حقیقی شخص بننے کا کیا مطلب ہے
انسان کی مدیریت ہمیشہ میرا فرض رہا ہے۔ مزید برآں، انسان کی فتح وہی ہے جو میں نے دنیا کو تخلیق کرتے وقت مقرر کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ نہ جانتے ہوں کہ میں آخری ایام میں انسان کو مکمل طور پر فتح کر لوں گا یا نوع انسانی میں سرکشوں کی فتح میری شیطان کو دی جانے والی شکست کا ثبوت ہے لیکن جب میرا دشمن میرے ساتھ جنگ میں شامل ہوا تو میں نے پہلے ہی اسے بتا دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو فتح کر لوں گا جن کو شیطان نے اسیر کر کے اپنی اولاد بنا لیا تھا اور وہ وفادار خادم جو اس کے گھر کی نگرانی کرتے تھے۔ فتح کا اصل مطلب شکست دینا، ذلت کا نشانہ بنانا ہے؛ اسرائیلیوں کی زبان میں اس کا مطلب ہے کہ انھیں مکمل طور پر شکست دینا، تباہ کرنا اور انھیں میرے خلاف مزید مزاحمت کرنے کے قابل نہ چھوڑنا ہے لیکن آج جب اسے تمھارےدرمیان استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب فتح کرنا ہے۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا ارادہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ میں بنی نوع انسان کے شریروں کو مکمل طور پر ختم کر دوں اور اسے شکست فاش دوں تاکہ وہ پھر میرے خلاف بغاوت نہ کرسکیں، کم از کم اسے میرے کام میں رکاوٹ یا خلل ڈالنے کی جرات نہ ہو۔ اس طرح جہاں تک انسان کا تعلق ہے، اس لفظ کا مطلب فتح ہے۔ اس اصطلاح کا مفہوم کچھ بھی ہو، میرا کام انسانوں کو شکست دینا ہے کیونکہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بنی نوع انسان میر ی مدیریت کی معاون ہے، زیادہ واضح طور پر یوں کہنا چاہیے کہ انسان کوئی اور نہیں بلکہ میرے دشمن ہیں۔ انسان وہ شر ہے جو میری مخالفت اور نافرمانی کرتا ہے۔ انسان کوئی اور نہیں بلکہ اس شیطان کی اولاد ہے جس نے مجھ سے غداری کی تھی۔ انسان کوئی اور نہیں بلکہ اس شیطان کی میراث ہے جسے بہت پہلے میری طرف سے دھتکارا گیا تھا تب سے وہ میری ناقابل مفاہمت دشمن ہے کیونکہ پوری نوع انسانی کے اوپر والا آسمان دھندلا اور تاریک ہے، صراحت کے ذرا سے بھی تاثر کے بغیر اور انسانی دنیا گھمبیر تاریکی میں ڈوب گئی ہے، حتیٰ کہ اس میں رہنے والا جب وہ اپنا سر اٹھاتا ہے تو اپنے چہرے یا سورج کے سامنے اپنا پھیلے ہوئے ہاتھ تک کو بھی نہیں دیکھ پاتا۔ اس کے پاؤں کے نیچے کی سڑک، کیچڑ، گڑھوں اور عیاری کی بھول بھلیوں سے اٹی ہوئی ہے؛ پوری زمین لاشوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریک کونے مُردوں کی باقیات سے بھرے ہوئے ہیں اور ٹھنڈے اور سایہ دار کونوں میں بدروحوں کے ہجوم نے رہائش اختیار کر لی ہے اور ہر جگہ انسانوں کی دنیا میں بدروحیں جوک در جوک آتی اور جاتی ہیں۔ گندگی میں لتھڑے ہوئے ہر طرح کے درندوں کی اولاد گھمبیر جنگ میں جُتی ہوئی ہے جس کی آواز دل کو دہشت زدہ کرتی ہے۔ ایسے وقتوں میں، ایسی دنیا میں، ایسی "زمینی جنت" میں، اپنی زندگی بھر کی مسرتیں تلاش کرنے کہاں جائے گا؟ کوئی اپنی پوری زندگی کی منزل تلاش کرنے کہاں جا سکتا ہے؟ نوع انسانی، عرصہ دراز سے شیطان کے پیروں تلے پامال ہوئی ہے، شروع سے ہی وہ شیطان کی شبیہ اختیار کرنے والی اداکار رہی ہے- اس سے بھی بڑھ کر، نوع انسانی شروع سے ہی شیطان کا مجسمہ رہی ہے اور اس ثبوت کے طور پر کام کرتی ہے جو شیطان کی گواہی بلند آواز میں اور واضح طور پردیتا ہے۔ ایسی انسانی نسل، اس طرح کے بگڑے ہوئے گھٹیا لوگوں کا ایک گروہ، اس بدعنوان انسانی خاندان کی ایسی اولاد، خدا کی گواہی کیسے دے سکتی ہے؟ میری عظمت کہاں سے آتی ہے؟ کوئی میری گواہی کے بارے میں کہاں سے بات کرنا شروع کر سکتا ہے؟ اس دشمن کے لیے جو نوع انسانی کو بدعنوان کر کے میرے خلاف کھڑا ہے، پہلے ہی نوع انسانی کو اپنے قبضے میں لے چکا ہے جسے میں نے بہت پہلے پیدا کیا تھا اور جو میرے جلال اور میری زندگی سے لبریز تھی اور انھیں اس نے مٹی میں ملا دیا۔ اس نے میری شان و شوکت کو چھین لیا ہے اور اس نے انسان کو شیطان کی بدصورتی سے بھرا ہوا زہر اور اچھائی اور برائی کے علم کے درخت کے پھل کا رس دیا ہے۔ میں نے شروع میں بنی نوع انسان کو پیدا کیا تھا یعنی میں نے بنی نوع انسان کے جد آدم کو پیدا کیا۔ اسے جوش و خروش سے لبریز، زندہ دلی سے پر شکل و صورت دی گئی اور مزید یہ کہ وہ میرے جلال کی صحبت میں تھا۔ یہ وہ شاندار دن تھا جب میں نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ اس کے بعد حوا آدم کے جسم سے پیدا کی گئی اور وہ بھی انسان کی جد تھی اور اسی طرح میں نے جو لوگ پیدا کیے وہ میری سانسوں سے بھر گئے اور میری عظمت سے لبریز تھے۔ آدم اصل میں میرے ہاتھ سے پیدا ہوا تھا اور میری شبیہ کی نمائندگی تھا۔ اس طرح "آدم" کا اصل مطلب میری تخلیق کردہ ہستی تھا جو میری اہم توانائی سے بھری ہوئی تھی، میری عظمت سے مالا مال تھی، شکل اور شبیہ رکھنے والی، روح اور سانس کی حامل تھی۔ وہ واحد تخلیق شدہ ہستی تھا جو ایک روح کا حامل تھا، جو میری نمائندگی کرنے، میری شبیہ کو اپنانے اور میری سانسیں وصول کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ حوا دوسری انسان تھی جس کو سانسوں سے نوازا گیا تھا جس کی تخلیق کا فرمان میں نے جاری کیا تھا، لہذا "حوا" کا اصل معنی ایک ایسی تخلیق ہے جو میری عظمت کو جاری رکھے گی، میری طاقت سے بھری ہوئی ہے اور اس کے علاوہ وہ جو میرے جلال سے نوازی گئی۔ حوا آدم سے بنی تھی تو اس نے بھی میری تصویر اپنائی، کیونکہ وہ میرے عکس میں تخلیق ہونے والی دوسری انسان تھی۔ "حوا" کا اصل مطلب ایک زندہ انسان تھا، جس میں روح، گوشت اور ہڈی تھی۔ میری دوسری گواہی کے ساتھ ساتھ بنی نوع انسان میں میری دوسری شبیہ بھی تھی۔ وہ بنی نوع انسان کے آباؤ اجداد، انسان کا پاکیزہ اور قیمتی خزانہ اور پہلے سے ہی روح سے نوازےگئے جاندار تھے۔ تاہم شیطان مردود نے نوع انسانی کے آباؤ اجداد کی اولاد کو پامال کیا اور اسیر کر لیا اور انسانی دنیا کو مکمل تاریکی میں ڈبو دیا اور ایسے حالات بنائے کہ ان کی نسل اب میرے وجود پر یقین نہ کرے۔ اس سے بھی زیادہ مکروہ بات یہ ہے کہ جس طرح شیطان لوگوں کو بدعنوان کرتا اور ان سب کو روندتا چلا جاتا ہے، وہ بے رحمی سے میری عظمت، میری گواہی، ان کو عطا کی گئی قوت حیات، سانس اور زندگی کو جو میں نے ان میں پھونکی ہے، انسانی دنیا میں میری ساری عظمت اور میں نے انسانوں پر جو اپنے دل کا خون خرچ کیا ہے، اسے بے رحمی سے چھین رہا ہے۔ بنی نوع انسان اب روشنی میں نہیں رہی، لوگوں نے وہ سب کچھ کھو دیا ہے جو میں نے انھیں عطا کیا تھا اور انھوں نے میری دی ہوئی عظمت کو پرے پھینک دیا ہے۔ وہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ میں سب مخلوقات کا مالک ہوں؟ وہ آسمان میں میرے وجود پر کیسے یقین رکھ سکتے ہیں؟ وہ زمین پر میری شان کے مظاہر کیسے دریافت کر سکتے ہیں؟ یہ پوتے اور پوتیاں خدا کو وہ خداوند کیسے سمجھ سکتے ہیں جس کی ان کے آباؤ اجداد نے پرستش کی تھی اور اس نے انھیں پیدا کیا تھا؟ ان دردمند پوتوں اور پوتیوں نے شیطان کے سامنے اس جلال، شبیہ اور گواہی جو میں نے آدم اور حوا کو دی تھی اور اس زندگی کو بھی جو میں نے بنی نوع انسان کو عطا کی تھی اور جس پر ان کا وجود ہے، دل کھول کر "پیش" کیا ہے اور وہ اس شیطان کی موجودگی سے بالکل بے نیاز ہیں اور اس کو میری پوری شان دیتے ہیں۔ کیا یہ ہی "گندگی" کی اصطلاح کا اصل ماخذ نہیں؟ گندی بدروحیں، ایسی چلتی پھرتی لاشیں، شیطان کے جیسی ہستیاں، بھلا کیسے میرے ایسے دشمن، میری شان کے حامل ہو سکتے ہیں؟ میں اپنی شان کو دوبارہ حاصل کروں گا اور اپنی گواہی جو انسانوں میں موجود ہے اسے بھی دوبارہ حاصل کروں گا اور وہ سب جو کبھی میری تھی اور جو میں نے بہت پہلے نوع انسانی کو دی تھی – میں نوع انسانی کو مکمل طور پر فتح کرلوں گا تاہم، تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے جو انسان بنائے تھے وہ مقدس انسان تھے جنھوں نے میری شبیہ اور میری شان کو اپنایا۔ وہ شیطان کے تعلق والے بالکل نہیں تھے اور نہ ہی وہ اس کے روندنے کا شکار تھے، بلکہ شیطان کے زہر کے معمولی سے نشان سے بھی پاک خالصتا میرا مظہر تھے۔ چنانچہ میں نوع انسانی کو مطلع کرتا ہوں کہ میں صرف اسے چاہتا ہوں جو میرے ہاتھ سے پیدا ہوا ہے، وہ مقدس لوگ جن سے میں محبت کرتا ہوں اور جو کسی اور ہستی سے تعلق نہیں رکھتے۔ مزید برآں، میں ان سے راضی ہوں گا اور انھیں اپنی شان سمجھوں گا تاہم میں جو چاہتا ہوں وہ، وہ بنی نوع انسان نہیں ہے جسے شیطان نے خراب کیا ہے، جو آج شیطان کا بن گیا ہے اور اب یہ میری اصل تخلیق نہیں ہے۔ چونکہ میں اپنی شان کو جو انسانی دنیا میں موجود ہے دوبارہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، میں شیطان کو شکست دینے میں اپنی شان کے ثبوت کے طور پر نوع انسانی میں زندہ بچ جانے والوں کو مکمل طور پر فتح کروں گا۔ میں صرف اپنی گواہی کو ہی اپنی ذات کے استحکام کے طور پر لیتا ہوں، اپنی نشاط کی چیز کے طور پر۔ یہ میری مرضی ہے۔
بنی نوع انسان کو آج جہاں وہ ہے وہاں پہنچنے میں ہزاروں سال لگے ہیں، اس کے باوجود میں نے شروع میں جو بنی نوع انسان تخلیق کی تھی وہ بہت پہلے ہی تنزلی میں غرق ہو چکی ہے۔ نوع انسانی وہ نوع انسانی نہیں رہی جس کی میں خواہش کرتا ہوں اور اس طرح میری نظر میں لوگ اب بنی نوع انسان کے نام کے مستحق نہیں رہے۔ بلکہ وہ بنی نوع انسان کی گندگی ہیں جسے شیطان نے اسیر کر لیا ہے، وہ چلتی پھرتی بوسیدہ لاشیں ہیں جن میں شیطان آباد ہے اور جن کو شیطان اپنے لباس کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کو میرے وجود پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ میرے آنے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ بنی نوع انسان صرف حاسدانہ طور پر میری عرائض کا جواب دیتی ہے، عارضی طور پر ان کو قبول کرتی ہے اور میرے ساتھ زندگی کی خوشیوں اور غموں کو خلوص نیت سے نہیں بانٹتی۔ چونکہ لوگ مجھے پراسرار ہستی کے طور پر دیکھتے ہیں، وہ مجھے ناخوشگوار مسکراہٹیں دیتے ہیں، ان کا رویہ اقتدار میں رہنے والے کو آرام دہ بنانے کا ہے، کیونکہ لوگوں کو میرے کام کا کوئی علم نہیں ہے، چہ جائیکہ اس وقت انھیں میری منشا کا لحاظ ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایماندار رہوں گا: جب وہ دن آئے گا تو جو میری عبادت کرے گا اس کا دکھ تمھارے دکھوں سے زیادہ آسان ہو جائے گا مجھ پر تمھارے ایمان کا درجہ اصل میں ایوب سے زیادہ نہیں ہے - یہاں تک کہ یہودی فریسیوں کا ایمان بھی تمھارے ایمان سے آگے نکل جاتا ہے اور یوں اگر آگ کا دن اترتا ہے تو تمھارا دکھ یسوع کی طرف سے ڈانٹے جانے والے فریسیوں کے دکھ سے زیادہ سنگین ہوگا، ان 250 راہنماؤں سے بھی جنھوں نے موسیٰ کی مخالفت کی تھی، اور سدوم کی جھلسا دینے والے شعلوں کے نیچے کی تباہی سے بھی زیادہ۔ جب موسیٰ نے چٹان کو مارا اور یہوواہ کا عطا کردہ پانی اچھل کر نکل آیا تو یہ اس کے ایمان کی وجہ سے تھا۔ جب داؤد نے لائیر کو، میری یہوواہ کی حمد میں بجایا – اپنے خوشی سے معمور دل کے ساتھ تو یہ اس کے ایمان کی وجہ سے تھا۔ جب ایوب نے اپنے مویشیوں کے گلوں کو کھو دیا جنھوں نے پہاڑوں اور دولت کے انباروں کو بھر رکھا تھا اور اس کا جسم درد ناک آبلوں سے ڈھکا ہوا تھا تو یہ اس کے ایمان کی وجہ سے تھا۔ جب وہ مجھ، یہوواہ، کی آواز سن سکتا تھا اور میری یہوواہ کی شان دیکھ سکتا تھا، یہ اس کے ایمان کی وجہ سے تھا۔ کہ پطرس یسوع مسیح کی پیروی کر سکتا تھا یہ اس کے ایمان میں جھکنے کی بدولت تھا. کہ وہ میری خاطر صلیب پر کیلوں سے جڑا جا سکتا ہے اور شاندار گواہی دے سکتا ہے وہ بھی اس کے ایمان میں جھک جانے کی وجہ سے تھا۔ جب یوحنا نے آدمی کے بیٹے کی شاندار شبیہ دیکھی تو یہ بھی اس کے ایمان میں جھکنے کی وجہ سے تھا۔ جب اس نے آخری ایام کا تصور دیکھا تو یہ سب اور اس سے بھی بڑھ کر اس کے ایمان کی وجہ سے تھا۔ غیر اقوام کی نام نہاد کثرت کی میری وحی حاصل کرنے اور معلوم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میں انسان کے درمیان اپنا کام کرنے کے لیے جسمانی شکل میں واپس آیا ہوں، یہ بھی ان کے ایمان کی وجہ سے ہے۔ وہ سب لوگ جو میرے درشت کلام کی مار سہتے ہیں اور پھر بھی انھیں سکون پہنچایا جاتا ہے اور وہ بچا لیے جاتے ہیں، کیا انھوں نے ایسا اپنے ایمان کی بدولت نہیں کیا؟ جو لوگ مجھ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن جو ابھی تک مشکلات کا شکار ہیں کیا انھیں بھی دنیا نے مسترد نہیں کیا ہے؟ جو لوگ میرے کلام سے باہر رہتے ہیں اور آزمائش کے دکھ سے دور بھاگتے ہیں کیا وہ سب دنیا کی رو میں بہہ نہیں رہے ہیں۔ وہ خزاں کے پتوں کے مترادف ہیں جو اِدھر، اُدھر پھڑپھڑا رہے ہیں، آرام کرنے کی کسی جگہ کے بغیر، میرے ڈھارس کے الفاظ کے باوجود۔ اگرچہ میر ی تادیب اور تزکیہ ان کا تعاقب نہیں کرتا، کیا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بھٹکنے والے بھکاری نہیں ہیں، جو آسمان کی بادشاہی سے باہر گلیوں میں بھٹک رہے ہیں؟ کیا دنیا واقعی تیرے آرام کی جگہ ہے؟ کیا تو واقعی میرے عذاب سے بچ کر دنیا سے تسکین کی ہلکی سی مسکراہٹ حاصل کر سکتا ہے؟ کیا تو اپنے دل میں موجود خالی پن کو چھپانے کے لیے واقعی اپنے لمحہ بھر کے لطف کو استعمال کر سکتا ہے، وہ خالی پن جسے چھپایا نہیں جا سکتا؟ ہو سکتا ہے کہ تو خاندان کے ہر فرد کو بے وقوف بنا سکے لیکن تو مجھے کبھی بھی بے وقوف نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ تیرا ایمان بہت کمزور ہے، تو آج تک زندگی کی پیش کردہ خوشیوں میں سے کسی کو بھی تلاش کرنے میں بے اختیار ہے۔ میں تیرے اوپر زور دیتا ہوں: بہتر ہے کہ اپنی آدھی زندگی میری خاطر گزار لو، اپنی پوری زندگی اوسط درجے اور جسم کے لیے مصروفیت میں گزارنے کی بجائے، ان تمام مصائب کو برداشت کرتے ہوئے جو ایک آدمی مشکل سے برداشت کر سکتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو اتنا بچا کر رکھنا اور میری تادیب سے بھاگنا کیا مقصد رکھتا ہے؟ یہ میری لمحہ بھر کی تادیب سے اپنے آپ کو چھپانے کا کیا مقصد ہے صرف شرمندگی کی ابدیت اور عذاب کی ابدیت کاٹنے کے لیے؟ میں درحقیقت کسی کو اپنی مرضی کے سامنے نہیں جھکاتا۔ اگر کوئی واقعی میرے تمام منصوبوں کے تابع ہونے کو تیار ہے تو میں ان کے ساتھ ناقص سلوک نہیں کروں گا لیکن میں تقاضا کرتا ہوں کہ تمام لوگ مجھ پر یقین رکھیں، جس طرح ایوب مجھ یہوواہ پر یقین رکھتا تھا۔ اگر تمھارا ایمان تھامس سے بڑھ جائے تو پھر تمھارا ایمان میری تعریفی سند حاصل کر لے گا اور تمہاری وفاداری میں تمھیں میری خوشی ملے گی اور تم یقینا میری شان اپنے ایام میں پا لو گے۔ تاہم جو لوگ دنیا پر یقین رکھتے ہیں اور شیطان پر یقین رکھتے ہیں انھوں نے بھی سدوم شہر کے عوام کی طرح اپنے دلوں کو سخت کر لیا ہے اور ان کی آنکھوں میں ہوادار ریت کے دانے اور شیطان کی طرف سے ان کے منہ میں چڑھاوے ہیں جن کے دھندلے ذہنوں پر بہت پہلے ہی شیطان کا قبضہ ہو چکا ہے جس نے دنیا کو غصب کر لیا ہے۔ ان کے خیالات تقریبا مکمل طور پر قدیم دور کے شیطان کے اسیر ہو چکے ہیں اور اسی طرح بنی نوع انسان کا ایمان ہوا کے ساتھ اڑ گیا ہے اور وہ میرے کام پر توجہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ وہ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ میرے کام کے ساتھ مضحکہ خیز سلوک کریں یا اس کا سرسری طور پر تجزیہ کرنے کی کمزور کوشش کی جائے، کیونکہ وہ طویل عرصے سے شیطان کے زہر کے زیر اثر ہیں۔
میں بنی نوع انسان کو فتح کروں گا کیونکہ لوگ میری طرف سے پیدا کیے گئے تھے اور اس کے علاوہ وہ میری تخلیق کی تمام بھرپور چیزوں سے لطف اندوز ہوئے ہیں لیکن لوگوں نے میرا بھی انکار کیا ہے؛ میں ان کے دلوں سے غائب ہوں اور وہ مجھے اپنے وجود پر بوجھ سمجھتے ہیں، اس حد تک کہ مجھے صحیح معنوں میں دیکھنے کے بعد، وہ اب بھی مجھے مسترد کرتے ہیں اور اپنے دماغ کو برباد کر دیتے ہیں۔ ہر وہ طریقہ سوچتے ہوئے جس سے مجھے شکست دی جا سکے۔ لوگ مجھے اجازت نہیں دیتے کہ میں ان کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آؤں یا ان سے سخت مطالبات کروں اور نہ ہی وہ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں ان کی بدی کا انصاف کروں یا اسے سزا دوں۔ اس میں مشغول ہونا تو دور کی بات ہے، انھیں تو یہ پریشان کن لگتا ہے اور میرا کام یہ ہے کہ جو لوگ مجھ سے کھاتے، پیتے اور خوش ہوتے ہیں لیکن مجھے نہیں جانتے انھیں پکڑوں اور شکست دوں۔ میں نوع انسانی کو غیر مسلح کردوں گا اور پھر اپنے فرشتوں کو لے کر اپنی شان لے کر اپنی رہائش گاہ میں واپس آجاؤں گا۔ کیونکہ لوگوں کے اعمال نے طویل عرصے سے میرا دل توڑ دیا ہے اور میرے کام کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ میں اس شان کو دوبارہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں جو کہ شیطان نے میرے خوشی سے چلے جانے سے پہلے چھین لی ہے، بنی نوع انسان کو اپنی زندگیاں گزارنے، "امن اور اطمینان کے ساتھ رہنے اور کام کرنے" جاری رکھنے، "اپنے کھیتوں کی کاشت" جاری رکھنے کی اجازت دے کر اور اب میں ان کی زندگیوں میں مداخلت نہیں کروں گا لیکن اب میں پوری طرح ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی شان کو شیطان کے ہاتھ سے دوبارہ حاصل کر لوں، دنیا کی تخلیق میں انسان میں جو جلال پیدا کیا تھا اس کے مکمل کمال کو واپس لے لوں۔ پھر کبھی میں اسے زمین پر نسل انسانی کو عطا نہیں کروں گا۔ کیونکہ لوگ نہ صرف میری شان کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انھوں نے شیطان کی شبیہ کے بدلے میں اس کا تبادلہ کیا ہے۔ لوگ میرے آنے کی قدر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ میرے جلال کے دن کی قدر کرتے ہیں وہ میری تادیب سےگزر کر خوش نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ میری شان میری طرف لوٹانے کو تیار ہوں اور نہ ہی وہ شیطان کے زہر کو نکال باہر کرنے پر آمادہ ہیں۔ نوع انسانی مجھے اسی پرانے انداز میں دھوکہ دیتی رہتی ہے، لوگ اب بھی اسی پرانے انداز میں روشن مسکراہٹیں اور خوش چہرے اپنائے رکھتے ہیں۔ وہ اس رنج و الم کی گہرائیوں سے ناواقف ہیں جو میری شان کے ان کو چھوڑنے کے بعد بنی نوع انسان پر اتریں گی۔ خاص طور پر وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب میرا دن پوری بنی نوع انسان پر اترے گا تو ان کے لیے نوح کے زمانے کے لوگوں سے بھی زیادہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ جب میری شان اس سے رخصت ہوئی تو اسرائیل کتنا تاریک ہو گیا تھا، کیونکہ انسان صبح کے وقت بھول جاتا ہے کہ اندھیری رات کا گزرنا کتنا مشکل تھا۔ جب سورج دوبارہ چھپ جائے گا اور انسان پر اندھیرا چھا جائے گا تو وہ پھر ماتم کرے گا اور اندھیرے میں اپنے دانت پیسے گا۔ کیا تم بھول گئے ہو جب میری شان اسرائیل سے رخصت ہوئی تو بنی اسرائیل کے لیے دکھ کے ان ایام کو برداشت کرنا کتنا مشکل تھا؟ اب وہ وقت ہے جب تم میری شان کو دیکھتے ہو اور یہ وہ وقت بھی ہے جب تم میری شان کے دن کو بانٹتے ہو۔ جب میری شان اس گندی زمین سے نکل جائے گی تو انسان اندھیرے میں گھرا ماتم کرے گا۔ اب جلال کا دن ہے جب میں اپنا کام کرتا ہوں اور یہ وہ دن ہے جب میں نوع انسانی کو تکلیف سے مستثنیٰ کرتا ہوں کیونکہ میں ان کے ساتھ عذاب اور مصیبت کے وقتوں کو نہیں بانٹوں گا۔ میں صرف بنی نوع انسان کو مکمل طور پر فتح کرنا چاہتا ہوں اور بنی نوع انسان کے شیطان کو مکمل طور پر شکست دینا چاہتا ہوں۔