کمال حاصل کرنے کے لیے خدا کی مرضی دھیان میں رکھیں
تُو خدا کی مرضی کا جتنا زیادہ دھیان رکھے گا، تُو اتنا ہی زیادہ بوجھ اٹھائے گا، اور جتنا زیادہ بوجھ تُو اٹھائے گا، تیرا تجربہ اتنا ہی بہتر ہو گا۔ جب تُو خدا کی مرضی سے آگاہ ہو جائے گا تو خدا تجھ پر ایک بوجھ ڈالے گا اور پھر تجھے ان کاموں کی آگہی دے گا جو اس نے تجھے تفویض کیے ہیں۔ جب خدا تجھے یہ بوجھ دے گا، تو تُو خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے وقت تمام متعلقہ سچائیوں پر توجہ دے گا۔ اگر تیرا بوجھ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں کی حالت سے متعلق ہے تو یہ وہ بوجھ ہے جو خدا نے تجھے سونپا ہے اور تُو اس بوجھ کو ہمیشہ اپنی روز مرہ کی عبادات میں اپنے ساتھ اٹھائے گا۔ جو کچھ خدا کرتا ہے وہ تجھ پر بار کر دیا گیا ہے اور تُو وہ کرنے کو تیار ہے جو خدا کرنا چاہتا ہے؛ یہی خدا کا بوجھ اپنا سمجھ کر اٹھانے کا مطلب ہے۔ خدا کے کلام کو کھانے اور پینے کے اس موقع پر، تُو اس قسم کے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا، اور حیرانگی سےسوچے گا کہ میں ان مسائل کو کیسے حل کرنے جا رہا ہوں؟ میں کیسے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو آزادی حاصل کرنے اور روحانی لطف حاصل کرنے کے قابل بنا سکتا ہوں؟ رفاقت کے دوران اور خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے ہوئے بھی، تُو یہ مسائل حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے گا، تُو اس کلام کے کھانے اور پینے پر توجہ مرکوز کرے گا جو ان مسائل سے متعلق ہے۔ تُونے اس کا کلام کھاتے اور پیتے ہوئے بھی ایک بوجھ اٹھارکھا ہو گا۔ ایک بار جب تُو خدا کے تقاضوں کو سمجھ لے گا تو تجھے واضح اندازہ ہو جائے گا کہ تجھے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے۔ یہ تیرے بوجھ کی بدولت لائی گئی روح القدس کی بصیرت اور روشنی ہے، اور یہ خدا کی ہدایت بھی ہے جو تجھے عطا کی گئی ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ اگر تجھ پر کوئی بوجھ نہ ہو تو تُو خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے وقت متوجہ نہیں ہو گا؛ جب تُو ایک بوجھ اٹھائے ہوئے خدا کے کلام کو کھاتا اور پیتا ہے، تو تُو اس کے جوہر کو سمجھ سکتا ہے، اپنا راستہ تلاش کر سکتا ہے، اور خدا کی مرضی کا دھیان رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی دعاؤں میں تجھے خدا سے یہ مانگنا چاہیے کہ خدا تجھ پر زیادہ بوجھ ڈالے اور تجھے اس سے بھی زیادہ بڑے کام سونپ دے، تاکہ تیرے آگے ایک ایسا راستہ ہو جس پر تُو عمل پیرا ہو سکے؛ تاکہ خدا کے کلام کے کھانے اور پینے کا تجھ پر زیادہ اثر ہو؛ تاکہ تُو اس کے الفاظ کے جوہر کو سمجھنے کے قابل ہو جائے؛ اور تاکہ تُو روح القدس سے تحریک پانے کا زیادہ اہل ہو جائے۔
خدا کے کلام کو کھانا پینا، عبادت کرنا، خدا کے بوجھ کو قبول کرنا، اور ان کاموں کو قبول کرنا جو وہ تجھے تفویض کرتا ہے – یہ سب اس لیے ہے تاکہ تیرے سامنے ایک راستہ ہو۔ خدا کی ذمہ داری کا جتنا زیادہ بوجھ تجھ پر پڑے گا، اتنا ہی تیرے لیے اس کی طرف سے کامل ہونا آسان ہو جائے گا۔ کچھ لوگ خدا کی خدمت میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، یہاں تک کہ جب انھیں بلایا گیا ہے؛ یہ سست لوگ ہیں جو صرف آسائش میں موج میلہ کرنا چاہتے ہیں۔ جتنا زیادہ تجھے دوسروں کے ساتھ مل کر خدمت کرنے کے لیے کہا جائے گا، اتنا ہی زیادہ تجربہ تُو حاصل کرے گا۔ زیادہ بوجھ اور تجربات کا حامل ہونے کی وجہ سے، تجھےکامل ہونے کے زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ اس لیے، اگر تُو اخلاص سے خدا کی خدمت کر سکتا ہے، تو تُو خدا کے بوجھ کا دھیان رکھے گا؛ اس طرح تجھے خدا کی طرف سے کامل ہونے کے زیادہ مواقع ملیں گے۔ یہ تو بس ایسے لوگوں کا گروپ ہے جو فی الحال کامل ہو رہا ہے۔ روح القدس جتنا زیادہ تجھے چھُوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وقت تُو خدا کے بوجھ کا دھیان رکھنے کے لیے وقف کرے گا، اتنا ہی زیادہ تجھے خدا کی طرف سے کامل کیا جائے گا، اور اتنا ہی زیادہ تجھے اس کی طرف سے حاصل کیا جائے گا – یہاں تک کہ، آخر میں، تُو ایک ایسا شخص بن جائے گا جسے خدا استعمال کرتا ہے۔ فی الحال، کچھ ایسے لوگ ہیں جو کلیسا کے لیے کوئی بوجھ نہیں اٹھاتے۔ یہ لوگ سست اور لاپروا ہیں، اور صرف اپنی جسم کی پروا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ انتہائی خود غرض اور اندھے بھی ہوتے ہیں۔ اگر تُو اس کے معاملے کو واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا ہے تو تُو کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تُو خدا کی مرضی کا جتنا زیادہ دھیان رکھے گا، اتنا ہی زیادہ بوجھ وہ تجھے سونپے گا۔ خود غرض لوگ، اس طرح کی چیزوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں؛ وہ قیمت چُکانے کے لئے تیار نہیں ہیں اور، اس کے نتیجے میں، وہ خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کے مواقع کھو دیں گے۔ کیا وہ اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچا رہے ہیں؟ اگر تو ایک ایسا شخص ہے جو خدا کی مرضی کا دھیان رکھتا ہے، تو تُو کلیسیا کے لیے ایک حقیقی بوجھ پیدا کرے گا۔ درحقیقت، اسے کلیسیا کے لیے بوجھ کہنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اسے ایک ایسا بوجھ کہا جائے جو تُو اپنی زندگی کی خاطر اٹھاتا ہے، کیونکہ اس بوجھ کا مقصد جو تُو کلیسیا کے لیے پیدا کرتا ہے، یہ ہے کہ تجھے اس طرح کے تجربات کو خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کے لیے استعمال کرنے دیا جائے۔ لہٰذا، جو کوئی کلیسیا کے لیے سب سے بڑا بوجھ اٹھاتا ہے، جو کوئی زندگی میں داخل ہونے کے لیے بوجھ اٹھاتا ہے – وہ وہی ہوں گے جو خدا کی طرف سے کامل کیے جاتے ہیں۔ کیا تُو نے یہ واضح طور پر دیکھا ہے؟ اگر تُو جس کلیسیا کے ساتھ ہے وہ ریت کی طرح بکھری ہوئی ہے، لیکن تُو فکر مند اور نہ ہی مضطرب ہے، اور جب تیرے بھائی اور بہنیں حسب معمول خدا کے کلام کو کھا اور پی نہیں رہے ہوتے ہیں، تو تُو ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے، تو پھر تُو کوئی بوجھ نہیں اٹھا رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اس قسم کے نہیں ہیں جن سے خدا راضی ہوتا ہے۔ وہ لوگ جن سے خدا راضی ہوتا ہے وہ راستبازی کی بھوک اور پیاس رکھتے ہیں اور خدا کی مرضی کا دھیان رکھتے ہیں۔ لہٰذا، تمھیں خدا کے بوجھ کے بارے میں یہاں اور ابھی ہوشیار رہنا چاہیے؛ خدا کے بوجھ کے بارے میں ہوشیار ہونے سے پہلے تمھیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ خدا اپنے راستباز مزاج کو تمام نوع انسانی کے سامنے ظاہر کرے۔ کیا اس وقت تک بہت دیر نہیں ہو جائے گی؟ اب خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کا ایک اچھا موقع ہے۔ اگر تُو اس موقع کو اپنی انگلیوں میں سے پھسل جانے دے گا، تو تُو زندگی بھر اس پر پچھتاتا رہے گا، بالکل اسی طرح جیسے موسیٰ، کنعان کی اچھی زمین میں داخل نہیں ہو سکا تھا اور ساری زندگی اس پر افسوس کرتا رہا، اور یہی پچھتاوا لیے چل بسا۔ ایک بار جب خدا تمام لوگوں پر اپنی راستبازی ظاہر کر دے گا تو تُو ندامت سے بھر جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر خدا تجھے عذاب نہ بھی دے تو تُو اپنے آپ کو اپنے پچھتاوے کی وجہ سے سزا دے گا۔ کچھ لوگ اس بات کے قائل نہیں ہیں، لیکن اگر تجھے یقین نہیں ہے، تو بس انتظار کراور دیکھ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا واحد مقصد اس کلام کی تعمیل کرنا ہوتا ہے۔ کیا تُو اس کلام کی خاطر اپنے آپ کو قربان کرنے کو تیار ہے؟
اگر تُو خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کے مواقع تلاش نہیں کرتا، اور اگر تُو کمال کی جستجو میں سب سے آگے رہنے کی جدوجہد نہیں کرتا، تو آخر کار تُو ندامت سے بھر جائے گا۔ کمال حاصل کرنے کا بہترین موقع اس وقت ہے؛ اب ایک بہت اچھا وقت ہے۔ اگر تُو خلوص دل سے خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کی کوشش نہیں کرتا، تو ایک بار جب اس کا کام مکمل ہو جائے گا، تو بہت دیر ہو چکی ہو گی – تُو موقع کھو چکا ہو گا۔ قطع نظر اس کے کہ تیری خواہشات کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر خدا اب کام نہیں کر رہا ہے، تو تیری کوشش کے باوجود، تُو کبھی بھی کمال حاصل نہیں کر سکے گا۔ تجھے لازماً اس موقع سے فائدہ اٹھانا اور تعاون کرنا چاہیے جب کہ روح القدس اپنا بہت زیادہ کام کرتا ہے۔ اگر تُو یہ موقع گنوا دیتا ہے تو تجھے ایک اور موقع نہیں دیا جائے گا، چاہے تُو کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرے۔ تم میں سے کچھ روتے ہیں، ”اے خدا، میں تیرے بوجھ کا دھیان کرنے کے لیے تیار ہوں، اور میں تیری مرضی کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوں!“ تاہم، تیرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے جس پر عمل کر سکے، لہٰذا تیرے بوجھ قائم نہیں رہیں گے۔ اگر تیرے پاس آگے بڑھنے کا راستہ ہے تو، تُو ایک وقت میں ایک قدم کا تجربہ حاصل کرے گا، اور تیرا تجربہ اچھی ساخت والا اور منظم ہوگا۔ ایک بوجھ مکمل ہونے کے بعد تجھے دوسرا دے دیا جائے گا۔ جوں جوں تیری زندگی کا تجربہ گہرا ہوتا جائے گا، تو تیرے بوجھ بھی بڑھتے جائیں گے۔ کچھ لوگ صرف اس وقت بوجھ اٹھاتے ہیں جب روح القدس انھیں چھُوتا ہے؛ کچھ عرصے کے بعد، جب ان کے پاس عمل کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے، تو وہ کوئی بھی بوجھ اٹھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ تُو صرف خدا کے کلام کو کھانے اور پینے سے ہی بوجھ پیدا نہیں کر سکتا ہے۔ بہت سی سچائیوں کو سمجھنے سے، تُو فہم حاصل کرے گا، سچائی کا استعمال کرتے ہوئے مسائل کو حل کرنا سیکھے گا، اور خدا کے کلام اور خدا کی مرضی کی زیادہ درست تفہیم حاصل کر پائے گا۔ ان چیزوں کے ساتھ تُو اٹھانے کے لیے بوجھ پیدا کر پائے گا، اور صرف اس کے بعد ہی تُو کام صحیح طریقے سے انجام دینے کے قابل ہو گا۔ اگر تیرے پاس بوجھ ہے لیکن تجھے سچائی کی واضح تفہیم نہیں ہے تو پھر اس سے کام نہیں بنے گا، یا؛ تجھے خدا کے کلام کا ذاتی طور پر تجربہ کرنا چاہیے اور ان پر عمل کرنا جاننا چاہیے۔ جب تُو خود حقیقت میں داخل ہو جائے گا تب ہی تُو دوسروں کو فراہم کرنے کے قابل ہو سکے گا، دوسروں کی رہنمائی کر سکے گا، اور خدا کی طرف سے کامل ہو سکے گا۔
”دی پاتھ۔۔۔ (4)“ میں لکھا ہےکہ تم سب بادشاہی کے لوگ ہو، جنھیں خدا نے ادوار سے پہلے مقدر کر رکھا تھا، اور کوئی بھی اسے چھین نہیں سکتا۔ وہاں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ہر ایک کو خدا کی طرف سے استعمال اور کامل کیا جائے، اور وہ چاہتا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کے طور پر کھڑے ہوں، اور یہ کہ صرف خدا کے بندے بن کر ہی وہ خدا کی مرضی پوری کر سکتے ہیں۔ اس وقت، تم سب نے اس معاملے پر رفاقت کی تھی، خدا کے لوگوں کے معیارات کی بنیاد پر داخلے کے راستے کے بارے میں بات چیت کی۔ لہٰذا، اس دوران روح القدس کی طرف سے انجام دیا جانے والا کام تمام لوگوں کو ان کی منفی حالت سے باہر نکالنا اور انھیں مثبت حالت کی طرف لے جانا تھا۔ اس وقت، روح القدس کا کام ہر ایک کو خدا کے بندوں کے طور پر خدا کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنانا تھا، اور تم میں سے ہر ایک کو واضح طور پر یہ سمجھنے دینا تھا کہ تم خدا کے لوگ ہو، جیسا کہ ادوار سے پہلے مقدر کر دیا گیا تھا، اور شیطان تمھیں نہیں لے جا سکتا۔ تو تم سب نے دعا کی ”اے خدا! میں تیرے لوگوں میں سے ایک ہونے کو تیار ہوں کیونکہ ادوار سے قبل تو نے ہمارے مقدر طے کر دیے تھے اور چونکہ تُو نے ہمیں یہ مقام عطا فرمایا ہے۔ ہم اس مقام سے تجھے مطمئن کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ جب بھی تُو اس طرح دعا کرتاتو روح القدس چھولیتا؛ روح القدس اسی طرح کام کرتا تھا۔ اس زمانے میں، تجھے عبادت کرنی چاہیے اور خدا کے سامنے اپنے دلوں کو راضی برضا کرنے کے لیے اپنی تربیت کرنی چاہیے، تاکہ تُو زندگی کے لیے جدوجہد کر سکے اور بادشاہی کی تربیت میں داخل ہونے کی جستجو کر سکے۔ یہ پہلا قدم ہے۔ اس وقت، خدا کا کام یہ ہے کہ ہر شخص صحیح راستے پر داخل ہو جائے، ایک عمومی روحانی زندگی اور مستند تجربات حاصل کرے، روح القدس کے ذریعے تحریک پائے، اور – ان امور کی بنیاد پر – خدا کے احکامات قبول کرے۔ بادشاہی کی تربیت میں داخل ہونے کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے ہر لفظ، عمل، حرکت، سوچ اور خیال کو خدا کے کلام میں داخل ہونے دیا جائے؛ خدا کی طرف سے زیادہ بار چھُوا جائے اور اس طرح اس کے لیے محبت بھرا دل پیدا کیا جائے؛ اور تمھیں خدا کی مرضی کا زیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھانے دیا جائے، تاکہ ہر کوئی خدا کی طرف سے کامل ہونے کی راہ پر گامزن ہو، تاکہ ہر کوئی صحیح راستے پر ہو۔ ایک بار جب تُو خدا کی طرف سے کامل کیے جانے کے اس راستے پر چڑھ جائے گا تو پھر تُو صحیح راستے پر ہو گا۔ ایک بار جب تیری سوچ اور خیالات کے ساتھ ساتھ تیرے غلط ارادوں کو بھی درست کیا جا سکتا ہے، اور تیرا دھیان جسم سے خدا کی مرضی کی طرف ہونے کے قابل ہو جاتا ہے، اور ایک بار جب تُو غلط ارادوں کے پیدا ہونے پر ان کی خلل اندازی کی مزاحمت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، اس کے بجائے خدا کی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے – اگر تم اس طرح کا بدلاؤ حاصل کرنے کے قابل ہے تو، تُو پھر تم زندگی کے تجربے کے صحیح راستے پر ہے۔ ایک بار جب تیرے عبادتی عمل صحیح راستے پر آ جائیں گے، تو تُو اپنی عبادتوں میں روح القدس کی جانب سے چھُوا جائے گا۔ ہر بار جب تُو دعا کرتا ہے، تو تُو روح القدس کی جانب سے چھوا جائے گا۔ ہر بار جب تُو دعا کرے گا، تو تُو روح القدس کی جانب سے چھوا جائے گا؛ ہر بار جب تُو دعا کرے گا تو تُو خدا کے سامنے اپنے دل کو راضی برضا رکھنے کے قابل ہو جائے گا۔ ہر بار جب تُو خدا کے کلام کا کوئی اقتباس کھاتا اور پیتا ہے، تو اگر تُو اس کام کو سمجھنے کے قابل ہے جو وہ اس وقت انجام دے رہا ہے اور یہ سیکھ سکتا ہے کہ کس طرح دعا کرنی ہے، تعاون کیسے کرنا ہے، اور کس طرح داخلہ حاصل کرنا ہے، تو صرف اس صورت میں تیرے خدا کے کلام کو کھانے اور پینے کے نتائج برآمد ہوں گے۔ جب، خدا کے کلام کے ذریعے، تُو داخلے کا راستہ تلاش کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور خدا کے کام کی موجودہ حرکیات کے ساتھ ساتھ روح القدس کے کام کی سمت سمجھ سکتا ہے، تو تُو صحیح راستے میں داخل ہو چکا ہوگا۔ اگر تُو نے خدا کے کلام کو کھاتے اور پیتے وقت اہم نکات کو نہیں سمجھا ہے اور اس کے بعد بھی کوئی راہ عمل تلاش کرنے سے قاصر ہے، تو اس سے ظاہر ہوگا کہ تُو اب بھی خدا کے کلام کو صحیح طریقے سے کھانا اور پینا نہیں جانتا ہے، اور یہ کہ تُو نے ایسا کرنے کا طریقہ یا اصول دریافت نہیں کیا ہے۔ اگر تُو نے اس کام کو نہیں سمجھا، جو خدا اس وقت انجام دے رہا ہے، تو پھر تُو ان کاموں کو، جو وہ تجھے سونپے گا، قبول کرنے سے قاصر ہو گا۔ خدا اس وقت جو کام کرتا ہے وہ بعینہ وہی ہے جس میں انسانوں کو لازماً داخل ہونا اور فی الحال سمجھنا چاہیے۔ کیا تمھیں ان سب چیزوں کی سمجھ ہے؟
اگر تُو خدا کے کلام کو مؤثر طریقے سے کھاتا اور پیتا ہے، تو تیری روحانی زندگی معمول پر آجاتی ہے، اور اس سے قطع نظر کہ تجھے کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تجھے کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تجھے کون سی جسمانی بیماریاں برداشت کرنی پڑ سکتی ہیں، تجھے بھائیوں اور بہنوں کی کن رنجشوں یا خاندان کی مشکلات سے واسطہ پڑ سکتا ہے، تُو خدا کے کلام کو حسب معمول کھانے اور پینے کے قابل ہے، حسب معمول عبادت کر سکتا ہے، اور اپنی کلیسیا کی زندگی معمول کے مطابق جاری رکھ سکتا ہے؛ اگر تُو یہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہے، تو یہ ظاہر کرے گا کہ تُو صحیح راستے پر ہے۔ کچھ لوگ بہت نازک ہوتے ہیں اور ان میں ثابت قدمی کا فقدان ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی رکاوٹ کا سامنا کرنے پر، وہ رونا شروع کر دیتے اور منفی ہو جاتے ہیں۔ اگر اس بار تُو خدا کی مرضی پوری کرنے میں ناکام رہا ہے، تو تجھے لازماً اپنے آپ سے نفرت کرنی چاہیے اور، گہرائی میں، اگلی بار کامیابی کے لیے خاموشی سے پُرعزم ہونا چاہیے۔ اگر، اس بار، تُو خدا کے بوجھ کے بارے میں محتاط نہیں تھا، تو تجھے مستقبل میں اسی رکاوٹ کا سامنا کرتے وقت جسم کے خلاف بغاوت کرنے کا عزم کرنا چاہیے، اور خدا کی مرضی کو پورا کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ اس طرح تُو قابل تعریف بن جائے گا۔ کچھ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی سوچیں یا خیالات درست ہیں یا نہیں؛ یہ لوگ احمق ہیں! اگر تُو اپنے دل کو قابو میں رکھنا اور جسم کے خلاف بغاوت کرنا چاہتا ہے تو تجھے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ تیرے ارادے درست ہیں یا نہیں؛ صرف اسی صورت میں تُو اپنے دل کو تابع بنا سکتا ہے۔ اگر تُو یہ ہی نہیں جانتا کہ آیا تیرے ارادے درست ہیں یا نہیں تو کیا تُو ممکنہ طور پر اپنے دل کو تابع بنا سکتا اور اپنے جسم کے خلاف بغاوت کر سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اگر تُو بغاوت بھی کرتا ہے تو تُو یہ ایک الجھے ہوئے انداز میں کرے گا۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تجھے اپنے گمراہ کن عزائم کے خلاف بغاوت کیسے کرنی ہے؛ جسم کے خلاف بغاوت کرنے کا یہی مطلب ہے۔ ایک بار جب تُو یہ جان لے کہ تیرے ارادے، افکار اور خیالات غلط ہیں، تو تجھے جلدی سے اپنے راستے سے پلٹنا اور صحیح راستے پر چلناچاہیے۔ پہلے اس مسئلے کو حل کرو، اور اس دھیان سے داخلے کے لئے اپنے آپ کو تربیت دو، کیونکہ تم سب سے بہتر جانتے ہو کہ تیرے ارادے صحیح ہیں یا نہیں۔ ایک بار جب تیرے غلط ارادے درست ہو گئے ہیں اور اب وہ خدا کی خاطر ہیں، تو پھر تُو نے اپنے دل کو تابع کرنے کا مقصد حاصل کر لیا ہو گا۔
اب تمھارے لیے کرنے کا سب سے اہم کام خدا اور اس کے کام کا علم حاصل کرنا ہے۔ تجھے یہ بھی لازماً معلوم ہونا چاہیے کہ روح القدس نوع انسانی پر کس طرح کام کرتا ہے۔ یہ اعمال صحیح راستے پر داخل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ ایک بار جب تُو اس اہم نکتے کو سمجھ جائے گا تو تیرے لیے ایسا کرنا آسان ہوجائے گا۔ تُو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کو جانتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا پر تیرا ایمان مستند ہے۔ اگر تُو تجربہ حاصل کرنا جاری رکھتا ہے، پھر بھی آخر میں تُو خدا کو جاننے سے قاصر ہو گا، تو پھر یقینا تُو ایک ایسا شخص ہو گا جو خدا کی مخالفت کرتا ہے۔ جو لوگ آج کے مجسم خدا پر ایمان لائے بغیر صرف یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سب ملامت یافتہ ہیں۔ وہ سب بعد والے دن کے فریسی ہیں، کیونکہ وہ آج کے خدا کو تسلیم نہیں کرتے ہیں؛ وہ سب خدا کی مخالفت میں ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کی یسوع کی عبادت کتنی ہی مخلص کیوں نہ ہو، یہ سب بیکار ہو جائے گی؛ خدا ان کی تعریف نہیں کرے گا۔ وہ تمام لوگ جو یہ اشتہار اٹھائے ہوئے ہیں کہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں مگر پھر بھی جن کے دلوں میں خدا کا سچا علم نہیں وہ منافق ہیں!
خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کی کوشش کرنے کے لیے، کسی کو بھی پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کے ذریعے کامل کیے جانے کا مطلب کیا ہے، اور ساتھ ہی یہ کہ کامل ہونے کے لیے اسے کن شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ ایک بار جب کسی کو اس طرح کے معاملات پر گرفت ہو جاتی ہے تو پھر اسے عمل کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ کامل ہونے کے لیے، کسی کو بھی ایک خاص معیار کا ہونا ضروری ہے۔ بہت سے لوگ پیدائشی طور پر بہت اونچے معیار کے حامل نہیں ہوتے، ایسی صورت میں تجھے قیمت ادا کرنی پڑے گی اور لازماً ذاتی طور پر سخت محنت کرنی ہوگی۔ تیرا معیار جتنا خراب ہو گا، تجھے اتنی ہی زیادہ ذاتی کوشش کرنی پڑے گی۔ خدا کے کلام کے بارے میں تیری تفہیم جتنی زیادہ ہو گی اور جتنا زیادہ تُو اس پر عمل کرے گا، اتنی ہی جلدی تُو کمال کی راہ پر قدم رکھ سکتا ہے۔ عبادت کے ذریعے تجھے عبادت کے میدان میں کامل بنایا جا سکتا ہے؛ تُو خدا کے کلام کو کھانے اور پینے، اس کے جوہر کو سمجھنے اور اس کی حقیقت کے ساتھ جینے سے بھی کامل ہو سکتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر خدا کے کلام کا تجربہ کرنے سے، تجھے معلوم ہو جانا چاہیے کہ تجھ میں کیا کمی ہے؛ اس کے علاوہ، تجھے اپنی مہلک خامیوں اور کمزوریوں سے واقف ہونا چاہیے، اور خدا کی عبادت اور اس کے آگے التجا کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے، تُو بتدریج کامل ہوجائے گا۔ کمال کا راستہ یہ ہے: عبادت کرنا؛ خدا کے کلام کو کھانا اور پینا؛ خدا کے کلام کے جوہر کو سمجھنا؛ خدا کے کلام کے تجربے میں داخل ہونا؛ یہ جاننا کہ تیرے اندر کیا کمی ہے؛ خدا کے کام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا؛ خدا کے بوجھ کا دھیان رکھنا اور خدا سے اپنی محبت کے ذریعے جسم کو ترک کرنا؛ اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اکثر ہونے والی رفاقت میں باقاعدگی سے شرکت کرنا، یہ چیزیں تیرے تجربات کو مالا مال کر سکتی ہیں۔ چاہے وہ گروہی یا تمھاری ذاتی زندگی ہو، اور چاہے وہ بڑی مجلسیں ہوں یا چھوٹی، وہ سب تجھے اس قابل بنا سکتی ہیں کہ تُو تجربہ اور تربیت حاصل کرے، تاکہ تیرا دل خدا کے سامنے راضی برضا ہو سکے اور اس کی طرف لوٹ سکے۔ یہ سب کچھ کامل بنائے جانے کے عمل کا حصہ ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، خدا کے کلام کا تجربہ کرنے کا مطلب حقیقت میں اس کا ذائقہ چکھنے کے قابل ہونا اور اپنے آپ کو اس کے ساتھ جینے دینا ہے، تاکہ تُو خدا کے لیے اعلیٰ ایمان اور محبت حاصل کر پائے۔ اس طریقے سے، تُو بتدریج اپنے بدعنوان، شیطانی مزاج کو چھوڑ دے گا۔ اپنے آپ کو نامناسب محرکات سے آزاد کر لے گا اور ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرے گا۔ تیرے اندر خدا کے لیے جتنی زیادہ محبت ہو گی – یعنی تجھ میں سے جتنا زیادہ خدا نے کامل بنایا ہے – اتنا ہی کم تُو شیطان کی بدعنوانی میں مبتلا ہو گا۔ اپنے عملی تجربات کے ذریعے تُو بتدریج کمال کی راہ پر قدم رکھے گا۔ لہٰذا، اگر تُو کامل بننا چاہتا ہے، تو پھر یہ خاص طور پر ضروری ہے کہ تُو خدا کی مرضی کا خیال رکھے اور اس کے کلام کا مشاہدہ کرے۔