خدا کو اپنے تصورات میں محدود کرنے والا انسان خدا کے الہام کو کیسے موصول کر سکتا ہے؟
خدا کا کام ہمیشہ پیشرفت کرتا رہتا ہے، اگرچہ اس کے کام کا مقصد نہیں بدلتا لیکن اس کے کام کا طریقہ مسلسل بدلتا رہتا ہے یعنی جو لوگ خدا کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ خدا جتنا زیادہ کام کرتا ہے، خدا کے بارے میں انسان کا علم اتنا ہی مکمل ہوتا ہے۔ خدا کے کام کے نتیجے میں انسان کے مزاج میں بھی موافق تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن چونکہ خُدا کا کام ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اس لیے جو لوگ روح القدس کے کام کو نہیں جانتے اور وہ فضول لوگ جو سچائی کو نہیں جانتے وہ خُدا کی مخالفت کرنے والے بن جاتے ہیں۔ خدا کا کام کبھی بھی انسان کے تصورات کے مطابق نہیں ہوتا کیونکہ اس کا کام ہمیشہ نیا ہوتا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا اور وہ کبھی پرانے کام کو نہیں دہراتا بلکہ اس کام کو آگے بڑھاتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ چونکہ خُدا اپنے کام کو نہیں دہراتا اور انسان تغیر کے بغیر خدا کے موجودہ کام کو ماضی میں کیے گئے کام سے جانچتا ہے، اِس لیے نئے زمانے کے کام کے ہر مرحلے کو انجام دینا خُدا کے لیے بے حد مشکل ہو گیا ہے۔ انسان کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں! وہ اپنی سوچ میں بہت ہی قدامت پسند ہے! خدا کے کام کو کوئی نہیں جانتا، پھر بھی ہر کوئی اس کی حد بندی کرتا ہے۔ جب انسان خدا کو چھوڑ دیتا ہے وہ زندگی، سچائی اور خدا کی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے، پھر وہ نہ تو زندگی کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی سچائی کو، خدا کی بنی نوع انسان کو عطا کی گئی عظیم تر نعمتوں کو قبول کرنے کا امکان تو اور بھی کم ہے۔ تمام لوگ خدا کو پانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن خدا کے کام میں کسی قسم کی تبدیلی کو برداشت نہیں کر پاتے۔ جو لوگ خدا کے نئے کام کو قبول نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ خدا کا کام غیر متغیر ہے اور یہ کہ یہ ہمیشہ ایک جگہ پر ٹہرا رہتا ہے۔ اُن کے عقیدے میں، خُدا سے ابدی نجات حاصل کرنے کے لیے جو کچھ بھی مطلوب ہے وہ قانون کی پابندی کرنا ہے اور جب تک وہ توبہ کرتے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں، خُدا ان سے راضی رہے گا۔ ان کا خیال ہے کہ خدا صرف قانون کے تحت خدا ہو سکتا ہے نیز وہ خدا ہو سکتا ہے، جسے انسان کے لیے مصلوب کیا گیا تھا۔ ان کی یہ بھی رائے ہے کہ خدا کو انجیل سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور وہ تجاوز نہیں کر سکتا۔ یہ وہ آراء ہیں جنھوں نے انھیں پرانے قوانین کے ساتھ مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے اور انھیں مردہ اصولوں کا پابند کر دیا ہے۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ خدا کا نیا کام جو بھی ہو، اسے پیشین گوئیوں سے ثابت کیا جانا چاہییے اور یہ کہ اس طرح کے کام کے ہر مرحلے میں، ان تمام لوگوں کو بھی، جو "سچے" دل سے اس کی پیروی کرتے ہیں، الہامات دکھائے جائیں؛ وگرنہ ایسا کام خدا کا کام نہیں ہو سکتا۔ انسان کے لیے خدا کی معرفت حاصل کرنا پہلے ہی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ علاوہ ازیں انسان کے نامعقول دل اور خود فریبی اور خود پسندی کی باغیانہ فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کے لیے خدا کے نئے کام کو قبول کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انسان نہ تو خدا کے نئے کام کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتا ہے اور نہ ہی اسے عاجزی سے قبول کرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ حقارت کا رویہ اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے انکشافات اور ہدایت کا منتظر ہوتا ہے۔ کیا یہ ان لوگوں کا طرز عمل نہیں ہے جو خدا کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کرتے ہیں؟ ایسے لوگ خدا کی رضا کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
یسوع نے کہا کہ یہوواہ کا کام فضل کے دور میں پیچھے رہ گیا تھا، جیسا کہ میں آج کہتا ہوں کہ یسوع کا کام بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ اگر صرف قانون کا دور ہوتا، فضل کا دور نہ ہوتا تو یسوع کو مصلوب نہیں کیا جاتا اور تمام بنی نوع انسان کو نجات نہ ملتی۔ اگر صرف قانون کا دور ہوتا تو کیا نوع انسانی کبھی بھی یہاں تک پہنچ سکتی تھی؟ تاریخ آگے بڑھتی ہے اور کیا تاریخ خدا کے کام کا فطری قانون نہیں ہے؟ کیا یہ پوری کائنات میں انسان کے بارے میں اس کی حکمت عملی کی عکاس نہیں ہے؟ تاریخ آگے بڑھتی ہے اور اسی طرح خدا کا کام بھی۔ خدا کی مرضی مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ وہ چھ ہزار سال تک کام کے ایک مرحلے پر نہیں رہ سکتا تھا کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں، خدا ہمیشہ سے نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا اور وہ ممکنہ طور پر صلیب پر ایک بار، دو بار، تین بار مصلوب ہو کر مصلوب کیے جانے جیسے کام کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔۔۔۔ اس طرح سوچنا مضحکہ خیز ہوگا۔ خدا ایک ہی کام نہیں کرتا رہتا؛ اس کا کام ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور ہمیشہ نیا ہوتا ہے، جیسا کہ میں تم سے نئے الفاظ کہتا ہوں اور ہر روز نیا کام کرتا ہوں۔ میں یہی کام کرتا ہوں، اور کلید کیا ہے "نیا" اور "حیرت انگیز" کے الفاظ ہیں۔ "خدا غیر متغیر ہے اور خدا ہمیشہ خدا رہے گا": یہ قول واقعی سچ ہے۔ خدا کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، خدا ہمیشہ خدا ہے اور وہ کبھی شیطان نہیں بن سکتا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا کام اس کی حقیقت کی طرح مستقل اور غیر متغیر ہے۔ تو خدا کو غیر متغیر قرار دیتا ہے لیکن پھر، تو یہ کیسے بیان کر سکتا ہے کہ خدا ہمیشہ نیا ہے اور کبھی پرانا نہیں ہوتا؟ خدا کا کام مسلسل پھیلتا اور مسلسل بدلتا رہتا ہے اور اس کی مرضی مسلسل ظاہر ہوتی رہتی ہے اور انسان کے علم میں لائی جاتی ہے۔ جیسے جیسے انسان خدا کے کام کا تجربہ کرتا ہے، بغیر کسی رکاوٹ کے، اس کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اسی طرح اس کا علم بھی۔ تو پھر یہ تبدیلی کہاں سے آتی ہے؟ کیا یہ خدا کے ہمیشہ بدلنے والے کام سے نہیں ہے؟ اگر انسان کا مزاج بدل سکتا ہے تو انسان میرے کام اور میرے کلام کو مسلسل بدلنے کی اجازت کیوں نہیں دے سکتا؟ کیا مجھے انسان کی پابندیوں سے مشروط ہونا چاہیے؟ اس میں کیا تو جبری دلائل اور گمراہ کن منطق استعمال نہیں کر رہا ہے؟
دوبارہ جی اٹھنے کے بعد، یسوع شاگردوں پر ظاہر ہوا اور کہا: "اور دیکھو جِس کا میرے باپ نے وعدہ کِیا ہے مَیں اُس کو تُم پر نازِل کرُوں گا لیکن جب تک عالَمِ بالا سے تُم کو قُوّت کا لِباس نہ مِلے اِس شہر میں ٹھہرے رہو۔" کیا تو جانتا ہے کہ ان الفاظ کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ کیا تو اب اس کی قدرت کا حامل ہو گیا ہے؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ "طاقت" سے کیا مراد ہے؟ یسوع نے اعلان کیا کہ آخری ایام میں انسان کو سچائی کی روح عطا کی جائے گی۔ آخری ایام آچکے ہیں؛ کیا تو سمجھتا ہے کہ سچائی کی روح الفاظ کا اظہار کیسے کرتی ہے؟ سچائی کی روح کہاں ظاہر ہوتی اور کام کرتی ہے؟ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی کی کتاب میں کبھی بھی اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ یسوع نامی بچہ عہد نامہ جدید کے زمانے میں پیدا ہوگا؛ صرف یہ لکھا ہوا تھا کہ عمانوئيل نامی شیرخوار بچہ پیدا ہوگا۔ "یسوع" نام کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ عہد نامہ قدیم میں بھی یہ نام کہیں نہیں آیا ہے تو پھر، تو اب بھی یسوع پر کیوں یقین رکھتا ہے؟ یقیناً تو نے یسوع کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس پر ایمان لانا شروع نہیں کیا، کیا تو نے ایسا کیا؟ یا تو نے الہام ہونے پر ایمان لانا شروع کیا؟ کیا خدا واقعی تجھ پر ایسا فضل کرے گا؟ کیا وہ تجھے اس طرح کی عظیم نعمتوں سے نوازے گا؟ یسوع پر تیرے ایمان کی بنیاد کیا ہے؟ تو یہ بات کیوں نہیں مانتا کہ خدا آج مجسم ہو گیا ہے؟ تو یہ کیوں کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے تجھ پر الہام کا نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مجسم نہیں ہوا ہے؟ کیا خدا کو اپنا کام شروع کرنے سے پہلے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے؟ کیا اسے پہلے لوگوں سے اجازت حاصل کرنی چاہیے؟ یسعیاہ نے محض یہ اعلان کیا تھا کہ ایک نر شیر خوار کُھرلی میں پیدا ہوگا؛ اس نے کبھی یہ پیشین گوئی نہیں کی کہ مریم یسوع کو جنم دے گی۔ مریم سے پیدا ہونے والے یسوع پر تیرے عقیدے کی بنیاد کیا ہے؟ کیا واقعی تیرے عقیدے میں کوئی خلل نہیں ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا کا نام نہیں بدلتا۔ تو پھر، یہوواہ کا نام یسوع کیوں ہو گیا؟ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ مسیح آئے گا تو پھر یسوع نام کا آدمی کیوں آیا؟ خدا کا نام کیوں بدلا؟ کیا ایسا کام بہت پہلے نہیں ہوا تھا؟ کیا خدا آج کوئی نیا کام نہیں کر سکتا؟ کل کے کام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور یسوع کے کام کو یہوواہ کے کام سے آگے جاری رکھا جا سکتا ہے۔ تو کیا یسوع کے کام کے بعد اور کام نہیں آسکتا؟ اگر یہوواہ کا نام بدل کر یسوع رکھا جا سکتا ہے تو کیا یسوع کا نام بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا؟ اس میں کچھ بھی عجیب نہیں ہے؛ بات یہ ہے کہ لوگ بہت سادہ لوح ہیں۔ خدا ہمیشہ خدا رہے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا کام کیسے بدلتا ہے اور اس سے بھی قطع نظر کہ اس کا نام کیسے بھی بدل جائے، اس کی فطرت اور حکمت کبھی نہیں بدلے گی۔ اگر تیرے خیال میں خدا کو صرف یسوع کے نام سے پکارا جا سکتا ہے، تو پھر تیرا علم بہت محدود ہے۔ کیا تو یہ کہنے کی جرات کرتا ہے کہ یسوع ابد تک خدا کا نام رہے گا اور یہ کہ خدا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یسوع نام اختیار کرے گا اور یہ کہ یہ کبھی نہیں بدلے گا؟ کیا تو یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ یہ یسوع کا نام ہے جس نے قانون کے دور کو مکمل کیا اور آخری دور بھی مکمل کرے گا؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یسوع کا فضل ایک دور کو ختم کرے گا؟ اگر تو ان سچائیوں کی واضح تفہیم سے محروم ہے تو نہ صرف تو بشارت کی منادی کرنے کے قابل نہیں رہ پائے گا بلکہ تو خود بھی ثابت قدم نہیں رہ پائے گا۔ جب وہ دن آئے گا جس دن تو ان مذہبی لوگوں کی تمام مشکلات دور کرے گا اور ان کے تمام مغالطوں کی تردید کرے گا تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ تو کام کے اس مرحلے کے بارے واضح طور پر یقین کا حامل ہے اور تجھے ذرا سا بھی شک نہیں ہے۔ اگر تو ان کے مغالطوں کو دور کرنے سے قاصر ہے تو وہ تجھ کو پھنسائیں گے اور تجھ پر بہتان تراشی کریں گے۔ کیا یہ موجب رسوائی نہیں ہوگا؟
تمام یہودی عہد نامہ قدیم کو پڑھتے تھے اور یسعیاہ کی پیشین گوئی کے بارے میں جانتے تھے کہ ایک نر بچہ کُھرلی میں پیدا ہوگا۔ اس پیشین گوئی سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود، انھوں نے یسوع کو کیوں ستایا؟ کیا یہ ان کی باغیانہ فطرت اور روح القدس کے کام سے لاعلمی کی وجہ سے نہیں تھا؟ اس وقت، فریسیوں کا خیال تھا کہ یسوع کا کام اس سے مختلف تھا جو وہ پیشین گوئی میں بیان کردہ نر بچے کے بارے میں جانتے تھے اور آج لوگ خدا کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ مجسم خدا کا کام انجیل کے مطابق نہیں ہے۔ کیا خدا کی طرف ان کی سرکشی کا جوہر یکساں نہیں ہے؟ کیا تو روح القدس کے تمام کاموں کو بغیر کسی سوال کے قبول کر سکتا ہے؟ اگر یہ روح القدس کا کام ہے تو یہ درست دھارے میں ہے اور تجھے بغیر کسی شک و شبہ کے اسے قبول کرنا چاہیے، کیا قبول کرنا ہے، یہ تجھے اخذ اور منتخب نہیں کرنا چاہییے۔ اگر تو خدا کے بارے میں زیادہ بصیرت حاصل کرتا ہے اور اس کے بارے میں زیادہ محتاط رہتا ہے تو کیا یہ غیر مطلوب نہیں ہے؟ تجھے انجیل سے مزید ثبوت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اگر یہ روح القدس کا کام ہے تو تجھے اسے قبول کرنا چاہیے کیونکہ تو خدا کی اتباع کے لیے خدا پر یقین رکھتا ہے لہٰذا تجھے اس کی تفتیش نہیں کرنی چاہیے۔ تجھے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں تیرا خدا ہوں میرے بارے میں مزید ثبوت تلاش نہیں کرنا چاہییں بلکہ یہ امتیاز کرنے کا اہل ہونا چاہیے کہ آیا میں تیرے لیے فائدہ بخش ہوں یا نہیں – یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہاں تک کہ اگر تجھے انجیل میں بہت زیادہ ناقابل تردید شواہد مل بھی جائیں تو بھی یہ تجھ کو مکمل طور پر میرے سامنے نہیں لا سکتے کیونکہ تو صرف انجیل کی حدود میں رہتا ہے، میرے حضور نہیں؛ انجیل مجھے جاننے میں تیری مدد نہیں کر سکتی اور نہ ہی یہ میرے لیے تیری محبت کو گہرا کر سکتی ہے۔ اگرچہ انجیل نے پیشین گوئی کی تھی کہ ایک بچہ پیدا ہو گا لیکن کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ پیشین گوئی کس کے بارے میں پوری ہو گی کیونکہ انسان خدا کے کام کو نہیں جانتا اور یہی وجہ ہے کہ فریسی یسوع کے مخالف ہو گئے۔ کچھ لوگ جانتے ہیں کہ میرا کام انسان کے مفاد میں ہے، پھر بھی وہ یہ یقین کیے ہوئے ہیں کہ یسوع اور میں دو مکمل طور پر الگ، باہمی طور پر متضاد وجود ہیں۔ اس وقت، یسوع نے اپنے شاگردوں کو فضل کے دور میں اس طرح کے موضوعات پر وعظوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جیسے کہ مشق کیسے کریں، کیسے جمع ہوں، عبادت میں دعا کیسے کریں، دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آئیں وغیرہ۔ اس نے جو کام انجام دیا وہ فضل کے دور کا تھا اور اس نے صرف اس ابہام کو دور کیا کہ شاگردوں اور اس کی پیروی کرنے والوں کو کس طرح عمل کرنا چاہیے۔ اس نے صرف فضل کے زمانے کا کام کیا اور آخری ایام کا کوئی کام نہیں کیا۔ جب یہوواہ نے قانون کے دور میں عہد نامہ قدیم کا قانون مرتب کیا تو پھر اس نے فضل کے دور کا کام کیوں نہیں کیا؟ اس نے فضل کے دور کے کام کو پیشگی واضح کیوں نہیں کیا؟ کیا اس سے انسان کی قبول کرنے میں مدد نہ ہوتی؟ اس نے صرف یہ پیش گوئی کی تھی کہ ایک نر بچہ پیدا ہو گا اور وہ اقتدار میں آئے گا لیکن اس نے فضل کے دور کے کام کو پہلے سے انجام نہیں دیا۔ ہر زمانے میں خدا کے کام کی واضح حدود ہیں۔ وہ صرف موجودہ زمانے کا کام کرتا ہے اور کبھی بھی کام کے اگلے مرحلے کو پیشگی نہیں کرتا۔ صرف اسی طرح ہر زمانے کے اس کے نمائندہ کام کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ یسوع نے صرف آخری زمانے کی نشانیوں کے بارے میں بتایا کہ کس طرح صبر کیا جائے اور کیسے بچایا جائے، کس طرح توبہ کی جائے اور کیسے اقرار کیا جائے اور صلیب کو کیسے برداشت کیا جائے اور مصائب کو کیسے برداشت کیا جائے؛ اُس نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ انسان کو آخری زمانے میں کیسے داخل ہونا چاہیے اور نہ ہی یہ بتایا کہ کس طرح اُسے خدا کی مرضی کو پورا کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اس طرح، کیا آخری زمانے کے خدا کے کام کے لیے انجیل کو تلاش کرنا مضحکہ خیز نہیں ہے؟ تم محض انجیل کو پکڑ کر کیا دیکھ سکتے ہو؟ خواہ انجیل کی تشریح کرنے والا ہو یا منادی کرنے والا، کون آج کا کام پیشگی دیکھ سکتا تھا؟
"جِس کے کان ہوں وہ سُنے کہ رُوح کلِیسیاؤں سے کیا کہتی ہے۔" کیا تم نے اب روح القدس کے الفاظ سنے ہیں؟ خدا کا کلام تم پر آ چکا ہے۔ کیا تم اسے سنتے ہو؟ خُدا آخری ایام میں کلام کا کام کرتا ہے اور وہ روح القدس کا کلام ہوتا ہے کیونکہ خُدا روح القدس ہے اور مجسم بھی ہو سکتا ہے؛ لہٰذا، روح القدس کا کلام، جیسا کہ ماضی میں کہا گیا تھا، آج مجسم خدا کے کا کلام ہے۔ بہت سے مضحکہ خیز لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ چونکہ یہ روح القدس بات کر رہی ہے، اس لیے یہ آواز سماعت کے لیے آسمان سے آنی چاہیے۔ جو اس طرح سوچتا ہے وہ خدا کے کام کو نہیں جانتا۔ در اصل، روح القدس کے ذریعے ادا کیے گئے الفاظ وہ ہیں جو خدا کے مجسم ہونے کے بعد بولے گئے ہیں۔ روح القدس انسان سے براہ راست بات نہیں کر سکتی؛ قانون کے دور میں بھی، یہوواہ نے لوگوں سے براہ راست بات نہیں کی۔ تو کیا اس بات کا امکان معدوم نہیں ہو جاتا کہ وہ آج کے اس دور میں ایسا کرے گا؟ خدا کے لیے کام کو انجام دینے کی غرض سے کلام کہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ مجسم ہو؛ بصورت دیگر، اس کا کام اپنے اہداف کو پورا نہیں کر سکے گا۔ وہ لوگ جو مجسم خدا کا انکار کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو روح یا ان اصولوں کو نہیں جانتے جن کے مطابق خدا کام کرتا ہے۔ جو لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اب روح القدس کا دور ہے اور پھر بھی اس کے نئے کام کو قبول نہیں کرتے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایک مبہم اور تجریدی ایمان کے درمیان رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی بھی روح القدس کا کام نہیں ملے گا۔ جو لوگ صرف روح القدس سے براہ راست بات کرنے اور اپنا کام کرنے کے لیے کہتے ہیں اور مجسم خدا کے الفاظ یا کام کو قبول نہیں کرتے ہیں، وہ کبھی بھی نئے دور میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور نہ ہی خدا کی طرف سے مکمل نجات حاصل کر سکیں گے!