نوع انسان کو بچاتا ہے۔ اس طرح، یہ ایک ایسا کام ہے جو دو مقاصد فوراً حاصل کرتا ہے۔ وہ جسم کی حالت میں کام کرتا ہے، اور جسم کی حالت میں بولتا ہے، اور انسان کے ساتھ بہتر طور پر مشغول ہونے کے لیے، اور انسان کو بہتر طور پر فتح کرنے کے لیے جسم کی حالت میں تمام کام کرتا ہے۔ آخری بار جب خُدا جسم بنتا ہے تو جسم کی حالت میں اُس کا آخری ایام کا کام ختم ہو جائے گا۔ وہ تمام انسانوں کی قسم کے مطابق درجہ بندی کرے گا، اپنے پورے انتظام کو ختم کرے گا، اور جسم کی حالت میں اپنے تمام کام کو بھی ختم کر دے گا۔ زمین پر اپنا تمام کام ختم ہونے کے بعد، وہ مکمل طور پر فتح یاب ہو گا۔ جسم کی حالت میں کام کرتے ہوئے، خُدا نے بنی نوع انسان کو مکمل طور پر فتح کر لیا ہو گا، اور پوری طرح سے بنی نوع انسان کو حاصل کر لیا ہو گا۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا سارا انتظام ختم ہو چکا ہو گا؟ جب خُدا جسم میں اپنا کام ختم کرتا ہے، جیسا کہ وہ شیطان کو پوری طرح سے شکست دیتا ہے اور فتح حاصل کرتا ہے، تو شیطان کو انسان کو خراب کرنے کا مزید موقع نہیں ملے گا۔ خدا کی پہلی تجسیم کا کام انسان کو گناہوں سے بچانا اور معاف کرنا تھا۔ اب یہ بنی نوع انسان کو فتح کرنے اور مکمل طور پر حاصل کرنے کا کام ہے، لہذا شیطان کے لیے مزید اپنا کام کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا، اور وہ مکمل طور پر ہار چکا ہو گا، اور خدا مکمل طور پر فتح یاب ہو چکا ہو گا۔ یہ جسم کا کام ہے، اور وہ کام ہے جو خدا نے خود کیا ہے۔ خُدا کے کام کے تین مراحل کا ابتدائی کام جسم کے ذریعے نہیں بلکہ براہِ راست روح کے ذریعے کیا گیا تھا۔ تاہم، خدا کے کام کے تین مراحل کا آخری کام براہِ راست روح کے ذریعے نہیں بلکہ مجسم خُدا کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ درمیانی مرحلے میں خلاصی کا کام بھی خدا نے جسم کی حالت میں کیا تھا۔ پورے انتظامی کام میں سب سے اہم کام انسان کو شیطان کے اثر سے بچانا ہے۔ بدعنوان انسان کو مکمل فتح کرنا کلیدی کام ہے، اس طرح مفتوحہ انسان کے دل میں خدا کی اصل تعظیم کو بحال کرنا ہے، اور اسے ایک عام زندگی حاصل کرنے کی اجازت دینا ہے، جو کہ خدا کی مخلوق کی عام زندگی ہے۔ یہ کام بہت اہم ہے، اور یہ انتظامی کام کا مرکز ہے۔ نجات کے کام کے تین مراحل میں، قانون کے دور کے کام کا پہلا مرحلہ انتظامی کام کے مرکزی حصے سے بہت دور تھا؛ اس میں صرف نجات کے کام کی ہلکی سی جھلک تھی، اور یہ انسان کو شیطان کے قبضے سے بچانے کے خدا کے کام کا آغاز نہیں تھا۔ کام کا پہلا مرحلہ براہ راست روح کی طرف سے انجام دیا گیا تھا کیونکہ، قانون کے تحت، انسان صرف قانون کی پابندی کرنا جانتا تھا، اور انسان کے پاس زیادہ سچائی نہیں تھی، اور کیونکہ قانون کے دور کے کام میں انسان کے مزاج میں تبدیلیاں شامل نہیں تھیں، اس لیے اس کا اس کام سے تو دور کا تعلق بھی نہیں تھا کہ انسان کو شیطان کے تسلط سے کیسے بچایا جائے۔ اس طرح خدا کی روح نے کام کے اس انتہائی آسان مرحلے کو مکمل کیا جس کا انسان کے بدعنوان مزاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ کام کے اس مرحلے کا نظم و نسق کے مرکزی حصے سے بہت کم تعلق تھا، اور اس کا انسان کی نجات کے باضابطہ کام سے کوئی زیادہ تعلق نہیں تھا، اور اس لیے اپنا کام کرنے کے لیے خدا کو ذاتی طور پر جسم بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ روح کے ذریعے کیا جانے والا کام پوری طرح واضح نہیں ہے اور ناقابلِ فہم ہے، اور یہ انسان کے لیے انتہائی خوفناک اور ناقابلِ رسائی ہے؛ روح براہ راست نجات کا کام کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے، اور انسان کو براہِ راست زندگی فراہم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ موزوں یہ ہے کہ وہ روح کے کام کو ایک ایسے نقطہ نظر میں بدل دے جو انسان کے قریب ہو، یعنی کہ جو چیز انسان کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے وہ یہ ہے کہ خدا ایک معمولی، عام انسان بن کر اپنا کام کرے۔ اس کے لیے خُدا کو اپنے کام میں روح کی جگہ لینے کے لیے مجسم ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، اور انسان کی خاطر، خُدا کے کام کرنے کے لیے اس سے زیادہ کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔ کام کے ان تین مراحل میں سے، دو مراحل جسم کے ذریعے انجام پاتے ہیں، اور یہ دو مراحل انتظامی کام کے کلیدی مراحل ہیں۔ دونوں تجسیمیں باہمی طور پر تکمیل کرنے والی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی بہترین تکمیل کرتی ہیں۔ خدا کی تجسیم کے پہلے مرحلے نے دوسرے مرحلے کی بنیاد ڈالی، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی دو تجسیمیں ایک مکمل کی تشکیل کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے عدم مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ خُدا کے کام کے یہ دو مراحل خُدا کی طرف سے اپنی مجسم شناخت میں انجام پاتے ہیں کیونکہ یہ پورے انتظامی کام کے لیے بہت اہم ہیں۔ یہ تقریباً کہا جا سکتا ہے کہ، خدا کے دو مرتبہ مجسم ہونے کے کام کے بغیر، انتظام کا سارا کام ٹھپ ہو کر رہ جائے گا، اور بنی نوع انسان کو بچانے کا کام کھوکھلی باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ کام اہم ہے یا نہیں، اس کی بنیاد بنی نوع انسان کی ضروریات، بنی نوع انسان کی اخلاقی بے راہ روی کی حقیقت، اور شیطان کی نافرمانی کی شدت، اور اس کے کام میں خلل ڈالنے پر ہے۔ کیے جانے والے کام کی نوعیت اور کام کی اہمیت اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون سا کارکن اس کام کو کرنے کا صحیح طور پر اہل ہے۔ جب اس کام کی اہمیت کی بات آتی ہے تو اس لحاظ سے کہ کام کا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔ براہ راست خدا کی روح کے ذریعے کیا گیا کام، یا مجسم خدا کے ذریعے کیا گیا کام، یا انسان کے ذریعے کیا گیا کام۔ سب سے پہلے جسے خارج کیا جاتا ہے وہ انسان کے ذریعے کیا جانے والا کام ہے، اور، کام کی نوعیت، اور جسم کے مقابلے میں روح کے کام کی نوعیت کی بنیاد پر، حتمی طور پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ جسم کے ذریعے کیا جانے والا کام انسان کے لیے براہ راست روح کے ذریعے کیے جانے والے کام سے زیادہ فائدہ مند ہے؛ اور یہ کہ اس کے مزید فوائد ہیں۔ جب خدا نے فیصلہ کیا کہ کام روح سے کیا جائے یا جسم کی حالت میں، تو اُس وقت اس کی یہ سوچ تھی۔ کام کے ہر مرحلے کی ایک اہمیت اور بنیاد ہوتی ہے۔ وہ بے بنیاد تصورات نہیں ہیں، اور نہ ہی انھیں بے ترتیب انداز میں انجام دیا جاتا ہے؛ ان کے لیے ایک خاص حکمت ہے۔ خدا کے تمام کاموں کے پیچھے یہی حقیقت ہے۔ خاص طور پر، ایسے عظیم کام میں خُدا کا منصوبہ اور بھی بڑا ہے کیونکہ مجسم خُدا ذاتی طور پر انسانوں کے درمیان کام کر رہا ہے۔ لہٰذا، خدا کی حکمت اور اس کی مکمل ہستی اس کے کام میں ہر عمل، سوچ اور خیال سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خدا کا زیادہ ٹھوس اور منظم وجود ہے۔ ان لطیف سوچوں اور خیالات کا انسان کے لیے تصور کرنا محال ہے، اور انسان کے لیے یقین کرنا محال ہے، اور اس کے علاوہ، انسان کے لیے جاننا بھی محال ہے۔ انسان کا کیا ہوا کام عام اصول کے مطابق ہوتا ہے، جو انسان کے لیے انتہائی تسلی بخش ہوتا ہے۔ پھر بھی خُدا کے کام کے مقابلے میں، بہت زیادہ فرق ہے؛ اگرچہ خدا کے اعمال عظیم ہیں اور خدا کا کام بہت بڑے پیمانے پر ہے، لیکن ان کے پیچھے بہت سے انتہائی چھوٹے اور درست منصوبے اور انتظامات ہیں جو انسان کے لیے ناقابل تصور ہیں۔ اس کے کام کا ہر مرحلہ نہ صرف اصول کے مطابق انجام پاتا ہے بلکہ ہر مرحلے میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو انسانی زبان سے واضح انداز میں بیان نہیں کی جا سکتیں اور یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو نظر نہیں آتی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ یہ روح کا کام ہے یا مجسم خدا کا کام، ہر ایک میں اس کے کام کے منصوبے شامل ہیں۔ وہ بے بنیاد کام نہیں کرتا، اور نہ ہی وہ معمولی کام کرتا ہے۔ جب روح براہ راست کام کرتی ہے، تو یہ اس کے اہداف کے ساتھ ہوتا ہے، اور جب وہ کام کرنے کے لیے انسان بن جاتی ہے (جس کا مطلب ہے کہ جب وہ اپنے بیرونی خول کو تبدیل کرتی ہے)، تو اس کا اس کے مقصد کے ساتھ تعلق اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ورنہ وہ فوراً اپنی شناخت کیوں بدلے گا؟ ورنہ وہ آسانی سے ایک ایسا شخص کیوں بن جائے گا جسے حقیر سمجھا جاتا ہے اور جسے ستایا جاتا ہے؟

جسم کی حالت میں اس کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کی کام کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، اور وہ جو بالآخر کام مکمل کرتا ہے وہ مجسم خدا ہے، نہ کہ روح۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کسی نامعلوم وقت پر زمین پر آ سکتا ہے اور انسان پر ظاہر ہو سکتا ہے، جس کے بعد وہ ذاتی طور پر تمام بنی نوع انسان کا فیصلہ کرے گا، کسی کو چھوڑے بغیر فرداً فرداً ہر ایک کی آزمائش کرے گا۔ جو لوگ اس طرح سوچتے ہیں وہ تجسیم کے کام کے اس مرحلے سے واقف نہیں ہیں۔ خدا فرداً فرداً انسان کی جزا و سزا کا فیصلہ نہیں کرتا اور نہ ہی وہ انسان کو ایک ایک کرکے آزماتا ہے؛ ایسا کرنا فیصلہ کرنے کا کام نہیں ہوگا۔ کیا تمام انسانوں کی بدعنوانی ایک جیسی نہیں ہے؟ کیا تمام بنی نوع انسان کا جوہر یکساں نہیں ہے؟ جس چیز کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ بنی نوع انسان کا بدعنوان جوہر ہے، انسان کا جوہر جسے شیطان اور انسان کے تمام گناہوں نے بدعنوان بنا دیا ہے۔ خدا انسان کی معمولی اور غیر اہم غلطیوں کا فیصلہ نہیں کرتا۔ فیصلے کا کام تمثیلی ہے، اور یہ خاص طور پر کسی مخصوص فرد کے لیے انجام نہیں دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ ایسا کام ہے جس میں تمام بنی نوع انسان کے فیصلے کی نمائندگی کے لیے لوگوں کے ایک گروہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے ایک گروہ پر ذاتی طور پر اپنا کام انجام دے کر، مجسم خدا اپنا کام تمام بنی نوع انسان کے کام کی نمائندگی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جس کے بعد یہ بتدریج پھیلتا ہے۔ فیصلے کا کام بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ خدا کسی مخصوص قسم کے افراد یا لوگوں کے ایک مخصوص گروہ کا فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ پوری نوع انسانی کی بے ایمانی کا فیصلہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، انسان کی خدا کی مخالفت، یا انسان کی طرف سے خدا کی بے ادبی، یا خدا کے کام میں انسان کا خلل وغیرہ۔ جس کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ خدا کی مخالفت میں بنی نوع انسان کے جوہر کا ہے، اور یہ کام آخری ایام کی فتح کا کام ہے۔ مجسم خدا کا کام اور کلام جو انسان نے دیکھا، یہ آخری ایام کے دوران عظیم سفید تخت کے سامنے فیصلے کا کام ہے، جس کا تصور انسان نے ماضی میں کیا تھا۔ وہ کام جو فی الحال مجسم خدا کی طرف سے کیا جا رہا ہے، وہ عین عظیم سفید تخت کے سامنے فیصلے کا کام ہے۔ آج کا مجسم خدا وہ خدا ہے جو آخری ایام میں تمام بنی نوع انسان کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ جسم اور اُس کا کام، اُس کا کلام، اور اُس کا تمام مزاج اُس کا مکمل پن ہے۔ اگرچہ اس کے کام کا دائرہ محدود ہے، اور اس میں براہ راست پوری کائنات شامل نہیں ہے، فیصلے کے کام کا جوہر تمام بنی نوع انسان کا براہ راست فیصلہ ہے۔ یہ صرف چین کے منتخب لوگوں کی خاطر، یا لوگوں کی ایک چھوٹی سی تعداد کی خاطر نہیں ہے۔ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے خدا کے کام کے دوران، اگرچہ اس کام کے دائرہ کار میں پوری کائنات شامل نہیں ہے، لیکن یہ پوری کائنات کے کام کی نمائندگی کرتا ہے، اور جب وہ اپنے جسم کے دائرہ کار میں کام کو ختم کرتا ہے، تو وہ فوری طور پر اس کو پوری کائنات کے لیے وسعت دے گا، اسی طرح جیسے یسوع کی خوشخبری اس کے دوبارہ زندہ ہونے اور آسمان پر بلند ہونے کے بعد پوری کائنات میں پھیل گئی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ یہ روح کا کام ہے یا جسم کا کام، یہ وہ کام ہے جو ایک محدود دائرہ کار میں ہوتا ہے، لیکن جو پوری کائنات کے کام کی نمائندگی کرتا ہے۔ آخری ایام کے دوران، خُدا اپنی مجسم شناخت میں ظاہر ہو کر اپنا کام انجام دیتا ہے، اور جسم میں خُدا وہ خُدا ہے جو عظیم سفید تخت کے سامنے انسان کا فیصلہ کرتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ روح ہے یا جسم، وہ جو فیصلے کا کام کرتا ہے، وہی خدا ہے جو آخری ایام میں بنی نوع انسان کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کی تشریح اس کے کام کی بنیاد پر کی گئی ہے، اور اس کی بیرونی حالت و صورت یا کئی دیگر عوامل کے مطابق اس کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ اگرچہ انسان ان الفاظ کے بارے میں تصورات پالتا ہے، لیکن کوئی بھی مجسم خدا کے فیصلے اور تمام بنی نوع انسان پر فتح کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس سے قطع نظر کہ انسان اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے، حقائق، آخر کار، حقائق ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ "کام خدا کرتا ہے، لیکن خدا جسم کی حالت میں نہیں ہے۔" یہ بکواس ہے کیونکہ یہ کام جسم کی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے، اس کام کے بعد انسان کے بارے میں خدا کے فیصلے کا کام دوسری بار ظاہر نہیں ہو گا؛ خدا اپنی دوسری تجسیم میں پہلے ہی پورے انتظام کے تمام کام کو ختم کر چکا ہے، اور خدا کے کام کا کوئی چوتھا مرحلہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ جس کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہ انسان ہے، انسان جو جسم کا ہے اور بدعنوان ہو گیا ہے، اور یہ شیطان کی روح نہیں ہے جس کا براہ راست فیصلہ کیا جاتا ہے، لہٰذا فیصلے کا کام روحانی دنیا میں نہیں بلکہ انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ انسان کی جسمانی بدعنوانی کے فیصلے کا کام کرنے کے لیے مجسم خدا سے زیادہ موزوں اور اہل کوئی نہیں۔ اگر فیصلہ براہ راست خدا کی روح کی طرف سے کیا جاتا تو یہ سب کے لیے قابل قبول نہ ہوتا۔ مزید برآں، چونکہ روح انسان کے سامنے آنے سے قاصر ہے، اس لیے انسان کے لیے ایسے کام کو قبول کرنا مشکل ہو گا، اور اس وجہ سے، اثرات فوری نہیں ہوں گے، اور اس کو تو امکان ہی نہیں ہے کہ انسان خدا کے متحمل مزاج کو زیادہ واضح طور سے دیکھنے کا اہل ہو سکے۔ شیطان کو مکمل طور پر تب ہی شکست دی جا سکتی ہے جب مجسم خدا بنی نوع انسان کی بدعنوانی کا فیصلہ کرے۔ عام انسانیت کے حامل انسان جیسا ہونے کے ناطے، مجسم خدا براہ راست انسان کی بے ایمانی کا فیصلہ کر سکتا ہے؛ یہ اُس کے فطری تقدس اور اُس کے غیر معمولی پن کا نشان ہے۔ صرف خدا ہی انسان کا فیصلہ کرنے کا اہل ہے، اور صرف وہی یہ حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ وہ سچائی اور راستبازی کا حامل ہے، لہٰذا وہ انسان کا فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔ جو لوگ سچائی اور راستبازی کے حامل نہیں ہیں وہ دوسروں کا فیصلہ کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ اگر یہ کام خُدا کی رُوح انجام دیتی تو اِس کا مطلب شیطان پر فتح نہ ہوتا۔ روح فطری طور پر فانی مخلوقات سے زیادہ بلند ہے، اور خدا کی روح فطری طور پر مقدس ہے، اور جسم پر غالب ہے۔ اگر روح یہ کام براہ راست کرتی، تو وہ انسان کی تمام نافرمانیوں کا فیصلہ کرنے کی اہل نہ ہو پاتی اور انسان کی تمام بے ایمانیوں کو ظاہر نہ کر پاتی۔ کیونکہ فیصلے کا کام بھی خدا کے بارے میں انسان کے تصورات سے ہوتا ہے اور انسان کے روح کے بارے میں کبھی کوئی تصورات نہیں تھے، اور اسی وجہ سے روح انسان کی بے ایمانی کو بہتر طور پر ظاہر کرنے سے قاصر ہے، اس طرح کی بے ایمانی کو مکمل طور پر ظاہر کرنا تو اور بھی دور کی بات ہے۔ مجسم خدا ان تمام لوگوں کا دشمن ہے جو اسے نہیں جانتے۔ انسان کے تصورات اور اس کی خدا کی مخالفت کو پرکھتے ہوئے وہ بنی نوع انسان کی تمام نافرمانیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جسم کی حالت میں اس کے کام کے اثرات روح کے کام کے مقابلے زیادہ واضح ہیں۔ لہٰذا، تمام بنی نوع انسان کا فیصلہ براہ راست روح کے ذریعے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ مجسم خدا کا کام ہے۔ گوشت پوست کے خدا کو انسان دیکھ اور چھو سکتا ہے اور گوشت پوست کا خدا انسان کو مکمل طور پر فتح کر سکتا ہے۔ گوشت پوست کے خدا کے ساتھ اپنے تعلق میں، انسان مخالفت سے اطاعت کی طرف، اذیت سے قبولیت کی طرف، تصورات سے علم کی طرف، اور مسترد کرنے کی حالت سے محبت کرنے کی کیفیت کی طرف ترقی کرتا ہے۔ یہ مجسم خُدا کے کام کے اثرات ہیں۔ انسان صرف اسی کے فیصلے کو قبول کر کے نجات پاتا ہے، انسان اسے آہستہ آہستہ اس کے منہ سے کہی گئی باتوں سے پہچانتا ہے، انسان اس کی مخالفت کرتے وقت اس سے مغلوب ہوتا ہے، اور اس کی سزا کوقبول کر کے اس سے زندگی کا سامان حاصل کرتا ہے۔ یہ تمام کام جسم کی حالت میں خُدا کا کام ہے، اور یہ روح کی شناخت کے طور پر خُدا کا کام نہیں ہے۔ مجسم خدا کے ذریعے کیا گیا کام سب سے عظیم کام ہے، اور سب سے گہری بصیرت کا کام ہے، اور تجسیم کے کام کے دو مراحل خدا کے کام کے تین مراحل کا فیصلہ کن حصہ ہیں۔ انسان کی انتہائی زیادہ بدعنوانی مجسم خدا کے کام میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ خاص طور پر آخری ایام کے لوگوں پر کیا گیا کام بہت زیادہ مشکل ہے، اور ماحول مخالفانہ ہے، اور ہر قسم کے لوگوں کی صلاحیت بالکل ناقص ہے۔ پھر بھی اس کام کے اختتام پر، یہ کسی خامی کے بغیر، مناسب اثر حاصل کرے گا؛ یہ جسم کی حالت میں کیے گئے کام کا اثر ہے، اور یہ اثر روح کے کام سے زیادہ قائل کرنے والا ہے۔ خُدا کے کام کے تین مراحل جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے ختم کیے جائیں گے، اور اُن کا اختتام لازماً مجسم خدا کے ذریعے ہونا چاہیے۔ سب سے اہم اور سب سے فیصلہ کن کام جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے کیا جاتا ہے، اور انسان کی نجات لازماً ذاتی طور پر خدا کی طرف سے جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے انجام دی جانی چاہیے۔ اگرچہ تمام انسان محسوس کرتے ہیں کہ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے خدا کا انسان سے کوئی تعلق نہیں، لیکن درحقیقت اس جسم کا تعلق پوری نوع انسانی کی قسمت اور وجود سے ہے۔

خدا کے کام کا ہر مرحلہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر نافذ کیا جاتا ہے اور سب کا رخ بنی نوع انسان کی طرف ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کا یہ کام جسم کی حالت میں ہے، پھر بھی اس کا ہدف تمام نوع انسانی ہے؛ وہ تمام بنی نوع انسان کا خدا ہے اور وہ تمام تخلیق شدہ اور غیر تخلیق شدہ مخلوقات کا خدا ہے۔ اگرچہ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے اس کا کام ایک محدود دائرہ کار میں ہے، اور اس کام کا مقصد بھی محدود ہے، لیکن جب بھی وہ اپنا کام کرنے کے لیے جسم بنتا ہے تو وہ اپنے کام کے لیے ایک ایسی چیز کا انتخاب کرتا ہے جو اعلیٰ ترین نمائندہ ہوتی ہے؛ وہ سادہ اور غیر قابل ذکر لوگوں کا ایک گروہ منتخب نہیں کرتا جس پر کام کرنا ہوتا ہے، بلکہ اس کی بجائے اپنے کام کے ہدف کے طور پر لوگوں کا ایک ایسا گروہ منتخب کرتا ہے جو جسم میں اس کے کام کے نمائندے بننے کے قابل ہوں۔ لوگوں کے اس گروہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے اس کے کام کا دائرہ محدود ہے، اور خاص طور پر اس کے مجسم جسم کے لیے تیار کیا گیا ہے، اور خاص طور پر اس کے جسم کی حالت میں کیے جانے والے کام کے لیے چنا گیا ہے۔ خدا کا اپنے کام کی اشیاء کا انتخاب بے بنیاد نہیں ہے، بلکہ اصول کے مطابق کیا جاتا ہے: کام کا مقصد جسمانی خدا کے کام کے لیے فائدہ مند ہونا چاہیے، اور پوری نوع انسانی کی نمائندگی کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر، یہودی یسوع کی ذاتی نجات کو قبول کرنے میں تمام نوع انسانی کی نمائندگی کرنے کے قابل تھے، اور چینی مجسم خدا کی ذاتی فتح کو قبول کرنے میں پوری نوع انسانی کی نمائندگی کرنے کے قابل ہیں۔ یہودیوں کی تمام بنی نوع انسان کی نمائندگی کی ایک بنیاد ہے، اور خدا کی ذاتی فتح کو قبول کرنے میں چینی عوام کی تمام بنی نوع انسان کی نمائندگی کی بھی ایک بنیاد ہے۔ بچائے جانے کی اہمیت کو یہودیوں کے درمیان کیے جانے والے کام سے زیادہ کوئی چیز ظاہر نہیں کرتی ہے، اور کوئی چیز فتح کے کام کی جامعیت اور کامیابی کو چینی لوگوں کے درمیان کیے جانے والے فتح کے کام سے زیادہ ظاہر نہیں کرتی ہے۔ مجسم خدا کے کام اور کلام کا مقصد صرف لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے لیے ہوتا ہے، لیکن درحقیقت، اس چھوٹے گروہ کے درمیان اس کا کام پوری کائنات کا کام ہے، اور اس کا کلام پوری نوع انسانی کے لیے ہے۔ جسم میں اُس کا کام ختم ہونے کے بعد، اُس کی پیروی کرنے والے اُس کام کو پھیلانا شروع کر دیں گے جو اُس نے ان کے درمیان کیا ہے۔ جسم میں اس کے کام کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ صحیح الفاظ اور نصیحتیں، اور انسانوں کے لیے اپنا مخصوص ارادہ، ان لوگوں پر چھوڑ سکتا ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں، تاکہ اس کے بعد اس کے پیروکار اس کے جسمانی حالت میں کیے گئے تمام کاموں کو، اور تمام بنی نوع انسان کے لیے اس کے ارادے کو، زیادہ درست اور زیادہ ٹھوس طریقے سے ان تک آگے بڑھا سکیں جو اس طریقے کو قبول کرتے ہیں۔ انسان کے درمیان صرف جسم کی حالت میں خدا کا کام ہی خدا کا انسان کے ساتھ ہونے اور انسان کے ساتھ رہنے کی حقیقت کو صحیح معنوں میں پورا کرتا ہے۔ صرف یہی کام انسان کی خُدا کے چہرے کو دیکھنے، خُدا کے کام کا مشاہدہ کرنے اور خُدا کا ذاتی کلام سننے کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔ مجسم خُدا اُس دور کا خاتمہ کرتا ہے جب صرف یہوواہ کی پشت بنی نوع انسان پر ظاہر ہوئی تھی اور وہ مبہم خُدا پر بنی نوع انسان کے اعتقاد کے دور کو بھی ختم کرتا ہے۔ خاص طور پر، آخری مجسم خدا کا کام تمام بنی نوع انسان کو ایک ایسے دور میں لاتا ہے جو زیادہ حقیقت پسندانہ، زیادہ عملی اور زیادہ خوبصورت ہے۔ وہ نہ صرف قانون اور عقیدے کے دور کا اختتام کرتا ہے بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان پر ایک ایسے خدا کو ظاہر کرتا ہے جو حقیقی اور عام ہے، جو راستباز اور مقدس ہے، جو انتظامی منصوبے کے کام کو کھولتا ہے اور جو بنی نوع انسان کے اسرار اور منزل کو ظاہر کرتا ہے، جس نے بنی نوع انسان کو پیدا کیا اور جو انتظامی کام کو ختم کرتا ہے اور جو ہزاروں سالوں سے پوشیدہ ہے۔ وہ ابہام کے دور کو مکمل طور پر ختم کرتا ہے، وہ اس دور کا اختتام کرتا ہے جس میں تمام نوع انسانی نے خدا کے چہرے کو تلاش کرنا چاہا لیکن وہ اس سے قاصر تھی، وہ اس دور کو ختم کرتا ہے جس میں تمام بنی نوع انسان نے شیطان کی خدمت کی، اور وہ تمام بنی نوع انسان کی ایک بالکل نئے دور کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ خدا کی روح کی جگہ جسم کی حالت میں خدا کے کام کا نتیجہ ہے۔ جب خُدا اپنے جسم میں کام کرتا ہے، تو اُس کی پیروی کرنے والے اُن چیزوں کی، جو ایسا لگتا ہے کہ موجود ہیں اور موجود نہیں ہیں، کی مزید تلاش نہیں کرتے اور انھیں ڈھونڈنے کے لیے ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتے، اور وہ مبہم خُدا کی مرضی کے مطابق اندازہ لگانا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب جسم کی حالت میں خُدا اپنے کام کو پھیلاتا ہے، تو جو لوگ اُس کی پیروی کرتے ہیں وہ اُس کے جسم کی حالت میں کیے گئے کام کو تمام مذاہب اور فرقوں تک پہنچائیں گے، اور وہ اُس کا سب کلام تمام بنی نوع انسان کے کانوں تک پہنچائیں گے۔ جو کچھ اس کی خوشخبری حاصل کرنے والے سنتے ہیں وہ اس کے کام کے حقائق ہوں گے، وہ چیزیں ہوں گی جو انسان نے ذاتی طور پر دیکھی اور سنی ہیں، اور وہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ حقائق ہوں گے۔ یہ حقائق وہ ثبوت ہیں جن کے ساتھ وہ کام کو پھیلاتا ہے، اور یہ وہ اوزار بھی ہیں جنہیں وہ کام پھیلانے میں استعمال کرتا ہے۔ حقائق کے وجود کے بغیر، اس کی خوشخبری تمام ممالک اور تمام جگہوں پر نہیں پھیلے گی؛حقائق کے بغیر، صرف انسان کے تصورات کے ساتھ، وہ کبھی بھی پوری کائنات کو فتح کرنے کا کام نہیں کر سکے گا۔ روح انسان کے لیے ناقابل لمس ہے، اور انسان کے لیے پوشیدہ ہے، اور روح کا کام انسان کے لیے خُدا کے کام کے مزید ثبوت یا حقائق کو چھوڑنے کے قابل نہیں ہے۔ انسان کبھی بھی خدا کے حقیقی چہرے کو نہیں دیکھے گا، وہ ہمیشہ ایک مبہم خدا پر یقین رکھے گا جو کہ موجود ہی نہیں ہے۔ انسان کبھی بھی خدا کے چہرے کو نہیں دیکھے گا، اور نہ ہی انسان کبھی بھی خدا کی طرف سے ذاتی طور پر کہا گیا کلام سنے گا۔ انسان کے تصورات، آخرکار، کھوکھلے ہیں، اور خدا کے حقیقی چہرے کی جگہ نہیں لے سکتے؛ انسان خدا کی جبلی فطرت، اور خود خدا کے کام کی نقالی نہیں کر سکتا ہے۔ آسمان میں غیر مرئی خدا اور اس کے کام کو زمین پر صرف مجسم خدا کے ذریعے لایا جا سکتا ہے جو ذاتی طور پر انسان کے درمیان اپنا کام کرتا ہے۔ یہ خدا کا انسان کے سامنے ظاہر ہونے کا سب سے مثالی طریقہ ہے، جس میں انسان خدا کو دیکھتا ہے اور خدا کے حقیقی چہرے کو پہچانتا ہے، اور یہ غیر مجسم خدا سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس مرحلے تک اپنے کام کو انجام دینے کے بعد، خدا کے کام نے پہلے ہی بہترین اثر حاصل کر لیا ہے، اور مکمل طور پر کامیاب ہوا ہے۔ جسم کی حالت میں خدا کا ذاتی کام اس کے پورے انتظام کا نوے فیصد کام پہلے ہی مکمل کر چکا ہے۔ اس جسم نے اپنے تمام کام کے لیے ایک بہتر آغاز اور اپنے تمام کام کا خلاصہ فراہم کیا ہے، اور اپنے تمام کام کا اعلان کیا ہے، اور اس تمام کام کو آخری مرتبہ مکمل طور پر پھر سے پورا کر دیا ہے۔ اس کے بعد، خدا کے کام کے چوتھے مرحلے کو انجام دینے کے لیے کوئی اور مجسم خدا نہیں ہوگا، اور خدا کی تیسری تجسیم کا کوئی حیرت انگیز کام کبھی نہیں ہوگا۔

جسم کی حالت میں خدا کے کام کا ہر مرحلہ اس کے تمام دور کے کام کی نمائندگی کرتا ہے، اور انسان کے کام کی طرح یہ کسی خاص مدت کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کی آخری تجسیم کے کام کے ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا کام مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے، کیونکہ جسم کی حالت میں اس کا کام پورے دور کی نمائندگی کرتا ہے، اور صرف اس مدت کی نمائندگی نہیں کرتا ہے جس میں وہ جسم کی حالت میں اپنا کام کرتا ہے۔ صرف ایسے ہے کہ جب وہ جسم کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ پورے دور کا اپنا کام ختم کرتا ہے، جس کے بعد یہ تمام جگہوں پر پھیل جاتا ہے۔ مجسم خدا اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے بعد اپنے مستقبل کا کام ان لوگوں کے سپرد کر دے گا جو اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس طرح اس کا پورے دور کا کام بغیر رکے چلتا رہے گا۔ تجسیم کے پورے دور کا کام صرف تب ہی مکمل سمجھا جائے گا جب یہ پوری کائنات میں پھیل جائے گا۔ مجسم خدا کا کام ایک نئے دور کا آغاز کرتا ہے، اور جو لوگ اس کے کام کو جاری رکھتے ہیں وہ وہی ہیں جنھیں وہ استعمال کرتا ہے۔ انسان کی طرف سے کیا گیا تمام کام جسم کی حالت میں موجود خدا کی ذمہ داری کے اندر ہے، اور یہ اس دائرہ کار سے باہر جانے کے قابل نہیں ہے. اگر مجسم خدا اپنا کام کرنے نہ آتا تو انسان پرانے دور کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور نئے دور کا آغاز نہ کر پاتا۔ انسان کی طرف سے کیا جانے والا کام محض اس کے فرض کے دائرے میں ہے جو انسان کے لیے کرنا ممکن ہے، اور یہ خدا کے کام کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ صرف مجسم خدا ہی آکر اس کام کو مکمل کر سکتا ہے جو اسے کرنا چاہیے اور اس کے علاوہ کوئی اور اس کی طرف سے یہ کام نہیں کر سکتا ہے۔ بے شک، میں جو بات کر رہا ہوں وہ تجسیم کے کام کے حوالے سے ہے۔ یہ مجسم خدا پہلے کام کا ایک مرحلہ انجام دیتا ہے جو انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتا، اس کے بعد وہ مزید کام کرتا ہے جو انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتا۔ کام کا مقصد انسان کو فتح کرنا ہے۔ ایک لحاظ سے، خدا کی تجسیم انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہے، اس کے علاوہ وہ مزید کام کرتا ہے جو انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتا ہے، اور اس طرح انسان کے اس کے بارے میں تنقیدی نظریات اور بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ وہ صرف ان لوگوں میں فتح کا کام کرتا ہے جو اس کے بارے میں انتہائی زیادہ خیالات رکھتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، ایک بار جب وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کر لے گا تو تمام لوگ اس کی حاکمیت کے تابع ہو جائیں گے۔ اس کام کی حقیقت نہ صرف چینی لوگوں میں جھلکتی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی نمائندگی کرتی ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو کس طرح فتح کیا جائے گا۔ ان لوگوں پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ان اثرات کا پیش خیمہ ہیں جو تمام بنی نوع انسان پر مرتب ہوں گے اور آئندہ جو کام وہ کرے گا اس کے اثرات ان لوگوں پر ہونے والے اثرات سے بھی بہت بڑھ جائیں گے۔ جسم کی حالت میں ہوتے ہوئے خدا کا کام بہت دھوم دھام والا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ غیر یقینی دھندلاہٹ میں گھرا ہوا ہے۔ یہ حقیقی اور اصلی ہے، اور یہ وہ کام ہے جس کا سمجھنا ایک اور ایک دو کے برابر ہونے کی طرح آسان ہے۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور نہ ہی کسی کو دھوکہ دیتا ہے۔ لوگ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ حقیقی اور اصلی چیزیں ہیں اور انسان جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ حقیقی سچائی اور علم ہے۔ جب کام ختم ہو جائے گا تو انسان کو اُس کے بارے میں ایک نیا علم حاصل ہو گا، اور جو لوگ حقیقی معنوں میں کوشش کرتے ہیں اُن کے پاس اُس کے بارے میں پھر کوئی تصور نہیں رہے گا۔ یہ صرف چینی لوگوں پر اس کے کام کا اثر نہیں ہے، بلکہ یہ تمام بنی نوع انسان کو فتح کرنے میں اس کے کام کے اثر کی نمائندگی بھی کرتا ہے، کیونکہ تمام بنی نوع انسان کو فتح کرنے کے کام کے لیے یہ جسم، اور اس جسم کے کام، اور اس جسم کی ہر چیز سے زیادہ فائدہ مند کوئی اور چیز نہیں ہے۔ وہ اس کے آج کے کام کے لیے فائدہ مند ہیں، اور مستقبل میں اس کے کام کے لیے فائدہ مند ہیں۔ یہ جسم تمام بنی نوع انسان کو فتح کرے گا اور تمام بنی نوع انسان کو حاصل کرے گا۔ اس سے بہتر کوئی کام نہیں جس کے ذریعے تمام بنی نوع انسان خدا کو دیکھے اور خدا کی اطاعت کرے اور خدا کو پہچانے۔ انسان کی طرف سے کیا گیا کام صرف ایک محدود دائرہ کار کی نمائندگی کرتا ہے، اور جب خدا اپنا کام کرتا ہے تو وہ کسی خاص شخص سے بات نہیں کرتا، بلکہ تمام بنی نوع انسان سے اور ان تمام لوگوں سے بات کرتا ہے جو اس کے کلام کو قبول کرتے ہیں۔ وہ جس انجام کا اعلان کرتا ہے وہ محض ایک مخصوص شخص کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ تمام بنی نوع انسان کا خاتمہ ہے۔ وہ کسی کے ساتھ کوئی خاص سلوک نہیں کرتا، نہ ہی وہ کسی کو اذیت دیتا ہے، اور وہ پوری انسانیت کے لیے کام کرتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے۔ اس لیے اس مجسم خدا نے تمام نوع انسانی کی پہلے ہی قسم کے لحاظ سے درجہ بندی کر دی ہے، تمام بنی نوع انسان کا پہلے ہی فیصلہ کر دیا ہے، اور تمام نوع انسانی کے لیے ایک مناسب منزل کا بندوبست کر دیا ہے۔ اگرچہ خدا صرف چین میں اپنا کام کرتا ہے لیکن درحقیقت اس نے پوری کائنات کا کام پہلے ہی طے کر رکھا ہے۔ وہ انتظار نہیں کر سکتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان میں اپنے کام کے پھیلنے کے بعد ہی وہ مرحلہ وار اپنا کلام کہے اور انتظامات کرے۔ کیا یہ بہت تاخیر نہیں ہو گی؟ اب وہ مستقبل کے کام کو پیشگی مکمل کرنے کے قابل ہے۔ کیونکہ جو کام کر رہا ہے وہ جسم کی حالت میں خدا ہے، وہ ایک محدود دائرہ کار میں لامحدود کام کر رہا ہے، اور اس کے بعد وہ انسان سے وہ فرض ادا کروائے گا جو انسان کو ادا کرنا چاہیے؛ یہ اس کے کام کا اصول ہے۔ وہ صرف ایک مدت کے لیے انسان کے ساتھ رہ سکتا ہے اور وہ پورے دور کا کام ختم ہونے کے وقت تک انسان کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ یہ اس لیے ہے کہ وہ خدا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے کام کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ اس کے بعد، وہ اپنے الفاظ کے مطابق تمام بنی نوع انسان کی قسم کے لحاظ سے درجہ بندی کرے گا، اور نوع انسانی اس کے کلام کے مطابق مرحلہ وار اس کے کام میں داخل ہو گی۔ کوئی بھی بچ نہیں پائے گا، اور سب کو لازمی اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ لہٰذا، مستقبل میں دَور کی راہنمائی روح کی طرف سے نہیں ہو گی بلکہ راہنمائی اس کے کلام سے ہو گی۔

جسم کی حالت میں کیا جانے والا خدا کا کام لازماً جسم کی حالت میں ہونا چاہیے۔ اگر یہ براہِ راست خُدا کی روح کی طرف سے کیا گیا ہوتا تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر یہ روح کی طرف سے بھی کیا جاتا تو بھی کام کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، اور بالآخر غیر موثر ہو جاتا۔ تمام مخلوقات جاننا چاہتی ہیں کہ کیا خالق کے کام کی اہمیت ہے، اور یہ کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ کس چیز کی خاطر کیا جاتا ہے، اور کیا خدا کا کام اختیار اور حکمت سے بھرپور ہے، اور کیا یہ انتہائی قیمتی اور اہم ہے؟ وہ جو کام کرتا ہے وہ تمام بنی نوع انسان کی نجات کے لیے، شیطان کو شکست دینے اور ہر چیز کے درمیان اپنی گواہی دینے کے لیے کرتا ہے۔ اس طرح، وہ کام جو وہ کرتا ہے لازمی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہونا چاہیے۔ انسان کے جسم کو شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے، اور یہ سب سے زیادہ اندھا ہو گیا ہے، اور اسے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ خُدا کے جسم کی حالت میں ذاتی طور پر کام کرنے کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ اُس کی نجات کا مقصد انسان ہے، جو گوشت پوست کا ہے، اور کیونکہ شیطان بھی انسان کے جسم ہی کو خُدا کے کام میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ دراصل انسان کو فتح کرنے کا کام ہے، اور اس کے ساتھ ہی، انسان خدا کی نجات کا ہدف بھی ہے۔ اس طرح مجسم خدا کا کام ضروری ہے۔ شیطان نے انسان کے جسم کو بدعنوان بنا دیا ہے، اور انسان شیطان کا پیکر بن گیا ہے، اور خدا کی طرف سے شکست ملنے کی چیز بن گیا۔ اس طرح شیطان سے جنگ کرنے اور بنی نوع انسان کو بچانے کا کام زمین پر ہوتا ہے، اور شیطان سے جنگ کرنے کے لیے خدا کو لازماً انسان بننا چاہیے۔ یہ انتہائی عملی کام ہے۔ جب خُدا جسم کی حالت میں کام کر رہا ہوتا ہے، تو وہ دراصل شیطان کے ساتھ جسم کی حالت میں جنگ کر رہا ہوتا ہے۔ جب وہ جسم کی حالت میں کام کرتا ہے، تو وہ روحانی عالم میں اپنا کام کر رہا ہوتا ہے، اور وہ روحانی عالم میں اپنے تمام کام کو زمین پر حقیقی بنا دیتا ہے۔ جسے فتح کیا جاتا ہے وہ انسان ہے، انسان جو اس کا نافرمان ہے، اور جو شکست کھا گیا ہے، جو شیطان کا پیکر ہے (یقیناً یہ بھی انسان ہے)، جو اس کی دشمنی میں ہے، اور وہ جو بالآخر بچا لیا گیا گیا ہے، وہ بھی انسان ہے۔ اس طرح خدا کے لیے یہ اور بھی ضروری ہے کہ وہ انسان بن جائے جس کے پاس مخلوق کا بیرونی خول ہو، تاکہ وہ شیطان کے ساتھ حقیقی جنگ کر سکے، انسان کو فتح کر سکے، جو اس کا نافرمان ہے اور اسی کی طرح کا بیرونی خول رکھتا ہے۔ اور انسان کو بچانے کے لیے، جو اس کے جیسے ہی بیرونی خول کا ہے اور جسے شیطان نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا دشمن انسان ہے، اس کی فتح کا ہدف انسان ہے، اور اس کی نجات کا ہدف انسان ہے، جسے اس نے پیدا کیا ہے۔ اس لیے اسے لازمی انسان بننا چاہیے، اور اس طرح اس کا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ وہ شیطان کو شکست دینے اور بنی نوع انسان کو فتح کرنے کے قابل ہے، اور اس کے علاوہ، بنی نوع انسان کو بچانے کے قابل ہے۔ اگرچہ یہ جسم عام اور حقیقی ہے، وہ کوئی عام جسم نہیں ہے: وہ ایسا جسم نہیں ہے جو صرف انسان ہے، بلکہ وہ ایسا جسم ہے جو انسانی اور الوہی دونوں ہے۔ یہ اس کے اور انسان کے درمیان فرق ہے اور یہ خدا کی شناخت کا نشان ہے۔ صرف اس جیسا جسم ہی وہ کام کر سکتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے، اور جسم میں خدا کی ذمہ داری کو پورا کر سکتا ہے، اور انسان کے درمیان اپنے کام کو پوری طرح سے مکمل کر سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کے درمیان اس کا کام ہمیشہ کھوکھلا اور عیب دار ہوتا۔ گو کہ خدا شیطان کی روح سے جنگ کر سکتا ہے اور فتح یاب ہو سکتا ہے، لیکن بدعنوان انسان کی پرانی فطرت کبھی ختم نہیں ہو سکتی، اور جو لوگ خدا کے نافرمان ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ کبھی بھی صحیح معنوں میں اس کے تسلط کے تابع نہیں ہو سکتے، جس کا مطلب یہ ہے کہ: وہ کبھی بھی بنی نوع انسان کو فتح نہیں کر سکتا، اور پوری انسانیت کو کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر زمین پر اس کے کام کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، تو اس کے انتظام کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکے گا، اور پوری انسانیت آرام میں داخل نہیں ہو سکے گی. اگر خدا اپنی تمام مخلوقات کے ساتھ آرام میں داخل نہیں ہو سکتا تو پھر اس طرح کے انتظامی کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اور اس کے نتیجے میں خدا کی عظمت غائب ہو جائے گی۔ اگرچہ اس کے جسم کا کوئی اختیار نہیں ہے، لیکن جو کام وہ کرتا ہے اس کا اثر ہو چکا ہو گا۔ یہ اس کے کام کی ناگزیر سمت ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم اختیار کا مالک ہے یا نہیں، جب تک وہ خود خدا کے کام کرنے پر قادر ہے، تب تک وہ خود خدا ہے۔ چاہے یہ جسم کتنا ہی عام اور معمولی کیوں نہ ہو، وہ وہی کام کر سکتا ہے جو اسے کرنا چاہیے، کیونکہ یہ جسم خدا ہے اور محض ایک انسان نہیں ہے۔ یہ جسم وہ کام کر سکتا ہے جو انسان نہیں کر سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا باطنی جوہر کسی بھی انسان کے برعکس ہے، اور اس کے انسان کو بچانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی شناخت کسی بھی انسان سے مختلف ہے۔ یہ جسم بنی نوع انسان کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ وہ انسان ہے اور اس سے بھی بڑھ کر وہ خدا ہے، کیونکہ وہ ایسے کام کر سکتا ہے جو کوئی عام جسم میں انسان نہیں کر سکتا، اور اس لیے کہ وہ بدعنوان انسان کو بچا سکتا ہے، جو اس کے ساتھ زمین پر رہتا ہے۔ اگرچہ وہ انسان سے مماثلت رکھتا ہے، لیکن مجسم خدا بنی نوع انسان کے لیے کسی بھی قابل قدر شخص سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ وہ ایسا کام کرسکتا ہے جو خدا کی روح سے نہیں ہوسکتا، وہ خدا کی روح سے زیادہ قابل ہے کہ وہ خود اپنے خدا ہونے کی گواہی دے سکے، اور انسانوں کو مکمل طور پر حاصل کرنے کا خدا کی روح سے زیادہ قابل ہے۔ اس کے نتیجے میں، اگرچہ یہ جسم عام اور معمولی ہے، لیکن بنی نوع انسان کے لیے اس کی شراکت اور بنی نوع انسان کے وجود میں اس کی اہمیت اسے بہت قیمتی بناتی ہے، اور اس جسم کی حقیقی قدر و اہمیت کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ پیمائش ہے۔ اگرچہ یہ جسم شیطان کو براہ راست تباہ نہیں کر سکتا، لیکن وہ اپنے کام کو بنی نوع انسان کو فتح کرنے اور شیطان کو شکست دینے، اور شیطان کو مکمل طور پر اپنے تسلط کے تابع کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ خُدا مجسم ہے اور اس لیے وہ شیطان کو شکست دے سکتا ہے اور بنی نوع انسان کو بچانے کے قابل ہے۔ وہ شیطان کو براہِ راست تباہ نہیں کرتا، بلکہ اس کی بجائے بنی نوع انسان کو فتح کرنے کا کام کرنے کے لیے جسم بن جاتا ہے، جسے شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے۔ اس طرح وہ اپنی مخلوقات میں اپنی ذات کی گواہی دینے کے بہتر طور پر قابل ہے، اور وہ بدعنوان انسان کو بچانے کے زیادہ قابل ہے۔ مجسم خُدا کا شیطان کو شکست دینا زیادہ بڑی گواہی ہے، اور خُدا کے روح کے ذریعے شیطان کو براہِ راست تباہ کرنے سے زیادہ قائل کرنے والی ہے۔ جسم کی حالت میں خدا انسان کی خالق کو جاننے میں مدد کرنے کے زیادہ قابل ہے اور اپنی مخلوقات کے درمیان خود اپنی گواہی دینے کے زیادہ قابل ہے۔

سابقہ: خدا کے کام کے تین مراحل کو جاننا خدا کو جاننے کا راستہ ہے

اگلا: خدا کے مسکن بنائے گئے جسم کا جوہر

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp