صرف کامل بنائے گئے ہی ایک بامعنی زندگی بسر کر سکتے ہیں

درحقیقت، اب جو کام کیا جا رہا ہے وہ اس لیے ہے کہ لوگ اپنے قدیم جدّ شیطان کو چھوڑ دیں۔ کلام کے تمام فیصلوں کا مقصد انسانیت کے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کرنا اور لوگوں کو زندگی کے جوہر کو سمجھنے کے قابل بنانا ہے۔ یہ بار بار دہرائے جانے والے فیصلے لوگوں کے دلوں کو چھید دیتے ہیں۔ ہر فیصلے کا تعلق براہ راست ان کی قسمت سے ہوتا ہے اور اس کا مقصد ان کے دلوں کو زخمی کرنا ہے تاکہ وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیں اور اس طرح زندگی کو جان سکیں، اس غلیظ دنیا کو جان سکیں، خدا کی حکمت اور قدرتِ کاملہ کو جان سکیں اور بنی نوع انسان کو بھی جان سکیں جسے شیطان نے بدعنوان بنا دیا ہے۔ انسان کو اس قسم کی سزا اور فیصلہ جتنا زیادہ ملتا ہے، انسان کا دل اتنا ہی زیادہ زخمی ہوتا ہے اور اس کی روح اتنی ہی زیادہ بیدار ہو سکتی ہے۔ ان انتہائی بدعنوان اور انتہائی گہرے فریب میں مبتلا لوگوں کی روحوں کو بیدار کرنا اس قسم کے فیصلے کا ہدف ہے۔ انسان میں روح نہیں ہے، یعنی اس کی روح بہت پہلے ہی مر چکی ہے اور اسے علم نہیں ہے کہ جنت بھی ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ کوئی خدا ہے، اور اسے یقیناً یہ علم نہیں ہے کہ وہ موت کی اتھاہ گھاٹی میں جدوجہد کر رہا ہے؛ وہ یہ کیسے جان سکتا ہے کہ وہ زمین پر اس شیطانی جہنم میں رہ رہا ہے؟ وہ یہ کیسے جان سکتا ہے کہ اس کی یہ گلی سڑی لاش شیطان کی بدعنوانی سے موت کے پاتال میں گر چکی ہے؟ وہ یہ کیسے جان سکتا ہے کہ زمین پر موجود ہر چیز طویل عرصے سے اتنی برباد ہو چکی ہے کہ بنی نوع انسان اس کی اصلاح نہیں کر سکتا ہے؟ اور وہ بھلا یہ کیسے جان سکتا ہے کہ خالق آج زمین پر آ چکا ہے اور بدعنوان لوگوں کے ایک گروہ کی تلاش میں ہے جسے وہ بچا سکے؟ اگر انسان ہر ممکن تزکیے اور فیصلے کا تجربہ کر بھی لیتا ہے، تو پھر بھی اس کا کند ذہن شعور اب بھی مشکل سے ہی حرکت میں آتا ہے اور عملاً کسی بات کا ذرا بھی اثر قبول نہیں کرتا ہے۔ انسانیت کتنی زوال پذیر ہے! اور اگرچہ اس قسم کا فیصلہ آسمان سے گرنے والے ظالمانہ اولوں کی طرح ہے، لیکن یہ انسان کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ اگر لوگوں کا اس طرح سے فیصلہ نہ کیا جائے تو کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور لوگوں کو مصائب کی اتھاہ گھاٹیوں سے بچانا قطعاً ناممکن ہو گا۔ اگر یہ کام نہ کیا گیا تو لوگوں کے لیے پاتال سے نکلنا بہت مشکل ہو گا، کیونکہ ان کے دل بہت پہلے مردہ ہو چکے ہیں اور ان کی روحوں کو شیطان بہت پہلے ہی پامال کر چکا ہے۔ تمہیں، جو تنزلی کی گہرائیوں میں ڈوب چکے ہو، بچانے کے لیے تمہیں شدت سے پکارنے، اور تمہیں شدت کے ساتھ جانچنے کی ضرورت ہے؛ صرف اسی صورت میں تمہارے منجمد دلوں کو جگانا ممکن ہو گا۔

تمہارا جسم، تمہاری انتہائی زیادہ خواہشات، تمہاری لالچ اور تمہاری ہوس تمہارے اندر بہت گہرائی میں جڑیں پکڑ چکی ہیں۔ یہ چیزیں تمہارے دلوں کو مسلسل اس قدر قابو کر رہی ہیں کہ تم ان جاگیردارانہ اور زوال پذیر خیالات کے جوئے کو اتارنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے ہو۔ تم نہ تو اپنی موجودہ حالت کو تبدیل کرنے کے اور نہ ہی ظلمت کے اثر سے بچنے کے شدید خواہش مند ہو۔ تم صرف ان چیزوں کے پابند ہو۔ اگرچہ تم سب جانتے بھی ہو کہ یہ زندگی بہت تکلیف دہ ہے اور انسانوں کی یہ دنیا بہت تاریک ہے، پھر بھی تم میں سے کسی ایک میں بھی اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ تم صرف اس زندگی کی حقیقتوں سے فرار حاصل کرنے، روح کی ماورائیت کو حاصل کرنے، اور ایک پرامن، خوش باش، جنت جیسے ماحول میں رہنے کی شدید خواہش رکھتے ہو۔ تم اپنی موجودہ زندگی کو تبدیل کرنے کی خاطر مشکلات برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو؛ نہ ہی تم اس فیصلے اور سزا کے اندر اس زندگی کو تلاش کرنے کے لیے آمادہ ہو جس میں تمہیں داخل ہونا چاہیے۔ اس کی بجائے، تم جسم سے آگے کی اس خوبصورت دنیا کے بارے میں مکمل طور پر غیر حقیقی خواب دیکھتے ہو۔ جس زندگی کی تم شدید خواہش رکھتے ہو وہ ایسی ہے جسے تم آسانی سے بغیر کسی تکلیف کے حاصل کر سکتے ہو۔ یہ مکمل طور پر غیر حقیقی ہے! کیونکہ تم جس چیز کی امید کرتے ہو وہ جسمانی طور پر ایک بامعنی زندگی گزارنے اور زندگی بھر کے دوران سچائی حاصل کرنے، یعنی سچائی کے لیے جینے اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے کے لیے نہیں ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جسے تم ایک درخشندہ، آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی زندگی سمجھو گے۔ تم یہ محسوس کرتے ہو کہ یہ ایک پُرکشش یا بامعنی زندگی نہیں ہوگی۔ تمہاری نظر میں اس طرح کی زندگی گزارنا ایک ناانصافی کی طرح محسوس ہوگا! اگرچہ آج تم اس سزا کو قبول کرتے ہو، پھر بھی تم جس چیز کی جستجو کر رہے ہو وہ حقیقت کو حاصل کرنے یا موجودہ وقت میں سچ کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ بعد میں جسم سے آگے ایک خوشگوار زندگی میں داخل ہونے کا اہل ہونے کے لیے ہے۔ تم سچ کی تلاش نہیں کر رہے ہو، نہ ہی تم سچ کے لیے کھڑے ہو رہے ہو، اور یقینی طور پر تم سچ کے لیے تو موجود ہی نہیں ہو۔ آج تم داخلے کے لیے جستجو نہیں کر رہے ہو، بلکہ اس کی بجائے تمہارے خیالات پر مستقبل کا غلبہ ہے اس بات کا کہ کسی دن کیا ہو سکتا ہے: تم نیلے آسمان کی طرف دیکھتے ہو، شدید تکلیف کی وجہ سے آنسو بہاتے ہو، اور یہ امید رکھتے ہو کہ تمہیں کسی دن جنت میں لے جایا جائے گا۔ کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ تمہارے سوچنے کے انداز کا حقیقت سے تو پہلے ہی کوئی تعلق نہیں ہے؟ تم یہ سوچتے رہتے ہو کہ لامحدود مہربانی اور ہمدردی کا نجات دہندہ یقیناً ایک دن تجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے گا، تو، جس نے اس دنیا میں سختیاں اور مصائب برداشت کیے ہیں، اور یہ کہ وہ تیری شکایات کا ازالہ کر دے گا اور تیری خاطر، جس پر ستم ڈھائے گئے ہیں اور جس پر ظلم کیا گیا ہے، وہ درست انتقام لے گا۔ کیا تو گناہ سے بھرا ہوا نہیں ہے؟ کیا اس دنیا میں صرف تو ہی ایک ایسا ہے جس نے تکلیف اٹھائی ہے؟ تو خود شیطان کے زیرِ تسلط آیا ہے اور تکلیفیں اٹھائی ہیں – کیا خدا کو واقعی اب بھی ضرورت ہے کہ تیری شکایات کا ازالہ کرے؟ جو لوگ خدا کے مطالبات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں کیا وہ سب خدا کے دشمن نہیں ہیں؟ جو لوگ مجسم خدا کو نہیں مانتے ہیں کیا وہ مسیح مخالف نہیں ہیں؟ تیرے اچھے اعمال کس شمار میں ہیں؟ کیا وہ ایسے دل کی جگہ لے سکتے ہیں جو خدا کی پرستش کرتا ہے؟ تو محض کچھ اچھے کام کر کے خدا کی برکت حاصل نہیں کر سکتا ہے، اور خدا تیری شکایات کا ازالہ نہیں کرے گا اور تیرے خلاف ہونے والے غلط کاموں کا بدلہ صرف اس وجہ سے نہیں لے گا کہ تجھ پر ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں۔ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ پھر بھی خدا کو نہیں جانتے ہیں، لیکن جو اچھے اعمال کرتے ہیں – کیا ان سب کو بھی سزا نہیں ملتی ہے؟ تو صرف خدا پر یقین رکھتا ہے، اور محض یہ چاہتا ہے کہ خدا تیرے خلاف ہونے والی غلطیوں کا ازالہ کرے اور اس کا بدلہ لے، اور تو چاہتا ہے کہ خدا تجھے تیرا بہترین وقت عطا کرے، وہ دن جب تو خود اعتمادی کے ساتھ اپنا سر بلند کر سکے۔ لیکن تو سچ کی طرف توجہ دینے سے انکار کرتا ہے اور نہ ہی تجھے سچائی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی پیاس ہے۔ اور تیرا اس مشکل، کھوکھلی زندگی سے بچنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ اس کی بجائے، جسم میں اپنی زندگی اور اپنی گناہ کی زندگی بسر کرتے ہوئے، تو اپنی شکایات کا ازالہ کرنے اور اپنے وجود کی دھند کو الگ کرنے کے لیے خدا کی طرف امید سے دیکھتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ اگر تو سچائی کا حامل ہے تو تو خدا کی پیروی کر سکتا ہے۔ اگر تیرے پاس سکونت ہے تو تو خدا کے کلام کا مظہر ہو سکتا ہے۔ اگر تیرے پاس زندگی ہے تو تو خدا کی برکتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ جو لوگ سچائی کے حامل ہوتے ہیں وہ خدا کی برکتوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ خُدا اُن لوگوں کے لیے ازالہ یقینی بناتا ہے جو اُس سے خلوصِ دل سے محبت کرتے ہیں اور جو مشکلات اور تکالیف برداشت کرتے ہیں، لیکن اُن کے لیے نہیں جو صرف اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں اور جو شیطان کے فریب کا شکار ہو چکے ہیں۔ جو لوگ سچ سے محبت نہیں کرتے ان میں بھلائی کیسے ہو سکتی ہے؟ جو لوگ صرف جسم سے محبت کرتے ہیں ان میں راستبازی کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا راستبازی اور نیکی، دونوں کی بات صرف سچائی کے حوالے سے نہیں کی جاتی ہے؟ کیا وہ ان لوگوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں جو خلوصِ دل سے خدا سے محبت کرتے ہیں؟ جو لوگ سچائی سے محبت نہیں کرتے اور جو گلی سڑی لاشیں ہیں کیا یہ سب لوگ برائی کو نہیں پالتے ہیں؟ جو لوگ سچائی کے مطابق زندگی بسر کرنے سے قاصر ہیں کیا وہ سب سچ کے دشمن نہیں ہیں؟ اور تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟

اگر تو ان تاریکی کے اثرات سے بچ سکتا ہے اور اپنے آپ کو ان ناپاک چیزوں سے الگ کر سکتا ہے، اگر تو مقدس بن سکتا ہے، تب توسچائی کا حامل ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ تیری فطرت تبدیل ہو گئی ہے، بلکہ صرف یہ ہے کہ تو سچائی پر عمل کرنے کے قابل ہے اور جسم کو ترک کرنے کے قابل ہے۔ جنھیں پاکیزہ بنا دیا گیا ہے یہ ان کی خوبی ہے۔ کیونکہ انسان سچائی کو بہت کم سمجھتا ہے، اس لیے فتح کے کام کا اصل مقصد انسانیت کو پاکیزہ بنانا ہے تاکہ انسان سچائی کا حامل ہو سکے! ایسے لوگوں پر فتح کرنے کا کام کرنا سب سے گہری اہمیت کا حامل ہے۔ تم سب ظلمت کے زیر اثر آ چکے ہو اور تمہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس کام کا مقصد، پھر، تمہیں انسانی فطرت کو جاننے اور اس طرح سچائی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے۔ کامل بنایا جانا ایک ایسی چیز ہے جسے تمام مخلوقات کو قبول کر لینا چاہیے۔ اگر اس مرحلے کے کام میں صرف لوگوں کو مکمل بنایا جانا ہی شامل ہوتا، تو یہ برطانیہ، یا امریکہ، یا اسرائیل میں کیا جا سکتا ہے؛ یہ کسی بھی قوم کے لوگوں پر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن فتح کرنے کا کام انتخابی ہے۔ فتح کرنے کے کام کا پہلا مرحلہ قلیل مدتی ہے؛ مزید برآں، یہ شیطان کو ذلیل کرنے اور پوری کائنات کو فتح کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ فتح کا ابتدائی کام ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والی کوئی بھی مخلوق کامل بنائی جا سکتی ہے کیونکہ کامل بنایا جانا ایک ایسی چیز ہے جو طویل مدتی تبدیلی کے بعد ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن مفتوح ہونا ایک الگ بات ہے۔ فتح کی مثال اور نمونہ وہ ہونا چاہیے جو سب سے پیچھے رہ رہا ہو، سب سے گہری تاریکی میں رہ رہا ہو؛ وہ سب سے زیادہ ذلیل ہو، خدا کو تسلیم کرنے کے لیے سب سے زیادہ نارضامند ہو، اور خدا کا سب سے زیادہ نافرمان ہو۔ یہ بالکل اس قسم کا شخص ہے جو فتح کیے جانے کی گواہی دے سکتا ہے۔ فتح کے کام کا اصل ہدف شیطان کو شکست دینا ہے، جب کہ لوگوں کو کامل بنانے کا اصل ہدف لوگوں کو حاصل کرنا ہے۔ فتح کرنے کا یہ کام یہاں تم جیسے لوگوں پر اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگوں کو فتح ہونے کے بعد گواہی دینے کے قابل بنائے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ فتح کر لیے جانے کے بعد گواہی دیں۔ ان مفتوح لوگوں کو شیطان کو ذلیل کرنے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تو، فتح کرنے کا بنیادی طریقہ کیا ہے؟ سزا، فیصلہ، لعنت بھیجنا، اور بے نقاب کرنا – لوگوں کو فتح کرنے کے لیے ایک راستباز مزاج استعمال کرنا تاکہ وہ خُدا کے راست مزاج کی وجہ سے مکمل طور پر قائل ہو جائیں۔ لوگوں کو فتح کرنے اور انھیں مکمل طور پر قائل کرنے کے لیے کلام کی حقیقت اور اختیار کا استعمال کرنا – فتح ہونے کا یہی مطلب ہے۔ جو لوگ کامل بنائے جا چکے ہیں وہ نہ صرف فتح حاصل کرنے کے بعد اطاعت حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ وہ فیصلے کے کام کا علم حاصل کرنے، اپنے مزاج کو تبدیل کرنے اور خدا کو جاننے کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ وہ خدا سے محبت کرنے کے راستے کا عملی تجربہ کرتے ہیں اور سچائی سے معمور ہوتے ہیں۔ وہ خدا کے کام کا عملی تجربہ کرنا سیکھتے ہیں، وہ خدا کے لیے دکھ جھیلنے اور اپنے ارادوں کو حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ کامل بنائے گئے وہ ہیں جو خدا کے کلام کا عملی تجربہ کرنے کی وجہ سے سچائی کی حقیقی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ مفتوحہ وہ ہیں جو سچائی کے متعلق جانتے ہیں لیکن سچائی کے حقیقی معنی کو قبول نہیں کرتے۔ مفتوح ہونے کے بعد، وہ اطاعت کرتے ہیں، لیکن ان کی سب اطاعت ان کے حاصل کردہ فیصلے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انھیں بہت سی سچائیوں کے حقیقی مفہوم کی بالکل کوئی سمجھ نہیں ہے۔ وہ زبانی طور پر سچائی کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن وہ سچائی میں داخل نہیں ہوئے ہیں؛ وہ سچ کو سمجھتے ہیں، لیکن انھوں نے سچائی کا عملی تجربہ نہیں کیا ہے۔ کامل بنائے جانے والوں پر جو کام کیا جا رہا ہے اس میں زندگی کی فراہمی کے ساتھ سزائیں اور فیصلے شامل ہیں۔ ایک شخص جو سچائی میں داخل ہونے کی قدر کرتا ہے ایسا شخص ہوتا ہے جسے کامل بنایا جا سکتا ہے۔ کامل بنائے جانے والوں اور فتح کیے جانے والوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ کیا وہ سچائی میں داخل ہوتے ہیں۔ کامل بنائے گئے وہ ہیں جو سچائی کو سمجھتے ہیں، سچائی میں داخل ہو گئے ہیں، اور سچائی کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو کامل نہیں بنائے جا سکتے وہ ہیں جو سچائی کو نہیں سمجھتے ہیں اور سچائی میں داخل نہیں ہوتے، یعنی وہ لوگ جو سچائی کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ اگر ایسے لوگ اب مکمل طور پر اطاعت کرنے کے قابل ہو جائیں تو وہ فتح کر لیے گئے ہیں۔ اگر فتح کر لیے گئے لوگ سچ کی تلاش نہیں کرتے ہیں – اگر وہ پیروی کرتے ہیں لیکن سچائی کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے ہیں، اگر وہ سچائی کو دیکھتے اور سنتے ہیں لیکن سچائی کے مطابق زندگی بسر کرنے کو اہمیت نہیں دیتے ہیں – تو پھر وہ کامل نہیں بنائے جا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو کامل بنانا ہوتا ہے وہ کامل بنائے جانے کی راہ پر خدا کے تقاضوں کے مطابق سچائی پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے، وہ خدا کی مرضی کو پورا کرتے ہیں، اور انھیں کامل بنایا جاتا ہے۔ کوئی بھی جو فتح کیے جانے کا کام ختم ہونے سے پہلے مکمل پیروی کرتا ہے وہ مفتوح ہوتا ہے، لیکن اسے کامل بنایا گیا نہیں کہا جا سکتا۔ ”کامل بنائے گئے“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو فتح کا کام ختم ہونے کے بعد، سچائی کی پیروی کرنے اور خدا کی طرف سے حاصل کیے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فتح کا کام ختم ہونے کے بعد فتنوں میں ثابت قدم رہتے ہیں اور سچائی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو چیز فتح کیے جانے کو کامل بنائے جانے سے ممتاز کرتی ہے وہ کام کے مراحل میں فرق اور اس درجے میں فرق ہیں جس تک لوگ سمجھ حاصل کرتے ہیں اور سچائی میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے کامل بنائے جانے کی راہ پر سفر کا آغاز نہیں کیا ہے، یعنی وہ لوگ جو سچائی کے حامل نہیں ہیں، بالآخر اب بھی باہر نکال دیے جائیں گے۔ خدا صرف ان لوگوں کو ہی مکمل طور پر حاصل کر سکتا ہے جو سچائی کے حامل ہیں اور جو سچائی کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ یعنی جو لوگ پطرس کی شبیہ کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں وہ کامل بنائے گئے ہیں، جبکہ باقی سب فتح کیے گئے ہیں۔ سب فتح کیے جانے والوں پر جو کام کیا جا رہا ہے وہ لعنتیں ڈالنے، سزا دینے اور غضب کا اظہار کرنے پر مشتمل ہے اور ان پر جو چیز آتی ہے وہ راستبازی اور لعنت ہے۔ ایسے شخص پر کام کرنا اسے کسی تکلف یا شائستگی کے بغیر آشکار کرنا ہے – اس کے اندر کے بدعنوان مزاج کو آشکار کرنا ہے تاکہ وہ خود اس کو پہچان لے اور مکمل طور پر اس کا قائل ہو جائے۔ جب انسان مکمل فرمانبردار ہو جاتا ہے تو فتح کرنے کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اگر اکثر لوگ اس وقت بھی سچائی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو پھر فتح کا کام ختم تو ہو چکا ہو گا۔

اگر تجھے کامل بنایا جانا ہے، تو اس کے پورا کرنے کے معیار ہیں۔ تو اپنے عزم، اپنی استقامت اور اپنے ضمیر کے ذریعے، اور اپنی جستجو کے ذریعے، زندگی کا عملی تجربہ کرنے اور خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ تیرا داخلہ ہے، اور کامل بنائے جانے کی راہ پر ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامل بنائے جانے کا کام سب لوگوں پر کیا جا سکتا ہے۔ جو کوئی بھی خدا کی پیروی کرتا ہے اسے کامل بنایا جا سکتا ہے اور اس کے پاس کامل بنائے جانے کا موقع اور اہلیت ہوتی ہے۔ اس کے لیے کوئی مقررہ اصول نہیں ہے۔ کیا کسی کو کامل کیا جا سکتا ہے کا انحصار بنیادی طور پر اس بات پر ہے کہ وہ کس چیز کی جستجو کرتا ہے۔ جو لوگ سچائی سے محبت کرتے ہیں اور سچائی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل ہیں وہ یقیناً کامل بنائے جانے کے قابل ہیں۔ جو لوگ سچائی سے محبت نہیں کرتے خدا ان کی تعریف نہیں کرتا ہے؛ وہ اس زندگی کے حامل نہیں ہیں جس کا خدا مطالبہ کرتا ہے، اور وہ کامل بنائے جانے سے قاصر ہیں۔ کامل بنائے جانے کا کام صرف لوگوں کو حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے اور یہ شیطان سے لڑنے کے کام کا حصہ نہیں ہے؛ فتح کرنے کا کام صرف شیطان سے لڑنے کے لیے ہے، جس کا مطلب ہے کہ شیطان کو شکست دینے کے لیے انسان کی فتح کو استعمال کرنا۔ فتح کرنے کا کام اصل کام ہے، جدید ترین کام، وہ کام جو تمام ادوار میں کبھی بھی نہیں کیا گیا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کام کے اس مرحلے کا مقصد بنیادی طور پر تمام لوگوں کو فتح کرنا ہے تاکہ شیطان کو شکست دی جائے۔ لوگوں کو کامل بنائے جانے کا کام – یہ نیا کام نہیں ہے۔ جسم میں خدا کے کام کے دوران تمام کام کے ہدف کی اعلیٰ ترین مثالی صورت لوگوں کی فتح ہے۔ یہ فضل کے دور کی طرح ہے، جب بنیادی کام سب بنی نوع انسان کو تصلیب کے ذریعے نجات دلانا تھا۔ ”لوگوں کو حاصل کرنا“ جسم میں کام کے لیے اضافی تھا اور صرف مصلوب ہونے کے ہی بعد کیا گیا تھا۔ جب یسوع آیا اور اپنا کام کیا، تو اس کا مقصد بنیادی طور پر موت اور پاتال کی غلامی پر فتح پانے کے لیے، شیطان کے اثر پر فتح حاصل کرنے کے لیے اپنی تصلیب کو استعمال کرنا تھا – یعنی شیطان کو شکست دینے کے لیے تھا۔ یسوع کے مصلوب ہونے کے بعد ہی پطرس کامل بنائے جانے کی راہ پر ایک ایک قدم کر کے آگے بڑھا تھا۔ بلاشبہ، پطرس ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے یسوع کے کام کے دوران یسوع کی پیروی کی تھی، لیکن وہ اس دوران کامل نہیں بنایا گیا تھا۔ بلکہ، یسوع کے اپنا کام ختم کرنے کے بعد ہی پطرس نے رفتہ رفتہ سچائی کو سمجھا اور پھر کامل ہو گیا۔ مجسم خدا زمین پر صرف اس لیے آتا ہے کہ کام کے ایک کلیدی، فیصلہ کن مرحلے کو مختصر وقت میں مکمل کرے، وہ زمین پر لوگوں کو کامل بنانے کے ارادے سے ان کے درمیان طویل مدتی زندگی گزارنے کے لیے نہیں آتا ہے۔ وہ یہ کام نہیں کرتا ہے۔ وہ اپنے کام کو مکمل کرنے کے لیے انسان کے مکمل طور پر کامل ہو جانے کا انتظار نہیں کرتا ہے۔ یہ اس کے مجسم ہونے کا مقصد اور اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف انسانیت کو بچانے کا قلیل مدتی کام کرنے کے لیے آتا ہے، انسانیت کو کامل بنانے کا بہت طویل مدتی کام کرنے کے لیے نہیں۔ انسانیت کو بچانے کا کام نمائندہ ہے اور نئے دور کا آغاز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مختصر وقت میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسانیت کو کامل بنانے کے لیے انسان کو ایک خاص سطح تک لانا ضروری ہوتا ہے؛ اس طرح کے کام میں ایک طویل وقت لگتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے لازمی طور ہر خدا کی روح کو کرنا چاہیے، لیکن یہ اس سچائی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو جسم میں کام کے دوران بولی گئی تھی۔ یہ اُس کے رسولوں کو اٹھانے کے ذریعے بھی ہوتا ہے تاکہ وہ انسانیت کو کامل بنانے کے اُس کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے طویل مدتی نگرانی اور راہنمائی کا کام کریں۔ مجسم خدا یہ کام نہیں کرتا ہے۔ وہ صرف زندگی کے طریقے کے بارے میں بات کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھ لیں، اور وہ صرف انسانیت کو سچائی دیتا ہے، بجائے اس کے کہ وہ مسلسل سچائی پر عمل کرنے میں انسان کا ساتھ دے، کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے وہ انسان کے سچائی کو پوری طرح سمجھ لینے اور سچائی کو مکمل طور پر حاصل کر لینے کے وقت تک انسان کے ساتھ نہیں رہے گا۔ جسم میں اس کا کام اس وقت ختم ہوتا ہے جب انسان باضابطہ طور پر خدا پر ایمان کے صحیح راستے پر داخل ہو جاتا ہے، یعنی جب انسان کامل بنائے جانے کے صحیح راستے پر قدم رکھتا ہے۔ یقیناً یہ وہ وقت بھی ہے جب وہ شیطان کو پوری طرح شکست دے چکا ہو گا اور دنیا پر فتح حاصل کر چکا ہو گا۔ وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ انسان آخرکار اس وقت سچائی میں داخل ہو چکا ہو گا یا نہیں اور نہ ہی اسے اس بات کی پرواہ ہے کہ انسان کی زندگی عظیم ہے یا حقیر۔ اس میں سے کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے اس کو جسمانی طور پر سنبھالنا چاہیے۔ اس میں سے کچھ بھی مجسم خدا کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ ایک بار جب وہ اپنے ارادے کے مطابق کام کو مکمل کر لے گا، تو وہ جسم میں اپنے کام کو ختم کر دے گا۔ لہٰذا، وہ کام جو مجسم خُدا کرتا ہے صرف وہ کام ہوتا ہے جسے خُدا کی روح براہِ راست نہیں کر سکتی ہے۔ مزید برآں، یہ نجات کا قلیل مدتی کام ہے، اور وہ کام نہیں جسے وہ زمین پر طویل مدتی بنیادوں پر انجام دے گا۔

تمہاری لیاقت کو بڑھانا میرے کام کے دائرے میں نہیں ہے۔ میں تم سے صرف یہی کرنے کے لیے اس لیے کہتا ہوں کہ تمہاری لیاقت بہت کم ہے۔ درحقیقت یہ کامل بنانے کے کام کا حصہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ اضافی کام ہے جو تم پر کیا جا رہا ہے۔ تم پر آج جو کام مکمل کیا جا رہا ہے وہ تمہاری ضرورت کے مطابق ہے۔ یہ انفرادی طور پر ہوتا ہے اور یہ ایسا راستہ نہیں ہے جس میں ہر اس شخص کو داخل ہونا چاہیے جو مکمل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ تمہاری لیاقت ہر اس شخص سے کم ہے جسے ماضی میں کامل بنایا گیا تھا، جب تم پر یہ کام کیا جاتا ہے تو بہت زیادہ رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ میں تمہارے درمیان ہوں اور یہ اضافی کام کر رہا ہوں کیونکہ کامل بنانے کے اہداف مختلف ہیں۔ بنیادی طور پر، جب خُدا زمین پر آتا ہے، تو وہ اپنی مناسب حدود میں رہتا ہے اور اپنے کام کو انجام دیتا ہے، اور دوسرے غیر متعلقہ معاملات سے پریشان نہیں ہوتا ہے۔ وہ خاندانی معاملات میں ملوث نہیں ہوتا اور نہ ہی لوگوں کی زندگیوں میں حصہ لیتا ہے۔ وہ ایسی معمولی باتوں سے بالکل بے تعلق رہتا ہے؛ وہ اس کی ذمہ داری کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن تمہاری لیاقت اس سے بہت ہی کم ہے جس کا میں نے مطالبہ کیا تھا – درحقیقت، اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے – اور یہ کام میں انتہائی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ کام لازمی طور پر چین کی اسی سرزمین میں لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ تم اتنے کم تعلیم یافتہ ہو کہ میرے پاس بولنے اور یہ مطالبہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ تم خود کو تعلیم یافتہ بناؤ۔ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ یہ اضافی کام ہے، لیکن یہ وہ چیز بھی ہے جسے حاصل کرنا تمہارے لیے ضروری ہے، یہ وہ چیز ہے جو تمہیں کامل بننے میں مدد دے گی۔ درحقیقت، تعلیم، اپنے طرزِ عمل کے بارے میں بنیادی معلومات، اور زندگی کے بارے میں بنیادی معلومات وہ تمام چیزیں ہیں جن کا تمہیں فطری طور پر حامل ہونا چاہیے؛ مجھے تم سے ان چیزوں پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ تمہارے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں، اس لیے میرے پاس اس کے سوا کوئی انتخاب نہیں ہے کہ تمہارے دنیا میں پیدا ہو چکنے کے بعد ان چیزوں کو رفتہ رفتہ تمہیں ذہن نشین کرانے کا کام کروں۔ یہاں تک کہ اگر تم میرے بارے میں بہت سے تصورات بھی رکھتے ہو، تب بھی میں تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں – کہ تم اپنی صلاحیت کو بڑھاؤ۔ میرا آ کر یہ کام کرنے کا ارادہ نہیں ہے، کیونکہ میرا کام صرف تمہیں فتح کرنا ہے، صرف تمہیں جانچ کر تمہارا مکمل یقین حاصل کرنا ہے، اور اس طرح تمہارے داخلے کے لیے زندگی کے راستے کی نشاندہی کرنا ہے۔ اسے دوسرے طریقے سے بیان کرتا ہوں، تم کتنے تعلیم یافتہ ہو اور کیا تم زندگی کے بارے میں علم رکھتے ہو، اس کا مجھ سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا اگر یہ حقیقت نہ ہوتی کہ مجھے اپنے کلام سے تمہیں فتح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سب کا اضافہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے کہ فتح کے کام میں اور اس کے بعد تمہیں کامل بنانے کی خاطر کام میں نتائج حاصل ہوں۔ یہ فتح کے کام کا حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ تمہاری لیاقت کم ہے اور تم کاہل اور غافل، احمق اور کم ذہین، پُر تصنع اور بیوقوف ہو – کیونکہ تم حد سے زیادہ غیر معمولی ہو – میرا تقاضا ہے کہ پہلے تم اپنی لیقت کو بڑھاؤ۔ جو کوئی بھی کامل ہونا چاہتا ہے اسے لازمی کچھ معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔ کامل بننے کے لیے، کسی کو لازمی طور پر ایک صاف اور متین ذہن والا اور ایک بامعنی زندگی گزارنے کے لیے آمادہ ہونا چاہیے۔ اگر تو کوئی ایسا شخص ہے جو ایک کھوکھلی زندگی گزارنے پر آمادہ نہیں ہے، کوئی ایسا شخص ہے جو سچائی کی جستجو کرتا ہے، کوئی ایسا شخص ہے جو اپنے ہر کام میں مخلص ہے، اور کوئی ایسا شخص ہے جو غیر معمولی عام انسانیت کا حامل ہے، تو پھر تو کامل ہونے کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔

یہ کام جو تمہارے درمیان کیا جا رہا ہے یہ ایسے کام کے طور پر کیا جا رہا ہے جو تم پر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کو فتح کرنے کے بعد لوگوں کے ایک گروہ کو کامل بنایا جائے گا۔ لہٰذا، اس وقت زیادہ تر کام تمہیں کامل کرنے کے مقصد کی تیاری کے لیے بھی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ سچائی کے لیے بھوکے ہیں جنھیں کامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر تم پر فتح کرنے کا کام کیا جاتا اور اس کے بعد کوئی مزید کام نہ کیا جاتا تو کیا یہ ایسا معاملہ نہ ہوتا کہ کچھ لوگ جو سچائی کے انتہائی آرزومند ہیں وہ اسے حاصل نہ کرتے؟ موجودہ کام کا ہدف بعد میں لوگوں کو کامل بنانے کے لیے ایک راستہ کھولنا ہے۔ اگرچہ میرا کام صرف فتح کرنے کا کام ہے، لیکن زندگی کا طریقہ جس کے بارے میں میں بات کرتا ہوں، وہ پھر بھی بعد میں لوگوں کو کامل بنانے کی تیاری کرنے کیے لیے ہے۔ فتح کے بعد آنے والا کام لوگوں کو کامل کرنے پر مرکوز ہوتا ہے، اور کامل کرنے کے کام کی بنیاد رکھنے کے لیے فتح کیا جاتا ہے۔ انسان کو فتح کرنے کے بعد ہی کامل کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت فوراً، اصل کام فتح کرنا ہے؛ بعد میں، جو لوگ سچائی کی تلاش کرتے ہیں اور شدید خواہش رکھتے ہیں وہ کامل ہو جائیں گے۔ کامل ہونے کے لیے لوگوں کے داخلے کے فعال پہلو شامل ہیں: کیا تیرے پاس خدا سے محبت کرنے والا دل ہے؟ جب تو اس راستے پر چلا ہے تو تیرے عملی تجربے کی گہرائی کیا رہی ہے؟ تیری خدا سے محبت کتنی خالص ہے؟ تیرا سچائی پر عمل کتنا درست ہے؟ کسی کو کامل ہونے کے لیے انسانیت کے تمام پہلوؤں کا بنیادی علم ہونا چاہیے۔ یہ ایک ابتدائی تقاضا ہے۔ وہ تمام لوگ جو فتح کر لیے جانے کے بعد کامل نہیں ہوسکتے ہیں وہ خدام بن جاتے ہیں اور اس کے باوجود بالآخر آگ اور گندھک کی جھیل میں ڈالے جائیں گے اور اس کے باوجود اتھاہ گڑھے میں گریں گے، کیونکہ تیرا مزاج تبدیل نہیں ہوا ہے اور اب بھی تیرا تعلق شیطان سے ہے۔ اگر ایک انسان میں کامل ہونے کی شرائط کی کمی ہے، تو پھر وہ بیکار ہے – وہ فضلہ ہے، ایک آلہ ہے، وہ ایسی چیز ہے جو آگ کی آزمائش کا مقابلہ نہیں کر سکتی! اس وقت خدا سے تیری محبت کتنی زیادہ ہے؟ تیری خود سے نفرت کتنی زیادہ ہے؟ تو واقعی شیطان کو کتنی گہرائی سے جانتا ہے؟ کیا تو نے اپنے عزم کو پختہ کر لیا ہے؟ کیا تیری زندگی تیری انسانیت کے اندر اچھی طرح سے منظم ہے؟ کیا تیری زندگی تبدیل ہو گئی ہے؟ کیا تو ایک نئی زندگی گزار رہا ہے؟ کیا تیری زندگی کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا ہے؟ اگر یہ چیزیں تبدیل نہیں ہوئی ہیں، تو چاہے تو پیچھے نہ ہٹے پھر بھی تو کامل نہیں ہو سکتا ہے؛ بلکہ تو صرف مفتوح ہی ہوا ہے۔ جب تجھے آزمانے کا وقت آئے گا تو تجھ میں سچائی کی کمی ہو گی، تیری انسانیت غیر معمولی ہو جائے گی، اور تو ایک بوجھ ڈھونے والے جانور کی طرح حقیر ہو گا۔ تیری حاصل کردہ کامیابی صرف مفتوح ہونا ہی ہو گا – تو صرف ایک چیز ہو گا جسے میں نے فتح کیا ہو گا۔ بالکل ایک گدھے کی طرح، جب وہ ایک بار آقا کا کوڑا کھا لیتا ہے تو پھر وہ جب بھی آقا کو دیکھتا ہے تو ڈرتا ہے اور خوفزدہ ہو جاتا ہے، اور کام شروع کر دیتا ہے، تو محض ایک مفتوحہ گدھا ہو گا۔ اگر کسی شخص میں ان مثبت پہلوؤں کا فقدان ہے اور وہ غیر فعال اور خوفزدہ، ڈرپوک اور سب چیزوں میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، کسی بھی چیز کو واضح طور پر سمجھنے سے قاصر ہے، سچائی کو قبول کرنے سے قاصر ہے، ابھی تک عمل کے راستے کے بغیر ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر خدا سے محبت کرنے والے دل کے بغیر ہے – اگر کسی شخص کو یہ سمجھ بوجھ نہیں ہے کہ خدا سے محبت کیسے کرنی ہے، بامعنی زندگی کیسے گزارنی ہے، یا ایک حقیقی انسان کیسے بننا ہے تو ایک ایسا شخص خدا کی گواہی کیسے دے سکتا ہے؟ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ تیری زندگی کی اہمیت کم ہے اور تو صرف ایک مفتوحہ گدھا ہے۔ تجھے فتح کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ تو نے عظیم سرخ اژدہے کو ترک کر دیا ہے اور اس کے زیرِ تسلط ہونے سے انکار کر دیا ہے؛ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تجھے یقین ہے کہ خدا ہے، تو خدا کے تمام منصوبوں کی پابندی کرنا چاہتا ہے، اور تجھے کوئی شکایات نہیں ہیں۔ لیکن جہاں تک مثبت پہلوؤں کا تعلق ہے، کیا تو خدا کے کلام کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خدا کا اظہار کرنے کے قابل ہے؟ اگر تیرے پاس ان میں سے کوئی بھی پہلو نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تجھے خدا نے حاصل نہیں کیا ہے، اور تو صرف ایک مفتوحہ گدھا ہے۔ تجھ میں کوئی بھی پسندیدہ چیز نہیں ہے، اور روح القدس تجھ میں کام نہیں کر رہی ہے۔ تیری انسانیت بہت کم ہے؛ خدا کے لیے تجھے استعمال کرنا ناممکن ہے۔ تجھے خدا کی طرف سے منظور شدہ اور ان ایمان نہ رکھنے والے درندوں اور چلتی پھرتی لاشوں سے سو گنا بہتر ہونا ہے – صرف وہی لوگ جو اس درجے تک پہنچتے ہیں کامل ہونے کے اہل ہیں۔ صرف جب کسی کے پاس انسانیت ہو اور اس کا ضمیر خدا کے استعمال کے لیے موزوں ہو۔ جب تم کامل ہو جاؤ گے تو صرف تب ہی تمہیں انسان سمجھا جا سکتا ہے۔ صرف کامل بنائے گئے لوگ ہی بامعنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ صرف ایسے لوگ ہی خدا کی زیادہ گونجدار انداز میں گواہی دے سکتے ہیں۔

سابقہ: القاب اور شناخت سے متعلق

اگلا: تمھیں حیثیت کی برکتیں ایک طرف رکھنی چاہییں اور انسان کی نجات کے لیے خدا کی مرضی سمجھنی چاہیے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp