ایک نہایت سنگین مسئلہ: دھوکا دہی (1)

بہت جلد، میرا کام ختم ہو جائے گا اور کئی سال ایک ساتھ ایک ناقابلِ برداشت یاد بن گئے ہیں۔ میں نے اپنے کلمات بار بار دہرائے ہیں اور اپنا نیا کام مسلسل پھیلایا ہے۔ بلاشبہ، میری نصیحت ہر اس کام کا ضروری جزو ہے جو میں کرتا ہوں۔ میری راہنمائی کے بغیر، تم سب بھٹک جاؤ گے یہاں تک کہ خود کو مکمل طور پر خسارے میں پاؤ گے۔ میرا کام اب ختم ہونے والا ہے اور حتمی مراحل میں ہے۔ میری اب بھی خواہش ہے کہ میں راہنمائی کا کام کروں، یعنی تمھاری سماعت کے لیے تمھیں کچھ نصیحت کے الفاظ پیش کروں۔ مجھے صرف یہ امید ہے کہ تم لوگ اس قابل ہوگے کہ میری یہ تکالیف ضائع نہیں ہونے دو گے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے جو سوچ سمجھ کرخیال رکھا ہے اور میرے کلام کو اس بات کی بنیاد سمجھو کہ تم بحیثیت انسان کیسے برتاؤکرتے ہو۔ خواہ وہ ایسے الفاظ نہ ہوں جنھیں تم سننے کے خواہش مند ہو، خواہ تم انھیں بخوشی قبول نہ کرو یا صرف مجبوری میں ہی قبول کرو، تمھیں انھیں سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ ورنہ، تمھارا لاپروا اور بے فکری والا مزاج اور برتاؤ مجھے حقیقت میں پریشان کرے گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے متنفر کرے گا۔ مجھے بہت زیادہ امید ہے کہ تم سب میراکلام بار بار پڑھ سکتے ہو – ہزاروں بار – اور حتیٰ کہ تمھیں یہ کلام زبانی بھی یاد ہو سکے۔ صرف اس طرح ہی تم اس قابل ہوجاؤگے کہ میری خود سے توقعات میں ناکام نہیں ہو پاؤ گے۔ تاہم، تم میں سے کوئی بھی اس طرح زندگی نہیں گزاررہا۔ بلکہ اس کے برعکس، تم سب ایک عیاش زندگی میں غرق ہو، ایسی زندگی جس میں اپنے دل کے حسب ِخواہش کھانا پینا ہے اور تم میں سے کوئی بھی اپنا دل اور روح مالامال کرنے کے لیے میرا کلام استعمال نہیں کرتا۔ اس لیے، میں بنی نوع انسان کے حقیقی روپ کے حوالے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں: انسان مجھے کسی بھی وقت دھوکا دے سکتا ہے اور کوئی بھی میرے کلام سے مکمل وفادار نہیں ہوسکتا۔

"انسان کو شیطان نے اتنا بدعنوان کر دیا ہے کہ اب اس کا حلیہ انسانوں جیسا نہیں رہا۔" زیادہ تر لوگ اب یہ قول ایک حد تک سمجھ گئے ہیں۔ میں یہ اس لیے کہتا ہوں کیونکہ جس "پہچان" کا مثال حوالہ میں دیتا ہوں وہ صرف ایک قسم کا سطحی اعتراف ہے جو سچے علم کے خلاف ہے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی بھی صحیح طریقے سے اپنا تخمینہ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی اچھی طرح اپنا تجزیہ کرسکتا ہے، تم میرے کلام کے بارے میں مشکوک رہے۔ لیکن اس بار، میں تم لوگوں کے اندر موجود ایک نہایت سنجیدہ مسئلے کے متعلق بتانے کے لیے حقائق استعمال کر رہا ہوں۔ یہ مسئلہ دھوکا دہی ہے۔ تم سب لفظ "دھوکا دہی" کے متعلق جانتے ہو کیونکہ تم میں سے زیادہ تر لوگوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو دوسروں سے دھوکا ہوتا ہے، جیسا کہ شوہر اپنی بیوی کو دھوکا دیتا ہے، بیوی اپنے شوہر کو دھوکا دیتی ہے، بیٹا اپنے باپ کو دھوکا دیتا ہے، بیٹی اپنی ماں کو دھوکا دیتی ہے، ایک غلام اپنے مالک کو دھوکا دیتا ہے، دوست ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں، رشتہ دار ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں، بیچنے والے خریدنے والوں کو دھوکا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام مثالوں میں دھوکا دہی کا عنصر موجود ہے۔ مختصراً، دھوکا دہی رویے کا ایسا روپ ہے جس میں کوئی وعدہ خلافی کرتا ہے، اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے یا انسانی اقدار کی خلاف ورزی کرتا ہے اور انسان کے نقصان کا مرتکب ہوتا ہے۔ عمومی بات کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے ایک انسان کے طور پر، تُو نے کچھ ایسا کیا ہو گا جو سچائی سے دھوکے پر مبنی ہوگا، خواہ تجھے کسی دوسرے فرد کو دھوکا دینے کے لیے کچھ کرنا یاد ہو یا نہ ہو یا تُو نے دوسروں کو کئی بار پہلے دھوکا دیا ہو۔ چونکہ تُو اپنے والدین یا دوستوں کو دھوکا دے سکتا ہے، تو تُو دوسروں کو بھی دھوکا دے سکتا ہے اور تُو مجھے بھی دھوکا دینے اور ایسے کام کرنے کے قابل ہے جن سے مجھے نفرت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، دھوکا سطحی غیر اخلاقی رویہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایسی چیز ہے جو سچائی سے متصادم ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی مجھ سے مزاحمت اور عدم اطاعت کا ماخذ ہے۔ اسی لیے میں نے درج ذیل بیان میں خلاصہ بیان کیا ہے: دھوکا دہی فطرتِ انسانی ہے اور یہ فطرت، انسان کے مجھ سے کیے گئے وعدے کی بہت بڑی دشمن ہے۔

ایسا رویہ جو میری پیروی نہیں کر سکتا وہ مطلقاً دھوکا ہی ہے۔ وہ رویہ مجھ سے وفادار نہیں ہے وہ دھوکا ہے۔ مجھے دغا دینا اور فریب دینے کے لیے جھوٹ بولنا دھوکا ہے۔ بہت سے تصورات رکھنا اور انھیں ہر طرف پھیلانا دھوکا ہے۔ میری گواہیوں اور مفادات کو برقرار رکھنے سے قاصر رہنا دھوکا دہی ہے۔ دل میں مجھ سے دور ہوتے ہوئے جھوٹی مسکراہٹ پیش کرنا دھوکا دہی ہے۔ یہ سب دھوکا دہی کے کام ہیں جن کے تم ہمیشہ قابل رہے ہو اور یہ تمھارے درمیان عام ہیں۔ تم میں سے کوئی یہ مسئلہ نہیں سمجھ سکتا لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ میں کسی شخص کے اپنے ساتھ دھوکے کو معمولی بات نہیں سمجھ سکتا اور میں یقینی طور پر اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اب، جب میں تم لوگوں کے درمیان کام کر رہا ہوں تو تم اس طرح برتاؤ کرتے ہو – اگر ایسا دن آتا ہے جب تم پر نظر رکھنے والا کوئی نہ ہو تو کیا تم ان ڈاکوؤں کی طرح نہیں ہو گے جنھوں نے خود کو اپنے چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے بادشاہ قرار دیا ہو؟ جب ایسا ہوتا ہے اور تم کسی تباہی کا سبب بنتے ہو، تو تمھارے بعد کون صفائی کے لیے آئے گا؟ تم سوچتے ہو کہ دھوکا دہی کی کچھ حرکتیں محض کبھی کبھار ہونے والے واقعات ہیں، نہ کہ تمھارا مستقل رویہ اور یہ اس قابل نہیں ہے کہ اس پر اتنی شدت کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جائے، جس سے اس طرح وہ تمھارا فخر مجروح کرتے ہیں۔ اگر تم واقعی ایسا سوچتے ہو تو تم میں عقل کی کمی ہے۔ ایسا سوچنا بغاوت کا نمونہ اور اس کی مثال ہے۔ انسان کی فطرت اس کی زندگی ہے؛ یہ وہ اصول ہے جس پر وہ زندہ رہنے کے لیے انحصار کرتا ہے اور وہ اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر دھوکا دہی کی نوعیت ہی لے لیں۔ اگر تم کسی رشتہ دار یا دوست کو دھوکا دینے کے لیے کچھ کر سکتے ہو تو یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ تمھاری زندگی اور فطرت کا حصہ ہے جس کے ساتھ تم پیدا ہوئے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی فرد دوسروں سے چُرانے میں لطف اٹھاتا ہے تو چوری کا یہ لطف ان کی زندگی کا حصہ ہے، اگرچہ وہ کبھی چوری کرسکتے ہے اور کبھی چوری نہیں کرسکتے۔ خواہ وہ چوری کریں یا نہ کریں، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چوری محض ایک قسم کا رویہ ہے بلکہ، یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی چوری ان کی زندگی کا حصہ ہے – یعنی، ان کی فطرت۔ بعض لوگ پوچھیں گے: چونکہ یہ ان کی فطرت ہے توکیوں، جب وہ اچھی چیزیں دیکھتے ہیں توکیا کبھی کبھار انھیں چوری نہیں کرتے؟ جواب بہت سادہ ہے۔ ان کے چوری نہ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی چیز اس لیے چوری نہ کر سکیں کیونکہ وہ اتنی بڑی ہے کہ وہ دیکھنے والوں کی نظروں سے نہیں بچ سکتی یا اس وجہ سے کہ عمل کرنے کا مناسب وقت نہیں ہے یا کوئی چیز بہت مہنگی ہے، اس کی بہت سختی سے نگرانی کی جاتی ہے یا شاید انھیں اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے یا وہ دیکھ نہیں سکتے کہ اس کا ان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سبھی وجوہات ممکن ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کچھ چوری کرتے ہیں یا نہیں، یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ یہ سوچ صرف ایک لمحاتی، گزرتی ہوئی چمک کے طور پر موجود ہے۔ اس کے برعکس، یہ ان کی فطرت کا ایک حصہ ہے جسے بہترکے لیے تبدیل کرنا مشکل ہے۔ ایسا شخص صرف ایک بار چوری کرنے سے مطمئن نہیں ہوتا؛ دوسروں کے مال کو اپنی ملکیت قرار دینے کے اس طرح کے خیالات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انھیں کسی اچھی چیز یا مناسب صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس فکر کی اصل کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کبھی کبھار اختیار کی جاتی ہے بلکہ اس شخص کی اپنی فطرت میں ہے۔

کوئی بھی فرد اپنے الفاظ اور اعمال اپنے حقیقی چہرے کی نمائندگی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ حقیقی چہرہ بلاشبہ ان کی فطرت ہے۔ اگر تُو ایسا فرد ہے جولچھے داراندازمیں بات کرتا ہے، تو تیری فطرت فریبی ہے۔ اگر تیری فطرت شاطر ہے، تو تُو مکارانہ انداز میں کام کرتا ہے اور دوسرے با آسانی تمھارے ذریعے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ اگر تیری فطرت بری ہے، تو تیری باتیں سننے میں خوش گوار لگ سکتی ہیں لیکن تیرے اعمال تیری مذموم چالیں چھپا نہیں سکتے۔ اگر تیری فطرت کاہل ہے تو تُو جو کچھ بھی کہتا ہے اس کا مقصد تیرا اپنی بے دلی اور سستی کے متعلق اپنی ذمہ داری سے بچنا ہے اور تیرے اعمال سستی پر مبنی اور لاپرواہی پر مشتمل ہوں گے اور حقیقت چھپانے میں کافی ماہر ہو گا۔ اگر تیری طبیعت ہمدرد ہے تو تیرے الفاظ معقول ہوں گے اور تیرے اعمال بھی سچائی کے مطابق ہوں گے۔ اگر تیری فطرت وفادار ہے تو یقیناً تیرے الفاظ مخلص ہیں اور تیرے کام کرنے کا طریقہ ذہنی اور جذباتی طور پر مستحکم ہے، کسی بھی ایسی چیز سے پاک جو تیرے مالک کو پریشان کر سکتا ہے۔ اگر تیری فطرت ہوس پرست یا دولت کی لالچی ہے تو تیرا دل اکثر ان چیزوں سے بھرا ہو گا اور تُو نادانستہ انحراف، غیر اخلاقی کاموں کا ارتکاب کرے گے جنھیں لوگ آسانی سے نہیں بھولیں گے اور جو لوگوں کو متنفر کر دیں گے۔ جیسا کہ میں نے کہا ہے، اگر تُو دھوکا دہی کی فطرت کا حامل ہے تو تُو بمشکل ہی خود کو اس سے نکال سکتا ہے۔ قسمت پر بھروسا نہ کر کہ اگر تو نے دوسروں سے کچھ غلط نہیں کیا تو تجھ میں دھوکا دہی کی فطرت نہیں ہے۔ اگر تیرا یہی خیال ہے تو واقعی تُو بغاوت کر رہا ہے۔ میں جب بھی بولتا ہوں تو میرا تمام کلام تمام لوگوں کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک شخص یا ایک قسم کے افراد کے لیے۔ صرف اس لیے کہ تو نے ایک معاملے میں مجھے دھوکا نہیں دیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ تُ و کسی معاملے میں مجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ کچھ لوگ اپنی شادی میں ناکامیوں کے دوران سچائی کی تلاش میں اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ کچھ لوگ خاندانی ٹوٹ پھوٹ کے دوران میرے ساتھ وفادار رہنے کی اپنی ذمہ داری چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ خوشی اور جوش کے لمحے کی تلاش میں مجھے چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ روشنی میں رہنے اور روح القدس کے کام کی لذت حاصل کرنے کے بجائے تاریک گھاٹی میں گرنا پسند کریں گے۔ کچھ لوگ دولت کی ہوس کی تسکین کے لیے دوستوں کی نصیحتیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور اب بھی اپنی غلطی تسلیم کر کے اپنی روش نہیں بدل سکتے۔ کچھ لوگ میری حفاظت حاصل کرنے کے لیے میرے نام کے زیر سایہ عارضی طور پر رہتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ مجبوری میں میرے لیے صرف معمولی سا وقف کرتے ہیں کیونکہ وہ زندگی سے جُڑے رہتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔ کیا یہ اور دیگر غیر اخلاقی اعمال نہیں ہیں، جو مزید برآں، دیانت داری کے بغیر، صرف وہ رویے ہیں جن کے ساتھ لوگوں نے طویل عرصے سے اپنے دل کی گہرائیوں سے مجھے دھوکا دیا ہے؟ بلاشبہ، میں جانتا ہوں کہ لوگ مجھے دھوکا دینے کا پہلے سے منصوبہ نہیں بناتے؛ ان کی دھوکا دہی ان کی فطرت کا فطری انکشاف ہے۔ کوئی مجھے دھوکا نہیں دینا چاہتا اور کوئی خوش نہیں ہے کیونکہ انھوں نے مجھے دھوکا دینے کے لیے کچھ کیا ہے۔ اس کے برعکس، وہ خوف سے کانپ رہے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ تو، کیا تم سوچ رہے ہو کہ یہ دھوکا دہی کیسے چھوڑنا ہے اور موجودہ صورتحال کیسے بدلنی ہے؟

سابقہ: زمین پر خدا کو کیسے جانا جائے

اگلا: ایک نہایت سنگین مسئلہ: دھوکا دہی (2)

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp