کیا تجھے معلوم ہے؟ خدا نے انسانوں میں عظیم چیز کی ہے
پرانا دور گزر گیا اور نیا دور آچکا ہے۔ سال ہا سال اور دن بہ دن خدا نے بہت کام کیا ہے۔ وہ دنیا میں آیا اور پھر چلا گیا۔ اس سلسلے نے کئی نسلوں میں خود کو دہرایا ہے۔ آج، خدا پہلے کی طرح اپنا لازمی کام جاری رکھے ہوئے ہے، وہ کام جو اسے ابھی مکمل کرنا ہے، کیونکہ اس دن تک اس نے آرام نہیں کیا۔ تخلیق کے وقت سے لے کر آج تک خدا نے بہت کام کیا ہے۔ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ خدا آج پہلے سے کہیں زیادہ کام کرتا ہے، اور اس کے کام کا حجم پہلے سے کہیں زیادہ ہے؟ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ خدا نے انسانوں کے مابین عظیم کام کیا ہے۔ خدا کے تمام کام بہت اہم ہیں، خواہ وہ بشر کے لیے ہو یا خدا کے لیے، کیونکہ اس کے ہر کام کا تعلق بشر سے ہے۔
چونکہ خدا کا کام نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی چھُوا جا سکتا ہے – کجا یہ کہ دنیا اسے دیکھ سکے – تو یہ کوئی عظیم چیز کیسے ہو سکتی ہے؟ آخر کس قسم کی چیز عظیم سمجھی جا سکتی ہے؟ یقیناً، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ خدا جو بھی کام کرتا ہے اسے عظیم سمجھا جا سکتا ہے، لیکن میں یہ اس کام کے متعلق کیوں کہتا ہوں جو خدا آج کرتا ہے؟ جب میں کہتا ہوں کہ خدا نے ایک عظیم کام کیا ہے تو اس میں بلاشبہ بہت سے راز شامل ہیں جنھیں بشر ابھی تک سمجھ نہیں پایا۔ آؤ اب ان کی بات کرتے ہیں۔
یسوع ایک کُھرلی میں ایسے زمانے میں پیدا ہوا جو اس کا وجود برداشت نہیں کر سکا، لیکن پھر بھی دنیا اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکی اور وہ تینتیس سال تک انسانوں کے درمیان خدا کے زیر سایہ رہا۔ زندگی کے اتنے سارے سالوں میں اس نے دنیا کی تلخیوں کا تجربہ کیا اور زمین پر مصائب کی زندگی برداشت کی۔ اس نے تمام بنی نوع انسان کے گناہوں کا ازالہ کرنے کے لیے مصلوب ہونے کا بڑا بوجھ اپنے کندھوں پر سنبھالا۔ اس نے ان تمام گناہ گاروں کو خلاصی دی جو شیطان کے اثر میں زندگی گزار رہے تھے، اور بالآخر اس کا دوبارہ زندہ کیا گیا جسم اپنی آرام گاہ پر واپس چلا گیا۔ اب خدا کا نیا کام شروع ہو گیا ہے اور یہ ایک نئے دور کا آغاز بھی ہے۔ خدا اپنے گھر میں ان لوگوں کو لاتا ہے جنھیں خلاصی دی جا چکی ہو تاکہ وہ اپنا نجات دینے کا نیا کام شروع کر سکے۔ اس بار، نجات کا کام ماضی کے مقابلے میں زیادہ جامع ہے۔ بشر کو اپنے طور پر بدلنے کا یہ کام روح القدس نہیں کر رہی، اور نہ ہی یہ یسوع کا جسم ہے جو یہ کام کرنے کے لیے انسانوں کے درمیان ظاہر ہو رہا ہے، اور دوسرے ذرائع سے تو یہ کام بالکل نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ مجسم خدا ہے جو کام کر رہا ہے اور خود اس کی ہدایت دے رہا ہے۔ وہ یہ اس طرح کرتا ہے تا کہ بشر کو نئے کام میں لے جائے۔ کیا یہ عظیم چیز نہیں ہے؟ خدا یہ کام انسانیت کے کسی جزو یا پیشین گوئیوں کے ذریعے نہیں کرتا؛ بلکہ خدا خود یہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے اور یہ بشر کو آسمان میں نہیں لے جاسکتی ہے۔ لیکن میں تمھیں کہوں گا کہ خدا کا کام صرف یہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی عظیم تر اور اس سے بہت زیادہ ہے۔
اس بار، خدا روحانی جسم میں نہیں بلکہ بہت ہی عام جسم میں کام کرنے آتا ہے۔ مزید برآں، یہ نہ صرف دوسری بار مجسم ہونے والے خدا کا جسم ہے بلکہ یہ وہ جسم بھی ہے جس کے ذریعے خدا گوشت پوست کی صورت میں آتا ہے۔ یہ نہایت عام بدن ہے۔ تُو کوئی ایسی چیز نہیں دیکھ سکتا جو اسے دوسروں سے منفرد بنائے، لیکن تُو ان سنی سچائیاں اس سے حاصل کر سکتا ہے، یہ غیر معمولی جسم خدا کی جانب سے سچائی کے تمام الفاظ مجسم کرتا ہے، آخری ایام میں خدا کا کام انجام دیتا ہے اور بشر کے سمجھنے کے لیے خدا کے تمام تر مزاج کا اظہار کرتا ہے۔ کیا تُو جنت میں خدا کو دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو جنت میں خدا کو سمجھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ کیا تُو بنی نوع انسان کی منزل دیکھنے کی شدید خواہش نہیں رکھتا؟ وہ تجھے یہ تمام راز بتائے گا – وہ راز جو کوئی بشر تجھے بتانے کے قابل نہیں تھا، اور یہ تجھے وہ سچائیاں بھی بتائے گا جو تُو نہیں سمجھتا۔ وہ بادشاہی کے لیے تیرا دروازہ ہے، اور نئے دور میں تیرا راہنما۔ ایسا معمولی جسم اپنے اندر بہت سے ناقابل ادراک راز لیے ہوئے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے اعمال تیرے لیے ناقابلِ فہم ہوں لیکن اس کے انجام دیے گئے کام کا پورا مقصد تجھے یہ دیکھنے کے قابل بنانے کے لیے کافی ہے کہ وہ، جیسا کہ لوگ مانتے ہیں، کوئی معمولی جسم نہیں ہے۔ کیونکہ وہ خدا کی مرضی اور آخری ایام میں بنی نوع انسان کے لیے خدا کی نگہداشت کا اظہار ہے۔ اگرچہ تجھے اس کی باتیں آسمان و زمین ہلا دینے والی نہیں لگیں گی، اگرچہ اس کی آنکھیں آگ کے شعلے کی مانند نہیں لگیں گی اور اگرچہ تجھے اس کا نظم و ضبط لوہے کی سلاخ کی طرح سخت نہیں ملے گا، اس کے باوجود تُو اس کی باتوں سے سمجھ سکے گا کہ خدا غضب ناک ہے اور یہ جان سکے گا کہ خدا بنی نوع انسان پر رحم کر رہا ہے؛ تُو خدا کا راست باز مزاج اور حکمت دیکھ سکے گا نیز تمام بنی نوع انسان کے لیے خدا کی منشا محسوس کر سکے گا۔ آخری ایام میں خدا کا کام یہ ہو گا کہ بشر زمین پر دیگر لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے آسمان پر اسے دیکھ سکے، اسے جان سکے اور اس کی عبادت، تعریف اور اس سے محبت کر سکے۔ اسی لیے وہ مجسم ہو کر دوسری بار آیا ہے۔ اگرچہ آج بشر کو جو نظر آتا ہے وہ بشر کی طرح کا ہی خدا ہے، ایک ناک اور دو آنکھوں والا بے مثال خدا، آخر میں خدا تمھیں دکھائے گا کہ اگر اس بشر کا وجود نہ ہوتا تو زمین و آسمان ایک بہت بڑی تبدیلی سے گزرتے۔ اگر یہ بشر نہ ہوتا تو آسمان مدھم پڑ جاتا، دنیا افراتفری میں غرق ہو جاتی اور تمام بنی نوع انسان قحط اور بیماریوں میں گِھر جاتی۔ وہ تمھیں دکھائے گا کہ اگر آخری ایام میں خدا تمھیں بچانے کے لیے مجسم نہ ہوتا، تو خدا بہت پہلے تمام انسانوں کو جہنم میں تباہ کر چکا ہوتا۔ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تم ہمیشہ گناہ گار رہتے اور ہمیشہ کے لیے محض لاشیں بنے رہتے۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو تمام بنی نوع انسان کو ایک ناقابل تلافی آفت کا سامنا کرنا پڑتا اور اس سے بھی زیادہ، سخت عذاب سے بچنا ناممکن ہو جاتا جو خدا آخری ایام میں بنی نوع انسان کو دے گا۔ اگر یہ عام جسم پیدا نہ کیا جاتا تو تمھاری حالت یہ ہوتی کہ زندگی کی بھیک مانگتے لیکن جی نہ سکتے، مرنے کی دعا کرتے لیکن مر نہ سکتے؛ اگر یہ جسم موجود نہ ہوتا تو آج تم سچائی حاصل کرنے اور خدا کے عرش کے سامنے آنے کے قابل نہ ہوتے بلکہ تمھیں اپنے سنگین گناہوں کی وجہ سے خدا کی طرف سے سزا ملتی۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ اگر خدا کی جسم میں واپسی نہ ہوتی تو کسی کو نجات کا موقع نہ ملتا اور اگر یہ جسم نہ ہوتا تو خدا بہت پہلے بڑھاپا ہی ختم کر دیتا؟ اب جب کہ ایسا ہے تو کیا تم اب بھی خدا کا دوسرا مجسم ظہور مسترد کر سکتے ہو؟ چونکہ تم اس عام انسان سے بہت سے فوائد حاصل کر سکتے ہو، تم اسے بخوشی کیوں قبول نہیں کر سکتے؟
خدا کا کام ایک ایسی چیز ہے جس کا تُو ادراک نہیں کر سکتا۔ اگر تُو نہ تو پوری طرح سمجھ سکتا ہے کہ آیا تیرا انتخاب درست ہے یا نہیں، اور نہ ہی یہ جان سکتا ہے کہ آیا خدا کا کام کامیاب ہو سکتا ہے یا نہیں، تو کیوں نہ تُو اپنی قسمت آزما اور دیکھ کہ آیا یہ عام آدمی تیری کافی مدد کر سکتا ہے یا نہیں، اور یہ کہ آیا خدا نے واقعی بہت عظیم کام کیا ہے؟ تاہم، میں تجھے لازماً بتانا چاہتا ہوں کہ نوح کے زمانے میں لوگ اتنا حد سے زیادہ کھاتے پیتے تھے، خوشیاں مناتے تھے اور شادیوں میں مشغول تھے کہ خدا کے لیے یہ سب دیکھنا ناقابل برداشت تھا، اس لیے اس نے بنی نوع انسان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایک بہت بڑا سیلاب بھیجا، اور صرف نوح کے آٹھ لوگوں کے خاندان اور ہر قسم کے پرندوں اور حیوانوں کو بچایا۔ تاہم، آخری ایام میں، جن لوگوں کو خدا نے بچایا، وہ سب ایسے لوگ ہیں جو آخری وقت تک اس کے وفادار رہے۔ اگرچہ دونوں ادوار بے حد فساد کے زمانے تھے جنہیں خدا کے لیے دیکھنا ناقابل برداشت تھا، اور دونوں ادوار میں نوع انسانی اس قدر بدعنوان اور خدا کو اپنا خداوند ماننے سے منکر ہو گئی تھی، خدا نے صرف نوح کے زمانے میں ہی لوگوں کو تباہ و برباد کیا۔ دونوں ادوار میں بنی نوع انسان نے خدا کو بہت تکلیف دی، پھر بھی خدا نے اب تک آخری دور کے لوگوں کے ساتھ تحمل سے کام لیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا تمھیں کبھی حیرانی نہیں ہوئی کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر تم واقعی نہیں جانتے تو میں تمھیں بتاتا ہوں۔ آخری زمانے میں خدا کے لوگوں پر فضل کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ نوح کے زمانے کے لوگوں سے کم بدعنوان تھے، یا یہ کہ انہوں نے خدا سے توبہ کا اظہار کیا ہے، اور ایسا تو بالکل نہیں ہے کہ چونکہ آخری زمانے میں ٹیکنالوجی اس قدر ترقی یافتہ ہے اس لیے خدا خود انھیں تباہ نہیں کر سکتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ خدا نے آخری زمانے میں لوگوں کے ایک گروہ میں کام کرنا ہے، اور یہ کام خدا خود مجسم شکل میں کرے گا۔ مزید برآں، خدا اس گروہ کے ایک حصے کو منتخب کرے گا کہ وہ اس کی طرف سے نجات میں شامل ہو سکیں اور اس کے انتظامی منصوبے کا فائدہ اٹھا سکیں، اور اس لیے کہ وہ ان لوگوں کو اگلے زمانے میں لائیں۔ اس لیے، خواہ کچھ بھی ہو، خدا کی طرف سے ادا کی گئی یہ قیمت مکمل طور پر اس کام کی تیاری کے لیے ہے جو اس کا مجسم جسم آخری ایام میں کرے گا۔ یہ حقیقت کہ تم آج کے دور تک پہنچے ہو، وہ اس جسم کی وجہ سے ہی ہے۔ تمھارے پاس بقا کا موقع اسی لیے ہے کہ خدا جسم میں رہتا ہے۔ ساری خوش قسمتی صرف اس عام بشر کی وجہ سے ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر قوم کو اس عام بشر کی عبادت کرنی چاہیے نیز اس غیر اہم انسان کا شکریہ ادا کر کے اس کی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ یہ سچائی، زندگی اور اس کے لائے ہوئے راستے ہیں، جس نے تمام نوع انسانی کو بچایا، بشر اور خدا کے درمیان تصفیہ کیا، ان کے درمیان فاصلہ کم کیا، اور خدا اور بشر کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ یہ وہ بھی ہے جس نے خدا کے لیے عظیم تر شان حاصل کی۔ کیا ایسا عام بشر تمھارے بھروسے اور تقلید کے قابل نہیں ہے؟ کیا ایسا عام جسم مسیح کہلائے جانے کے لیے مناسب نہیں ہے؟ کیا ایسا عام فرد انسانوں کے درمیان خدا کا اظہار نہیں بن سکتا؟ کیا ایسا بشر جس نے بنی نوع انسان کو آفات سے بچایا ہے، تمھاری محبت اور تمھارے اسے تھام لینے کی خواہش کا مستحق نہیں؟ اگر تم اس کی زبان سے ادا ہونے والی سچائیاں رد کرتے ہو اور اپنے درمیان اس کے وجود سے نفرت کرتے ہو، تو آخر میں تمھارا کیا بنے گا؟
آخری ایام میں خدا کا سارا کام اس عام بشر کے ذریعے انجام دیا جائے گا۔ وہ تجھے سب کچھ عطا کرے گا اور اس سے بڑھ کر وہ تجھ سے متعلق ہر چیز کا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گا۔ کیا ایسا بشر ویسا ہو سکتا ہے جیسا تم اسے مانتے ہو: اتنا سادہ بشر جس کا تذکرہ کرنا بھی ضروری نہ ہو؟ کیا فقط اس کی سچائی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ کیا اس کے اعمال کی گواہی تمھیں مکمل قائل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ یا ایسا ہے کہ جو راستہ وہ لایا ہے وہ اس لائق نہیں کہ تم اس پر چلو؟ جب سب کہہ اور کر لیا جائے تو ایسی کیا چیز ہے جو تمھیں اس سے نفرت کرنے اور اسے دور بھگانے اور اس سے کنارہ کشی کرنے پر مجبور کرتی ہے؟ یہ وہ بشر ہے جو سچائی کا اظہار کرتا ہے، یہی وہ بشر ہے جو سچائی فراہم کرتا ہے نیز یہی وہ بشر ہے جو تمھیں پیروی کرنے کا راستہ بتاتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم ان سچائیوں میں خدا کے کام کا سراغ پانے سے قاصر ہو؟ یسوع کے کام کے بغیر، نوع انسانی صلیب سے نجات نہیں پا سکتی تھی لیکن آج کے مجسم ہونے کے بغیر، وہ لوگ جو صلیب سے نجات حاصل کرتے ہیں، وہ کبھی خدا کی رضا حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس عام بشر کی آمد کے بغیر، تمھیں کبھی خدا کا حقیقی چہرہ دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی تم اس کے اہل ہوتے کیونکہ تم وہ تمام چیزیں ہو جنھیں بہت پہلے فنا ہو جانا چاہیے تھا۔ خدا کے دوسری بار مجسم ہو کر آنے کی وجہ سے، خدا نے تمھیں معاف کر دیا اور تم پر رحم کیا۔ اس کے باوجود، آخر میں جو الفاظ میں تم سے کہوں گا وہ یہ ہیں: یہ عام بشر، جو خدا کا مجسم ہے، تمھارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ عظیم چیز ہے جو خدا پہلے ہی انسانوں میں کر چکا ہے۔