خدا کے کام کی بصیرت (2)

توبہ کی خوشخبری کی منادی فضل کے دور میں کی گئی تھی، اور اگر انسان ایمان رکھتا ہے تو وہ بچ جائے گا۔ آج نجات کی جگہ صرف فتح اور کامل کیے جانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ کبھی نہیں کہا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص ایمان رکھتا ہے تو اس کا پورا خاندان برکت پائے گا، یا یہ کہ جسے ایک بار بچایا گیا ہو اسے ہمیشہ بچایا جاتا ہے۔ آج یہ الفاظ کوئی نہیں بولتا اور ایسی باتیں پرانی ہو چکی ہیں۔اس دور میں، یسوع کا کام تمام بنی نوع انسان کی خلاصی کروانا تھا۔ جو اس پر ایمان رکھتے تھے، ان سب کے گناہ معاف کر دیے گئے تھے؛ جب تک تو نے اس پر ایمان رکھا، وہ تیری خلاصی کروائے گا؛ اگر تو نے اس پر ایمان رکھا، تو تُو گناہ گار نہیں رہا، تجھے اپنے گناہوں سےچھٹکارا مل گیا۔ ایمان کی بدولت بچائے جانے، اور حق بجانب ہونے کا یہی مطلب ہے۔ اس کے باوجود ایمان لانے والوں میں وہ چیز باقی رہ گئی ہے جو سرکش اور خدا کی مخالف تھی اور جسے اب بھی آہستہ آہستہ دور کیا جانا چاہیے۔ نجات کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انسان کو یسوع نے مکمل طور پر اپنا لیا تھا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان مزید گناہ گار نہیں رہا تھا، اور یہ کہ اس کے گناہ معاف کیے جا چکے تھے۔ جب تک تو ایمان رکھتا ہے، تو کبھی مزید گناہ گار نہیں ہو گا۔ اس وقت، یسوع نے بہت زیادہ کام کیا جو اس کے شاگردوں کے لیے ناقابل فہم تھا اور بہت کچھ کہا جسے وہ لوگ نہیں سمجھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت اس نے کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔ لہذا، اس کے جانے کے کئی سال بعد، متّی نے یسوع کے لیے ایک نسب نامہ بنایا، اور دوسروں نے بھی بہت سے ایسے کام کیے جو انسان کی مرضی کے مطابق تھے۔ یسوع انسان کو کامل کرنے اور حاصل کرنے کے لیے نہیں آیا تھا، بلکہ کام کا ایک مرحلہ انجام دینے کے لیے آیا تھا: وہ کام آسمان کی بادشاہی کی خوشخبری کو تیار کرنا اور تصلیب کے کام کو مکمل کرنا تھا۔ اور اس طرح، ایک بار جب یسوع کو مصلوب کر دیا گیا، تو اس کا کام مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ لیکن موجودہ مرحلے – فتح کے کام – میں لازمی طور پر زیادہ الفاظ بولے جانے چاہییں اور مزید کام کرنے کی لازمی ضرورت ہے، اور بہت سارے عمل ہونے چاہئیں۔ اسی طرح یسوع اور یہوواہ کے کام کے اسرار بھی لازمی طور پر ظاہر ہونے چاہییں، تاکہ تمام لوگ اپنے ایمان کو واضح طور پر سمجھ سکیں، کیونکہ یہ آخری ایام کا کام ہے، اور آخری ایام، خدا کے کام کے ختم ہونے، کام کے اختتام کا وقت ہے۔ کام کا یہ مرحلہ تیرے لیے یہوواہ کے قانون اور یسوع کی طرف سے بچائے جانے کی وضاحت کرے گا، اور یہ بنیادی طور پر اس لیے ہے کہ تو خدا کے چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کے پورے کام کو سمجھ سکے، اور اس چھ ہزار سالہ انتظامی منصوبے کی تمام تر اہمیت اور جوہر کی تعریف کر سکے، اور یسوع کے تمام کاموں اور اس کے کہے گئے الفاظ کا مقصد، اور یہاں تک کہ خوش خبری پر اپنے اندھے یقین اور اس کی تقدیس کو بھی سمجھ سکے۔ یہ سب تجھے اچھی طرح سے سمجھنے کے قابل بنائے گا۔ تو یسوع کے کام اور خدا کے آج کے کام دونوں کو سمجھے گا؛ تو تمام سچائی، زندگی، اور راستے کو سمجھے اور دیکھے گا۔ یسوع کے کیے گئے کام کے مرحلے میں، یسوع کام کو اختتام تک پہنچائے بغیر کیوں چلا گیا؟ کیونکہ یسوع کے کام کا مرحلہ کام کا اختتام نہیں تھا۔ جب وہ صلیب پر میخوں سے جڑا گیا تھا، تو اس کے الفاظ بھی ختم ہو گئے تھے؛ اس کے مصلوب ہونے کے بعد، اس کا کام مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔ موجودہ مرحلہ مختلف ہے: الفاظ آخر تک بولے جانے کے بعد اور خدا کا سارا کام ختم ہونے کے بعد ہی اس کے کام کا اختتام ہو گا۔ یسوع کے کام کے مرحلے کے دوران، بہت سے الفاظ ایسے تھے جو ان کہے رہ گئے تھے، یا جو واضح طور پر بیان نہیں کیے گئے تھے۔ پھر بھی یسوع نے پرواہ نہیں کی کہ اس نے کیا کہا یا کیا نہیں کہا، کیونکہ اس کی ذمہ داری الفاظ کی ذمہ داری نہیں تھی، اور اس لیے صلیب پر میخوں سے جڑے جانے کے بعد وہ چلا گیا۔ کام کا وہ مرحلہ بنیادی طور پر تصلیب کی خاطر تھا، اور موجودہ مرحلے کے برعکس ہے۔ کام کا یہ موجودہ مرحلہ بنیادی طور پر تکمیل، صفائی اور تمام کام کو اختتام تک پہنچانے کے لیے ہے۔ اگر الفاظ کو ان کی انتہا تک نہ بولا جائے تو اس کام کو اختتام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا، کیونکہ کام کے اس مرحلے میں تمام کام الفاظ کے استعمال سے ختم ہوتے اور تکمیل پاتے ہیں۔ اس وقت، یسوع نے بہت سے کام کیے جو انسان کے لیے ناقابلِ فہم تھے۔ وہ خاموشی سے چلا گیا، اور آج بھی بہت سے ایسے ہیں جو اس کے کلام کو نہیں سمجھتے، جن کی تفہیم غلط ہے لیکن پھر بھی وہ اسے درست تسلیم کرتے ہیں، اور یہ نہیں جانتے کہ وہ غلط ہیں۔ آخری مرحلہ خُدا کے کام کو مکمل انجام تک پہنچا دے گا اور اس کا اختتام کرے گا۔ سب خدا کے انتظامی منصوبے کو سمجھ لیں گے اور جان جائیں گے۔ انسان کے اندرونی تصورات، اس کے ارادے، اس کی غلط اور نامعقول سمجھ، یہوواہ اور یسوع کے کام کے بارے میں اس کے تصورات، غیر یہودی قوموں کے بارے میں اس کے خیالات، اور اس کے دیگر انحرافات اور غلطیوں کو درست کیا جائے گا۔ اور انسان زندگی کے تمام صحیح راستوں، اور خدا کی طرف سے کیے گئے تمام کام، اور پوری سچائی کو سمجھ لے گا۔ جب ایسا ہو جائے گا تو کام کا یہ مرحلہ ختم ہو جائے گا۔ یہوواہ کا کام دنیا کی تخلیق تھی، یہ ابتدا تھی؛ کام کا یہ مرحلہ کام کا آخر ہے، اور یہ اختتام ہے۔ شروع میں، خدا کا کام اسرائیل کے منتخب کردہ لوگوں کے درمیان کیا گیا تھا، اور یہ تمام مقامات میں سے مقدس ترین مقام پر ایک نئے بہت اہم دور کا آغاز تھا۔ دنیا کا فیصلہ کرنے اور دور کو ختم کرنے کے لیے کام کا آخری مرحلہ تمام ممالک میں سب سے زیادہ ناپاک ملک میں کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں، خدا کا کام تمام مقامات میں سے روشن ترین مقام پر کیا گیا تھا، اور آخری مرحلہ تمام مقامات میں سے تاریک ترین مقام پر کیا گیا ہے، اور اس تاریکی کو باہر نکال دیا جائے گا، روشنی کو آگے لایا جائے گا، اور تمام لوگ فتح کر لیے جائیں گے۔ جب سب مقامات سے زیادہ اس ناپاک اور تاریک ترین مقام کے لوگ فتح کر لیے جائیں گے، اور پوری آبادی تسلیم کر لے گی کہ ایک خدا موجود ہے، جو کہ حقیقی خدا ہے، اور ہر شخص پوری طرح قائل ہو جائے گا، تب اس حقیقت کو پوری کائنات میں فتح کے کام کو انجام دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ کام کا یہ مرحلہ علامتی ہے: ایک بار جب اس دور کا کام ختم ہو جائے گا تو چھ ہزار سالہ انتظام کا کام مکمل طور پر اختتام پذیر ہو جائے گا۔ ایک بار جب تمام مقامات میں سے تاریک ترین مقام پر رہنے والے لوگ فتح کر لیے جائیں گے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ پھر ہر جگہ ایسا ہی ہو گا۔ اس طرح، صرف چین میں ہی فتح کا کام ایک بامعنی علامت ہے۔ چین تاریکی کی تمام قوتوں کی مجسم شکل ہے، اور چین کے لوگ ان تمام لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو گوشت پوست کے ہیں، شیطان کے ہیں، اور گوشت اور خون کے ہیں۔ یہ چینی لوگ ہیں جنھیں عظیم سرخ اژدہے نے سب سے زیادہ بدعنوان بنا دیا ہے، جو خدا کے سخت ترین مخالف ہیں، جن کی انسانیت سب سے زیادہ بُری اور ناپاک ہے، اور اسی وجہ سے وہ تمام بدعنوان انسانیت کا نمونہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے ممالک میں قطعاً کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ انسان کے تصورات ایک جیسے ہیں اور ان ممالک کے لوگ اگرچہ اچھی صلاحیت کے مالک ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو یہ لازمی ایسا ہی ہے جیسے وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہودیوں نے بھی خدا کی مخالفت اور نافرمانی کیوں کی؟ فریسیوں نے بھی اس کی مخالفت کیوں کی؟ یہووداہ نے یسوع کو کیوں دھوکا دیا؟ اس وقت، بہت سے شاگرد یسوع کو نہیں جانتے تھے۔ یسوع کے مصلوب ہونے اور دوبارہ جی اُٹھنے کے بعد بھی کیوں لوگ اُس پر ایمان نہیں لائے؟ کیا انسان کی نافرمانی ایک جیسی نہیں ہے؟ یہ صرف ایسا ہے کہ چین کے لوگوں کو ایک مثال بنایا گیا ہے، اور جب وہ فتح کر لیے جائیں گے تو وہ مثال اور نمونہ بن جائیں گے، اور دوسروں کے لیے حوالے کے طور پر کام آئیں گے۔ میں نے ہمیشہ یہ کیوں کہا ہے کہ تم میرے انتظامی منصوبے کے معاون ہو؟ ایسا ہے کہ چین کے لوگوں میں بدعنوانی، ناپاکی، ناراستی، مخالفت اور سرکشی اپنی تمام مختلف شکلوں میں مکمل طور پر ظاہر ہوتی ہے اور نمایاں ہے۔ ایک طرف وہ کمزور صلاحیت کے مالک ہیں اور دوسری طرف ان کی زندگی اور ذہنیت پسماندہ ہے، اور ان کی عادات، سماجی ماحول، پیدائشی خاندان – سب غریب اور پسماندہ ہیں۔ ان کی حیثیت بھی پست ہے۔ اس جگہ کا کام علامتی ہے اور اس آزمائشی کام کو مکمل طور پر انجام دینے کے بعد خدا کا اگلا کام بہت آسان ہو جائے گا۔ اگر کام کا یہ مرحلہ مکمل کیا جا سکتا ہے تو اس کے بعد کا کام بغیر کہے ہو جائے گا۔ ایک بار کام کا یہ مرحلہ مکمل ہو جائے تو عظیم کامیابی مکمل طور پر حاصل ہو جائے گی، اور پوری کائنات میں فتح کا کام مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ درحقیقت، ایک بار تمہارے درمیان کام کامیاب ہو گیا تو یہ پوری کائنات میں کامیابی کے مترادف ہو گا۔ یہ اس بات کی اہمیت ہے کہ کیوں میں نے تمہیں ایک مثال اور نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ سرکشی، مخالفت، ناپاکی، ناراستی، یہ سب کچھ ان لوگوں میں پایا جاتا ہے، اور ان میں بنی نوع انسان کی تمام سرکشی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ واقعی کچھ چیز ہیں۔ اس طرح، وہ فتح کے مظہر کے طور پر رکھے جاتے ہیں، اور ایک بار جب وہ فتح ہو جاتے ہیں تو وہ قدرتی طور پر دوسروں کے لیے مثال اور نمونہ بن جائیں گے۔ اسرائیل میں پہلے مرحلے کو انجام دینے سے زیادہ علامتی کوئی چیز نہیں تھی: بنی اسرائیل تمام لوگوں میں سب سے مقدس اور سب سے کم بدعنوان تھے، اور اس لیے اس سرزمین میں نئے اہم دور کا طلوع ہونا انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی نوع انسان کے آباؤ اجداد اسرائیل سے آئے تھے، اور یہ کہ اسرائیل خدا کے کام کی جائے پیدائش تھی۔ شروع میں، یہ لوگ سب سے زیادہ مقدس تھے، اور وہ سب یہوواہ کی عبادت کرتے تھے، اور ان میں خدا کا کام بہترین نتائج برآمد کرنے کے قابل تھا۔ پوری انجیل دو ادوار کے کام کو درج کرتی ہے: ایک قانون کے دور کا کام تھا، اور دوسرا فضل کے دور کا کام تھا۔ یہوواہ کے اسرائیلیوں کے لیے الفاظ اور اس کے اسرائیل میں کیے گئے کام کو عہد نامہ قدیم میں درج کیا گیا ہے؛ نیا عہد نامہ یہودیہ میں یسوع کے کام کو درج کرتا ہے۔ لیکن انجیل میں کوئی چینی نام کیوں نہیں ہیں؟ کیونکہ خُدا کے کام کے پہلے دو حصے اسرائیل میں انجام دیے گئے تھے، کیونکہ اسرائیل کے لوگ منتخب کردہ تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے یہوواہ کے کام کو قبول کیا تھا۔ وہ تمام بنی نوع انسان میں سب سے کم بدعنوان تھے، اور ابتدا میں، وہ خدا کی طرف دیکھنے اور اس کی تعظیم کرنے کی سوچ کے حامل تھے۔ اُنہوں نے یہوواہ کے الفاظ پر عمل کیا، اور ہمیشہ معبد میں خدمت کی، اور مذہبی پیشواﺆں کے لباس یا تاج پہنے۔ وہ خُدا کی عبادت کرنے والے سب سے پہلے لوگ تھے، اور اُس کے کام کا سب سے پہلا ہدف۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے لیے مثال اور نمونہ تھے۔ وہ تقدس کی اور راست باز انسانوں کی مثال اور نمونہ تھے۔ ایوب، ابراہیم، لوط، یا پطرس اور تیمتھیس جیسے لوگ – وہ سب اسرائیلی تھے، اور مثالوں اور نمونوں میں سب سے زیادہ مقدس تھے۔ اسرائیل بنی نوع انسان کے درمیان خدا کی عبادت کرنے والا سب سے پہلا ملک تھا، اور یہاں سے کسی اور جگہ کی نسبت زیادہ راست باز لوگ آئے۔ خدا نے ان میں کام کیا تاکہ وہ مستقبل میں پوری زمین میں بنی نوع انسان کو بہتر طریقے سے منظم کر سکے۔ ان کی کامیابیوں اور ان کی یہوواہ کی عبادت کرنے میں نیک اعمال کو درج کیا گیا، تاکہ وہ فضل کے دور میں اسرائیل سے باہر کے لوگوں کے لیے مثال اور نمونے کے طور پر پیش کیے جا سکیں؛ اور ان کے اعمال نے آج تک کئی ہزار سال کے کام کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

دنیا کو قائم کرنے کے بعد، خدا کے کام کا پہلا مرحلہ اسرائیل میں انجام پایا، اور اس طرح زمین پر خدا کے کام کی جائے پیدائش، اور زمین پر خدا کے کام کی بنیاد اسرائیل تھی۔ یسوع کے کام کا دائرہ پورے یہودیہ میں پھیلا ہوا تھا۔ اس کے کام کے دوران، یہودیہ سے باہر بہت کم لوگوں کو اس کا علم تھا، کیونکہ اس نے یہودیہ سے باہر کوئی کام نہیں کیا تھا۔ آج، خدا کے کام کو چین میں لایا گیا ہے، اور یہ خالصتاً اسی دائرہ کار میں انجام دیا جاتا ہے۔ اس مرحلے کے دوران، چین سے باہر کوئی کام شروع نہیں کیا جاتا؛ چین سے باہر اس کا پھیلاؤ وہ کام ہے جو بعد میں آئے گا۔ کام کا یہ مرحلہ یسوع کے کام کے مرحلے کے بعد آگے بڑھتا ہے۔ یسوع نے خلاصی کا کام کیا، اور یہ مرحلہ وہ کام ہے جو اس کام کے بعد آگے بڑھتا ہے؛ خلاصی کا کام مکمل ہو چکا ہے، اور اس مرحلے میں روح القدس کے ذریعے حمل ٹہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ کام کا یہ مرحلہ پچھلے مرحلے کے برعکس ہے، اور اس کے علاوہ، کیونکہ چین اسرائیل کے برعکس ہے۔ یسوع نے خلاصی کے کام کا ایک مرحلہ انجام دیا۔ انسان نے یسوع کو دیکھا، اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس کا کام غیر یہودی قوموں میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ آج امریکہ، برطانیہ اور روس میں خدا کو ماننے والے بہت ہیں تو چین میں اس کے ماننے والے کم کیوں ہیں؟ کیونکہ چین سب سے زیادہ بند قوم ہے۔ اس طرح، چین خدا کے راستے کو قبول کرنے والا آخری ملک تھا، اور اب بھی اسے ایسا کیے ہوئے سو سال سے بھی کم وقت ہی ہوا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں بہت تاخیر سے۔ خُدا کے کام کا آخری مرحلہ سرزمینِ چین میں انجام پاتا ہے تاکہ اُس کے کام کو ختم کیا جائے، اور اُس کے تمام کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ اسرائیل کے سبھی لوگ یہوواہ کو اپنا خداوند کہتے تھے۔ اس وقت، وہ اسے اپنے خاندان کا سربراہ سمجھتے تھے، اور پورا اسرائیل ایک عظیم خاندان بن گیا تھا جس میں ہر ایک اپنے خداوند یہوواہ کی عبادت کرتا تھا۔ یہوواہ کی روح اکثر ان پر ظاہر ہوتی تھی، اور اس نے ان سے بات کی اور انھیں اپنی آواز سنائی، اور ان کی زندگیوں کی راہنمائی کے لیے بادل اور آواز کے ستون کا استعمال کیا۔ اس وقت، روح نے اسرائیل میں لوگوں سے براہ راست مخاطب ہوتے اور اپنی آواز سناتے ہوئے ان کی راہنمائی کی، اور لوگوں نے بادلوں کو دیکھا اور گرجنے کی آواز سنی، اور اس طریقے سے اس نے کئی ہزار سال تک ان کی زندگیوں کی راہنمائی کی۔ اس طرح، صرف اسرائیل کے لوگوں نے ہمیشہ یہوواہ کی عبادت کی ہے۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہوواہ ان کا خدا ہے، اور وہ غیر یہودی قوموں کا خدا نہیں ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے: یہوواہ، آخر، تقریباً چار ہزار سال تک ان کے درمیان کام کر چکا تھا۔ چین کی سرزمین میں، ہزاروں سال کی سستی اور غفلت کے بعد، زوال پذیر لوگوں کو صرف اب علم ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور تمام چیزیں قدرتی طور پر نہیں بنی ہیں، بلکہ خالق کی بنائی ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ خوشخبری بیرون ملک سے آئی ہے، وہ دقیانوس، رجعت پسند ذہن یہ یقین رکھتے ہیں کہ جو لوگ اس خوشخبری کو قبول کرتے ہیں وہ غدار ہیں، وہ لعنتی ہیں، اور انھوں نے مہاتما بدھ کو اور اپنے آباؤ اجداد کو دھوکا دیا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں سے بہت سے دقیانوس ذہن یہ پوچھتے ہیں، "چینی لوگ غیر ملکیوں کے خدا پر کیسے ایمان لا سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنے آباﺆاجداد سے غداری نہیں کر رہے ہیں؟ کیا وہ برائی نہیں کر رہے ہیں؟" آج، لوگ طویل عرصے سے بھول چکے ہیں کہ یہوواہ ان کا خدا ہے۔ انہوں نے بہت عرصے سے خالق کو اپنے ذہنوں میں فراموش کر رکھا ہے، اور اس کی بجائے وہ ارتقا پر یقین رکھتے ہیں، یعنی انسان بندروں سے ارتقا پذیر ہوا، اور یہ کہ فطری دنیا قدرتی طور پر وجود میں آئی۔ انسان جس اچھی خوراک سے لطف اندوز ہوتا ہے وہ سب قدرت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، انسان کی زندگی اور موت میں ایک ترتیب ہے، اور کوئی خدا موجود نہیں ہے جو اس سب پر حکمرانی کرتا ہو۔ مزید برآں، بہت سے ملحدین ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز پر خدا کا حکمرانی کرنا توہم پرستی ہے اور سائنسی نہیں ہے۔ لیکن کیا سائنس خدا کے کام کی جگہ لے سکتی ہے؟ کیا سائنس بنی نوع انسان پر حکومت کر سکتی ہے؟ الحاد کی حکومت والے ملک میں خوشخبری کی منادی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اور اس میں بڑی رکاوٹیں شامل ہیں۔ آج، کیا بہت سے ایسے نہیں ہیں جو خدا کی اس طرح مخالفت کرتے ہیں؟

جب یسوع اپنا کام کرنے آیا تھا تو بہت سے لوگوں نے اس کے کام کا موازنہ یہوواہ کے کام سے کیا تھا، اور، ان کو متضاد پاتے ہوئے، انہوں نے یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑ دیا۔ انہوں نے ان کے کام کے درمیان کوئی مطابقت کیوں نہیں پائی؟ جزوی طور پر، ایسا اس لیے تھا کہ یسوع نے نیا کام کیا تھا، اور اس لیے بھی کہ، یسوع کے اپنا کام شروع کرنے سے پہلے، کسی نے بھی اس کا نسب نامہ نہیں لکھا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرتا تو یہ بہتر ہوتا۔ اور پھر کون یسوع کو صلیب پر میخوں سے جڑتا؟ اگر متّی نے یسوع کا نسب نامہ کئی دہائیوں پہلے لکھا ہوتا تو یسوع کو اتنے بڑے ظلم و ستم کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ جیسے ہی لوگ یسوع کے شجرہ نسب کے بارے میں پڑھتے۔ کہ وہ ابراہیم کا بیٹا تھا، اور داؤد کی اولاد تھا۔ تو وہ اس پر ظلم کرنا بند کر دیتے۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ اس کا نسب نامہ بہت دیر سے لکھا گیا؟ اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ انجیل میں خدا کے کام کے صرف دو مراحل کا اندراج ہے: ایک مرحلہ جو قانون کے دور کا کام تھا، اور ایک جو کہ فضل کے دور کا کام تھا؛ ایک مرحلہ جو کہ یہوواہ کا کام تھا، اور دوسرا وہ جو یسوع کا کام تھا۔ کتنا بہتر ہوتا اگر کسی عظیم پیغمبر نے آج کے کام کی پیشین گوئی کی ہوتی۔ انجیل میں "آخری ایام کا کام" کے عنوان سے ایک اضافی حصہ ہوتا۔ کیا یہ زیادہ بہتر نہ ہوتا؟ آج انسان کو اتنی مشکلات کا سامنا کیوں کرنا چاہیے؟ تم نے اتنا مشکل وقت گزارا ہے! اگر کوئی نفرت کا مستحق ہے تو وہ یسعیاہ اور دانیال ہیں کیونکہ انہوں نے آخری ایام کے کام کی پیشین گوئی نہیں کی تھی۔ اور اگر کوئی قصوروار ہے تو وہ نئے عہد نامے کے رسول ہیں جنہوں نے انسانی شکل میں خدا کا نسب نامہ پہلے درج نہیں کیا۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے! تمہیں ثبوت حاصل کرنے کے لیے ہر جگہ تلاش کرنا پڑے گا، اور یہاں تک کہ چھوٹے الفاظ کے کچھ ٹکڑے ڈھونڈنے کے بعد بھی تم یہ نہیں بتا سکتے کہ آیا وہ واقعی ثبوت ہیں۔ کتنی شرمناک بات ہے! خدا اپنے کام کو اتنا خفیہ کیوں رکھتا ہے؟ آج، بہت سے لوگوں کو ابھی تک حتمی ثبوت تلاش کرنا ہے، اس کے باوجود وہ اس کا انکار کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ تو پھر انہیں کیا کرنا چاہیے؟ وہ پختہ عزم سے خدا کی پیروی نہیں کر سکتے، مگر وہ ایسی شک کی کیفیت میں آگے بھی نہیں بڑھ سکتے۔ اور اسی طرح، بہت سے "ہوشیار اور ہونہار علما" جب خدا کی پیروی کرتے ہیں تو "آزماﺆ اور دیکھو" کا رویہ اپناتے ہیں۔ یہ بہت زیادہ مصیبت ہے! کیا چیزیں بہت آسان نہ ہوتیں اگر متّی، مرقس، لوقا اور یوحنا مستقبل کی پیشین گوئی کرنے کے قابل ہوتے؟ یہ بہتر ہوتا اگر یوحنا زندگی کی اندرونی سچائی کو بادشاہی میں دیکھ لیتا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس نے صرف رویا دیکھے اور زمین پر حقیقی، مادی کام نہیں دیکھا۔ یہ بہت شرم کی بات ہے! خدا کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کیوں، اسرائیل میں اپنا کام اتنے اچھے طریقے سے ہونے کے بعد، اب وہ چین میں آیا ہے، اور، کیوں اسے گوشت پوست کا بننا پڑا، اور اسے ذاتی طور پر کام کرنے اور لوگوں کے درمیان رہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ خُدا انسان کے لیے بہت بے پرواہ ہے! نہ صرف اس نے لوگوں کو پہلے سے نہیں بتایا تھا، بلکہ اچانک وہ اپنی سزا اور فیصلہ لے آیا ہے۔ یہ واقعی کوئی معنی نہیں رکھتا! پہلی بار جب خُدا گوشت پوست کا بنا، تو اُس نے انسان کو تمام اندرونی سچائیوں کے متعلق پہلے سے نہ بتانے کے نتیجے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا۔ یقیناً وہ اسے بھول نہیں سکتا ہے؟ اور اس وقت بھی آخر وہ انسان کو کیوں نہیں بتاتا ہے؟ آج یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ انجیل میں صرف چھیاسٹھ کتابیں ہیں۔ آخری ایام کے کام کے بارے میں صرف ایک اور پیشین گوئی کی ضرورت ہے! کیا تو ایسا نہیں سوچتا؟ یہاں تک کہ یہوواہ، یسعیاہ اور داﺆد نے آج کے کام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہیں حال سے مزید دور کر دیا گیا، چار ہزار سال سے زیادہ مدت کے ساتھ الگ کر دیا گیا۔ یسوع نے بھی آج کے کام کے بارے میں مکمل طور پر پیشین گوئی نہیں کی تھی، اس کے متعلق صرف تھوڑی سی بات کی تھی، اس کے باوجود انسان کو ناکافی ثبوت ملتا ہے۔ اگر تو آج کے کام کا موازنہ پہلے والے کام سے کرتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کیسے مل سکتے ہیں؟ یہوواہ کے کام کا مرحلہ اسرائیل میں تھا، لہٰذا اگر تو آج کے کام کا اس سے موازنہ کرتا ہے تو اس سے بھی زیادہ اختلاف ہوگا۔ ان دونوں کا بالکل موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ نہ تو اسرائیل کا ہے اور نہ ہی یہودی ہے۔ تیری صلاحیت اور تیری ہر چیز میں کمی ہے۔ تو ان کے ساتھ اپنا موازنہ کیسے کر سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ جان لے کہ آج بادشاہی کا دور ہے، اور یہ قانون کے دور اور فضل کے دور سے مختلف ہے۔ کسی بھی صورت میں، کوئی فارمولا استعمال کرنے کی کوشش نہ کر؛ خدا ایسے کسی فارمولوں میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔

یسوع اپنی پیدائش کے بعد 29 سال کیسے زندہ رہا؟ انجیل میں اس کے بچپن اور جوانی کے بارے میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے؛ کیا تو جانتا ہے کہ وہ کس طرح کا تھا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا بچپن یا جوانی نہ ہو، اور جب وہ پیدا ہوا تو اس کی عمر ہی 30 سال تھی؟ تو بہت کم جانتا ہے، لہذا اپنے خیالات کو ظاہر کرنے میں اتنا غیر محتاط نہ ہو۔ اس سے تجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا! انجیل صرف یہ درج کرتی ہے کہ یسوع کی 30ویں سالگرہ سے پہلے، اس نے بپتسمہ لیا تھا اور روح القدس کی راہنمائی میں شیطان کی آزمائش سے گزرنے کے لیے بیابان میں گیا تھا۔ اور چار انجیلیں اس کے ساڑھے تین سال کے کام کو درج کرتی ہیں۔ اس کے بچپن اور جوانی کا کوئی اندراج نہیں ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا بچپن اور جوانی تھی ہی نہیں؛ بس اتنا ہے کہ شروع میں اس نے کوئی کام نہیں کیا، اور وہ ایک عام آدمی تھا۔ تو کیا تو کہہ سکتا ہے کہ یسوع 33 سال تک بغیر جوانی اور بچپن کے زندہ رہا؟ کیا وہ اچانک ساڑھے 33 سال کی عمر کو پہنچ سکتا تھا؟ یہ سب جو انسان اس کے بارے میں سوچتا ہے وہ مافوق الفطرت اور غیر حقیقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجسم خدا معمولی اور عمومی انسانیت کا مالک ہے، لیکن جب وہ اپنا کام انجام دیتا ہے تو یہ براہ راست اس کی نامکمل انسانیت اور مکمل الوہیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آج کے کام کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں، یہاں تک کہ یسوع کے کام کے بارے میں بھی۔ اگرچہ خُدا کے گوشت پوست کے بننے کے دو ادوار کے کام میں فرق ہے، لیکن اُس کے جوہر میں فرق نہیں ہے۔ بلاشبہ، اگر تو چار انجیلوں کے ریکارڈ کو پڑھے، تو فرق بہت زیادہ ہے۔ تو یسوع کے بچپن اور جوانی کی زندگی میں کیسے واپس جا سکتا ہے؟ تو یسوع کی عام انسانیت کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ تو آج کے خدا کی انسانیت کے بارے میں اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہو، پھر بھی تجھے یسوع کی انسانیت کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہے، اور اس کو سمجھنا تو اور بھی مشکل کام ہے۔ اگر متّی نے یہ ریکارڈ نہ کیا ہوتا تو تجھے یسوع کی انسانیت کا کوئی اندازہ نہ ہوتا۔ ہو سکتا ہے، جب میں تجھے یسوع کی زندگی کی کہانیاں سناؤں، اور تجھے یسوع کے بچپن اور جوانی کی اندرونی سچائیاں بتاؤں، تو تو اپنا سر نفی میں ہلا کر کہے گا، "نہیں! وہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُس میں کوئی کمزوری نہیں ہو سکتی، اُس میں انسانیت کا ہونا تو اور بھی دور کی بات ہے!" یہاں تک کہ تو چیخے گا اور چلائے گا۔ یہ اس لیے ہے کہ تو یسوع کو نہیں سمجھا ہے اور اس لیے کہ تو میرے بارے میں تصورات رکھتا ہے۔ تو یقین کرتا ہے کہ یسوع بہت اُلوہی ہے، اس کے بارے میں گوشت پوست کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقائق پھر بھی حقائق ہیں۔ کوئی بھی حقائق کی سچائی کے خلاف بات نہیں کرنا چاہتا، کیونکہ جب میں بات کرتا ہوں تو یہ سچائی کے متعلق ہوتی ہے؛ یہ قیاس آرائی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ پیشین گوئی ہے۔ جان لے کہ خُدا عظیم بلندیوں تک جا سکتا ہے، اور اس کے علاوہ، وہ بہت زیادہ گہرائیوں میں چھپ سکتا ہے۔ وہ ایسی چیز نہیں ہے جسے تو اپنے ذہن میں گھڑتا ہے – وہ کسی ایک مخصوص شخص کا تصور کردہ ذاتی خدا نہیں ہے بلکہ وہ تمام مخلوقات کا خدا ہے۔

سابقہ: خدا کے کام کی بصیرت (1)

اگلا: خدا کے کام کی بصیرت (3)

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp