تجھے خدا کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھنا چاہیے
روح القدس آج کل کلیسیا کے اندر کیسے کام کر رہی ہے؟ کیا اس سوال کے متعلق تجھے پختہ ادراک ہے؟ تیرے بھائیوں اور بہنوں کی سب سے بڑی مشکلات کیا ہیں؟ ان میں کس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے؟ فی الحال، کچھ لوگ ایسے ہیں جو آزمائشوں سے گزرتے ہوئے منفی ہوتے ہیں، اور کچھ شکایت بھی کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ اب آگے نہیں بڑھ رہے ہیں کیونکہ خدا نے بولنا ختم کر دیا ہے۔ لوگ خدا پر ایمان کے صحیح راستے میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ وہ آزادانہ طور پر نہیں رہ سکتے، اور وہ خود اپنی روحانی زندگی کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ ساتھ چلتے ہیں اور توانائی کے ساتھ جستجو کرتے ہیں، اور جب خدا بولتا ہے تو عمل کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں، لیکن جب خدا نہیں بولتا، تو وہ مزید آگے نہیں بڑھتے۔ لوگ ابھی تک اپنے دلوں میں خدا کی مرضی کو نہیں سمجھ پائے اور وہ خدا کے لیے بے ساختہ محبت نہیں رکھتے ہیں؛ ماضی میں وہ خدا کی پیروی کرتے تھے کیونکہ وہ مجبور تھے۔ اب کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کے کام سے اکتا چکے ہیں۔ کیا ایسے لوگ خطرے میں نہیں ہیں؟ بہت سے لوگ بس جدوجہد کرنے کی حالت میں ہی زندہ ہیں۔ اگرچہ وہ خدا کا کلام کھاتے اور پیتے ہیں اور اس سے دعا کرتے ہیں، لیکن وہ نیم دلی کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، اور اب ان کے پاس وہ تحرiک نہیں ہے جو پہلے ان کے پاس تھی۔ زیادہ تر لوگ خُدا کی طرف سے تزکیہ کرنے اور کامل بنانے کے کام میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور یہ درحقیقت ایسا ہے جیسے وہ مسلسل بغیر کسی اندرونی تحریک کے ہیں۔ جب خطائیں ان پر غلبہ پا لیتی ہیں تو وہ خدا کے مقروض ہونے کا احساس نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں پچھتاوا محسوس کرنے کا شعور ہوتا ہے۔ وہ سچائی کی جستجو نہیں کرتے یا کلیسیا کو نہیں چھوڑتے ہیں، اور اس کی بجائے صرف عارضی لذتوں کی جستجو میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ بے وقوف ہیں، بالکل احمق! جب وقت آئے گا تو ان سب کو باہر نکال دیا جائے گا، اور ایک کو بھی نہیں بچایا جائے گا! کیا تو یہ سوچتا ہے کہ اگر کسی کو ایک بار بچایا گیا ہے تو اسے ہمیشہ بچایا جائے گا؟ یہ عقیدہ خالص دھوکا ہے! وہ تمام لوگ جو زندگی میں داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے انھیں سزا دی جائے گی۔ زیادہ تر لوگوں کو زندگی میں داخل ہونے، بصیرت میں، یا سچائی کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ اندر داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے، اور وہ یقینی طور پر زیادہ گہرائی میں داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے۔ کیا وہ اپنے آپ کو برباد نہیں کر رہے ہیں؟ اس وقت، لوگوں کا ایک حصہ ہے جن کے حالات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔ روح القدس جتنا زیادہ کام کرتی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اعتماد حاصل کرتے ہیں؛ وہ جتنا زیادہ تجربہ کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ خدا کے کام کے گہرے اسرار کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ جتنی زیادہ گہرائی میں داخل ہوتے ہیں، اتنا ہی زیادہ وہ سمجھتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی محبت بہت عظیم ہے، اور وہ اپنے اندر استحکام اور آگہی محسوس کرتے ہیں۔ وہ خدا کے کام کی ایک فہم رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں روح القدس کام کر رہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: ”اگرچہ خدا کی طرف سے کوئی نیا کلام نہیں ہے، مگر پھر بھی مجھے سچائی کی زیادہ گہرائی میں جانے کی کوشش لازمی کرنی چاہیے، مجھے اپنے حقیقی تجربے میں ہر چیز کے بارے میں لازمی سنجیدہ ہونا چاہیے اور خدا کے کلام کی حقیقت میں داخل ہونا چاہیے۔“ اس قسم کے شخص کے پاس روح القدس کا کام ہوتا ہے۔ اگرچہ خدا اپنا چہرہ ظاہر نہیں کرتا اور ہر ایک شخص سے پوشیدہ ہے اور اگرچہ وہ ایک لفظ بھی نہیں بولتا اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو کچھ اندرونی تجربے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن خدا نے لوگوں کو مکمل طور پر نہیں چھوڑا۔ اگر کوئی شخص اس سچائی کو برقرار نہیں رکھ سکتا جس پر عمل کرنا چاہیے، تو اس کے پاس روح القدس کا کام نہیں ہو گا۔ تزکیے کی مدت کے دوران، خدا کا اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنا، اگر تجھے اعتماد نہیں ہے بلکہ اس کی بجائے ڈرتا ہے، اگر تو اس کے کلام کا تجربہ کرنے پر توجہ نہیں دیتا ہے، تو پھر تو خدا کے کام سے بھاگ رہا ہے۔ بعد میں، تو باہر نکال دیے جانے والوں میں سے ایک ہو گا۔ جو لوگ خدا کے کلام میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرتے وہ ممکنہ طور پر اس کے لیے گواہ کے طور پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ خدا کے لیے گواہی دینے اور اس کی مرضی کو پورا کرنے کے قابل ہیں وہ سب خدا کے کلام کی جستجو کرنے کی اپنے تحریک پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ خدا جو کام لوگوں میں کرتا ہے وہ بنیادی طور پر انھیں سچائی حاصل کرنے کا موقع دینا ہے؛ تجھے زندگی کی جستجو کرنے دینا تجھے کامل بنانے کے لیے ہے، اور یہ سب تجھے خدا کے استعمال کے لیے موزوں بنانے کے لیے ہے۔ اب تو جس چیز کی جستجو کر رہا ہے وہ صرف اسرار کو سننا، خدا کے کلام کو سننا، اپنی آنکھوں کی ضیافت کرنا، اور ارد گرد دیکھنا ہے کہ آیا کوئی نیا پن یا رجحان ہے، اور اس طرح اپنے تجسس کو مطمئن کرنا ہے۔ اگر تیرے دل میں یہی ارادہ ہے تو تیرے لیے خدا کے تقاضوں کو پورا کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو لوگ سچائی کی جستجو نہیں کرتے وہ آخری دم تک پیروی نہیں کر سکتے۔ اس وقت یہ نہیں ہے کہ خدا کچھ نہیں کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگ اس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے، کیونکہ وہ اس کے کام سے اکتا چکے ہیں۔ وہ صرف اس کلام کو سننا چاہتے ہیں جو وہ نعمتیں عطا کرنے کے لیے کہتا ہے، اور وہ اس کی عدالت اور سزا کی باتیں سننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی نعمتیں حاصل کرنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی ہے اور اس لیے وہ منفی اور کمزور ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا جان بوجھ کر لوگوں کو اپنی پیروی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور نہ ہی یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر انسانیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ لوگ منفی اور کمزور صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کی نیتیں غلط ہیں۔ خدا وہ خدا ہے جو انسان کو زندگی دیتا ہے، اور وہ انسان کو موت نہیں دے سکتا۔ لوگوں کی منفی کیفیت، کمزوریاں اور برائی کی طرف واپس آنا، سب ان کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔
خدا کا موجودہ کام لوگوں کا کچھ تزکیہ کرتا ہے، اور صرف وہی لوگ جو اس تزکیے کو حاصل کرتے ہوئے ثابت قدم رہ سکتے ہیں خدا کی تائید حاصل کر سکیں گے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح چھپاتا ہے، چاہے نہ بولنے یا کام نہ کرنے سے، تو پھر بھی پوری توانائی سے جستجو کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر خدا نے کہا کہ وہ تجھے رد کر دے گا، تُو پھر بھی اس کی پیروی کرے گا۔ یہ خدا کے لیے گواہی دینا ہے۔ اگر خدا اپنے آپ کو تجھ سے چھپا لیتا ہے اور تو اس کی پیروی چھوڑ دیتا ہے تو کیا یہ خدا کے لیے گواہی دینا ہے؟ وہ اپنے سچے دل کے ساتھ اس کی جستجو بالکل نہیں کرتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو سچائی میں داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے لیکن زندگی میں اپنے تجسس پر انحصار کرتے ہیں قابلِ نفرت لوگ ہیں، اور وہ خطرے میں ہیں! خدا کے مختلف قسم کے سب کام انسانیت کو کامل بنانے لیے کیے جاتے ہیں۔ تاہم، لوگ ہمیشہ متجسس رہتے ہیں، وہ سنی سنائی باتوں کے بارے میں پوچھنا پسند کرتے ہیں، وہ بیرونی ممالک کے حالاتِ حاضرہ کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں – مثال کے طور پر، وہ اس بارے میں متجسس ہوتے ہیں کہ اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے، یا کیا مصر میں زلزلہ آیا تھا – وہ اپنی خود غرض خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ کچھ نئی، جدید چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ زندگی کی جستجو نہیں کرتے، اور نہ ہی وہ کامل بنائے جانے کی جستجو کرتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ خدا کا دن زیادہ جلدی آئے تاکہ ان کے خوبصورت خوابوں کو تعبیر ملے اور ان کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات پوری ہوں۔ اس قسم کا شخص عملی نہیں ہوتا ہے – وہ ایسا شخص ہے جس کا نقطہ نظر غلط ہے۔ صرف سچائی کی جستجو ہی انسان کے خدا پر ایمان کی بنیاد ہے، اور اگر لوگ زندگی میں داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے، اگر وہ خدا کو راضی کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، تو انھیں سزا ملے گی۔ جن کو سزا دی جانی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے کام کے وقت میں روح القدس کا کام حاصل نہیں کیا ہے۔
خدا کے کام کے اس مرحلے کے دوران لوگوں کو اس کے ساتھ کس طرح تعاون کرنا چاہیے؟ خدا اس وقت لوگوں کا امتحان لے رہا ہے۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں بول رہا ہے بلکہ اپنے آپ کو چھپا رہا ہے اور لوگوں سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کر رہا، لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ اب بھی انسان کے اندر کام کر رہا ہے۔ جو کوئی بھی زندگی میں داخل ہونے کی جستجو کر رہا ہے اس کے پاس زندگی کے حصول کے لیے ایک آگہی ہوتی ہے، اور اگر وہ خدا کے کام کو پوری طرح سے نہیں سمجھتا تو تب بھی اس کے شکوک و شبہات نہیں ہوتے۔ خدا لوگوں کو کسی خاص مقام کی طرف لے جا کر اور پھر انھیں بس ایک طرف پھینک نہیں دے گا اور انھیں نظر انداز نہیں کرے گا۔ یہ اس لیے ہے کہ خدا قابلِ بھروسا ہے۔ اس مرحلے پر، روح القدس تزکیے کا کام کر رہی ہے۔ وہ ہر ایک شخص کا تزکیہ کر رہی ہے۔ کام کے جو مراحل موت کی آزمائش اور عذاب کی آزمائش پر مشتمل تھے، ان میں کلام کے ذریعے تزکیہ کیا جاتا تھا۔ لوگوں کو خُدا کے کام کا تجربہ کرنے کے لیے، انھیں پہلے اُس کے موجودہ کام کو لازمی سمجھنا چاہیے اور یہ کہ انسانیت کو کس طرح تعاون کرناچاہیے۔ درحقیقت، یہ وہ چیز ہے جسے سب کو سمجھنا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کیا کرتا ہے، چاہے وہ تزکیہ ہو یا چاہے وہ بول نہ رہا ہو، خدا کے کام کا ایک مرحلہ بھی انسانیت کے تصورات کے مطابق نہیں ہے۔ اس کے کام کا ہر مرحلہ لوگوں کے تصورات کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور توڑتا ہے۔ یہ اس کا کام ہے۔ لیکن تجھے یقین ہونا چاہیے کہ چونکہ خدا کا کام ایک خاص مرحلے پر پہنچ چکا ہے، اس لیے چاہے کچھ بھی ہو، وہ تمام انسانیت کو موت نہیں دے گا۔ وہ انسانیت کو وعدے اور برکات دونوں دیتا ہے، اور جو لوگ اس کی جستجو کرتے ہیں وہ اس کی برکات حاصل کر سکیں گے، لیکن جو نہیں کرتے وہ خدا کی طرف سے باہر نکال دیے جائیں گے۔ یہ تیری جستجو پر منحصر ہے۔ کسی اور چیز سے قطع نظر، تجھے یقین رکھنا چاہیے کہ جب خدا کا کام ختم ہو جائے گا، تو ہر ایک شخص کو ایک مناسب منزل مل جائے گی۔ خدا نے بنی نوع انسان کو خوبصورت امنگیں فراہم کی ہیں، لیکن جستجو کے بغیر وہ ناقابل حصول ہیں۔ تجھے اب یہ دیکھنے کے قابل ہونا چاہیے – خدا کا لوگوں کا تزکیہ کرنا اور لوگوں کے لیے اس کی سزا اس کا کام ہے، لیکن لوگوں کو، اپنے حصے کے کام کے لیے، ہر وقت مزاج میں تبدیلی کی جستجو کرنی چاہیے۔ اپنے عملی تجربے میں، تجھے سب سے پہلے یہ لازمی جاننا چاہیے کہ خدا کے کلام کو کیسے کھانا اور پینا ہے؛ تجھے اس کے کلام میں لازمی تلاش کرنا چاہیے کہ تجھے کس میں داخل ہونا چاہیے اور تیری اپنی خامیاں کیا ہیں، تجھے اپنے عملی تجربے میں داخل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے، اور خدا کے کلام میں سے کچھ حصہ لینا چاہیے جس پر عمل کرنا چاہیے اور ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سب روح القدس کا کام ہے، لیکن اگر معمول کی حالت والوں کے لیے یہ کامل بنایا جانا ہے تو خلاف معمول حالت والوں کے لیے یہ ایک آزمائش ہے۔ روح القدس کے تزکیہ کرنے کے کام کے موجودہ مرحلے پر، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کا کام بہت بڑا ہے اور لوگوں کو تزکیے کی بالکل ضرورت ہے، ورنہ ان کی حیثیت بہت چھوٹی ہو گی اور ان کے پاس خدا کی مرضی کو حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہو گا۔ البتہ جن کی حالت اچھی نہیں ان کے لیے یہ خدا کی جستجو نہ کرنے کا سبب اور اجتماعات میں شرکت نہ کرنے یا خدا کے کلام کو نہ کھانے پینے کی ایک وجہ بن جاتا ہے۔ خدا کے کام میں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کیا کرتا ہے یا وہ کن تبدیلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے، لوگوں کو ایک عام روحانی زندگی کے خطِ آغاز کو برقرار رکھنا چاہیے۔ شاید تو اپنی روحانی زندگی کے اس موجودہ مرحلے میں سستی کا شکار نہیں ہوا ہے، لیکن تو نے ابھی تک بہت کچھ حاصل نہیں کیا ہے، اور تو نے ایک بڑی فصل نہیں کاٹی ہے۔ اس قسم کے حالات میں، تجھے اب بھی اصولوں کی پیروی لازمی کرنی چاہیے؛ تجھے ان اصولوں پر ضرور عمل کرنا چاہیے تاکہ تجھے اپنی زندگی میں نقصانات نہ برداشت کرنے پڑیں اور تاکہ تو خدا کی مرضی پوری کر سکے۔ اگر تیری روحانی زندگی غیر معمولی ہے، تو تُو خدا کے موجودہ کام کو نہیں سمجھ سکتا، اور اس کی بجائے ہمیشہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تیرے اپنے تصورات سے مکمل طور پر مطابقت نہیں رکھتا، اور اگرچہ تو اس کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہے، لیکن تجھ میں اندرونی تحریک کی کمی ہے۔ لہٰذا، خدا اس وقت جو کچھ بھی کر رہا ہے، لوگوں کو لازمی تعاون کرنا چاہیے۔ اگر لوگ تعاون نہیں کرتے تو روح القدس اپنا کام نہیں کر سکتی، اور اگر لوگ تعاون کرنے کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہیں تو وہ روح القدس کا کام حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے اندر روح القدس کا کام ہو، اور اگر تو خدا کی تائید حاصل کرنا چاہتا ہے، تو تجھے خدا کے سامنے اپنی اصل عقیدت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اب، تیرے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ تیرے پاس ایک گہری فہم، ایک اعلیٰ نظریہ، یا اس طرح کی دوسری چیزیں ہوں – جس کی ضرورت ہے وہ صرف یہ ہے کہ تو خدا کے کلام کو اصل بنیاد پر برقرا رکھے۔ اگر لوگ خدا کے ساتھ تعاون نہیں کرتے اور زیادہ گہرائی میں داخل ہونے کی جستجو نہیں کرتے تو خدا ان تمام چیزوں کو لے لے گا جو اصل میں ان کی تھیں۔ اندرونی طور، لوگ ہمیشہ آسانی کے لالچی ہوتے ہیں اور بلکہ جو پہلے سے دستیاب ہوتا ہے اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ کوئی قیمت ادا کیے بغیر خدا کے وعدوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ حد سے بڑھے ہوئے خیالات ہیں جو انسانیت رکھتی ہے۔ خود زندگی کو قیمت ادا کیے بغیر حاصل کرنا – لیکن کیا کبھی کوئی چیز اتنی آسان رہی ہے؟ جب کوئی خدا پر ایمان رکھتا ہے اور زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے مزاج میں تبدیلی کی کوشش کرتا ہے، تو اسے ایک قیمت لازمی ادا کرنی ہے اور ایسی حالت حاصل کرنی ہے جس میں وہ ہمیشہ خدا کی پیروی کرے، چاہے خدا کچھ بھی کرے۔ یہ وہ کام ہے جو لوگوں کو لازمی کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر تو ان سب کی ایک اصول کے طور پر پیروی کرتا ہے، تو تجھے ہمیشہ اسے لازمی برقرار رکھنا چاہیے، اور چاہے کتنی ہی بڑی آزمائشیں کیوں نہ ہوں، تو خدا کے ساتھ اپنے معمول کے رشتے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ تجھے دعا کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اپنی کلیسیائی زندگی کو برقرار رکھنا چاہیے، اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر خدا تجھے آزماتا ہے، تو پھر بھی تجھے سچائی کی تلاش کرنی چاہیے۔ یہ روحانی زندگی کا کم از کم تقاضا ہے۔ ہمیشہ تلاش کرنے کی خواہش رکھنا، اور تعاون کرنے کی جدوجہد کرنا، اپنی تمام تر توانائیاں لگانا – کیا ایسا کیا جا سکتا ہے؟ اگر لوگ اس کو بنیاد کے طور پر لیں تو وہ فہم اور حقیقت میں داخلہ حاصل کر سکیں گے۔ جب تیری اپنی حالت معمول کی ہو تو خدا کے کلام کو قبول کرنا آسان ہوتا ہے؛ ان حالات میں سچائی پر عمل کرنا مشکل محسوس نہیں ہوتا، اور تو محسوس کرتا ہے کہ خدا کا کام عظیم ہے۔ لیکن اگر تیری حالت خراب ہے، تو پھر چاہے خدا کا کام کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اور چاہے کوئی کتنے ہی خوبصورت انداز میں بولے، تو کوئی توجہ نہیں دے گا۔ جب کسی شخص کی حالت خلاف معمول ہوتی ہے، تو اس میں خدا کام نہیں کر سکتا، اور وہ اپنے مزاج میں تبدیلیاں حاصل نہیں کر سکتا۔
اگر لوگوں میں کوئی اعتماد نہیں ہے تو ان کے لیے اس راستے پر چلنا آسان نہیں ہے۔ اب ہر کوئی یہ دیکھ سکتا ہے کہ خدا کا کام لوگوں کے خیالات اور تصورات سے معمولی سی مطابقت بھی نہیں رکھتا ہے۔ خدا نے بہت زیادہ کام کیا ہے اور بہت زیادہ کلام کہا ہے، اور اگرچہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ سچ ہے لیکن پھر بھی ان کے اندر خدا کے بارے میں تصورات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر لوگ سچائی کو سمجھنا اور اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے پاس اعتماد اور قوت ارادی لازمی ہونی چاہیے کہ جو کچھ وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں اور جو کچھ انھوں نے اپنے عملی تجربات سے حاصل کیا ہے اس پر قائم رہنے کے قابل ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا لوگوں میں کیا کرتا ہے، انھیں چاہیے کہ جو کچھ ان پاس ہے اس کو برقرار رکھیں، خدا کے سامنے مخلص رہیں اور آخر تک اس کے ساتھ وابستہ رہیں۔ یہ بنی نوع انسان کا فرض ہے۔ لوگوں کو جو کرنا چاہیے اسے لازمی برقرار رکھنا چاہیے۔ خدا پر ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کے کام کا عملی تجربہ کیا جائے۔ خدا نے بہت زیادہ کام کیا ہے – یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے لیے یہ سب کامل بنایا جانا، تزکیہ، اور اس سے بھی زیادہ سزا ہے۔ خدا کے کام کا کوئی ایک مرحلہ بھی ایسا نہیں ہے جو انسانی تصورات کے مطابق رہا ہے؛ لوگوں کو جو ملا ہے وہ خدا کا سخت گیر کلام ہے۔ جب خدا آتا ہے تو لوگوں کو اس کی عظمت اور اس کے غضب سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔ تاہم، اس کا کلام چاہے کتنا ہی سخت گیر کیوں نہ ہو، وہ انسانیت کو بچانے اور کامل کرنے کے لیے آتا ہے۔ بحیثیت مخلوق، لوگوں کو وہ فرائض پورے کرنے چاہییں جو انھیں کرنے ہیں، اور تزکیے کے درمیان خدا کے لیے گواہی دینی چاہیے۔ ہر آزمائش میں انھیں اس گواہی کو برقرار رکھنا چاہیے جو انھیں دینی ہے، اور خدا کی خاطر ایسا واضح طور پر کرنا چاہیے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ غالب آتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ خدا کس طرح تیرا تزکیہ کرتا ہے، تو اعتماد سے بھرپور رہتا ہے اور کبھی بھی اس پر اعتماد نہیں کھوتا۔ تو وہ کرتا ہے جو انسان کو کرنا چاہیے۔ یہ وہی ہے جس کا خدا انسان سے تقاضا کرتا ہے، اور انسان کا دل پوری طرح سے اس کی طرف لوٹنے اور ہر گزرتے لمحے میں اس کی طرف رجوع کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ یہ ایک غالب آنے والا ہے۔ خدا جن کاحوالہ ”غالب آنے والوں“ کے طور پر دیتا ہے وہ ایسے ہیں جو شیطان کے زیر اثر اور شیطان کے محاصرے میں ہوتے ہوئے بھی گواہی دینے اور خدا پر اپنا اعتماد اور اس کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار رکھنے کے قابل ہوتے ہیں، یعنی جب وہ اپنے آپ کو تاریکی کی قوتوں کے درمیان پاتے ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو، اگر تو اب بھی خدا کے سامنے خالص دل رکھنے اور خدا کے لیے اپنی حقیقی محبت کو برقرار رکھنے کے قابل ہے، تو تُو خدا کے سامنے گواہی دے رہا ہے، اور یہ وہی ہے جسے خدا ”غالب آنے والا“ کہتا ہے۔ اگر تیری جستجو اس وقت بہترین ہوتی ہے جب خدا تجھے برکت دیتا ہے، لیکن تو اس کی برکتوں کے بغیر ہی پیچھے ہٹ جاتا ہے، تو کیا یہ پاکیزگی ہے؟ چونکہ تجھے یقین ہے کہ یہ طریقہ درست ہے، تجھے آخر تک اس پر عمل کرنا چاہیے؛ تجھے خدا کے لیے اپنی عقیدت برقرار رکھنی چاہیے۔ چونکہ تو نے دیکھ لیا ہے کہ خدا خود تجھے کامل کرنے کے لیے زمین پر آیا ہے، اس لیے تجھے اپنا دل مکمل طور پر اس کے سپرد کر دینا چاہیے۔ چاہے وہ کچھ بھی کرے، اگر تو پھر بھی اس کی پیروی کر سکتا ہے چاہے وہ تیرے لیے آخر میں ایک ناموافق انجام کا تعین کرے تو یہ خدا کے سامنے تیری پاکیزگی کو برقرار رکھنا ہے۔ ایک مقدس روحانی جسم اور ایک خالص کنواری کو خدا کے سامنے پیش کرنے کا مطلب خدا کے سامنے مخلص دل رکھنا ہے۔ انسانیت کے لیے اخلاص پاکیزگی ہے، اور خدا کے لیے مخلص ہونے کی صلاحیت پاکیزگی کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ وہی ہے جس پر تجھے عمل کرنا چاہیے۔ جب تجھے دعا کرنی چاہیے تو تُو دعا کر؛ جب تجھے رفاقت میں اکٹھا ہونا چاہیے تو تُو ایسا کر؛ جب تجھے حمدیہ گیت گانے چاہییں تو تُو حمدیہ گیت گا؛ اور جب تجھے جسم کو ترک کرنا چاہیے تو تُو جسم کو ترک کر دے۔ جب تو اپنا فرض ادا کرتا ہے تو اس کو غیر تسلی بخش طریقے سے نہ کر۔ جب تجھے آزمائشوں کا سامنا ہو ہے تو تُو ثابت قدم رہ۔ یہ خدا کے ساتھ وابستگی ہے۔ اگر تو اس بات کی توثیق نہیں کرتا کہ لوگوں کو کیا کرنا چاہیے، تو تیری تمام سابقہ تکالیف اور عزائم بیکار رہے ہیں۔
خدا کے کام کے ہر مرحلے کے لیے ایک طریقہ ہوتا ہے جس کے ساتھ لوگوں کو تعاون کرنا چاہیے۔ خُدا لوگوں کا تزکیہ کرتا ہے تاکہ جب وہ تزکیے کے عمل سے گزریں تو اُن میں اعتماد پیدا ہو۔ خدا لوگوں کو کامل کرتا ہے تاکہ وہ خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے پر بھروسا رکھیں اور اس کے تزکیے کو اور خدا کی طرف سے ان سے نمٹے جانے اور تراش خراش کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ خُدا کی روح لوگوں کے اندر کام کرتی ہے تاکہ انھیں آگہی اور روشنی فراہم کی جائے، اور وہ اُس کے ساتھ تعاون کریں اور عمل کریں۔ خدا کے کام سے تم سب کو واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ خدا کی طرف سے لوگوں کے اعتماد اور محبت کی آزمائشوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس سے زیادہ دعا کریں، اور یہ کہ وہ اس کے سامنے خدا کے کلام کا اکثر لطف اٹھائیں۔ اگر خدا تجھے آگہی دیتا ہے اور تجھے اپنی مرضی سمجھنے دیتا ہے، اور پھر بھی تو اس میں سے کسی کو عملی جامہ نہیں پہناتا ہے تو تجھے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جب تو خُدا کے الفاظ کو عملی جامہ پہناتا ہے، تجھے پھر بھی اُس سے دعا کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور جب تو اُس کے کلام سے لطف اندوز ہوتا ہے تو تجھے اُس کے سامنے آنا چاہیے اور اُس پر ایسا بھرپور اعتماد کرنا چاہیے جس میں مایوسی یا سرد مہری کا نشان تک نہ ہو۔ جو لوگ خدا کے کلام کو عملی جامہ نہیں پہناتے وہ اجتماعات کے دوران توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں، لیکن جب وہ گھر لوٹتے ہیں تو تاریکی میں گر جاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو اکٹھے جمع بھی نہیں ہونا چاہتے۔ پس تجھے واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ وہ کون سا فرض ہے جو لوگوں کو ادا کرنا چاہیے؟ ہو سکتا ہے تجھے معلوم نہ ہو کہ خدا کی مرضی دراصل کیا ہے، لیکن تو اپنا فرض ادا کر سکتا ہے، تو دعا کر سکتا ہے جب تجھے کرنی چاہیے، تُو سچائی پر عمل کر سکتا ہے جب تجھے کرنا چاہیے، اور تو وہ کر سکتا ہے جو لوگوں کو کرنا چاہیے۔ تو اپنی اصل بصیرت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس طریقے سے، تو خدا کے کام کے اگلے مرحلے کو قبول کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ جب خدا پوشیدہ طریقے سے کام کرتا ہے اور اگر تو تلاش نہیں کرتا ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ جب وہ اجتماعات کے دوران بولتا اور منادی کرتا ہے تو تُو جوش و خروش سے سنتا ہے، لیکن جب وہ نہیں بولتا تو تجھ میں توانائی کی کمی ہو جاتی ہے اور تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ کس قسم کا شخص اس انداز میں کام کرتا ہے؟ یہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو، جہاں بھی ریوڑ جاتا ہے اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اس کا کوئی موقف نہیں ہوتا ہے، کوئی گواہی نہیں ہوتی ہے اور کوئی بصیرت نہیں ہوتی ہے! اکثر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر تو اس راستے پر چلتا رہا تو ایک دن جب تجھ پر ایک بڑی آزمائش آئے گی تو تُو سزا میں مبتلا ہو جائے گا۔ لوگوں کو کامل بنانے کے خدا کے عمل میں ایک موقف رکھنا بہت ضروری ہے۔ اگر تو خدا کے کام کے ایک بھی مرحلے پر شک نہیں کرتا، اگر تو انسان کے فرض کو پورا کرتا ہے، خدا نے تجھے عمل کرنے کے لیے جو دیا ہے، اگر تو خلوص دل سے اس کو برقرار رکھتا ہے، یعنی تُو خدا کی نصیحتیں یاد رکھتا ہے، اور چاہے وہ موجودہ دور میں کچھ بھی کرے تو اس کی نصیحتوں کو نہیں بھولتا، اگر تجھے اس کے کام میں کوئی شک نہیں ہے، اپنے موقف کو برقرار رکھتا ہے، اپنی گواہی کو برقرار رکھتا ہے، اور ہر راستے میں ہر قدم پر فتح یاب ہوتا ہے، تو آخر کار تو خدا کی طرف سے کامل اور ایک غالب آنے والا بنایا جائے گا۔ اگر تو خدا کی آزمائشوں کے ہر مرحلے پر ثابت قدم رہنے کے قابل ہے، اور اگر تو آخر میں بھی ثابت قدم رہ سکتا ہے، تو تُو ایک غالب آنے والا ہے، تو کوئی ایسا شخص ہے جسے خدا نے کامل بنایا ہے۔ اگر تو اپنی موجودہ آزمائشوں میں ثابت قدم نہیں رہ سکتا تو مستقبل میں یہ اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ اگر تو صرف ایک بہت معمولی سی تکلیف سے گزرتا ہے اور تو سچائی کی جستجو نہیں کرتا ہے، تو آخرکار تجھے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تو خالی ہاتھ رہ جائے گا۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جب دیکھتے ہیں کہ خدا نہیں بول رہا تو وہ اپنی جستجو چھوڑ دیتے ہیں اور ان کا دل پراگندہ ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا شخص ایک بے وقوف نہیں ہے؟ اس قسم کے لوگوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جب خدا بول رہا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ ادھر ادھر بھاگتا ہے، ظاہری طور پر مصروف اور پرجوش دکھائی دیتا ہے، لیکن اب جب وہ بول نہیں رہا ہے، تو وہ تلاش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسے شخص کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ تزکیے کے عمل کے دوران، تجھے لازمی طور پر ایک مثبت نقطہ نظر سے داخل ہونا چاہیے اور وہ سبق سیکھ جو تجھے سیکھنا چاہیے؛ جب تو خُدا سے دعا کرتا ہے اور اُس کا کلام پڑھتا ہے، تو تجھے اس کے مقابلے میں خود اپنی حالت کی پیمائش کرنی چاہیے، اپنی کوتاہیوں کو دریافت کرنا چاہیے، اور معلوم کرنا چاہیے کہ تیرے پاس سیکھنے کے لیے ابھی بھی بہت سے سبق ہیں۔ جب تو تزکیے کے عمل سے گزرتا ہے تو تُو جتنے زیادہ خلوص کے ساتھ تلاش کرے گا، تو اپنے آپ کو اتنا ہی ناموزوں پائے گا۔ جب تو تزکیہ کیے جانے کا سامنا کر رہا ہوتا ہے تو بہت سے مسائل ہوتے ہیں جن کا تو سامنا کرتا ہے؛ تو انھیں واضح طور پر نہیں دیکھ سکتا ہے، تو شکایت کرتا ہے، تو خود اپنے جسم کو ظاہر کرتا ہے – صرف اسی طریقے سے تو یہ جان سکتا ہے کہ تیرے اندر بہت ہی زیادہ بدعنوان مزاج موجود ہیں۔
لوگوں میں صلاحیت کی کمی ہوتی ہے اور وہ خدا کے معیارات سے بہت کم ہوتے ہیں، انھیں مستقبل میں اس راستے پر چلنے کے لیے خود اعتمادی کی اور بھی زیادہ ضرورت ہو سکتی ہے۔ آخری ایام میں خُدا کے کام کے لیے بہت زیادہ اعتماد کی ضرورت ہے، ایوب کے اعتماد سے بھی زیادہ۔ اعتماد کے بغیر، لوگ تجربہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور نہ ہی وہ خدا کی طرف سے کامل بنائے جانے کے قابل ہوں گے۔ جب عظیم آزمائشوں کا دن آئے گا تو ایسے لوگ ہوں گے جو کلیسیاؤں کو چھوڑ دیں گے – کچھ یہاں، کچھ وہاں۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو گزشتہ دنوں میں اپنی جستجو میں بہت بہتر کام کرتے رہے تھے اور یہ واضح نہیں ہو گا کہ وہ اب مزید ایمان کیوں نہیں رکھتے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہوں گی جنہیں تو سمجھ نہیں پائے گا، اور خدا کوئی نشان یا عجائب ظاہر نہیں کرے گا، اور نہ ہی کوئی مافوق الفطرت کام کرے گا۔ یہ دیکھنا ہے کہ کیا تو پھر بھی ثابت قدم رہ سکتا ہے – خدا لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے حقائق کا استعمال کرتا ہے۔ تو نے ابھی تک زیادہ تکلیف نہیں اٹھائی ہے۔ مستقبل میں جب بڑی آزمائشیں آئیں گی، بعض جگہوں پر کلیسیا کا ہر ایک فرد چھوڑ جائے گا، اور جن لوگوں کے ساتھ تیرے اچھے تعلقات رہے ہیں وہ چھوڑ جائیں گے اور اپنا ایمان چھوڑ دیں گے۔ کیا اس وقت تو ثابت قدم رہ سکے گا؟ اب تک، تجھے جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ معمولی تھیں، اور تو شاید بمشکل ہی ان کا مقابلہ کر پایا ہے۔ اس مرحلے میں صرف کلام کے ذریعے تزکیہ کرنا اور کامل بنانا شامل ہے۔ اگلے مرحلے میں، تیرا تزکیہ کرنے کے لیے تجھ پر حقائق آئیں گے، اور پھر تو خطرے کے درمیان ہو گا۔ جب یہ معاملہ واقعی سنگین ہو جائے گا، تو خدا تجھے مشورہ دے گا کہ تو جلدی کر اور وہاں سے چلا جا، اور مذہبی لوگ تجھے اپنے ساتھ جانے پر آمادہ کرنے کے لیے ورغلائیں گے۔ یہ دیکھنا ہے کہ کیا تو راستے پر چلنا جاری رکھ سکتا ہے، اور یہ سب چیزیں آزمائشیں ہیں۔ موجودہ آزمائشیں معمولی ہیں، لیکن وہ دن آئے گا جب کچھ گھر ایسے ہوں گے جہاں والدین مزید ایمان نہیں رکھیں گے، اور کچھ ایسے ہوں گے جہاں بچے مزید ایمان نہیں رکھیں گے۔ کیا تو جاری رکھنے کے قابل ہو گا؟ تو جتنا آگے بڑھے گا، تیری آزمائشیں اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ خدا لوگوں کا تزکیہ کرنے کا اپنا کام ان کی ضروریات اور ان کی حیثیت کے مطابق کرتا ہے۔ خدا کے انسانیت کو کامل بنانے کے مرحلے کے دوران، یہ ناممکن ہے کہ لوگوں کی تعداد بڑھتی رہے گی – یہ بالکل سکڑ جائے گی۔ ان تزکیوں کے ذریعے ہی لوگ کامل بنائے جا سکتے ہیں۔ نمٹا جانا، نظم و ضبط سکھانا، امتحان لیا جانا، سزا دی جانا، لعنت کی جانا – کیا تو ان سب کو برداشت کر سکتا ہے؟ جب تو ایک کلیسیا کو خاص طور پر اچھی صورت حال میں دیکھتا ہے، جہاں بہنیں اور بھائی سب بڑی توانائی کے ساتھ تلاش کر رہے ہوتے ہیں، تو تُو خود حوصلہ محسوس کرتا ہے۔ جب وہ دن آئے گا کہ وہ سب چھوڑ جائیں گے، ان میں سے کچھ مزید ایمان نہیں رکھیں گے، کچھ کاروبار یا شادی کرنے کے لیے چھوڑ جائیں گے، اور کچھ مذہب میں شامل ہو جائیں گے؛ تو کیا تب بھی تو ثابت قدم رہ سکے گا؟ کیا تو اندرونی طور پر غیر متاثر رہ سکے گا؟ خدا کا انسانیت کو کامل کرنا اتنا آسان نہیں ہے! وہ لوگوں کا تزکیہ کرنے کے لیے بہت سی چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ لوگ ان کو طریقوں کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن خدا کے اصل ارادے میں یہ طریقے بالکل نہیں ہیں، بلکہ حقائق ہیں۔ آخر کار جب وہ لوگوں کا ایک خاص مقام تک تزکیہ کر لے گا اور ان کی مزید کوئی شکایت نہیں ہو گی تو اس کے کام کا یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ روح القدس کا عظیم کام تجھے کامل بنانا ہے، اور جب وہ کام نہیں کرتی اور اپنے آپ کو چھپا لیتی ہے، تو اس کا اور بھی زیادہ مقصد تجھے کامل کرنا ہوتا ہے، اور خاص طور پر اس طریقے سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آیا لوگ خدا سے محبت رکھتے ہیں، آیا وہ اس پر سچا اعتماد کرتے ہیں۔ جب خدا صاف صاف بولتا ہے تو تجھے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ یہ صرف اس وقت ہے کہ جب وہ چھپا ہوا ہو تو تجھے اپنے راستے کو تلاش کرنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجھے ایک مخلوق کا فرض پورا کرنے کے قابل ہونا چاہیے، اور اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیرے مستقبل کا انجام اور تیری منزل کچھ بھی ہو، تجھے اس قابل ہونا چاہیے کہ جب تو زندہ ہے تو ان سالوں کے دوران خدا کے لیے علم اور محبت کی جستجو کر سکے۔ اور خدا تیرے ساتھ چاہے جیسا بھی سلوک کرے، تجھے شکایت کرنے سے بچنے کے قابل ہونا چاہیے۔ روح القدس کی لوگوں کے اندر کام کرنے کی ایک شرط ہے۔ انھیں لازمی پیاس ہونی چاہیے اور تلاش کرنا چاہیے اور خدا کے کاموں کے بارے میں نیم دل یا مشکوک نہیں ہونا چاہیے، اور انھیں لازمی طور پر ہر وقت اپنے فرض کو نبھانے کے قابل ہونا چاہیے۔ صرف اسی طریقے سے وہ روح القدس کا کام حاصل کر سکتے ہیں۔ خُدا کے کام کے ہر مرحلے میں، جو چیز بنی نوع انسان سے مطلوب ہے وہ بے پناہ اعتماد اور تلاش کے لیے خُدا کے سامنے آنا ہے – صرف تجربے کے ذریعے ہی لوگ دریافت کر سکتے ہیں کہ خُدا کتنا پیارا ہے اور روح القدس لوگوں میں کیسے کام کرتی ہے۔ اگر تو تجربہ نہیں کرتا، اگر تو اس کے ذریعے اپنا راستہ محسوس نہیں کرتا، اگر تو تلاش نہیں کرتا، تو تجھے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ تجھے لازمی طور پر اپنے تجربات کے ذریعے اپنا راستہ محسوس کرنا چاہیے، اور صرف اپنے تجربات کے ذریعے ہی تو خُدا کے اعمال کو دیکھ سکتا ہے اور اُس کے حیرت انگیز اور ناقابلِ ادراک ہونے کو پہچان سکتا ہے۔