باب 10
بادشاہی کا دور، بہر حال، ماضی کے زمانوں سے مختلف ہے۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ انسانیت کیسے کام کرتی ہے؛ بلکہ میں اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ذاتی طور پر زمین پر اترا ہوں، یہ ایسا کام ہے کہ انسان جس کا نہ تو تصور کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے پورا کر سکتے ہیں۔ جب سے دنیا تخلیق ہوئی ہے، اس کے بعد اتنے بہت سے سالوں تک، صرف کلیسیا کی تعمیر کا کام ہی ہوتا رہا ہے، لیکن کوئی بھی بادشاہی کی تعمیر کے بارے میں بات کبھی نہیں سنتا ہے۔ اس کے باوجود کہ میں اس کے متعلق خود اپنے منہ سے بات کرتا ہوں، پھر بھی کوئی ایسا ہے جو اس کی اصل حقیقت کو جانتا ہو؟ میں ایک بار انسانوں کی دنیا میں نازل ہوا تھا اور ان کے مصائب کا عملی تجربہ اور مشاہدہ کیا تھا، لیکن میں نے اپنی تجسیم کے مقصد کو پورا کیے بغیر ایسا کیا تھا۔ ایک بار جب بادشاہی کی تعمیر کا کام شروع ہوا، تو میرے مجسم جسم نے رسمی طور پر میری ذمہ داری کو انجام دینا شروع کر دیا؛ یعنی بادشاہی کے بادشاہ نے اپنی خود مختار طاقت کو باضابطہ طور پر سنبھال لیا ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی دنیا میں بادشاہی کا نزول - محض ایک لفظی ظہور سے بہت ہٹ کر - اصل حقیقت میں سے ایک ہے؛ یہ "عمل کرنے کی حقیقت" کے معنی کا ایک پہلو ہے۔ انسانوں نے میرے اعمال میں سے کبھی ایک بھی نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی میری باتوں میں سے ایک کو بھی سنا ہے۔ اگر وہ میرے اعمال دیکھ بھی چکے ہوتے تو وہ کیا دریافت کر لیتے؟ اور اگر انھوں نے میری بات سنی بھی ہوتی تو انھیں کیا سمجھ آتی؟ پوری دنیا میں، ہر کوئی میری رحمت اور شفقت کے اندر موجود ہوتا ہے، اور اسی طرح تمام انسانیت بھی میرے فیصلے کے تحت ہے، اور اسی طرح میری آزمائشوں کے تابع ہے۔ جب سب لوگ ایک حد تک بدعنوان ہو چکے تھے تو میں تب بھی ان کے لیے رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا رہا ہوں؛ جب وہ سب میرے تخت کے سامنے اطاعت قبول کر چکے تھے تو میں نے تب بھی ان کو سزا دی ہے۔ تاہم، کیا کوئی ایسا انسان ہے جو میرے بھیجے گئے مصائب اور تزکیے کے درمیان میں نہ ہو؟ بہت سے لوگ روشنی کی تلاش میں اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، اور بہت سے لوگ اپنی آزمائشوں میں گھرے ہوئے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایوب کے پاس ایمان تھا، لیکن کیا وہ اپنے باہر نکلنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ڈھونڈ رہا تھا؟ اگرچہ میرے بندے آزمائشوں میں ثابت قدم رہ سکتے ہیں، لیکن کیا کوئی ہے جو بلند آواز سے کہے بغیر، اپنے اندر گہرائی میں ایمان بھی رکھتا ہو؟ بلکہ کیا ایسا نہیں ہے کہ لوگ اپنے عقائد کا اظہار تو کرتے ہیں مگر ان کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوتے ہیں؟ کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جو آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہو یا جو آزمائے جاتے وقت سچے دل سے اطاعت کرتا ہو۔ اگر میں اس دنیا کو دیکھنے سے بچنے کے لیے اپنا چہرہ نہ ڈھانپتا تو تمام نسل انسانی میری جلتی ہوئی نظروں کے نیچے گر جاتی، کیونکہ میں انسانیت سے کوئی بھی تقاضا نہیں کرتا ہوں۔
جب بادشاہی کی سلامی گونجتی ہے - جو کہ وہ وقت بھی ہوتا ہے جب گرج کی سات آوازیں گونجتی ہیں - یہ آواز آسمان اور زمین کو ہلا کر رکھ دیتی ہے، عرشِ اعلیٰ کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور ہر انسان کے دل کی تاریں ہلا دیتی ہے۔ بادشاہی کا ترانہ رسمی طور پر عظیم سرخ اژدہے کی سرزمین میں بلند ہوتا ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ میں نے اس قوم کو تباہ کر دیا ہے اور اپنی بادشاہی قائم کر لی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ زمین پر میری بادشاہی قائم ہوتی ہے۔ اس لمحے، میں دنیا کی ہر ایک قوم کے پاس اپنے فرشتوں کو بھیجنا شروع کر دیتا ہوں تاکہ وہ میرے بیٹوں، میرے بندوں کی راہنمائی کریں؛ یہ میرے کام کے اگلے مرحلے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ہے۔ تاہم، میں ذاتی طور پر اس جگہ پر آتا ہوں جہاں عظیم سرخ اژدہا کنڈلی مارے بیٹھا ہے، اور اس سے مقابلہ کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ جب تمام انسانیت مجھے جسم کی حالت میں جان لے گی اور جسم کی حالت میں میرے اعمال کو دیکھنے کے قابل ہو جائے گی، تو عظیم سرخ اژدہے کی کھوہ راکھ میں بدل جائے گی اور کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہو جائے گی۔ میری بادشاہی کے لوگوں کے طور پر، چونکہ تم عظیم سرخ اژدہے سے انتہائی نفرت کرتے ہو، اس لیے تمہیں اپنے اعمال سے میرے دل کو لازمی مطمئن کرنا چاہیے، اور اس طرح اژدہے کو شرمندہ کرنا چاہیے۔ کیا تم حقیقی طور پر یہ سمجھتے ہو کہ عظیم سرخ اژدہا نفرت انگیز ہے؟ کیا تم واقعی یہ محسوس کرتے ہو کہ یہ بادشاہی کے بادشاہ کا دشمن ہے؟ کیا تمہیں واقعی یہ یقین ہے کہ تم میرے لیے شاندار گواہی دے سکتے ہو؟ کیا تم واقعی پُراعتماد ہو کہ تم عظیم سرخ اژدہے کو شکست دے سکتے ہو؟ یہ ہے وہ جس کا میں تم سے تقاضا کرتا ہوں; میں جو چاہتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ تم اس مرحلے تک پہنچنے کے قابل ہو جاﺆ۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم یہ حاصل کر سکتے ہو؟ انسان درحقیقت کیا کرنے کے قابل ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ان کی بجائے میں خود یہ کرتا ہوں؟ میں کیوں یہ کہتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر اس مقام پر اترا ہوں جہاں جنگ کا آغاز ہوتا ہے؟ میں جو چاہتا ہوں وہ تمہارا ایمان ہے، تمہارے اعمال نہیں۔ تمام انسان میری باتوں کو ایمانداری سے قبول کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اس کی بجائے ان سے آنکھیں چراتے ہیں۔ کیا اس سے تمہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملی ہے؟ کیا تم مجھے اس طریقے سے جان گئے ہو؟ ایمان داری کی بات ہے کہ زمین پر انسانوں میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں ہے کہ میرے چہرے کو براہ راست دیکھ سکے اور کوئی ایک بھی میرے الفاظ کے معنی کو خالص اور ملاوٹ کے بغیر حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے میں نے زمین پر ایک بے مثال منصوبے کا آغاز کیا ہے تاکہ اپنے اہداف حاصل کر سکوں اور لوگوں کے دلوں میں اپنی حقیقی شبیہ قائم کر سکوں۔ اس طریقے سے میں اس زمانے کا خاتمہ کروں گا جس میں تصورات لوگوں پر حاوی آ جاتے ہیں۔
آج، میں نہ صرف عظیم سرخ اژدھے کی قوم پر اتر رہا ہوں، بلکہ میں پوری کائنات کا سامنا کرنے کے لیے بھی رخ پھیر رہا ہوں، جس کی وجہ سے پورا عرشِ اعلیٰ لرز رہا ہے۔ کیا کہیں ایک جگہ بھی ایسی ہے جو میرے فیصلے کے تابع نہیں ہے؟ کیا ایک بھی جگہ ایسی ہے جو ان آفات میں مبتلا نہیں ہے جو میں اس پر بارش کی طرح برساتا ہوں؟ میں جہاں بھی جاتا ہوں، میں نے ہر طرح کے "تباہی کے بیج" بکھیر دیے ہیں۔ یہ میرے کام کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے، اور بلا شبہ انسانیت کے لیے یہ نجات کا ایک عمل ہے، اور جو میں ان کی جانب بڑھاتا ہوں وہ پھر بھی ایک قسم کی محبت ہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اور بھی زیادہ لوگوں کو اجازت دوں کہ وہ مجھے جان سکیں اور مجھے دیکھنے کے قابل ہو سکیں، اور اس طرح ایک ایسے خدا کا احترام کریں جسے وہ اتنے سالوں سے نہیں دیکھ سکے ہیں لیکن جو اس وقت حقیقی ہے۔ میں نے دنیا کو کس وجہ سے بنایا تھا؟ جب انسان بدعنوان ہو گئے تھے، تو میں نے انھیں مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا تھا؟ کس وجہ سے پوری نسل انسانی تباہیوں میں گھری رہتی ہے؟ جسم کو اوڑھنے سے میرا مقصد کیا تھا؟ جب میں اپنا کام کر رہا ہوتا ہوں تو انسانیت نہ صرف کڑوے بلکہ میٹھے ذائقے کا سبق بھی سیکھتی ہے۔ دنیا کے تمام لوگوں میں سے کون ہے جومیرے فضل کے اندر نہیں رہتا ہے؟ اگر میں نے انسانوں کو مادی نعمتیں عطا نہ کی ہوتیں تو پھر دنیا میں کون ایسا ہوتا جو بہت زیادہ لطف اندوز ہوتا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہیں اپنے بندوں کے طور پر جگہ لینے کی اجازت دینا ایک نعمت ہے؟ کیا تم میرے بندے، بلکہ میرے خدمت گار نہیں تھے، کیا تم میری نعمتوں میں موجود نہیں ہو گے؟ تم میں سے کوئی بھی میرے کلام کی اصلیت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ انسانیت - ان القابات کی قدر کرنے سے بہت دور ہے جو میں نے انھیں عطا کیے ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ، "خدمت گار" کے لقب کی وجہ سے، اپنے دلوں میں ناراضگی پالتے ہیں، اور بہت سے، "میرے بندوں" کے لقب کی وجہ سے اپنے دلوں میں میرے لیے محبت پیدا کرتے ہیں۔ کسی کو مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہں کرنی چاہیے؛ میری آنکھیں سب کچھ دیکھ رہی ہیں! تم میں سے کون خوشی سے قبول کرتا ہے، تم میں سے کون مکمل اطاعت کرتا ہے؟ اگر بادشاہی کی سلامی نہ گونجے تو کیا تم واقعی آخر تک اطاعت کر سکو گے؟ انسان کیا کرنے اور سوچنے کے قابل ہیں، اور وہ کس حد تک جانے کے قابل ہیں - یہ سب چیزیں میں نے بہت پہلے ہی طے کر دی تھیں۔
لوگوں کی اکثریت میری شدید خواہش کو میرے چہرے کی روشنی میں قبول کرتی ہے۔ میری حوصلہ افزائی سے متاثر ہو کر، لوگوں کی اکثریت، جستجو کرنے کے لیے اپنے آپ میں جوش و خروش پیدا کرتی ہے۔ جب شیطان کی قوتیں میرے بندوں پر حملہ آور ہوتی ہیں، تو میں ان کی حفاظت کرنے کے لیے موجود ہوتا ہوں۔ جب شیطان کی سازشیں ان کی زندگیوں میں تباہی مچا دیتی ہیں تو میں اسے شکست دے کر دور بھگا دیتا ہوں، اور جب وہ ایک مرتبہ چلا جاتا ہے تو پھر کبھی نہیں لوٹ کر آتا۔ زمین پر، ہر طرح کی بد روحیں آرام کرنے لیے ہمیشہ جگہ کی تاک میں رہتی ہیں، اور ان انسانی لاشوں کی مسلسل تلاش میں رہتی ہیں جنہیں کھایا جا سکتا ہے۔ میرے بندو! تمہیں لازمی میری دیکھ بھال اور تحفظ میں رہنا چاہیے۔ کبھی بدچلن نہ ہونا! کبھی بھی لاپرواہی سے پیش نہ آنا! تمہیں میرے گھر میں اپنی وفاداری پیش کرنی چاہیے، اور صرف وفاداری کے ساتھ ہی تم شیطان کی دھوکے بازی کے خلاف جوابی حملہ کر سکتے ہو۔ کسی بھی حالت میں تمہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے جیسے ماضی میں کیا تھا، میرے سامنے ایک چیز کرنا اور میری پیٹھ کے پیچھے دوسری؛ اگر تم اس طرح کام کرتے ہو، تو تم پہلے ہی خلاصی حاصل کرنے سے باہر ہو چکے ہو۔ کیا میں اس طرح کے الفاظ کافی سے زیادہ نہیں کہہ چکا ہوں؟ ایسا خاص طور پر اس لیے ہے کہ انسانیت کی پرانی فطرت ناقابلِ اصلاح ہے اور یہ کہ مجھے لوگوں کو بار بار یاددہانی کروانا پڑتی ہے۔ اکتانا نہیں ہے! جو کچھ میں کہتا ہوں وہ تمہاری تقدیر کو یقینی بنانے کی خاطر ہے! ایک گندا اور غلیظ مقام بالکل وہی ہے جس کی شیطان کو ضرورت ہوتی ہے؛ تم جتنی زیادہ مایوس کن حالت میں ناقابلِ خلاصی ہو گے اور برائیوں سے روکے جانے کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے تم جتنے زیادہ بدچلن ہو گے، اتنا زیادہ وہ ناپاک روحیں تم میں داخل ہونے کے کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھائیں گی۔ اگر تم اس مقام تک پہنچ چکے ہو تو پھر تمہاری وفاداری بے کار گفتگو کے علاوہ کچھ نہیں ہوگی، اس کی کسی قسم کی کوئی حقیقت نہیں ہو گی، اور ناپاک روحیں تمہارے پختہ ارادے کو نگل جائیں گی اور اسے میرے کام میں خلل ڈالنے کے لیے نافرمانی اور شیطانی سازشوں میں بدل دیں گی۔ وہاں سے، تمہیں کسی بھی وقت میری طرف سے سزا مل سکتی ہے۔ اس صورتحال کی سنگینی کو کوئی نہیں سمجھتا ہے۔ سب لوگ جو کچھ سنتے ہیں اس پر دھیان نہیں دیتے ہیں، اور ذرا بھی محتاط نہیں ہوتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ ماضی میں کیا کیا گیا تھا؛ کیا تم واقعی انتظار کر رہے ہو کہ میں ایک مرتبہ پھر "بھول کر" تمہارے ساتھ نرمی برتوں؟ اگرچہ انسانوں نے میری مخالفت کی ہے، لیکن میں اس بات کو ان کے خلاف استعمال نہیں کروں گا، کیونکہ ان کی حیثیت بہت ہی کمتر ہے، اسی وجہ سے میں نے ان سے ان کی حیثیت سے بہت زیادہ بلند مطالبات نہیں کیے ہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ بدچلن نہ ہوں، اور وہ روکے جانے کی بات کی اطاعت کریں۔ یقیناً اس شرط پر پورا اترنا تمہاری استطاعت سے باہر نہیں ہے، کہ ہے؟ زیادہ تر لوگ یہ انتظار کر رہے ہیں کہ میں اس سے بھی زیادہ اسرار ظاہر کروں تاکہ ان کی آنکھیں نظارے کا لطف لے سکیں۔ تاہم، اگر تو آسمان کے تمام اسرار کو سمجھ بھی گیا تو تو اس علم کے ساتھ کیا کر سکتا ہے؟ کیا یہ تیری مجھ سے محبت میں اضافہ کر دے گا؟ کیا یہ میرے لیے تیری محبت کو بیدار کر دے گا؟ میں انسانوں کو کمتر یا حقیر نہیں سمجھتا ہوں، اور نہ ہی میں ان کے بارے میں غیر سنجیدگی سے کوئی فیصلہ کرتا ہوں۔ اگر انسانوں کے اصل حالات یہ نہ ہوتے تو میں کبھی بھی اتنے سرسری انداز میں ایسے القابات سے ان کی تاجپوشی نہ کرتا۔ ماضی کے بارے میں سوچو: میں نے تم پر کتنی مرتبہ الزام تراشی کی ہے؟ میں نے کتنی بار تمہیں کمتر یا حقیر سمجھا ہے؟ میں نے کتنی بار تمہارے حقیقی حالات کی پرواہ کیے بغیر تمہیں دیکھا ہے؟ کتنی بار میری باتیں تمہیں خلوصِ دل سے جیتنے میں ناکام رہی ہیں؟ میں نے کتنی بار تمہارے اندر گہرے گونج دار ہمدردی کے جذبے کو ابھارے بغیر بات کی ہے؟ تم میں سے کس نے میرے کلام کو خوفزدہ ہوئے اور کانپے بغیر پڑھا ہے، اس بات سے سخت ڈرتے ہوئے کہ میں تمہیں ضرب لگا کر نیچے اتھاہ گڑھے میں پھینک دوں گا؟ کون میرے کلام کی مدد سے آزمائشوں کو برداشت نہیں کرتا ہے؟ میری باتوں کے اندر اختیار موجود ہے، لیکن یہ انسانوں پر سرسری انداز میں فیصلہ صادر کرنے کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ، ان کے حقیقی حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، میں ان پر مسلسل اپنے کلام کا فطری مفہوم ظاہر کرتا ہوں۔ حقیقت میں، کیا کوئی ہے جو میرے کلام میں میری قادر مطلق طاقت کو پہچاننے کے قابل ہو؟ کیا کوئی ہے جو اس خالص ترین سونے کو حاصل کر سکے جس سے میرا کلام بنا ہے؟ میں نے آخر کتنے الفاظ بولے ہیں؟ کیا کسی نے کبھی ان کو قیمتی سمجھا ہے؟
3 مارچ 1992