تین نصیحتیں
خدا پر یقین رکھنے والے کے طور پر، تمہاری وفاداری ہر معاملے میں اس کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں ہونی چاہیے اور تمہیں ہر معاملے میں اس کی مرضی سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہونا چاہیے۔ پھر بھی اگرچہ ہر کوئی اس پیغام کو سمجھتا ہے، لیکن انسان کی بے شمار مشکلات کی وجہ سے، مثلاً اس کی جہالت، لغویت اور بدعنوانی کی وجہ سے – یہ سچائیاں، جو سب سے زیادہ ظاہر اور بنیادی ہیں، اس میں پوری طرح واضح نہیں ہیں اور اس لیے، اس سے پہلے کہ تمہارا انجام پتھر پر لکیر ہو جائے، مجھے سب سے پہلے تمہیں چند باتیں بتا دینی چاہییں جو تمہارے لیے بے حد اہم ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں جاری رکھوں، پہلے تمہیں اسے سمجھ لینا چاہیے: میرے ذریعے کہا گیا کلام وہ سچائیاں ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں؛ ان کا مخاطب کوئی مخصوص شخص یا خاص قسم کا شخص نہیں ہے۔ لہٰذا، تمہیں چاہیے کہ تم میرے کلام پر سچائی کے نقطہ نظر سے توجہ مرکوز کرو اور غیر منقسم توجہ اور اخلاص کا رویہ رکھو؛ اور جو میں کہتا ہوں اس کے کسی لفظ یا سچائی کو نظر انداز نہ کرو اور میں جو کہتا ہوں ان تمام الفاظ کے حوالے سے غیر سنجیدہ رویہ نہ اپناؤ۔ تمہاری زندگیوں میں، میں تمہارے کیے گئے بہت سے کام دیکھتا ہوں جو سچائی سے غیر متعلق ہیں، لہذا میں واضح طور پر تم سے کہتا ہوں کہ تم سچائی کے خادم بنو، کہ تم خباثت اور بدصورتی کے غلام نہ بنو اور یہ کہ تم سچائی کو پامال نہ کرو اور خدا کے گھر کے کسی کونے کی بے حرمتی نہ کرو۔ یہ تمہیں میری نصیحت ہے۔ اب میں زیر بحث موضوع پر بات کروں گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں اپنی قسمت کی خاطر خدا کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ تم خدا کے گھر کے ایک رکن ہو، لہٰذا تمہیں چاہیے کہ تم خدا کے لیے ذہنی سکون کا موجب بنو اور اسے ہر طرح سے مطمئن کرو۔ بالفاظ دیگر، تجھے چاہیے کہ تو اپنے اعمال کے لحاظ سے بااصول رہ اور ان کی سچائیوں سے موافقت رکھ۔ اگر ایسا کرنا تیرے بس میں نہیں ہے تو خدا تجھ سے نفرت کرے گا اور مسترد کر دے گا اور ہر شخص تجھے ٹھکرائے گا۔ اس مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد پھر خدا کے گھر میں تیرا شمار نہیں کیا جا سکتا اور یہ وہی حالت ہے جسے دوسرے الفاظ میں خدا کی جانب سے نامنظور کیا جانا کہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ تمہیں جاننا چاہیے کہ خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو ایماندار ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ، خدا وفادار ہے اور اس لیے اس کے الفاظ پر ہمیشہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے؛ اس کے علاوہ، اس کے اعمال سوالوں سے بالاتر ہیں، اسی لیے خدا ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے ساتھ مکمل طور پر ایماندار ہیں۔ ایمانداری سے مراد اپنا دل خدا کے سپرد کرنا، ہر چیز میں خدا کے ساتھ بے ریا ہونا، ہر چیز کے حوالے سے اس کے ساتھ کھل کر بات کرنا، حقائق کو کبھی نہ چھپانا، اپنے سے اوپر اور نیچے والوں کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرنا اور صرف خدا کی خوشامد کے لیے کام نہ کرنا ہے۔ مختصراً، ایماندار ہونے سے مراد یہ ہے کہ تو اپنے اعمال اور الفاظ میں پاکیزہ رہ اور نہ خدا کو دھوکا دے اور نہ ہی انسان کو۔ میں جو کہتا ہوں وہ بہت آسان ہے، لیکن تمہارے لیے یہ دوگنا مشکل ہے۔ بہت سے لوگ ایمانداری سے بولنے اور کام کرنے کی بجائے جہنم کی سزا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس میں حیرت نہیں کہ میرے پاس ان لوگوں کے لیے جو بے ایمان ہیں، دوسرا علاج موجود ہے۔ بیشک، میں بہتر طور پر جانتا ہوں کہ تمہارے لیے ایماندار ہونا کتنا مشکل ہے۔ چونکہ تم سب اتنے چالاک ہو، لوگوں کو اپنے ادنیٰ پیمانے سے ماپنے میں اتنے بہتر ہو، اس سے میرا کام بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ تم میں سے ہر ایک اپنے سینے میں رازوں کو نہاں رکھتا ہے، تو پھر، میں یکے بعد دیگرے تم پر تباہی نازل کروں گا تاکہ تم آگ سے "سبق" سیکھو، تاکہ اس کے بعد تمہیں میرے کلام پر پکا یقین ہو جائے۔ بالآخر، میں تمہارے منہ سے یہ الفاظ نکلواؤں گا کہ "خدا ایک وفادار خدا ہے"، جس پر تم لوگ سینہ کوبی کرو گے اور افسوس کرو گے، کہ "انسان کا دل پرفریب ہے!" اس وقت تمہاری دماغی حالت کیا ہو گی؟ میں تصور کرتا ہوں تم اس وقت اتنے کامیاب نہیں ہو گے جتنے کہ اب ہو۔ اور جتنے تم اب "گہرے اور دشوار" ہو، تمہارا اتنا ہی ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہو گا۔ خُدا کی موجودگی میں، کچھ لوگ متین اور مہذب ہوتے ہیں، وہ "اچھا سلوک کرنے والا" ہونے کے لیے تکلیفیں اٹھاتے ہیں، پھر بھی وہ روح کی موجودگی میں اپنے زہریلے دانت دکھاتے ہیں اور اپنے پنجوں کی نمائش کرتے ہیں۔ کیا تم ایسے لوگوں کا شمار ایماندار لوگوں کی صف میں کرو گے؟ اگر تو منافق ہے، کوئی ایسا شخص ہے جو "باہمی تعلقات" میں مہارت رکھتا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ تو یقیناً ایسا شخص ہے جو خدا کے ساتھ غیر سنجیدہ رویہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر تیرے الفاظ بہانوں اور فضول جوازوں سے بھرے ہوئے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ تو وہ شخص ہے جو سچائی پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ اگر تیرے پاس بہت سے راز ہیں جنھیں تو بتانے سے ہچکچاتا ہے، اگر تو اپنے رازوں - اپنی مشکلات - دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے انتہائی خلاف ہے، تو پھر میں کہتا ہوں کہ تو وہ ہے جو آسانی سے نجات حاصل نہیں کرے گا اور جو اندھیرے سے بآسانی نہیں نکل پائے گا۔ اگر سچائی کی راہ کی تلاش تجھے خوش رکھتی ہے، تو تُو وہ ہے جو ہمیشہ روشنی میں رہتا ہے۔ اگر تو خدا کے گھر کا خدمت گار بن کر خوش ہے، خود کو غیر اہم سمجھتے ہوئے مستعدی اور خلوص سے کام کرتا ہے، تُو ہمیشہ دیتا ہے اور کبھی لیتا نہیں ہے، تو میں کہتا ہوں کہ تو ایک وفادار بزرگ ہے، کیونکہ تو اس کا کوئی صلہ نہیں چاہتا اور بس ایک ایماندار شخص ہے۔ اگر تو صاف دل ہونا چاہتا ہے، اگر تو اپنا سب کچھ خرچ کرنا چاہتا ہے، اگر تو خدا کے لیے اپنی زندگی قربان کرنے کے قابل ہے اور اپنی گواہی پر ثابت قدم رہتا ہے، اگر تو اس حد تک ایماندار ہے جہاں تو خود پر توجہ دینے اور اپنے لیے کچھ لینے کی بجائے صرف خدا کو راضی کرنا جانتا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ وہ ہیں جن کی پرورش روشنی میں ہوتی ہے اور جو ہمیشہ بادشاہی میں رہیں گے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ آیا تیرے اندر سچا ایمان اور سچی وفاداری موجود ہے، آیا تیری خدا کے لیے مصائب برداشت کرنے کی تاریخ ہے اور آیا تو نے پوری طرح خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔ اگر تجھ میں ان چیزوں کی کمی ہے تو تیرے اندر نافرمانی، فریب، لالچ اور شکایت باقی ہے۔ چونکہ تیرا دل ایمانداری سے دور ہے، اس لیے تجھے کبھی بھی خدا کی جانب سے مثبت پہچان نہیں ملی اور نہ ہی کبھی تو روشنی میں رہا ہے۔ آخر میں کسی کی تقدیر کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کے پاس ایماندار اور خون جیسا سرخ دل اور پاکیزہ روح ہے۔ اگر تو کوئی ایسا شخص ہے جو بہت بے ایمان ہے، تو دل میں کوئی بغض رکھنے والا ہے، تیری روح گندی ہے، تو یقیناً تیرا انجام اسی جگہ پر ہوگا جہاں انسان سزا پاتا ہے، جیسا کہ تیرے نوشتہ تقدیر میں درج ہے۔ اگر تیرا دعویٰ بے حد ایماندار ہونے کا ہے اور پھر بھی تو کبھی سچائی کے مطابق بول نہیں پاتا یا تیرے منہ سے سچ بات نہیں نکلتی ہے، تو کیا تو پھر بھی اس انتظار میں ہے کہ خدا تجھے انعام سے نوازے گا؟ کیا تجھے اب بھی خدا سے امید ہے کہ وہ تجھے اپنی آنکھ کا تارا سمجھے گا؟ کیا ایسی سوچ مضحکہ خیز نہیں ہے؟ تو خدا کو ہر چیز میں دھوکا دیتا ہے؛ تو پھر تجھ جیسا شخص خدا کے گھر میں کس طرح رہ سکتا ہے جس کے ہاتھ گندے ہیں؟
تیسری چیز جو میں تجھے بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے: خدا پر ایمان کی اپنی زندگی گزارنے کے دوران، ہر شخص نے، ایسے کام کیے ہیں جو خدا کی مزاحمت اور خدا سے دھوکا دہی ہیں۔ کچھ غلط اعمال کو جرم کے طور پر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کچھ ناقابل معافی ہیں؛ کیونکہ بہت سے ایسے اعمال ہیں جو انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جو خدا کے مزاج کو برہم کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ جو اپنی قسمت کے حوالے سے فکر مند ہیں وہ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ اعمال کیا ہیں؟ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم فطرتاً خودسر اور مغرور ہو اور حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں چاہتے ہو۔ اسی وجہ سے، جب تم خود پر غور کر چکو گے تو میں تمہیں تھوڑا تھوڑا بتاؤں گا۔ تمہیں میری نصیحت ہے کہ تم انتظامی احکام کے مواد کو بہتر طور پر سمجھو اور خدا کے مزاج کو جاننے کی کوشش کرو۔ اگر یہ نہیں ہوتا ہے، تو تمہارے لیے اپنے ہونٹوں کو خاموش رکھنا مشکل ہو گا، تمہاری زبانیں بے لگام مبالغہ آرائی کریں گی اور تم غیر ارادی طور پر خدا کے مزاج کو برہم کرو گے اور روح القدس اور روشنی کے وجود کو کھو کر اندھیرے میں غرق ہو جاؤ گے۔ کیونکہ تم اپنے اعمال میں بے اصول ہو، کیونکہ تو وہ کرتا اور کہتا ہے جو تجھے نہیں کرنا اور کہنا چاہیے، اس لیے تجھے اس کے مطابق سزا ملے گی۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اگرچہ تو اپنے قول وہ فعل کے حساب سے بے اصول ہے، لیکن خدا ان دونوں میں بہت بااصول ہے۔ تجھے سزا ملنے کی وجہ یہ ہے کہ تو نے خدا کی نافرمانی کی ہے، کسی انسان کی نہیں۔ اگر تو اپنی زندگی میں خدا کے مزاج کی متعدد خلاف ورزیاں کرتا ہے، تو تُو یقیناً جہنم میں جائے گا۔ ممکن ہے انسان کو ایسا لگتا ہو کہ تیرے چند اعمال ہی سچائی کے خلاف ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ پر کیا تجھے ادراک ہے کہ خدا کی نظروں میں تو ایسا شخص بن چکا ہے جس کے گناہوں کا مزید کفارہ نہیں ہے؟ چونکہ تو نے ایک سے زیادہ بار خدا کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کے علاوہ توبہ کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے، اس لیے تجھے جہنم میں پھینکے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، جہاں خدا انسان کو سزا دیتا ہے۔ تھوڑے سے لوگوں نے، خدا کی پیروی کرتے ہوئے کچھ ایسے کام کیے ہیں جن سے اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، لیکن ان سے نمٹنے اور ہدایت دیے جانے کے بعد، بتدریج انھوں نے اپنی بدعنوانی دریافت کر لی، اس کے بعد حقیقت کی درست راہ پر گامزن ہو گئے اور وہ آج بھی اس پر بہتر طور پر قائم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آخر میں باقی رہیں گے۔ تاہم، یہ ایماندار شخص ہے جس کی مجھے تلاش ہوتی ہے؛ اگر تو ایک ایماندار شخص ہے اور اصول کے مطابق کام کرنے والا ہے تو تُو خدا کا معتمد ہو سکتا ہے۔ اگر تو اپنے اعمال سے خدا کے مزاج کو برہم نہیں کرتا اور خدا کی مرضی کو تلاش کرتا ہے اور خدا کے لیے دل میں تعظیم رکھتا ہے تو تیرا ایمان معیاری ہو گا۔ جو شخص خدا کی تعظیم نہیں کرتا اور جس کا دل خدا کے خوف سے کانپتا نہیں ہے، تو اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ خدا کے انتظامی احکام کی خلاف ورزی کرے گا۔ کئی لوگ اپنے جذبے کی قوت سے خدا کی خدمت کرتے ہیں لیکن انھیں خدا کے انتظامی احکام کا کوئی ادراک نہیں ہوتا، اور انھیں اس کے کلام کے نتائج کا اندازہ کم ہی ہوتا ہے۔ اور اس طرح، اپنے نیک ارادوں کے ساتھ، وہ اکثر ایسے کام کر گزرتے ہیں جو خدا کے انتظام میں خلل انداز ہوتے ہیں۔ سنگین معاملات میں، انہیں اس کی پیروی کرنے کا دوسرا موقع دیے بغیر، باہر پھینک دیا جاتا ہے اور جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے، ان کا خدا کے گھر کے ساتھ تمام تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ خدا کے گھر میں اپنی جاہلانہ نیک نیتی کے زور پر کام کرتے ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ خُدا کے مزاج کو برہم کر دیتے ہیں۔ لوگ خُدا کے گھر میں حکام اور آقا کی خدمت کے اپنے طریقے وضع کر لیتے ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ان کا اطلاق یہاں آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ کبھی یہ تصور نہیں کرتے کہ خدا کا مزاج بھیڑ کا نہیں، بلکہ شیر کا ہے۔ لہٰذا، جو لوگ پہلی بار خدا کے ساتھ خود کو جوڑ رہے ہیں وہ اس سے ابلاغ نہیں کر پاتے، کیونکہ خدا کا دل انسانوں کی طرح نہیں ہے۔ کئی سچائیوں کو سمجھنے کے بعد ہی تُو خدا کو مسلسل جان سکتا ہے۔ یہ علم الفاظ اور عقیدوں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اسے ایک خزانے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے تو خدا کا قریبی اعتماد حاصل کرتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تجھ سے خوش ہے۔ اگر تو حقیقت کے علم سے عاری ہے اور تو سچائی سے لیس نہیں ہے تو تیری پرجوش خدمت ہی تیرے لیے خدا کی نفرت اور کراہت کا باعث بن سکتی ہے۔ اب تک تجھے یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ خدا پرایمان لانا صرف دینیات کا مطالعہ نہیں ہے!
اگرچہ کہ وہ الفاظ جن کے ذریعے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں وہ مختصر ہیں لیکن جو بھی میں نے بیان کیا ہے وہ ایسی چیزیں ہیں جس کی تم میں سب سے زیادہ کمی ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں جو ابھی بولتا ہوں وہ انسانوں میں میرے حتمی کام کے لیے ہے، انسان کے انجام کے تعین کے لیے ہے۔ میں وہ کام مزید نہیں کرنا چاہتا جس کا کوئی مقصد نہ ہو اور نہ ہی میں ان لوگوں کی راہنمائی جاری رکھنا چاہتا ہوں جو گلی سڑی لکڑی کی طرح ناامید ہیں، اور میں ان لوگوں کی راہنمائی تو بالکل جاری نہیں رکھنا چاہتا جو لوگ خفیہ طور پر برے ارادے رکھتے ہیں۔ شاید ایک دن تو میرے الفاظ میں پوشیدہ مخلصانہ ارادوں اور بنی نوع انسان کے لیے میرے تعاون کو سمجھ لے گا۔ شاید ایک دن تو اس پیغام کو سمجھے گا جو تجھے اپنے انجام کا فیصلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔