دیباچہ
اگرچہ بہت سے لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا پر ایمان کا کیا مطلب ہے، اور خدا کی رضا کے مطابق ہونے کے لیے انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ لوگ لفظ "خدا" اور "خدا کا کام" جیسے جملوں سے واقف ہیں لیکن وہ خدا کو نہیں جانتے، اور وہ اس کے کام سے تو اس سے بھی کم واقف ہیں۔ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ تمام لوگ جو خدا کی معرفت نہیں رکھتے، وہ اُس پر ڈھلمل ایمان رکھتے ہیں۔ لوگ خدا پر ایمان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، اور یہ مکمل طور پر اس لیے ہے کہ خدا پر ایمان رکھنا ان کے لیے بہت ہی غیر مانوس اور بہت ہی اجنبی سا ہے۔ یوں وہ خدا کے تقاضوں پر پورے نہیں اتر پاتے۔ بہ الفاظ دیگر، اگر لوگ خدا کو نہیں جانتے، اور اس کے کام سے ناواقف ہیں، تو وہ خدا کے استعمال کے لیے موزوں نہیں ہیں، چہ جائیکہ اس کی رضا کو مطمئن کرنے کے قابل ہوں۔ "خدا پر ایمان" کا مطلب یہ یقین کرنا ہے کہ خدائے واحد موجود ہے۔ خدا پر ایمان لانے کے حوالے سے یہ آسان ترین تصور ہے۔ مزید یہ کہ، یہ ایمان رکھنا کہ خدائے واحد موجود ہے، خدا پر حقیقی معنوں میں یقین کرنے جیسا نہیں ہے؛ بلکہ یہ مضبوط مذہبی فروعی معنوں کے ساتھ ایک قسم کا سادہ سا عقیدہ ہے۔ خدا پر حقیقی ایمان کا مطلب درج ذیل ہے: اس عقیدے کی بنیاد پر کہ خدا ہر چیز کا حاکم ہے، انسان اس کے کلام اور اس کے کام کا تجربہ کرتا ہے، اپنا بدعنوان مزاج پاک صاف کرتا ہے، خدا کی رضا پوری کرتا ہے، اور خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ صرف اس طرح کے سفر کو "خدا پر ایمان" کہا جا سکتا ہے۔ پھر بھی لوگ اکثر خدا پر ایمان کو ایک سادہ اور بے معنی سا معاملہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اس طرح خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ خدا پر ایمان لانے کا مطلب کھو چکے ہیں، اور اگرچہ وہ آخری وقت تک ایمان پر رہیں گے لیکن وہ کبھی بھی خدا کی رضا حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ غلط راستے پر چلتے ہیں۔ آج بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو لفظی معنوں اور کھوکھلے عقیدے کے مطابق خدا کو مانتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ خدا پر ایمان کے جوہر سے محروم ہیں، اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر بھی وہ خدا سے سلامتی کی نعمتوں اور وافر فضل کی دعا کرتے ہیں۔ آؤ ہم ٹھہر کر، اپنے دلوں کو پُرسکون کریں، اور اپنے آپ سے پوچھیں: کیا خدا پر ایمان رکھنا واقعی اس سرزمین پر سب سے آسان کام ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا پر ایمان لانے کا مطلب خدا کی طرف سے بہت زیادہ فضل حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہ ہو؟ وہ لوگ جو خدا کو جانے بغیر اس پر ایمان رکھتے ہیں یا وہ لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں، کیا وہ واقعی خدا کی رضا پوری کرنے کے اہل ہیں؟
خدا اور انسان کے بارے میں مساوی شرائط پر بات نہیں کی جا سکتی۔ اس کا جوہر اور اس کا کام انسان کے لیے انتہائی ناقابل فہم اور ناقابل ادراک ہے۔ اگر خدا اپنا کام ذاتی طور پر نہ کرے اور انسانوں کی دنیا میں اپنا کلام بیان نہ کرے تو انسان کبھی بھی خدا کی مرضی نہیں سمجھ سکے گا۔ اور اسی طرح، وہ لوگ بھی، جنھوں نے اپنی پوری زندگی خدا کے لیے وقف کر دی ہے، وہ اس کی رضا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگر خدا کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو انسان خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ کرے، یہ بے کار ہوگا، کیونکہ خدا کے خیالات ہمیشہ انسان کے خیالات سے بلند ہوں گے، اور خدا کی حکمت انسان کی سمجھ سے پرے ہے۔ اور اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جو لوگ خدا اور اس کا کام "مکمل طور پر سمجھنے" کا دعویٰ کرتے ہیں وہ احمقوں کا ٹولا ہیں؛ وہ سب پرلے درجے کے مغرور اور نادان لوگ ہیں۔ انسان کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ خدا کے کام کی تشریح کرے؛ مزید برآں، انسان خدا کے کام کی تشریح نہیں کر سکتا۔ خدا کی نظر میں انسان چیونٹی کی مانند غیر اہم ہے؛ لہٰذا انسان خدا کا کام کیسے سمجھ سکتا ہے؟ جو لوگ جوش میں آ کر یہ کہتے ہیں کہ "خدا اِس طرح یا اُس طرح کام نہیں کرتا ہے،" یا "خدا ایسا ہے یا ویسا ہے" – تو کیا وہ متکبرانہ انداز میں نہیں بول رہے ہیں؟ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان انسان کو، جو گوشت پوست کا ہے، بدعنوان کر چکا ہے۔ بنی نوع انسان کی فطرت ہی خدا کی مخالفت کرنا ہے۔ نوع انسانی خدا کے برابر نہیں ہو سکتی، خدا کے کام میں مشورہ دینے کی امید رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ خدا کیسے انسان کی راہنمائی کرتا ہے تو یہ بذات خود خدا کا کام ہے۔ مناسب ترین بات یہ ہے کہ انسان اِس یا اُس کا موقف تسلیم کیے بغیر اطاعت کرے، کیونکہ انسان محض خاک ہے۔ چونکہ ہمارا ارادہ خدا کی جستجو ہے، اس لیے ہمیں اپنے تصورات خدا کے تفکر کے لیے اس کے کام پر نہیں تھوپنے چاہییں، اور ہمیں خدا کے کام کی قصداً مخالفت کے لیے اپنا بدعنوان مزاج تو بالکل بھی بروئے کار نہیں لانا چاہیے۔ کیا یہ ہمیں مسیح مخالف نہیں بنا دے گا؟ ایسے لوگ خدا پر کیسے ایمان رکھ سکتے ہیں؟ چونکہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدائے واحد موجود ہے، اور چونکہ ہم اسے راضی کرنا اور اسے دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سچ کا راستہ تلاش کرنا چاہیے، اور خدا کے ساتھ ہم آہنگی کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ ہمیں اُس کی مخالفت میں گردن اکڑا کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی حرکتوں سے ممکنہ طور پر کون سا اچھا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے؟
آج خدا نے نیا کام کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تُو یہ الفاظ قبول نہ کر سکے، اور یہ تجھے عجیب لگ سکتے ہیں، لیکن میں تجھے نصیحت کروں گا کہ اپنی فطرت عیاں نہ کر، صرف وہ لوگ سچائی حاصل کر سکتے ہیں جو واقعی خدا کے سامنے راست بازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں، اور صرف ان ہی لوگوں کو خدا کی طرف سے آگہی اور راہنمائی حاصل ہو سکتی ہے جو واقعتاً دین دار ہیں۔ سکون سے سچ تلاش کرنے سے نتائج حاصل ہوتے ہیں، لڑائی جھگڑے سے نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ "آج، خدا نے نیا کام کیا ہے،" تو میرا اشارہ خدا کے جسم میں واپس لوٹنے کی طرف ہے۔ شاید یہ الفاظ تیرے لیے بے معنی ہوں؛ شاید تُو انھیں حقیر سمجھے؛ یا شاید وہ تیرے لیے بہت زیادہ بامعنی ہوں۔ جو بھی معاملہ ہو، میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام لوگ جو حقیقی معنوں میں خدا کے ظہور کی خواہش رکھتے ہیں، اس حقیقت کا سامنا کریں گے اور اس کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کی بجائے اس کی محتاط انداز میں جانچ پڑتال کریں گے؛ ایک عقل مند آدمی کو یہی کرنا چاہیے۔
ایسی چیز کی چھان بین کرنا مشکل نہیں ہے لیکن اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو یہ ایک سچائی جاننے کی ضرورت ہے: وہ جو مجسم خدا ہے اس کے پاس خدا کا جوہر ہو گا، اور وہ جو مجسم خدا ہے وہ خدا کے اظہار کا مالک ہو گا۔ چونکہ خُدا جِسم بن گیا ہے تو وہ اُس کام کو سامنے لائے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے اور چونکہ خدا جِسم ہے، اِس لیے وہ اِس بات کا اظہار کرے گا کہ وہ کیا ہے اور اِنسان تک سچائی لانے کا اہل ہو گا، اُس کو زندگی بخشے گا اور اُس کے لیے راستے کی نشاندہی کرے گا۔ وہ جسم جس میں خدا کا جوہر نہیں ہے وہ یقینی طور پر مجسم خدا نہیں ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اگر انسان یہ دریافت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کہ آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے، تو اسے اس کی تصدیق اس مزاج سے کرنی چاہیے جس کا خدا اظہار کرتا ہے اور ان کلمات سے جو وہ ادا کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کہ آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے یا نہیں، اور یہ سچا راستہ ہے یا نہیں، اس کے جوہر کی بنیاد پر امتیاز کرنا ہو گا۔ لہٰذا، آیا یہ مجسم خدا کا جسم ہے یا نہیں، یہ تعین کرنے کی کلید اس کی ظاہری شکل و صورت کی بجائے اس کے جوہر (اس کے کام، اس کے بیانات، اس کے مزاج، اور بہت سے دوسرے پہلو) میں ہے۔ اگر انسان صرف اس کی ظاہری شکل کا جائزہ لے اور نتیجتاً اس کا جوہر نظر انداز کر دے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نادان اور جاہل ہے۔ ظاہری شکل جوہر کا تعین نہیں کر سکتی۔ مزید یہ، کہ خدا کا کام کبھی بھی انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ کیا یسوع کی ظاہری شکل انسان کے تصورات کے خلاف نہیں تھی؟ کیا اس کا حلیہ اور اس کا لباس اس کی حقیقی شناخت کے بارے میں کوئی سراغ فراہم کرنے سے قاصر نہیں تھا؟ کیا ابتدائی فریسیوں نے یسوع کی بالکل اسی طرح مخالفت نہیں کی کیونکہ وہ محض اس کی ظاہری شکل دیکھتے تھے، اور اس کے منہ کے الفاظ کو دل پر نہیں لیتے تھے؟ یہ میری امید ہے کہ سب بھائی اور بہن جو خدا کے ظہور کی تلاش میں ہیں، تاریخ کا المیہ نہیں دہرائیں گے۔ تمہیں جدید دور کا فریسی نہیں بننا ہے اور خدا کو دوبارہ صلیب پر مصلوب نہیں کرنا ہے۔ تمہیں دھیان سے غور کرنا چاہیے کہ خدا کی واپسی کا استقبال کیسے کیا جائے، اور اس بابت تمہارا ذہن صاف ہونا چاہیے کہ سچائی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا کیسے بننا ہے۔ یہ ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو یسوع کے بادل پر سوار ہو کر واپس آنے کا انتظار کر رہا ہے۔ ہمیں اپنی روحانی آنکھوں کو رگڑنا چاہیے تاکہ وہ اور صاف ہو جائیں، اور مبالغہ آمیز تخیل آفرینی والے الفاظ میں نہیں ڈوبنا چاہیے۔ ہمیں خدا کے عملی کام کے بارے میں سوچنا چاہیے، اور خدا کے عملی پہلو پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ اپنے آپ کو جاگتی آنکھوں کے خوابوں میں قابو سے باہر یا گم ہو جانے سے بچو، ہمیشہ اُس دن کی آرزو کرو جب خُداوند یسوع، بادل پرسوار ہو کر، اچانک تمہارے درمیان نازل ہوگا اور تمھیں لے جائے گا جنھوں نے اُسے کبھی جانا اور دیکھا نہیں اور جنھیں یہ نہیں معلوم کہ اس کی مرضی کیسے پوری کی جائے۔ بہتر ہے کہ زیادہ عملی معاملات پر سوچا جائے!
ممکن ہے تُو نے یہ کتاب تحقیق کے مقصد یا قبول کرنے کی نیت سے کھولی ہو۔ جو بھی تیرا رویہ ہو، مجھے امید ہے کہ تُو اسے آخر تک پڑھے گا، اور اسے آسانی سے ایک طرف نہیں رکھے گا۔ شاید، یہ کلام پڑھنے کے بعد، تیرا رویہ بدل جائے گا، لیکن یہ تیری لگن اور تیری فہم و فراست کی حد پر منحصر ہے۔ البتہ ایک چیز ہے جو تجھے معلوم ہونی چاہیے: خدا کے کلام کو انسان کے کلام کے طور پر نہیں بنایا جا سکتا، اور انسان کے کلام کو خدا کا کلام بنانا تو اور بھی بہت دور کی بات ہے۔ خدا کی طرف سے استعمال کیا گیا انسان مجسم خدا نہیں ہے، اور مجسم خدا، خدا کی طرف سے استعمال کیا گیا انسان نہیں ہے۔ یہاں ایک لازمی فرق ہے۔ شاید، یہ الفاظ پڑھنے کے بعد، تُو انھیں خدا کا کلام تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اسے محض انسان کو حاصل ہونے والی آگہی مانتا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر، جہالت نے تجھے اندھا کر دیا ہے۔ خدا کا کلام اور انسان کو حاصل شدہ آگہی دونوں یکساں کیسے ہو سکتے ہیں؟ مجسم خدا کے الفاظ ایک نئے دور کا در کھولتے ہیں، تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کرتے ہیں، اسرار منکشف کرتے ہیں، اور انسان کو وہ سمت دکھاتے ہیں جس سمت میں اسے نئے دور میں چلنا ہے۔ انسان کو حاصل کردہ آگہی عمل یا علم کے لیے محض سادہ ہدایات ہیں۔ یہ تمام بنی نوع انسان کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کی راہنمائی نہیں کر سکتی یا بذات خود خدا کے اسرار منکشف نہیں کر سکتی۔ سب کچھ کہنے اور کرنے کے بعد، خدا، خدا ہے، اور انسان، انسان ہے۔ خدا کے پاس خدا کا جوہر ہے، اور انسان کے پاس انسان کا جوہر ہے۔ اگر انسان خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ کو روح القدس کی طرف سے سادہ آگہی کے طور پر دیکھتا ہے، اور انبیا اور رسولوں کے الفاظ کو خود خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ کے طور پر لیتا ہے، تو یہ انسان کی غلطی ہو گی۔ جو بھی معاملہ ہو، تجھے صحیح اور غلط دونوں کی کبھی ملانا نہیں ہے، یا اعلیٰ کو ادنیٰ نہیں بنانا ہے، اور اتھلے کو گہرا سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی ہے؛ جو بھی صورت حال ہو، تجھے کبھی بھی قصداً اس کی تردید نہیں کرنی چاہیے جسے تُو سچ سمجھتا ہے۔ ہر وہ شخص جو خدا کے وجود پر یقین رکھتا ہے اسے صحیح نقطہ نظر سے مسائل کا جائزہ لینا چاہیے، اور خدا کا نیا کام اور اس کا نیا کلام اس کی مخلوق کے تناظر میں قبول کرنا چاہیے؛ بصورت دیگر، خدا اسے نکال باہر کرے گا۔
یہوواہ کے کام کے بعد، یسوع انسانوں کے درمیان اپنا کام کرنے کے لیے مجسم ہو گیا۔ اس کا کام کوئی الگ سے نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کی بنیاد یہوواہ کے کام پر رکھی گئی تھی۔ یہ ایک نئے دور کے لیے کام تھا جو خُدا نے قانون کے دور کو ختم کرنے کے بعد کیا۔ ٹھیک اسی طرح، یسوع کا کام ختم ہونے کے بعد، خدا اپنے اگلے دور کے کام پر مامور ہو گیا، کیونکہ خدا کا سارا انتظام ہمیشہ سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جب پرانا دور گزر جائے گا تو اس کی جگہ ایک نیا دور آئے گا، اور پرانا کام مکمل ہونے کے بعد، خدا کا انتظام جاری رکھنے کے لیے ایک نیا کام ہوگا۔ یہ تجسیم خدا کی دوسری تجسیم ہے، جو یسوع کے کام کی پیروی کرتی ہے۔ بے شک، یہ تجسیم آزادانہ طور پر نہیں ہوتی؛ یہ شریعت کے دور اور فضل کے دور بعد کام کا تیسرا مرحلہ ہے۔ جب بھی خُدا کام کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرتا ہے، تو ہمیشہ ایک نئی شروعات اور ہمیشہ ایک نیا دور لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کے مزاج، اس کے کام کرنے کے انداز، اس کے کام کے مقام اور اس کے نام میں بھی متعلقہ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے دور میں انسان کے لیے خدا کا کام قبول کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر کہ انسان کیسے خدا کی مخالفت کر رہا ہے، خدا ہمیشہ سے اپنا کام کر رہا ہے، اور ہمیشہ سے آگے بڑھنے میں پوری نوع انسانی کی راہنمائی کر رہا ہے۔ جب یسوع بنی نوع انسان کی دنیا میں آیا تو وہ فضل کے دور میں داخل ہوا اور اس نے شریعت کے دور کا خاتمہ کیا۔ آخری ایام کے دوران، خدا ایک بار پھر مجسم ہو گیا، اور اس مجسم ہونے کے ساتھ اس نے فضل کے دور کو ختم کیا اور بادشاہی کے دور کا آغاز کیا۔ وہ تمام لوگ جو خدا کا دوسری بار مجسم ہونا قبول کرنے کے قابل ہیں وہ بادشاہی کے دور میں لے جائے جائیں گے، اور مزید برآں وہ ذاتی طور پر خدا کی راہنمائی قبول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ اگرچہ یسوع نے انسانوں کے درمیان بہت زیادہ کام کیا، مگراس نے صرف تمام بنی نوع انسان کی خلاصی مکمل کی اور انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اس نے انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں دلایا۔ انسان کو شیطان کے اثر سے مکمل طور پر بچانے کے لیے نہ صرف یسوع کو گناہ کا کفارہ بننے اور انسان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت تھی بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ خدا انسان کو اس کے شیطانی بدعنوان مزاج سے مکمل طور پر چھٹکارا دلانے کے لیے اس سے بھی بڑا کام کرے۔ اور اس طرح، اب جب کہ انسان کو اس کے گناہوں سے معافی مل گئی ہے تو خدا انسان کو نئے دورمیں لے جانے کے لیے جسم میں واپس آیا ہے اور اس نے سزا اور عدالت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کام نے انسان کو ایک بلند تر عالم میں پہنچا دیا ہے۔ وہ تمام لوگ جو اس کے تسلط کے تابع ہوں گے وہ اعلیٰ سچائی سے لطف اندوز ہوں گے اور عظیم نعمتیں حاصل کریں گے۔ ان کو واقعی روشنی میں رہنا چاہیے، اور سچائی، راستہ اور زندگی حاصل کرنی چاہیے۔
اگر لوگ فضل کے دور میں پھنسے رہیں گے تو خدا کا جبلی مزاج جاننا تو درکنار، وہ کبھی بھی اپنے بدعنوان مزاج سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ اگر لوگ ہمیشہ فضل کی فروانی کے درمیان رہتے ہیں، لیکن ان کے پاس زندگی کا وہ طریقہ نہیں ہے جو انہیں خدا کو جاننے یا اس کو راضی کرنے میں معاون ہو، تو وہ خدا پر اپنے یقین میں کبھی بھی اسے حقیقی معنوں میں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس قسم کا عقیدہ واقعتاً قابل رحم ہے۔ جب تُو اس کتاب کا مطالعہ مکمل کر لے گا، جب تُو بادشاہی کے دور میں مجسم خدا کے کام کے ہر مرحلے کا تجربہ کر لے گا، تو تُو محسوس کرے گا کہ تیری برسوں کی خواہشیں بالآخر پوری ہو گئی ہیں۔ تُو محسوس کرے گا کہ اب حقیقی معنوں میں تُو نے خدا کو روبرو دیکھا ہے؛ صرف اب تُو نے اس کا چہرہ دیکھا ہے، اس کی ذاتی باتیں سنی ہیں، اس کے کام کی حکمت کی تعریف کی ہے، اور واقعی محسوس کیا ہے کہ وہ کتنا حقیقی اور قادر مطلق ہے۔ تُو محسوس کرے گا کہ تُو نے بہت سی ایسی چیزیں حاصل کی ہیں جو ماضی میں لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں اور نہ ہی ان کے پاس تھیں۔ اس وقت، تجھے واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ خدا پر ایمان لانا کیا ہے، اور خدا کی مرضی کے مطابق ہونا کیا ہے۔ بلاشبہ، اگر تُو ماضی کے نظریات سے چمٹا رہے گا، اور خدا کے دوسری مرتبہ مجسم ہونے کی حقیقت کو رد یا اس سے انکار کرے گا، تو تُو خالی ہاتھ رہے گا، کچھ حاصل نہیں کر پائے گا، اور بالآخر تجھے خدا کی مخالفت کرنے کا مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ جو لوگ سچائی ماننے اور خدا کے کام کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے اہل ہیں انہیں دوسرے مجسم خدا – قادر مطلق، کے نام کے تحت طلب کیا جائے گا۔ وہ خدا کی ذاتی راہنمائی قبول کرنے، زیادہ اور بلندتر سچائیاں نیز حقیقی زندگی حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہ لوگ ایسے رُویا کا مشاہدہ کریں گے جسے ماضی کے لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا: "مَیں نے اُس آواز دینے والے کو دیکھنے کے لیے مُنہ پھیرا جِس نے مُجھ سے کہا تھا اور پِھر کر سونے کے سات چراغ دان دیکھے۔ اور اُن چراغ دانوں کے بیچ میں آدمؔ زاد سا ایک شخص دیکھا جو پاؤں تک کا جامہ پہنے اور سونے کا سِینہ بند سِینہ پر باندھے ہُوئے تھا۔ اُس کا سر اور بال سفید اُون بلکہ برف کی مانِند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شُعلہ کی مانِند تِھیں۔ اور اُس کے پاؤں اُس خالِص پِیتل کے سے تھے جو بھٹّی میں تپایا گیا ہو اور اُس کی آواز زور کے پانی کی سی تھی۔ اور اُس کے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نِکلتی تھی اور اُس کا چِہرہ اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب" (مُکاشفہ 1: 12-16)۔ یہ رُویا خدا کے مکمل مزاج کا اظہار ہے، اور اس کے مکمل مزاج کا اظہار خدا کی موجودہ تجسیم میں اس کے کام کا اظہار بھی ہے۔ سزا ؤں اور عدالت کے دھاروں میں، ابنِ آدم خدا کے جبلی مزاج کا اظہار بیانات کے ذریعے کرتا ہے، اور ان تمام لوگوں کو جو اس کی سزا اور عدالت قبول کرتے ہیں، ابن آدم کا حقیقی چہرہ دیکھنے کی اجازت دیتا ہے، جو کہ یوحنا کی طرف سے دیکھے گئے ابن آدم کے چہرے کی ایماندارانہ تصویرکشی ہے۔ (یقیناً، یہ سب اُن لوگوں کے لیے غیر مرئی ہوگا جو بادشاہی کے دور میں خدا کا کام قبول نہیں کریں گے۔) خدا کے حقیقی چہرے کو انسانی زبان میں مکمل طور سے بیان نہیں کیا جا سکتا، اور اسی لیے خدا انسان کو اپنا حقیقی چہرہ دکھانے کے لیے وہ ذرائع استعمال کرتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے جبلی مزاج کا اظہار کرتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جنھوں نے ابن آدم کے جبلی مزاج کی تعریف کی ہے، انھوں نے ابن آدم کا حقیقی چہرہ دیکھا ہے کیونکہ خدا بہت عظیم ہے اور انسانی زبان اسے مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ایک بار جب انسان بادشاہی کے دور میں خدا کے کام کے ہر ایک مرحلے کا تجربہ کر لے گا، تب وہ یوحنا کے الفاظ کے حقیقی معنی جان پائے گا جب اس نے چراغ دانوں کے درمیان ابن آدم کے بارے میں کہا تھا: "اُس کا سر اور بال سفید اُون بلکہ برف کی مانِند سفید تھے اور اُس کی آنکھیں آگ کے شُعلہ کی مانِند تِھیں۔ اور اُس کے پاؤں اُس خالِص پِیتل کے سے تھے جو بھٹّی میں تپایا گیا ہو اور اُس کی آواز زور کے پانی کی سی تھی۔ اور اُس کے دہنے ہاتھ میں سات سِتارے تھے اور اُس کے مُنہ میں سے ایک دو دھاری تیز تلوار نِکلتی تھی اور اُس کا چِہرہ اَیسا چمکتا تھا جَیسے تیزی کے وقت آفتاب۔" اس وقت، تجھے ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر معلوم ہو جائے گا کہ یہ عام جسم جس نے اتنا کچھ کہا ہے، بلاشبہ دوسرا مجسم خدا ہے۔ مزید برآں، تجھے صحیح معنوں میں احساس ہو گا کہ تُو کتنا فیض یافتہ ہے، اور تو خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت محسوس کرے گا۔ کیا تُو یہ نعمت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟
کتاب کا پہلا حصہ "شروع میں یسوع کے کلمات" ہے۔ یہ الفاظ فضل کے دور کے اختتام سے بادشاہی کے دور کے آغاز تک منتقلی کی نمائندگی کرتے ہیں، اور یہ کلیسیاؤں میں ابن آدم کی بابت روح القدس کی عوامی شہادت ہیں۔ وہ مکاشفہ کے ان الفاظ کی تکمیل بھی ہیں: "جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا فرماتی ہے۔" یہ الفاظ بادشاہی کے دور میں خدا کے شروع کردہ کام کے ابتدائی مرحلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اِس کتاب کا دوسرا حصہ اُن الفاظ پر مشتمل ہے جو ابنِ آدم نے خود کو باضابطہ منکشف کرنے کے بعد کہے تھے۔ اس میں کئی قسم کے کلمات اور الفاظ شامل ہیں، جیسے کہ نبوت، اسرار کا انکشاف، اور طرز حیات، اس حصے کا مواد کافی بھرپور ہے – بادشاہی کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں، خدا کے انتظامی منصوبے کے اسرار و رموز کے انکشافات، انسانی فطرت کا تجزیہ، نصیحتیں اور تنبیہات، سخت عدالت، دلی تسلی کے الفاظ، زندگی کی بحث، داخلے پر مذاکرہ، وغیرہ۔ مختصر یہ کہ جو کچھ خدا کے پاس ہے اور جو کچھ وہ ہے، نیز خدا کا مزاج، یہ سب اس کے کام اور اس کے الفاظ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بلاشبہ، موجودہ تجسیم میں خدا کا کام بنیادی طور پر سزا اور عدالت کے ذریعے اپنے مزاج کا اظہار کرنا ہے۔ بنا بریں، وہ انسان کے سامنے مزید سچائی لاتا ہے اور عمل کے مزید طریقوں کی جانب اس کی توجہ مبذول کرواتا ہے، اس طرح انسان کو تسخیر کرنے اور اسے اس کے بدعنوان مزاج سے بچانے کے اپنے مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ بادشاہی کے دور میں خدا کے کام کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے۔ کیا تُو نئے دور میں داخل ہونا چاہتا ہے کیا تُو اپنے بدعنوان مزاج سے نجات پانا چاہتا ہے؟ کیا تُو اعلیٰ سچائی حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا تُو ابن آدم کا حقیقی چہرہ دیکھنا چاہتا ہے؟ کیا تُو یہ زندگی کسی شمار میں لانا چاہتا ہے؟ کیا تُو خدا کی طرف سے کامل بننا چاہتا ہے؟ پھر تُو یسوع کی واپسی کا خیر مقدم کیسے کرے گا؟