صرف تکلیف دہ آزمائشوں کا سامنا کرنے سے ہی تم خدا کی دلکشی کو جان سکتے ہو

آج تو خدا سے کتنی محبت کرتا ہے؟ اور خدا نے تجھ میں جو کچھ کیا ہے اس کے بارے میں تو آخر کتنا جانتا ہے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جو تجھے سیکھنی چاہییں۔ جب خُدا زمین پر آتا ہے، تو اُس نے انسان میں جو کچھ کیا ہے اور انسان کو جو دیکھنے کی اجازت دی وہ اس لیے ہے کہ انسان اُس سے محبت کرے گا اور اُسے حقیقی معنوں میں پہچانے گا۔ وہ انسان، ایک لحاظ سے، خدا کی محبت کی وجہ سے، اور دوسرے لحاظ سے، خدا کی نجات کی وجہ سے خدا کے لیے تکلیف اٹھانے کے قابل ہے اور یہاں تک پہنچنے کے قابل ہوا ہے؛ اس کے علاوہ، یہ فیصلے اور تادیب کے کام کی وجہ سے ہے جو خدا نے انسان میں انجام دیا ہے۔ اگر تم خدا کے فیصلے، تادیب اور آزمائش کے بغیر ہو، اور اگر خدا نے تمہیں تکلیف نہیں اٹھانے دی ہے، تو، ایمانداری کی بات یہ ہے کہ تم خدا سے سچی محبت نہیں کرتے۔ انسان میں خُدا کا کام جتنا زیادہ ہوتا ہے، اور انسان کی مصیبت جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنا ہی زیادہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا کا کام کتنا بامعنی ہے، اور اُتنا ہی زیادہ انسان کا دل خُدا سے سچی محبت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ تم خدا سے محبت کرنا کیسے سیکھو گے؟ بغیر اذیت اور تزکیے کے، بغیر تکلیف دہ آزمائشوں کے – اور اگر، اس کے علاوہ، جو کچھ بھی خدا نے انسان کو دیا ہے وہ فضل، محبت اور رحم ہے – تو کیا تو خدا سے حقیقی محبت کرنے کے مقام تک پہنچنے کے قابل ہو گا؟ ایک طرف، خدا کی آزمائشوں کے دوران انسان کو اپنی خامیوں کا علم ہو جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ وہ ادنیٰ، قابلِ ملامت اور عاجز ہے، کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ کچھ بھی نہیں ہے؛ دوسری طرف، خدا اپنی آزمائشوں کے دوران انسان کے لیے مختلف ماحول پیدا کرتا ہے جو انسان کو خدا کی دلکشی کا تجربہ کرنے کے زیادہ قابل بناتے ہیں۔ اگرچہ تکلیف بہت شدید ہے، اور بعض اوقات ناقابل تسخیر ہوتی ہے – یہاں تک کہ کچل دینے والے غم کی سطح تک پہنچ جاتی ہے – اس کا تجربہ کرنے کے بعد، انسان دیکھتا ہے کہ اس میں خدا کا کام کتنا پیارا ہے، اور صرف اسی بنیاد پر انسان میں خدا کے لیے سچی محبت پیدا ہوتی ہے۔ آج انسان دیکھتا ہے کہ صرف خدا کے فضل، محبت اور رحمت سے وہ اپنے آپ کو صحیح معنوں میں جاننے سے عاجز ہے اور اسے انسان کی اصل حققیت کے بارے میں علم ہونے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ صرف خدا کی جانب سے تزکیے اور فیصلے دونوں کے ذریعے، اور خود تزکیے کے عمل کے دوران، انسان اپنی خامیوں کو جان سکتا ہے، اور یہ جان سکتا ہے کہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس طرح، خدا سے انسان کی محبت خدا کی جانب سے تزکیے اور فیصلے کی بنیاد پر استوار ہے۔ اگر تو صرف خدا کے فضل سے، پرامن خاندانی زندگی یا مادی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے، تو پھر تو نے خدا کو حاصل نہیں کیا اور خدا پر تیرا ایمان کامیاب نہیں سمجھا جا سکتا۔ خدا جسمانی طور پر فضل کے دور کے کام کا ایک مرحلہ پہلے ہی انجام دے چکا ہے، اور انسان کو پہلے ہی مادی نعمتوں سے نواز چکا ہے، لیکن انسان کو صرف فضل، محبت اور رحم سے کامل نہیں بنایا جا سکتا۔ انسان کے تجربات میں، وہ خدا کی محبت میں سے کچھ کا سامنا کرتا ہے اور خدا کی محبت اور رحم کو دیکھتا ہے، پھر بھی ایک مدت تک عملی تجربہ کرنے کے بعد، وہ دیکھتا ہے کہ خدا کا فضل اور اس کی محبت اور رحمت انسان کو کامل بنانے سے قاصر ہے، انسان کے اندر کی خرابی کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے، اور انسان کو اس کے بدعنوان مزاج سے چھٹکارا دینے یا اس کی محبت اور ایمان کو کامل کرنے سے قاصر ہے۔ خدا کا فضل کا کام ایک مدت کا کام تھا، اور خدا کو جاننے کے لیے انسان خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔

خدا کی طرف سے انسان کی تکمیل کس طرح پوری ہوتی ہے؟ یہ اُس کے راستباز مزاج کے ذریعے پوری ہوتی ہے۔ خدا کا مزاج بنیادی طور پر راستبازی، غضب، عظمت، فیصلے اور لعنت پر مشتمل ہے اور وہ بنیادی طور پر اپنے فیصلے کے ذریعے انسان کو کامل کرتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھ نہیں پاتے، اور پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ خدا صرف فیصلے اور لعنت کے ذریعے ہی انسان کو کامل بنانے پر قادر ہے۔ وہ کہتے ہیں، "اگر خدا انسان پر لعنت بھیجتا تو کیا انسان مر نہ جاتا؟ اگر خدا انسان کا فیصلہ کرتا تو کیا انسان کو سزا نہ دی جاتی؟ پھر وہ کیسے ابھی بھی کامل بنایا جا سکتا ہے؟" یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو خدا کے کام کو نہیں جانتے۔ خدا جس چیز پر لعنت بھیجتا ہے وہ انسان کی نافرمانی ہے اور جس چیز کا وہ فیصلہ کرتا ہے وہ انسان کے گناہ ہیں۔ اگرچہ وہ درشتی اور مسلسل سختی سے بولتا ہے، لیکن وہ انسان کے اندر موجود تمام چیزوں کو ظاہر کرتا ہے، ان سخت الفاظ کے ذریعے اس کو ظاہر کرتا ہے جو انسان کے اندر موجود ہے، پھر بھی اس طرح کے فیصلے کے ذریعے، وہ انسان کو جسم کی اصل حقیقت کا گہرا علم دیتا ہے اور اس طرح انسان خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے۔ انسان کا جسم گناہ اور شیطان کا ہے، یہ نافرمان ہے، اور یہ خدا کی سزا کا ہدف ہے۔ لہٰذا، انسان کو اپنے آپ کو جاننے کی اجازت دینے کے لیے، خدا کے فیصلے کے الفاظ اس پر لازمی اثر کرنے چاہییں اور اس میں ہر قسم کے تزکیے کا استعمال ہونا چاہیے؛ تب ہی خدا کا کام موثر ہو سکتا ہے۔

خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ پہلے ہی انسان کے جسم کی مذمت کر چکا ہے۔ تو کیا یہ الفاظ لعنت کے الفاظ نہیں ہیں؟ خدا کی طرف سے کہے گئے الفاظ انسان کے حقیقی رنگ کو ظاہر کرتے ہیں، اور اس طرح کے الہام کے ذریعے اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اور جب وہ دیکھتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے سے قاصر ہے، تو وہ اندر ہی اندر غم اور پچھتاوا محسوس کرتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ خدا کا بہت مقروض ہے، اور خدا کی مرضی کو حاصل نہیں کر سکتا۔ ایسے اوقات ہوتے ہیں جب روح القدس تجھے اندر سے منظم کرتی ہے، اور یہ نظم و ضبط خدا کے فیصلے سے آتا ہے؛ بعض اوقات خدا تجھے ملامت کرتا ہے اور اپنا چہرہ تجھ سے چھپا لیتا ہے، جب وہ تجھ پر کوئی توجہ نہیں دیتا ہے اور تیرے اندر کام نہیں کرتا ہے، وہ تجھے بہتر بنانے کے لیے خاموشی سے تیری تادیب کرتا ہے۔ انسان میں خُدا کا کام بنیادی طور پر اُس کے راست مزاج کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ انسان خدا کے سامنے آخر کیا گواہی دیتا ہے؟ انسان گواہی دیتا ہے کہ خدا راستباز خدا ہے، اس کا مزاج راستبازی، غضب، تادیب، اور فیصلہ ہے؛ انسان خدا کے راست مزاج کی گواہی دیتا ہے۔ خُدا اپنے فیصلے کو انسان کو کامل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے، اُس نے انسان سے پیار کیا ہے، اور انسان کو بچایا ہے – لیکن اُس کی محبت میں کتنا کچھ شامل ہے؟ اس میں فیصلہ، عظمت، غضب اور لعنت موجود ہیں۔ اگرچہ ماضی میں خدا نے انسان پر لعنت بھیجی تھی، لیکن اس نے انسان کو مکمل طور پر اتھاہ گڑھے میں نہیں ڈالا، بلکہ اس ذریعے کو انسان کے ایمان کا تزکیہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے انسان کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا بلکہ انسان کو کامل بنانے کے لیے کام کیا۔ جسم کا مادّہ وہ ہے جو شیطان کا ہے – خدا نے یہ بالکل ٹھیک کہا – لیکن خدا کی طرف سے انجام دیے گئے حقائق اس کے الفاظ کے مطابق مکمل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ تجھ پر لعنت بھیجتا ہے تاکہ تو اس سے محبت کر سکے، اور تاکہ تو جسم کی اصل حقیقت کو جان سکے؛ وہ تیری تادیب کرتا ہے تاکہ تو بیدار ہو سکے، تو اپنی اندرونی خامیوں کو جان سکے، اور انسان کی سراسر نااہلی کو جان سکے – اس طرح، خدا کی لعنت، اس کا فیصلہ، اور اس کی عظمت اور غضب – یہ سب انسان کو کامل بنانے کے لیے ہیں۔ جو کچھ خدا آج کرتا ہے، اور وہ راستباز مزاج جو وہ تمہارے اندر واضح کرتا ہے – یہ سب انسان کو کامل بنانے کے لیے ہے۔ خدا کی محبت ایسی ہوتی ہے۔

انسان اپنے روایتی تصورات میں، یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا کی محبت اس کا فضل، رحم اور ہمدردی انسان کی کمزوری کے لیے ہے۔ اگرچہ یہ چیزیں خدا کی محبت بھی ہیں، لیکن یہ بہت یک طرفہ ہیں، اور یہ وہ بنیادی ذرائع نہیں ہیں جن کے ذریعے خدا انسان کو کامل بناتا ہے۔ کچھ لوگ بیماری کی وجہ سے خدا کو ماننے لگتے ہیں۔ یہ بیماری تیرے لیے خدا کا فضل ہے۔ اس کے بغیر تو خدا کو نہ مانتا اور اگر تو خدا کو نہ مانتا تو تُو یہاں تک نہ پہنچتا – اور اس طرح یہ فضل بھی خدا کی محبت ہے۔ یسوع پر ایمان لانے کے زمانے میں لوگوں نے بہت کچھ ایسا کیا جو خدا کو ناپسند تھا کیونکہ وہ سچائی کو نہیں سمجھتے تھے، پھر بھی خدا کے پاس محبت اور رحم ہے، اور وہ انسان کو یہاں تک لے آیا ہے، اور اگرچہ انسان کچھ نہیں سمجھتا، پھر بھی خدا انسان کو اپنی پیروی کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور اس کے علاوہ، اس نے آج کے وقت تک انسان کی راہنمائی کی ہے۔ کیا یہ خدا کی محبت نہیں ہے؟ جو خدا کے مزاج میں ظاہر ہوتا ہے وہ خدا کی محبت ہے – یہ بالکل صحیح ہے! جب کلیسیا کی تعمیر اپنے عروج پر پہنچی تو خدا نے خدمت گزاروں کے کام کا مرحلہ انجام دیا اور انسان کو اتھاہ گڑھے میں ڈال دیا۔ خدمت کرنے والوں کے زمانے کے الفاظ سب لعنتیں تھیں: تیرے جسم کی لعنتیں، تیرے شیطانی مزاج کی لعنتیں، اور تیرے بارے میں ان چیزوں کی لعنتیں جو خدا کی مرضی کو پورا نہیں کرتیں۔ اس مرحلے میں خدا کی طرف سے جو کام کیا گیا وہ عظمت کے طور پر ظاہر ہوا، جس کے بعد جلد ہی خدا نے تادیب کے کام کا مرحلہ انجام دیا اور پھر موت کی آزمائش آئی۔ ایسے کام میں انسان نے خدا کا غضب، عظمت، فیصلہ اور تادیب کو دیکھا، لیکن اس نے خدا کا فضل، اس کی محبت اور اس کی رحمت بھی دیکھی۔ جو کچھ خدا نے کیا، اور جو کچھ اس کے مزاج کے طور پر ظاہر ہوا، وہ سب خدا کی انسان سے محبت تھی، اور جو کچھ خدا نے کیا وہ انسان کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل تھا۔ اس نے یہ کام انسان کو کامل بنانے کے لیے کیا، اور اس نے انسان کو اس کی حیثیت کے مطابق مہیا کیا۔ اگر خدا نے ایسا نہ کیا ہوتا تو انسان خدا کے سامنے آنے سے قاصر رہتا اور خدا کے حقیقی چہرے کو جاننے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا۔ جس وقت سے انسان نے خدا کو ماننا شروع کیا اس وقت سے لے کر آج تک خدا نے آہستہ آہستہ انسان کے لیے انسان کی حیثیت کے مطابق انتظامات کیے ہیں، یہاں تک کہ اندرونی طور پر انسان آہستہ آہستہ اس کو پہچاننے لگ گیا ہے۔ آج کے وقت تک پہنچنے کے بعد ہی انسان کو احساس ہوتا ہے کہ خدا کا فیصلہ کتنا کمال کا ہے۔ خدمت گاروں کے کام کا مرحلہ زمانہ تخلیق سے لے کر آج تک لعنت کے کام کا پہلا واقعہ تھا۔ انسان اتھاہ گڑھے میں ملعون تھا۔ اگر خدا نے ایسا نہ کیا ہوتا تو آج، انسان کو خدا کا صحیح علم نہ ہوتا؛ یہ صرف خدا کی لعنت کے ذریعے تھا کہ انسان کو باضابطہ طور پر اس کے مزاج کا سامنا کرنا پڑا۔ خدمت گاروں کی آزمائش سے انسان ظاہر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی وفاداری ناقابل قبول تھی، کہ اس کی حیثیت بہت کم تھی، کہ وہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے قابل نہیں تھا، اور یہ کہ ہر وقت خدا کو راضی کرنے کے اس کے دعوے الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ اگرچہ خدا نے خدمت گاروں کے کام کے مرحلے میں انسان پر لعنت بھیجی تھی لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو خدا کے کام کا وہ مرحلہ شاندار تھا: یہ انسان کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ لے کر آیا، اور اس کی زندگی کے مزاج میں بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنا۔ خدمت گاروں کے زمانے سے پہلے، انسان کو زندگی کے حصول کی کوشش کی کچھ سمجھ نہ آئی، نہ ہی یہ کہ خدا پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے، یا خدا کے کام کی حکمت کیا ہے، اور نہ ہی اس نے یہ سمجھا کہ خدا کا کام انسان کا امتحان لے سکتا ہے۔ خدمت گاروں کے زمانے سے لے کر آج تک انسان دیکھتا ہے کہ خدا کا کام کتنا حیرت انگیز ہے – یہ انسان کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ انسان یہ تصور کرنے سے قاصر ہے کہ خدا اپنے دماغ کو استعمال کر کے کیسے کام کرتا ہے، اور وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی حیثیت کتنی کم ہے اور اس میں بہت زیادہ نافرمانی ہے۔ جب خدا نے انسان پر لعنت کی، تو یہ ایک اثر حاصل کرنے کے لیے تھی، اور اس نے انسان کو موت نہیں دی۔ اگرچہ اُس نے انسان پر لعنت بھیجی، لیکن اُس نے الفاظ کے ذریعے ایسا کیا، اور اُس کی لعنت کا اثر درحقیقت انسان پر نہیں پڑا، کیونکہ خدا نے جس چیز پر لعنت بھیجی وہ انسان کی نافرمانی تھی، اور اسی طرح اس کی لعنت کے الفاظ بھی انسان کو کامل بنانے کے لیے کہے گئے۔ چاہے خدا انسان کا فیصلہ کرتا ہے یا اس پر لعنت بھیجتا ہے، دونوں ہی انسان کو کامل بناتے ہیں: یہ دونوں اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ انسان کے اندر جو آلودگی ہے، اسے دور کیا جائے۔ اس کے ذریعے سے انسان کا تزکیہ ہوتا ہے اور انسان کے اندر جو کمی ہے وہ خدا کے قول و فعل سے کامل ہو جاتی ہے۔ خدا کے کام کا ہر مرحلہ – خواہ وہ سخت الفاظ ہوں، یا فیصلہ، یا تادیب – انسان کو کامل بناتا ہے، اور بالکل مناسب ہے۔ تمام ادوار کے دوران خدا نے ایسا کام کبھی نہیں کیا۔ آج، وہ تمہارے اندر کام کرتا ہے تاکہ تم اس کی حکمت کی قدر کرو۔ اگرچہ تمہیں اپنے اندر کچھ تکلیف ہوئی ہے، تمہارے دل غیر مذبزب ہیں اور سکون محسوس کرتے ہیں؛ خدا کے کام کے اس مرحلے میں یہ تمہارے لیے برکت ہے کہ تم اس سے لطف اندوز ہو سکو۔ اس سے قطع نظر کہ تم مستقبل میں کیا حاصل کر سکتے ہو، آج تم اپنے اندر خدا کے کام کے بارے میں جو کچھ دیکھتے ہو وہ محبت ہے۔ اگر انسان خدا کے فیصلے اور تزکیے کا عملی تجربہ نہیں کرتا ہے، تو اس کے اعمال اور جذبہ ہمیشہ سطحی سطح پر رہے گا، اور اس کا مزاج ہمیشہ غیر متغیر رہے گا۔ کیا اسے خدا کی طرف سے حاصل کیا گیا سمجھا جا سکتا ہے؟ آج، اگرچہ انسان کے اندر ابھی بھی بہت کچھ ہے جو مغرور اور متکبر ہے، لیکن انسان کا مزاج پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ تیرے ساتھ خدا کا معاملہ تجھے بچانے کے لیے کیا جاتا ہے، اور اگرچہ تجھے اس وقت کچھ تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن وہ دن آئے گا جب تیرے مزاج میں تبدیلی واقع ہو گی۔ اس وقت، تو پیچھے مڑ کر دیکھے گا کہ خدا کا کام کتنا دانشمندانہ ہے، اور اس وقت تو خدا کی مرضی کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے گا۔ آج، کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ خدا کی مرضی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس میں زیادہ حقیقت نہیں ہے۔ درحقیقت وہ جھوٹ بول رہے ہیں، کیونکہ فی الحال وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ خدا کی مرضی انسان کو بچانا ہے یا انسان پر لعنت بھیجنا۔ شاید تو اسے اب صاف طور پر نہیں دیکھ سکتا ہے، لیکن وہ دن آئے گا جب تو دیکھے گا کہ وہ دن آ گیا ہے جب خدا جاہ وجلال حاصل کرتا ہے، اور تو دیکھے گا کہ خدا سے محبت کرنا کتنا بامعنی ہے، تاکہ تجھے انسانی زندگی کا پتہ چل جائے اور تیرا جسم محبت کرنے والے خدا کی دنیا میں رہے، تاکہ تیری روح آزاد ہو جائے، تیری زندگی خوشیوں سے بھرپور ہو، اور تو ہمیشہ خدا کے قریب رہے اور اس کی طرف دیکھے۔ اُس وقت، تو واقعی جان لے گا کہ خدا کا آج کا کام کتنا قیمتی ہے۔

آج، زیادہ تر لوگوں کو یہ علم نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مصائب کی کوئی اہمیت نہیں ہے، دنیا نے انہیں چھوڑ دیا ہے، ان کی گھریلو زندگی پریشان ہے، وہ خدا کے پیارے نہیں ہیں، اور ان کے امکانات تاریک ہیں۔ کچھ لوگوں کی مصیبت ایک انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور ان کے خیالات موت کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ یہ خدا سے سچی محبت نہیں ہے؛ ایسے لوگ بزدل ہیں، ان میں استقامت نہیں ہے، یہ کمزور اور بے اختیار ہیں! خُدا بے تاب ہے کہ انسان اُس سے محبت کرے، لیکن جتنا زیادہ انسان اس سے محبت کرتا ہے، انسان کی مصیبت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، اور جتنا زیادہ انسان اس سے محبت کرتا ہے، انسان کی آزمائشیں اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر تو اس سے محبت کرتا ہے، تو تجھ پر ہر قسم کی مصیبت آئے گی اور اگر تو محبت نہیں کرتا ہے، تو پھر شاید تیرے لیے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور تیرے آس پاس سب کچھ پُر امن ہوگا۔ جب تو خدا سے محبت کرتا ہے، تو تُو محسوس کرے گا کہ تیرے ارد گرد بہت کچھ ناقابل تسخیر ہے، اور تیرا تزکیہ کیا جائے گا کیونکہ تیری حیثیت بہت کم ہے؛ مزید یہ کہ، تو خدا کو راضی کرنے سے قاصر ہو گا، اور تو ہمیشہ محسوس کرے گا کہ خدا کی مرضی بہت بلند ہے، کہ یہ انسان کی پہنچ سے باہر ہے۔ ان سب کی وجہ سے تیرا تزکیہ کیا جائے گا – کیونکہ تیرے اندر بہت زیادہ کمزوری ہے، اور بہت کچھ ہے جو خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے، تیرا اندرونی طور پر تزکیہ کیا جائے گا۔ پھر بھی تمہیں واضح طور پر دیکھنا چاہیے کہ پاکیزگی صرف تزکیے کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ لہذا، ان آخری ایام کے دوران تجھے خدا کی گواہی لازمی دینا ہوگی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تیری مصیبت کتنی بڑی ہے، تجھے آخر تک چلنا چاہیے، حتیٰ کہ اپنی آخری سانس تک، پھر بھی تجھے خدا اور خدا کی رحمت کا لازمی وفادار رہنا چاہیے؛ صرف یہی خدا سے سچی محبت کرنا ہے، اور صرف یہی مضبوط اور واضح گواہی ہے۔ جب تجھے شیطان کی طرف سے ترغیب دی جاتی ہے، تو تجھے کہنا چاہیے: "میرا دل خدا کا ہے، اور خدا نے مجھے پہلے ہی حاصل کر لیا ہے۔ میں تجھے مطمئن نہیں کر سکتا – مجھے اپنا سب کچھ خدا کو راضی کرنے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔" جتنا تو خدا کو راضی کرے گا، اتنی زیادہ خدا تجھے برکت دے گا اور تیری خدا سے محبت کی طاقت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ لہذا، تجھے بھی یقین اور عزم حاصل ہو گا، اور تو یہ محسوس کرے گا کہ خدا سے محبت کرتے ہوئے گزاری جانے والی زندگی سے زیادہ قابل یا اہم کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو غم کے بغیر رہنے کے لیے خدا سے محبت کرنی ہے۔ اگرچہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب تیرا جسم کمزور ہوتا ہے اور تجھے بہت سی حقیقی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان اوقات کے دوران تو واقعی خدا پر بھروسہ کرے گا، اور تجھے اپنی روح کے اندر تسلی ملے گی، اور تو یقین محسوس کرے گا، اور یہ کہ تیرے پاس انحصار کرنے کے لیے کچھ ہے۔ اس طرح، تو بہت سے حالات پر قابو پانے کے قابل ہو جائے گا، اور اس طرح تو شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خدا سے شکایت نہیں کرے گا۔ اس کی بجائے، تو گانا، ناچنا، اور دعا کرنا چاہے گا، اکٹھے ہونا اور بات چیت کرنا چاہے گا، خُدا کو سوچنا چاہے گا، اور تو محسوس کرے گا کہ تیرے آس پاس کے تمام لوگ، معاملات اور چیزیں جو خُدا کی طرف سے ترتیب دی گئی ہیں، موزوں ہیں۔ اگر تو خدا سے محبت نہیں کرتا ہے، تو تُو جو کچھ دیکھے گا وہ تیرے لیے پریشان کن ہوگا اور کوئی چیز تیری آنکھوں کے لیے خوشنما نہیں ہو گی؛ تو اپنی روح میں آزاد نہیں ہو گا بلکہ مجبور ہو گا، تیرا دل ہمیشہ خدا کے بارے میں شکایت کرتا رہے گا، اور تو ہمیشہ یہ محسوس کرے گا کہ تو بہت زیادہ اذیت میں ہے، اور یہ بہت ناانصافی ہے۔ اگر تو خوشی کی خاطر نہیں بلکہ خدا کو راضی کرنے اور شیطان کی طرف سے الزام نہ لگوانے کے لیے کوشش کرتا ہے تو اس طرح کی کوشش تجھے خدا سے محبت کرنے کی بہت طاقت دے گی۔ انسان خدا کی طرف سے کہی گئی تمام باتوں پر عمل کرنے کے قابل ہے، اور جو سب کچھ وہ کرتا ہے وہ خدا کو راضی کرنے کے قابل ہے – حقیقت کا حامل ہونے کا یہی مطلب ہے۔ خُدا کا اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرنا خدا کے لیے اپنی محبت کو اُس کے کلام پر عمل کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ وقت سے قطع نظر – حتیٰ کہ جب دوسروں کے پاس طاقت نہ ہو – تیرے اندر اب بھی ایک ایسا دل ہے جو خدا سے محبت کرتا ہے، جو خدا کی شدید خواہش رکھتا ہے اور اسے یاد کرتا ہے۔ یہ حقیقی حیثیت ہے۔ تیری حیثیت کتنی بڑی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تیری خدا سے محبت کتنی عظیم ہے، اس بات پر ہے کہ کیا تو آزمائش کے وقت ثابت قدم رہ سکتا ہے، جب تجھے کسی خاص معاملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا تو کمزور ہوتا ہے، اور جب تیرے بھائی اور بہنیں تجھے مسترد کرتے ہیں تو کیا تو ثابت قدم رہ سکتا ہے؛ حقائق کی آمد سے یہ ظاہر ہو جائے گا کہ تیری خدا سے محبت کیسی ہے۔ خدا کے بہت سے کاموں سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ خدا واقعی انسان سے محبت کرتا ہے، حالانکہ انسان کی روح کی آنکھیں ابھی پوری طرح سے کھلی نہیں ہیں اور وہ خدا کے بہت سے کام اور اس کی مرضی، اور بہت سی چیزیں جو خدا کے بارے میں پیاری ہیں، کو واضح طور پر دیکھنے سے قاصر ہے؛ انسان کو خدا سے سچی محبت بہت کم ہے۔ تیرا اس تمام عرصے میں خدا پر ایمان رہا ہے، اور آج خدا نے فرار کے تمام راستے منقطع کردیے ہیں۔ حقیقت پسندانہ طور پر بات کرتے ہوئے، تیرے پاس صحیح راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، وہ صحیح راستہ جس کی طرف تیری راہنمائی خدا کے سخت فیصلے اور اعلیٰ ترین نجات کے ذریعے کی گئی ہے۔ سخت مشکلات اور تزکیے کے عملی تجربے کے بعد ہی انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا پیارا ہے۔ آج تک کا عملی تجربہ کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کو خدا کی خوبصورتی کا کچھ حصہ معلوم ہو گیا ہے، لیکن یہ اب بھی کافی نہیں ہے، کیونکہ انسان میں بہت کمی ہے۔ انسان کو خُدا کے حیرت انگیز کاموں کا اور خُدا کی طرف سے ترتیب دیے گئے سب مصائب کے تزکیے میں سے مزید کا عملی تجربہ لازمی کرنا چاہیے۔ تب ہی انسان کی زندگی کا مزاج بدل سکتا ہے۔

سابقہ: جنھیں کامل بنایا جانا ہے، انھیں لازماً تطہیر سے گزرنا ہوگا

اگلا: صرف خدا سے محبت کرنا ہی خدا پر سچا ایمان رکھنا ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp