باب 9
چونکہ تم میرے خاندان کے لوگوں میں سے ہو، اور چونکہ تم میری بادشاہی میں وفادار ہو، اس لیے تم جو سب کچھ کرتے ہو اس میں تمہیں میری ضروریات کے معیارات کی پابندی لازمی کرنی چاہیے۔ میں یہ نہیں مانگتا کہ تم ایک بہتے ہوئے بادل سے زیادہ کچھ نہ بنو، لیکن یہ کہ تم چمکتی ہوئی برف بنو، اور اس کے جوہر اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی قدر کے حامل ہو جاؤ۔ کیونکہ میں مقدس سرزمین سے آیا ہوں، اس لیے میں کنول کی طرح نہیں ہوں، جس کا فقط نام ہوتا ہے اور کوئی جوہر نہیں ہوتا، کیونکہ یہ کیچڑ سے نکلتا ہے، مقدس سرزمین سے نہیں۔ جس وقت ایک نیا آسمان زمین پر نازل ہوتا ہے اور ایک نئی زمین آسمانوں پر پھیلتی ہے تو یہ عین وہ وقت بھی ہوتا ہے جب میں باقاعدہ طور پر انسانوں کے درمیان کام کر رہا ہوتا ہوں۔ بنی نوع انسان میں سے کون مجھے جانتا ہے؟ میری آمد کا لمحہ کس نے دیکھا ہے؟ کس نے دیکھا ہے کہ میرا فقط نام ہی نہیں ہے بلکہ میں جوہر کا بھی حامل ہوں؟ میں اپنے ہاتھ سے سفید بادلوں کو تیزی سے ہٹا دیتا ہوں اور آسمان کو قریب سے دیکھتا ہوں؛ خلا میں کچھ بھی ایسی چیز نہیں ہے جومیرے ہاتھ سے ترتیب نہیں دی گئی، اور اس کے نیچے، کوئی بھی میری زبردست مہم کی تکمیل کے لیے اپنی کوشش کا چھوٹا سا حصہ بھی نہیں ڈالتا ہے۔ میں زمین پر لوگوں سے زحمت طلب مطالبات نہیں کرتا، کیونکہ میں ہمیشہ سے عملی خدا رہا ہوں اور اس لیے کہ میں وہ قادر مطلق ہوں جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور انھیں اچھی طرح جانتا ہے۔ سب لوگ قادر مطلق کی نظروں کے سامنے ہیں۔ زمین کے دور دراز کونوں میں رہنے والے بھی میری روح کی جانچ پڑتال سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اگرچہ لوگ میری روح کو ”جانتے ہیں“، پھر بھی وہ میری روح کو ناراض کرتے ہیں۔ میرا کلام تمام لوگوں کے بدصورت چہروں نیز ان کے انتہائی اندرونی خیالات کو بھی عیاں کرتا ہے اور زمین کے تمام لوگ میری روشنی کی وجہ سے صاف نظر آتے ہیں اور میری جانچ پڑتال کے درمیان نیچے گر جاتے ہیں۔ تاہم، نیچے گرنے کے باوجود ان کے دل مجھ سے دور جانے کی ہمت نہیں کرتے۔ مخلوق میں سے کون میرے اعمال کے نتیجے میں مجھ سے محبت نہیں کرنے لگتا؟ میرے کلام کے نتیجے میں کون میرے لیے نہیں تڑپتا؟ کس میں میری محبت کے نتیجے میں وابستگی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے؟ یہ صرف شیطان کی بدعنوانی کی وجہ سے ہے کہ انسان اس حالت تک پہنچنے کے قابل نہیں ہو سکے جس کی مجھے ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ وہ ادنیٰ ترین معیار جن کی مجھے ضرورت ہے لوگوں میں بدگمانی پیدا کرتے ہیں، آج کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں – یہ دور جس میں شیطان تمام پابندیاں توڑ دیتا ہے اور شدید ظالم ہے – یا وہ وقت جب انسان شیطان کی طرف سے اس قدر پامال ہوئے ہیں کہ ان کے جسم مکمل طور غلاظت سے لتھڑ گئے ہیں۔ انسانوں کی اخلاقی بےراہ روی کی وجہ سے میرے دل کا خیال رکھنے میں ناکامی کب میرے غمگین ہونے کا سبب نہیں بنی۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں شیطان پر ترس کھاؤں؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں اپنی محبت میں غلطی پر ہوں؟ جب لوگ میری نافرمانی کرتے ہیں تو میرا دل چپکے سے روتا ہے؛ جب وہ میری مخالفت کرتے ہیں تو میں انہیں سزا دیتا ہوں؛ جب وہ میری طرف سے بچائے جاتے ہیں اور مُردوں میں سے جی اُٹھتے ہیں، تو میں انتہائی احتیاط کے ساتھ ان کی پرورش کرتا ہوں؛ جب وہ میرے تابع ہو جاتے ہیں تو میرا دل پُرسکون رہتا ہے اور میں فوراً آسمان و زمین اور تمام چیزوں میں بڑی تبدیلیوں کو محسوس کر لیتا ہوں۔ جب انسان میری تعریف کرتے ہیں تو میں کیسے اس سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا؟ جب وہ میرا مشاہدہ کرتے ہیں اور میں انھیں حاصل کر لیتا ہوں تو میں وقار کیسے حاصل نہیں کر سکتا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ انسان جس طرح کا بھی عمل اور برتاؤ کرتے ہیں، وہ میری طرف سے قابو اور فراہم نہیں کیا جاتا؟ جب میں ہدایت نہیں دیتا تو لوگ کاہل اور بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، میری پیٹھ پیچھے، وہ ان ”قابل تعریف“ گندے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں۔ کیا تیرا خیال ہے کہ جس جسم سے میں اپنے آپ کو ڈھانپتا ہوں وہ تیرے اعمال، تیرے طرز عمل اور تیرے الفاظ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے؟ میں نے کئی سالوں تک آندھی اور بارش کو برداشت کیا ہے، اور اسی طرح میں نے انسانی دنیا کی تلخیوں کا بھی تجربہ کیا ہے؛ تاہم، قریب سے غور کرنے پر، جسمانی انسانیت کو کسی بھی مقدار کی تکلیف مجھ سے امید رکھنے سے محروم نہیں کر سکتی، کسی بھی مٹھاس کا جسم کے انسانوں کو میرے بارے میں سرد، مایوس ہونے، یا مسترد کرنے کا سبب بننے کا امکان تو اور بھی بہت کم ہے۔ کیا واقعی ان کی مجھ سے محبت یا تکلیف کی کمی یا مٹھاس کی کمی تک ہی محدود ہے؟
آج، میں جسم میں رہتا ہوں، اور باضابطہ طور پر وہ کام کرنا شروع کر دیا ہے جو مجھے لازمی کرنا ہے۔ اگرچہ انسان میری روح کی آواز سے ڈرتے ہیں، لیکن وہ میری روح کے جوہر کے خلاف جاتے ہیں۔ مجھے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے میرے کلام میں مجھے جسم کی حالت میں جاننا کتنا مشکل ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، میں اپنے تقاضوں میں سخت مطالبہ کرنے والا نہیں ہوں، اور تمہارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تم میرے بارے میں مکمل علم حاصل کرو (کیونکہ انسانوں میں کمی ہے؛ یہ ایک فطری حالت ہے، اور کوئی حاصل شدہ حالت اس کی کمی پوری نہیں کر سکتی)۔ تمہیں صرف وہ سب جاننے کی ضرورت ہے جو میرے ذریعے جسمانی شکل میں کیا اور کہا جاتا ہے۔ چونکہ میرے تقاضے بہت سخت نہیں ہیں، اس لیے میری امید یہ ہے کہ تم سب ان اعمال اور الفاظ کو جان سکو گے، اور حاصل سکو گے۔ تمہیں اس غلیظ دنیا میں خود کو اپنی نجاستوں سے دور کر لینا چاہیے، تمہیں اس پسماندہ ”شہنشاہوں کے خاندان“ میں ترقی کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے، اور تجھے اپنے آپ کو عمل میں آزادی کی کبھی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ تجھے اپنے ساتھ ذرا سی نرمی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ میں ایک دن میں جتنا بولتا ہوں تجھے اسے جاننے کے لیے بہت وقت اور کوشش صرف کرنی پڑے گی، اور میرے طرف سے بولے گئے ایک جملے کا تجربہ کرنے اور اس کا علم حاصل کرنے میں پوری زندگی لگ جائے گی۔ جو الفاظ میں بولتا ہوں وہ مبہم اور تجریدی نہیں ہیں؛ وہ کھوکھلی باتیں نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ میرا کلام حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں، لیکن میں ان پر دھیان نہیں دیتا؛ بہت سے لوگ میری نعمتوں کے پیاسے ہیں، لیکن میں انہیں تھوڑا سا بھی نہیں دیتا؛ بہت سے لوگ میرا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں، پھر بھی میں نے اسے ہمیشہ چھپایا ہے؛ بہت سے لوگ میری آواز کو غور سے سنتے ہیں، لیکن میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور اپنے سر کو پیچھے جھکا لیتا ہوں، ان کی ”تڑپ“ سے متاثر نہیں ہوتا ہوں؛ بہت سے لوگ میری آواز سے ڈرتے ہیں، لیکن میرے الفاظ ہمیشہ جارحانہ ہوتے ہیں؛ بہت سے لوگ میری شکل دیکھ کر دہشت زدہ ہو جاتے ہیں، لیکن میں جان بوجھ کر ایسا نظر آتا ہوں تاکہ انھیں مار کر نیچے گرا سکوں۔ انسانوں نے کبھی میرا چہرہ حقیقت میں نہیں دیکھا، اور نہ ہی کبھی انہوں نے میری آواز حقیقت میں سنی ہے؛ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ مجھے صحیح معنوں میں نہیں جانتے۔ اگرچہ وہ میری طرف سے مارے جائیں، اگرچہ وہ مجھے چھوڑ سکتے ہیں، اور اگرچہ وہ میرے ہاتھ سے سزا پا سکتے ہیں، مگر وہ پھر بھی نہیں جانتے کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں کیا وہ واقعی میری اپنی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں، اور وہ ابھی تک اس سے ناواقف ہیں کہ آخر وہ کون ہے جس پر میں اپنے دل کو ظاہر کرتا ہوں۔ دنیا کی تخلیق سے لے کر آج تک کسی نے مجھے صحیح معنوں میں نہیں جانا ہے اور نہ ہی مجھے حقیقت میں دیکھا ہے، اور اگرچہ میں آج جسم بن گیا ہوں، پھر بھی تم مجھے نہیں جانتے ہو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ کیا تو نے کبھی میرے جسم میں میرے اعمال اور مزاج کا تھوڑا سا بھی کچھ دیکھا ہے؟
جنت میں وہ جگہ ہے جہاں میں کمر ٹکا کر بیٹھتا ہوں، اور جنت کے نیچے وہ جگہ ہے جہاں میں سکون پاتا ہوں۔ میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ ہے، اور میرے پاس ایک وقت ہوتا ہے جب میں اپنی طاقتوں کو ظاہر کرتا ہوں۔ اگر میں زمین پر نہ ہوتا، اگر میں اپنے آپ کو جسم کے اندر نہ چھپاتا، اور اگر میں عاجز اور پوشیدہ نہ ہوتا، تو کیا آسمان اور زمین بہت پہلے ہی تبدیل نہ ہو چکے ہوتے؟ کیا تم، میرے لوگو، پہلے ہی میرے ذریعے استعمال نہ ہو چکے ہوتے؟ تاہم، میرے اعمال میں حکمت ہے، اور اگرچہ میں انسانوں کے فریب سے پوری طرح واقف ہوں، لیکن میں ان کی مثال کی پیروی نہیں کرتا، بلکہ اس کے بدلے میں انھیں کچھ دیتا ہوں۔ روحانی دنیا میں میری حکمت کبھی ختم نہ ہونے والی ہے، اور جسم میں میری حکمت لازوال ہے۔ کیا یہ عین وہ لمحہ نہیں ہے جس میں میرے اعمال واضح ہو جاتے ہیں؟ بادشاہی کے دور میں آج تک میں نے کئی بار انسانوں کو معاف اور درگزر کیا ہے۔ کیا میں اپنے وقت کو واقعی مزید مؤخرکر سکتا ہوں؟ اگرچہ میں کمزور انسانوں کے لیے کچھ زیادہ ہی رحم دل رہا ہوں، لیکن ایک بار جب میرا کام مکمل ہو جائے تو کیا میں پھر بھی پرانا کام کر کے اپنے آپ پر مصیبت لا سکتا ہوں؟ کیا میں جان بوجھ کر شیطان کو اجازت دوں گا کہ وہ مجھ پر الزام لگائے؟ مجھے ضرورت نہیں ہے کہ انسان میرے کلام کی حقیقت اور اس کے اصل معنی کو قبول کرنے کے علاوہ کچھ اور کریں۔ اگرچہ میرا کلام سادہ ہے، لیکن چونکہ تم بہت چھوٹے ہو اور بہت بے حس ہو چکے ہو اس لیے وہ جوہر میں پیچیدہ ہے۔ جب میں اپنے اسرار کو براہ راست ظاہر کرتا ہوں اور جسم میں اپنی مرضی کو واضح کرتا ہوں، تو تم محسوس نہیں کرتے؛ تم آوازوں کو سنتے ہو، لیکن ان کا مطلب نہیں سمجھتے۔ میں اداسی سے مغلوب ہوں۔ اگرچہ میں جسم میں ہوں لیکن میں جسم کی ذمہ داری کا کام کرنے سے قاصر ہوں۔
جسم میں میرے اعمال کو کس نے میرے کلام اور اعمال سے جانا ہے؟ جب میں اپنے اسرار کو تحریری طور پر ظاہر کرتا ہوں، یا انہیں اونچی آواز میں بیان کرتا ہوں، تو لوگ سب کے سب حیرت کے مارے گُم سُم ہو جاتے ہیں؛ وہ خاموشی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ میں جو کہتا ہوں وہ انسانوں کے لیے ناقابل فہم کیوں ہے؟ میرا کلام ان کے لیے اتنا ناقابل ادراک کیوں ہے؟ وہ میرے اعمال دیکھنے کے لیے اتنے اندھے کیوں ہیں؟ کون ہے جو مجھے دیکھ سکے اور کبھی نہ بھول سکے؟ اُن میں سے کون ہے جو میری آواز کو سُن سکتا ہے اور اُسے نظرانداز نہیں کرتا؟ کون ہے جو میری مرضی کو سمجھ سکے اور میرے دل کو خوش کر سکے؟ میں لوگوں کے درمیان رہتا ہوں اور چلتا ہوں؛ میں ان کی زندگیوں کا تجربہ کرنے آیا ہوں – اور اگرچہ میں نے محسوس کیا کہ جب میں نے انہیں نوع انسانی کے لیے تخلیق کیا تو اس کے بعد سب کچھ اچھا تھا، لیکن میں انسانوں کے درمیان زندگی سے کوئی لطف نہیں اٹھاتا، اور ان کے درمیان کسی خوشی سے خوش نہیں ہوں۔ میں ان سے نفرت نہیں کرتا اور انھیں رد نہیں کرتا، لیکن میں ان کے لیے جذباتی بھی نہیں ہوں – کیونکہ انسان مجھے نہیں جانتے، اس لیے ان کے لیے اندھیرے میں میرا چہرہ دیکھنا مشکل ہوتا ہے؛ تمام شور و غل کے درمیان، انہیں میری آواز سننے میں دقت ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ چنانچہ، سطحی طور پر، تم جو کچھ کرتے ہو وہ میرے تابع ہے، لیکن اپنے دلوں میں تم اب بھی میری نافرمانی کرتے ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی نوع انسان کی پرانی فطرت کا مکمل حال یہی ہے۔ کون مستثنیٰ ہے؟ کون میرے عذاب کا ہدف نہیں ہے؟ تاہم، کون ہے جو میری برداشت کے تحت نہیں رہتا؟ اگر میرے غضب سے تمام نوع انسانی تباہ ہو جائے تو پھر میرے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کرنے کی کیا اہمیت ہو گی؟ میں نے ایک بار بہت سے لوگوں کو خبردار کیا، بہت سے لوگوں کو نصیحت کی، اور بہت سے لوگوں کی کھلم کھلا عدالت کی – کیا یہ بنی نوع انسان کو براہ راست تباہ کرنے سے زیادہ بہتر نہیں ہے؟ میرا مقصد لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ میری عدالت کے درمیان میرے تمام اعمال کو جان لیں۔ جب تم اتھاہ گڑھے سے اوپر اٹھو گے – جس کا مطلب ہے، جب تم اپنے آپ کو میری عدالت سے آزاد کر لو گے – تو تمہاری ذاتی غوروفکر اور منصوبے سب ختم ہو جائیں گے، اور ہر کوئی مجھے مطمئن کرنے کی خواہش کرے گا۔ اس میں کیا میں اپنا مقصد حاصل نہیں کر چکا ہوں گا؟
1 مارچ 1992