تاریکی کے اثر سے بچ جا، اور تُو خدا کی جانب سے حاصل کیا جائےگا

تاریکی کا اثر کیا ہے؟ یہ نام نہاد ”تاریکی کا اثر“ شیطان کے فریب، بدعنوانی، پابند کرنے اور لوگوں پر قابو پانے کا اثر ہے؛ شیطان کا اثر ایک ایسا اثر ہے جس میں موت کا ایک ہالا ہوتا ہے۔ وہ تمام لوگ جو شیطان کے زیر تسلط رہتے ہیں، ہلاک ہونا ان کا مقدر ہے۔ خدا پر ایمان لانے کے بعد تُو تاریکی کے اثر سے کیسے بچ سکتا ہے؟ ایک بار جب تُو خلوص دل سے خدا سے دعا کرتا ہے، تو تُو اپنے دل کو مکمل طور پر اس کی طرف موڑ دیتا ہے، یہی وہ موقع ہے جب تیرا دل خدا کی روح سے متاثر ہوتا ہے۔ تُو اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اور اس لمحے، تُو تاریکی کے اثر سے بچ چکا ہو گا۔ اگر انسان جو کچھ بھی کرتا ہے یہ وہ ہے جو خدا کو خوش کرتا ہے اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہے، تو وہ ایسا شخص ہے جو خدا کے کلام کے اندر اور اس کی نگہداشت اور حفاظت میں رہتا ہے۔ اگر لوگ خدا کے کلام پر عمل نہیں کر سکتے، اگر وہ ہمیشہ اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے تئیں لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور اس کے وجود پر یقین نہیں رکھتے ہیں – تو یہ سب تاریکی کے زیر اثر رہنے والے لوگ ہیں۔ جن لوگوں نے خدا کی نجات حاصل نہیں کی ہے وہ شیطان کے زیر تسلط رہ رہے ہوتے ہیں؛ یعنی وہ سب تاریکی کے زیر اثر رہتے ہیں۔ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ شیطان کے زیر تسلط رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو خدا کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اس کی روشنی میں جی رہے ہوں، کیونکہ جو لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقت میں اس کے کلام کے اندر نہ رہ رہے ہوں اور نہ ہی خدا کے تابع ہونے کے اہل ہوں۔ انسان کی سوچ خدا پر ایمان لانے تک محدود ہے، اور چونکہ اسے خدا کا علم نہیں ہوتا ہے، وہ اب بھی پرانے اصولوں کے اندر، مردہ کلام کے درمیان، ایک ایسی زندگی کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے جو تاریک اور غیر یقینی ہوتی ہے، نہ تو اسے خدا کی طرف سے مکمل طور پر پاک کیا گیا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی طرف سے مکمل طور پر حاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ لہٰذا، اگرچہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے، وہ تاریکی کے زیر اثر رہ رہے ہیں، یہاں تک کہ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں وہ اب بھی اس کے زیر اثر ہو سکتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس روح القدس کے کام کی کمی ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے خدا کا فضل یا رحمت حاصل نہیں کی ہوتی ہے اور جو روح القدس کے کام کو نہیں دیکھ سکتے وہ سب تاریکی کے زیر اثر رہ رہے ہوتے ہیں؛ اور بسا اوقات، ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو صرف خدا کے فضل سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر اسے نہیں جانتے۔ اگر کوئی شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے مگر پھر بھی اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ تاریکی کے زیر اثر گزارتا ہے، تو اس انسان کا وجود اپنے معنی کھو چکا ہوتا ہے – اور ایسے لوگوں کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو خدا کے موجود ہونے پر ایمان ہی نہیں رکھتے؟

وہ تمام لوگ جو خدا کے کام کو قبول نہیں کر سکتے، یا جو خدا کے کام کو قبول کرتے ہیں لیکن اس کے مطالبات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو تاریکی کے زیر اثر رہتے ہیں۔ صرف وہی لوگ جو سچائی کی پیروی کرتے اور خدا کے مطالبات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کی جانب سے برکات حاصل کریں گے، اور صرف وہی تاریکی کے اثر سے نکل پائیں گے۔ جن لوگوں کو آزاد نہیں کیا گیا ہے، جو ہمیشہ بعض چیزوں کے زیر اثر رہتے ہیں، اور جو اپنے دل خدا کو دینے سے قاصر ہیں وہ شیطان کی غلامی میں رہنے والے لوگ ہیں جو موت کے ہالے میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے فرائض سے بے وفائی کرتے ہیں، جو خدا کے حکم سے بے وفائی کرتے ہیں، اور جو کلیسیا میں اپنے کاموں کو انجام دینے میں ناکام رہتے ہیں وہ تاریکی کے زیر اثر رہنے والے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر کلیسیا کی زندگی میں خلل ڈالتے ہیں، جو جان بوجھ کر اپنے بھائیوں اور بہنوں کے درمیان اختلاف کے بیج بوتے ہیں، یا جو جتھے بناتے ہیں، وہ لوگ ہیں جو شیطان کی غلامی میں تاریکی کے زیر اثر گہرائی میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے ساتھ خلافِ معمول تعلق رکھتے ہیں، جو ہمیشہ حد سے متجاوز خواہشات رکھتے ہیں، وہ ہمیشہ کوئی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور وہ جو کبھی بھی اپنے مزاج میں تبدیلی نہیں چاہتے، وہ لوگ ہیں جو تاریکی کے زیر اثر رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو ہمیشہ سست روی کا شکار رہتے ہیں اور سچائی پر عمل کرنے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے، اور جو خدا کی مرضی کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے، اس کے بجائے صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی ایسے لوگ ہیں جو تاریکی کے زیر اثر، موت کے غلاف میں، زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے لیے کام کرتے وقت چال بازی اور دھوکا دہی میں مشغول رہتے ہیں، جو خدا کے ساتھ لاپروائی کا برتاؤ کرتے ہیں، جو خدا کو دھوکا دیتے ہیں، اور جو ہمیشہ اپنے لیے ہی منصوبے بناتے ہیں، وہ تاریکی کے زیر اثر رہنے والے لوگ ہیں۔ وہ تمام لوگ جو سچے دل سے خدا سے محبت نہیں کر سکتے، جو سچائی کی پیروی نہیں کرتے، اور جو اپنے مزاج کو تبدیل کرنے پر توجہ نہیں دیتے، وہ تاریکی کے زیر اثر رہنے والے لوگ ہیں۔

اگر تم خدا کی طرف سے ستائش حاصل کرنا چاہتے ہو، تو تمھیں لازماً پہلے شیطان کے تاریک اثر سے بچنا ہوگا، تجھے اپنے دل کو خدا کے لیے کھولنا ہو گا اور اسے مکمل طور پر اس کی طرف موڑنا ہو گا۔ کیا خدا ان کاموں کی تعریف کرے گا جو تُو اس وقت کر رہا ہے؟ کیا تُو نے اپنے دل کو خدا کی طرف موڑ لیا ہے؟ کیا تُو نے جو کچھ کیا ہے وہ وہی ہے جو خدا تجھ سے چاہتا ہے؟ کیا وہ سچ کے مطابق ہیں؟ ہر وقت اپنے تئیں جانچ اور خدا کے کلام کے کھانے اور پینے پر توجہ مرکوز رکھ؛ اپنے دل کو اس کے سامنے رکھ، اخلاص کے ساتھ اس سے محبت کر، اور خود کو خدا کے لیے وقف کر دے۔ جو لوگ ایسا کریں گے وہ یقیناً خدا کی ستائش حاصل کر پائیں گے۔ وہ تمام لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، مگر سچائی کی پیروی نہیں کرتے، ان کے پاس شیطان کے اثر سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ وہ تمام لوگ جو ایمانداری کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارتے، جو دوسروں کے سامنے ایک طرح کا برتاؤ کرتے ہیں لیکن ان کی پیٹھ کے پیچھے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں، جو عاجزی، صبر اور محبت کا تآثر دیتے ہیں حالانکہ ان کا جوہر سازشی، مکار اور خدا سے وفاداری کے بغیر ہوتا ہے – ایسے لوگ ان لوگوں کے تمثیلی نمائندے ہوتے ہیں جو تاریکی کے زیر اثر رہتے ہیں؛ وہ سانپ کی نسل سے ہیں۔ وہ لوگ جو صرف اپنے فائدے کے لیے خدا پر ایمان رکھتے ہیں، جو راستبازی کا زعم رکھتے ہیں اور متکبر ہوتے ہیں، دکھاوا کرتے ہیں اور اپنے مرتبے کی حفاظت کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان سے محبت کرتے اور سچ کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ خدا کی مزاحمت کرتے ہیں اور مکمل طور پر شیطان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے بوجھ پر توجہ نہیں دیتے، جو دل سے خدا کی خدمت نہیں کرتے، جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات اور اپنے خاندانی مفادات کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں، جو خدا کے لیے خود کو خرچ کرنے کے لیے سب کچھ چھوڑنے سے قاصر ہیں، اور جو کبھی بھی اس کے کلام کے مطابق نہیں رہتے، وہ اس کے کلام سے باہر کے لوگ ہیں۔ ایسے لوگ خدا کی ستائش حاصل نہیں کر سکتے۔

جب خدا نے انسانوں کو پیدا کیا، تو یہ اس لیے تھا تاکہ وہ اس کی نعمتوں کی بہتات سے لطف اندوز ہو سکیں اور اس سے سچی محبت کرسکیں؛ اس طرح، انسان اس کے نور میں زندہ رہیں گے۔ آج، جہاں تک ان تمام لوگوں کا معاملہ ہے، جو خدا سے محبت نہیں کر سکتے، اس کی لادی گئی ذمہ داریوں پر توجہ نہیں دیتے، اپنے دل کو مکمل طور پر اس کے حوالے کرنے سے قاصر ہیں، وہ اس کے دل کو اپنا نہیں سمجھ سکتے، اور اس کی لادی گئی ذمہ داریوں کو اپنی سمجھ کر نہیں اٹھا سکتے – خدا کی روشنی ایسے کسی بھی آدمی پر نہیں چمکتی ہے، اور اس لیے وہ سب تاریکی کے زیر اثر رہ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جو خدا کی مرضی کے یکسر خلاف ہے، اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں ذرا بھی سچائی نہیں ہے۔ وہ شیطان کے ساتھ دلدل میں دھنس رہے ہیں؛ یہ وہ لوگ ہیں جو تاریکی کے زیر اثر رہتے ہیں۔ اگر تُو اکثر خدا کے کلام کو کھا اور پی سکتا ہے اور اس کی مرضی پر دھیان دے سکتا ہے اور اس کے کلام پر عمل کر سکتا ہے تو پھر تُو خدا سے تعلق والا ہے اور تو ایک ایسا شخص ہے جو اس کے کلام کے اندر بستا ہے۔ کیا تو شیطان کے تسلط سے فرار ہونا اور خدا کی روشنی میں زندگی گزارنا چاہتا ہے؟ اگر تُو خدا کے کلام کے اندر رہتا ہے، تو روح القدس کو اپنا کام انجام دینے کا موقع ملے گا؛ اگر تُو شیطان کے زیر اثر رہتا ہے، تو تُو روح القدس کو ایسا کوئی موقع نہیں دے گا۔ وہ کام جو روح القدس انسانوں پر کرتا ہے، وہ روشنی جو وہ ان پر چمکاتا ہے، اور وہ اعتماد جو وہ انھیں دیتا ہے وہ صرف ایک لمحے کے لیے رہتا ہے؛ اگر لوگ محتاط نہیں ہیں اور توجہ نہیں دیتے، تو روح القدس کا کام ان کے پاس سے گزر جائے گا۔ اگر انسان خدا کے کلام کے اندر رہتے ہیں، تو روح القدس ان کے ساتھ ہو گا اور ان پر کام کرے گا۔ اگر انسان خدا کے کلام کے اندر نہیں رہتے، تو وہ شیطان کے بندھنوں میں رہتے ہیں۔ اگر انسان بدعنوان مزاجوں کے ساتھ رہتے ہیں، تو پھر ان کے پاس روح القدس کی موجودگی یا اس کا کام نہیں ہوتا ہے۔ اگر تُو خدا کے کلام کی حدود میں رہتا ہے اور اگر تُو اس حالت میں رہتا ہے جس کا خدا تقاضا کرتا ہے تو پھر تُو ایسا ہے جو اس سے تعلق رکھتا ہے اور پھر اس کا کام تجھ پر انجام دیا جائے گا؛ اگر تُو خدا کے تقاضوں کی حدود میں نہیں رہ رہا ہے بلکہ اس کی بجائے شیطان کے زیر تسلط رہ رہا ہے، پھر تُو یقیناً شیطان کی بدعنوانی میں رہ رہا ہے۔ صرف خدا کے کلام کے اندر رہنے اور اسے اپنا دل دینے سے ہی تُو اس کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے؛ تجھے لازماً وہی کرنا چاہیے جو خدا کہتا ہے اور اس کے اقوال کو اپنے وجود کی بنیاد اور اپنی زندگی کی حقیقت بنانا چاہیے؛ تبھی تُوخدا کا ہو گا۔ اگر تُو واقعی خدا کی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے، تو وہ تجھ پر کام کرے گا، اور تُو اس کی نعمتوں کے تحت، اس کے چہرے کے نور میں زندہ رہے گا؛ تُو اس کام کو سمجھ جائے گا جو روح القدس انجام دیتا ہے اور خدا کی موجودگی کی فرحت محسوس کرے گا۔

تاریکی کے اثر سے بچنے کے لیے، تجھے سب سے پہلے خدا کا وفادار ہونا چاہیے اور سچائی کی پیروی کرنے کے لیے دل سے آرزومند ہونا چاہیے؛ تبھی تجھے صحیح حالت دستیاب ہو سکتی ہے۔ تاریکی کے اثر سے بچنے کے لیے صحیح حالت میں رہنا اولین شرط ہے۔ صحیح حالت نہ ہونے کا مطلب خدا کا وفادار نہ ہونا اور سچائی کی جستجو کے لیے دل سے بے چین نہ ہونا ہے۔ اور تاریکی کے اثر سے فرار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میرا کلام تاریک اثرات سے انسان کے فرار کی بنیاد ہے، اور جو لوگ میرے کلام کے مطابق عمل نہیں کر سکتے وہ تاریکی کے اثر کے بندھنوں سے فرار نہیں ہو سکیں گے۔ صحیح حالت میں رہنے کا مطلب خدا کے کلام کی رہنمائی میں زندگی گزارنا، خدا سے وفاداری کی حالت میں رہنا، سچائی کی جستجو کی حالت میں جینا، اپنے تئیں خدا کی خاطر خلوص دل سے خرچ کرنے کی حقیقت میں جینا، اور خدا سے سچی محبت کی حالت میں رہنا ہے۔ جو لوگ ان حالتوں میں اور اس حقیقت کے اندر رہتے ہیں، وہ جیسے جیسے سچائی کی گہرائی میں داخل ہوتے ہیں، تو آہستہ آہستہ ان کی ماہیت بدل جائے گی، اور جیسے جیسے کام گہرا ہوتا جائے گا وہ تبدیل ہو جائیں گے۔ اور آخر میں، وہ یقینی طور پر ایسے لوگ بن جائیں گے جو خدا کی طرف سے حاصل کیے گئے ہیں اور جو خدا سے سچی محبت رکھتے ہیں۔ جو لوگ تاریکی کے اثر سے بچ گئے ہیں وہ آہستہ آہستہ خدا کی مرضی کا تعین کر سکتے ہیں اور بتدریج اسے سمجھ سکتے ہیں، آخر کار وہ خدا کے معتمد بن جاتے ہیں۔ وہ نہ صرف خدا کے بارے میں کوئی تصورات نہیں رکھتے اور اس کے خلاف بغاوت نہیں کرتے، بلکہ وہ ان تصورات اور بغاوت سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں جن کے زیر اثر وہ پہلے تھے، اور ان کے دلوں میں خدا کے لیے حقیقی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو تاریکی کے اثرات سے بچنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ سب مکمل طور پر نفسانی خواہشات کے غلبے میں اور بغاوت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں؛ ان کے دل زندگی گزارنے کے لیے انسانی تصورات اور فلسفوں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے ارادوں اور غور و فکر سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا جس چیز کا انسان سے مطالبہ کرتا ہے وہ اس کی غیر معمولی محبت ہے؛ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان پر اس کے کلام کا غلبہ ہو اور وہ اس کے لیے محبت سے بھرا ہوا دل رکھتا ہو۔ خدا کے کلام کے اندر رہنا، اس کے کلام کے اندر اس چیز کی تلاش کرنا جو انھیں تلاش کرنی چاہیے، خدا سے اس کے کلام کی بدولت محبت کرنا، اس کے کلام کے پیچھے بھاگنا، اس کے کلام کے لیے جینا – یہ وہ مقاصد ہیں جنھیں حاصل کرنے کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے۔ ہر چیز خدا کے کلام پر استوار ہونی چاہیے؛ تبھی انسان خدا کے تقاضے پورے کر سکے گا۔ اگر انسان خدا کے کلام سے لیس نہیں ہے، تو وہ شیطان کے زیر تسلط ایک حقیر کیڑے کے سوا کچھ نہیں ہے! اس کا تخمینہ لگائیں: خدا کے کلام کا کتنا حصہ تیرے اندر جڑ پکڑ چکا ہے؟ تُو کن چیزوں میں اس کے کلام کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہے؟ تُو کن چیزوں میں اس کے مطابق زندگی نہیں گزار رہا ہے؟ اگر خدا کے کلام نے تجھے مکمل طور پر اپنی گرفت میں نہیں لیا ہے، تو پھر تیرا دل کس چیز کے قبضے میں ہے؟ تیری روز مرہ کی زندگی میں، کیا تُو شیطان کی جانب سے قابو کیا جا رہا ہے، یا تجھ پر خدا کے کلام کی جانب سے قبضہ کیا جا رہا ہے؟ کیا اس کا کلام وہ بنیاد ہے جس پر تیری دعائیں مبنی ہیں؟ کیا تُو خدا کے کلام کی آگہی کے ذریعے اپنی منفی حالت سے باہر آ گیا ہے؟ خدا کے کلام کو اپنے وجود کی بنیاد کے طور پر لینا – یہی وہ چیز ہے جس میں ہر ایک کو داخل ہونا چاہیے۔ اگر تیری زندگی میں اس کے کلام کا عمل دخل نہیں ہے تو پھر تُو تاریکی کے زیر اثر زندگی گزار رہا ہے، تُو خدا کے خلاف بغاوت کر رہا ہے، تُو اس کی مخالفت کر رہا ہے، اور تُو اس کے نام کی بے توقیری کر رہا ہے۔ ایسے لوگوں کا خدا پر ایمان خالص فساد اور افراتفری ہے۔ تیری زندگی کا کتنا حصہ اس کے کلام کے مطابق گزرا ہے؟ تیری زندگی کا کتنا حصہ اس کے کلام کے مطابق نہیں جیا گیا ہے؟ خدا کا کلام تجھ سے جتنا چاہتا ہے، اس میں سے کتنا تجھ میں پورا ہو چکا ہے؟ تجھ میں کتنا کچھ کھو چکا ہے؟ کیا تُو نے ایسی چیزوں کو قریب سے دیکھا ہے؟

تاریکی کے اثر سے بچنے کے لیے روح القدس کے کام اور انسان کے یکسو تعاون، دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ انسان صحیح راستے پر نہیں ہے؟ جو لوگ صحیح راستے پر ہیں وہ پہلے اپنے دل خدا کو دے سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں داخل ہونے میں بہت لمبا وقت لگتا ہے، کیونکہ بنی نوع انسان ہمیشہ تاریکی کے زیر اثر اور ہزاروں سالوں سے شیطان کی غلامی میں رہی ہے۔ لہٰذا یہ داخلہ محض ایک یا دو دن میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے آج یہ مسئلہ اس لیے اٹھایا ہے تاکہ انسان اپنی خود کی حالت کا ادراک کر سکیں۔ ایک بار جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ تاریکی کا اثر کیا ہے اور روشنی میں رہنے کا کیا مطلب ہے، تو داخل ہونا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجھے لازماً معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان کا اثر کیا ہے، اس سے پہلے کہ تُو اس سے بچ سکے؛ اس کے بعد ہی تیرے پاس اسے پرے پھینکنے کا کوئی طریقہ ہو گا۔ جہاں تک تعلق ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے، وہ انسان کا اپنا کام ہے۔ مثبت پہلو سے ہر چیز میں داخل ہو، اور کبھی بھی غیر فعال طور پر انتظار نہ کر۔ صرف اسی طرح تجھے خدا کی جانب سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

سابقہ: مجسم خدا اور خدا کے زیر استعمال لوگوں کے درمیان بنیادی فرق

اگلا: ایمان میں، حقیقت پر توجہ لازماً مرکوز کرنی چاہیے – مذہبی رسومات میں مشغول رہنا ایمان نہیں ہے

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp