حق پر عمل پیرا ہونا ہی حقیقت کے حصول کا ثبوت ہے
خدا کا کلام تھامنے اور ڈھٹائی سے اس کی تشریح کے قابل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت تمہارے قبضے میں آ گئی ہے؛ یہ باتیں اتنی سادہ نہیں ہیں جیسا کہ تم تصور کرتے ہو۔ حقیقت تمہارے قبضے میں ہے یا نہیں، اس کی بنیاد تمہارے کہنے پر نہیں ہے۔ بلکہ اس کی بنیاد تمہارے زندگی گزارنے کے طریقے پر ہے۔ جب خدا کا کلام تمہاری زندگی بن جائے اور تمہارا فطری اظہار بن جائے تب ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمہارے پاس حقیقت ہے۔ تب ہی تم سچی فہم اور حقیقی مرتبہ حاصل کرلینے والوں میں شما رہو سکتے ہیں۔ تمہیں ضرور ایک لمبے عرصے تک آزمائش برداشت کرنے کے قابل ہونا ہو گا اور تمہیں لازما اُس طرز کی زندگی گزارنا ہو گی جو خدا کو مطلوب ہے۔ یہ محض دکھاوا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایسا فطری طور پر تم سے بہنا چاہیے۔ تم حقیقت میں سچ کے مالک صرف اُسی وقت ہو گے اور صرف اُسی صورت میں تم زندگی پاؤ گے۔ مجھےخدمت گزار کی آزمائش کی مثال استعمال کرنے دیجیے جسے ہر کوئی جانتا ہے: کوئی بھی "خدمت گزاروں" کے بارے میں انتہائی بلند بانگ نظریات پیش کر سکتا ہے، اور ہر کوئی اِس موضوع کی اچھی فہم رکھتا ہے۔وہ اس پر بات کرتے ہیں اور اور ہر ایک تقریر پچھلی سے بڑھ کر ہوتی ہے، گویا کہ ایک مقابلہ جاری ہو۔ البتہ اگر ایک شخص کسی بڑی آزمائش سے نہیں گزراتو اس کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک اچھی گواہی دینے کے لیے کچھ ہے۔ مختصر یہ کہ لوگوں کی سمجھ کے بالکل برعکس ان میں ابھی تک عمل کرنے کی کمی ہے۔ لہٰذا، اسے ابھی انسان کا اصلی رُتبہ بننا ہے اور یہ ابھی تک انسان کی زندگی میں نہیں ڈھلا ہے۔ کیونکہ انسان کی فہم ابھی حقیقت میں نہیں لائی گئی، اس کا رُتبہ اب بھی ریت پر بنے ایک قلعے کی طرح ہے جو متزلزل ہے اور زمین بوس ہوا چاہتا ہے۔ انسان کے پاس حقیقت کا بہت ہی تھوڑا حصہ ہے؛ انسان کے اندرکسی حقیقت کو پانا تقریبا ناممکن ہے۔ انسان سے فطری طور پر بہنے والی حقیقت بہت ہی قلیل ہے۔ جو بھی حقیقت وہ جیتے ہیں وہ جبری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ انسان کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگرچہ لوگ مسلسل خدا سے محبت کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کا یہ دعویٰ ایک اسے شخص کا دعویٰ ہے جس نے ابھی تک کسی آزمائش کا سامنا نہیں کیا۔ جب انہیں اچانک ایک دن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے،تو وہ باتیں جو وہ کہتے ہیں وہ ایک بار پھر حقیقت سے متصادم پائی جائیں گی۔ اور اس سے پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ انسان کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب بھی تم کسی ایسی چیز کا سامنا کرو جو تمہارے تصورات سے مطابقت نہ رکھتی ہو اور وہ چیز تم سے تقاضا کرے کہ تم اپنے آپ کو ایک طرف رکھ دو تو یہ آپ کے لیے آزمائش ہے۔ خدا کی مرضی ظاہر ہونے سے پہلے، ہر کوئی ایک سخت امتحان اور بہت بڑی آزمائش سے گزرتا ہے۔ کیا تم اس بات کی تہ میں اتر سکتے ہو؟ جب بھی خدا لوگوں کو آزمانا چاہتا ہے وہ انہیں اجازت دیتا ہے کہ حق کے ظاہر کیے جانے سے پہلے اپنا انتخاب کر لیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب خدا لوگوں کو آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے تو وہ تم کو کبھی سچ نہیں بتاتا: یہی وہ طریقہ ہے جس سے لوگ کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ خدا کے کام کرنے کا ایک طریقہ ہےجس کے ذریعے وہ جانتا ہے کہ آیا تم آج کے خدا کو جانتے ہو یا نہیں اور یہ بھی کیا تم حقیقت کا علم رکھتے ہو یا نہیں۔ کیاتمہیں واقعی خدا کے کام کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے؟ کیا تم ایک بڑی آزمائش کے سامنے ثابت قدم رہ سکتے ہو؟ کون یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے "میں ضمانت دیتا ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا"؟ کون یہ کہ سکتا ہے "دوسرے لوگ شک کر سکتے ہیں مگر میں کبھی نہیں کروں گا"؟ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پطرس نے اس وقت کیا تھا جب اس کو آزمائشوں میں ڈالا گیا اور اس نے ہر مرتبہ سچ کے سامنے آنے سے پہلے بڑا بول بولا۔ یہ صرف پطرس کی ذاتی خامی نہیں تھی بلکہ یہ ایک بڑی مشکل ہے جس کا ہر کسی کو سامنا ہے۔ اگر مجھے چند جگہوں پر جانا پڑے یا چند بھائیوں اور بہنوں سے ملنے جا نا ہو تاکہ یہ جان سکوں کہ تمہیں آج کل خدا کے کام کی کتنی سمجھ ہے،تو یقینا ًتمہارے پاس اس کے متعلق علم پر بہت کچھ کہنے کے لیے ہو گا اور تم بظاہر کسی بھی طرح کے شک کے حامل نہیں ہو گے۔ اگر میں تم سے پوچھوں: "کیا تم حقیقت میں اس بات کی صراحت بغیر کسی شک کے کر سکتے ہو کہ آج کا کام خدا خود کر رہا ہے؟" تم اس کا ضرور یہ جواب دو گے: "بے شک یہ کام خدا کی روح کر رہی ہے۔" جب تم اس طرح سے جواب دیتے ہو تو تمہیں یقینا شک کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ تم ایک خوشی بھی محسوس کرتے ہو، یہ سوچتے ہوئے کہ تم نے کچھ حقیقت پا لی ہے۔ جو لوگ چیزوں کو اس طریقے سے سمجھتے ہیں وہ کم حقیقت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک شخص جتنا زیادہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے حقیقت کو پا لیا ہے، اس کے پاس حقیقت کی اتنی ہی کمی ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے حقیقت پا لی ہے، وہ آزمائشوں کے سامنے اتنا ہی کم ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ افسوس ہے ان پر جو متکبر ہیں اور ان پر افسوس ہے جو اپنے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اس طرح کے لوگ باتیں کرنے میں تو ماہر ہوتے ہیں لیکن اپنے الفاظ کو عمل میں ڈھالنے کا وقت آتا ہے تو وہ اس میں سب سے بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایک معمولی سی مشکل پر شک میں پڑ جاتے ہیں اور پیچھے ہٹنے کی سوچ ان کے دل میں چپکے سے داخل ہو جاتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے،وہ صرف نظریات رکھتے ہیں جو مذہب سے بالاترہوتے ہیں اور ان کے پاس اس حقیقت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا جو آج خدا کو ان سے درکار ہے۔ میں ان لوگوں سے سب سے زیادہ نفرت محسوس کرتا ہوں جو صرف نظریات کے بارے میں بات کرتے ہیں اور ان کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اپنا کام کرتے وقت یہ سب سے زیادہ زور سے چیختے ہیں۔ مگر جب بھی وہ حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان کے پاس کوئی حقیقت نہیں ہے؟ ہوا اور لہریں چاہے کتنی ہی وحشیانہ کیوں نہ ہوں، اگر آپ شک کے کسی شائبہ کو اپنے ذہن میں آنے دیےبغیر، کھڑے رہیں، اور انکار سے بچتے ہوئے ثابت قدم رہیں، تب بھی جب کوئی دوسرا اس جگہ پر نہیں رہا ہوتا، تب ہی تم ایسے لوگوں میں شمار ہو گے جن کے پاس حقیقی علم ہے اور ایک سچی حقیقت ہے۔ اگر ہوا کے رخ پر چلنا شروع ہو جاؤ، اکثریت کی اتباع کرو، اور محض دوسروں کی بات کو دہرانا سیکھ جاؤ،، تو پھر چاہے تم کتنی ہی فصاحت سے بات کرو یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہو گا کہ تمہارے پاس حقیقت ہے۔ لہٰذا میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ کھوکھلےالفاظ میں بہت جلدبازی سے شور نہ کرو۔ کیا تم جانتے ہو کہ خدا کیا کرنے والا ہے؟ ایک اور پطرس کی طرح کا طرز عمل اختیار نہ کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ذلیل ہو جاؤ اور اپنا سر اٹھا کر چلنے سے قاصر رہو۔ ایسا کرنا کسی کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ زیادہ تر لوگوں کی کوئی اصلی حیثیت نہیں ہوتی۔ اگرچہ خدا نے اتنا زیادہ کام کیا ہے،اس نے حقیقت لوگوں پر مسلط نہیں کی ہے۔ یا پھر مزید درست الفاظ میں کہیں تو اُس نے ذاتی طور پر کسی ایک شخص کو سزا نہیں دی ہے۔ کچھ لوگوں کو اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے بے نقاب کیا گیا ہے کہ وہ اپنے گناہ کے ہاتھ کو طویل سے طویل تر کرتے جا رہے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ خدا سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس طرح وہ جو چاہیں کرتے رہیں۔ کیونکہ وہ اس طرح کی آزمائش کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے،اس سے بڑی آزمائش، جیسا کہ حقیقت کا پا لینا، کا تو سوال ہی پید نہیں ہوتا۔ کیا وہ خدا کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کر رہے؟ حقیقت کا حامل ہونا ایسی بات نہیں ہے جس کا جھوٹ موٹ میں دکھاوا کیا جائے۔ نہ ہی حقیقت کوئی ایسی چیز ہے جسے آپ جاننے کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا انحصار تمہارے اصل رتبے اور حیثیت پر ہے اور اس بات پر ہے کہ تم تمام آزمائشوں کا سامنا کر سکتے ہو کہ نہیں۔ کیا تم سمجھ رہے ہو؟
خدا لوگوں سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ محض اس قابل ہوں کہ حقیقت کے بارے میں گفتگو کر سکیں۔ یہ بہت ہی آسان ہو گا۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو پھر خدا زندگی میں داخلے کی بات کیوں کرتا ہے؟ وہ تبدیلی کے بارے میں بات کیوں کرتا ہے ؟ اگر لوگ صرف خالی خولی باتیں کرنے کے قابل ہوں تو کیا وہ اپنے مزاج میں تبدیلی لا سکتے ہیں ؟ بادشاہی کے اچھے سپاہی صرف اس تربیت کے حامل نہیں ہوتے کہ حقیقت کے بارے میں صرف باتیں کر سکیں یا صرف بڑے بول بول سکیں۔ اس کے برعکس، ان سپاہیوں کی تربیت میں ہر حالت میں خدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنا ہوتا ہے، ہر شکست کے سامنے ناقابل تسخیر ہونا ہوتا ہے، اور مسلسل خدا کے الفاظ کے عین مطابق جینا اور دنیا کی طرف نہ پلٹنا ہوتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کے بارے میں خدا بات کرتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو خدا کو انسان سے مطلوب ہے۔ اس لیےحقیقت کے بارے میں خدا کی باتوں کو اتنا سادہ نہ لو۔ یہ صرف روح القدس کی طرف سے عرفان حقیقت کا حامل ہونے کے مترادف نہیں ہے۔ یہ انسان کا مرتبہ نہیں ہے—بلکہ یہ خدا کا فضل ہے جس میں انسان کوئی حصہ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص کو پطرس کے مصائب برداشت کرنا ہوں گے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، پطرس کی سی شان بھی ہونی چاہیے جس کے مطابق وہ خدا کا کام حاصل کرنے کے بعد زندگی گزاریں۔ صرف اس کوحقیقت کہا جا سکتا ہے۔ یہ مت سوچو کہ کیونکہ تم حقیقت کے بارے میں باتیں کر سکتے ہو تو تم نے اسے پا لیا ہے۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ اس طرح کے خیالات خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں اور ان کی کوئی اصل اہمیت نہیں ہے! مستقبل میں ایسی باتیں مت کہو: اس طرح کے خیالات کو بجھا دو! وہ تمام لوگ جو خدا کے کلام کی ایک غلط فہم رکھتے ہیں وہ ایمان سے محروم ہیں۔وہ کوئی حقیقی علم نہیں رکھتے اور کوئی اصل مرتبہ تو اور بھی کم؛ یہ جاہل لوگ ہیں جو حقیقت سے محروم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وہ لوگ جو خدا کے کلام کے جوہر سے باہر زندگی گزارتے ہیں وہ ایمان سے محروم ہیں جنہیں لوگ ایمان سے محروم سمجھتے ہیں، وہ خدا کی نظر میں جانور ہیں۔ اور وہ لوگ جو خدا کی نظر میں ایمان سے محروم ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جو خدا کے کلام کو اپنی زندگی نہیں سمجھتے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس خدا کے کلام کی حقیقت نہیں ہے اور جو اس کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہیں وہ ایمان سے محروم ہیں۔ خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کا سبب بنے—نہ کہ ہرکسی کو اس حقیقت کے بارے میں بات کرنے پر لگائے—بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہر کسی کو اپنے کلام کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل کرے۔ انسان جسے حقیقت سمجھتا ہے،وہ بہت سطحی ہے: اس میں کوئی قدر نہیں اور یہ خدا کی مرضی کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہ بہت پست ہے، بلکہ یہ ناقابل ذکر ہے۔ اس میں بہت خامیاں ہیں اور یہ خدا کے مطالبات کے معیارات سے بہت کم ترہے۔ تم میں سے ہر کسی کا ایک بڑا امتحان ہو گا تاکہ یہ معلوم ہو کہ تم میں سے کون ہے جو صرف اپنی سمجھ کے بارے میں، بغیر اس قابل ہوئے کہ راستہ بتا سکے، محض باتیں کرنا جانتا ہے اوریہ معلوم ہو سکے کہ تم میں کون ہیں جو بیکارکُوڑا ہیں۔ اس کے بعد یاد رکھو! کھوکھلے علم کی بات نہ کرو، صرف عمل کے راستے اور حقیقت کے بارے میں بات کرو۔ حقیقی علم سے حقیقی عمل کی طرف منتقل ہوجاؤ اور پھر عمل سے حقیقی زندگی کی طرف منتقل ہوجاؤ۔ دوسروں کو لیکچر نہ پلاؤ اور حقیقی علم کے بارے میں باتیں نہ کرو۔ اگر تمہاری فہم ایک راستہ ہے تو اپنے الفاظ کو اس پر کھلا چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو براہ مہربانی اپنا منہ بند رکھو اور بولنا بند کر دو۔ جو تم کہتے ہو وہ بیکار ہے۔ تم فہم کی بات کرتے ہو تاکہ خدا کو دھوکا دے سکو اور دوسرے تم پر رشک کیا کریں۔ کیا تمہارا ا ارادہ یہی نہیں ہے ؟ کیا تم جان بوجھ کر لوگوں سے کھلواڑ نہیں کر رہے ہو ؟ کیا اس میں کوئی قدرو قیمت ہے ؟ اگر تم فہم کے بارے میں صرف اس وقت بات کرو جب تم نے اس کا خود تجربہ کر لیا ہو تو پھر یہ محسوس ہو گا کہ تم شیخی نہیں بھگار رہے۔ ورنہ تم ایسے انسان ہو جو متکبرانہ باتیں اُگل رہا ہے۔ تمہارے اصل تجربے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن پر تم قابو نہیں پا سکتے اور تم اپنے وجود کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتے؛ تم ہمیشہ جو چاہو وہ کرتے ہو، کبھی بھی خدا کی مرضی کو پورا نہیں کرتے، اور پھر بھی اتنی جرات رکھتے ہو کہ نظریاتی فہم کے بارے میں بات کرو۔ تم کتنے بے شرم ہو! تم اب بھی اتنے نڈر ہو کہ خدا کے کلام کے بارے میں اپنے فہم کی بات کروں۔ تم کتنے ہی بے شرم ہو! باتیں بگھارنا اور ڈینگیں مارنا تمہاری فطرت بن چکا ہے اور تم اس کے عادی ہو چکے ہو۔ جب بھی تم بات کرنا چاہتے ہو تم آسانی سے کرلیتے ہو مگر جب ان پرعمل کا موقع ہوتا ہے توتم تصنع اختیار کر لیتے ہو۔ تم انسان کو تو بے وقوف بنا سکتے ہو مگر خدا کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انسان نہیں جانتے اور وہ کوئی سمجھ اور فراست نہیں رکھتے، لیکن خدا اس بارے میں بہت سنجیدہ ہے اور وہ تمہیں نہیں بخشے گا۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے بھائی اور بہن تمہاری حمایت کریں تمہاری سمجھ کی تعریف کریں اور تمہیں داد دیں، لیکن اگر تمہارے پاس حقیقت نہیں ہے تو روح القدس تمہیں نہیں چھوڑے گی۔ شاید عمل پسند خدا تمہاری غلطیاں نہ ڈھونڈے مگر خدا کی روح آپ کی پروا کرنا چھوڑ دے گی اور یہی تمہارے لیے برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو؟ عمل کی حقیقت کے بارے میں زیادہ بات کرو؛ کیا یہ بات تم پہلے ہی بھول گئے ہو؟ عملی راستے کے بارے میں مزید بات کرو، کیا تم پہلے ہی بھول گئے ہو؟ "بلند بانگ نظریات اور فضول اور مبالغہ آرائی پر مبنی باتیں کم سے کم پیش کیا کریں۔ بہترین یہ ہوگا کہ ابھی سے عمل کرنا شروع کردو۔" کیا آپ یہ الفاظ بھول گئے ہو؟ کیا تم بالکل ہی نہیں سمجھتے؟ کیا تمہیں خدا کے ارادوں کی کوئی سمجھ نہیں؟