کیا تثلیث کا وجود ہے؟
یسوع کے جسم بن جانے کی حقیقت کے بعد، انسان نے یقین کر لیا کہ آسمان میں، صرف باپ ہی نہیں بلکہ بیٹا اور روح بھی ہیں۔ یہ روایتی تصور ہے جو انسان رکھتا ہے، کہ آسمان میں اس جیسا ایک خدا ہے: ایک مثلثی خدا جو باپ، بیٹا اور روح القدس ہے۔ تمام بنی نوع انسان کے یہ تصورات ہیں: خدا ایک خدا ہے، لیکن تین حصوں پر مشتمل ہے، جسے روایتی تصورات میں شدت سے دھنسے ہوئے تمام لوگ باپ، بیٹا اور روح القدس سمجھتے ہیں۔ صرف یہ تین حصے ایک ہو کر پورا خدا بناتے ہیں۔ مقدس باپ کے بغیر، خدا مکمل نہیں ہو گا۔ اسی طرح، خدا بیٹے یا روح القدس کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔ اپنے تصورات میں، وہ یقین رکھتے ہیں کہ نہ تو اکیلا باپ اور نہ ہی اکیلے بیٹے کو خدا سمجھا جا سکتا ہے۔ صرف باپ، بیٹا اور روح القدس کو ایک ساتھ خود خدا سمجھا جا سکتا ہے۔ اب، مذہب کے تمام ماننے والے، اور یہاں تک کہ تم میں سے ہر ایک پیروکار بھی اس عقیدے پر قائم ہے۔ پھر بھی، کیا یہ عقیدہ درست ہے یا نہیں، اس کی کوئی وضاحت نہیں کر سکتا، کیونکہ تم خود ہمیشہ خدا کے معاملات کے بارے میں الجھنوں کی دھند میں رہتے ہو۔ اگرچہ یہ تصورات ہیں، تم نہیں جانتے کہ یہ صحیح ہیں یا غلط، کیونکہ تم مذہبی تصورات سے بہت زیادہ متاثر ہو چکے ہو۔ تم نے مذہب کے ان روایتی تصورات کو بہت گہرائی میں قبول کیا ہے، اور یہ زہر تمہارے اندر بہت گہرائی میں سرایت کر چکا ہے۔ لہذا، اسی طرح اس معاملے میں بھی تم اس تباہ کن اثر کا شکار ہو گئے ہو، کیونکہ مثلثی خدا کا وجود ہی نہیں ہے۔ یعنی باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ سب انسان کے روایتی تصورات اور انسان کے غلط عقائد ہیں۔ کئی صدیوں کے دوران، انسان نے اس تثلیث پر ایمان رکھا ہے، جو کہ انسان کے ذہن میں شعبدہ بازی کے ذریعے تیار کی گئی ہے، انسان کی طرف سے گھڑی گئی ہے، اور اس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ان تمام سالوں کے دوران، انجیل کے بہت سے مفسرین موجود ہیں جنہوں نے تثلیث کے "حقیقی معنی" کی وضاحت کی ہے، لیکن تین مختلف متحد الاصل ہستیوں کے طور پر مثلثی خُدا کی ایسی وضاحتیں مبہم اور غیر واضح رہی ہیں، اور لوگوں کوخدا کی "تشکیل" نے چکرا کے رکھ دیا ہے۔ کوئی بھی عظیم انسان کبھی بھی مکمل وضاحت پیش کرنے کے قابل نہیں رہا ہے؛ زیادہ تر وضاحتیں استدلال اور کاغذوں کی صورت میں قابل قبول ہوتی ہیں، لیکن کسی ایک انسان کو بھی اس کے مفہوم کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس عظیم تثلیث کا عقیدہ اپنے دل میں رکھتا ہے وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کیونکہ کسی نے کبھی بھی خدا کا سچا چہرہ نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی کوئی اتنا خوش قسمت رہا ہے کہ وہ خدا کی رہائش گاہ کو دیکھنے کے لئے اتنا بلند ہو تاکہ اس جگہ کا جائزہ لے سکے جہاں خدا موجود ہے، وہاں پر کون سی اشیاء موجود ہیں، تاکہ اس بات کا تعین کرے کہ کتنی لاکھوں، کروڑوں یا اربوں نسلیں "خدا کے گھر" میں ہیں یا صرف اس بات کی تحقیق کرے کہ کتنے حصے مل کر خدا کی موروثی ہستی کو تشکیل دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر جس چیز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے: باپ اور بیٹے کی عمر کے ساتھ ساتھ روح القدس؛ ہر شخص کی متعلقہ ظاہری شکل و صورت؛ بالکل یہ کیسے ہے کہ وہ الگ ہو گئے، اور یہ کیسے ہے کہ وہ ایک ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی سے ان تمام سالوں میں ایک انسان بھی ان معاملات کی سچائی کا تعین نہیں کر سکا۔ وہ سب محض قیاس آرائیاں کرتے ہیں، کیونکہ کوئی ایک آدمی بھی یہ دیکھنے کے لیے آسمان پر نہیں چڑھا ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے "تحقیقاتی رپورٹ" لے کر واپس نہیں آیا ہے تاکہ معاملے کی حقیقت کے بارے میں ان تمام پرجوش اور متقی مذہبی ایمان رکھنے والوں کو رپورٹ پیش کر سکے جو کہ تثلیث کے متعلق فکرمند ہیں۔ یقیناً، ایسے تصورات کی تشکیل کا الزام انسان پر نہیں ڈالا جا سکتا، کیوں کہ یہوواہ باپ نے بنی نوع انسان کو تخلیق کرتے وقت یسوع بیٹے کو اپنے ساتھ کیوں نہیں رکھا؟ اگر، شروع میں، سب کچھ یہوواہ کے نام سے چلتا، تو یہ بہتر ہوتا۔ اگر الزام لگانا ضروری ہے، تو یہ یہوواہ خدا کی لمحاتی خطا پر لگایا جائے، جس نے تخلیق کے وقت میں بیٹے اور روح القدس کو اپنے پاس نہیں بلایا، بلکہ اپنے کام کو تنہا انجام دیا۔ اگر وہ سب ایک ساتھ مل کر کام کرتے تو کیا وہ ایک نہ بن جاتے؟ اگر انتہائی آغاز سے آخر تک، صرف یہوواہ کا نام ہوتا اور فضل کے دور سے یسوع کا نام نہ ہوتا، یا اگر وہ تب بھی یہوواہ کہلاتا، تو کیا خدا انسانوں کی طرف سے اس تقسیم کی مصیبت سے محفوظ نہ رہتا؟ یقینی طور پر، یہوواہ کو ان سب کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا؛ اگر الزام لگانا ضروری ہے تو روح القدس پر لگایا جائے، جس نے ہزاروں سال تک یہوواہ، یسوع اور حتیٰ کہ روح القدس کے نام سے اپنا کام جاری رکھا، انسان کو ایسے الجھایا اور چکرایا کہ انسان کو صحیح معنوں میں علم ہی نہیں ہو سکا کہ دراصل خدا کون ہے۔ اگر روح القدس بذات خود بغیر شکل و شبیہ کے کام کرتا اور مزید برآں، بغیر کسی نام کے جیسا کہ یسوع، اور انسان نہ تو اسے چھو سکتا اور نہ ہی دیکھ سکتا، صرف گرجنے کی آوازیں سن سکتا، تو کیا اس قسم کا کام بنی نوع انسان کے لیے زیادہ فائدہ مند نہ ہوتا؟ تو اب کیا کیا جا سکتا ہے؟ انسان کے تصورات پہاڑ کی طرح اونچے اور سمندر کی طرح وسیع ہو چکے ہیں، اس حد تک کہ موجودہ زمانے کا خدا ان کو مزید برداشت نہیں کر سکتا اور مکمل طور پر کھویا ہوا ہے۔ ماضی میں جب صرف یہوواہ، یسوع، اور ان کے درمیان، روح القدس تھا، انسان پہلے سے ہی چکرایا ہوا تھا کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے، اور اب اس میں قادر مطلق کا اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی خدا کا ایک حصہ ہے۔ کون جانتا ہے کہ وہ کون ہے اور تثلیث کے کس فرد میں وہ جانے کتنے سالوں سے گھل مل گیا ہے یا اس کے اندر چھپا ہوا ہے؟ انسان یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ اکیلا مثلثی خدا ہی انسان کو زندگی بھر کے سمجھانے کے لیے کافی تھا، لیکن اب "چار افراد میں ایک خدا" ہے۔ اس کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ کیا تو اس کی وضاحت کر سکتا ہے؟ بھائیو اور بہنو! تم آج تک ایسے خدا پر کیسے ایمان لائے ہو؟ میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ برداشت کے لیے مثلثی خُدا پہلے ہی کافی تھا؛ تم ان چار افراد میں ایک خدا پر اتنا غیر متزلزل ایمان کیسے برقرار رکھ سکتے ہو؟ تمہیں باہر نکلنے کی تاکید کی گئی ہے، پھر بھی تم انکار کرتے ہو۔ یہ کتنا ناقابل فہم ہے! تم واقعی کوئی چیز ہو! ایک شخص حقیقت میں اس حد تک جا سکتا ہے کہ وہ چار خداؤں پر یقین کر لے اور وہ اس کا کچھ نہ کر سکے؛ کیا تم نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی معجزہ ہے؟ تمہیں دیکھنے پر، کوئی نہیں جانے گا کہ تم اتنا بڑا معجزہ کرنے کے قابل ہو! یہ میں تمہیں بتاتا ہوں، حقیقت میں، مثلثی خدا اس کائنات میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ خدا کا نہ کوئی باپ ہے اور نہ کوئی بیٹا، اور یہ تصور تو بالکل بھی نہیں کہ باپ اور بیٹا مشترکہ طور پر روح القدس کو بطور ایک آلہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس دنیا میں سب سے بڑی غلط فہمی ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں ہے! پھر بھی ایسی غلط فہمی کا ایک منبع ہے اور یہ مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہے، کیونکہ تمہارے ذہن اتنے سادہ نہیں ہیں، اور تمہارے خیالات بنا استدلال نہیں ہیں۔ بلکہ وہ بالکل موزوں اور ہوش پر مبنی ہیں، اس قدر کہ کسی بھی شیطان کے لیے ناقابل تسخیر ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام خیالات غلط ہیں اور سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے! تم نے اصل حقیقت کو بالکل نہیں دیکھا ہے؛ تم محض قیاس آرائیاں اور گمان کر رہے ہو، پھر دھوکہ دہی سے دوسروں کا اعتماد حاصل کرنے اور بغیر عقل یا استدلال کے ان احمق ترین لوگوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ان سب کی ایک کہانی گھڑ رہے ہو، تاکہ وہ تمہاری عظیم اور مشہور "ماہرانہ تعلیمات" پر یقین کریں۔ کیا یہ سچ ہے؟ کیا زندگی کا یہی طریقہ ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہیے؟ یہ سب بے معنی ہے! ایک لفظ بھی مناسب نہیں ہے! اتنے سارے برسوں کے دوران، تمہاری طرف سے اس طرح خدا کو تقسیم کیا جاتا رہا ہے، ہر نسل کے ساتھ یہ تقسیم زیادہ باریک ہوتی گئی، یہاں تک کہ ایک خدا واضح طور پر تین خداؤں میں تقسیم کردیا گیا۔ اور اب یہ ناممکن ہے کہ انسان خدا کو بطور واحد یک جان کر سکے، کیونکہ تم نے اسے بہت باریکی سے تقسیم کر دیا ہے! بہت زیادہ تاخیر ہونے سے پہلے، اگر میں فوری طور پر اپنا کام نہیں کرتا تو یہ کہنا مشکل تھا کہ تم کتنی طویل مدت تک ڈھٹائی سے اسے جاری رکھتے! خدا کی اس طرح تقسیم جاری رکھتے ہوئے، وہ اب بھی تمہارا خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا تم اب بھی خدا کو تسلیم کرو گے؟ کیا تم اب بھی اپنی اصلیت تلاش کرو گے؟ اگر میں کچھ بعد میں پہنچتا، تو امکان ہے کہ تم "باپ اور بیٹے،" یہوواہ اور یسوع کو واپس اسرائیل بھیج دیتے اور دعویٰ کر دیتے کہ تم خود خدا کا حصہ ہو۔ خوش قسمتی سے، اب یہ آخری ایام ہیں۔ آخرکار، وہ دن آ گیا جس کا میں نے طویل انتظار کیا تھا، اور جب میں نے اپنے ہاتھ سے کام کے اس مرحلے کو انجام دیا تو صرف تب ہی تمہاری خدا کی تقسیم رکی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تم بڑھ جاتے، یہاں تک کہ تم اپنے درمیان موجود تمام شیطانوں کو عبادت کے لیے اپنی میزوں پر بٹھا دیتے۔ یہ تمہاری چالاکی ہے! یہ خدا کو تقسیم کرنے کا تمہارا ذریعہ ہے! کیا تم اب ایسا کرتے رہو گے؟ میں تم سے پوچھتا ہوں: کتنے خدا ہیں؟ کون سا خدا تمہیں نجات دے گا؟ کیا یہ پہلا خدا ہے، دوسرا یا تیسرا جس کی تم ہمیشہ عبادت کرتے ہو؟ تم ہمیشہ کس پر ایمان رکھتے ہو؟ کیا یہ باپ ہے؟ یا بیٹا؟ یا یہ روح ہے؟ مجھے بتاﺆ کہ تم کس پر ایمان رکھتے ہو؟ اگرچہ ہر لفظ کے ساتھ تم کہتے ہو کہ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو، اصل میں تم جس چیز پر ایمان رکھتے ہو وہ تمہارا اپنا دماغ ہے! تمہارے دلوں میں خدا سرے سے ہے ہی نہیں! اور پھر بھی تمہارےے ذہنوں میں ایسی کئی تثلیثیں موجود ہیں! کیا تم متفق نہیں ہو؟
اگر تثلیث کے اس تصور کے مطابق کام کے تین مراحل کا جائزہ لیا جائے تو تین خدا ہونے چاہئیں کیونکہ ہر ایک کے ذریعے انجام پانے والا کام ایک جیسا نہیں ہے۔ اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ بلا شبہ تثلیث کا وجود ہے، تو وضاحت کرو کہ تین افراد میں سے یہ ایک خدا اصل میں کیا ہے۔ مقدس باپ کیا ہے؟ بیٹا کیا ہے؟ روح القدس کیا ہے؟ کیا یہوواہ مقدس باپ ہے؟ کیا یسوع بیٹا ہے؟ تو پھر روح القدس کیا ہے؟ کیا باپ ایک روح نہیں ہے؟ کیا بیٹے کا جوہر بھی ایک روح نہیں ہے؟ کیا یسوع کا کام روح القدس کا کام نہیں تھا؟ کیا روح کی طرف سے اس وقت کیا جانے والا یہوواہ کا کام وہی نہیں تھا جو یسوع کا تھا؟ خدا کی کتنی روحیں ہو سکتی ہیں؟ تیری وضاحت کے مطابق، باپ، بیٹے اور روح القدس، تین افراد ایک ہی ہیں؛ اگر ایسا ہی ہے، تو پھر یہ تین روحیں ہیں، اور تین روحیں ہونے کا مطلب ہے کہ خدا تین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایک حقیقی خدا نہیں ہے؛ تو اس کے باوجود اس طرح کا خدا، خدا کے فطری جوہر کا حامل کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر تو یہ قبول کرتا ہے کہ خدا صرف ایک ہی ہے، تو پھر اس کا ایک بیٹا کیسے ہو سکتا ہے اوروہ ایک باپ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا یہ صرف تیرے تصورات نہیں ہیں؟ خدا صرف ایک ہے، اس خدا کی صرف ایک شخصیت ہےِ اور خدا کی صرف ایک روح ہے، صرف اتنا جو انجیل میں لکھا ہے کہ "صرف ایک روح القدس اور صرف ایک خدا ہے۔" اس سے قطع نظر کہ باپ اور بیٹا، جس کے بارے میں تو گفتگو کرتا ہے، وجود رکھتے ہیں یا نہیں، بہر حال خدا صرف ایک ہی ہے، اور باپ اور بیٹے، اور روح القدس جس پر تم یقین رکھتے ہو کا جوہر، روح القدس کا جوہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں، خدا ایک روح ہے، لیکن وہ جسم کی شکل اختیار کرنے اور انسانوں کے درمیان رہنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی ہر چیز سے بالاتر ہونے کا اہل ہے۔ اس کی روح ہمہ گیر اور ہر جگہ موجود ہے۔ وہ بیک وقت جسم میں اور کائنات کے اندر اور اس سے بالا ہو سکتا ہے۔ چونکہ تمام لوگ کہتے ہیں کہ خدا صرف ایک ہی سچا خدا ہے، اس لیے ایک ہی خدا ہے، جسے کوئی بھی اپنی مرضی سے تقسیم نہیں کرسکتا! خدا صرف ایک روح ہے، اور صرف ایک فرد؛ اور وہ خدا کی روح ہے۔ اگر ایسا ہے جیسا کہ تو کہتا ہے، باپ، بیٹا اور روح القدس، تو کیا وہ تین خدا نہیں ہیں؟ روح القدس ایک مادہ ہے، بیٹا دوسرا، اور پھر باپ ایک اور ہے۔ ان کی ہستییاں مختلف ہیں اور ان کے جوہر الگ الگ ہیں، تو پھر وہ سب ایک خدا کا حصہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ روح القدس ایک روح ہے؛ یہ انسان کے لیے سمجھنا آسان ہے۔ اگر ایسا ہے تو باپ اس سے بھی زیادہ ایک روح ہے۔ وہ کبھی زمین پر نہیں اُترا اور نہ کبھی گوشت پوست کا بنا؛ وہ انسان کے دل میں یہوواہ خدا ہے، اور وہ یقیناً ایک روح بھی ہے۔ پھر اس کے اور روح القدس کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا یہ باپ اور بیٹے کے درمیان والا رشتہ ہے؟ یا یہ روح القدس اور باپ کی روح کے درمیان تعلق ہے؟ کیا ہر ایک روح کا جوہر ایک ہی ہے؟ یا روح القدس باپ کا ایک آلہ ہے؟ اس کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ اور پھر بیٹے اور روح القدس کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا یہ دو روحوں کا رشتہ ہے یا ایک انسان اور ایک روح کے درمیان تعلق ہے؟ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کی کوئی وضاحت نہیں ہو سکتی! اگر وہ سب ایک روح ہیں، تو پھر تین آدمیوں کی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ ایک ہی روح کے حامل ہیں۔ اگر وہ الگ الگ افراد تھے، تو ان کی روحیں طاقت میں مختلف ہوں گی، اور وہ صرف ایک روح نہیں ہو سکتے۔ باپ، بیٹے اور روح القدس کا یہ تصور انتہائی نامعقول ہے! یہ خدا کے ٹکڑے کرتا ہے اور اسے تین افراد میں تقسیم کرتا ہے، ہر ایک کی اپنی حیثیت اور روح کے ساتھ؛ تو اس کے باوجود پھر وہ کیسے ایک روح اور ایک خدا ہوسکتا ہے؟ مجھے بتاؤ، کیا آسمان اور زمین، اور تمام چیزیں باپ، بیٹے، یا روح القدس نے تخلیق کیں؟ بعض کہتے ہیں ان سب نے مل کر یہ تخلیق کیں۔ تو پھر بنی نوع انسان کو کس نے خلاصی دلائی؟ وہ روح القدس تھا، بیٹا، یا باپ؟ بعض کہتے ہیں بیٹے نے بنی نوع انسان کو خلاصی دلائی۔ تو پھر بیٹا اپنے جوہر میں کون ہے؟ کیا وہ خدا کی روح کی تجسیم نہیں ہے؟ خدا کی تجسیم آسمانی خدا کوایک تخلیق شدہ انسان کے تناظر سے باپ کے نام سے پکارتی ہے۔ کیا تو آگاہ نہیں ہے کہ یسوع کی پیدائش روح القدس کے حمل ٹہرانے کے ذریعے ہوئی تھی؟ اس کے اندر روح القدس ہے؛ تو جو بھی کہتا ہے، اس کے باوجود وہ آسمانی خدا کے ساتھ ایک ہے، کیوں کہ وہ خدا کی روح کی انسانی شکل ہے۔ بیٹے کا یہ تصور سراسر غلط ہے۔ یہ ایک روح ہے جو تمام کام انجام دیتی ہے؛ صرف خُدا بذات خود، یعنی خُدا کی رُوح اپنا کام کرتی ہے۔ خدا کی روح کون ہے؟ کیا یہ روح القدس نہیں ہے؟ کیا یہ روح القدس نہیں ہے جو یسوع میں کام کرتی ہے؟ اگر یہ کام روح القدس (یعنی خدا کی روح) کے ذریعے انجام نہ دیا گیا ہوتا تو کیا اس کا کام بذات خود خدا کی ترجمانی کر سکتا تھا؟ جب یسوع نے آسمانی خدا کو باپ کے نام سے پکارا، جب اس نے دعا کی تھی، تو یہ صرف ایک تخلیق شدہ انسان کے تناظر میں کی گئی تھی، صرف اس وجہ سے کہ خدا کی روح ایک عام اور طبعی جسم میں ملبوس تھی اور اس کا بیرونی خول ایک مخلوق کا تھا۔ حتیٰ کہ اگر اس کے اندر خدا کی روح تھی، تب بھی اس کی ظاہری شکل وصورت ایک عام انسان کی سی تھی؛ دوسرے لفظوں میں، وہ "ابن آدم" بن گیا تھا جس کے بارے میں تمام انسانوں نے، بشمول خود یسوع نے بات کی تھی۔ اس صورت میں جب کہ وہ ابن آدم کہلاتا ہے، وہ ایک فرد ہے (خواہ مرد ہو یا عورت، کسی بھی صورت میں انسان کے بیرونی خول کے ساتھ) عام لوگوں کے ایک عام خاندان میں پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا، یسوع کا آسمانی خدا کو باپ کے نام سے پکارنا ویسا ہی تھا جیسا کہ تم نے پہلے اسے باپ کہا تھا؛ اس نے ایسا ایک تخلیق شدہ انسان کے تناظر میں کیا۔ کیا تمہیں اب بھی خداوند کی دعا یاد ہے جو یسوع نے تمہیں ذہن نشین کرنے کے لیے سکھائی تھی؟ "آسمان میں ہمارا باپ۔۔۔" اس نے تمام انسانوں سے کہا کہ وہ آسمانی خدا کو باپ کے نام سے پکاریں۔ اور جیسا کہ اُس نے بھی اُسے باپ کہا، اُس نے ایسا اُس شخص کے تناظر میں کیا جو تم سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ چونکہ تم نے آسمانی خدا کو باپ کے نام سے پکارا، اس لیے یسوع نے اپنے آپ کو تمہارے ساتھ برابری کی بنیاد پر اور زمین پر خدا کے منتخب کردہ ایک انسان (یعنی خدا کے بیٹے) کے طور پر دیکھا۔ اگر تم خدا کو باپ کہتے ہو تو کیا یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم مخلوق ہو۔ تاہم، یسوع کا زمین پر جتنا بھی عظیم اختیار رہا ہو، مصلوب ہونے سے پہلے، وہ محض ایک ابن آدم تھا، جو روح القدس (یعنی خدا) کے تابع تھا، اور تخلیق شدہ زمینی مخلوقات میں سے ایک تھا، کیونکہ اسے ابھی اپنا کام مکمل کرنا تھا۔ لہٰذا، اس کا خدا کو آسمانی باپ پکارنا صرف اس کی عاجزی اور فرمانبرداری تھی۔ اس کا خدا (یعنی آسمانی روح) کو اس طرح مخاطب کرنا، تاہم، یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ آسمانی خدا کی روح کا بیٹا تھا۔ بلکہ، صرف اتنا تھا کہ اس کا تناظر مختلف تھا، یہ نہیں کہ وہ ایک مختلف فرد تھا۔ الگ الگ افراد کا وجود ایک مغالطہ ہے! اپنی تصلیب سے پہلے، یسوع ایک ابن آدم تھا جو جسم کی حدود کا پابند تھا، اور وہ مکمل طور پر روح کے اختیار کا مالک نہیں تھا۔ اس لیے وہ صرف ایک تخلیق شدہ وجود کے تناظر سے خدا باپ کی مرضی تلاش کر سکتا تھا۔ یہ اس طرح ہے جیسا کہ اس نے گتھسمنی میں تین بار دعا کی تھی: "نہ جَیسا مَیں چاہتا ہُوں بلکہ جَیسا تُو چاہتا ہے وَیسا ہی ہو۔" صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے، وہ یہودیوں کا بادشاہ تھا؛ وہ مسیح تھا، ابنِ آدم، اور عظمت والا جسم نہیں تھا۔ اسی لیے، ایک مخلوق کے نقطہ نظر سے، اس نے خدا کو باپ کہا۔ اب تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب جو خدا کو باپ کہتے ہیں، وہ بیٹے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو جس وقت یسوع نے تمہیں خُداوند کی دعا سکھائی تھی تو کیا تم سب اسی وقت بیٹا نہیں بن گئے ہوتے؟ اگر تم ابھی بھی قائل نہیں ہو ئے ہو تو بتاؤ وہ کون ہے جسے تم باپ کہتے ہو؟ اگر تم یسوع کا حوالہ دے رہے ہو، تو پھر تمہارے لیے یسوع کا باپ کیا ہے؟ یسوع کے جانے کے بعد، باپ اور بیٹے کا یہ تصور باقی نہیں رہا۔ یہ تصور صرف ان سالوں کے لیے موزوں تھا جب یسوع جسم بنا تھا؛ دوسرے تمام معاملات میں جب تم خدا کو باپ کہتے ہو تو تعلق ایسے ہوتا ہے جیسے تخلیق کے خداوند اور ایک مخلوق کے درمیان ہوتا ہے۔ کوئی وقت ایسا نہیں ہے جب باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث کا یہ تصور قائم ہو سکے؛ یہ ایک غلط فہمی ہے جو ادوار میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے اور یہ موجود نہیں ہے!
اس سے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں پیدائش سے خُدا کے الفاظ آ سکتے ہیں: "ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبِیہ کی مانِند بنائیں" (پَیدائش 1: 26)۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ خُدا کہتا ہے "ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر بنائیں،" پھر "ہم" دو یا زیادہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ چونکہ اُس نے "ہم" کہا ہے، اس لیے خدا صرف ایک نہیں ہے۔ اس طرح انسان نے مختلف ہستیوں کے نظریے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور ان الفاظ سے باپ، بیٹے اور روح القدس کا تصور پیدا ہوا۔ پھر باپ کیسا ہوتا ہے؟ بیٹا کیسا ہے؟ اور روح القدس کیسی ہے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تینوں کو آپس میں ملا کر آج کی بنی نوع انسان کو ایک شکل میں بنایا گیا ہو؟ پھر کیا انسان کی صورت باپ جیسی ہے، بیٹے یا روح القدس جیسی ہے؟ انسان خدا کی ہستیوں میں سے کس کی صورت میں ہے؟ انسان کا یہ خیال بالکل غلط اور بے ہودہ ہے! یہ صرف ایک خدا کو کئی خداؤں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ جس وقت موسیٰ نے پیدائش کو لکھا، تو یہ دنیا کی تخلیق کے بعد بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد تھا۔ بالکل شروع میں، جب دنیا کا آغاز ہوا تو موسیٰ کا وجود نہیں تھا۔ اور موسیٰ نے اس کے بہت بعد میں انجیل لکھی، تو وہ کیسے جان سکتا تھا کہ آسمان پر خدا نے کیا بات کی؟ اسے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ خدا نے دنیا کو کیسے بنایا۔ انجیل کے قدیم عہد نامے میں، باپ، بیٹے اور روح القدس کا کوئی ذکر نہیں ہے، صرف ایک سچے خدا، یہوواہ کا ہے، جو اسرائیل میں اپنا کام انجام دے رہا تھا۔ دور کے بدلنے کے ساتھ اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ ہر نام ایک مختلف شخص کا حوالہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا خدا میں بے شمار لوگ نہ ہوتے؟ عہد نامہ قدیم میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ یہوواہ کا کام ہے، قانون کے دور میں آغاز کے لیے خود خدا کے کام کا ایک مرحلہ۔ یہ خُدا کا کام تھا، جہاں اُس نے کہا، وہ تھا، اور جیسا اُس نے حکم دیا، وہ قائم رہا۔ کبھی بھی یہوواہ نے یہ نہیں کہا کہ وہ باپ ہے اور کام کرنے کے لیے آیا ہے، اور نہ ہی اُس نے کبھی یہ پیشین گوئی کی ہے کہ بیٹا بنی نوع انسان کو خلاصی دلانے کے لیے آئے گا۔ جب یہ یسوع کے زمانے تک آیا، تو صرف یہ کہا گیا کہ خدا تمام بنی نوع انسان کو خلاصی دلانے کے لیے جسم بن گیا تھا، نہ کہ یہ بیٹا تھا جو آیا تھا۔ چونکہ ادوار ایک جیسے نہیں ہیں اور جو کام خود خدا کرتا ہے وہ بھی مختلف ہے، اس لیے اسے اپنے کام کو مختلف عہدوں میں انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح، وہ جس شناخت کی نمائندگی کرتا ہے وہ بھی مختلف ہے۔ انسان مانتا ہے کہ یہوواہ یسوع کا باپ ہے، لیکن اسے حقیقت میں یسوع نے تسلیم نہیں کیا تھا، جس نے کہا تھا: "ہم کبھی باپ اور بیٹے کے طور پر ممتاز نہیں تھے؛ میں اور آسمانی باپ ایک ہیں۔ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں ہوں؛ جب انسان بیٹے کو دیکھتا ہے تو وہ آسمانی باپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔" جب سب کچھ کہا جا چکا ہے، چاہے وہ باپ ہو یا بیٹا، وہ ایک روح ہیں، الگ الگ افراد میں تقسیم نہیں ہیں۔ ایک بار جب انسان وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو معاملات الگ الگ افراد کے تصور کے ساتھ، باپ، بیٹے اور روح کے درمیان تعلقات کی وجہ سے بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ جب انسان الگ الگ افراد کی بات کرتا ہے تو کیا یہ خدا کو مادی شکل میں پیش نہیں کرتا؟ حتیٰ کہ انسان ان افراد کی پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر درجہ بندی بھی کرتا ہے؛ یہ سب انسان کے تصورات کے سوا کچھ نہیں ہیں، کسی حوالے کے لائق نہیں، اور بالکل غیر حقیقی ہیں! اگر تو اس سے پوچھے: "کتنے خدا ہیں؟" وہ کہے گا کہ خدا، باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث ہے: ایک ہی سچا خدا۔ اگر تو مزید پوچھے: "باپ کون ہے؟" وہ کہے گا: "باپ آسمان میں خدا کی روح ہے؛ وہ سب کا نگران ہے، اور آسمان کا مالک ہے۔" "تو کیا یہوواہ روح ہے؟" وہ کہے گا: "ہاں!" اگر تو اس سے مزید پوچھے کہ "بیٹا کون ہے؟" وہ کہے گا کہ یقیناً یسوع بیٹا ہے۔ "پھر یسوع کی کہانی کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا؟" وہ کہے گا: "یسوع روح القدس کے ذریعے مریم کا حمل ٹہرانے سے پیدا ہوا تھا۔" پھر کیا اس کا جوہر بھی روح نہیں ہے؟ کیا اس کا کام بھی روح القدس کا نمائندہ نہیں ہے؟ یہوواہ روح ہے اور اسی طرح یسوع کا جوہر بھی ہے۔ اب آخری ایام میں، یہ کہنے کی ضرورت کم ہے کہ یہ اب بھی روح ہے؛ وہ مختلف افراد کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ صرف خدا کی روح نہیں ہے جو مختلف تناظر میں روح کے کام کو انجام دے رہی ہے؟ اس طرح افراد میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ یسوع کا حمل روح القدس کے ذریعے ٹہرا تھا، اور بلاشبہ، اس کا کام بالکل وہی تھا جو روح القدس کا تھا۔ یہوواہ کی طرف سے کئے گئے کام کے پہلے مرحلے میں، وہ نہ تو گوشت پوست کا بنا اور نہ ہی انسان پر ظاہر ہوا۔ لہذا انسان نے کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ کتنا ہی عظیم اور کتنا بلند تھا، وہ اب بھی روح تھا، خود خدا جس نے انسان کو ابتدا میں تخلیق کیا۔ یعنی وہ خدا کی روح تھا۔ اس نے بادلوں کے درمیان سے انسان سے بات کی، محض ایک روح تھی، اور کسی نے بھی اس کی شکل و صورت نہیں دیکھی۔ صرف فضل کے دور میں جب خدا کی روح جسم میں آئی اور تجسیم کی شکل میں یہودیہ میں آئی تو انسان نے پہلی بار مجسم خدا کو ایک یہودی کے روپ میں دیکھا۔ اس میں یہوواہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ تاہم، وہ روح القدس سے پیدا ہوا تھا، یعنی خود یہوواہ کی روح سے اس کا حمل ٹہرا تھا، اور یسوع اس کے باوجود خدا کی روح کے مجسم کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ انسان نے سب سے پہلے جو دیکھا وہ روح القدس کا یسوع پر ایک فاختہ کی طرح اترنا تھا؛ یہ روح صرف یسوع کے لیے خاص نہیں تھی، بلکہ یہ روح القدس تھا۔ پھر کیا یسوع کی روح کو روح القدس سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ اگر یسوع یسوع ہے، بیٹا، اور روح القدس روح القدس ہے، تو پھر وہ ایک کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو کام نہیں ہو سکتا تھا۔ یسوع میں موجود روح، آسمانی روح، اور یہوواہ کی روح سب ایک ہیں۔ اسے روح القدس، خداکی روح، سات گنا تقویت یافتہ روح، اور مکمل جامع کہا جاتا ہے۔ خُدا کی روح بہت زیادہ کام کر سکتی ہے۔ وہ دنیا کو تخلیق کرنے اور زمین کو سیلاب سے تباہ کرنے پر قادر ہے؛ وہ تمام بنی نوع انسان کو نجات دے سکتا ہے، اور اس کے علاوہ، وہ تمام بنی نوع انسان کو تسخیر اور تباہ کر سکتا ہے۔ یہ کام خدا خود کرتا ہے اور اس کی جگہ خدا کی ذات میں سے کوئی نہیں کرسکتا۔ اُس کی روح کو یہوواہ اور یسوع کے ساتھ ساتھ قادرِ مطلق کے نام سے پکارا جا سکتا ہے۔ وہ خداوند اور مسیح ہے۔ وہ ابن آدم بھی بن سکتا ہے۔ وہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین پر بھی۔ وہ کائنات سے بالا اور ہجوم کے درمیان ہے۔ وہ آسمانوں اور زمین کا واحد مالک ہے! تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک، یہ کام خود خدا کی روح نے کیا ہے۔ چاہے وہ کام آسمان پر ہو یا جسم میں، سب کچھ اس کی اپنی روح کی طرف سے ہوتا ہے۔ تمام مخلوقات چاہے آسمان پر ہوں یا زمین پر، اس کے بہت زبردست قدرت والے ہاتھ کی ہتھیلی پر ہیں؛ یہ سب خدا کا کام ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ آسمانوں میں، وہ روح ہے مگر خود خدا بھی ہے؛ انسانوں میں، وہ جسم ہے لیکن خود خدا بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ اسے لاکھوں ناموں سے پکارا جا سکتا ہے، مگر وہ اس کے باوجود وہ بذات خود ہے، اپنی روح کا براہ راست اظہار۔ اس کی تصلیب کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کی خلاصی اس کی روح کا براہ راست کام تھا، اور اسی طرح آخری ایام میں تمام اقوام اور تمام زمینوں کے لیے اعلان بھی ہے۔ ہر وقت، خدا کو صرف قادر مطلق اور ایک سچا خدا ہی کہا جا سکتا ہے، جو خود مکمل جامع خدا ہے۔ الگ الگ ہستیوں کا کوئی وجود نہیں ہے، باپ، بیٹے اور روح القدس کا یہ تصور تو بالکل بھی نہیں۔ آسمان اور زمین پر صرف ایک ہی خدا ہے!
خدا کا انتظامی منصوبہ چھ ہزار سال پر محیط ہے اور اس کے کام میں فرق کی بنیاد پر اسے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: پہلا دور عہد نامہ قدیم کا قانون کا دور ہے؛ دوسرا فضل کا دور ہے۔ اور تیسرا آخری ایام کا ہے – بادشاہت کا دور۔ ہر دور میں ایک الگ شناخت کی نمائندگی کی جاتی ہے۔ یہ صرف کام میں فرق یعنی کام کے تقاضوں کی وجہ سے ہے۔ قانون کے دور کے دوران کام کا پہلا مرحلہ اسرائیل میں انجام دیا گیا تھا، اور بچانے کے کام کو ختم کرنے کا دوسرا مرحلہ یہودیہ میں انجام دیا گیا تھا۔ بچانے کے کام کے لیے، یسوع روح القدس کی وجہ سے حمل کے ذریعے اور اکلوتے بیٹے کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ یہ سب کام کے تقاضوں کی وجہ سے تھا۔ آخری ایام میں، خُدا چاہتا ہے کہ اپنے کام کو غیر قوموں میں پھیلا دے اور وہاں کے لوگوں کو تسخیر کرے، تاکہ اُن میں اُس کا نام عظیم ہو سکے۔ وہ مکمل سچائی کو سمجھنے اور اس میں داخل ہونے کے لیے انسان کی رہنمائی کرنا چاہتا ہے۔ یہ تمام کام ایک ہی روح سے انجام پاتے ہیں۔ اگرچہ وہ مختلف تناظر میں ایسا کر سکتا ہے، لیکن کام کی نوعیت اور اصول ایک ہی رہتے ہیں۔ ایک بار جب تو ان اصولوں اور کام کی نوعیت کا مشاہدہ کرے گا جو انہوں نے انجام دیا ہے، تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب ایک ہی روح سے ہوتا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں: "باپ باپ ہے؛ بیٹا بیٹا ہے۔ روح القدس روح القدس ہے، اور آخر میں، وہ ایک بنا دیے جائیں گے۔" پھر تو ان کو کیسے ایک بنانا چاہے گا؟ باپ اور روح القدس کو کیسے ایک بنایا جا سکتا ہے؟ اگر وہ فطری طور پر دو تھے تو پھر چاہے وہ کسی طرح بھی اکٹھے جوڑے جائیں، کیا وہ دو حصے نہیں رہیں گے؟ جب تو ان کو ایک بنانے کی بات کرتا ہے، تو کیا یہ صرف دو الگ الگ حصوں کو جوڑ کر ایک مکمل کرنے کے لیے نہیں ہے؟ لیکن کیا وہ مکمل ہونے سے پہلے دو حصے نہیں تھے؟ ہر روح کا ایک الگ جوہر ہے، اور دو روحیں ایک نہیں بن سکتیں۔ روح کوئی مادی چیز نہیں ہے اور مادی دنیا میں کسی بھی چیز کے برعکس ہے۔ جیسا کہ انسان اسے دیکھتا ہے، باپ ایک روح ہے، بیٹا دوسری، اور روح القدس ایک اور ہے، پھر تینوں روحیں تین گلاس پانی کی طرح ایک پوری روح میں مل جاتی ہیں۔ کیا پھر ایسا نہیں ہے کہ تینوں نے ایک کو بنایا؟ یہ سراسر غلط اور نامعقول وضاحت ہے! کیا یہ خدا کو تقسیم کرنا نہیں ہے؟ باپ، بیٹا اور روح القدس سب ایک کیسے بن سکتے ہیں؟ کیا وہ ایسے تین حصے نہیں ہیں جن میں سے ہر ایک کی نوعیت مختلف ہے؟ کچھ اور لوگ ہیں جو کہتے ہیں، "کیا خدا نے واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ یسوع اس کا محبوب بیٹا تھا؟" یسوع خدا کا محبوب بیٹا ہے، جس سے وہ بہت خوش ہے۔ یہ یقینی طور پر خود خدا نے کہا تھا۔ یہ خُدا خود اپنی گواہی دے رہا تھا، لیکن محض ایک مختلف تناظر میں، کہ آسمانی روح خود اپنی تجسیم کی گواہی دے رہی ہے۔ یسوع اس کی تجسیم ہے، اس کا آسمانی بیٹا نہیں۔ کیا تو سمجھتا ہے؟ کیا یسوع کے الفاظ، "مَیں باپ میں ہُوں اور باپ مُجھ میں،" یہ اشارہ نہیں کرتے کہ وہ ایک روح ہیں؟ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ انسانی شکل میں ہونے کی وجہ سے وہ زمین و آسمان کے درمیان جدا کیے گئے تھے؟ حقیقت میں، وہ اب بھی ایک ہیں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، یہ صرف خدا ہے جو اپنے آپ پر گواہی دے رہا ہے۔ ادوار میں تبدیلی، کام کے تقاضوں اور اس کے انتظامی منصوبے کے مختلف مراحل کی وجہ سے انسان اسے جس نام سے پکارتا ہے، وہ بھی مختلف ہوسکتا ہے۔ جب وہ کام کے پہلے مرحلے کو انجام دینے کے لیے آیا، تو اسے صرف یہوواہ کہا جا سکتا تھا، جو بنی اسرائیل کا چرواہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں، تجسیم میں خُدا کو صرف خُداوند، اور مسیح کہا جا سکتا تھا۔ لیکن اس وقت، آسمانی روح نے صرف یہ کہا کہ وہ خدا کا محبوب بیٹا ہے اور اس کے خدا کا اکلوتا بیٹا ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ایسا سرے سے ہوا ہی نہیں تھا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کی اکلوتی اولاد ہو؟ تو کیا پھر خدا انسان نہ بن جاتا؟ چونکہ وہ خدا کی تجسیم تھا، اس لیے وہ خدا کا محبوب بیٹا کہلاتا تھا، اور یہیں سے باپ اور بیٹے کے درمیان کا رشتہ وجود میں آیا۔ اس کی وجہ محض آسمان اور زمین کے درمیان جدائی تھی۔ یسوع نے جسم کے تناظر میں دعا کی۔ چونکہ اس نے اس طرح کی عام انسانیت کا گوشت پوست کا جسم پہنا تھا، اس لیے جسم کے تناظر میں اس نے کہا: "میرا بیرونی خول ایک تخلیق شدہ مخلوق کا ہے۔ چونکہ میں نے اس زمین پر آنے کے لیے ایک جسم پہنا ہے، اس لیے میں اب آسمان سے بہت، بہت زیادہ دور ہوں۔" اس وجہ سے، وہ صرف جسم کے تناظر میں باپ خدا سے دعا کر سکتا تھا۔ یہ اُس کا فرض تھا، اور یہ وہی تھا جو تجسیم کی شکل میں خُدا کی روح کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صرف اس لیے خدا نہیں تھا کہ اس نے جسم کے تناظر میں باپ سے دعا کی تھی۔ اگرچہ وہ خدا کا پیارا بیٹا کہلاتا تھا، پھر بھی وہ خود خدا تھا، کیونکہ وہ صرف روح کی تجسیم تھا، اور اس کا جوہر اب بھی روح تھا۔ لوگ حیران ہیں کہ اگر وہ خود خدا تھا تو اس نے دعا کیوں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجسم خدا تھا، جسم کے اندر رہنے والا خدا، نہ کہ آسمان میں روح۔ جیسا کہ انسان اسے دیکھتا ہے، باپ، بیٹا، اور روح القدس سب خدا ہیں۔ صرف تینوں کو ایک کے طور پر بنایا گیا ایک حقیقی خدا سمجھا جا سکتا ہے اور، اس طرح، اس کی طاقت غیر معمولی طور پر عظیم ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ صرف اسی طرح وہ سات گنا تقویت یافتہ روح ہے۔ جب بیٹے نے اپنے آنے کے بعد دعا کی تو یہ وہ روح تھی جس سے اس نے دعا کی تھی۔ حقیقت میں، وہ ایک تخلیق شدہ وجود کے تناظر میں دعا کر رہا تھا۔ کیونکہ جسم مکمل نہیں ہے، اس لیے وہ مکمل نہیں تھا اور جب وہ جسم میں آیا تو اس میں بہت سی کمزوریاں تھیں، اور جب اس نے جسم میں اپنا کام کیا تو وہ بہت مصیبت میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے مصلوب ہونے سے پہلے تین بار باپ خدا سے دعا کی، اور اس سے پہلے بھی کئی بار۔ اس نے اپنے شاگردوں کے درمیان دعا کی؛ اس نے اکیلے پہاڑ پر دعا کی؛ اس نے ماہی گیری کی کشتی پر دعا کی؛ اس نے بہت سے لوگوں کے درمیان دعا کی؛ روٹی توڑتے وقت اس نے دعا کی؛ اور دوسروں کو برکت دیتے وقت اس نے دعا کی؛ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ وہ روح تھی جس سے اس نے دعا کی تھی؛ وہ روح سے، آسمانی خدا سے، جسم کے تناظر میں دعا کر رہا تھا۔ لہذا، انسان کے نقطہ نظر سے، یسوع کام کے اس مرحلے میں بیٹا بن گیا. تاہم اس مرحلے میں وہ دعا نہیں مانگتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لیے ہے کہ جو کچھ وہ سامنے لاتا ہے وہ کلام کا کام ہے، اور کلام کی عدالت اور سزا ہے۔ اسے دعاوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اس کی ذمہ داری بولنا ہے۔ اُسے صلیب پر نہیں چڑھایا گیا، اور اُسے انسانوں کے ذریعے صاحب اقتدار لوگوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ وہ صرف اپنا کام کرتا ہے۔ جس وقت یسوع نے دعا کی، وہ خدا باپ سے آسمان کی بادشاہت کے نزول، باپ کی مرضی کے پورا ہونے اور آنے والے کام کے لیے دعا کر رہا تھا۔ اس مرحلے میں، آسمان کی بادشاہت پہلے ہی نازل ہو چکی ہے، تو کیا اسے اب بھی دعا کرنے کی ضرورت ہے؟ اس کا کام دور کو ختم کرنا ہے، اور اب نئے ادوار نہیں ہیں، تو کیا اگلے مرحلے کے لیے دعا کی ضرورت ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ ضرورت نہیں ہے!
انسان کی وضاحتوں میں بہت سے تضادات ہیں۔ درحقیقت یہ سب انسان کے تصورات ہیں؛ مزید جانچ پڑتال کے بغیر، تم سب یقین کرو گے کہ وہ درست ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ مثلثی خدا جیسے خیالات صرف انسان کے تصورات ہیں؟ انسان کا کوئی علم مکمل اور جامع نہیں ہوتا۔ ہمیشہ نجاستیں ہوتی ہیں، اور انسان کے خیالات بہت زیادہ ہوتے ہیں؛ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق خدا کے کام کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ انسان کے ذہن میں بہت کچھ ہے، جو سب منطق اور فکر سے آتا ہے، اور جو سچائی سے متصادم ہے۔ کیا تیری منطق خدا کے کام کاجامع تجزیہ کرسکتی ہے؟ کیا تو یہوواہ کے تمام کاموں کی بصیرت حاصل کر سکتا ہے؟ کیا تو ایک انسان کی حیثیت سے یہ سب دیکھ سکتا ہے، یا یہ خود خدا ہے جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک دیکھنے پر قادر ہے؟ کیا یہ تو ہے جو ازل سے ابد تک دیکھ سکتا ہے، یا یہ خدا ہے جو ایسا کر سکتا ہے؟ تو کیا کہتا ہے؟ تو خدا کی وضاحت کرنے کے قابل کیسے ہے؟ تیری وضاحت کی بنیاد کیا ہے؟ کیا تو خدا ہے؟ آسمان اور زمین، اور تمام اشیاء خدا نے خود بنائی ہیں۔ یہ تو نہیں تھا جس نے یہ کیا تھا، تو پھر تو غلط وضاحتیں کیوں دے رہا ہے؟ اب، کیا تو مثلثی خدا پر یقین رکھتا ہے؟ کیا تجھے نہیں لگتا کہ اس انداز میں یہ بہت گراں بار ہے؟ تیرے لیے بہتر ہوگا کہ ایک خدا پر ایمان رکھ، تین پر نہیں۔ ہلکا ہونا بہتر ہے کیونکہ خداوند کا بوجھ ہلکا ہے۔