انسان کی زندگی کا ماخذ خدا ہے

جس لمحے تو روتے ہوئے اس دنیا میں آتا ہے، اسی وقت سے تو اپنا فرض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ خدا کے منصوبے اور اس کے فرمان کے نفاذ کے لیے تو اپنا کردار ادا کرتا ہے اور اپنی زندگی کا سفر شروع کرتا ہے۔ تیرا پس منظر کچھ بھی ہو اور آگے جو بھی سفر ہو، کوئی بھی آسمانی ترتیب اور انتظامات سے بچ نہیں سکتا اور کسی کو بھی اپنی تقدیر پر اختیار حاصل نہیں ہے کیونکہ صرف وہی اس طرح کے کام کرنے کا اہل ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔ انسان جس دن سے وجود میں آیا ہے، خدا نے ہمیشہ اسی طرح کام کیا ہے، کائنات کا نظم و نسق، ہر شے کے بدلنے کے قوانین کی ہدایات نیز ان کی حرکت کا راستہ۔ تمام چیزوں کی طرح، انسان خاموشی اور انجانے میں خدا کی جانب سے حلاوت اور بارش اور شبنم سے پرورش پاتا ہے۔ تمام چیزوں کی طرح، انسان انجانے میں خدا کے ہاتھوں کی ترتیب کے تحت رہتا ہے۔ انسان کا دل اور روح خدا کے ہاتھ میں رہتے ہیں، اس کی زندگی کی ہر شے خدا کی نظر میں ہوتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ تو اس پر یقین رکھتا ہے یا نہیں، کوئی بھی شے یا تمام اشیا، خواہ جاندار ہوں یا بےجان، خدا کے خیالات کے مطابق منتقل ہو جائیں گی، تبدیل ہوں گی، نئی ہوں گی اور غائب ہوں گی۔ یوں خدا ہر چیز کی نگرانی کرتا ہے۔

جوں جوں رات خاموشی سے قریب آتی ہے انسان بے خبر ہوتا ہے کیونکہ انسان کا دل نہیں سمجھ سکتا کہ رات کیسے آتی ہے اور نہ ہی یہ کہ کہاں سے آتی ہے۔ جب رات خاموشی سے ڈھلتی ہے تو انسان دن کی روشنی کو خوش آمدید کہتا ہے لیکن یہ روشنی کہاں سے آئی اور اس نے رات کی تاریکی کو کیسے دور کیا، انسان اسے اور بھی کم جانتا ہے نیز اس سے اور بھی کم واقف ہوتا ہے۔ دن اور رات کی یہ بار بار کی تبدیلیاں انسان کو ایک دور سے دوسرے دور میں، ایک تاریخی تناظر سے دوسرے تاریخی تناظر میں لے جاتی ہیں، ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بناتی ہیں کہ ہر دور میں خدا کا کام اور ہر دور کے لیے اس کی منصوبہ بندی جاری رہے۔ انسان خدا کے ساتھ ان ادوار سے گزرا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ خدا تمام چیزوں اور جانداروں کی تقدیر پر حکمرانی کرتا ہے اور نہ ہی یہ کہ کس طرح خدا ہر چیز کو ترتیب دیتا ہے اور انھیں حکم دیتا ہے۔ اس نے زمانہ قدیم سے لے کر آج تک انسان کو اس سے دور رکھا ہے۔ جہاں تک سبب کی بات ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خدا کے اعمال بہت زیادہ مخفی ہیں اور نہ ہی اس وجہ سے کہ خدا کے منصوبے کا ابھی پورا ہونا باقی ہے بلکہ اس لیے کہ انسان کا دل اور روح خدا سے اس حد تک دور ہیں کہ انسان خدا کا اطاعت گزار ہونے کے باوجود شیطان کی خدمت میں مصروف ہوتا ہے اور پھر بھی وہ نہیں جانتا۔ کوئی بھی فعال ہو کر خدا کے نقش قدم اور خدا کے ظہور کی جستجو نہیں کرتا اور کوئی بھی خدا کی نگہداشت اور حفاظت میں زندگی بسر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کی بجائے، وہ اس دنیا کے عین مطابق ہونے نیز بقا کے ان اصولوں پر عمل کرنے کے لیے جن کی پیروی بدکار انسانیت کرتی ہے، شیطان کی تحلیل پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت انسان کا دل اور روح شیطان کے لیے انسان کا نذرانہ اور شیطان کی خوراک بن چکے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر، انسان کا دل اور روح شیطان کی آماجگاہ بن چکے ہیں جس میں شیطان رہ سکتا ہے اور اس کے لیے کھیل کا مناسب میدان بن گئے ہیں۔ اس طرح انسان نادانستہ طور پر انسان ہونے کے اصولوں اور انسانی وجود کی قدر و اہمیت کی تفہیم سے محروم ہو جاتا ہے۔ خدا کے قوانین اور خدا اور انسان کے درمیان عہد وپیمان، انسان کے دل سے بتدریج ختم ہو جاتے ہیں اور وہ خدا کی جستجو یا اس پر دھیان دینا چھوڑ دیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، انسان اس فہم و بصارت سے بھی محروم ہو جاتا ہے کہ خدا نے اسے کیوں پیدا کیا اور نہ ہی وہ خدا کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اور جو کچھ خدا کی طرف سے آتا ہے اسے سمجھنے کا اہل ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان خدا کے قوانین اور احکام کی مخالفت شروع کر دیتا ہے اور اس کا دل اور روح مردہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ خُدا اُس انسان کو کھو دیتا ہے جسے اُس نے اصل میں بنایا تھا اور انسان اُس جڑ کو کھو دیتا ہے جو اُس کی اصل میں تھی: اِس انسانی نسل کا یہی دکھ ہے۔ درحقیقت، ابتدا سے اب تک، خدا نے بنی نوع انسان کے لیے ایک المناک واقعہ کا اہتمام کیا ہے، جس میں انسان مرکزی کردار اور شکار دونوں ہے اور کوئی بھی یہ جواب نہیں دے سکتا کہ اس المیے کا ہدایت کار کون ہے۔

دنیا کی عظیم وسعت میں بار بار، سمندر کھیتوں میں ڈھل رہے ہیں، کھیت بہہ کر سمندروں میں جا رہے ہیں۔ سوائے اس ذات کے جو ہر چیز پر حاکم ہے، کوئی اس نسل انسانی کی راہنمائی اور قیادت پر قادر نہیں ہے اور اس سے بھی کم، کوئی اس قدر طاقت ور نہیں ہے کہ اس نسل انسانی کے لیے محنت یا تیاری کرے نیز اس نسل انسانی کو روشنی کی منزل کی طرف لے جائے اور اسے زمینی ناانصافیوں سے نجات دلائے۔ خدا بنی نوع انسان کے مستقبل پر ماتم کرتا ہے، وہ بنی نوع انسان کے زوال پر غمگین ہے اور اس بات پر تکلیف میں ہے کہ بنی نوع انسان قدم بہ قدم روبہ زوال ہے اور ناقابل واپسی راستے پر گامزن ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ خدا کے دل کو توڑ کر اور اس سے دست بردار ہوکر شیطان کی جستجو کرنے والا بنی نوع انسان کس سمت گامزن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کو خدا کے غضب کا احساس کیوں نہیں ہوتا، کیوں کوئی خدا کو راضی کرنے کا راستہ نہیں تلاش کرتا اور خدا سے قربت کی کوشش کیوں نہیں کرتا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی خدا کے غم اور درد کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا۔ خدا کی آواز سننے کے بعد بھی انسان اپنے ہی راستے پر چلنا جاری رکھتا ہے، خدا سے دور رہنے پر مصر رہتا ہے، خدا کے فضل اور نگہداشت سے بچتا ہے اور اس کی سچائی سے کنارہ کشی کرتا ہے، خود کو خدا کے دشمن شیطان کے ہاتھ بیچنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کسی نے کبھی یہ سوچا ہے– کیا انسان کو اپنی ہٹ دھرمی پر مصر رہنا چاہیے – کہ خدا کو اس بنی نوع انسان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے جس نے اسے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر ہی مسترد کر دیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ خدا کی بار بار کی یاددہانیوں اور نصیحتوں کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں میں ایک ایسی آفت تیار کر رکھی ہے جو پہلے کبھی نہیں آئی تھی، جو انسان کے جسم اور روح کے لیے ناقابل برداشت ہو گی۔ یہ آفت محض جسم کی سزا نہیں ہے بلکہ روح کی بھی ہے۔ تجھ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے: جب خدا کا منصوبہ پورا ہو جائے گا اور جب اس کی نصیحتیں اور یاددہانیوں پر عمل نہیں ہو گا، تو وہ کس قسم کا غصہ نکالے گا؟ یہ کسی ایسی چیز کی طرح نہیں ہو گا جس کا تجربہ کسی تخلیق شدہ مخلوق نے پہلے کیا ہو یا سنا ہو اور اسی لیے میں کہتا ہوں، یہ آفت بے نظیر ہے اور کبھی نہیں دہرائی جائے گی کیونکہ خدا کا منصوبہ بنی نوع انسان کو صرف ایک بار پیدا کرنا ہے اور بنی نوع انسان کو صرف ایک بار بچانا ہے۔ یہ پہلی بار ہے اور یہ آخری بھی ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی اُن محتاط ارادوں اور پرجوش توقعات کو نہیں سمجھ سکتا جس کے ساتھ خدا اس بار بنی نوع انسان کو بچا رہا ہے۔

خدا نے یہ دنیا بنائی اور ایک جاندار مخلوق انسان کو لایا جسے اس نے زندگی عطا کی۔ اس کے بعد، انسان کو والدین اور خاندان ملا اور اب وہ اکیلا نہیں تھا۔ جب سے انسان نے پہلی بار اس مادی دنیا پر نگاہ ڈالی ہے، تب سے خدائی ترتیب کے سائے میں رہنا اس کا مقدر بن گیا۔ خُدا کی طرف سے زندگی کی سانس ہر ایک جاندار مخلوق کی بلوغت تک افزائش میں مدد کرتی ہے۔ اس عمل کے دوران، کوئی بھی یہ محسوس نہیں کرتا کہ انسان خدا کی نگہداشت میں پروان چڑھ رہا ہے؛ بلکہ ان کا خیال ہے کہ انسان اپنے والدین کی محبت بھری دیکھ بھال میں پروان چڑھ رہا ہے اور یہ کہ اس کی اپنی زندگی کی جبلت ہی اس کی نشوونما کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو نہیں معلوم کہ اسے زندگی کس نے عطا کی ہے یا یہ کہاں سے آئی ہے، اس کے بارے میں تو وہ بالکل ہی واقف نہیں ہے کہ زندگی کی جبلت کس طرح معجزات کو جنم دیتی ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ خوراک ہی وہ بنیاد ہے جس پر اس کی زندگی کا دارومدار ہے، یہ کہ استقامت اس کے وجود کا سرچشمہ ہے اور یہ کہ اس کے ذہن میں موجود عقائد وہ سرمایہ ہیں جن پر اس کی بقا کا انحصار ہے۔ انسان خدا کے فضل اور اس کے رزق سے بالکل غافل ہے اور اس طرح وہ خدا کی عطا کردہ زندگی کو ضائع کر دیتا ہے۔۔۔۔ اس بنی نوع انسان میں سے جس کا خدا شب و روز خیال رکھتا ہے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو بغیر کہے خود سے اس کی عبادت کرتا ہو۔ خُدا صرف انسان پر کام کرتا رہتا ہے، جیسا کہ اُس نے منصوبہ بنایا ہے اور جس کے لیے وہ کوئی توقعات نہیں رکھتا۔ وہ اس امید پر ایسا کرتا ہے کہ ایک دن، انسان اپنے خواب غفلت سے بیدار ہو جائے گا اور اچانک زندگی کی قدر و اہمیت کا احساس کرے گا، اس کو دینے کے لیے خدا نے جو قیمت ادا کی ہے اسے محسوس کرے گا اور اس شدید اشتیاق کو محسوس کرے گا جس کے ساتھ خدا انسان کی واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔ انسان کی زندگی کی ابتدا اور تسلسل پر حکمرانی کرنے والے اسرار و رموز پر کسی نے کبھی غور نہیں کیا۔ صرف خدا ہی ہے جو ان سب باتوں کو سمجھتا ہے اور خاموشی سے اس تکلیف اور ضرب کو برداشت کرتا ہے جو خدا سے سب کچھ حاصل کرنے والا ناشکرا انسان بدلے میں اسے دیتا ہے۔ انسان ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہوتا ہے جو زندگی یقینی طور پر لاتی ہے اور اسی طرح، یہ "یقینی امر ہے" کہ انسان خدا کو دھوکا دیتا ہے، انسان اسے فراموش کرتا ہے اور انسان زبردستی کرتا ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کا منصوبہ واقعی اس قدر اہمیت کا حامل ہو؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ انسان، وہ جاندار جو خدا کے ہاتھ سے وجود میں آیا ہے، واقعی اتنی اہمیت کا حامل ہو؟ خدا کا منصوبہ یقیناً اہمیت کا حامل ہے تاہم، خدا کے ہاتھ سے تخلیق شدہ یہ جاندار مخلوق اس کی منصوبہ بندی کی خاطر موجود ہے۔ لہٰذا، خدا اس نسل انسانی سے نفرت کی وجہ سے اپنے منصوبے کو ضائع نہیں کر سکتا۔ یہ اُس کے منصوبے کی خاطر اور اُس سانس کے لیے ہے جو اُس نے چھوڑی کہ خُدا انسان کے جسم کے لیے نہیں بلکہ انسان کی زندگی کے لیے تمام عذاب برداشت کرتا ہے۔ وہ ایسا انسان کے جسم کو واپس لینے کے لیے نہیں بلکہ اس زندگی کو واپس لینے کے لیے کرتا ہے جو اس نے پھونکی تھی۔ یہی اس کا منصوبہ ہے۔

اس دنیا میں آنے والے تمام لوگوں کو لازماً زندگی اور موت سے گزرنا ہے اور ان میں سے اکثریت موت اور دوبارہ جنم لینے کے دور سے گزر چکی ہے۔ جو زندہ ہیں وہ جلد ہی مر جائیں گے اور جو مر چکے ہیں وہ جلد ہی واپس آئیں گے۔ یہی زندگی کی روش ہے جسے خدا نے ہر جاندار کے لیے مرتب کیا ہے۔ پھر بھی یہ روش اور یہ دَور بالکل وہی سچائیاں ہیں جن کے بارے خدا چاہتا ہے کہ انسان انھیں دیکھے: کہ خدا کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی زندگی لامحدود ہے، جسمانی اور زمان و مکان کی قید سے آزاد۔ خدا کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی زندگی کا راز یہی ہے اور یہ ثبوت بھی کہ زندگی اسی کی عطا کردہ ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ یہ یقین نہیں کرتے کہ زندگی خدا کی عطا کردہ ہے، انسان لامحالہ ان تمام اشیا سے لطف اندوز ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں، خواہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھے یا نہ رکھے۔ اگر کسی دن خدا کا ارادہ اچانک بدل جائے اور وہ دنیا میں موجود تمام اشیا کو واپس لے لے اور وہ زندگی بھی جو اس نے دی ہے، تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ خدا اپنی زندگی کو تمام جاندار اور غیر جاندار اشیا کی فراہمی کے لیے استعمال کرتا ہے، اپنی طاقت اور اختیار سے سب کو اچھی ترتیب میں لاتا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا کوئی تصور یا ادراک نہیں کر سکتا، اور یہ ناقابل فہم سچائیاں خدا کی قوت حیات کی مظہر اور سند ہیں۔ اب مجھے ایک راز کی بات بتانے دے: خدا کی زندگی کی عظمت اور اس کی زندگی کی قدرت کسی بھی مخلوق کے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے، جیسا کہ یہ ماضی میں تھا اور آنے والے وقت میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ دوسرا راز جو میں تیرے علم میں لاؤں گا وہ یہ ہے: تمام مخلوقات کے لیے، خواہ وہ شکل یا ساخت میں کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں، زندگی کا منبع خدا کی طرف سے ہے۔ تو جس قسم کا بھی جاندار ہے، خدا کی طرف سے مقرر کردہ زندگی کے راستے کے خلاف نہیں جا سکتا۔ کسی بھی صورت میں، میری خواہش یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے: خدا کی نگہبانی، حفاظت اور رزق کے بغیر، انسان وہ سب کچھ حاصل نہیں کر سکتا جو اسے حاصل کرنا تھا، خواہ وہ کتنی ہی جانفشانی سے کام کیوں نہ کرے یا کتنی ہی سخت جدوجہد کیوں نہ کرے۔ خدا کی طرف سے زندگی کی فراہمی کے بغیر، انسان زندگی کی قدر اور زندگی کے معنی کا احساس کھو دیتا ہے۔ خُدا کسی ایسے انسان کو جو بے معنی چیزوں میں اپنی زندگی کی قدر ضائع کر رہا ہے، اِس قدر بے فکر رہنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے: یہ مت بھولو کہ خدا تیری زندگی کا منبع ہے۔ اگر انسان خدا کی طرف سے ودیعت کردہ نعمتوں کی قدر کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو نہ صرف خدا اس کو واپس لے لے گا جو اس نے شروع میں دیا تھا، بلکہ وہ، انسان سے بدلہ کے طور پر، اپنی عطا کردہ تمام اشیا کی دوگنی قیمت وصول کرے گا۔

26 مئی 2003

سابقہ: تمھیں اپنے اعمال پر غور کرنا چاہیے

اگلا: قادر مطلق کی آہ و زاری

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

تنظیمات

  • متن
  • تھیمز

گہرے رنگ

تھیمز

فونٹس

فونٹ کا سائز

سطور کا درمیانی فاصلہ

سطور کا درمیانی فاصلہ

صفحے کی چوڑائی

مندرجات

تلاش کریں

  • اس متن میں تلاش کریں
  • اس کتاب میں تلاش کریں

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp