خدا کے ظہور کو اس کی عدالت و سزا میں دیکھنا

October 1, 2022

خُداوند یسوع مسیح کی اتباع کرنے والے دیگر لاکھوں افراد کی طرح، ہم انجیل کے قوانین و فرامین کی پابندی کرتے ہیں، خُداوند یسوع مسیح کے کثیر فضل سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں، مناجات کرتے ہیں، حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور خُداوند یسوع مسیح کے نام پر خدمت کرتے ہیں – اور یہ سب ہم خُداوند کی دیکھ بھال اور تحفظ میں کرتے ہیں۔ ہم اکثر کمزور ہوتے ہیں اور ہم اکثر طاقتور بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ہمارے تمام اعمال خداوند کی تعلیمات کے مطابق ہوتے ہیں۔ اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم بھی اپنے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم آسمان میں باپ کی مرضی کو پورا کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔ ہم خُداوند یسوع کی واپسی کی، اُس کے شاندار نزول کی، روئے زمین پر ہماری زندگی کے اختتام کی، بادشاہی کے ظہور کی اور ہر شے کے لیے جیسا کہ مکاشفہ کی کتاب میں پیشین گوئی کی گئی ہے، شدید آرزو رکھتے ہیں: خُداوند آتا ہے، وہ تباہی لاتا ہے، وہ نیک کو صلہ دیتا ہے اور بد کو سزا دیتا ہے اور وہ تمام لوگوں کو جو اس کی اتباع کرتے ہیں، جو اس کی واپسی کا خیرمقدم کرتے ہیں ملاقات کے لیے اپنے ساتھ آسمان میں لے جاتا ہے۔ جب بھی ہم اس بارے میں سوچتے ہیں، ہم جذبات اور خوشی سے مغلوب ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے، کہ ہم آخری ایام میں پیدا ہوئے ہیں اور ہمیں خُداوند کی آمد کا مشاہدہ کرنے کی خوش بختی حاصل ہے۔ اگرچہ ہمیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن بدلے میں ہمیں "ایک از حد بھاری اور ابدی جلال والی" اعلیٰ نعمت ملی ہے! یہ تمام آرزو اور خداوند کی طرف سے عطا کردہ فضل ہمیں عبادت کے لیے مستقل سنجیدہ بناتا اور ہمیں ایک ساتھ جمع ہونے میں مزید مستعد کرتا ہے۔ شاید اگلے سال، شاید کل اور ممکن ہے کہ انسان کے تصور سے بھی کم وقت کے اندر، خُداوند اچانک نازل ہو، اُن لوگوں کے درمیان ظاہر ہو جو بے تابی کے ساتھ اُس کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے دوڑتے ہیں، کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں، یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خداوند کا ظہور دیکھنے والے پہلے گروہ میں ہوں، ان لوگوں میں سے ہوں جو یسوع مسیح کے استقبال کے لیے آسمان میں بلند کیے جائیں گے۔ ہم اس دن کی آمد کے لیے، قیمت سے بے نیاز، سب کچھ دے چکے ہیں؛ کچھ نے اپنی نوکری چھوڑ دی، کچھ نے اپنے اہل خانہ کو چھوڑ دیا، کچھ نے شادی ترک کر دی اور یہاں تک کہ کچھ نے تو اپنی ساری بچت عطیہ کر دی۔ کتنی بے لوث عقیدت کے کام ہیں! ایسا خلوص اور ایسی وفاداری یقیناً ماضی کے درویشوں سے بھی ماورا ہے! جیسا کہ خداوند جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ ہماری عقیدت اور انفاق کے اعمال، بہت پہلے سے اس کی نگاہوں میں ہیں۔ اسی طرح، ہماری دل کو متاثر کرنے والی دعائیں اس کی سماعت تک پہنچی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ خداوند ہمیں ہمارے پرخلوص جوش و جذبے کی جزا عطا کرے گا۔ مزید برآں، خدا دنیا تخلیق کرنے سے قبل ہم پر رحیم و کریم تھا اور جو نعمتیں اور وعدے اس نے ہمیں دیے ہیں وہ کوئی نہیں چھین سکتا۔ ہم سب مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور قدرتی بات ہے کہ یسوع مسیح کے خیرمقدم کے لیے آسمان میں بلند کیے جانے کے بدلے میں ہم نے اپنے وقف اور مصارف کو کاؤنٹر چپس یا سرمائے میں تبدیل کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ، ہم نے ذرہ بھر ہچکچاہٹ کے بغیر، تمام اقوام اور تمام لوگوں کا اختیار سنبھالنے یا بادشاہوں کے طور پر حکومت کرنے کے لیے، خود کو مستقبل کے تخت پر بٹھا دیا ہے۔ یہ سب ہم ایک متوقع چیز کے مفروضے کے طور پر لیتے ہیں۔

ہم ان تمام لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جو خداوند یسوع کے خلاف ہیں؛ ان تمام لوگوں کا انجام فنا ہو گا۔ کس نے ان سے کہا کہ وہ یقین نہ کریں کہ خداوند یسوع نجات دہندہ ہے؟ بلاشبہ، ایسے اوقات ہوتے ہیں جب ہم دنیا کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنے میں خداوند یسوع کی نقل کرتے ہیں، کیونکہ وہ نا سمجھ ہیں اور یہ درست ہے کہ ہم ان کے ساتھ تحمل اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ انجیل کے الفاظ کے مطابق ہے، کیونکہ ہر وہ چیز جو انجیل کے مطابق نہیں ہے وہ الحاد اور بدعت ہے۔ اس قسم کا عقیدہ ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں مضبوطی سے جاگزین ہے۔ ہمارا خداوند انجیل میں ہے اور اگر ہم انجیل سے الگ نہیں ہوتے، تو ہم خداوند سے الگ نہیں ہوں گے؛ اگر ہم اس اصول پر عمل کریں گے تو ہمیں نجات ملے گی۔ ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور جب بھی ہم ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہیں گے اور کریں گے وہ خداوند کی مرضی کے مطابق ہو گا اور خداوند کی طرف سے قبول کیا جائے گا۔ ہمارے اطراف شدید نفرت و خصومت کے باوجود ہمارے دل مسرت سے لبریز ہیں۔ جب ہم ان نعمتوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ہماری بہت آسان دسترس میں ہیں، تو کیا ایسی کوئی چیز ہے جسے ہم ایک طرف نہیں رکھ سکتے؟ کیا ایسی کوئی چیز ہے جس سے ہم الگ ہونے سے گریزاں ہیں؟ یہ سب کچھ کہے بغیر ہو جاتا ہے اور یہ سب خدا کی چوکس نگاہوں کے سامنے ہے۔ ہم، یہ مٹھی بھر ضرورت مند جو گوبر سے اٹھائے گئے ہیں، خداوند یسوع کے تمام معمولی پیروکاروں کی طرح ہیں، جو یسوع مسیح کا استقبال کرنے کے لیے آسمان میں بلند کیے جانے، فیض پانے اور تمام اقوام پر حکومت کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ہماری بدعنوانی خدا کی نظروں میں عیاں ہو چکی ہے اور ہماری خواہشات اور حرص خدا کی نظروں میں قابل مذمت ٹہرائی جا چکی ہیں۔ بہرحال، یہ سب کچھ اس قدر حسب معمول اور اس قدر منطقی طور پر ہوتا ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس بات کو نہیں سوچتا کہ آیا ہماری خواہشات درست ہیں یا نہیں، یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی ہر اس چیز کی درستی پر شک ہو جو ہم رکھتے ہیں۔ خدا کی مرضی کو کون جان سکتا ہے؟ یہ واقعی کس طرح کا راستہ ہے جس پر انسان چلتا ہے، ہمیں تلاش کرنا یا دریافت کرنا نہیں آتا؛ اور پوچھ گچھ کرنے میں تو ہمیں اور بھی کم دلچسپی ہے۔ کیونکہ ہم صرف اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ کیا ہم یسوع مسیح کے استقبال کے لیے آسمان مں بلند کیے جا سکتے ہیں، کیا ہم فیض یاب ہو سکتے ہیں، کیا آسمان کی بادشاہی میں ہمارے لیے کوئی جگہ ہے اور کیا ہمیں بحر حیات کے پانی اور شجر حیات کے پھل کا حصہ ملے گا۔ کیا ان چیزوں کو حاصل کرنے کی خاطر ہم خداوند پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے پیروکار نہیں بنتے؟ ہمارے گناہ معاف ہو گئے ہیں، ہم نے توبہ کر لی ہے، ہم شراب کا تلخ پیالہ نوش کر چکے ہیں اور ہم نے صلیب کو اپنی پشت پر رکھ لیا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جو قیمت ہم نے ادا کی ہے وہ خداوند قبول نہیں کرے گا؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نے کافی تیل تیار نہیں کیا؟ ہم ان بے وقوف کنواریوں یا متروک لوگوں میں سے ایک نہیں بننا چاہتے۔ مزید برآں، ہم مسلسل مناجات کرتے ہیں، خُداوند سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جھوٹے مسیحوں کے فریب میں آنے سے بچائے، کیونکہ انجیل میں کہا گیا ہے: "اُس وقت اگر کوئی تُم سے کہے کہ دیکھو مسِیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقِین نہ کرنا۔ کیونکہ جُھوٹے مسِیح اور جُھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اَیسے بڑے نِشان اور عجِیب کام دِکھائیں گے کہ اگر مُمکِن ہو تو برگُزِیدوں کو بھی گُمراہ کر لیں" (متّی 24: 23-24)۔ ہم سب نے انجیل کی ان آیات کو یاد رکھنے کا عہد کیا ہے۔ ہم انھیں زبانی یاد رکھتے ہیں اور ہم انھیں ایک قیمتی خزانے کے طور پر، زندگی کے طور پر اور اعتبار نامہ کے طور پر دیکھتے ہیں جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا ہمیں بچایا یا یسوع مسیح کے استقبال کے لیے اوپر آسمان میں اٹھایا جا سکتا ہے ۔۔۔

ہزاروں سال سے زندہ لوگ اپنی آرزوؤں اور خوابوں کو اپنے ساتھ لے کر رخصت ہو چکے ہیں، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا ہے کہ کیا وہ آسمان کی بادشاہی میں گئے ہیں۔ مردے واپس لوٹتے ہیں، ان تمام کہانیوں کو فراموش کر کے جو کبھی واقع ہوئی تھیں اور وہ اب بھی آباؤاجداد کی تعلیمات اور راستوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اس طرح، جیسے جیسے ماہ و سال گزرتے جاتے ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ آیا ہمارا خُداوند یسوع، ہمارا خُدا، ہمارے ہر کام کو واقعی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ نتیجہ آنے کا انتظار کریں اور ہر اس چیز کے بارے میں قیاس آرائی کریں جو سامنے آئے گی۔ اس کے باوجود خُدا نے اپنی خاموشی کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے، کبھی ہم پر ظاہر نہیں ہوتا، کبھی ہم سے بات نہیں کرتا۔ اور اس طرح، انجیل کی پیروی کرتے ہوئے اور نشانیوں کے مطابق، ہم خودسری سے اپنی مرضی کے مطابق خدا کی مرضی اور مزاج کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں۔ ہم خدا کی خاموشی کے عادی ہو چکے ہیں؛ ہم خود اپنی طرزِ فکر سے اپنے طرزِ عمل کے صحیح اور غلط کی پیمائش کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ خدا جو مطالبات ہم سے کرتا ہے؛ ان کی بجائے ہم اپنے علم، تصورات اور اخلاقیات پر بھروسہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم خدا کے فضل سے لطف اندوز ہونے کے عادی ہو چکے ہیں؛ ہم عادی ہو چکے ہیں کہ جب بھی ہمیں ضرورت ہو خدا مدد فراہم کرے؛ ہم ہر چیز کے لیے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے عادی ہو چکے ہیں اور اس کے بارے میں خدا کو حکم دینے کے عادی ہو چکے ہیں؛ ہم ضابطوں کی تعمیل کرنے کے بھی عادی ہو چکے ہیں؛ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ روح القدس ہماری راہنمائی کیسے کرتی ہے؛ اور، اس سے بھی بڑھ کر، ہم ان دنوں کے عادی ہو چکے ہیں جن میں ہم اپنے مالک خود ہوتے ہیں۔ ہم ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ہم کبھی آمنے سامنے نہیں ملے۔ سوالات جیسے کہ اس کا مزاج کیسا ہے، اس کے پاس کیا ہے اور وہ خود کیا ہے، اس کی شبیہ کیسی ہے، جب وہ آئے گا تو ہم اسے جان پائیں گے یا نہیں، وغیرہ – ان میں سے کچھ بھی اہم نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمارے دلوں میں ہے اور ہم سب اس کا انتظار کر رہے ہیں اور اتنا کافی ہے کہ ہم اس کے بارے میں یہ تصور کرنے پر قادر ہیں کہ وہ ایسا ہے یا ویسا ہے۔ ہم اپنے ایمان کی قدر کرتے ہیں اور اپنی روحانیت کی قیمتی سمجھتے ہیں۔ ہم ہر چیز کو گوبر کی طرح دیکھتے ہیں اور ہر چیز کو پاؤں تلے روندتے ہیں۔ کیونکہ ہم خداوند ذوالجلال کے ماننے والے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سفر کتنا دراز اور کٹھن ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمیں کتنی مشکلات اور خطرات کا سامنا ہے، کوئی بھی چیز ہمیں خداوند کی پیروی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ "آبِ حیات کا ایک بلور کی طرح چمکتا ہُؤا دریا، جو خُدا اور برّہ کے تخت سے نِکلا۔ اور دَریا کے آرپار زِندگی کا درخت تھا۔ اُس میں بارہ قِسم کے پَھل آتے تھے اور ہر مہِینے میں پَھلتا تھا: اور اُس درخت کے پتّوں سے قَوموں کو شِفا ہوتی تھی۔ اور پِھر لَعنت نہ ہو گی اور خُدا اور بَرّہ کا تخت اِس میں ہو گا؛ اور اُس کے بندے اُس کی عِبادت کریں گے۔ اور وہ اُس کا مُنہ دیکھیں گے اور اُس کا نام اُن کے ماتھوں پر لِکھا ہُؤا ہو گا۔ اور پِھر رات نہ ہو گی اور وہ چراغ اور سُورج کی روشنی کے مُحتاج نہ ہوں گے کیونکہ خُداوند خُدا اُن کو رَوشن کرے گا اور وہ ابدُالآباد بادشاہی کریں گے" (مُکاشفہ 22: 1-5)۔ جب بھی ہم یہ الفاظ گاتے ہیں، ہمارے دل بے پناہ خوشی اور اطمینان سے بھر جاتے ہیں اور ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگتے ہیں۔ ہم خُداوند کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں چُنا، ہم خُداوند کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا۔ اس نے ہمیں اس زندگی میں سو گنا دیا ہے اور آنے والی دنیا میں ہمیشہ کی زندگی دی ہے۔ اگر وہ اب ہم سے مرنے کو کہے تو ہم ذرہ بھر شکایت کے بغیر اپنی جان قربان کر دیں گے۔ اے خداوند! براہ کرم جلد آ! یہ دیکھتے ہوئے کہ ہم کس شدت سے تیرے لیے تڑپ رہے ہیں اور تیرے لیے سب کچھ چھوڑ چکے ہیں، ایک منٹ، ایک سیکنڈ سے بھی زیادہ تاخیر نہ کر۔

خدا خاموش ہے اور ہم پر کبھی ظاہر نہیں ہوا، پھر بھی اس کا کام کبھی نہیں رکا۔ وہ ساری زمین کا جائزہ لیتا ہے اور ہر چیز کو حکم دیتا ہے اور انسان کے تمام اقوال و افعال کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنے انتظام کو نپے تلے انداز میں اور اپنے منصوبے کے مطابق خاموشی اور ڈرامائی اثر کے بغیر چلاتا ہے، پھر بھی اس کے نقوشِ قدم ایک ایک کر کے بنی نوع انسان کے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کی عدالت کی کرسی کائنات میں بجلی کی رفتار سے تعینات ہے، جس کے بعد اس کا تخت فوراً ہمارے درمیان اترتا ہے۔ یہ کیسا شاندار منظر ہے، کیا ہی شاہانہ اور پُر شکوہ تمثیل ہے! ایک فاختہ کی طرح اور ایک دھاڑتے ہوئے شیر کی طرح، روح ہمارے درمیان آتی ہے۔ وہ حکمت ہے، وہ راستباز اور پُر جلال ہے اور وہ ہمارے درمیان خفیہ طور پر آتی ہے، اختیار کو استعمال کرتی ہے اور محبت اور رحم سے لبریز ہے۔ کوئی اس کی آمد سے واقف نہیں، کوئی اس کی آمد کا خیرمقدم نہیں کرتا اور اس سے بڑھ کر، کوئی بھی یہ ہرگز نہیں جانتا کہ وہ کیا کرنے والی ہے۔ انسان کی زندگی پہلے کی طرح چلتی ہے، اس کا دل مختلف نہیں ہوتا اور دن معمول کے مطابق گزرتے ہیں۔ خدا ہمارے درمیان رہتا ہے، دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان، پیروکاروں میں سب سے زیادہ غیر اہم اور ایک عام ایمان رکھنے والے کے طور پر۔ اس کے اپنے اہداف ہیں، اس کے اپنے مقاصد ہیں۔ اور مزید یہ کہ اس کے پاس الوہیت ہے جو عام انسانوں کے پاس نہیں ہے۔ اس کی الوہیت کو کسی نے محسوس نہیں کیا اور کسی نے اس کے اور انسان کے جوہر کے درمیان فرق کو نہیں سمجھا۔ ہم اُس کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں، آزادانہ اور بے خوف، کیونکہ ہماری نظر میں وہ بس ایک عام ایمان رکھنے والا ہے۔ وہ ہماری ہر حرکت کو دیکھتا ہے اور ہمارے تمام خیالات اور تصورات اس کے سامنے کھلے پڑے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی اس کے وجود میں دلچسپی نہیں لیتا، کوئی بھی اس کے کام کے بارے میں کوئی تصور نہیں کرتا اور اس سے بھی بڑھ کر کسی کو اس کی شناخت کے بارے میں ہلکا سا شبہ بھی نہیں ہے۔ ہم صرف اپنی جستجو جاری رکھے ہوئے ہیں، گویا اس کا ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔۔۔

اتفاقاً، روح القدس اُس کے "ذریعے" کلام کا ایک اقتباس بیان کرتی ہے اور اگرچہ یہ بہت غیر متوقع محسوس ہوتا ہے، پھر بھی ہم اسے خُدا کی طرف سے آنے والے کلام کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور خُدا کی طرف سے اسے فوراً قبول کر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ، اس بات سے قطع نظر کہ ان الفاظ کا اظہار کون کرتا ہے، جب تک وہ روح القدس کی طرف سے آتے ہیں، ہمیں ان کو قبول کرنا چاہیے اور ان کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ اگلا کلام میرے ذریعے، یا تیرے ذریعے، یا کسی اور کے ذریعے آ سکتا ہے۔ یہ جو کوئی بھی ہے، سب خدا کا فضل و کرم ہے۔ پھر بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ کون ہے، ہم اس شخص کی عبادت نہیں کر سکتے ہیں، کیوں کہ معاملہ جو بھی ہو، یہ شخص ممکنہ طور پر خدا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہم کسی بھی طرح سے ایسے ایک عام انسان کو اپنے خدا کے طور پر منتخب کر سکتے ہیں۔ ہمارا خدا بہت بڑا اور عزت و تکریم والا ہے؛ اتنا معمولی شخص اس کی جگہ کیسے لے سکتا ہے؟ مزید یہ کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ خدا آئے اور ہمیں آسمان کی بادشاہی میں واپس لے جائے، تو کوئی اتنا معمولی انسان اس قدر اہم اور مشکل کام کیسے کر سکتا ہے؟ اگر خُداوند دوبارہ آتا ہے تو یہ سفید بادل پر ہونا ضروری ہے تاکہ تمام لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یہ کتنا شاندار ہو گا! یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ عام لوگوں کے گروہ کے درمیان چپکے سے چھپ جائے۔

اور پھر بھی لوگوں کے درمیان روپوش یہ عام انسان ہے، جو ہمیں بچانے کا نیا کام کر رہا ہے۔ وہ ہمیں کوئی وضاحت پیش نہیں کرتا اور نہ ہی وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کیوں آیا ہے، بلکہ صرف وہ کام کرتا ہے جو وہ نپے تلے قدموں کے ساتھ اور اپنے منصوبے کے مطابق کرنا چاہتا ہے۔ اس کے الفاظ اور اقوال اور زیادہ عام ہوتے جاتے ہیں۔ تسلی دینے، نصیحت کرنے، یاد دلانے اور تنبیہ کرنے سے لے کر ملامت اور تادیب تک؛ دھیمے اور نرم لہجے سے لے کر غضبناک اور جلالی الفاظ تک – یہ سب انسان پر رحم کرتے اور اس کے اندر اضطراب جاگزین کرتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو وہ کہتا ہے وہ ہمارے اندر گہرائی چھپے اسرار پر نشانے پر لگتی ہے؛ اس کے الفاظ ہمارے دلوں کو ڈنک مارتے ہیں، ہماری روحوں کو ڈنک مارتے ہیں اور ہمیں ناقابل برداشت شرمندگی سے بھر دیتے ہیں، اور ہمیں بالکل علم نہیں ہوتا کہ خود کو کہاں چھپائیں۔ ہم سوچنے لگتے ہیں کہ کیا اس شخص کے دل میں موجود خدا واقعی ہم سے محبت کرتا ہے اور وہ در اصل کرنا کیا چاہتا ہے۔ شاید ہم ان مصائب کو برداشت کرنے کے بعد ہی یسوع مسیح کے استقبال کے لیے آسمان پر بلند کیے جا سکتے ہیں؟ اپنے دماغ میں، ہم حساب لگا رہے ہیں ۔۔۔ آنے والی منزل کے بارے میں اور اپنے مستقبل کی قسمت کے بارے میں۔ اس کے باوجود، پہلے کی طرح، ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ خدا نے ہمارے درمیان کام کرنے کے لیے جسم کو پہلے سے ہی اختیار کر لیا ہے۔ حالانکہ اس نے اتنے لمبے عرصے تک ہمارا ساتھ دیا ہے، باوجود اس کے کہ وہ ہم سے روبرو کئی باتیں کہہ چکا ہے، ہم ایسے معمولی انسان کو اپنے مستقبل کا خدا ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ تو بہت دور کی بات ہے کہ ہم اپنے مستقبل اور اپنی تقدیر کا تسلط اس معمولی شخص کے سپرد کر دیں۔ اُس کی طرف سے ہم زندگی کے پانی کی لامتناہی فراہمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اُس کے ذریعے ہم خُدا کے ساتھ آمنے سامنے رہتے ہیں۔ لیکن ہم صرف آسمان والے خُداوند یسوع کے فضل کے شکر گزار ہوتے ہیں اور اُس عام شخص کے جذبات پر کبھی توجہ نہیں دیتے جو الوہیت کا حامل ہے۔ پھر بھی، پہلے کی طرح، وہ جسم میں روپوش رہتے ہوئے اپنا کام عاجزی سے کرتا ہے، اپنے دل کے نہاں خانوں کا اظہار کرتا ہے، گویا بنی نوع انسان کی طرف سے مسترد کیے جانے کی کوئی فکر کیے بغیر، گویا انسان کے بچگانہ پن اور جہالت کو ہمیشہ کے لیے معاف کر دیتا ہے اور اپنے بارے میں انسان کے گستاخانہ رویے کو ہمیشہ کے لیے برداشت کر لیتا ہے۔

ہمارے لیے اجنبی، اس معمولی انسان نے ہمیں ایک ایک قدم خدا کے کام کے قریب کیا ہے۔ ہم لاتعداد آزمائشوں سے گزرتے ہیں، بے شمار اذیتیں برداشت کرتے ہیں اور موت کے ذریعے آزمائے جاتے ہیں۔ ہم خُدا کے راستباز اور پُرجلال مزاج کے بارے واقف ہوتے ہیں، اُس کی محبت اور رحمت سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں، خُدا کی عظیم قدرت اور حکمت کی تعریف کرتے ہیں، خُدا کی محبت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور انسان کو بچانے کے لیے خُدا کی بے تاب خواہش کو دیکھتے ہیں۔ اس عام انسان کے الفاظ میں، ہم خدا کے مزاج اور جوہر سے آشنا ہوتے ہیں، خدا کی مرضی کو سمجھتے ہیں، انسان کے مزاج اور جوہر سے واقف ہوتے ہیں اور نجات اور کمال کا طریقہ دیکھتے ہیں۔ اُس کے الفاظ ہمارے "مرنے" کا باعث بنتے ہیں اور وہ ہمارے "دوبارہ پیدا ہونے" کا باعث بنتے ہیں؛ اُس کے الفاظ ہمیں سکون بخشتے ہیں اور ساتھ ہی ہمیں احساسِ جرم سے نڈھال اور ممنونیت کے احساس سے دوچار کر کے چھوڑتے ہیں؛ اُس کے الفاظ ہمیں خوشی اور سکون، لیکن ساتھ ہی لامحدود درد سے بھی نوازتے ہیں؛ بعض اوقات ہم اس کے ہاتھوں میں ذبح ہونے والے میمنے کے مانند ہوتے ہیں؛ کبھی کبھی ہم اس کی آنکھ کے تارے کی طرح ہوتے ہیں اور اس کی شفیق محبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں؛ اور بعض اوقات ہم اس کے دشمن کی طرح ہوتے ہیں اور اس کی نظروں کے سامنے اس کے غضب سے راکھ ہو جاتے ہیں۔ ہم اس کی طرف سے بچائی گئی نسل انسانی ہیں، ہم اس کی نظروں میں کیڑے مکوڑے ہیں اور ہم وہ کھوئے ہوئے میمنے ہیں جنہیں، دن رات وہ ڈھونڈنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ ہم پر مہربان ہے، وہ ہمیں حقیر سمجھتا ہے، وہ ہمیں اوپر اٹھاتا ہے، وہ ہمیں تسلی دیتا ہے اور نصیحت کرتا ہے، وہ ہماری راہنمائی کرتا ہے، وہ ہمیں آگہی عطا کرتا ہے، وہ ہمارا تزکیہ اور ہماری تادیب کرتا ہے اور وہ ہم پر لعنت بھی بھیجتا ہے۔ رات دن، وہ ہماری فکر کرنے سے کبھی باز نہیں آتا اور ہماری حفاظت کرتا اور خیال رکھتا ہے، رات دن، کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا، بلکہ ہماری خاطر اپنے دل کا خون بہاتا ہے اور ہمارے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرتا ہے۔ گوشت کے اس چھوٹے اور عام جسم کے اقوال کے اندر، ہم نے خدا کی کاملیت کا لطف لیا ہے اور اس منزل کو دیکھا ہے جو خدا نے ہمیں عطا کی ہے۔ اس کے باوجود، غرور اب بھی ہمارے دلوں میں پریشانی پیدا کرتا ہے اور ہم ابھی تک اس جیسے شخص کو اپنا خدا ماننے کے لیے مکمل طور پر راضی نہیں ہیں۔ اگرچہ اس نے ہمیں بہت زیادہ من دیا ہے، اتنا کچھ لطف اندوز ہونے کے لیے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارے دلوں میں خداوند کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ہم اس شخص کی خصوصی شناخت اور حیثیت کا احترام صرف بڑی ہچکچاہٹ کے ساتھ کرتے ہیں۔ جب تک وہ ہم سے یہ تسلیم کروانے کے لیے اپنا منہ نہیں کھولتا کہ وہ خُدا ہے، ہم اُسے اُس خُدا کے طور پر کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے جو جلد آنے والا ہے اور جو ابھی تک ہمارے درمیان کام کر رہا ہے۔

خُدا، مختلف طریقوں اور نقطہ نظر کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں نصیحت کرنے کے لیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ، اپنے دل کی باتوں کو زبان پر لاتے ہوئے، اپنا کلام جاری رکھتا ہے۔ اس کے الفاظ زندگی کی طاقت رکھتے ہیں، ہمیں وہ راستہ دکھاتے ہیں جس پر ہمیں چلنا چاہیے اور ہمیں یہ سمجھنے کا اہل بناتے ہیں کہ سچائی کیا ہے۔ ہم اُس کے الفاظ کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں، ہم اُس کے بولنے کے لہجے اور انداز پر توجہ مرکوز کرنے لگتے ہیں اور لاشعوری طور پر ہم اُس معمولی شخص کے اندرونی احساسات میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ہماری جانب سے کام کرنے میں اپنے دل کا خون تھوکتا ہے، ہمارے لیے اپنی نیند اور بھوک ختم کرتا ہے، ہمارے لیے روتا ہے، ہمارے لیے آہیں بھرتا ہے، ہمارے لیے بیماری میں کراہتا ہے، ہماری منزل اور نجات کی خاطر ذلت برداشت کرتا ہے اور ہماری بے حسی اور سرکشی اس کے دل سے آنسو اور خون نکالتی ہے۔ جو کچھ خدا کے پاس ہے وہ کسی عام انسان کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی کسی بدعنوان انسان کے پاس ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ تحمل اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے جو کسی عام انسان کے پاس نہیں ہے اور اس کی محبت کوئی ایسی شے نہیں جو کسی مخلوق کو عطا کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ہمارے تمام خیالات کو نہیں جان سکتا، یا ہماری فطرت اور جوہر پر اتنی واضح اور مکمل گرفت نہیں رکھتا، یا بنی نوع انسان کی سرکشی اور بدعنوانی کی عدالت نہیں کر سکتا، یا آسمانی خدا کی جانب سے اس طرح ہم سے بات نہیں کر سکتا اور ہم پر کام نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی کو خدا کی قدرت، حکمت اور عظمت حاصل نہیں ہے؛ خُدا کا مزاج اور جو کچھ خُدا کے پاس ہے اور جو وہ خود ہے، کلی طور پر، اسی میں سامنے لایا گیا ہے۔ اس کے سوا کوئی ہمیں راستہ نہیں دکھا سکتا اور کوئی ہمیں روشنی نہیں دے سکتا۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ان اسرار و رموز کو ظاہر نہیں کر سکتا جن کو خدا نے تخلیق سے لے کر آج تک ظاہر نہیں کیا۔ اُس کے سوا کوئی ہمیں شیطان کی غلامی اور ہمارے اپنے بدعنوان مزاج سے نہیں بچا سکتا۔ وہ خدا کی نمائندگی کرتا ہے، وہ خُدا کے دل کے اندرونی گوشوں کا اظہار کرتا ہے، خُدا کی نصیحتوں اور تمام بنی نوع انسان کے لیے خُدا کی عدالت کے کلام کا اظہار کرتا ہے۔ اس نے ایک نیا عہد، ایک نیا دور شروع کیا ہے اور ایک نئے آسمان اور زمین اور نئے کام کا آغاز کیا ہے اور اس نے ہمیں امید دی ہے، اس زندگی کو ختم کیا ہے جس کو ہم نے مبہم حالت میں گزارا ہے اور ہمارے پورے وجود کو مکمل طور پر، دیکھنے کے قابل بنایا ہے، اس نے ہمیں نجات کے راستے پر گامزن کیا ہے۔ اس نے ہمارے پورے وجود کو فتح کر لیا ہے اور ہمارے دلوں کو حاصل کر لیا ہے۔ اس لمحے کے بعد سے، ہمارے دماغ ہوش میں آ گئے ہیں اور ہماری روحیں زندہ ہوتی دکھائی دیتی ہیں: یہ عام سا، معمولی شخص، جو ہمارے درمیان رہتا ہے اور جسے ہم نے طویل عرصے سے مسترد کر رکھا ہے – کیا یہ خداوند یسوع نہیں ہے، جو ہمیشہ ہمارے خیالوں میں، ہمارے سوتے اور جاگتے میں ہمارے ساتھ رہتا ہے اور ہم رات دن جس کے مشتاق ہیں؟ یہ وہی ہے! یہ واقعی وہی ہے! وہ ہمارا خدا ہے! وہ سچائی، صحیح طریقہ اور زندگی ہے! اس نے ہمیں دوبارہ جینے اور روشنی دیکھنے کے قابل بنایا ہے اور ہمارے دلوں کو بھٹکنے سے روکا ہے۔ ہم خدا کے گھر واپس آ گئے ہیں، ہم اس کے تخت کے سامنے واپس آ گئے ہیں، ہم اس کے روبرو ہیں، ہم نے اس کے خد و خال دیکھے ہیں اور ہم نے اس راستے کو دیکھا ہے جو آگے ہے۔ اس وقت، وہ ہمارے دلوں کو مکمل طور پر فتح کر چکا ہے؛ ہم اب شک نہیں کرتے کہ وہ کون ہے، اب اس کے کام اور اس کے کلام کی مخالفت نہیں کرتے اور ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ ہم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے کہ ہم ساری زندگی خدا کے نقش قدم پر چلتے رہیں اور اس کے ذریعے کامل بنائے جائیں اور اس کے فضل کا بدلہ چکائیں اور ہمارے لیے اس کی محبت کا صلہ دیں اور اس کے نظم و ترتیب اور انتظامات کو مانیں اور اس کے کام میں تعاون کریں اور جو کچھ اس نے ہمیں تفویض کیا ہے اسے پورا کرنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کریں۔

خدا کے ذریعہ فتح کیا جانا مارشل آرٹس کے مقابلے کی طرح ہے۔

خُدا کا ہر کلام ہمارے ہلاکت آفریں مقامات میں سے کسی ایک پر حملہ کرتا ہے، ہمیں زخمی کرتا اور خوف سے بھر دیتا ہے۔ وہ ہمارے تصورات، ہمارے تخیلات اور ہمارے بدعنوان مزاج کو بے نقاب کرتا ہے۔ ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں، ہمارے ہر ایک خیال اور تصور تک، ہماری فطرت اور جوہر اس کے کلام میں ظاہر ہوتے ہیں، ہمیں خوف اور لرزش کی ایسی حالت میں ڈالتے ہیں کہ ہماری شرم کو چھپانے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک ایک کر کے، وہ ہمیں ہمارے تمام اعمال، ہمارے مقاصد اور ارادوں کے بارے میں بتاتا ہے، یہاں تک کہ اس بدعنوان مزاج کے بارے میں بھی جو ہم نے خود کبھی دریافت نہیں کیا تھا، ہمیں اپنے تمام تر شدید نقائص کے ساتھ بے نقاب ہونا محسوس کراتا ہے اور اس سے بھی زیادہ، وہ مکمل طور پر جیت لیتا ہے۔ وہ اپنی مخالفت کرنے پر ہماری عدالت کرتا ہے، اپنی توہین اور مذمت کرنے پر ہمیں سزا دیتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ، اس کی نظر میں، ہمارے پاس ایک بھی ایسی خصوصیت نہیں جو ہمیں نجات دلا سکے اور یہ کہ ہم زندہ شیطان ہیں۔ ہماری امیدیں دم توڑ گئی ہیں؛ ہم اب اس سے کوئی غیر معقول مطالبہ کرنے یا اس پر کوئی منصوبہ بندی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور یہاں تک کہ ہمارے خواب بھی راتوں رات غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہم میں سے کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا اور جسے ہم میں سے کوئی قبول نہیں کر سکتا۔ ایک لمحے کے اندر، ہم اپنا باطنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ آگے کی راہ پر کیسے چلنا ہے، یا کیسے اپنے عقائد پر عمل جاری رکھنا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمارا ایمان واپس نقطہ آغاز پر چلا گیا ہے اور گویا ہم نے کبھی خُداوند یسوع سے ملاقات ہی نہیں کی یا اسے کبھی جانا ہی نہیں ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے کی ہر چیز ہمیں الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہم تذبذب میں لڑکھڑاتے ہیں۔ ہم دہشت زدہ ہیں، ہم مایوس ہیں اور ہمارے دلوں میں ناقابل برداشت غصہ اور ذلت ہے۔ ہم باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر، اپنے نجات دہندہ یسوع کا انتظار جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنا دل اُس کے سامنے نکال کر رکھ سکیں۔ اگرچہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب ہم باہر سے پُر تسلی دکھائی دیتے ہیں، نہ ہی مغرور اور نہ ہی عاجز، لیکن اندر اپنے دلوں میں ہم اس نقصان کے احساس سے دوچار ہوتے ہیں جو ہم نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اگرچہ بعض اوقات ہم باہر سے غیر معمولی طور پر پرسکون نظر آتے ہیں، لیکن ہمارے اذہان طوفانی سمندر کی طرح اذیت میں طیش کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کی عدالت اور سزا نے ہم سے ہماری تمام امیدوں اور خوابوں کو چھین لیا ہے، ہماری فضول خواہشات کو ختم کر دیا ہے اور ہمیں یہ یقین کرنے کے لیے آمادہ نہیں چھوڑا ہے کہ وہ ہمارا نجات دہندہ ہے اور ہمیں بچانے کے قابل ہے۔ اُس کی عدالت اور سزا نے ہمارے اور اُس کے درمیان ایک کھائی کھول دی ہے اور یہ اتنی گہری ہے کہ کوئی اُسے عبور کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی عدالت اور سزا پہلی بار ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں اتنا بڑا دھچکا، اتنی بڑی ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی عدالت اور سزا نے ہمیں واقعی خدا کی تکریم اور انسان کے جرم کے لیے عدم برداشت کی قدر کرنے کے قابل بنایا ہے، جس کے مقابلے میں ہم انتہائی رذیل اور انتہائی ناپاک ہیں۔ اس کی عدالت اور سزا نے ہمیں پہلی بار یہ احساس دلایا ہے کہ ہم کتنے مغرور اور متکبر ہیں اور انسان کبھی بھی خدا کے برابر یا خدا سے اوپر نہیں ہو سکتا۔ اس کی عدالت اور سزا نے ہمارے اندر یہ اشتیاق پیدا کر دیا ہے کہ ہم اس طرح کے بدعنوان مزاج کے ساتھ مزید زندگی نہ گزاریں اور جس قدر جلد ممکن ہو سکے اس فطرت اور جوہر سے چھٹکارا حاصل کریں اور اس کے لیے ناپاک اور قابل نفرت ہونا چھوڑ دیں۔ اُس کی عدالت اور سزا نے ہمیں اُس کے کلام پر عمل کرنے میں خوشی بخشی ہے، اب ہم اُس کے نظم و ترتیب اور انتظامات کے خلاف بغاوت نہیں کرتے۔ اس کی عدالت اور سزا نے ہمیں ایک بار پھر زندہ رہنے کی خواہش بخشی ہے اور ہمیں اسے اپنا نجات دہندہ قبول کرنے میں خوشی دی ہے۔۔۔۔ ہم فتح کے کام سے باہر نکلے ہیں، جہنم سے، موت کے سائے کی وادی سے باہر نکل آئے ہیں۔۔۔۔ قادر مطلق خدا نے ہمیں، لوگوں کے اس گروہ کو حاصل کر لیا ہے، اس نے شیطان پر فتح حاصل کر لی ہے اور اپنے بے شمار دشمنوں کو شکست دے دی ہے!

ہم لوگوں کا ایسا ہی ایک عام گروہ ہیں، جو بدعنوان شیطانی مزاج کے حامل ہیں، وہ لوگ ہیں جن کی تقدیر خدا نے زمانوں پہلے مقدر کر دی ہے اور وہ محتاج لوگ ہیں جنھیں خدا نے گوبر کے ڈھیر سے اٹھایا ہے۔ ہم نے کبھی خدا کو رد کیا تھا اور اس کی مذمت کی تھی، لیکن اب ہم اس سے مغلوب ہو چکے ہیں۔ خدا کی طرف سے ہمیں زندگی ملی ہے، ابدی زندگی کا راستہ۔ ہم زمین پر کہیں بھی ہوں، چاہے جتنے بھی ظلم و ستم سہیں، ہم قادر مطلق خدا کی نجات سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے اور ہماری واحد خلاصی ہے!

خدا کی محبت چشمے کے پانی کی طرح پھیلتی ہے اور تجھے، مجھے، دوسروں کو اور ان تمام لوگوں کو سرشار کرتی ہے جو سچائی کی جستجو کرتے ہیں اور خدا کے ظہور کا انتظار کرتے ہیں۔

جس طرح سورج اور چاند یکے بعد دیگرے طلوع ہوتے ہیں، اسی طرح خدا کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا اور تجھ پر، مجھ پر، دوسروں پر اور ان تمام لوگوں پر ہوتا ہے جو خدا کے نقش قدم پر چلتے ہیں اور اس کی عدالت اور سزا کو قبول کرتے ہیں۔

23 مارچ 2010

– کلام، جلد 1۔ خدا کا ظہور اور کام

خدا کے بغیر ایام میں، زندگی اندھیرے اور درد سے بھر جاتی ہے۔ کیا آپ خدا کے قریب جانے اور اس سے خوشی اور سکون حاصل کرنے کے لیے خُدا کے الفاظ سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟

متعلقہ متن

کے ذریعے ہم سے رابطہ کریں WhatsApp