خدا کے کام کی بصیرت (1)
یوحنا نے یسوع کے لیے سات سال کام کیا، اور وہ یسوع کی آمد سے پہلے ہی راستہ ہموار کر چکا تھا۔ اس سے پہلے یوحنا کی طرف سے منادی کی گئی آسمانی بادشاہی کی خوشخبری پورے ملک میں سنی گئی تھی اور یہ یہودیہ میں پھیل گئی تھی اور ہر کوئی اسے نبی کہتا تھا۔ اس وقت بادشاہ ہیرودیس یوحنا کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن اسے ہمت نہیں ہوئی کیونکہ لوگ یوحنا کا بہت احترام کرتے تھے، اور ہیرودیس کو خوف تھا کہ اگر اس نے یوحنا کو مار ڈالا تو وہ اس کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ یوحنا کے کیے گئے کام عام لوگوں میں پھیل چکے تھے، اور اس نے یہودیوں کو ایمان رکھنے والا بنا دیا تھا۔ سات سال تک اُس نے یسوع کے لیے راہ ہموار کی، ٹھیک اُس وقت تک جب یسوع نے اپنی خدمات انجام دینا شروع کر دیں۔ اس وجہ سے یوحنا تمام انبیا سے عظیم تھا۔ یوحنا کے قید ہونے کے بعد ہی یسوع نے اپنا کام باضابطہ طور پر شروع کیا تھا۔ کیونکہ یسوع سے پہلے، خُدا کبھی بھی جسم نہیں بنا تھا، اس لیے یوحنا سے پہلے، کبھی کوئی ایسا نبی نہیں تھا جس نے خدا کے لیے راہ ہموار کی ہو۔ لہٰذا، یوحنا تک تمام انبیا میں سے، وہ واحد شخص تھا جس نے مجسم خدا کے لیے راہ ہموار کی تھی، اور اس طرح، یوحنا قدیم اور جدید عہد ناموں کا سب سے عظیم نبی بن گیا۔ یوحنا نے یسوع کے بپتسمہ سے سات سال پہلے آسمانی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنا شروع کی۔ اس نے جو کام کیا لوگوں کو وہ یسوع کے بعد والے کام سے بڑھ کر لگتا تھا، پھر بھی، اس کے باوجود وہ صرف ایک نبی تھا۔ وہ صرف ہیکل کے اندر ہی نہیں بلکہ اس کے باہر چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں بھی کام کرتا اور گفتگو کرتا تھا۔ اس نے یہ کام یقیناً یہودی قوم کے لوگوں میں، خاص طور پر غریبوں کے درمیان کیا۔ یوحنا معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لوگوں سے شاذ و نادر ہی رابطہ کرتا تھا، اور وہ صرف یہودیہ کے عام لوگوں کو ہی منادی کرتا تھا۔ یہ خُداوند یسوع کے لیے صحیح لوگوں کو تیار کرنے، اور اُس کے کام کرنے کے لیے مناسب جگہیں تیار کرنے کے لیے تھا۔ راہ ہموار کرنے کے لیے یوحنا جیسے نبی کے ساتھ، خُداوند یسوع اپنی آمد کے ساتھ ہی براہِ راست اپنے صلیب پر چڑھنے کے سفر کا آغاز کرنے کے قابل ہوا تھا۔ جب خُدا اپنا کام کرنے کے لیے جسم بنا، تو اُسے لوگوں کو منتخب کرنے کا کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اور نہ ہی اُسے ذاتی طور پر لوگوں کو تلاش کرنے یا کام کرنے کی جگہ تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔ جب وہ آیا تو اس نے ایسا کام نہیں کیا؛ اس کے آنے سے پہلے ہی ایک موزوں شخص نے اس کے لیے ایسی چیزیں تیار کر رکھی تھیں۔ یوحنا نے یسوع کے کام شروع کرنے سے پہلے ہی یہ کام مکمل کر لیا تھا، کیونکہ جب مجسم خدا اپنا کام کرنے کے لیے آیا، تو اس نے فوراً ان لوگوں پر کام شروع کردیا جو طویل عرصے سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ یسوع انسان کی اصلاح کا کام کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ صرف اس ذمہ داری کو پورا کرنے آیا تھا جو اس نے انجام دینی تھی؛ باقی ہر چیز کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب یوحنا آیا تو اس نے ہیکل سے اور یہودیوں میں سے آسمانی بادشاہی کی خوشخبری کو قبول کرنے والے ایک گروہ کو باہر لانے کے سوا کچھ نہیں کیا تاکہ وہ خداوند یسوع کے کام کے اہداف بن سکیں۔ یوحنا نے سات سال تک کام کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سات سال تک خوشخبری کی منادی کی۔ اپنے کام کے دوران، یوحنا نے بہت سے معجزے نہیں دکھائے، کیونکہ اس کا کام راہ ہموار کرنا تھا؛ اس کا کام تیاری کا کام تھا۔ باقی تمام کام، وہ کام جو یسوع کرنے جا رہا تھا، اس سے غیر متعلق تھے؛ اس نے صرف انسان سے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے اور توبہ کرنے کو کہا، اور لوگوں کو بپتسمہ دیا، تاکہ وہ بچائے جا سکیں۔ اگرچہ اس نے نیا کام کیا اور ایک ایسا راستہ کھولا جس پر انسان پہلے کبھی نہیں چلا تھا، پھر بھی اس نے صرف یسوع کے لیے راستہ ہموار کیا۔ وہ محض ایک نبی تھا جس نے تیاری کا کام کیا تھا، اور وہ یسوع کا کام کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اگرچہ یسوع آسمانی بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرنے والا پہلا نہیں تھا، اور اگرچہ وہ اس راستے پر چلتا رہا جس پر یوحنا نے سفر کا آغاز کیا تھا، پھر بھی کوئی دوسرا ایسا نہیں تھا جو اس کا کام کر سکتا، اور یہ یوحنا کے کام سے بڑھ کر تھا۔ یسوع اپنا راستہ خود ہموار نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا کام براہ راست خدا کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اور اس لیے، چاہے یوحنا نے کتنے ہی سال کام کیا ہو، وہ اب بھی ایک نبی ہی تھا، اور اب بھی ایک ایسا تھا جس نے راہ ہموار کی۔ یسوع کے تین سال کا کام یوحنا کے کام کے سات سالوں سے زیادہ تھا، کیونکہ اس کے کام کا جوہر ایک جیسا نہیں تھا۔ جب یسوع نے اپنی خدمات انجام دینا شروع کیں، جو کہ یوحنا کا کام ختم ہونے کا وقت بھی ہے، تو یوحنا خُداوند یسوع کے استعمال کے لیے کافی لوگ اور جگہیں تیار کر چکا تھا، اور وہ خُداوند یسوع کے تین سال کا کام شروع کرنے کے لیے کافی تھا۔ اور اس طرح، جیسے ہی یوحنا کا کام ختم ہوا، خُداوند یسوع نے باضابطہ طور پر اپنا کام شروع کر دیا، اور یوحنا کے کہے گئے الفاظ کو ترک کر دیا گیا۔ ایسا اس لیے تھا کہ یوحنا نے جو کام کیا تھا وہ صرف عبوری دور کے لیے تھا، اور اس کے الفاظ زندگی کے الفاظ نہیں تھے جو انسان کو نئی ترقی کی طرف لے جاتے۔ بالآخر، اس کے الفاظ صرف عارضی استعمال کے لیے تھے۔
یسوع نے جو کام کیا وہ مافوق الفطرت نہیں تھا؛ اس کا ایک طریقہ کار تھا، اور یہ سب چیزوں کے عام قوانین کے مطابق آگے بڑھتا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری چھ مہینوں تک، یسوع کو یقین کے ساتھ علم تھا کہ وہ اس کام کو کرنے آیا تھا، اور وہ جانتا تھا کہ وہ صلیب پر میخوں سے جڑے جانے کے لیے آیا تھا۔ مصلوب کیے جانے سے پہلے، یسوع نے بالکل اسی طرح مسلسل خدا باپ سے دعا کی، جس طرح اس نے گتسمنی کے باغ میں تین بار دعا کی تھی۔ بپتسمہ لینے کے بعد، یسوع نے ساڑھے تین سال تک اپنی خدمت انجام دیں، اور اس کا باضابطہ کام ڈھائی سال تک جاری رہا۔ پہلے سال کے دوران، اس پر شیطان کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا، اسے انسان کی طرف سے ہراساں کیا گیا تھا، اور وہ انسانی ترغیبات کا شکار ہوا تھا۔ اپنے کام کو انجام دیتے ہوئے اس نے بہت سی ترغیبات پر قابو پا لیا۔ آخری چھ مہینوں میں، جب یسوع جلد ہی مصلوب ہونے والا تھا، پطرس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ وہ زندہ خدا کا بیٹا ہے، کہ وہ مسیح ہے۔ تب ہی سب کو اس کے کام کا علم ہوا، اور تب ہی اس کی شناخت عوام پر آشکار ہوئی۔ اس کے بعد، یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اسے انسان کی خاطر مصلوب کیا جانا ہے، اور تین دن کے بعد وہ دوبارہ جی اٹھے گا؛ کہ وہ خلاصی کے کام کو انجام دینے آیا تھا، اور وہ نجات دہندہ تھا۔ صرف آخری چھ مہینوں میں اس نے اپنی شناخت اور وہ کام ظاہر کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ بھی خدا کا زمانہ تھا اور اسی انداز میں کام کو انجام دیا جانا تھا۔ اس وقت، یسوع کے کام کا کچھ حصہ قدیم عہد نامے کے ساتھ ساتھ موسیٰ کے قوانین اور قانون کے دور میں یہوواہ کے الفاظ کے مطابق تھا۔ یہ تمام چیزیں، یسوع اپنے کام کے حصے کے طور پر کرتا تھا۔ اس نے لوگوں کو منادی کی اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تعلیم دی، اور اس نے قدیم عہد نامے میں انبیا کی پیشین گوئیوں کو استعمال کیا تاکہ ان فریسیوں کی ملامت کرے جو اس کے دشمن تھے، اور یسوع نے ان کی نافرمانی کو ظاہر کرنے کے لیے صحیفوں کے الفاظ استعمال کیے اور اس طرح ان کی مذمت کی۔ کیونکہ اُنہوں نے یسوع کے کام کو حقیر سمجھا تھا؛ خاص طور پر، یسوع کا زیادہ تر کام صحیفوں میں موجود قوانین کے مطابق نہیں کیا گیا تھا، اور اس کے علاوہ، جو کچھ اس نے سکھایا وہ ان کے اپنے الفاظ سے زیادہ بلند تھا، اور اس سے بھی بلند تھا جس کی پیشین گوئی نبیوں نے صحیفوں میں کی تھی۔ یسوع کا کام صرف انسان کی خلاصی اور مصلوب ہونے کے لیے تھا، اور اس لیے اسے کسی بھی انسان پر غالب آنے کے لیے مزید الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے انسان کو جو کچھ سکھایا اس کا زیادہ تر حصہ صحیفوں کے الفاظ سے اخذ کیا گیا تھا، اور اگرچہ اس کا کام صحیفوں سے زیادہ نہیں تھا، پھر بھی وہ مصلوب ہونے کے کام کو پورا کرنے کے قابل تھا۔ اس کا کام کلام کا نہیں تھا اور نہ ہی یہ کام بنی نوع انسان پر غالب آنے کے لیے کیا گیا تھا، بلکہ یہ وہ کام تھا جو بنی نوع انسان کی نجات کے لیے کیا گیا تھا۔ اس نے صرف بنی نوع انسان کے لیے گناہ کے کفارے کے طور پر کام کیا، اور بنی نوع انسان کے لیے کلام کے ماخذ کے طور پر کام نہیں کیا۔ اس نے غیر یہودی قوموں کا کام نہیں کیا، جو کہ انسان پر غالب آنے کا کام تھا، بلکہ اس نے مصلوب ہونے کا کام کیا، وہ کام جو ان لوگوں کے درمیان کیا گیا تھا جو یہ یقین رکھتے تھے کہ ایک خدا موجود ہے۔ اگرچہ اُس کا کام صحیفوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا، اور اگرچہ اُس نے فریسیوں کی مذمت کرنے کے لیے اُس چیز کو استعمال کیا جس کی پیشین گوئی پرانے نبیوں نے کی تھی، اور یہ مصلوب ہونے کے کام کو مکمل کرنے کے لیے کافی تھا۔ اگر صحیفوں میں پرانے انبیا کی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر آج کا کام کیا جاتا تو پھر تم پر غالب آنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ عہد نامہ قدیم میں تم چینی لوگوں کی نافرمانیوں اور گناہوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اور تمہارے گناہوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ لہٰذا، اگر یہ کام ابھی تک انجیل میں ہی محدود رہے تو تم کبھی بھی فائدہ حاصل نہیں کرو گے۔ انجیل میں بنی اسرائیل کی صرف ایک محدود تاریخ درج ہے، جو یہ ثابت کرنے سے کہ تم برے ہو یا اچھے، یا تمہارا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ تصور کرو کہ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطابق تمہارا فیصلہ کرتا ہوں—کیا تم پھر بھی میری پیروی کرو گے جیسا کہ تم آج کرتے ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ تم کتنے دشوار ہو؟ اگر اس مرحلے میں کوئی کلام نہ کہا جائے تو فتح کرنے کا کام مکمل کرنا ناممکن ہو جائے۔ کیونکہ میں صلیب پر میخوں سے جڑے جانے کے لیے نہیں آیا ہوں، اس لیے مجھے لازمی ایسا کلام کہنا چاہیے جو انجیل سے الگ ہو تاکہ تم مغلوب ہو سکو۔ یسوع نے جو کام کیا وہ پرانے عہد نامے سے محض ایک مرحلہ بلند تھا؛ یہ ایک دور کو شروع کرنے اور اس دور کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اُس نے کیوں کہا تھا، "میں قانون کو ختم کرنے نہیں آیا، بلکہ قانون کو پورا کرنے آیا ہوں؟" اس کے باوجود اس کے کام میں بہت کچھ تھا جو پرانے عہد نامے کے بنی اسرائیل کے نافذ کردہ قوانین اور احکام سے مختلف تھا، کیونکہ وہ قانون کی تعمیل کرنے کے لیے نہیں آیا تھا، بلکہ اسے پورا کرنے کے لیے آیا تھا۔ اس کو پورا کرنے کے عمل میں بہت سی عملی چیزیں شامل تھیں: اس کا کام زیادہ عملی اور حقیقی تھا، اور اس کے علاوہ، یہ زیادہ زندہ تھا، اور یہ اصولوں کی اندھی تقلید نہیں تھی۔ کیا بنی اسرائیل نے یومِ سبت نہیں رکھا؟ جب یسوع آیا تو اس نے یومِ سبت نہیں منایا کیونکہ اس نے کہا کہ ابن آدم سبت کا خداوند ہے اور جب سبت کا خداوند آ گیا ہے تو وہ وہی کرے گا جو وہ چاہے گا۔ وہ عہد نامہ قدیم کے قوانین کو پورا کرنے اور قوانین کو تبدیل کرنے آیا تھا۔ آج جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ حال پر مبنی ہے، پھر بھی یہ قانون کے دور میں کیے گئے یہوواہ کے کام کی بنیاد پر قائم ہے، اور یہ اس دائرہ کار سے تجاوز نہیں کرتا ہے۔ اپنی زبان پر قابو رکھنا، اور زنا نہ کرنا، مثال کے طور پر – کیا یہ پرانے عہد نامے کے قوانین نہیں ہیں؟ آج جو چیز تم سے مطلوب ہے وہ صرف دس احکام تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ پہلے آنے والوں سے زیادہ اعلیٰ ترتیب کے احکام اور قوانین پر مشتمل ہے۔ پھر بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ پہلے آیا تھا اسے ختم کر دیا گیا ہے، کیونکہ خدا کے کام کا ہر مرحلہ گذشتہ مرحلے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کام کا تعلق ہے جو یہوواہ نے پھر اسرائیل میں کیا، جیسا کہ لوگوں سے قربانیاں پیش کرنے، اپنے والدین کی عزت کرنے، بتوں کی پرستش نہ کرنے، دوسروں پر حملہ نہ کرنے یا لعنت نہ بھیجنے، زنا نہ کرنے، سگریٹ نوشی یا شراب نوشی نہ کرنے، اور مردہ چیزیں نہ کھانے یا خون نہ پینے کا تقاضا – کیا آج بھی تمہارے عمل کی بنیاد اس پر قائم نہیں ہے؟ ماضی کی اسی بنیاد پر آج تک یہ کام ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ ماضی کے قوانین کا اب تذکرہ نہیں کیا گیا ہے اور تم سے نئے مطالبات کیے گئے ہیں، اور ان قوانین کے ختم ہونے کا امکان بالکل نہیں ہے، بلکہ ان کا درجہ بلند کر دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ ان کو ختم کر دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ دور متروک ہو گیا ہے، جب کہ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا تمہیں ہمیشہ کے لیے لازمی احترام کرنا چاہیے۔ ماضی کے احکام پہلے ہی نافذ ہو چکے ہیں، پہلے سے ہی انسان کے وجود میں آ چکے ہیں، اور اس طرح کے احکام پر خاص زور دینے کی ضرورت نہیں ہے جیسے "تمباکو نوشی نہ کرو،" اور "شراب مت پیو" وغیرہ۔ اس بنیاد پر، تمہاری آج کی ضرورتوں کے مطابق، تمہاری حیثیت کے مطابق، اور آج کے کام کے مطابق، نئے احکام مرتب کیے گئے ہیں۔ نئے دور کے لیے احکام صادر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پرانے دور کے احکام کو ختم کر دیا جائے، بلکہ ان کو اس بنیاد پر مزید بلند کرنا ہے، تاکہ انسان کے اعمال کو مزید مکمل اور حقیقت کے مزید مطابق بنایا جائے۔ اگر، آج، تم سے صرف احکام پر عمل کرنے اور عہد نامہ قدیم کے قوانین کی اسی طرح پابندی کرنے کا تقاضا کیا جائے جس طرح بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، اور اگر تم سے یہوواہ کے وضع کردہ قوانین کو یاد رکھنے کا بھی تقاضا کیا جائے، تو اس کا کوئی امکان نہیں ہو گا کہ تم تبدیل ہو سکو۔ اگر تم صرف ان چند محدود احکام کی پابندی کرو یا لاتعداد قوانین کو یاد کرو، پھر بھی تمہارا پرانا مزاج بہت گہرائی میں گڑا رہے گا، اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔ اس طرح تم اخلاقی طور پر زیادہ بگڑ جاﺆ گے اور تم میں سے کوئی بھی فرمانبردار نہیں بنے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند سادہ احکام یا لاتعداد قوانین یہوواہ کے کاموں کو جاننے میں تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ تم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ہو: قوانین پر عمل کرنے اور احکام کو یاد رکھنے سے، وہ یہوواہ کے کاموں کی گواہی دینے اور صرف اسی کے لیے اپنی عقیدت پیش کرنے کے قابل تھے۔ لیکن تم یہ حاصل کرنے سے قاصر ہو، اور عہد نامہ قدیم کے دور کے چند احکام نہ صرف یہ کہ تمہارے دل پر قبضہ کرنے یا تمہاری حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہیں، بلکہ یہ تمہیں غیر محتاط کر دیں گے، اور تمہیں پاتال میں گرا دیں گے۔ کیونکہ میرا کام غالب آنے کا کام ہے اور اس کا ہدف تمہاری نافرمانی اور تمہارا پرانا مزاج ہے۔ یہوواہ اور یسوع کے مہربان الفاظ آج کے فیصلے کے سخت الفاظ سے بہت ہی کمتر ہیں۔ ایسے سخت الفاظ کے بغیر، تم "ماہرین" پر غالب آنا ناممکن ہو گا، جو کہ ہزاروں سالوں سے نافرمان ہیں۔ عہد نامہ قدیم کے قوانین بہت پہلے تم پر اپنی طاقت کھو چکے ہیں، اور آج کا فیصلہ پرانے قوانین سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ جو چیز تمہارے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے وہ فیصلہ ہے، نہ کہ قوانین کی چھوٹی موٹی پابندیاں، کیوں کہ تم بہت شروع کے زمانے کے بنی نوع انسان نہیں ہو، بلکہ ایسے بنی نوع انسان ہو جو کہ ہزاروں سالوں سے بدعنوان ہے۔ انسان کو اب جو کچھ لازمی حاصل کرنا چاہیے وہ آج کے انسان کی اصل حالت کے مطابق ہے، موجودہ دور کے انسان کی صلاحیت اور اصل حیثیت کے مطابق، اور یہ ضروری نہیں ہے کہ تم اصولوں کی پیروی کرو۔ ایسا اس لیے ہے کہ تمہارے پرانے مزاج میں تبدیلیاں لائی جائیں، اور تاکہ تم اپنے خیالات کو ترک کر سکو۔ کیا تمہارے خیال میں احکام اصول ہیں؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ انسان کے معمول کے تقاضے ہیں۔ لیکن وہ ایسے اصول نہیں ہیں جن پر تمہیں لازمی عمل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر تمباکو نوشی کی ممانعت کو ہی لے لو – کیا یہ ایک اصول ہے؟ یہ کوئی اصول نہیں ہے! یہ عام انسانیت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن یہ کوئی اصول نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے مقرر کردہ شرط ہے۔ آج جو درجن بھر احکام بیان کیے گئے ہیں وہ بھی اصول نہیں ہیں؛ وہ وہی ہیں جو عام انسانیت کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ ماضی میں لوگوں کے پاس ایسی چیزیں یا ان کا علم نہیں تھا، اور اس لیے آج لوگوں کو انھیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اور ایسی چیزیں اصول میں شمار نہیں ہوتی ہیں۔ قوانین اصولوں کی طرح نہیں ہوتے۔ میں جن اصولوں کی بات کر رہا ہوں وہ تقریبات، رسوم یا انسان کے انحراف اور غلط طرزِ عمل کے حوالے سے ہیں؛ یہ وہ ضابطے ہیں جن سے انسان کو مدد نہیں ملتی ہے، اور اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں؛ وہ ایک ایسی راہ عمل بناتے ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ اصولوں کا نمونہ ہے، اور ایسے اصولوں کو ترک کر دینا چاہیے، کیونکہ ان سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بات یہ ہے کہ جو بات انسان کے لیے فائدہ مند ہے اس پر لازمی عمل کرنا چاہیے۔