ایک نہایت سنگین مسئلہ: دھوکا دہی (2)

انسان کی فطرت میرے جوہرسے بالکل مختلف ہے، کیونکہ انسان کی بدعنوان فطرت کُلی طور پر شیطان سے پھوٹتی ہے؛ یعنی انسان کی فطرت پر شیطان نے عمل کیا ہے اور اسے بدعنوان بنا دیا ہے یعنی انسان اپنی بدی اور بدصورتی کے زیر اثر رہتا ہے۔ انسان سچائی کی دنیا یا مقدس ماحول میں پرورش نہیں پاتا، کُجا یہ کہ انسان روشنی میں زندگی گزارے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی پیدائش سے ہی اپنی فطرت میں سچائی رکھتا ہو، کُجا یہ کہ کوئی اس جوہر کے ساتھ پیدا ہو کہ جو خدا سے ڈر رکھے اور اس کی اطاعت کرے۔ اس کے برعکس، لوگ خدا کے خلاف مزاحمت والی فطرت رکھتے ہیں، خدا کی نافرمانی کرتے ہیں اور سچائی سے محبت نہیں کرتے۔ یہ فطرت وہ مسئلہ ہے جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں – یعنی دھوکا بازی۔ دھوکا بازی ہر شخص کی خدا کے خلاف مزاحمت کا ماخذ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو صرف انسان میں موجود ہے، مجھ میں نہیں۔ کچھ لوگ پوچھیں گے: چونکہ تمام انسان دنیا میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے مسیح رہتا ہے، تو ایسا کیوں ہے کہ تمام انسانوں کی فطرت ایسی ہے کہ وہ تو خدا کو دھوکادیتے ہیں لیکن مسیح نہیں دیتا؟ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی تمھارے لیے ٹھیک وضاحت ہونی ضروری ہے۔

بنی نوع انسان کے وجود کی بنیاد روح کا بار بار دوبارہ جنم لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہرشخص اس وقت جسم میں ایک انسانی زندگی حاصل کرتا ہے جب ان کی روح دوبارہ جنم لیتی ہے۔ انسان کے جسم کی پیدائش کے بعد اس کی زندگی تب تک جاری رہتی ہے جب تک کہ جسم اپنی حتمی حد کو نہ پہنچ جائے، جو کہ آخری لمحہ ہے، جب روح اپنا خول چھوڑ دیتی ہے۔ یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے، جس میں انسان کی روح وقتاً فوقتاً آتی اور جاتی رہتی ہے اور بنی نوع انسان کا وجود برقرار رہتا ہے۔ جسم کی زندگی بھی انسان کی روح کی زندگی ہے اور انسان کی روح انسان کے جسم کے وجود کی معاونت کرتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی اس کی روح سے حاصل ہوتی ہے اور زندگی جسم سے متصل نہیں ہے۔ اس طرح، انسان کی فطرت کا تعلق اس کی روح سے ہے نہ کہ جسم سے۔ صرف ہر انسان کی روح ہی جانتی ہے کہ اس نے شیطان کے بہکاووں، مصیبتوں اور بدعنوانی کا کیسا تجربہ کیا ہے۔ انسان کا جسم ان چیزوں سے ناواقف ہوتا ہے۔ اس لیے، بنی نوع انسان نادانستہ طور پر تاریک تر، غلیظ تر، اور بدتر ہوتی چلی جاتی ہے جبکہ انسان کا اور میرا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے اور بنی نوع انسان کے لیے زندگی تاریک تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ شیطان بنی نوع انسان کی ارواح کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور بلاشبہ اسی وجہ سے انسان کا جسم بھی شیطان کے قبضے میں ہے۔ ایسا جسم اور ایسا انسان خدا کے خلاف مزاحمت کیسے نہیں کرے گا؟ وہ اس سے کیسے فطری طور پر ہم آہنگ ہو سکتے ہیں؟ میرے شیطان کو فضا میں پھینکنے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مجھے دھوکا دیا۔ تو پھر انسان اپنے ملوث ہونے سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟ اسی لیے دھوکا دہی انسانی فطرت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب تم یہ دلیل سمجھ لو گے، تو تمھیں مسیح کے جوہر کا بھی کسی حد تک یقین حاصل ہو جائے گا۔ خدا کی روح جس جسم میں ہے وہ خدا کا اپنا جسم ہے۔ خدا کی روح اعلیٰ ترین ہے؛ وہ قادرِ مطلق، مقدس اور راست باز ہے۔ اسی طرح اس کا جسم بھی اعلیٰ ترین، قادرِمطلق، مقدس اور راست باز ہے۔ ایسا جسم صرف وہی کام انجام دے سکتا ہے جو راستبازانہ اور بنی نوع انسان کے لیے مفید ہو، جو مقدس، شاندار اور زبردست ہو؛ وہ ایسا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوتا ہے جو سچائی کے خلاف ہو، جو اخلاقیات اور انصاف کے خلاف ہو، کُجا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جو خدا کی روح کو دھوکا دے۔ خدا کی روح پاک ہے اور اس لیے اس کے جسم کو شیطان بدعنوان نہیں بنا سکتا؛ اس کے جسم کا جوہر انسانی جسم سے مختلف ہے کیونکہ شیطان نے انسان کو بدعنوان کیا ہے، خدا کو نہیں؛ شیطان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس کا جسم بدعنوان بنائے۔ پس، اس حقیقت کے باوجود کہ انسان اور مسیح ایک ہی جگہ رہتے ہیں، یہ صرف انسان ہی ہے جو شیطان کے قبضے میں آتا ہے، اس کی طرف سے استعمال ہوتا اور جال میں پھنستا ہے۔ اس کے برعکس، مسیح ابدی طور پر شیطان کی بدعنوانی سے بے نیاز ہے کیونکہ شیطان کبھی بلند ترین مقام پر چڑھنے اور خدا کے قریب پہنچنے کے قابل نہیں ہو سکے گا۔ آج، تم سب کو جان لینا چاہیے کہ یہ انسان ہے جسے شیطان نے اس طرح بدعنوان بنایا ہے جو مجھے دھوکا دیتا ہے۔ دھوکا دینا کبھی ایسا معاملہ نہیں ہو گا کہ مسیح اس میں شامل ہو۔

شیطان کی طرف سے بدعنوان کی گئی تمام روحیں اس کے قابو میں ہوتی ہیں۔ صرف مسیح پر یقین رکھنے والے لوگ ہی الگ کیے گئے ہیں، شیطان کے حلقےمیں جانے سے بچایا گیا ہے اور آج کی بادشاہی میں انھیں لایا گیا ہے۔ یہ لوگ مزید شیطان کے زیر اثر نہیں رہتے۔ اس کے باوجود، انسان کی فطرت اب بھی انسان کے جسم میں پنہاں ہے یعنی اگرچہ تمھاری روحیں بچ گئی ہیں لیکن تمھاری فطرت اب بھی ویسی ہی ہے جیسی پہلے تھی اور اس بات کا امکان اب بھی سو فیصد ہے کہ تم مجھے دھوکا دو گے۔ اسی لیے میرا کام اتنی دیر تک ہے کیونکہ تمھاری فطرت خودسر ہے۔ اب تم اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی بہترین استطاعت کے مطابق مشکلات سے نمٹ رہے ہو، پھر بھی تم میں سے ہر کوئی مجھے دھوکا دینے اور شیطان کے تسلط اور اس کے حلقے میں لوٹنے نیز اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹنے کے قابل ہے – یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اس وقت تمھارے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ انسانیت کا احساس یا انسان جیسی فطرت پیش کر سکو جیسے تم اب کرتے ہو۔ سنگین صورتوں میں، تمھیں تباہ کر دیا جائے گا اور اس سے بھی بڑھ کر کہ ابدی طور پر برباد کر دیے جاؤ گے، سخت سزا پاؤ گے اور دوبارہ کبھی جنم نہیں لے سکو گے۔ یہ مسئلہ تمھارے سامنے رکھا گیا ہے۔ میں تمھیں اس طریقے سے یاد دلا رہا ہوں؛ اول: تاکہ میرا کام رائیگاں نہ جائے اور دوم: تا کہ تم سب روشنی کے ایام میں رہو۔ سچ یہ ہے کہ میرا کام بیکار ہے یا نہیں، یہ اہم مسئلہ نہیں ہے۔ اہم یہ ہے کہ تم خوش گوار زندگی اور شاندار مستقبل رکھنے کے قابل ہو۔ میرا کام لوگوں کی جان بچانے کا کام ہے۔ اگر تیری روح شیطان کی گرفت میں آ جاتی ہے تو تیرا جسم سکون سے نہیں رہے گا۔ اگر میں تیرے جسم کی حفاظت کر رہا ہوں تو یقیناً تیری روح بھی میری نگہداشت میں ہو گی۔ اگر میں واقعی تجھ سے نفرت کروں تو تیرا جسم اور روح فوراً شیطان کی گرفت میں آ جائیں گے۔ کیا پھر تُو اپنی صورت حال کا تصور کر سکتا ہے؟ اگر کسی دن میرا کلام تم پر ضائع ہو گیا تو یا میں تمھیں مکمل طور پر شیطان کے حوالے کر دوں گا، جو تمھیں اس وقت تک اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنائے رکھے گا جب تک کہ میرا غصہ بالکل ختم ہو جائے یا میں تم ناقابلِ اصلاح انسانوں کو خود سزا دوں گا کیونکہ تمھارے مجھے دھوکا دینے والے دل کبھی نہیں بدلیں گے۔

تم سب کو اب جلد از جلد اپنے اندر جھانکنا چاہیے، تا کہ دیکھ سکو کہ میرے لیے تمھارے اندر کتنا دھوکا دہی باقی ہے۔ مجھے بے صبری سے تمھارے جواب کا انتظار ہے۔ میرے ساتھ معاملت میں بے پروائی نہ برتو۔ میں لوگوں سے کبھی کھیل نہیں کھیلتا۔ اگر میں کہوں کہ میں کچھ کروں گا تو ضرور کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ تم میں سے ہر کوئی میری باتیں سنجیدگی سے لے گا اور یہ نہیں سوچے گا جیسے یہ کوئی سائنسی کہانی ہیں۔ مجھے تمھارے خیالات نہیں، ٹھوس عمل چاہیے۔ اس کے بعد، تمھیں میرے سوالات کے جواب دینے ہوں گے جو یہ ہیں:

1. اگر تُو واقعی خدمت گزار ہے تو کیا تُو وفاداری سے مجھے خدمات پیش کر سکتا ہے، جس میں کسی قسم کی سستی یا منفیت نہ ہو؟

2. اگر تجھے پتہ چلے کہ میں نے کبھی تیری تعریف نہیں کی تو کیا پھر بھی تُو زندگی بھر میری خدمت کر پائے گا؟

3. اگر تیری بہت زیادہ محنت کے باوجود میں تجھے سرد مہری دکھاؤں تو کیا تُو گم نامی میں میرے لیے کام جاری رکھ سکے گا؟

4. اگر تیری جانب سے میری راہ میں خرچ کرنے کے باوجود میں تیرے معمولی مطالبات پورے نہیں کرتا تو کیا تُو مجھ سے مایوس اور بد دل ہو جائے گا یا حتیٰ کہ مشتعل ہوجائے گا اور چیخ چیخ کر گالیاں بکے گا؟

5. اگر تُو ہمیشہ انتہائی وفادار رہا ہے، مجھ سے بہت زیادہ محبت رکھتا ہے اور پھر بھی تجھے بیماری، غربت اور اپنے عزیزواقارب کے چھوڑ جانے کی مصیبت یا زندگی کی کوئی اور تکلیف برداشت کرنی پڑے، تو کیا تب بھی تیری مجھ سے وفاداری اور محبت برقرار رہے گی؟

6. اگر تُو نے اپنے دل میں جو تصور کیا ہے وہ اس سے میل نہیں کھاتا جو میں نے کیا ہے تو تُو اپنے مستقبل کے راستے پر کیسے چلے گا؟

7. اگر تجھے اپنی ان چیزوں میں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جن کی تجھے امید تھی تو کیا پھر بھی تُو میرا پیروکار رہ سکتا ہے؟

8. اگر تُو نے میرے کام کا مقصد اور اہمیت کبھی نہیں سمجھی تو کیا تُو ایسا فرمانبردار شخص بن سکتا ہے جو من مانے فیصلے نہ کرے اور نتائج اخذ نہ کرے؟

9. کیا تُو میرے کہے گئے تمام الفاظ اور وہ کام محفوظ کر سکتا ہے جو میں نے انسانوں کے ساتھ رہنے کے دوران کیے ہیں؟

10. کیا تُو میرا وفادار پیروکار بننے کے قابل ہے، زندگی بھر تکالیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہے، خواہ تجھے کچھ نہیں ملتا؟

11. میری خاطر، کیا تُو اپنی بقا کے مستقبل کے راستے پر غوروخوض، منصوبہ بندی یا تیاری چھوڑ سکتا ہے؟

یہ سوالات تمھارے لیے میرے حتمی تقاضوں کی عکاسی کرتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ تم سب مجھے جواب دے سکتے ہو۔ اگر تُو ان سوالات میں پوچھی جانے والی ایک یا دو چیزیں پوری کر سکتا ہے تو تجھے کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ اگر تُو ان تقاضوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہیں کر سکتا تو یقیناً تُو ایسا فرد ہے جو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بلاشبہ وہ مجھ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ میں کوئی ایسا فرد اپنے گھر میں کیسے رکھ سکتا ہوں جو کسی بھی صورت حال میں مجھے دھوکا دے سکتا ہے؟ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اب بھی زیادہ تر حالات میں مجھے دھوکا دے سکتے ہیں، میں دیگر انتظامات کرنے سے پہلے ان کی کارکردگی کا مشاہدہ کروں گا۔ تاہم وہ تمام لوگ جو مجھے دھوکا دینے کی اہلیت رکھتے ہیں، خواہ حالات کیسے بھی ہوں، میں انھیں کبھی نہیں بھولوں گا؛ میں انھیں اپنے دل میں یاد رکھوں گا اور ان کے برے اعمال کا بدلہ لینے کے موقع کا انتظار کروں گا۔ میں نے جو تقاضے بتائے ہیں یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا تمھیں اپنے اندر جائزہ لینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ تم سب ان پر سنجیدگی سے غور کرو گے اور میرے ساتھ بدتہذیبی نہیں کرو گے۔ مستقبل قریب میں، میں ان جوابات کی جانچ کروں گا جو تم نے مجھے میرے تقاضوں کے خلاف دیے ہیں۔ تب تک، میں تم سے مزید کچھ نہیں مانگوں گا اور تمھیں اس سے زیادہ سنجیدہ تنبیہ نہیں کروں گا۔ اس کے بجائے میں اپنا اختیار استعمال کروں گا۔ جنھیں رکھنا چاہیے انھیں رکھا جائے گا، جنھیں انعام دیا جانا چاہیے انھیں انعام دیا جائے گا، جنھیں شیطان کے حوالے کیا جانا چاہیے انھیں شیطان کے حوالے کر دیا جائے گا، جنھیں سخت سزا دی جانی چاہیے انھیں سخت سزا دی جائے گی اور جنھیں فنا ہو جانا چاہیے انھیں برباد کر دیا جائے گا۔ اس طرح، میرے ایام میں مجھے پریشان کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ کیا تُو میرے کلام پر یقین رکھتا ہے؟ کیا تُو خمیازے پر یقین رکھتا ہے؟ کیا تجھے یقین ہے کہ میں ان تمام شریروں کو سزا دوں گا جو مجھے دھوکا اور دغا دیتے ہیں؟ کیا تجھے اس دن کے جلد آنے یا بعد میں آنے کی امید ہے؟ کیا تُو ایسا فرد ہے جو سزا سے خوفزدہ ہے یا ایسا فرد ہے جو سزا برداشت کرنے کے باوجود میری مخالفت کرے گا؟ جب وہ دن آئے گا تو کیا تُو تصور کر سکتا ہے کہ تُو ہنسی خوشی زندگی گزارے گا یا روئے گا اور اپنے دانت پیسے گا؟ تجھے کس قسم کے انجام کی امید ہے؟ کیا تُو نے کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے کہ تُو مجھ پر سو فیصد یقین رکھتا ہے یا مجھ پر سو فیصد شک کرتا ہے؟ کیا تُو نے کبھی احتیاط سے سوچا ہے کہ تیرے اعمال اور طرزِعمل تجھ پر کس قسم کے نتائج اور انجام لے کرآئیں گے؟ کیا تجھے واقعی امید ہے کہ بدلے میں میری تمام باتیں پوری ہوں گی یا تُو دہشت زدہ ہے کہ بدلے میں میری باتیں پوری ہوں گی؟ اگر تجھے امید ہے کہ میں اپنا کلام پورا کرنے کے لیے جلد ہی رخصت ہو جاؤں گا تو تجھے اپنے قول و فعل سے کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ اگر تجھے میرے رخصت ہونے کی امید نہیں ہے اور میری تمام باتیں فوراً پوری ہونے کی امید نہیں ہے تو تُو مجھ پر ایمان ہی کیوں رکھتا ہے؟ کیا تُو واقعی جانتا ہے کہ تُو میری پیروی کیوں کر رہا ہے؟ اگر تیری دلیل محض اپنا افق وسیع کرنا ہے تو تجھے خود کو پریشان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر برکت حاصل کرنی ہے اور آنے والی آفت سے بچنا ہے تو تُو اپنے طرز عمل کی فکر کیوں نہیں کرتا؟ تُو خود سے کیوں نہیں پوچھتا کہ کیا تُو میرے تقاضے پورے کر سکتا ہے؟ تُو خود سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ کیا تُو آئندہ کی نعمتیں حاصل کرنے کا اہل ہے؟

سابقہ: ایک نہایت سنگین مسئلہ: دھوکا دہی (1)

اگلا: تمھیں اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp